کلام رضا میں مناقب صحابہ و امہات المومنین از ڈاکٹر عزیز احسن

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


Naat kainaat aziz ahsan 10.jpg

مضمون نگار : ڈاکٹر عزیزؔ احسن۔کراچی

کلامِ رضاؔ میں مناقبِ صحابۂ کرام اور امہات المومنین[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

سوال یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی مدحت کا تو جواز موجود ہے۔صحابہ کرام اور دیگر اولیاء اللہ کے مناقب لکھنا کیا ضرور ہے؟؟؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے اور قرآنِ کریم میں اعلان بھی کیا گیا ہے :

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الْرَّحْمٰنُ وُدًّا o (بلا شبہ جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے، پیدا فرمادے گا ربِّ مہربان ان کے لیے [دلوں میں ]محبت) ۔۱ واضح رے کہ اعمالِ صالحہ کا معیار صرف رسولِ کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی پیروی ہے۔کیوں کہ آپ ﷺ ہی کے اسوۂ حسنہ کو پوری انسانیت کے لیی نمونہ بنایا گیا ہے۔

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌO (یقینا تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں بہترین نمونہء [عمل] ہے…سورۂ الاحزاب۳۳، آیت ۲۱)…… حافظ شیرازی نے کیا خوب کہا تھا:


ہر گلِ نو کہ شد چمن آرائے

زِ اثر رنگ و بوئے صحبتِ اوست

(جو پھول بھی کھل کر باغ کی آرائش کا موجب بنتا ہے وہ میرے محبوب کی صحبت کی وجہ سے ہی زیب و زینت کا حامل ہوتا ہے)۔


یہ بھی حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے زیادہ کسی طبقے نے حضورِ اکرم ﷺ کی اتباع کا حق ادا نہیں کیا۔

اللہ تعالیٰ نے انسانی معاشروں میں خیر پھیلانے کے لیے نظامِ نبوت قائم فرمایا اور انسانی خوبیوں کی اعلیٰ ترین مثال پیش کرنے والے انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرماکر ’’جمالِ خیر‘‘ کا مثالیہ (Ideal) ، دنیا کے سامنے رکھ دیا۔ پھر نبوت کا سلسلہ مختتم فرمایا تو , امتِ مسلمہ کو ’’خیر الامم‘‘ قرار دے کر ،قیامت تک اسے اعمالِ حسنہ کا جمال دکھانے کے لیے ’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ‘‘ کا فریضہ سونپ دیا۔


خاطر نشین رہے کہ اللہ تعالیٰ نے تکمیلِ نبوت کی شکل میں ، اپنے رسول ،حضرت محمدمصطفیٰ ﷺ کے زیرِ نگرانی ’’حکومتِ الٰہیہ ‘‘ کے قیام کا جو نمونہ دنیا کو عطا فرمایا تھا اس کا تسلسل قائم رکھنے کی غرض سے ،’’خلافتِ راشدہ‘‘ کا نظام جاری ہوا۔ یہ نظام غیر معصوم انسانوں کے ہاتھوں دنیا میں برپا کیا گیا تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ حکومتِ الٰہیہ کے لیے ’’معصوم عن الخطا‘‘ نبی کا ہونا ہی ضروری ہے۔


اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین یا بعد کے اولیاء اللہ کے مناقب لکھنے سے اس بات کا اثبات ہوتا ہے کہ نبی علیہ السلام نے جو معیارِ بندگی عطا فرمایا تھا اس معیار کے مطابق زندگی بسر کرنے والے افراد، تا قیامِ قیامت موجود رہیں گے اور جس انسان کے دل میں خیر طلبی کا ذرا سا بھی جذبہ ہوگا وہ ان اعلیٰ کردارو افکار و اقدار کے حامل بزرگوں کے لیے کلمہء خیر ہی کہے گا۔


اللہ تعالیٰ نے سورۂ فاتحہ میں جن انعام یافتگان کا راستہ اختیار کرنے کا داعیہ پیداکرنے کے لیے، انسانوں کو جو دعا سکھائی ہے ،اس دعا کے جواب میں اگر قیامت تک انعام یافتگان یعنی صدیقین، شہدا اور صالحین جیسے غیر معصوم ،مثالیہ نمونے(Ideal models) دنیا میں موجود ہی نہ رہیں تو پیروی کا سلسلہ تو ساکت و جامد ہوجائے گا۔اوریوں، بندے کی طرف سے پانچ وقت کی جانے والی دعا ’’اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ o ‘‘ عملی طور پر بے اثر ہوجائے گی ۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں قرآنِ پاک کی حفاظت کا بندوبست فرمایا وہیں ، صدیقین، شہدا اور صالحین کی ہر زمانے میں موجودگی کا بھی اہتمام فرمادیا اور انبیاء کی سچی پیروی کرتے ہوئے زندگی گزارنے والے اصحاب کی محبت امت کے خیر طلب افراد میں ڈال دی ۔


بزرگوں کے مناقب میں شعراء کا اظہار، خالصتاً جذبہء محبت کے تابع ہی ہوتا ہے۔حضورِ اکرم ﷺ نے کامل اتباعِ نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام اور مکمل تنفیذِ دین کے لحاظ ہی سے فرمایا تھا ’’خیر الناس قرنی، ثم الذین یلونہم، ثم الذین یلونہم‘‘ (میرے زمانے کے لوگ سب سے اچھے ہیں پھر جو ان کے بعد پھر جو ان کے بعد…پارہ نمبر۱۴، بخاری شریف،جلد دوم، کتاب المناقب، ص۴۲۲ )۔یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ، تابعین کرام اور اتباعِ تابعین سے مزاجاً اور مسلکاً تعلق رکھنے والے لوگ ہی دین کی محکم اقدار کے نفاذ کے نمونے پیش کرنے کے قابل ہیں اور اسی طبقے میں، نعت و منقبت نگاری کا چرچا بھی زیادہ ہے۔یہ منقبت نگاری در اصل بالواسطہ نعت ہی ہے ۔


اعلیٰ حضرت چوں کہ دین کے مزاج شناس تھے، اس لیے انھوں نے نعت گوئی میں یہ اہتمام بھی فرمایا کہ حضورِ اکرم ﷺ کی اتباع کرنے والے ہر طبقے کے مقبولانِ بارگارہ کے لیے اشعار کہے۔ امام اہل سنت اعلیٰ حضرتؒ اپنے مسلک کی وضاحت اس طرح فرماتے ہیں:


اہل سنت کا بیڑا پار اصحابِ حضور

نجم ہے اور نائو ہے عترت رسول اللہ کی


ایک موقع پر سنی مسلمان کے وصال کے حوالے سے ایک نیک تمنا دعا بن کر زبانِ قلم پر آئی:


واسطہ پیارے کا! ایسا ہو کہ جو سنی مرے

یوں نہ فرمائیں ترے شاہد کہ وہ فاجر گیا

عرش پر دھومیں مچیں وہ مومنِ صالح ملا

فرش سے ماتم اٹھے وہ طیب و طاہر گیا


ایک جگہ فرماتے ہیں:


بے عذاب و عتاب و حساب و کتاب

تا ابد اہل سنت پہ لاکھوں سلام


چوںکہ اہلِ سنت ، ائمۂ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید کرتے ہیں اس لیے حضراتِ ائمہ کو بھی خراجِ عقیدت پیش کیا ہے:


