کرم کیجِیے تاجدار مدینہ ۔ غلام جیلانی خان

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


مضمون نگار : غلام جیلانی خان

مطبوعہ : روزنامہ پاکستان <ref> [https://dailypakistan.com.pk/21-Jul-2016/416327 روزنامہ پاکستان </ref>

کرم کیجیے تاجدار مدینہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

کل کسی انڈین روزنامے (شائد ’’ہندو‘‘) میں یہ خبر نظر سے گزری کہ بھارت کی دورِ ماضی کی مشہور گلوکارہ مبارک بیگم کا انتقال ہو گیا ہے۔ ان کی عمر80 سال تھی اور وہ طویل عرصے سے مختلف عوارض کا شکار تھیں۔ اللہ کریم ان کو جوارِ رحمت میں جگہ دے (آمین!)

یہ 1960ء کے عشرے کے وسط کی بات ہے۔ ہمارے گھرمیں آج کے ٹیلی ویژن سیٹ کے سائز کا ایک جرمن ریڈیو ہوا کرتا تھا جس کا نام ’’گرنڈگ‘‘ تھا۔ جب ٹیلی ویژن مارکیٹ میں آیا تو ریڈیو غائب ہونے لگے۔ لیکن اس غیاب سے پہلے ٹیوبوں والے بھاری بھرکم ریڈیو سیٹ، ٹرانسسٹروں میں تبدیل ہو چکے تھے جو وزن میں بہت ہلکے ہوتے تھے اورپورٹیبل بھی تھے۔ آج وہ بھی نایاب ہیں۔ اسی دور میں مجھے ایک رات ریڈیو سیلون سے ایک نعت سننے کا اتفاق ہوا جو کسی مبارک بیگم نے گائی تھی اور اس کا ٹیپ کا مصرعہ تھا:


کرم کیجئے تاجدارِ مدینہ


ہمارے لئے یہ ایک نئی آواز تھی۔ ان ایام میں انڈیا میں لتا منگیشکر،آشا بھونسلے، طلعت محمود، محمد رفیع اور شمشاد بیگم کا بطور گلوکار طوطی بولتا تھا۔ مبارک بیگم کا نام سن کر ہمیں بہت تعجب ہوا کہ ایسی سریلی آواز سے ہمارے کان ابھی تک ناآشنا کیوں رہے۔ اگلے روز دوستوں یاروں سے ملنا ہوا تو ہم نے رات کو سنی ہوئی اس نعت کا ذکر کیا اور ساتھ ہی تعجب سے پوچھا: ’’یار! یہ مبارک بیگم کون ہے؟ اس کی آواز میں بلا کا سوز اور غضب کی غنائت ہے۔ کیا آپ نے وہ نعت سنی ہے؟۔۔۔‘‘ جب احباب نے سنا تو کسی نے جواب دیا: ’’یہ انڈیا کی پلے بیک سنگر ہے۔ اس نے تو بڑے مشہور و معروف فلمی گیت گائے ہیں۔ حال ہی میں محمد رفیع کے ساتھ اس کا دو گانا ریلیز ہوا ہے جس کے بول ہیں۔۔۔ ہم کو اپنے گلے لگا لو اے میرے ہمراہی۔۔۔‘‘


یہ گانا اور فلم کی تشہیر ان دنوں ریڈیو سیلون پر بھی آیا کرتی تھی۔ لیکن ہم سمجھتے تھے کہ محمد رفیع کے ساتھ جو نسوانی آواز ہے وہ لتا کی ہے۔ مجھے یہ سن کر حیرانی ہوئی کہ ان دونوں آوازوں میں بہت مماثلت تھی۔ پھر ایک دوسرے دوست نے ایک اور گیت کا ذکر کیا جس کا مکھڑا تھا: کبھی تنہائیوں میں یوں ہماری یاد آئے گی۔۔۔ اندھیرے چھا رہے ہوں گے کہ بجلی کو ند جائے گی۔۔۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ گانا بھی لتا کا نہیں مبارک بیگم کا گایا ہوا ہے۔


