گنبد سبز کے اطراف میں اڑتا ہوا دل ۔ آصف بھلی کا نورین طلعت عروبہ پر مضمون

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


مضمون نگار : آصف بھلی

گنبد سبز ک اطراف میں اڑتا ہوا دل[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ایک وقت تھا کہ راولپنڈی کی علمی، ادبی اور صحافتی دنیا میں انوار فیروز مرحوم کی حکمرانی تھی۔ اور شعر و ادب کی ریاست میں اُن کے نام اور فن کے ڈنکے بجتے تھے۔ نورین طلعت عروبہ انوار فیروز کی بیٹی ہیں اور تخلیق کے میدان میں اپنے عظیم باپ کی صحیح وارث۔ شعر و ادب اور صحافت کے ساتھ ساتھ نورین نے بچپن سے اپنے گھر میں جو پاکیزہ ماحول دیکھا وہ عشقِ رسولؐ سے منسوب تھا۔ عشقِ رسولؐ کی وارفتگی جو کبھی نورین کی ماں کے ہونٹوں سے درودِ پاک بن کر نکلتی تھی۔ عشقِ رسولؐ کی وارفتگی کی وہی میراث نورین تک پہنچتے پہنچتے نعتیہ اشعار میں بدل گئی اور پھر نورین نے محبتِ رسولؐ میں ڈوبی ہوئی ایسی ایسی نعتیں کہیں کہ جنہیں سُن اور پڑھ کر زبان ہی نہیں دل بھی پکار اُٹھتا ہے، سبحان اللہ۔


نورین طلعت عروبہ کی یہ خوش بختی رہی کہ اُس کی شعوری زندگی کا طویل حصہ حجاز مقدس میں گزرا۔ جس کے باعث اُسے بار بار روضۂ رسولؐ پر حاضری اور حضوری کا شرف حاصل ہوتا رہا۔ مسجد نبویؐ کے فرش پر بیٹھ کر اور گنبد خضراء پر اپنی نظریں جمائے ہوئے نورین کی بس ایک ہی دعا ہوتی کہ اے اللہ مجھے اپنے حبیبؐ کی نعت لکھنے کی توفیق دے اور پھر نعت کہنے کے سوا میری زندگی کا کوئی اور مقصد نہ ہو۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی دعاؤں کو قبول کرنے والے رب نے نورین کو اپنے فضل و کرم سے نوازنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ جو نور، جو اُجالا، جو روشنی نورین کو مسجد نبویؐ کے میناروں سے، روضہ رسول پاکؐ کی جالیوں سے اور سبز گنبد کے روح پرور منظر سے حاصل ہوئی وہ سب نعت در نعت نورین طلعت عروبہ کے دونوں شعری مجموعوں ’’حاضری‘‘ اور ’’زہے مقدر‘‘ میں نور کے جھالوں کی صورت موجود ہے۔ عروبہ کے نعتیہ اشعار پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ شاعرہ نے یہ اپنے قلم سے نہیں بلکہ آنسوؤں سے تحریر کئے ہیں۔ یہ وہ شاعری ہے جو نگاہِ مصطفیٰؐ سے سند قبولیت حاصل کرنے کے بعد ہم تک پہنچی ہے۔