شافعیؒ، مالکؒ، احمدؒ، امامِ حنیفؒ

چار باغِ امامت پہ لاکھوں سلام


اصحاب النبیﷺ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو امامِ اہلِ سنت نے چشمِ تصور سے دیکھا اور حدیثِ انجم (اصحابی کالنجوم) یاد کرکے آقائے نامدارِ محمد رسول اللہﷺ کی مقدس محفل کا نقشہ کھینچا تو انھیں ہر طرف نور ہی نور نظر آیا، فرماتے ہیں:


انجمن والے ہیں انجم، بزمِ حلقہ نور کا

چاند پر تاروں کے جھرمٹ سے ہے ہالہ نور کا


نعت نگاری میں اسوۂ صحابہ کا دھیان آئے تو حضرت حسان بن ثابتؓ کا ذکر لازمی ہوجاتا ہے کہ انھیں ہی یہ فضیلت حاصل رہی ہے کہ حضورﷺ نے ان کی شاعری سننے کے لیے ان کو منبرعطا فرمایا تھا اور ان کے لیے دعا بھی فرمائی۔ اس لیے تمام نعت گو شعرا بالعموم اور امام اہلِ سنت بالخصوص حضرت حسانؓ کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں:


کرمِ نعت کے نزدیک تو کچھ دور نہیں

کہ رضائے عجمی ہو سگِ حسانِؓ عرب

اسی زمین میں خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک عجیب شعر کہا ہے۔ اس شعر میں عجمی مسلمانوں اور عہدِ صحابۂ کرامؓ سے اب تک کے عرب مسلمانوں کا جذبۂ اتباعِ رسولﷺ بھی منعکس ہوتا ہے اور علمِ بدیع کی کچھ صنعتیں بھی آگئی ہیں:


تیرے بے دام کے بندے ہیں رئیسانِ عجم

تیرے بے دام کے بندی ہیں ہزارانِ عرب


اس شعر کی خوبی یہ ہے کہ اس میں علم بدیع کی صنعتیں مثلاً تجنیسِ تام، صنعت شبہ اشتقاق اور صنعت تضاد بھی یک جا ہیں اور شعر میں روانی اور فصاحتِ بیان بھی قائم ہے۔۔۔۔ صنعتِ تجنیس تام دونوں جگہ ’بے دام‘ کے الفاظ کی وجہ سے پیدا ہوئی کہ ’بے دام‘ ایک جگہ ’بن مول‘ کے معنی دے رہا ہے اور دوسری جگہ ’’بغیر جال‘‘ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اسی طرح ’بندے‘ اور ’بندی‘ میں شبہ اشتقاق ہے کیوںکہ یہ دونوں الفاظ بظاہر ایک ہی مادے سے مشتق معلوم ہوتے ہیں لیکن اصلاً ایسا ہے نہیں۔ بندے بندہ( عبد) ’غلام‘ اور بندی (قید و بند) ’قیدی‘۔ عجم اور عرب میں صنعتِ تضاد کا ظہور ہوا ہے۔٭۲


اس شعر کی معنوی خوبی یہ ہے کہ اس میں حضورﷺ کی پیروی کے جذبے کو زمان و مکان کی قید سے آزاد، ہر عہد کا جذبۂ محرکہ بتایا گیا ہے اور اب یہ سچائی ابدالآباد تک اپنی قوت آپ منواتی رہے گی۔


اہلِ سنت و جماعت صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی عظمتوں کے قائل ہیں اور نبیِ کریمﷺ کی اولاد امجاد سے بھی تولائی تعلقِ خاطر رکھتے ہیں اس لیے ان کے اشعار میں برجستہ ان مقدس ہستیوں کا ذکر بھی آجاتا ہے۔ اعلیٰ حضرت کے اشعار ملاحظہ فرمایئے:


مولیٰ گلبن رحمت زہراؓسبطینؓاس کی کلیاںپھول

صدیقؓوفاروقؓوعثماںؓحیدرؓہر اک اس کی شاخ

تیری نسلِ پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا

تو ہے عینِ نور، تیرا سب گھرانہ نور کا

نور کی سرکار سے پایا دوشالہ نور کا

ہو مبارک! تم کو ذوالنورینؓ جوڑا نور کا


ان اشعار میں اعلیٰ حضرت نے ریاضِ نبویﷺ میں کھلنے والے غنچوں اور پھولوں کے ساتھ ساتھ پودوں اور شاخوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ حضورِ انورﷺ کو نور فرما کر قرآنِ کریم کی آیت ’قد جآء کم من اللّٰہ نور و کتب مبین‘ (مائدہ: ۱۵) ]بے شک تمھارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور (ذاتِ محمدیﷺ) اور روشن اور واضح کتاب (قرآنِ کریم) آچکی ہے[۔ کی طرف تلمیحاتی اشارہ بھی کردیا ہے۔ پھر نورِ ہدایت کو آپﷺ کی نسلِ پاک میں بھی منعکس دکھایا ہے اور حضرت عثمان غنیؓ کے ’ذالنورین‘ ہونے کا شرف بھی واضح طور پر مذکور فرمایا ہے کہ آپؓ کے حبالۂ عقد میں یکے بعد دیگرے سیّد الکونینﷺ کی دو صاحب زادیاں آئی تھیں۔ حضرت سیّدہ رقیہؓ کی علالت کی وجہ سے حضرت عثمان غنیؓ، غزوۂ بدر میں شرکت نہیں فرما سکے تھے لیکن حضورﷺ نے اپنی لختِ جگر سیّدہ رقیہؓ کی تیمارداری کے لیے انھیں مدینے میں رہنے کی تاکید فرماتے ہوئے یہ بھی فرما دیا تھا کہ ’’تمھارے لیے اس آدمی کا اجر و ثواب اور مالِ غنیمت میں حصہ ہے جس نے اس غزوہ میں شرکت کی۔‘‘٭۳


حضرت سیّدہ رقیہؓ کی رحلت کے بعد رسول اللہﷺ نے اپنی دوسری صاحب زادی حضرت ام کلثومؓ کا نکاح بھی حضرت عثمانؓ سے کردیا اور فرمایا، ’’اگر میرے سو (۱۰۰) بیٹیاں ہوتیں تو میں یکے بعد دیگرے ان کو عثمان(رضی اللہ عنہ) کے حبالۂ عقد میں دے دیتا ۔ ٭۴


فرماتے ہیں یہ دونوں ہیں سردارِ دو جہاں

اے مرتضیٰؓ! عتیقؓ و عمر! کو خبر نہ ہو


اس شعر کی تفہیم میں مجھے دقت کا سامنا تھا کہ میری رہنمائی کے لیے حضرت علامہ کوکب نورانی نے مجھے ’جامع الاحادیث‘ کے متعلقہ صفحے کی فوٹو نقل ارسال فرما دی۔ اللہ انھیں جزائے خیردے۔ (آمین)۔ حدیث شریف: ’’امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا، ابوبکرؓ اور عمرؓ سب اگلوں پچھلوں سے افضل ہیں، تمام آسمان والوں اور زمین والوں سے بہتر ہیں، سوا انبیا و مرسلین کے۔ اے علیؓ! تم ان دونوں کو اس کی خبر نہ دینا۔‘‘ امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ فرماتے ہیں۔ علامہ مناوی نے تیسیر میں فرمایا، ’’اس کے معنی یہ ہیں کہ اے علی(رضی اللہ عنہ)! تم ان سے نہ کہنا بلکہ ہم خود فرمائیںگے تاکہ ان کی مسرت زیادہ ہو۔‘‘٭۵


