کیفِ مسلسل (مہرجہاں افروز-ایک تاثر) ۔ پروفیسر محمد اقبال جاوید

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

22552547 1414849971926102 6847160094441319601 n.jpg


مضمون نگار: اقبال جاوید ، گوجرانوالہ

مطبوعہ : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27


ABSTRACT[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

Devotional poetry's collection of Professor Muhammad Abdullah Jamal, 'Mehr-e-Jahan Faroz' has been introduced in this article. The article covers poetic beauty of expression and textual sacredness required to write Naat in praise of Holy Prophet Muhammad (S.A.W). It is revealed that the poet had hid himself from introducing as poet in literary circles for a long time and now brought up his collection of Naats that astonished his old friends. The article carries impressionistic style of praising poetic work of Professor Muhammad Abdullah Jamal.

کیفِ مسلسل (مہر جہاں افروز __ ایک تاثر)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

جناب پروفیسر محمدعبداللہ جمال سے میری شناسائی کم و بیش نصف صدی کو چُھو رہی ہے، دو چار برس کی بات نہیں، یہ شناسائی، خلوصِ قرب کو پہنچ کر بھی، ایک عرصہ، ان کی شاعرانہ صلاحیتوں سے ناآشنا رہی۔ خود اِس شہر کے ادبی حلقے بھی اِس محرومی میں میرے شریکِ حال رہے۔ اُن کی ہمت ہے کہ وہ شاعری کے ’’منہ زور تموّج‘‘ کو ایک مدت روکنے، سنبھالنے یا دوسرے لفظوں میں اُسے پختہ تر کرنے میں کامیاب رہے، اُس عالم میں جب کہ بہت سے ’’باتخلص حضرات‘‘ ،’’فنِ شعرسازی‘‘ میں خود کو منوانے میں بڑے زوروں کے ساتھ مصروف تھے اور ہیں۔ محشر بدایونی کہتے ہیں ؂

سلیقہ فن کا سیکھو مجھ سے یارو

زباں کو شعلہ، دل کو راکھ کر لو

ماضی قریب میں ،میں نے جب اُن سے ایک غزل سنی تو میں ایک گونہ تحیر کے ساتھ انھیں دیکھتا رہا اور جب نعت سنی تو ایک رشک آفریں اور حسرت آمیز کیفیت کے ساتھ خود کو دیکھنے میں محو ہو گیا کہ ؂

دن کٹ رہے ہیں کشمکشِ روزگار میں

دم گھٹ رہا ہے سایۂ ابرِ بہار میں

آتی ہے اپنے جسم کے جلنے کی بُو مجھے

لُٹتے ہیں نکہتوں کے سبو جب بہار میں

اور پھر سوچا کہ یہ تو عطائے محبوب ہے کہ اس کے بغیر نعت کا ایک بول بھی نصیب نہیں ہو سکتا کہ یہ ہے ہی، بڑے نصیب کی بات، ورنہ کتنے ہی شاعر ہیں کہ اپنی جملہ قادرالکلامی کے باوجود نعت گوئی کے شرف سے محروم ہیں اور پھر جب میرے بار بار کے اصرار پر انھوں نے حرف حرف پھیلتی ہوئی اس خوشبو کو دوسروں تک پہنچانے کا ارادہ کیا تو بہت سی خوب صورت نعتیں قطار اندر قطار، اُن پر اُترنا شروع ہو گئیں، میں اُن کے اِس ’’کیفِ مسلسل ‘‘کا شاہد ہوں ___بارانِ لطف و کرم اور اس قدر لگاتار، التفات نگاہِ ناز اور یوں پیہم ۔ یہاں استحقاق کا کوئی ذکر نہیں، کریم کی یہی شان ہے کہ بلااستحقاق دے، استحقاق کے ساتھ جو دیتا ہے وہ کریم نہیں کہلاتا، کیوں کہ استحقاق، ادائے حق کو واجب کر دیتا ہے اور جب ادائے حق واجب ہوا تو ایک قسم کا دین ٹھہرا اور دین کا دینا کرم نہیں ہوتا اور نہ کریم کی یہ شان ہوتی ہے ___اور مجھے یہ شہادت دینے میں قطعاً کوئی باک نہیں کہ فطرت خود بہ خود لالے کی حنابندی میں مصروف اور عطائے محبوب، رضائے محبوب سے کلیتاً ہم آہنگ رہی ہے، تبھی یہ اوراق یکجا ہوئے ہیں ؂