ان ایام میں تفریح کا ذریعہ صرف سنیما ہوتا تھا یا ریڈیو۔ میرا تعلق چونکہ پاک پتن سے ہے اس لئے ایک تیسرا ذریعۂ تفریح بھی بالخصوص ہمارے شہر میں ملا کرتا تھا جو سال میں دوبار میسر آتا۔ میری مراد حضرت فرید الدین گنج شکرؒ اور ان کے داماد حضرت بدرالدین اسحاق ؒ کے عرسوں سے ہے۔ ان دونوں مواقع پر برصغیر کے تمام مشہور قوال ان مزاروں پر حاضری دیا کرتے تھے۔ ہم پرائمری سکول سے لے کر ہائی سکول تک کے تمام برسوں میں ان دونوں مواقع پر ان عرسوں میں بڑے ’’خشوع و خضوع‘‘ سے شرکت کیا کرتے تھے۔ اور ہماری دلچسپی کا سب سے بڑا سبب،زیارت یا شوقِ فاتحہ خوانی نہیں ہوتا تھا بلکہ دونوں درگاہوں میں گائی جانے والی قوالیاں ہمیں کھینچ کر وہاں لے جاتی تھیں۔ ان قوالیوں ہی کے توسط سے ہمارے کان موسیقی کی است و بود سے متعارف ہوئے۔ دس دس پندرہ پندرہ روز تک قوالیوں کے یہ سیشن سننے کو ملتے تھے۔ برصغیر کے مشہور قوالوں میں مبارک علی خان، فتح علی خان، نزاکت علی خان، سلامت علی خان،رشید احمد تابیکے، بشیر احمد تابیکے، حافظ محمد علی، غلام فرید صابری اور مقبول احمد صابری، [[[عزیز میاں]] اور دہلی سے آنے ٌالے وہ قوال جن کا ایک مخصوص دبستانِ قوالی ہوتا تھا۔ وہ زیادہ زور شاعری پر دیا کرتے تھے، دھن اورموسیقیت پر نہیں۔ ایک اور قوال بھی بمبئی سے آتے تھے جن کے سازوں میں چار انچ لمبے، پون انچ چوڑے اور آدھ سوتر موٹے کانچ کے تین چار ٹکڑے بھی ہوتے تھے جو ایک ہاتھ میں پکڑے ہوتے تھے۔ ان ٹکڑوں کو بجا کر یا چھنکا کر جو موسیقی پیدا کی جاتی تھی وہ بڑی دلکش ہوا کرتی تھی اور چونکہ یہ ایک نیا ساز بھی تھا اس لئے لوگ اس کو سننے کے منتظر رہا کرتے۔

پھر یہ ہوا کہ اکثر قوالوں نے فلمی گیتوں کی طرزوں پر قوالیاں گانا شروع کر دیں۔ مثلاً ان دنوں کندل لال سہگل کا ایک گیت بہت مشہور ہوا تھا جس کے بول تھے:


غم دیئے مستقل

کتنا نازک ہے دل

یہ نہ جانا

ہائے ہائے یہ ظالم زمانہ


اسی بحر اور اسی طرز میں رشید احمد تابیکے قوال اور ہمنواؤں نے جب یہ قوالی سنائی تو سارے شہر میں دھوم مچ گئی:


خواجہ گنجِ شکر

ہو کرم کی نظر

ہوں دیوانہ۔۔۔

رہے قائم ترا آستانہ


پاک پتن کی گلیوں میں تو لوگ پہلے سہگل کا متذکرہ بالا گیت گاتے گزرا کرتے تھے لیکن جب یہ قوالی، عرس پر عام ہوئی تو محلے کی تمام گلیاں اس کے بولوں سے گونجنے لگیں۔ اسی قوالی کا ایک اور بند بھی یاد آ رہا ہے۔


تم ہو ہندالولی کے پیارے

چشمِِ خواجہ قطب کے ہو تارے

عرض دربار میں، عالی سرکار میں

عاجزانہ۔۔۔

رہے قائم تراآستانہ


اس دور کی بہت سے قوالیاں یاد آ رہی ہیں۔ مبارک علی خان، فتح علی خان فارسی میں بھی قوالیاں گایا کرتے تھے اور لوگ سنا بھی کرتے تھے۔ ہمیں اگرچہ فارسی کی کچھ سمجھ نہیں تھی لیکن ہارمونیم اور طبلے کی تھاپ کے ساتھ قوالوں کا سوزِ آواز بھی ایک ساز بن جایا کرتا تھا!


