کیا جنت البقیع کی شان رفیع ہے

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

شاعر: دلو رام کوثری


کیا جنت البقیع کی شانِ رفیع ہے

برجِ فلک ہر ایک مزارِ بقیع ہے


چھپ جائے عرش جس میں وہ دامن وسیع ہے

بارہ مہینے سیرِ بہارِ ربیع ہے


خلدِ نہم جہاں میں یہی ارضِ پاک ہے

کحل البصر یہیں کی زمانے میں خاک ہے


مدفون جو یہاں ہے وہ غم سے ہے رستگار

دوزخ کا کچھ عذاب نہ مرقد کا ہے فشار


برزخ کا ہے زمانہ یہاں موسمِ بہار

جنت کے نور کا ہے اسی خاک پر قرار


اس سے دکان دور ہے دنیائے زشت کی

سرحد ملی ہوئی ہے اسی سے بہشت کی


ہے جنت البقیع کی جنت کو جستجو

مٹی کے عطر میں بھی بسی ہے یہیں کی بو


اس خاکِ پاک کی ہے دو عالم میں آبرو

زمزم کو اس کی چاہ ہے کوثر کو آرزو


ذرہ ہے آفتاب اسی ارضِ پاک کا

صدقہ ہے یہ تمام بزرگوں کی خاک کا


مٹی میں اس کی مٹی بزرگوں کی ہے ملی

حرمت ہے اس کی پیشِ خداوندِ ایزدی


مشتاق اس کے رہتے ہیں قدسی و جنتی

اس کی ہوا کے جھونکے ہیں خلدی و کوثری


پڑتی ہے اس پہ چشمِ امل جبرئیل کی

اس خاک میں صفا ہے مئے سلسبیل کی


ہے اس زمیں کا پیشِ خدا مرتبہ بڑا

لکھا ہے ایک کافرِ صد سالہ جو مرا


گزرا جنازہ پاس سے اُس شخصِ غیر کا

خاکِ بقیع اڑ کے کفن پر گری ذرا


دوزخ میں خاکِ پاک کا جانا محال تھا

کافر کا باغِ خلد بھی پانا محال تھا


کہتی تھی خاکِ پاک کہ ناجی تو ہو چکا

کہتا تھا کفر لے کے جہنم میں جاؤں گا


کفر اور خاکِ پاک میں جھگڑا جو یوں پڑا

آخر خدا نے لطف سے زندہ اُسے کیا


آئی ندائے غیب کہ کیا پیچ پڑ گیا

کلمہ تو پڑھ کہ تیرا نصیب آج لڑ گیا


کلمہ پڑھا نبی کا جو بخشش کی چاہ میں

تخفیف ہو گئی وہیں جرم و گناہ میں


مقبول ہو گیا وہ حضورِ الٰہ میں

رستہ ملا بہشت کا دوزخ کی راہ میں


اُس کو نہ پھر ہوا ہوئی دنیائے زشت کی

مُندتے ہی آنکھ کھل گئی کھڑکی بہشت کی


مرنے کے بعد کیا ہوا حق اُس پہ مہرباں

آئی بہار اُس کے چمن میں پس از خزاں


ہے جنت البقیع کی رحمت یہ بے گماں

ہاں جنت البقیع بھی جنت کا ہے نشاں


یہ ارضِ پاک آفتِ دنیا سے پاک ہے

کیونکر نہ پاک ہو کہ بزرگوں کی خاک ہے


ہے جنت البقیع بزرگوں کی یادگار

ہیں اہلِ بیتِ پاک کے اکثر یہیں مزار


قبرِ جنابِ فاطمہ زہرا کے میں نثار

جس پر ہے اُس کے فضل و فضائل کا انحصار


شامل جو اس میں خاک ہے آلِ رسول کی

اس واسطے خدا نے یہ حرمت قبول کی


قبرِ حَسَن یہیں ہے، نہیں اس میں کچھ کلام

زین العبا کا بعدِ قضا ہے یہیں قیام


مدفوں یہاں ہیں باقر و جعفر سے بھی امام

کچھ اور بھی ہیں تربتِ ساداتِ نیک نام


اصحابِ مصطفیٰ بھی یہاں دفن چند ہیں

قبروں سے جن کی اس کے مراتب بلند ہیں


کہتے ہیں سیدہ کا یہاں ہے جہاں مزار

کرسی و عرش اُس کی فضیلت پہ ہیں نثار


میدانِ حشر ہو گا اُسی جا سے آشکار

بچھے گا واں پہ تختِ خداوندِ روزگار


دربارِ ذوالجلال مقامِ بقیع ہے

کیا جنت البقیع کی شانِ رفیع ہے


سب کچھ یہ فاطمہ کا تصدق ہے بے گماں

ورنہ کبھی تھے اس پہ مزارِ یہودیاں


قبرِ جنابِ فاطمہ کے چند ہیں نشاں

جن میں سے اس جگہ بھی علامت ہے کچھ عیاں


اغلب یہی ہے قبر یہیں ہے بتول کی

یا پاس ہے رسول کے بیٹی رسول کی


کیا بضعۃ الرسول کی شانِ جلیل ہے

بابا رسولِ پاک ہے دادا خلیل ہے


عیسیٰ بھی ایک اُن کی شفا کا علیل ہے

رکھ اعتقاد کیوں تجھے فکرِ دلیل ہے


نورِ دلِ فلک درِ زہرا کی خاک ہے

پڑھتا درود اس پہ خداوندِ پاک ہے


تقطیعِ شعر میں تجھے ہر دم یہی ہے دھن

مفعولُ فاعلاتُ مفاعیلُ فاعلن