نعت میں کیسے کہوں ان کی رضا سے پہلے

میرے ماتھے پہ پسینا ہے ثنا سے پہلے

حق یہ ہے کہ نعت کے لیے منظوری پہلے ہو جاتی ہے اور قلم بعد میں اُٹھتا ہے اور منظوری کے ساتھ ساتھ جب حضوری کی نعمت بھی مل جائے تو کیف و نشاط کے اس عالم کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ نعت گو ’’تعلّیانہ خود نمائیوں‘‘ سے بچنے کی ارادی کوشش کرے کہ ستائشِ دنیاوی سے، سعادتِ اُخروی کے گلاب مٹی ہو جایا کرتے ہیں۔ ایک واقفِ حال کا کہنا ہے کہ ؂

شان اُن ؐ کی سوچیے اور سوچ میں کھو جایئے

نعت کا دل میں خیال آئے تو چپ ہو جایئے

میرے خیال میں اس چپ کے نتیجے میں جب نعت ہو جائے تو اُس کیف کی پائندگی کے لیے بھی چپ ضروری ہے کہ

ع ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں

اپنے منہ سے اپنی تعریف، توہینِ انسانیت ہے اور خود اپنی تعریف سننے کی آرزو، اندھا اور بہرہ ہونے کی واضح دلیل ہے اور یوں جبینِ ناز پر بل پڑنے کا اندیشہ ہے جب کہ حمدونعت ہی وہ مقام ہے جہاں محبت، غیرت کے گرد گھومتی ہے اور دوئی کا کوئی سا نقش بھی گوارا نہیں کرتی۔ تحسین طلبی اور ذاتی فخروناز سے سعادتوں کا قافلہ رک جاتا، فکروخیال کا چشمہ سوکھ جاتا اور اعمال کا حسن یوں سلب ہو جاتا ہے کہ احساس تک نہیں ہوتا، میں یہ بات فرمودۂ رسول V کی روشنی میں لکھ رہا ہوں کہ وہ زبانِ مبارک کھُلتی ہی صداقتوں کے لیے تھی۔ نعت گوئی کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے ستائش باہمی کی انجمنوں سے بچنا ضروری ہے، ___ ویسے تحسینِ ناشناس سے سکوتِ قدر شناس کہیں بہتر ہوتا ہے کہ کم از کم اس سے نہ فخر ابھرتا ہے، نہ عُجب بال و پر لیتا ہے اور نہ صلاحیتوں کو زنگ لگتا ہے ؂

رسوا کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے

روشن ہے نگہ، آئینۂ دل ہے مکدر

اور یہ دور نہیں سمجھ رہا کہ ؂

آغوشِ صدف جس کے نصیبوں میں نہیں ہے

وہ قطرۂ نیساں کبھی بنتا نہیں گوہر

کسی کو پانے کے لیے خود کو بھولنا پڑتا ہے، نعت گوئی کا مقصود و مدعا، رضائے محبوب ہے اِس رضا کے حصول کے بعد، ہر آرزو ہیچ ہے ؂

