کرناٹک میں اردو کی نعتیہ شاعری ۔ ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Naat Kainaat Naat Rang.jpg

مقالہ نگار : ڈاکٹرشاہ ارشاد عثمانی۔ بھارت

برائے : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 26

کرناٹک میں اردو کی نعتیہ شاعری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ABSTRACT:

KARNATAKA has contributed much towards Urdu in the shape of poetry, prose, journalism, research and linguistics etc. Poets and Poetesses belonging to Karnataka, who contributed towards genre of Naat have been introduced in this article, after showing some historical back ground of Urdu literature.

سرزمین کرناٹک نے تاریخ کے ہردور میں اردو زبان وادب کی آبیاری اورچمن بندی میں بلاشبہ ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں۔شاعری ہویانثر،لسانیات ہویاصحافت،سائنسی ادب ہو یاادب اطفال،ہرلحاظ سے کرناٹک کے ادیبوں،شاعروں اوردانشوروں نے اردو کوگنج ہائے گراں مایہ سے نوازا ہے۔خاص طور پر شاعری کی تقریباًجدید وقدیم اصناف وہیئت میں طبع آزمائی کی گئی ہے ظاہر ہے کہ ان میں صنف نعت گوئی بھی ہے۔جوبڑی عظمت واہمیت کی حامل ہے۔

تاریخی حیثیت سے اردو میں نعت گوئی کی روایت نئی نہیں۔یہ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ خود اردو شاعری،عہد قدیم سے لے کر آج تک شاید اردو کاکوئی شاعر ہو جس نے نعتیہ اشعار نہ کہے ہوں۔یہ الگ بات ہے کہ کسی نے خاص شغف اورلگاؤ کے ساتھ کہے ہیں اورپورے پورے دیوان یادگار چھوڑے ہیں کسی نیمحض تکلفات سے کام لیاہے اوراکا دکا نعتیہ غزلیں ہی کہی ہیں۔کچھ نے اعلیٰ درجے کی شاعری کے نمونے پیش کیے ہیں اورکچھ اوسط وادنیٰ سے آگے نہیں بڑھ سکے ہیں۔

اردو شاعری کی چارسو سالہ تاریخ میں نعتوں کاکتنا بڑاذخیرہ جمع ہوگیا ہوگا۔اس کا اندازہ ہراس شخص کو ہوگا جس نے اردو شاعری کا تسلسل سے مطالعہ کیاہے۔اگرچہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس ذخیرہ کازیادہ حصّہ بعض دوسرے موضوعات کی شاعری کی طرح معمولی درجے کا ہے لیکن ایک حصّہ ضرور ایساہے جوفکر وفن کے معیاروں پرپورا اترتا ہے اوربلند پایہ شاعری کے زمرے میں آتاہے۔

ایک طرف تواردو میں نعتیہ شاعری کی یہ وسعت اورعظمت ہے اوردوسری طرف ان تما م باتوں کے باوجود یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس نوع کی شاعری تقریباً ہرزمانے میں دبی دبی سی رہی ہے۔آخر ایساکیوں ہے؟میرے خیال میں اس کی واحدوجہ ہمارے ناقدین ومحققین کی بے اعتنائی ہے کہ عرصے تک وہ اردو کی تقدیسی شاعری یعنی حمد ونعت ومنقبت کی مذہبی حیثیت کی وجہ سے ادبی و تخلیقی سطح پراس کے اعتراف میں بخل سے کام لیتے رہے ہیں۔حالاں کہ واقعہ یہ ہے کہ اس شاعری کا تعلق براہ راست جذبے کی شدت اورسرمدیت سے ہے جہاں دل کی صاف اورسچی آواز سنی جاتی ہے۔ایسی شاعری اپنی تاثیر اوردلنشینی کی وجہ سے شاعر اورقاری دونوں کے سچے محسوسات کی ترجمان ہوتی ہے۔لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ اب حالات بدل رہے ہیں،برف پگھل رہی ہے۔آج مقدار و معیار دونوں اعتبار سے فن نعت میں قابل قدر اضافہ ہورہاہے۔

اس وقت برصغیر ہندوپاک میں استحکام نعت اورفروغ نعت کی منظم تحریک وجود میں آچکی ہے۔نعت رنگ دنیائے نعت اور جہان نعت جیسے یک موضوعی رسالے نکل رہے ہیں۔صرف اتنی ہی نہیں،مختلف مکاتب فکر وعقیدہ اورمسلک و مذہب سے وابستہ معتبر ترقی پسند جدید اورجدید تر شعرا تسلسل سے نعتیہ شاعری کررہے ہیں اور ہندوپاک میں جتنے ادبی رسائل نکل رہے ہیں مثلاً سیپ، سیارہ اورفنون(پاکستان)۔پیش رفت،شاعر،ایوان اردو ومعارف وغیرہ(ہندوستان )کے ادبی ماہنامے ،اپنے آغاز میں نعتوں کابڑا حصّہ اہتمام کے ساتھ شائع کرتے ہیں۔نعت کی یہ بے پناہ مقبولیت رسول مقبول حضرتصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شخصیت کااعجاز نہیں تو اورکیاہے؟ اردو شاعری کے ہردور اورہرمقام کے شعری نمونوں میں نعتیہ اشعار بھی بکثرت ملتے ہیں ۔ مولوی عبدالحق نے اپنی کتاب’’اردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیائے کرام کا کام‘‘میں حضرت خواجہ بندہ گیسو دراز(م:۸۲۵ھ)کے کچھ اشعار کواردو نعت کااولین نمونہ قراردیا ہے۔بطور مثال یہ شعر نقل کرتاہوں:

اے محمد حجلو جم جم جلوہ تیرا

ذات تجلی ہووے گی نین سپورن سہرا

نویں صدی ہجری کے مختلف صوفی شعرا خواہ وہ گلبرگہ و بیدرکے ہوں یابیجاپور وبنگلور و میسورکے،ان کے یہاں نعتیہ اشعارکثرت سے ملتے ہیں۔جن میں مقامی رنگ ورحجان اورموسیقیت کے ساتھ محبت کی حلاوت اورجذبے کی گرمی بھی موجود ہے۔

دورِحاضر میں یعنی آزادی ہند کے کرناٹک کے نعت گوشعرا کی جستجو میں جب تاریخ وتذکروں اورکلیات ودوادین کامیں نے جائزہ لیا توتقریباً ایک سو شعراء کی فہرست میرے سامنے آئی جن کی نعتیہ عطائیں فکروفن کی خوبیوں کے باعث لائق مطالعہ ہیں مگر یہ کام انتہائی طولانی اوردیدہ وری کاہے جوایک مبسوط تحقیقی وتنقیدی مقالے کامتقاضی ہے۔

سردست میں ان نعت گوشعراء کابطور خاص ذکر کرنا چاہتاہوں،جن کی شاعری کابڑا حصّہ نعتوں پرمشتمل ہے اورصاحب کتاب ہیں۔ ایسے شعراء کی تعداد مکمل طور سے دو درجن ہے۔دوسری فہرست ان کی ہے جوادبی و شعری لحاظ سے معتبر اورصاحب کتاب شاعر ہیں،ان کی تعداد یقیناًدودرجن سے کچھ زیادہ ہے۔جن کا مجموعہ غزلوں کاہویانظموں کا، ان کا آغاز عموماً حمدونعت ہی سے ہوتاہے۔ان مجموعوں کے خالق اگرچہ باقاعدہ نعت گو نہیں مگر ان کی نعتیہ شاعری تمام محاسن سے معمور ہے۔ان کی نعتوں میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمسے عشق ومحبت اور وارفتگی،قلبی وابستگی اورتعلق خاطر کا بے پایاں اظہار ہواہے۔

ان تمہیدی سطور کے بعد اب میں دور حاضر میں کرناٹک کے چند نعت گو شعراکا تذکرہ پیش کرناچاہتاہوں،حافظ کرناٹکی ایک خوش فکر،خوش گواورکہنہ مشق شاعر ہیں۔بچوں کے شعری ادب میں ایک خاص لہجہ رکھتے ہیں اس لہجے کی جھلک ان کی نعتوں میں بھی نظر آتی ہے۔وہ اردو نعت کی ایک توانا آواز ہیں،بچوں کے تومقبول ومحبوب شاعر ہیں ان کی شاعری سادہ و سہل ہونے کے ساتھ ساتھ پیغام عمل سے بھی مملو ہے۔اب تک حمد ونعت میں آپ کے چھ مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔آپ کی نعتوں میں جذبہ کی فراوانی کے ساتھ ساتھ اظہار کاسلیقہ اورانتہائی احتیاط بھی موجود ہے۔نعتیہ شاعری ہمیشہ سے ہی’’بامحمد ہوشیار‘‘کاتقاضا کرتی ہے۔اس لیے ہرشاعر نعت کہتے ہوئے ڈرتا اورگھبراتا ہے۔

جناب حافظ نے باضابطہ منظوم سیرت نگاری بھی کی ہے۔مگران کے دیگر نعتیہ اشعار میں بھی سیرت رسول پاکصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خوشبو مہک رہی ہے اور ان کی تمنا ہے کہ وہی خوشبو مسلمان معاشرے میں مجسم ہوجائے لیکن وہ اپنے معاشرے کی موجودہ صورتحال سے شاکی بھی ہیں:

محمد کی سیرت کو بھولے ہوئے ہیں

ہم عصیاں کے دریا میں ڈوبے ہوئے ہیں

ان کی نعتوں کامجموعہ’’شمع ہدی‘‘ہے جس کے ذریعہ انہوں نے بچوں کے ذہن میںیکسوئی کے ساتھ اپنے پیارے نبی کی محبت کاجذبہ پیدا کرنے،ایمان واعتقاد کوپختہ کرنے اوران کی ظاہری وباطنی تربیت اسلامی اصول واعتقاد کے مطابق کرنے کی کوشش کی ہے۔

محمد نے سب کو مروت سکھائی

صداقت محبت سخاوت سکھائی

ڈاکٹر سیدشاہ مدارعقیل دنیائے نعت میں محتاج تعارف نہیں۔ان کانعتیہ مجموعہ’’ردائے رحمت‘‘ شائع ہوچکاہے۔جس میں نعتیہ غزلوں کے ساتھ ساتھ جدید لب ولہجہ میں آزاد نظم کے فارم میں بھی نعتیں بڑی تعداد میں کہیں۔شاعری میں علمیت،شعریت اورمذہبیت کے تینوں زاویوں کوبرابر سے ایک جگہ دیکھنا ہوتوجناب عقیل کی شاعری کودیکھناچاہیے۔مثال ملاحظہ فرمائیے:

عروج ہستی آدم کی لازوال مثال

مقام سدرہ کی عظمت تمام آپ کے نام

ڈاکٹر راہی فدائی جدید نعتیہ شاعری کاایک معتبر نام ہے۔’’مہبط انوار‘‘آپ کانعتیہ مجموعہ ہے جب کہ ’’یاصاحب الجمال‘‘منظوم سیرت نگاری کاایک خوبصورت نمونہ ہے۔راہی فدائی کی نعتوں میں ندرت وسلاست کے ساتھ والہانہ عقیدت،نیاز مندانہ وارفتگی اوردربارنبوی سے لگاؤ داخلی کیفیات کا بے پناہ شوق نمایاں نظر آتا ہے۔آپ نے اپنی نعتوں میںآیات ربانی اور احادیث نبوی کی تعلیمات اورسیرت سرورعالم کوبڑے موثر انداز میں نظم کیاہے:

دشمن جاں تھے عمر،فاروق اعظم ہوگئے

خار رشک گل بنے،شعلے بھی شبنم ہوگئے

ان کی وہ چشم کرم،اعداء کے سرخم ہوگئے

جناب اسد اعجاز ایک ایسے خوش قسمت شاعرہیں جنہوں نے دوسری اصناف سخن پرطبع آزمائی کے ساتھ نعتیہ اشعار کہے ہیں۔آپ کی نعتوں کامجموعہ’’آبروئے سخن‘‘شائع ہوچکاہے۔جس میں حمد و مناجات اورمنقبت بھی ہیں۔جوشاعرکی پختہ گوئی اورزوربیان کابین ثبوت ہیں۔شاعر کوسرکار دو عالم سے جوعشق ومحبت اورعقیدت ہے ان کی تمام نعتوں میں مختلف انداز سے اسی کا اظہار ہواہے۔حسرت حاضری اورکیفیات حضوری کے رنگ بھی ان کی فضائے نعت پر چھائے ہوئے ہیں۔دوری میں حضوری کی کیفیت کااندازہ صرف ایک شعر سے کیجیے:

گنبد خضریٰ نظرآئے گا چشم دل سے دیکھ

اے اسد اعجاز تجھ سے کب مدینہ دورہے

آج کاانسان جس انتشار واضطراب ،بے چینی اوربحران کاشکار ہے اس کے تمام مسائل اوردکھ درد کاعلاج شافع محشر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے نسبت غلامی میں ہے۔اگرانسانیت کوآج حقیقی امن و سکون اورراحت وطمانیت درکارہے تواسے یہ نعت حضوراکرم کے قدموں میں ہی مل سکتی ہے۔

ذکر رسول پاک سے حاصل ہواسکوں

جب بھی دل و جگر میں ذرا بے کلی ہوئی

جناب ریاض احمد خمارؔ عصر حاضرکے ایک ایسے شاعر ہیں کہ جن کی غزلوں کامجموعہ’’جزیرہ امیدوں کا‘‘جب نظرنواز ہواتوان کی غمزدہ اوراداس شخصیت دردوالم کی شاعری کے آئینہ میں منعکس ہوگئی اورجب ان کی حمدونعت پرمشتمل کتاب’’سرحد یقین کی‘‘سامنے آئی تواندازہ ہوا کہ خمار ایمان و یقین کی سرحد کی جانب جادۂ عشق پرگامزن ہیں اور محبت وعقیدت کاوالہانہ نغمہ الاپتے ہوئے اس منزل کی سمت رواں ہیں جو حضرت محسنؔ ،امیرؔ ،اوررضاؔ کی راہوں سے ہوتا ہوا حضرت حسان بن ثابتؓ تک پہنچا ہے۔

کہتے ہیں جس کو لوگ مدینہ منورہ

بے شک وہ سرزمین ہے سرحد یقین کی

خمارؔ کی نعتیہ شاعری تمام تر ان کے ٹوٹے ہوئے دل کی آواز ہے۔جس میں کوئی تصنع نہیں وہ اپنی محبت اورقربت کااظہار بڑے آسان پیرائے میں سادگی اورسلاست کے ساتھ کرتے چلے جاتے ہیں اوراس کی روحانی کیفیت دل کی تہوں میں اترتی چلی جاتی ہے۔خمار کی نعتوں میں خلوص و محبت ہے۔بے ساختگی اورروانی ہے۔تڑپ ہے،چاہت ہے اور اسی چاہت کادم بھرتی ہوئی ان کی شاعری ان کے داخلی رموز کادلکش اظہار ہے:

جان لیجیے عشق میں ڈوبے بغیر

مدحتِ خیرالوریٰ ہوتی نہیں

خمارعشق محمد میں جو ہیں غرق انہیں

زیاں کی فکر نہ ارمانِ سود ہوتاہے

عشقِ رسول کالازمی تقاضہ اتباعِ رسول ہے اور دونوں لازم وملزوم ہیں،شاعر کوجہاں متاع عشق رسول حاصل ہے۔وہیں وہ اسوۂ رسول پرگامزن ہونے کی ضرورت واہمیت سے بھی واقف ہے:

زندگی میری بسر آپ کی تقلید میں ہو

ہے یہ خواہش یہ تمنا یہی حسرت آقا

مجھے ان کی ایک نعت،جس میں بظاہر شاعر نے اپنا درد وغم بارگاہ رسالت میں پیش کیا ہے مگر یہ ان کاذاتی کرب والم نہیں بلکہ یہ نعت اجتماعی آشوب،عصری آگہی اورملی شعور کامرقع ہے۔بڑی پسند آئی صرف ایک شعر ملاحظہ ہو:

نئی الجھنیں نئی مشکلیں نئے مسئلے نئی آفتیں

نئے امتحاں ہیں قدم قدم نہ کہوں میں ان سے توکیاکروں

جناب منیر احمد جامی گذشتہ تین دہائیوں سے پرورش لوح وقلم میں مصروف ہیں بہت پہلے حمدیہ مجموعہ’’حرف ناتمام‘‘منظر عام پرآیا،پھر نعتوں کامجموعہ’’نقش لاثانی‘‘دنیائے نعت میں ان کی منفرد شاخت کاباعث بنا اوراب غزلوں کامجموعہ’’اختراع‘‘ان کے زرخیز ذہن کی نشاندہی کررہاہے۔ منیر جامی کی نعت گوئی میں عشق رسول کی وارفتگی کے ساتھ ساتھ صوفیانہ اپروچ بھی نظر آتاہے۔جوان کے فکری میلان کااشاریہ ہے۔

وہی نظر ہے زمانے میں کامیاب نظر

جو نقش پائے محمد کو ڈھونڈتی ہوگی

دل و نگاہ جہاں غرقِ عشقِ احمد ہوں

وہاں پہ حسنِ عقیدت کی آگہی ہوگی

جناب اکمل آلدوری کرناٹک کے ممتاز ومعروف شاعر ہیں جن کانعتیہ مجموعہ’’نوروظہور‘‘شائع ہوچکاہے۔اس سے پہلے مجموعہ غزل ’’ساغر اخلاص ‘‘اور مجموعہ رباعیات’’سلگتے پھول‘‘کے نام سے دنیائے شاعری میں پیش کرچکے ہیں۔آپ کی نعتیہ شاعری میں رسول اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے اخلاص و عقیدت اورعشق ومحبت کی ورافتگی کابہترین اظہار ہواہے۔ایک نعت کے دواشعار دیکھلیجیے:

آگئے ختم نبوت کی سند لے کرحضور

آگئی خلقت سمٹ کر زیرِدامانِ رسول

تذکرہ ہے آپ کی رفعت کاجب قرآن میں

پھر کسی کی کیوں ہومحتاجِ بیاں شانِ رسول

جناب عبدالقدیر شاکرؔ بنگلوری مرحوم معروف ومقبول مترنم شاعر تھے۔آپ نے غزلوں کے دو مجموعے’’ساز فطرت‘‘اور’’آواز فطرت‘‘شائع کیے نیز نعتوں کاایک مجموعہ ’’نذرانۂ عقیدت‘‘پیش کیا۔ آپ نے زیادہ تر روایتی شاعری کی ہے اورنعتیں بھی رسمی وروایتی انداز کی کہی تھیں:

جسے بخشی گئی دین اوردنیا کی جہاں گیری

وہی ہے شافع محشر وہی اک کملی والا ہے

جناب سلام نجمی بھی مشاعروں کے معروف مقبول مترنم شاعر ہیں۔آپ کی غزلوں کا مجموعہ’’تابہ افق‘‘اورحمد ونعت ومنقبت کامجموعہ ’’جذبۂ اطہر‘‘شائع ہوچکاہے۔آپ کے کلام میں بھی روایتی نعت گوئی کے تمام مسلمات موجود ہیں،ایک نعت کے یہ شعر ملاحظہ کیجیے:

کتنا پُرکیف ہے کس قدر جانفزا

کتنا دلکش ہے ذکر و بیاں آپ کا

سرنگوں کیوں نہ ہوجائے نجمی وہیں

ذکر شاہ ہدیٰ ہو جہاں آپ کا

جناب کوثر جعفری بھٹکلی مرحوم ایک بزرگ اورکہنہ مشق شاعر ہیں۔آپ کی غزلوں کامجموعہ ’’موج سخن‘‘ہے جودراصل من کی وہ موج ہے جوبے اختیار شعرکے قالب میں ڈھل کر ہمیں سرخوشی ومستی عطا کرتی ہے۔کوثر کی دوسری جہت نعت نگاری ہے جو اپنے خلوص ،والہانہ وارفتگی ،بحر محبت کی طغیانی اور آبشارِ عقیدت کی روانی کے باعث بڑی بلنداور اوج سخن کے مقام پر فائز ہے۔کوثر جعفری کی اصل شناخت ان کے نعتیہ مجموعہ کلام ’’اوج سخن ‘‘ میں شامل نعتیں ہیں۔