شاہوں کے وصف و ذکر میں کھوتا ہے کیوں سخن

ہاں آلِ مصطفیٰ کے مناقب ذرا تو سن


پایا وہ کس نے پایا جو پایا بتول نے

فرمایا کس کو امِّ ابیہا رسول نے


حقّا بہارِ باغِ نبوت ہے فاطمہ

زینت دہِ مقامِ امامت ہے فاطمہ


کوثر ہے جس کی کسر وہ کثرت ہے فاطمہ

نقدِ بہائے خلعتِ وحدت ہے فاطمہ


توحیدِ کردگار جنابِ بتول ہے

اصلِ فروع اور وہ فرعِ اصول ہے


معصومہ ہے کہ حرمتِ حوّا ہے فاطمہ

دنیا میں شاہزادیِ دنیا ہے فاطمہ


خاتونِ خلد، مریمِ کبرا ہے فاطمہ

صدیقہ ہے بتول ہے زہرا ہے فاطمہ


سب عورتوں میں ایسی فضیلت کسی کی ہے

بیٹی نبی کی اور وہ زوجہ علی کی ہے


ام الحسن ہے، مادرِ شبیرِ خوش شعار

القصہ وہ ہے جدۂ ساداتِ باوقار


کیا مجھ سے اب فضائلِ زہرا کا ہو شمار

خوش جس سے فاطمہ ہے خوش اُس سے ہے کردگار


بندی بھی ہے خدا کی وہ، نورِ خدا بھی ہے

وہ اشرف النساء بھی ہے خیر النساء بھی ہے


بابا ہے وہ کہ ختمِ رسل جس کا ہے لقب

شوہر امامِ ہر دو سرا، سید العرب


بیٹے حسن حسین ہیں، خادم ہیں جن کے سب

جز کارِ خیر جن کو نہ دنیا میں تھی طلب


شوہر سخی ہے، خود بھی سخی ہے پسر سخی

واللہ فاطمہ کا ہے سب گھر کا گھر سخی


آئی ہے کس کو چادرِ تطہیر، یہ کہو

عفت کا ملک کس کی ہے جاگیر، یہ کہو


منظور حق کو کس کی ہے توقیر یہ کہو

بیٹے ہیں کس کے شبر و شبیر یہ کہو


تکریم کس کی گھر میں جنابِ علی نے کی

تعظیم کس کی بر سرِ منبر نبی نے کی


لکھا ہے یہ کہ جمع تھے اصحابِ باوفا

وحیِ خدا سناتے تھے منبر پہ مصطفیٰ


سِن تین سال کا تھا جنابِ بتول کا

مسجد میں کھیلتی ہوئی آئی وہ باصفا


بیٹی کو آپ دیکھ کے شاداں بڑے ہوئے

تعظیمِ فاطمہ کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے


اصحاب نے جو دیکھا یہ الفت کا ماجرا

کی عرض، یا نبی! ہمیں حیرت ہوئی سوا


ابلاغ چھوڑ کر ادبِ فاطمہ کیا

گبر و یہود طعن کریں گے یہ برملا


بے چین اس قدر ہے جو بچوں کے پیار میں

تبلیغ کر سکے گا وہ کیا روزگار میں


یہ سن کے دُر فشاں ہوئے یوں بادشاہِ دیں

بیٹی سمجھ کے اپنی میں ہرگز اٹھا نہیں


توحیدِ ذوالجلال ہے زہرا یہ بالیقیں

وحدت کا پاس کرنا ہے اک فرضِ مرسلیں


توحیدِ حق کا دل پہ اثر جب بڑا ہوا

احکامِ وحی چھوڑ کے میں اٹھ کھڑا ہوا


پیدا بزرگ ہوں گے وہ بطنِ بتول سے

دنیا کو پاک صاف کریں گے جہول سے


ماہر وہ ہوں گے جملہ فروع و اصول میں

کام اُن کو ہو گا دینِ خدا و رسول سے


سر کو کٹا کے دین کو قائم کریں گے وہ

اور بھوکے پیاسے راہِ خدا میں مریں گے وہ


یہ رمز سن کے ہو گئے اصحاب مطمئن

پڑھنے لگے درود جوان اور سب مُسِن


کہتے تھے بار بار یہی حور و انس و جن

صلِّ علیٰ محمد و آلِ محمدٍ‌


یہ جس کی ہے ثنا وہ سپردِ بقیع ہے

کیا جنت البقیع کی شانِ رفیع ہے


ہوگا جو روزِ حشر زمانے میں آشکار

سب کو ملے گا حکمِ خداوندِ روزگار


سب اپنی اپنی آنکھیں کریں بند ایک بار

اٹھتی ہے اپنی قبر سے زہرائے باوقار


جب تک نہ یہ بہشت میں پہنچے بقیع سے

کھولے نہ کوئی آنکھ، شریف و وضیع سے


القصہ اٹھ کے فاطمہ اپنے مزار سے

یوں پھر کرے گی عرض وہ پروردگار سے


بہتر بقیع مجھ کو ہے باغ و بہار سے

محفوظ یاں رہی ہوں عذابِ فشار سے


چھوڑوں گی میں نہ اس کو مجھے اس سے پیار ہے

آئندہ تو خدا ہے تجھے اختیار ہے


فرمائے گا خدا تری عرضی قبول کی

بیٹی ہے تو ہمارے محمد رسول کی


پھر حکمِ حق یہ ہوگا نہیں بات طول کی

جنت ملے بقیع سے خاطر بتول کی


تختہ ریاضِ خلد کا ارضِ بقیع ہے

کیا جنت البقیع کی شانِ رفیع ہے