ترا خیال ہے، تیرا جمال ہے، تو ہے

مجھے یہ فرصتِ کاوش کہاں کہ کیا ہوں ’’میں‘؟

___ اورپھر خیال و جمال اُس ذات گرامی قدر V کا، جو مسکرائی تو چمنستانِ کونین کے غنچوں نے ہنسنا سیکھا، جس کے خرامِ ناز نے ریت کو ریشم کا لوچ دیا، جس کی گردِ سفر نے فضائے کہکشاں کو نورانی بنا دیا، رفتار سے لے کر کردار تک جس کا ایک ایک رخ اور ایک ایک زاویہ، تاریخ انسانی کا ایک دل آویز موڑ بن گیا، جس کے کوچے میں پہنچ کر، خود وقت کو سکون ملتا اور گردشِ ایام رک جاتی ہے، جس کے سایۂ دیوار میں ہر آبلہ پا، سستا سکتا ہے اور جس کے سانسوں کی مہک کا فیض ہے کہ عرب کا ریگستان، ایک عالم کو نکہتیں بانٹتا چلا جا رہا ہے ؂

السّلام اے تازہ تر گلبرگِ صحرائے وجود

السّلام اے قیمتی تر گوہرِ دریائے جُود

غازۂ جاں نے جن کے ظاہر کو اس قدر لطیف اور گلگوں بنا دیا تھا کہ وہ جس راستے سے گزر جاتے تھے، گام گام اور قدم قدم خوشبو بکھر جاتی تھی اور خود راستے ، گزرنے والے کا پتا دیتے تھے ؂

خوشبو بتا رہی ہے کہ وہ راستے میں ہیں

موجِ صبا کے ہاتھ میں ان کا سراغ ہے

اس رواں دواں خوشبو کے ذکر نے، اگر پروفیسر محمدعبداللہ جمال کے نعتیہ مجموعے کو حرف حرف خوشبو بنا دیا ہو تو یہ شعری مبالغہ نہیں بلکہ واقعاتی حقیقت ٹھہرے گی۔ میں یہ بات تعریف کے رنگ میں نہیں بلکہ تعارف کے طور پر لکھ رہا ہوں کہ اُن کی نعت گوئی میں سوچ کے نئے زاویے اور اسلوب کے جدید انداز ہیں، سیرت پاک V کا جمال لفظ لفظ لَو دے رہا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ نعت، جب سے ممدوح عظیم و جلیل V کی سیرت کا آئینہ بنی ہے، تب سے وہ ذہنی تطہیر اور فکری تہذیب کا ذریعہ بھی بن گئی ہے۔ کیوں کہ سیرت کے یہی وہ نقوش ہیں جن کی روشنی ہر دور کے بھٹکتے انسان کے لیے منزل نشاں ہے اور زیرنظر نعتیہ مجموعے میں، محبت و عقیدت کے سلسلے، تحسینِ سیرت ہی سے پھلتے، پھولتے اور پھیلتے دکھائی دیتے ہیں ؂

شمع نظر، خیال کے انجم، جگر کے داغ

جتنے چراغ ہیں، تری محفل سے آئے ہیں

محمدعبداللہ جمال مشکل اور ادق قافیوں میں، خوب صورت مضامین، بڑی آسانی سے بیان کر جاتے ہیں۔ سنگلاخ زمینوں میں ،گلہائے محبت کی شگفتگی، فردوسِ نظر ہی نہیں، نشاطِ روح بھی ہے، الفاظ میں ایک سلیقہ اور اُسلوب میں ایک قرینہ ہے اور انھیں کماحقہٗ احساس ہے کہ ذکر اُس بارگاہِ ناز کا ہے جہاں جنیدؒ و بایزیدؒ بھی نفس گم کردہ آتے ہیں اور جس کی مدحت کے لیے الفاظ،پلکوں سے چننا پڑتے ہیں۔ ذوق کو شوق، شعر کو شعور، نوا کو گداز اور صلاحیت کو صالحیت، کرم کے فیصلوں کے نتیجے میں ملا کرتی ہے اس لیے فخروناز کے بجائے شکروسپاس لازم ہے کہ اس سے نعمتیں بڑھتی ہیں ؂