عشق رسول کے بغیر نعت گوئی ممکن نہیں بقول میر تقی میر ؔ ’’عشق بن یہ ادب نہیں آتا ‘‘کوثر کی نعتیہ شاعری دل کی شاعری ہے جودل والوں کومتاثر کرتی ہے،چند اشعار دیکھیے:

ہے سودائے عشق نبی میرے سرمیں

بگولے نہ آئیں مری رہگزر میں

محبت میں نہیں اندیشۂ سودو زیاں مجھ کو

کہ بخشا ہے نبی کے عشق نے دردِنہاں مجھ کو

ہری ہر کے نوراحمد سورجؔ کرناٹکی نے شعری مجموعہ ’’صبح امید‘‘ کے بعد نعتیہ مجموعہ ’’تجلیات ‘‘ بھی پیش کردیا ہے۔چند اشعار دیکھیے:

جو شخص مصطفی کا مددگار ہوگیا

اللہ پاک اس کا مددگار ہوگیا

سورجؔ نبی کے عشق میں کیا ہوگئے مگن

خوابیدہ بخت آپ کا بیدار ہوگیا

جناب عبدالستار مائل ٹمکوری کاشعری مجموعہ قندیل شائع ہوچکا ہے۔نعتیہ مجموعہ ’’نذرانے ‘‘ کے ذریعہ آپ نے بارگاہ رسالت میں عقیدت ومحبت کے پھول نذر کیے ہیں۔

کچھ ایسا علم رسالت مآب لائے ہیں

کہ ذہن وفکر میں اک انقلاب لائے ہیں

اندھیرا چھٹنے ہی والا ہے کفر کامائل

وہ کارِ خیر کا ایک آفتاب لائے ہیں

جناب رزاق کوثر میسور کی ادبی وشعری سرگرمیوں میں بے حد متحرک وفعال کردار ادا کرتے رہے ہیں،آپ کی نعتیہ شاعری کامجموعہ ’’اعتراف‘‘ کاکلام جذبے کی فراوانی اوراحساسات کی شدت کے ساتھ خلوص ومحبت میں ڈوبا ہواہے۔ بطور نمونہ ایک نعت کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

آپ میرے دین وایماں میری دنیا آپ ہیں

آپ ہیں میرا مقدر میری عقبیٰ آپ ہیں

ہرتہی داماں نے پائی آپ سے اپنی مراد

ہرامید تشنہ لب کے حق میں دریا آپ ہیں

جناب رزاق اثر کانعتیہ مجموعہ ’’حص حص الحق ‘‘ (اورحق ظاہر ہو ہی گیا) دسمبر ۲۰۱۳ میں شائع ہوا ہے۔اس سے پہلے ۲۰۰۲ میں نعت و منقبت پرایک مجموعہ’’بیاض تنہا‘‘شائع ہواہے۔علاوہ ازیں پانچ شعری مجموعے بھی شائع ہوچکے ہیں۔آپ قادر الکلام اورپختہ مشق شاعر ہیں اورنعت گوئی کے آداب واسالیب سے اچھی طرح واقف ہیں یہی وجہ ہے کہ ہرجگہ احتیاط اور تقاضائے ادب واحترام کا پوراپورا لحاظ رکھا ہے۔یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے:

مسلسل آنکھ سے بہتے ہیں آنسو نام لیتے ہی

ہے کیسا غم سمجھ میں کچھ نہیں آتا رسول اللہ

ان کے وسیلے سے ہی خدا کا پتہ ملا

ان کا توکائنات پہ احسان ہے بہت

جناب آغا اختر عباس اخترعلوی نے بیشتر اصناف نثرو نظم میں طبع آزمائی کی ہے۔آپ بنگلور کی بے حد متحرک شخصیت ہے۔آپ نے غزلوں کے علاوہ حمد ونعت اورسلام ومرثیہ بھی خوب خوب لکھا ہے۔’’چشم جم‘‘،اور’’ضرب عزا‘‘کے نام سے آپ کے دومجموعے شائع ہوچکے ہیں۔نعتیہ شاعری میں روایتی لب ولہجہ کے باوجود عشق ومحبت کی وارفتگی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے:

دامانِ نبی تھام لواللہ ملے گا

اللہ کا طالب ہے طلبگارِ محمد

اللہ کامژدہ ہے یہ بندوں کو اے اختر

جنت کا ہے حقدار وفادارِ محمد

ضلع بنگلور کے شہر چن پٹن کی فضاؤں میں شعروادب کوبرگ وبار اورخصوصیت کے ساتھ نعت گوئی کے فن کوپروان چڑھانے والی ناقابل فراموش شخصیت حضرت زین العابدین تقدیر مرحوم ومغفور کی تھی آپ ایک کہنہ مشق بزرگ شاعر تھے کہتے ہیں کہ تقریباً تمام نوجوان شعرائے چن پٹن آپ کے حلقہ شاگردی میں شامل تھے۔آپ کی زندگی میں آپ کانعتیہ مجموعہ ’’نوشتہ تقدیر‘‘کے عنوان سے شائع ہوابقیہ تمام کلام آپ کے انتقال کے بعدآپ کے وارثوں نے شائع کرایا۔نمونہ کلام ملاحظہ کیجیے:

آجائے نظر مصحف رخسار محمد

مدت سے ہوں میں تشنۂ دیدار محمد

کیوں کر نہ اثر زمزمہ سنجی کاہو اس کی

تقدیر ہے اک بلبل گلزار محمد

جناب عبدالحق جوہر صدیقی نے اپنی غزلوں کامجموعہ’’آوارہ لکیریں‘‘پیش کیا۔پھر مجموعۂ نعت و منقبت ’’صلواعلیہ وسلموا‘‘کے عنوان سے شائع کیا۔چند نعتیہ اشعار ملاحظہ کیجیے:

آدمیت کے شرف کاتاج پرانوار ہے

برسر عرش معلی نقش پائے مصطفی

ہے خدا کی شان رزاقی کایہ فیضان خاص

دو جہاں کو کر دیا مہماں سرائے مصطفی

محمد حبیب صابرؔ شاہ آبادی مرحوم ملک کے معروف ومقبول نعت گوشاعر تھے آپ نے اپنی زندگی کے تقریباً ۴۵ سال خدمت شعروسخن میں صرف کئے جن کابیشتر حصّہ نعت گوئی پرمشتمل ہے۔آپ کی نعتیہ شاعری کے چارمجموعے شائع ہوئے ہیں۔رحمت عالم،سلسلہ انوار،ضامن نجات اورتہذیب منورہ جن کی نعتیں کافی عظمت واہمیت کی حامل ہیں۔آپ کے نعتیہ کلام کے موضوعات میں تنوع ہے۔ خیالات میں جدت اورندرت،جذبات میں گہرائی وگیرائی اورفکر کی بلند پروازی ہے۔صاف و شگفتہ اوررواں دواں اسلوب میں خلوص ومحبت اورعقیدت کااظہار کمال ہنرمندی کے ساتھ کیاہے۔شعر ملاحظہ فرمائیں:

مسلماں کی تعریف جو بھی ہو لیکن

ہے مومن وہی جو غلام آپ کا ہے

نہ الفاظ صابر نہ آواز صابر

کلیم آپ کا ہے کلام آپ کا ہے

ڈاکٹر سید شاہ خسرو حسینی عصر حاضر کے وہ معروف نعت گو شاعر ہیں جنہوں نے اردو کے ساتھ فارسی اورہندی میں بھی کثرت سے نعتیں کہی ہیں۔آپ کانعتیہ مجموعہ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘شائع ہو چکا ہے جودراصل حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کے ادبی وشعری ورثہ کی توسیع ہے اورخوشی کی بات یہ ہے موصوف نے اس روحانی وشعری سلسلہ کو پوری توجہ،انہماک اوراستعداد کے ساتھ جاری ساری رکھا ہے۔یہ پورا مجموعہ کلام خلوص ومحبت کے جذبے سے سرشار،عشق و عقیدت کی خوشبو سے معطر ایمان و یقین کی کیفیت اورتسلیم ورضا کے رنگ میں رنگا ہواہے۔بطور مثال:

مدینہ کو جانے کو جی چاہتا ہے

وہاں سے نہ آنے کو جی چاہتا ہے

رہوں ان کے قدموں میں ہے یہ تمنا

اور آنسو بہانے کو جی چاہتا ہے

ڈاکٹر وحید انجم ایک قادرالکلام اورخوش فکر شاعر ہیں،دیگر اصناف سخن کے ساتھ صنف نعت پر بھی خصوصی توجہ دی ہے اور اس فن میں مہارت حاصل کی ہے۔’’ابررحمت‘‘آپ کا مجموعۂ کلام ہے۔آپ کے نعتیہ کلام میں فکر کی گہرائی اور خلوص کاجذبہ کارفرما نظر آتاہے:

زمانہ دور کرتا تھا غریبوں اور یتیموں کو

محبت سے گلے ان کو لگانے مصطفی آئے

سید صبیح حیدر صبیح مرحوم، معروف نعت گو شاعر تھے جن کی خوبصورت نعتوں کامجموعہ’’پہلی ضیاء‘‘ شائع ہوچکاہے۔خلوص ومحبت اورعشق و عقیدت کے اظہار،جذبات کی گہرائی اوراحساسات کی شدت کے اعتبار سے آپ کانعتیہ کلام کافی اہمیت وعظمت کاحامل ہے۔یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:

ہر لمحہ میں خدا سے دعا مانگتا رہوں

کٹ جائے میری زندگی عشق رسول میں

’’نشاط نور‘‘عبدالستار خاطرؔ کادلکش نعتیہ مجموعہ ہے۔آپ کے پورے نعتیہ کلام پرجذب و مستی، وجدوشوق ،حسرت وتمنا اورجستجو وآرزو کی فضا مسلط ہے۔شعر دیکھیے:

خاطر کے سوا میرے کچھ پاس نہیں خاطرؔ

لے جانے سے قاصرہوں سوغات مدینے میں

ابھی تک یہاں جن شعراء کاذکر ہواہے وہ سب نعتیہ شاعری میں اپنے خصوصی انہماک شغف اورلگاؤ کے باعث امتیازی مقام رکھتے ہیں اورجنہوں نے دوسرے شعری مجموعوں کے ساتھ ساتھ نعتیہ مجموعوں کی اشاعت کاخصوصی اہتمام بھی کیاہے۔لیکن اس وقت ایک بڑی تعداد ان معتبر شعراء کی بھی ہمارے سامنے ہے جنہوں نے باقاعدگی کے ساتھ نہ سہی مگرتسلسل کے ساتھ عمدہ نعتیہ شاعری کے نمونے پیش کیے ہیں۔طوالت کے خوف سے تفصیلی تذکرہ قلم اندازکرتے ہوئے صرف چند نام لکھنے پراکتفا کرتا ہوں۔