حضرت رضاؔ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی شاعری میں مسلکِ اہلِ سنت کی اس طرح وضاحت فرمائی کہ ان کی شاعری کا مطالعہ کرنے والا ہر قاری باآسانی اعدائے اسلام کی پھیلائی ہوئی غلط باتوں سے آگاہ ہوتا جاتا ہے۔ اس طرح اس کی آگہی اس کو صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین سے بدگمان نہیں ہونے دیتی اور اس کے ایمان کی حفاظت کا سامان ہوجاتا ہے:


ترے چاروں ہمدم ہیں یک جان و یک دل

ابوبکرؓ، فاروقؓ، عثماںؓ، علیؓ ہے


اس شعر میں تلمیحی اشارہ قرآنِ کریم کی آیت کی طرف ہے جس میں اللہ ربّ العزت نے اصحاب النبیﷺ کے بارے میں فرمایا ہے، ’رحماء بینھم‘ (فتح: ۲۹) ’’آپس میں مہربان ہیں‘‘ ۔اس آیت کے ہوتے کسی مزید دلیل کی ضرورت تو رہتی نہیں ہے، لیکن اعلیٰ حضرت کے شعر کی صداقت کی گواہی ہمیں تاریخ کی معروضی (Objective) ورق گردانی سے بھی مل جاتی ہے۔ ان گروہوں سے متعلق اعلیٰ حضرت کے اشعار درج کرتا ہوں جن کی حضرت علیؓ کی کاذب محبت یا صریحاً بغض کی وجہ سے خود حضرت علیؓ نے انھیں رد فرما دیا تھا۔ پہلے یہ دیکھتے چلیے کہ حضرت رضاؔ بریلوی کی حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم سے الفت کس درجے کی ہے۔ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:


درِّ نجف ہوں گوہرِ پاکِ خوشاب ہوں

یعنی ترابِ رہ گزرِ بوترابؓ ہوں

درِّ درجِ نجف، مہر برجِ شرف

رنگ رومی شہادت پہ لاکھوں سلام

مرتضیٰؓ شیر حق اشجع الاشجعیں

ساقیِ شیر و شربت پہ لاکھوں سلام

اصلِ نسلِ صفا، وجہِ وصلِ خدا

بابِ فصلِ ولایت پہ لاکھوں سلام


ان اشعار سے رضاؔ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی حبِ علیؓ کا بھرپور اندازہ کیا جاسکتا

ہے۔ امامِ اہل سنت کی حبِ علیؓ میں نہ تو روافض کی سی افراط ہے، نہ ناصبیوں اور خارجیوں والی تفریط یعنی اعلیٰ حضرت کی محبتِ علیؓ ، اہلِ سنت والجماعت کے مسلک کے عین مطابق ہے ۔


اب وہ اشعار ملاحظہ فرمایئے جن میں ان فرقوں کا ذکر ہے جو غیرمعتدل حبِ علیؓ یا خلافِ حقیقت علیؓ کی مخالفت کا شکار ہوئے:


اوّلیں دافعِ اہلِ رفض و خروج

چار می رکنِ ملت پہ لاکھوں سلام

شیرِ شمشیر زن، شاہِ خیبر شکن

پرتوِ دستِ قدرت پہ لاکھوں سلام

ماہیِ رفض و تفضیل و نصب و خروج

حامیِ دین و سنت پہ لاکھوں سلام

ناصبی را بغضِ تو سوئے جہنم رہ نمود

رافضی از حبِ کاذب در سقر درآمدہ

اے عدوئے کفر و نصب ورفض وتفضیل و خروج

اے علوے سنت و دینِ ہدیٰ امداد کن!


ان اشعار سے صاف ظاہر ہے کہ امامِ اہلِ سنت رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نصب (عداوت علیؓ)، رفض (کاذب حبِ علیؓ اور بغض صحابۂ کرامؓ)، تفضیل (حضرت علیؓ کو تین خلفاے راشدین پر فضیلت دینا)، خروج (حضرت علیؓ سے واقعۂ تحکیم میں مخالفت کرنے اور اہل بیت سے بغض رکھنے والے) سب کے سب حدِ اعتدال سے ہٹے ہوئے ہونے کے باعث ناقابلِ قبول ہیں۔ کیوںکہ ان تمام رویوں کو خود حضرت علیؓ نے رد فرما دیا تھا۔ حضرت علیؓ نے خوارج سے جنگ کی اور ان کا صفایا کردیا اور روافض کے لیے فرمایا، ’’میری محبت میں حد سے گزرنے والا، زیادتی کرنے والا ہلاک ہوجائے گا۔‘‘ آقائے نامدارِ محمد رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے ’’علیؓ کی محبت اور ابوبکرؓ و عمرؓ کا بغض کسی مومن کے دل میں جمع نہیں ہوسکتا۔‘‘


تفسیر مظہری میں سورۂ حشر کی آیت نمبر۱۰ (بعد کو آنے والے ان اگلوں کے لیے (دعا کرتے ہیں اور) کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہم کو بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں اور ہمارے دلوں میں ان ایمان والوں کے لیے کینہ نہ پیدا کردینا۔ اے ہمارے رب! آپ بڑے شفیق، رحیم ہیں) کی تفسیر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ مہاجرین و انصار کے بعد والوں سے مراد فتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے والے اور قیامت تک آنے والے مومن مراد ہیں ۔پھر ابن ابی لیلیٰ کا قول لکھا ہے کہ اگر کسی کے دل میں کسی صحابی کی طرف سے کسی طرح کا بغض ہو تو وہ ان لوگوں میں شمار نہیں ہوگا جن کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے۔ پھر ایک واقعہ فصول (اثنا عشری فرقے کی کتاب) سے نقل کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کچھ لوگ خلفاے ثلاثہؓ پر نکتہ چینی کر رہے تھے تو حضرت جعفر محمد بن علی باقر نے فرمایا: میں شہادت دیتا ہوں کہ تم ان لوگوں میں شامل نہیں ہو جن کے متعلق اللہ نے فرمایا ہے والذین۔۔۔ (الایہ)، (سورۂ حشر آیت:۱۰)۔ اس کے بعد صحیفۂ کاملہ سے حضرت امام زین العابدینؓ کی ایک طویل دعا درج کی ہے جس کے آخری الفاظ یہ ہیں، ’’اے اللہ! اور رحمت نازل فرما ان لوگوں پر بھی جو بخوبی صحابہؓ کی پیروی کرنے والے ہوں اور کہتے ہوں، ربنا اغفرلنا۔۔۔ (الایہ) (اے ہمارے رب! ہم کو بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے۔۔۔ الخ)٭۶اسی تناظر میں، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے، حضرت علیؓ کو ان تمام مسالک کا دشمن بتایا ہے۔