کلکِ ثنا کو نور کی موجوں میں رکھ دیا

یعنی گدازِ عشق کو ہونٹوں میں رکھ دیا

کتنا کرم کیا ہے، خدائے رحیم نے

اُنؐ کی ثنا کو ڈوبتی سانسوں میں رکھ دیا

اور یہ بھی مقامِ شکر ہے کہ اُن کے ذہن کی بیداری نے کسی مقام پر بھی جنوں کو تماشا نہیں بننے دیا، ہر گام پر عقیدت، عقیدے کی انگلی تھام کر چل رہی ہے اور جذب و سرور کے والہانہ پن کے ساتھ ساتھ ان کے ایمائی لہجے کی فنکارانہ گرفت، یقیناًاہلِ دل کو مدتوں مسحورِ لذت رکھے گی۔ چوں کہ پروفیسر محمدعبداللہ جمال غزل گو بھی ہیں اور غزل ، قطرے میں سمندر سمیٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس لیے جب ایک غزل گو اپنی تمام تر ایمائی بلاغت آفرینیوں کے ساتھ نعت کہتا ہے تو نعت میں بھی تاثر کی ایک دنیا سمٹ جاتی ہے کہ وہاں بات ذہن سے اُبھرتی ہے اور یہاں د ل کی گہرائیوں سے، غزل شاعری کی ایک بے ساختہ اور لطیف شکل ہے۔ یہ ایک تصوراتی دنیا ہے اور اس کا محبوب بھی ایک تخیلاتی پیکر اور اس کی یاد بھی محض شاعرانہ بات، یاد کی تڑپ بھی ایک مصنوعی جذبہ اور تڑپ کا گداز بھی ایک خودساختہ کیفیت، اسی لیے شاعر تصورات کی بے نام وادیوں میں خود بھی بہکتے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں، قرآن نے اسی بنیاد پر شعر کی مخالفت کی۔ مگر وہ اشعار جو واقعیت اور صداقت کے گرد گھومتے ہوں، جو گم کردہ راہ، انسانیت کو نشان منزل دیں، اسلام انھیں قدر کی نظر سے دیکھتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب غزل میں متصوفانہ افکار کی آمیزش ہوئی تو غزل سنور گئی، اس کا تیکھا پن دل میں ترازو ہونے لگا اور اس کا مبالغہ، گداز بن کر، نشاطِ روح ہو گیا، اور اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ جب سے غزل گو شعرا میں نعت گوئی کا شوق اُبھرا ہے، اس وقت سے یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے صدیوں سے بھٹکنے والے مسافر کو ایک ساعت میں منزل مل گئی ہو، جیسے جبینِ شوق کو ایک واضح چوکھٹ نظر آ گئی ہو، جیسے جذبے کو کیف، کیف کو گداز اور گداز کو رنگ و نکہت کی ایک ایسی نظر افروز کہکشاں نصیب ہو گئی ہو، جو فی الواقع تمناؤں کا حاصل ہواور یہ صرف حضور V کی مدحت کا فیض ہے ؂

فرمانروائے قلب و نظر، رحمتِ تمام

مردِ جلیل، خضر ملل، والیء انام

تو نے خیال و ذہن کو بخشا ہے وہ مقام

تاریخ کی جبیں کے ستارے ترے غلام

بدلا وہ تو نے ذہن کو، دل کو، مزاج کو

حیرت شکستہ آئینے لائی خراج کو

غزل نے شاعری کو محض کیفیات کا ترجمان بنایا جب کہ نعت نے دل کو ایسا محبوب دیا جو حُسنِ کائنات بھی ہے اور کائناتِ حُسن بھی۔ جو ازل انوار بھی ہے اور ابد آثار بھی ؂