ان شعراء میں شاہ ابوالحسن ادیب،آزاد ساحری،ابراہیم ذائق،محمد علی فائق،سیدا حمد ایثار،محمد حسین فطرت بھٹکلی،محمد حنیف شباب،مظہر محی الدین،عزیز بلگامی،ضیا کرناٹکی،الف احمد برق، انورمینائی،راہی قریشی،محب کوثر،گوہر تریکیروی،سیداحمد راحل،سلیمان خطیب،سہیل نظام،ساغر کرنا ٹکی،شاد باگل کوٹی،وغیرہ۔

آخر میں کرناٹک کے چند غیر مسلم نعت گو شعراء کاذکر ضروری سمجھتا ہوں جن کی مادری زبان کنڑاہے مگرانہوں نے اردوزبان میں اپنی عقیدت ومحبت کااظہار جس لب ولہجہ میں کیاہے وہ یقیناًہر پہلو سے قابل داد ہے۔ڈاکٹر کے۔مدنا منظرؔ شہر گلستاں بنگلور کے معروف شاعر،مقبول میڈیکل پریکٹشنز اورسماجی کارکن تھے۔اردو،ہندی،کنڑا اورانگریزی چاروں زبانوں میں شاعری کرتے تھے۔ اردو میں آپ کے چارشعری مجموعہ منظرعرفان،حسن عرفان،منظر بہ منظر اورمجموعہ حمد ونعت تجلیات شائع ہوچکے ہیں۔بطور نمونہ شعر ملاحظہ فرمائیں:

اخلاق کاعالم کیا ہوگا اطوار کاعالم کیا ہوگا

حق جس پہ فدا ہے وہ حسنِ سرکار کاعالم کیاہوگا

جب شان تکلم ہوتی ہے قربان خموشی پرجس کے

پھرایسے رسولِ امی کی گفتار کاعالم کیا ہوگا

ہبلی کے ونکیا کاملؔ کلادگی اردو نعت گوئی میں اپنی ایک الگ شناخت رکھتے ہیں ان کاکلام ظاہر کرتا ہے کہ ان کی نعت گوئی ذہنی کاوش یامحض(Mehant)کانتیجہ نہیں ہے بلکہ ان کے دل کی آواز اور ان کے طبع شاعرانہ کی فکری جولان گاہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ کاملؔ کلادگی(Kaladagi)کی نعتوں میں ہر جگہ ایک ایسی سادگی ہے جوایک طرح کی پرکاری لیے رہتی ہے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے:

تیری باتوں کااثرآج بھی باقی ہے مگر

جن سے غافل ہے مسلمان رسول عربی

ہم کومل جائے گاہر درد کادرماں جس میں

تونے بخشا ہے وہ قرآن رسول عربی

فقیری میں لٹا دیتاہوں جوکچھ پاس ہے میرے

مری دنیامیں جو بھی ہے اثاثہ سب محمد کا

شری رام چندرراؤ جوشاعری میں راج پریمیؔ کے قلمی نام سے معروف ہیں۔گلبرکہ کے ضلع کے رہنے والے،عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد کے قدیم گریجویٹ ہیں اور گذشتہ نصف صدی سے پرورش لوح و قلم میں مصروف ہیں۔آپ کاایک شعری مجموعہ’’نوائے سحر‘‘شائع ہوچکاہے جس کے آغاز میں حمدو نعت اورمنقبت کی بڑی تعداد موجود ہے۔آپ کانعتیہ کلام عقیدت ومحبت اور وفورجذبات کاآئینہ ہے۔ فرماتے ہیں:

یہ اشک ندامت کے ، تو انمول رتن ہیں

لایا ہوں یہی ساتھ میں سامانِ مدینہ

گیان چند مرمکیہؔ جدید لب ولہجے کے خوش فکر شاعر ہیں جوشہر گلستاں بنگلور کی ادبی فضا کوچار چاند لگارہے ہیں آپ نے دیگراصناف شاعری کے ساتھ ساتھ نعتیہ اشعار بھی بہت ڈوب کرکہے ہیں جس میں برجستگی ،روانی اورمحبت و عقیدت کی فراوانی ہے۔دیکھیے:

آپ کی یاد ہم کو ستاتی رہی اورخوشبو مدینہ کی آتی رہی

آہٹیں مون تھیں،لفظ خاموش تھے یہ ہوا پھر بھی کلمہ سناتی رہی

لوگ بے چین تھے لوگ حیرا ان تھے، ہرطرف نفرتوں کے ہی سامان تھے

کی عطا آپ نے علم کی روشنی،جودل وجان میں جھلملاتی رہی

اب میں اس موضوع کے ایک دوسرے پہلو کی طرف آتا ہوں اوروہ ہے اردونعت میں خواتین کی خدمات اورحصّہ داری۔اس تعلق سے ادھر کئی تحقیقات وتصنیفات برصغیر ہندوپاک میں سامنے آچکی ہیں۔اس وقت خود ریاست کرناٹک کی نعت گوشاعرات کی ایک فہرست ہمارے سامنے ہے۔ جن میں چند کاذکر ضروری ہے۔