چراغِ مصطفویﷺ سے شرارِ بولہبی کی ستیزہ کاری ازل سے جاری ہے۔ اس لیے اعداے اسلام اپنی سازشوں میں کسی حد تک ان مقدس ہستیوں کے درمیان اختلاف کی داستانیں گھڑنے اور ان کو ہوا دینے میں کامیاب ہوگئے، جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے گواہی دی ہے کہ وہ آپس میں مہربان ہیں۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا تھا: جو شخص میرے بعد زندہ رہا، وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا سو تم پر لازم ہے کہ تم میری اور میرے خلفاے راشدین کی سنت کو جو ہدایت یافتہ ہیں، مضبوطی سے پکڑے رکھو اور اپنی داڑھیوں اور کچلیوں سے محکم طور پر اس کو قابو میں رکھو اور تم نئی نئی چیزوں سے بچو، کیوںکہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گم راہی ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ، ابودائود، مستدرک حاکم، مسند دارمی اور مسند احمد)٭۷یہی وجہ ہے کہ اہلِ سنت کے علما اور مفکرین و دانشور، نیز شعرا جہاں اصحابِ کرامؓ کا ذکرِ جمیل کرتے ہیں انھیں آئینۂ تاریخ پر دشمنانِ اسلام کی ڈالی ہوئی گرد صاف کرنے کے لیے یہ بھی بتانا پڑتا ہے کہ صحابۂ کرامؓ آپس میں شیر و شکر تھے۔ رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی پس منظر میں یہ کہا تھا:


ترے چاروں ہمدم ہیں یک جان و یک دل


اس ضمن میں خلفاے ثلاثہ کے بارے میں صرف حضرت علیؓ کی رائے ملاحظہ فرما لیجیے، مؤلف کتاب، امیرالمومنین سیّدنا علیؓ نے شرح نہج البلاغہ لابن میثم جلد چہارم، مطبوعہ تہران کے حوالے سے سیّدنا علیؓ کے مکتوب کے چند جملے نقل کیے ہیں جو شیخینؓ کی عظمت کی گواہی کے لیے کافی ہیں۔ سیّدنا علیؓ سیّدنا امیر معاویہؓ کو لکھتے ہیں…’’ اور اسلام میں سب لوگوں سے افضل جیسا کہ تو نے کہا اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ سب سے زیادہ اخلاص رکھنے والے خلیفہ ابوبکر صدیقؓ تھے اور پھر اس خلیفہ کے بعد عمر الفاروقؓ تھے۔ مجھے اپنی عمر کی قسم! ان دونوں کا اسلام میں بہت بڑا مقام ہے اور ان کی موت اسلام کے لیے ایک بہت بڑا زخم تھا۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں پر اپنی رحمتیں فرمائے اور ان کے اعمال کی ان کو بہترین جزا عطا فرمائے۔‘‘٭۸


اسی مصنف نے اپنی دوسری تصنیف سیرت عثمانؓ میں قیس بن عبادؓ کی روایت نقل کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں، میں نے جنگِ جمل کے روز سیّدنا علیؓ کو یہ فرماتے سنا کہ۔۔۔ ’’لوگ میرے پاس میری بیعت کرنے کے لیے آئے لیکن میرا نفس ابا کرتا تھا، بخدا مجھے اللہ تعالیٰ سے حیا آتی ہے کہ میں اس قوم سے بیعت لوں جو ایک ایسے شخص کے قتل کی مرتکب ہوئی ہے جس کے بارے میں جناب رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ’’میں اس سے حیا کرتا ہوں جس سے فرشتے حیا کرتے ہیں۔ اور مجھے اللہ سے حیا آتی ہے کہ میں اس حالت میں بیعت لوں جب کہ عثمانؓ زمین میں دفن ہوئے بغیر شہید ہوئے پڑے ہوں۔‘‘٭۹


سب سے زیادہ جس مسئلے کو ہوا دی گئی ہے، وہ خلافِ علیؓ بلافصل والا مسئلہ ہے جس کے جمہور علما، صلحا اور صحابۂ کرامؓ بشمول حضرت علیؓ کبھی قائل نہیں رہے۔ کیوںکہ خلافت کا مسئلہ تو آںحضرت محمد رسول اللہﷺ نے حدودِ یثرب (جسے ہجرت نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام، کے طفیل مدینۃ النبیﷺ کہلانے کا شرف ملا) میں پہلی مسجد کی بنیاد رکھتے ہوئے ہی اپنے طرزِ عمل سے طے فرما دیا تھا۔ طبرانی نے مسجد قبا کی تعمیر کے حوالے سے جو روایت کی ہے الحمدللہ اس پر کسی نے کوئی اختلاف نہیں کیا ہے۔ مسجدِ قبا کی تعمیر کے لیے نبیﷺ کریمﷺ نے اہلِ قبا سے فرمایا:

یا اہلِ قبا۔۔۔ اے قبا کے لوگو!

ائتونی باحجر من ھذال حرۃ۔۔۔ پتھروں کے اس ڈھیر سے پتھر اٹھا کر لائو۔

فجمعت عندہ احجار کثیرۃ۔۔۔ سب نے آپﷺ کے پاس بہت سے پتھر جمع کر دیے۔

و معہ غنزلہ لہ۔۔۔ اس وقت آپ کے پاس (نیزہ نما) لکڑی تھی۔

فخط قبلتھم۔۔۔ آپ نے سمتِ قبلہ کی نشان دہی فرمائی۔

فاخذ حجرا فوضعہ۔۔۔ پھر سب سے پہلے خود ایک پتھر اٹھایا اور اسے تعمیر کے لیے رکھا۔

ثم قال یاابوبکرؓ خذ حجر افضعہ حجری۔۔۔ پھر ابوبکرؓ سے فرمایا ایک پتھر اٹھا کر میرے پتھر کے برابر رکھو!

ثم قابل یاعمر خذ حج افضعہ الیٰ جانب حجر ابوبکرؓ۔۔۔ پھر عمرؓ سے فرمایا: ایک پتھر اٹھائو اور اسے ابوبکرؓ کے پتھر کے ساتھ رکھ دو۔

ثم قال یا عثمانؓ خذ حجرا فضعہ الیٰ جنب حجر عمرؓ۔۔۔ پھر عثمان سے کہا: اے عثمان تم پتھر اٹھائو اور عمرؓ کے پہلو میں رکھ دو۔

ثم قال یا علیؓ خذ حجر افضعہ الیٰ جنب عمرؓ۔۔۔ پھر فرمایا علیؓ! تم بھی پتھر اٹھائو اور اسے عمرؓ کے پتھر کے برابر رکھ دو۔

ثم التفت الی الناس لیضع کل رجل حجرۃ حیث احب علیٰ ذلک الخط۔۔۔ پھر تمام لوگوں سے متوجہ ہوکر فرمایا تم سب ان خطوط پر جہاں چاہے پتھر رکھ دو۔٭ ۰۱


