یہ آرزو ہے جب بھی کھلے اور جہاں کھلے ۔ احمد علی خیال

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


شاعر: احمد علی خیال

نعتِ رسولِ آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یہ آرزو ہے جب بھی کُھلے اور جہاں کُھلے

بس مدحتِ حضور میں میری زباں کُھلے


یادِ رسولِ پاک میں آنکھیں برس پڑیں

دنیا کے سامنے جو میری داستان کُھلے


کُھل جائے ایک بار درِ رحمت تمام

مطلق یہ آرزو نہیں قصرِ جناں کُھلے


میرے نصیب کا بھی ستارہ ہو اوج پر

میرے لیے حضور کا گر آستاں کُھلے


گھبرا گیا ہوں میں غمِ دوراں سے یا نبی

دل کی ہے آرزو درِ شہر اماں کُھلے


میرے حضور نے کیا محتاج کو غنی

در اور بھی کُھلے مگر ایسے کہاں کُھلے


ہونا مرے حضور کا ربّ سے وہ ہم کلام

رتبے تو آپ کے ہیں سرِ لامکاں کُھلے


کیا خوب ہے ردیف یہ نعتِ حضور کی

جوہر تمام اہل سخن کے یہاں کُھلے


احمد خیال رشکِ بہاراں ہو زندگی

عشقِ نبی میں جو در آہ و فغاں کُھلے