حضرت امیر خسرو، خواجہ حافظ شیراز، حضرت جامی اور علامہ اقبال کی بہت سی فارسی غزلوں کو قوالی کے انداز میں سن کے ہم پر وجد کی سی کیفیت طاری ہو جایا کرتی تھی خواہ وہ وجد ’’دیکھا دیکھی‘‘ ہی میں ہم پر نازل ہوا کرتا تھا!۔۔۔ ہم سمجھتے ہیں بعد میں فارسی شعر و ادب سے جو تھوڑا بہت تعلق خاطر پیدا ہوا وہ اسی دور کی صدائے بازگشت تھی۔ اس عمر میں اگرچہ اشعار کے معانی کی طرف توجہ نہیں ہوتی تھی اور صرف دھن ہی ہوتی تھی جو فردوسِ گوش بنتی تھی لیکن بعد میں یہی شناسائی، تفہیم زبانِ فارسی میں بہت مددگار ثابت ہوئی۔


میں مبارک بیگم کی نعت کی بات کررہا تھا۔ ۔۔۔ اس نعت میں تین بند (Stanzas) تھے۔ ایک بند یہ تھا:


ستم گر تو ہم پرستم ڈھا رہے ہیں

مظالم کے پھندے کَسے جا رہے ہیں

حضورؐ آپؐ کیوں دیر فرما رہے ہیں

چمن لٹ چلا اے بہارِ مدینہ۔۔۔

کرم کیجئے۔۔۔ کرم کیجئے، تاجدارِ مدینہ


تاجدارِؐ مدینہ اور تاجدارؐ حرم کے یہ دونوں مرکباتِ اضافی اتنے مقبول ہیں کہ اردو زبان کے کئی فلمی گلوکاروں اور قوالوں نے ان کو نعتوں میں گایا ہے۔مثلاً آشا بھونسلے کی وہ نعت جو ’’مدد کیجئے تاجدارِ مدینہ‘‘ سے آغاز ہوتی ہے، صوت و صدا کا شاہکار ہے۔اسی طرح نصف صدی پیشتر غلام فرید صابری اور مقبول فرید صابری کی گائی ہوئی مشہور قوالی: ’’تاجدارِ حرم، ہونگاہِ کرم‘‘، آپؐ حضور کے صدقے ہی سے اتنی مشہور ہوئی کہ ان دونوں کو امر بنا گئی۔ اس قوالی میں نہ صرف یہ کہ حضرت وارثی نے عربی، فارسی، اردو اور برج بھاشا کی رباعیات و قطعات استعمال کی ہیں بلکہ جب صابری برادران نے اس قوالی کی دھن ترتیب دی تھی تو وہ خود بھی ساتھ تشریف فرما تھے۔ ان چاروں زبانوں کے تلفظ کو صحیح مخرج سے ادا کرنا آسان نہیں۔ اس کے لئے جو محنت اور جو ریاض صابری برادران نے کیا اس کی تاثیر آج بھی زندہ ہے اور جب تک قوالی کا دبستان باقی رہے گا، یہ نعتیہ قوالی بھی زندہ و پائندہ رہے گی۔


مبارک بیگم نے یہ نعت 1950ء کے عشرے میں گائی تھی۔1950ء اور 1970ء کے تین عشرے برصغیر کی فلم انڈسٹری میں لازوال اور لاجواب تصور کئے جاتے ہیں۔ اداکاری تھی یا ہدائت کاری، گلوکاری تھی یاموسیقی یا دوسرے فنونِ لطیفہ کی آبیاری، ان 30برسوں میں اوج کمال کو پہنچ گئی تھی۔ ایک اور وجہ جو فلم کے تمام شعبوں کے عروج کا باعث بنی وہ ہر شعبہ میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان وہ رقابت تھی جو رفتہ رفتہ دشمنی کی حدوں تک پہنچ گئی تھی۔ جب1950ء کا عشرہ شروع ہوا تو اس فن کے تمام شعبوں میں مسلمان فنکاروں کی دھوم بلکہ اجارہ داری تھی۔ راجکپور اینڈ فیملی نے اس طلسم کو توڑنے کی ارادی کوشش کی۔ انہوں نے اپنی فلموں میں مسلمان فنکاروں کی بجائے ہندو فنکاروں کو کاسٹ کرنا شروع کیا۔ محمد رفیع کی جگہ مکیش وغیرہ ،نوشاد کی جگہ شنکر جے کشن وغیرہ اور مدھوبالا کی جگہ نوتن، بینا رائے اور وجنتی مالا وغیرہ کا انتخاب کیا اور دلیپ کی جگہ خود تشریف لے آئے۔ میڈیا ان کا اپناتھا، دیش ان کا اپنا تھا اور حکومت ان کی اپنی تھی اس لئے ان کو کوئی مشکل پیش نہ آئی۔ ہاں جس جگہ مسلمان فنکاروں کو کاسٹ کرنا مجبوری بن گیا وہاں چند فلموں میں ان کی خدمات سے بھی استفادہ کرنا پڑا۔