یہ واقعہ ہے اسلام میں سب سے پہلے تعمیر ہونے والی مسجدِ قبا کا ہے، جس کی تعمیر پہلے ہی دن سے مقبولِ بارگاہِ ربّ العزت ہوچکی تھی اور جس کے بارے میں اللہ کریم نے ارشاد فرمایا تھا، ’’المسجد اسس علی التقوی من اول یوم۔۔۔(الایہ) بے شک وہ مسجد کہ پہلے ہی دن سے جس کی بنیاد پرہیزگاری پر رکھی گئی ہے۔ (سورۂ توبہ، آیت نمبر ۱۰۸) دراصل، مسجد کی تعمیر کے ضمن میں اُمتِ مسلمہ کی تعلیم کے لیے حضراتِ صحابۂ کرامؓ کی فضیلتوں کا ادراک کروانا بھی مقصود تھا۔اسی لیے حضور ختمی مرتبتﷺ نے اپنی حیاتِ دنیاوی میں وصال سے صرف چار روز قبل عشا کی نماز پڑھانے کے لیے حضرت ابوبکر صدیقؓ کا انتخاب فرمایا جنھوں نے حضورﷺ کے پردہ فرمانے تک سترہ نمازیں پڑھائیں۔ ان نمازوں میں حضرت علیؓ بھی مقتدی تھے۔ ٭۱۱۔


۹ ہجری میں حضور نبی کریمﷺ نے حج کی فرضیت کے پہلے سال حضرت ابوبکر صدیقؓ کو امیر الحج بناکر روانہ فرمایا تھا اور سورۂ برأت کی ابتدائی آیات کے ابلاغ کے لیے حضرت علیؓ کو مکہ مکرمہ کی طرف بھجوایا تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت علیؓ سے دریافت فرمایا: امیر ہو یا مامور؟ اس پر حضرت علیؓ نے جواب دیا تھا، ’مامور ہوں۔‘٭۱۲حضرت علیؓ نے ایک لمحے کو بھی خود کو خلافت کا حق دار نہیں سمجھا تھا ورنہ وہ حضرت عباسؓ عمِ رسول اللہﷺ کے اصرار پر یہ نہ فرماتے، ’’بخدا اگر ہم آپﷺ سے اس بابت (خلافت کے) دریافت کریں اور آپﷺ نے ہمیں منع کردیا تو آپﷺ کے بعد ہمیں لوگ کبھی خلیفہ نہ بنائیںگے۔ بخدا میں تو یہ بات آپﷺ سے نہیں پوچھتا۔‘‘٭۱۳


پیر طریقت حضرت مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تصنیف میں ’نہج البلاغہ‘ کا ایک طویل اقتباس نقل فرمایا ہے جو حضرت عمرؓ کے جنگِ عراق میں بنفس نفیس شرکت کرنے کے سوال پر حضرت علیؓ کے خطبے پر مبنی ہے۔ اس موقع پر حضرت علیؓ نے امیر المومنین حضرت عمرؓ کو چکی کے قطب کی طرح مرکز پر رہنے کا مشورہ دیا اور فرمایا ’’ہم (مہاجرینِ اوّلین) منجانب اللہ وعدۂ نصرت دیے گئے ہیں۔‘‘ سیّد پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے ارشاد کی روشنی میں سورۂ نور کی آیت، ’’وعداللّٰہ الذین آمنوا منکم۔۔۔ الی الآخرہ۔۔۔ (نور:۵۵) ’’اللہ تعالیٰ نے وعدہ دیا ہے تم میں سے ان لوگوں کو جو باایمان ہیں اور اعمالِ صالح کرتے ہیں کہ البتہ وہ ان کو زمین پر خلیفہ کرے گا۔‘‘ کا حوالہ دیا ہے۔ مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں، ’’استخلاف، یعنی خلیفہ بنانے کو حق سبحانہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ یستخلفن کی نسبت ضمیر ھم کی جانب یعنی جملہ مہاجرین اوّلین کی طرف۔٭۱۴ پیر صاحب آگے فرماتے ہیں، ’’تو آیۃ استخلاف کا مطلب یہ ہوا کہ میں حاضرین سورۂ نور میں سے بعض کو زمین میں دین مرتضیٰ عند اللہ کے قائم کرنے کی قدرت عطا کروںگا کہ وہ لوگ خداداد تصرف و سلطنت، عدالت و تہذیب کی رو سے ادیانِ باطلہ اور شرکِ مطلق کو جس کے من جملہ اقسام ہوا پرستی بھی ہے، بیخ و بن سے اکھاڑ دیںگے۔ یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ لوگ جن کو میں خلافت اور تمکین دینِ اسلام اور بے غمی اور توحید عطا کروںگا، یہ لوگ ہوا پرست نہ ہوںگے اور کسی شے کو میرا شریک نہ بنائیںگے۔ حق سبحانہ تعالیٰ احکم الحاکمین و اصدق الصادقین، خلفاے اربعہ کو ہوا پرستی کے دھبے سے پاک اور بری فرماتا ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ ایسے لوگ جن کا مزکی اور بری کنندہ خود علام الغیوب ہو، کیا وہ اس درجے کے متعصب، ظالم اور ہوا پرست ہوسکتے ہیں؟۔۔۔ ہرگز ہرگز نہیں۔٭۱۵


یہ ہیں چند تاریخی حقایق جن کی روشنی میں اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے نعتیہ کلام کے تلمیحاتی اشاروں اور احوالِ اصحاب النبی المحترمﷺ کو سمجھا جاسکتا ہے۔ اب درجِ ذیل اشعار ملاحظہ فرمایئے:


اوّلیں دافعِ اہلِ رفض و خروج

چار می رکن ملت پہ لاکھوں سلام


یہاں اعلیٰ حضرت نے دوسرے خلفاے راشدین کے ذکر کے علی الرغم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے لیے بالخصوص ’’چار می رکنِ ملت‘‘ (خلافت کے چوتھے ستون) محض فاسد عقاید کے ابطال کی غرض سے ہی کہا ہے۔


کلیم و نجی، مسیح و صفی، خلیل و رضی، رسول و نبی

عتیقؓ و وصیؓ، غنیؓ و علیؓ ثنا کی زباں تمھارے لیے

ابوبکرؓ و عمرؓ، عثمانؓ و حیدرؓ جس کی بلبل ہیں
ترا سروِ سہی اس گلبن خوبی کی ڈالی ہے


اعلیٰ حضرت کی شاعری میں جو مقام ان کے لکھے ہوئے سلام کو حاصل ہے، وہ ان کے دوسرے کلام کو حاصل نہیں۔ ہر شاعر کے کلام میں شاہکار شعری مرقعے کم کم ہی ہوتے ہیں۔ نعت کی دنیا میں کسی کلام کی مقبولیت کا معیار عمومی شاعری کے قبول عام کے معیارات سے مختلف ہوتا ہے۔ نعت کی قبولیت کی ہوائیں مدینے کی طرف سے چلتی ہیں۔ رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے سلام کی قبولیت محتاجِ تعارف نہیں۔ اس سلام میں بھی اعلیٰ حضرت نے اصحاب ِ کرام رضو ان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو نذرانۂ عقیدت پیش کیا ہے۔ اس شعری شاہ کار میں انھوںنے خروج، رفض، نصب اور تفضیلی رویوں سے برأت کا اعلان فرماتے ہوئے، اہل سنت والجماعت کا یہ مسلک اجاگر کیا ہے، ’’الصحابہ کلھم عدول‘‘ (صحابہؓ سب کے سب عادل ہیں)۔ ۱۶


