کلامِ عارفانہ ۔ پروفیسر احمد اللہ خان

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


وحید القادری عارف کی شاعری پر ایک مضمون

از پروفیسر احمد اللہ خان

سابق ڈین شعبہءقانون ۔ عثمانیہ یونیورسٹی ۔ حیدرآباد، بھارت

کلام عارفانہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

عشقِ نبی ﷺ وہ سمندرِ بیکراں ہے جس کی شناوری ہر کس و نا کس کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ سعادت صرف اُن ہی کو حاصل ہوتی ہے جن پر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی نظرِ کرم ہو اور جن کو آپ نے شرفِ قبولیت بخشا وہی لوگ اپنے عشقِ نبوی ﷺ کے اظہار کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ جناب ابو الحسین سید وحید القادری عارفؔ صاحب اُن چند لوگوں میں شامل ہیں جن کو نہ صرف فنِ شعر گوئی کا شعور ہے بلکہ اس فن کی اعلیٰ صنف یعنی نعت گوئی کا سلیقہ بھی آتا ہے۔ عارف صاحب کے والدِ محترم المقام جناب ابو الفضل سید محمود قادری صاحبؒ ایک صوفی منش انسان تھے جن کے گھر کا ماحول خالص اسلامی تھا۔ اس ماحول کی بود و باش نے عارف صاحب کے خمیر کو وہ جلا بخشی جو ان کے نوکِ قلم سے نعتیہ کلام کی صورت میں چھلکنے لگی۔

فنِ شاعری کے رموز کے واقف کاروں کا کہنا ہے کہ شعر وہی اچھا ہوتا ہے جو سامعین کے دل کو چھولے۔ وہ محسوس کرنے لگیں کہ کاش یہ سعادت ہمارے مقدر میں آتی۔ اچھے شعر لکھے نہیں جاتے بلکہ وہ خود بخود ضبطِ تحریر میں آ جاتے ہیں جنکو آمد آمد کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ انسان جو باتیں غیر ارادی طور پر یا اضطراراََ کہہ جاتا ہے اُس میں اس کے ارادے کو دخل نہیں ہوتا۔ لیکن میرا خیال ہے کہ غیر ارادی طور پر خود بخود جو باتیں زبان پر آجاتی ہیں وہ دراصل انسان کے شعور کی تہہ میں جاگزین ہوتی ہیں اور وہ ان خیالات سے اتنا متاثر رہتا ہے کہ بعض وقت بغیر ارادہ وہ خیالات اس کی نوکِ زبان پر آجاتے ہیں۔ ایسے کلمات‘ جملے‘ یا خیالات بالکلیہ حقیقی اور سچے ہوتے ہیں اس لئے ان کو کہنے کے لئے عقل کو زحمت نہیں دینی پڑتی۔

علمِ نفسیات کے ماہرین کا خیال ہے کہ انسان کو سچ بولنے کے لئے زیادہ سونچنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ جب وہ جھوٹ بولتا ہے تب ہی اس کو منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے اور جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنے میں زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ فنِ شاعری میں وہ اشعار جن کو ”آمد آمد“کے حوالے سے جانا جاتا ہے وہ دل کی گہرائیوں سے نکلے ہوئے اشعار ہوتے ہیں اور ایسے اشعار اس بات کا ثبوت ہوتے ہیں کہ شاعر کا دل و دماغ رات دن ان ہی خیالات میں گم رہتا ہے۔ اُٹھتے بیٹھتے‘ سوتے جاگتے وہ اگر حبِّ رسول میں گم رہتا ہے تب ہی اس کو نعمتِ نعت گوئی حاصل ہو سکتی ہے۔

بظاہر دنیاوی کاروبار میں مصروف نظر آنے والے عارف صاحب کی اندرونی کیفیات دراصل مندرجہ بالا سطور کے ذریعہ ہی بیان کی جاسکتی ہیں۔ انتظامی اور تعمیری شعبہ جات سے تعلق رکھنے کے باوجود اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ان کو ذریعہءمعاش کے لئے وہ پاک سرزمین عطا کی جہاں سے وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے دربار میں جب چاہے حاضری لگا سکتے ہیں۔

عارفؔ صاحب کا خاندانی پس منظر‘ گھر کا مذہبی و علمی ماحول‘ والدِ محترمؒ کی تربیت اور خود ان کی ذاتی صفات نے ان کو ایک مثالی انسان اور غلامِ رسول ﷺ کی صورت میں ظاہر کیا ہے۔ عارف صاحب کے کلام میں وہ صفات صاف صاف نظر آتی ہیں جن کی تمہید اوپر بیان کی گئی۔ اُن کی نعتوں میں آمد آمد کا عنصر غالب ہے اور اگر ان نعتوں کے بعض اشعار کا حوالہ دیا جائے تو محسوس ہوگا کہ گویا عشقِ نبی ﷺ میں اپنے آپ کو مٹا دینے کی خواہش اورحُبِّ رسول ﷺ کی شدّت الفاظ میں ڈھل گئی ہے۔ مثلاََ ان کا یہ شعر

اُن کے در پر سر کو جھکانا اچھا لگتا ہے

ہوش میں رہ کر ہوش گنوانا اچھا لگتا ہے

یا پھر یہ کہ

ہستی کو اس طرح مٹانا اچھا لگتا ہے

خود کو کھو کر ان کو پانا اچھا لگتا ہے

ان دونوں اشعار میں تصوف اور فنا فی اللہ کے رموز صاف نظر آتے ہیں۔

عارفؔ صاحب کے نعتیہ کلام کا یہ بیش بہا خزانہ دراصل ان کے لئے توشہءآخرت بھی ہے جو انکی اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے بے پناہ محبت و عقیدت کا اظہار ہے اور جو شاید ہر ایک کی بخشش کا ذریعہ بھی ہے۔

عارفؔ صاحب کو اُن کے کلام کی اشاعت پر مبارکباد کہنے کے ساتھ ساتھ مژدہءبخشش و نجات کے ذریعہ پر بھی مبارکباد پیش ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ان کے نعتیہ کلام کو پڑھ کر پڑھنے والوں کے دل میں بھی عشقِ رسول ﷺ جاگ جائیگا اور شاید یہی عارف صاحب کے کلام کا قیمتی عنصر ہے۔

مخلص

پروفیسر احمد اللہ خان

سابق ڈین۔ شعبہءقانون عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

وحید القادری عارف | وحید القادری عارف کی حمدیہ و نعتیہ شاعری