نورین کی گلاب نعتوں کی مہک کی تحسین کن الفاظ سے کی جائے۔ جو نعتیں گنبد خضراء کے مکین کو پسندِ خاطر ہوں وہ اہل دنیا کی داد کی محتاج نہیں ہیں۔ نورین کی نعتوں میں جوتازگی ہے، جو نکھار ہے، جو پختگی ہے اور جو معیار ہے۔ یہ اس پر خاص رحمت پروردگار ہے۔ اس کا سارا نعتیہ کلام حاضری اور حضوری کی سعادتوں سے مشکبار ہے اور سب سے بڑا احسان نورین پر باری تعالیٰ کا یہ ہے کہ نعت گوئی اُس کی شناخت اور پہچان بن گئی ہے۔ اس کی ساری محبتوں اور ساری عقیدتوں کا مرکز حضور نبی کریمؐ کی ذات ہے۔ اس کی خوش بختی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں کہ اُسے دنیا کا سب سے قیمتی خزانہ مل گیا ہے۔ حضور نبی کریمؐ کا مِدحت نگار ہونا ہی قابلِ رشک ہے لیکن یہ بڑے مقدر اور بڑے رتبے کی بات ہے کہ شاعروں کی بھیڑ میں نورین کی اپنی ایک الگ پہچان ہے۔ اُس کے لفظوں کی تاثیر، توقیر اور تنویر سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ نعت نورین کی لکھی ہوئی ہے۔ نعت گوئی میں یہ مقام اور یہ رتبہ نورین کو ملنے کی وجہ یہ ہے کہ اَب اُس کا جو اپنے جسم و جان کے ساتھ رابطہ ہے، اپنی زندگی کے ساتھ جو تعلق ہے وہ ان سانسوں کا مرہون مِنت ہے جو اُس کے جسم میں صرف ثنائے مصطفیٰؐ کے لئے جاری ہیں۔ نورین دنیا کی دولت میں سے اپنے لئے کسی حصے کی طلب گار نہیں۔ وہ اپنے لئے دن رات صرف محبتِ رسولؐ کا اثاثہ جمع کر رہی ہے۔ محبتِ رسولؐ کا یہ وہی سرمایہ ہے جس کے حوالے سے اقبالؒ نے کہا تھا:


کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں


نورین کا بھی ایک شعر ہے:

اور چاہیں گے بھی کیا عشقِ محمدؐ والے

دامنِ سید ابرارؐ اگر حاصل ہو


عشقِ رسولؐ کا حاصل اور انعام بھی عشقِ رسولؐ ہی ہے۔ دل والوں کے لئے اس سے بڑا انعام اور ہو بھی کیا سکتا ہے۔ جس دل میں جستجوئے محمدؐ اور آرزوئے محمدؐ ہو وہ شہرِ نبیؐ میں پہنچ کر دربار رسالتؐ میں کھڑا ہونے کا افتخار حاصل کرلے تو پھر اور کوئی طلب اُس کے دل میں نہیں رہ جاتی۔ نورین نے اس جذبے اور احساس کو بڑی خوبصورتی سے اپنے ایک شعر میں بیان کیا ہے:


یہ سامنے روضے کے کھڑی سوچ رہی ہوں

ہاتھ اُٹھے دعاؤں کو تو مانگوں گی مَیں کیا اور


نورین کے قلم سے کیسے کیسے گل ہائے مدحت کھلے ہیں اور نبی پاکؐ کی عقیدت کے آسمان پر نورین نے اپنے آنسوؤں سے کیسے کیسے ستارے سجائے ہیں۔ اس کا اندازہ تو آپ کو نورین طلعت عروبہ کی پہلی کتاب ’’حاضری‘‘ اور دوسرے نعتیہ مجموعے ’’زہے مقدر‘‘ کے مطالعہ کے بعد ہی ہو سکتا ہے۔ مَیں اپنے کالم کے آخر میں نورین کی ایک نعت تحریر کر رہا ہوں۔ اس نعت کے بارے میں میرا خیال ہے کہ اگر نورین نے صرف ایک یہی نعت لکھی ہوتی تو اُردو کے نعتیہ ادب میں یہ نعت نورین کے نام کو بطور شاعرہ زندہ رکھنے کے لئے کافی تھی:


قُربِ انوارِ مدینہ سے چمکتا ہوا دل

چاند تاروں سے سوا خود کو سمجھتا ہوا دل

آج چہکا ہے مدینے کے کبوتر کی طرح

گنبدِ سبز کے اطراف میں اُڑتا ہوا دل

مجھ سے پہلے درِ احمدؐ سے لپٹنا ہے اسے

میرے قابو میں کہاں ہے یہ ہمکتا ہوا دل

نعت کہتے ہوئے اکثر مجھے محسوس ہوا

شدتِ جذب سے کاغذ پہ اُترتا ہوا دل

ممکنہ حد میں کھڑی اشک بہاتی ہوئی مَیں

جا لگا ہے درِ اقدس سے سرکتا ہوا دل


مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
مضامین میں تازہ اضافہ
نئے صفحات
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659