ان کے آگے وہ حمزہ کی جاں بازیاں

شیر غرَّان سطوت پہ لاکھوں سلام

پارہ ہاے صحف غنچہ ہاے قدس

اہلِ بیتِ نبوت پہ لاکھوں سلام

پارہ ہائے صُحُف غنچہ ہائے قُدُس

ان کے مولیٰ کے ان پر کروروں درود

وہ دسوں جن کو جنت کا مژدہ ملا

اہلِ بیت نبوت پہ لاکھوں سلام

ان کے اصحاب و عترت پہ لاکھوں سلا م

اس مبارک جماعت پہ لاکھوںسلام

ان اشعار میں سیّد الشہدا حضرت امیر حمزہؓ، تمام اصحابِ کرامؓ، اہلِ بیتِ نبوت، بدر کے تین سو تیرہ شریک اصحاب، احد میں شامل جاںنثارانِ رسولﷺ کے ساتھ ان تمام اصحابؓ پر بھی لاکھوں سلام بھیجے گئے ہیں جن کی بیعت کرنے کی ادا خود خالقِ کائنات کو پسند آئی، اسی لیے اس بیعت کو بیعتِ رضوان کا نام دیا گیا، ’’لقد رضی اللّٰہ عن المؤمنین اذ یبایعونک تحت الشجرۃ۔ (الایہ) (بے شک اللہ خوش ہوا ان مسلمانوں سے جب کہ وہ آپ سے بیعت کر رہے تھے درخت کے نیچے)۔ آخری شعر میں ان خوش نصیب اصحابؓ کا ذکر ہے جن کو دنیا میں جنت کی بشارت ملی تھی۔ ان اصحاب میں چاروں خلفاے راشدین کے علاوہ حضرت زبیرؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت سعیدؓ، حضرت سعدؓ، حضرت ابوعبیدہؓ اور حضرت عبدالرحمن ابن عوفؓ کے اسماے گرامی شامل ہیں۔

حضرت رضا نے خلفاے راشدینؓ کا تذکرہ بالخصوص ایک سے زیادہ اشعار میں کیاہے:


خاص اس سابق سیر قرب خدا

اوحد کاملیت پہ لاکھوں سلام

سایۂ مصطفی مایۂ اصطفیٰ

عز و شانِ خلافت پہ لاکھوں سلام

یعنی اس افضل الخلق بعد الرسل

ثانی اثنین ہجرت پہ لاکھوں سلام

اصدق الصادقیں، سیّد المتقیں

چشم و گوش وزارت پہ لاکھوں سلام


امامِ اہلِ سنت نے اہلِ اسلام کی مائوں کو بھی بھرپور خراجِ عقیدت پیش کیا ہے، میں یہاں رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ایسے اشعار کا حوالہ دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں، اس لیے کہ امت کی تمام مائیں حضورﷺ کی صحابیات کا درجہ بھی رکھتی ہیں۔ اعلیٰ حضرتفرماتے ہیں:


اہلِ اسلام کی مادرانِ شفیق

بانوانِ طہارت پہ لاکھوں سلام


اس شعر میں آیۂ قرآنی کی طرف اشارہ ہے جس میں اللہ ربّ العزت نے فرمایا ہے کہ ’’انما یرید اللّٰہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا۔ ’’اے اہلِ بیت نبیﷺ! اللہ تعالیٰ نے تم سے ناپاکی دور کرنے کا ارادہ کرلیا ہے اور تم کو پاک صاف ستھرا کرنے کا ارادہ کرلیا ہے۔‘‘ یہ آیۂ کریمہ امہات المومنین کے حق میں وارد ہوئی ہے۔ اس لیے امام اہلِ سنت نے یہاں اس آیت کی طرف تلمیحی اشارہ کیا ہے۔ لیکن حدیث کی رو سے بھی کچھ لوگ اہلِ بیت میں شمار کیے گئے ہیں، مثلاً (۱) جن پر زکوٰۃ لینا حرام ہے۔ بنی ہاشم، بنی عباسؓ، اولادِ علی، جعفرؓ، عقیلؓ، حارثؓ کی اولاد۔ (۲) آپﷺ کے گھر میں پیدا ہونے والے۔ (۳) آپﷺ کے گھر میں آنے جانے والے جیسے زید بن حارثہؓ، اسامہؓ بن زیدؓ وغیرہم۔٭۱۷


جلوہ گیان بیت الشرف پر درود

پردگیان عفت پہ لاکھوں سلام


اس شرف والے گھر میں جلوہ آرا پاک دامن طاہر و مطہر پردہ دار خواتین رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کی پردہ داری پر لاکھوں سلام ہوں۔ واضح رہے کہ امت کی عام مستورات حجاب اور چادر اوڑھ کر اجنبی مردوں کے سامنے آسکتی ہیں لیکن امت کی مائیں اس حالت میں بھی مردوں کے سامنے نہیں آسکتی تھیں۔٭۱۸


سیما پہلی ماں کہف امن و اماں

حق گزارِ رفاقت پہ لاکھوں سلام

عرش سے جس پہ تسلیم نازل ہوئی

اس سرائے سلامت پہ لاکھوں سلام

منزل من قصب لانصب لاصخب

ایسے کوشک کی زینت پہ لاکھوں سلام


ان اشعار میں حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کا ذکرِ جمیل ہے۔ جو پہلی ماں ہیں اور جن کے بطن سے حضورﷺ کی اولادیں ہوئیں۔ چار صاحب زادیاں حضرت زینبؓ (زوجہ حضرت ابوالعاص بن ربیعؓ)، حضرت رقیہؓ و حضرت امِ کلثومؓ، (ازواج حضرت عثمان غنی)ؓ اور حضرت فاطمہؓ (زوجہ حضرت علیؓ) اور صاحب زادے حضرت قاسمؓ، عبداللہ، طاہر وغیرہم۔ ان پر اللہ کی طرف سے سلام آیا اور جن کے لیے جنت میں ایک موتی کا گھر ہے جس میں شور ہے نہ کوئی تکلیف۔٭۱۹


بنتِ صدیق آرام جانِ نبی

اس حریم برائَ ت پہ لاکھوں سلام

یعنی ہے سورۂ نور جن کی گواہ

ان کی پُرنور صورت پہ لاکھوں سلام

جس میں روح القدس بے اجازت نہ جائیں

اس سرادق کی عصمت پہ لاکھوں سلام


حضرت عائشہ صدیقہؓ کے اوپر تہمت لگی اور اللہ تعالیٰ نے سورۂ نور میں آپؓ کی برأت کا اعلان فرما دیا اور آپؓ کے دولت کدے میں حضرت جبریل علیہ السلام بھی بغیر اجازت داخل نہیں ہوتے تھے:


شمع تابان کاشانۂ اجتہاد

مفتیِ چار ملت پہ لاکھوں سلام


اس شعر میں حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس شرف کی طرف اشارہ ہے کہ بیشتر راویانِ حدیث نے آپ رضی اللہ عنہا سے احادیث سماعت فرمائیں اور فقہا کرام نے ان کی روشنی میں قوانینِ شریعت کی تخریج کی اور اجتہادی فیصلے بھی کیے :