تجلیوں سے تری مستنیر و تابندہ

زمانِ ماضی و عصرِ روان و آیندہ

دیارِ ناز میں حاضر ی کی آرزو، پروفیسر محمدعبداللہ جمال کے اشعار میں جابجا مچل رہی ہے۔ یہ تمنا، بجائے خود حُسن کی ایک دنیا ہے، تصور کی جنت اور سوچ کی ایک حسین دھنک ہے اور جاننے والے یہ جانتے ہیں کہ کسے، کب باریاب فرمانا ہے اور کسے انتظار کی شدت میں رکھنا ہے کہ انتظار میں جوشِ آرزو تیزتر ہوتا رہتا ہے اور آرزو کا یہی وہ سوز ہے جس سے شعر کی تاثیر، قاری کے دل کو یوں نوازتی ہے جیسے بادِسحرگاہی کا نم، شاخِ گل کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے ؂

پوچھو تو اُس حسینِ فلک بارگاہ سے

کیا ہر ستارہ اہلِ طلب کی جبیں نہیں

یاد رہے کہ نعت گوئی ایک انتہائی مشکل صنف سخن ہے، یہ عبادت ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے، یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ساتھ، فرشتوں کی ہم زبانی بھی ہے۔ یہ محض ترکیب سازی اور قافیہ بندی نہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں لفظ لفظ شریعت اور عقیدت کے پہرے ہیں۔ غزل گوئی ذوق اور ظرف کا امتحان ہے جب کہ نعت گوئی عقیدت اور عقیدے کی کڑی آزمائش ہے۔ اسی منزل پر شعری دنیا میں، جولان�ئ گفتار کے جلوے دکھانے والے انگشت بدنداں اور سر بہ گریباں دکھائی دیتے ہیں۔ یہ درُود و سلام کی ایک نغماتی شکل ہے اور درُودوسلام مقصودِ فطرت بھی ہے اور رمزِ مسلمانی بھی۔ یہ امر، احقر کے لیے انتہائی اطمینان کا باعث ہے کہ زیرنظر نعتوں میں عقیدے کے افتخار اور عقیدت کے نکھار کے ساتھ ساتھ عجز کا وقار بھی ہے اور عجز ہی وہ عبادت ہے جو ادا ہونے سے پہلے ہی مقبول ہو جاتی ہے۔ عجز، بندوں ہی کی متاعِ ناز ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو اللہ کے ہاں نہیں ہے۔ عجزونیاز ہی میں نیت کا حسن اور دل کا خلوص، منتہائے کمال کو پہنچ کر ہم آہنگ ہو جاتا ہے ؂

مرے شعور نے رکھا مجھے غرور سے دور

میں آسماں پہ سہی، پھر بھی رہ گزر میں ہوں

حضرت حسانؓ کی نعت گوئی کے لیے خود حضور V روح القدس سے تائید طلب فرمایا کرتے تھے۔ چوں کہ نعت، ارشادِ خداوندی کی تعمیل کی ایک سع�ئجمیل ہے۔ اس لیے جب کوئی شاعر اپنے دل کی ساری عقیدتوں، روح کی ساری لرزشوں، نگاہوں کی ساری تمناؤں کو سمیٹ کر اور نوکِ مژگاں پر حیات و کائنات کی ساری رعنائیوں کو تول کر، نعت کے لیے قلم اُٹھاتا ہے تو محبوبِ حقیقی کے ملکوتی ہونٹوں پر تبسم سا بکھر جاتا ہے اور یہی وہ تبسم ہے جو فکر کو لذت و حلاوت، اظہاروادا کو نیرنگی و طرفگی اور دل کی دنیا کو سوزوتڑپ کا ایک حسین انداز دے جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے سطور بالا میں نعت گوئی کو عبادت کی ایک شکل قرار دیا ہے۔

جمالِ صورت کے ساتھ ساتھ کمالِ سیرت کے بیان نے، اس مجموعۂ نعت کو ایک واقعاتی تاثر اور ایک تہذیبی وقار بخش دیا ہے۔

پروفیسر رشید احمد صدیقی کے الفاظ میں:

’’عشقِ رسول V آئین ملت ہی نہیں، تعبیر و تعمیر انسانیت بھی ہے۔‘‘

اور سچ یہ ہے کہ نعت ،حضور Vسے قلبی وابستگی کا ایک خوب صورت اظہار ہے اور اسی سے شوق وطلب کو محبت کا وہ معیار ملتا ہے کہ ہر ماسوا، سراپائے استحقا پر ہوتا ہے ؂

عشق آں شعلہ است کہ چوں برفروخت

ہر چہ جز معشوق باقی جملہ سوخت

حق یہ ہے کہ ذکرِ حضور V نے شاعری ہی کو نہیں،جملہ اصناف ادب کو تعمیروتطہیر کے لافانی نقوش عطا کیے ہیں ؂

آہ و فغاں بھی، شعروادب بھی ہے، ان کا فیض

پیشِ حضورؓ اپنی متاعِ ہنر کریں

اکبر، حالی، اور اقبال کی روح پرور غزل میرے اس خیال کی مؤید ہے اور یہ ایک ناقابلِ تردید صداقت ہے کہ اقبال کے بالواسطہ وبلاواسطہ اثرات سے اُردو شعروادب صدیوں مستنیر رہے گا۔ صرف اس لیے کہ اقبال نے اپنی شاعری کے لیے اُس پیغام کو چن لیا تھا جو صدہا صداقتوں کا صدف اور بے خزاں بہاروں کا امین ہے ___ اور یہی وہ ذکر ہے جس سے خود زبان و قلم کو آبرو اور قلب و نظر کو کیف ملتا ہے، یہی وہ تذکرہ ہے جس نے ہر دور کی سرگرداں عقل کو سکونِ منزل، بھٹکتے ہوئے شعور کو قلبی بینائی اور بے ذوق سجدوں کو روحانی زیبائی عطا کی ہے اور اس مجموعۂ نعت میں یہی سکون، یہی رعنائی اور یہی زیبائی، دامن کش قلب ونظر ہے اور یہ خصوصیات عام نہیں، خاص ہیں۔ معمولی نہیں، غیرمعمولی ہیں۔ میں نے نعت گوئی کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ دراصل محمدعبداللہ جمال کے نعتیہ اشعار کے مطالعہ ہی سے اُبھرے ہیں۔ یوں سمجھیے کہ ان خیالات کے پردے میں بات اُنھی کے مضامین و مقاصد کی ہے کیوں کہ میں فن ہی سے نہیں، فنکار سے بھی بہ خوبی آشنا ہوں اور خود کو بجاطور پر ’’محرمِ رازدرونِ میخانہ‘‘ کہہ سکتا ہوں۔ یہ امر میرے لیے وجہِ تشکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ ایسے غیرشاعر اور بے مایہ انسان کو نعت گو حضرات کے قلم چومنے کی توفیق ارزانی فرمائی ہے۔ میں اسی نسبت کو، اپنے لیے وثیقۂ آخرت سمجھتا ہوں ؂

میں خاکِ محض، میں انبارِ گل، میں مشتِ غبار

تری نگاہ جو پڑ جائے کیمیا ہوں میں

تو رحمتوں کا تجمل، تو شفقتوں کا جمال

یہ میری سوچ کا محور نہیں کہ کیا ہوں میں

میں نے اپنے اِس مضمون میں نعت گو کے اشعار کا کوئی حوالہ ارادتاً نہیں دیا کہ میں اپنا انتخاب قارئین پر مسلط نہیں کرنا چاہتا اور نہ یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ کتاب میں صرف اتنے ہی اشعار قابلِ ذکر ہیں۔ یوں قاری اور شاعر دونوں کی حق تلفی ہوتی ہے۔ ویسے بھی تعارفی سطور کا مقصد، قاری کے ذوقِ مطالعہ کو مہمیز لگانا ہے، نہ کہ اُس پر اپنی پسند ٹھونسنا۔

نعتیہ مجموعہ ’’مہرِجہاں فروز‘‘۔