ڈاکٹر صغریٰ عالم مرحومہ گلبرگہ کی معروف نعت گوشاعرہ تھیں۔حمدونعت پرمشتمل آپ کے دو مجموعے’’محراب دعا‘‘اور’’باب جبرئیل‘‘شائع ہوچکے ہیں۔آپ کی نعتوں میں بڑی سادگی وسلاست کے ساتھ رسول اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمکی تعریف وتوصیف،تسلیم واطاعت اورخلوص وعقیدت کابیان ملتا ہے ملاحظہ فرمائیں:

خداجو بخش دے،مجھ کوکروں شمس وقمر صدقے

نہیں میری مگریہ کائنات بحرو بر صدقے

امت کو اپنے نور سے آراستہ کیا

اک نور مستقل ہے جہاں جا کے دیکھیے

محترمہ سیدہ اخترمرحومہ شادی کے بعد حیدرآباد سے منتقل ہوکربنگلور میں مقیم تھیں۔شاعری کی تقریباً تمام اصناف میں مشق سخن کرتی تھیں مگر نعت گوئی سے خصوصی شغف تھا ایک نعت کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے:

چھیڑ کے ساز لاالہ دھوم مچا گیا کوئی

روح جہاں تھی محوخواب آکے جگا گیا کوئی

دشمن جاں پہ بھی رہیں عدل وکرم کی بارشیں

عدل وکرم کوکس قدر عام بنا گیا کوئی

محترمہ زیرابتول مرحومہ کی نعتوں کامجموعہ ’’مہکتے پھول‘‘شائع ہوچکاہے۔آپ کی نعتیں عشق و محبت کے جذبۂ صادق کے ساتھ نسوانی احساسات کی بھی ترجمانی کرتی ہیں۔انداز دیکھیے:

یاد آئے جب مجھے زہراؔ حرم کے واقعات

میں تڑپ کر رہ گئی آنسو بہا کررہ گئی

ہمیں بھی حشر میں کوثر نصیب ہو یا رب

ہمارا ساقی وہ خیرالانام ہو جائے

محترمہ حسنی سرور معروف فکشن نگار اور شاعرہ ہیں،آپ کے تین شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔آپ کی شاعری کابنیادی استعارہ روشنی ہے۔نعت کے اشعار دیکھیے۔نعت کے نور سے آپ کی شاعری کیسی روشن ہے:

انگلیاں ہوگئیں پر نور صحیفہ روشن

نعت گوئی سے ہوا ہے مرا خامہ روشن

میں کہ ایک ذرہ ناچیز ہوں حسنٰی لیکن

عشق احمد نے کیا میرا نصیبہ روشن

محترمہ رضیہ یاسمین راز وانمباڑی تامل ناڈو کی رہنے والی ہیں مگرشادی کے بعد گزشتہ کئی دہائیوں سے بنگلور میں مقیم ہیں۔شاعری کی دوسری اصناف کے ساتھ نعت گوئی میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔انہیں رسول اکرم سے گہری اورسچی عقیدت ومحبت تھی۔جس کااظہار ان کی نعتیہ شاعری میں خوب خوب ہواہے۔یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:

مٹوں گی میں ناموس محبوب حق میں

یہی ہے مری زندگانی کا حاصل

تشنہ لبی کامیری ہے راز یہ تقاضا

پی لوں گی جب وہ دیں گے کوثر کاجام کہنا

محترمہ شہوار بیگم کولار کی مشہورشاعرہ ہیں۔بچوں کے شعری ادب میں بھی آپ کی ناقابل فراموش خدمات ہیں آپ نے نعتیہ شاعری بھی خصوصی لگاؤ اور شغف کے ساتھ کی ہے۔یہ اشعار دیکھیے:

و اللہ مدینے کا کیا خوب نظارہ ہے

اس خاک کاہر ذرہ رخشندہ ستاراہے

بیگم نے بھی آقا کی مدحت کے تصور میں

گلہائے عقیدت سے دل اپنا سنوارا ہے

ان شاعرات کے علاوہ فریدہ رحمت اللہ،نجیبہ خانم نرگسؔ ، زہرا فاطمہ،مہ جبیں نجم،شائستہ یوسف،ریحانہ بیگم،نیلوفرنایاب،شبانہ ثمین،صباح نکہت اور فرزانہ فرح وغیرہ کرناٹک کی ایسی شاعرات ہیں جودیگر اصناف سخن کے ساتھ ساتھ خوبصورت نعتیہ شاعری بھی کررہی ہیں۔آخر میں یہ بھی عرض کر دوں کہ یہاں میں نے اس گلشن سے چند کلیاں ہی منتخب کی ہیں ان کے علاوہ بھی نئی نسل کے درجنوں شعراء ہیں جن کے ہاں مستقبل کی نعتیہ شاعری کے امکانات بہت روشن اورواضح ہیں۔