وہ عمرؓ جس کے اعدا پہ شیدا سقر

اس خدا دوست حضرت پہ لاکھوں سلام

فارق حق و باطل امام الہدیٰ

تیغ مسلول شدت پہ لاکھوں سلام

ترجمانِ نبی ہم زبانِ نبی

جانِ شانِ عدالت پہ لاکھوں سلام


حضرت ابوسعید خدریؓ نے روایت کی کہ حضورِ اقدسﷺ نے فرمایا، ’’جس نے عمرؓسے بغض رکھا، اس نے مجھ سے بغض رکھا جس نے عمرؓ کو دوست رکھا اس نے مجھے دوست رکھا۔‘‘ اس حدیث کی روشنی میں ہی اعلیٰ حضرت نے فرمایا ہے کہ عمرؓ کے دشمن پر ’سقر‘ (جہنم) عاشق ہے۔


زاہدِ مسجدِ احمدی پر درود

دولت جیش عسرت پہ لاکھوں سلام

درِ منثور قرآن کی سلک بھی

زوج دو نورِ عفت پہ لاکھوں سلام

یعنی عثمان صاحب قمیص ہدیٰ

حلہ پوشِ شہادت پہ لاکھوں سلام


یہ تمام اشعار حضرت عثمان غنی ذوالنورینؓ کی منقبت میں ہیں۔ آپؓ کے مثل زہد و تقویٰ، فیاضی اور سخاوت و دریا دلی کا ذکر ہے کہ اسلام پر اپنی دولت نچھار کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ حضرت عثمان غنیؓ نے ہی قرآنِ کریم کی ایک قرأت اور ایک طرزِ کتابت پر امت کو جمع کیا اور جامع القرآن کہلائے۔ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو جو قمیص ہدایت اور خلافت کی پہنائی تھی، اس کو آپؓ نے مفسدین کے جبر کے باوجود نہیں اتارا اور شہادت قبول فرمائی۔ آپؓ نے جنت کا لباس زیبِ تن کیا اور اس طرح اپنے آقا و مولیٰ رسولِ اکرمﷺ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ روایت فرماتی ہیں کہ نبیِ کریمﷺ نے فرمایا: ’’اے عثمانؓ! ممکن ہے اللہ تعالیٰ تم کو ایک قمیص (قمیص، جبۂ خلافت) پہنائے تو اگر لوگ تم سے اس کے اتارنے کا مطالبہ کریں تو تم ان کی وجہ سے اس کو مت اتارنا۔‘‘ (ترمذی) اور ابن ماجہ۔٭۲۰

سلام میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی منقبت کے اشعار اسی مضمون میں پہلے درج کیے جاچکے ہیں۔


اس سلام کے ذریعے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے حضور اکرمﷺ کے سراپا مبارک اور آپﷺ کی تعلیماتِ مقدسہ کو شعری متن بنایا اور اہتماماً صحابۂ کرامؓ، ازواجِ مطہرات، اولادِ امجادو عترتِ رسولﷺ کے ساتھ ساتھ اہلِ سنت والجماعت کے ہر مکتبِ فکر اور فقہی مذہب کے بانی حضرات اور حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ساتھ اولیائے امت کی خدمت میں عقیدت کے پھول نچھاور کیے ہیں، نیز فرمایا:

ایک میرا ہی رحمت پہ دعویٰ نہیں

شاہ کی ساری امت پہ لاکھوں سلام


اس طرح امام اہلِ سنت نے اپنی شاعری کا canvas قرآنی تعلیمات اور سنتِ نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے زمانی اور مکانی پھیلائو سے ہم کنار کردیا ہے اور حب رسالت کے دائرۂ نور کو عہدِنبوی سے قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے قلوب تک وسعت دے دی ہے۔ یوںماہِ اسوۂ رسولِ گرامی علیہ الصلوٰۃ والسلام سے براہِ راست روشنی حاصل کرنے والے ستاروں سے صراطِ ہدایت دیکھنے والی جماعت کی ہر عہد میں موجودگی کا احساس دلا کر دینِ متین کی ابدیت اور عشقِ سرکارِ ابد قرارﷺ کا استمرار ادبی سطح پر روشن تر کردیا ہے۔


کیوں جنابِ بوہریرہؓ! تھا وہ کیسا جامِ شیر

جس سے ستر صاحبوں کا دودھ سے منھ بھر گیا


اس شعر میں نبی اکرمﷺ کے معجزے کی طرف اشارہ ہے کہ اصحابِ صفہ کے لیے حضورﷺ کے گھر کا ایک پیالہ دودھ ۷۰ آدمیوں کے لیے نہ صرف کافی ہوگیا تھا بلکہ بھوک کی شدت کے باوجود وہ اتنے سیر ہوگئے تھے کہ ان میں سے کسی نے بھی مزید ایک گھونٹ کی گنجائش اپنے شکم میں نہیں پائی۔ اصحابِ صفہؓ کی ناز برداریوں کا بھی یہ عجیب پہلوہے۔ طوالت سے بچنے کے لیے چند اشعار بلاتبصرہ نقل کرتا ہوں:


شیخینؓ ادھر نثار غنیؓ و علیؓ ادھر

غنچہ ہے بلبلوں کا یمین و شمال گل

مولیٰ علیؓ نے واری تری نیند پر نماز

اور وہ بھی عصر سب سے جو اعلیٰ خطر کی ہے

صدیقؓ بلکہ غار میں جاں اس پہ دے چکے

اور حفظ جاں تو جان فروض غرر کی ہے

ہاں تو نے ان کو جان انھیں پھیر دی نماز

پر وہ تو کرچکے تھے جو کرنی بشر کی ہے

سعدین کا قران ہے پہلوے ماہ میں

جھرمٹ کیے ہیں تارے تجلی قمر کی ہے

میں نے اختصار کے خیال سے اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے کلام سے صرف چند الماس چن کر ان کی معنوی لمعات سے استفادہ کیا ہے۔ نعت حضور اکرمﷺ کی ذات والا صفات اور آپﷺ کی تعلیمات سے قلبی لگائو کا اشاریہ بھی ہے اور آپﷺ کی پیروی کرنے والے مخصلین ملت سے عقیدت کا ملفوظی اظہار بھی (ہمارے عہد تک آتے آتے اظہار عقیدت بیشتر ملفوظی ہی رہ گیا ہے)۔ شاعری کی دنیا میں لفظ کی حرمت اپنی جگہ لیکن نبی المحترمﷺ کے تمام اصحابؓ نے حضورﷺ کی سچی اور پکی پیروی کو ہی معیارِ مدحت بنایا تھا۔ امام اہلِ سنت اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے عہد صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کی ملفوظی مدحِ رسولﷺ کے نمونے بھی سامنے رکھے اور ان نفوسِ قدسیہ کی اتباع سیّد الکونینﷺ کے نقوش بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے شعری عمل (Poetic Work) میں قلبِ مومن کی دھڑکن بھی سنائی دیتی ہے اور ایمانی حرارت بھی محسوس ہوتی ہے۔ جذبے کی صداقت بھی ضو ریز ہے اور عقیدے اور عقیدت کے امتزاج کی جاوداں درخشندگی بھی۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی مدح رسولﷺ میں اتباعِ رسولﷺ کا ذکر قیامت تک آنے والے مسلمانوں کو صراطِ عمل دکھانے کے لیے سلسلبیلِ نور کا حکم رکھتا ہے۔ فیضیؔ نے اس خوش بختی پر اللہ ربّ العزت کا شکر ادا کیا ہے کہ وہ (فیضی) پیروِ اصحابِ رسولﷺ ہے:


صد شکر کہ ما پیروِ اصحابِ رسولیمؐ

در شرع دگر راہنما را نشناسیم


مضمون کے اختتام پر اتنی سی گزارش ہے کہ نعت چوں کہ شعری زبان میں لکھی جاتی ہے اس لیے اشعار کو پرکھنے کے لیے ان ہی پیمانوں کا استعمال کیا جانا چاہیے جو اعلیٰ شاعری کے انتقادی عمل میں معاون ہوں۔ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ اشعار کی زبان میں متن بننے والا بیانیہ (Narrative) معنوی قطعیت کا حامل بہت کم ہوتا ہے۔ کیوں کہ شعری زبان میں مفرد الفاظ یا مرکب الفاظ کا معنوی پھیلاؤ مختلف رجحانات رکھنے والے قارئین کو مختلف معنوی عکس دکھاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اشعار کی شرحیںاور تفہیم کے زاویے بدلتے رہتے ہیں۔


یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہنا ضروری ہے کہ شعر کہنے والا کوئی شخص بھی، صرف شاعر ہوتا ہے اس لیے اس کی تخلیقات کو شاعری کی حیثیت سے قبول یا رد کیا جاتا ہے۔غیر مسلم یا کم علم شاعر کی بھی اچھی شاعری سراہی جاسکتی ہے جب کہ کمزور شاعری ،کسی متقی و پرہیز گار اورمسلمان عالم کی بھی نظر انداز کی جاسکتی ہے۔ لہٰذا شعر کے حسن و قبح پر بات کرنے سے شاعر کی توہین یا تحسین کا پہلو نکالنے سے گریز لازمی ہے۔

میں نے بڑے دکھ سے یہ محسوس کیا ہے کہ اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری کو عوامی مقبولت تو حاصل ہوگئی لیکن اہلِ نقد و نظر کی توجہ نہ مل سکی۔ کیوں کہ اعلیٰ حضرت کے سادہ لوح پیروکار، ان کی شعری قوت، تخلیقی صلاحیت اور زبان و بیان پر ان کی قدرت کے انتقادی جائزے کی اجازت ہی نہیں دیتے ہیں۔ ان کی شعری کائنات کی سیر کرنے والوں کو مسلکی جنگ چھڑجانے اوران کے خلاف، تکفیری فتاویٰ جاری ہوجانے کا اندیشہ لاحق رہتا ہے۔ اگر یہی فضا برقرار رہی تو اردو شاعری میں نعتیہ متن کی تشکیل کرنے والے ایک اہم شاعرکو علمی و اتنقادی قریے میں داخلے کا کبھی بھی موقع نہیں مل سکے گا۔


عوامی مقبولیت چاہے کسی قدر اہم ہو، ادبی حیثت سے کسی شاعر کی Recognition نہ ہونا ، ادبی دنیا کی بڑی محرومی ہے۔تاریخِ ادب میں اعلیٰ حضرت کو ان کا جائز مقام نہ مل سکنے کی وجوہات پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے اور اس روش کو بدلنے کے لیے آزاد فضا پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ الحمدللہ! یہ کام ’’نعت رنگ‘‘ کے ذریعے ہورہا ہے ۔ معروف عربی اسکالر اور شاعر جناب ڈاکٹر خورشید رضوی نے بڑے پتے کی بات کی ہے۔میں ان کی چند سطور نقل کرکے اجازت چاہوں گا: ’’مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلویؒ کی ذات مسلمانانِ برِ صغیر کی ایک بہت بڑی تعداد کے لیے مرجعِ عقیدت ہے اور ان کا نعتیہ کلام شہرت و مقبولیت کے مرتبۂ بلند پر فائز۔ تاہم قبولِ عام بسا اوقات ایک حجاب بھی بن جاتا ہے۔ مولانا کے ساتھ یہی ہوا کہ ان کے عقیدت مندوں کا جذباتی وفور ان کے خالص علمی و ادبی مقام کی تعیین میں حارج رہا‘‘۔٭۲۱


حوالے اور حواشی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

٭۱۔آیت ۹۶، سورۃ مریم۱۹پ۱۶

٭۲۔ علمِ بدیع سے میری واقفیت واجبی سی ہے، اس ضمن میں حدایقِ بخشش کا مقدمہ تر قیمہ شمس بریلوی اور ڈاکٹر خورشید خاور امروہوی کی کتاب ’’مقدمۃ الکلام عروض و قافیہ‘‘ ملاحظہ فرمایئے…(عزیز احسن)

٭۳۔ سیرِ عثمان غنیؓ، حکیم محمود احمد ظفر، تخلیقات، لاہور، ص ۱۱۷۔۱۱۸ (بحوالہ صحیح بخاری)۔

٭۴۔ ایضاً ص ۱۱۷

٭۵۔ ’’جامع الاحادیث‘‘ مع افاداتِ مجددِ اعظم امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہٗ، جلد رابع، مرکز اہلِ سنت برکاتِ رضا، پوربندر (گجرات)۔

٭۶۔ تفسیر مظہری، جلد گیارہ، ص ۲۵۱

٭۷۔ امیر المومنین سیّدنا علیؓ، حکیم محمد احمد ظفر، تخلیقات، لاہور، ص ۲۵۷

٭۸۔ ایضاً ۱۸۲

٭۹۔ سیرتِ عثمان غنیؓ، محولہ ۷، ص ۴۹۴

٭۱۰۔ بحوالہ نقوش ’’رسولﷺ نمبر‘‘، ص ۳۳۴، (ہشتم)

٭۱۱۔ الرحیق المختوم، مولانا صفی الرحمن مبارک پوری، المکتبۃ السلفیہ، لاہور، ۶۲۷

٭۱۲۔ ایضاً، ۵۹۲

٭۱۳۔ تجرید بخاری شریف، قرآن محل، کراچی، جلد دوم، ص ۳۳۵

٭۱۴۔ تصفیہ مابین سنی و شیعہ، ص ۲، ۳، سیّد مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ، بار دوم، گولڑہ شریف، ضلع اسلام آباد، ۱۹۹۳ء

٭۔۱۵۔ ایضاً، ص ۶، ۷

٭۱۶۔ امیر المومنین سیّدنا علی، ص ۴۱۴

٭۱۷۔ آیۂ تطہیر کے حوالے سے تفسیر مظہری، جلد نہم، ص ۲۵۶، ۲۵۷ نیز کتاب مطلب ہاے سخنِ رضا، ۳۵۷، ملاحظہ ہوں۔

٭۱۸۔ سخن رضا مطلب ہاے حدایقِ بخشش، مولانا صوفی محمد اول قادری رضوی سنبھلی، ص ۳۵۸

٭۱۹۔ ایضاً ۳۶۰

٭۲۰۔ ایضاً، ص ۳۷۳ ٔ ٭۲۱۔فلیپ، ’’کلامِ رضا کے فکری و فنیّ زاویے‘‘ مرتبہ: صبیح رحمانی، نعت ریسرچ سینٹر، کراچی،2017 ء

٭ ٭٭اعلیٰ حضرت احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ،حدائقِ بخشش، کراچی ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