فلم مغل اعظم میں لتا کی ایک نعت ہے: ’’بےکس پہ کرم کیجئے سرکارِ مدینہ‘‘۔۔۔ نوشاد کی دھن میں یہ نعت بڑی موثر ہے اور سننے سے دل کی کیفیت عجیب طرح کی ہو جاتی ہے۔

لیکن اگر آپ مبارک بیگم کی نعت کا یہ بند سنیں گے تو دیکھیں گے کہ آپ کی آنکھیں نمناک ہونے سے نہیں بچ سکیں گی:


گراتا ہے نظروں سے ہم کو زمانہ

حقیقت بنی جا رہی ہے فسانہ

کہیں بھی نہیں اب ہمارا ٹھکانہ

ٹھکانا ہے بس، رہگذارِ مدینہ

کرم کیجئے۔۔۔ کرم کیجئے تاجدارِ مدینہ


لتا بے شک ایک لیجنڈ پلے بیک سنگر ہیں۔ لیکن ان کی شہرت اور ناموری کی وجوہات میں دووجوہ ایسی ہیں جن سے انکار ممکن نہیں۔ ایک تو وہی مذہبی تعصب اور رقابت ہے۔۔۔ شائد کم قارئین کو معلوم ہے کہ محمد رفیع صاحب نے جب حج کا فریضہ ادا کیا اور واپسی پر پوری ایک CD میں مختلف منازل و مدارجِ حج کو نعت کی صورت میں گا کر عام کیا تو یہ بھی اعلان کر دیا کہ وہ اب بھجن نہیں گائیں گے کہ ان سے توحید کی نفی اور بت پرستی کا اثبات ہوتا ہے۔ لتا نے یہ سنا تو کہا کہ میں بھی اب کوئی گیت رفیع کے ساتھ نہیں گاؤں گی۔۔۔ اور دوسری وجہ یہ تھی کہ لتا نے ساری عمر شادی نہیں کی۔ مجھے ان کی مبسوط سوانح کا اردو ترجمہ کرنے کا اتفاق ہوا ہے جو ہریش بھیمانی کی تصنیف ہے۔ اس سوانح میں لتا نے بہت تفصیل سے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے شادی کیوں نہیں کی۔ ان کا استدلال تھا کہ اگر وہ شادی کر لیتیں تو گھر گرہستی کو ترجیح دیتیں، گلوکاری کو نہیں۔ ان کی یہ دلیل غلط نہیں لیکن جتنے کلاسیک اور شاہکار گانے محمد رفیع، آشا بھونسلے، طلعت محمود، شمشاد بیگم اور کئی دوسرے گلوکاروں نے شادی شدہ ہونے کے باوجود گائے، وہ لتا کے استدلال کی نفی کرتے ہیں۔۔۔ اور اسی سوانح کے آخری باب میں جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کی کوئی ایسی آرزو جو پوری نہ ہو سکی کیا ہے تو ان کا جواب تھا: ’’ سوچتی ہوں، میرا اپنا ایک گھر ہوتا، جس کے آنگن میں میرے بچے کھیلتے کودتے اور شرارتیں کرنے کے بعد آکر مجھ سے لپٹ جاتے!‘‘


مبارک بیگم بھی شادی شدہ تھیں۔ ان کے دو بچے تھے۔ بیٹے کا نام حسین ہے اور بیٹی کا نام اب یاد نہیں آ رہا۔ لیکن انہوں نے بھرپور اور کامیاب زندگی گزاری اور درجنوں معروف فلمی گیت اور نعتیں، ان کی یادگار رہیں گی۔۔۔۔اور اب آخر میں اسی نعت کا آخری بند:


اجالا جو دیکھے سیاہی لٹا دے

دمِ راہ منزل کو راہی لٹا دے

قدم چوم لے اور شاہی لٹا دے

نگاہوں میں رکھ لے، غبارِ مدینہ

کرم کیجئے۔۔۔ کرم کیجئے تاجدارِ مدینہ


مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حواشی و حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]