کرامت علی شہیدی اور دیوانِ شہیدی۔ تحقیقی مطالعہ

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Amir Sohail Dr.jpg

مضمون نگار : ڈاکٹر سید عامر سہیل


۱۷۵۰ء سے لے کر ۱۸۵۰ تک کے سو سالہ عہد کو بلاشبہ اُردو غزل کا زرّیں عہد کہا جاسکتا ہے۔ اِن سو برسوں میں اُردو غزل کی روایت کومضبوط اور مربوط بنانے والوں میں جہاں درد، سودا، میر، مصحفی، انشاء، آتش، ناسخ، ذوق، غالب اور مومن شامل ہیں وہاں ایسے شاعر بھی ہیں آج جن کا حوالہ تذکروں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اِن شاعروں کی گم نامی کا سبب کسی بلند آواز کے ساتھ آواز ملانے کی کوشش یا محض نقشِ قدم تلاش کرتے رہنے کی آرزو تھی مگر ستم یہ ہے کہ اِن میں سے چند شعرا ایسے بھی ہیں جن کی گم نامی کی اصل وجہ اُن کے کلام کی عدم دستیابی ہے۔ اُن میں ایک اہم نام کرامت علی خان شہیدی کا بھی ہے۔

کرامت علی خان شہیدی کے بارے میں ہماری معلومات کا مرکز وہ قدیم تذکرے ہیں جن کی نشان دہی ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے کی ہے(۱)۔ جہاں تک شہیدی کے حالاتِ زندگی کا تعلق ہے اِس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا البتہ موجود معلومات کی روشنی میں یہ پتہ چلتا ہے کہ کرامت علی خان شہیدی موضع ہڑیا پور ضلع اُناو کے رہنے والے تھے(۲)۔ ڈاکٹر لطیف حسین صاحب ادیب اپنے مضمون میں دیوانِ شہیدی مطبوعہ (تقریباً) ۱۲۶۸ھ بمطابق ۱۸۵۱ء کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ۔

"دیوانِ شہیدی مطبوعہ تقریباً ۱۲۶۸ھ (۱۸۵۱ء) میں درج ہے کہ منشی کرامت علی خاں شہیدی ہڑیا پور اناوی متخلص بہ شہیدی متوفی ۱۲۵۶ھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اِس لئے ہمارے خیال میں شہیدی کا منشا مولد موضع ہڑیا پور ضلع اُناو تھا۔"(۳)

ڈاکٹر لطیف حسین صاحب ادیب کا خیال ہے کہ شہیدی لکھنو میں ملازم رہے اور عمر کا آخری حصہ بریلی میں گزارا(۴)۔ شہیدی کے وطن کے حوالے سے دوسری رائے یہ ہے کہ اُن کا اصل وطن بانس بریلی تھا مگر انہوں نے نشوونما لکھنو میں پائی تھی(۵)۔ اور بعض تذکرہ نگاروں نے آپ کو لکھنو کا باشندہ لکھا(۶)۔ مگر میرے خیال میں ڈاکٹر لطیف حسین صاحب ادیب کی تحقیق درست ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ۱۸۵۱ء میں چھپنے والے دیوانِ شہیدی کے حوالے سے بات کی ہے۔ یہ عبارت صرف ۱۸۵۱ء میں چھپنے والے دیوان میں ہی موجود نہیں بلکہ نول کشور کے زیر اہتمام چھپنے والے دیوان کے مختلف ایڈیشنوں میں مختلف الفاظ کے ساتھ اِس کا ذکر آیا ہے۔

"الحمداللہ و المنتہ کہ مشہور دیوان کرامت علی خان شہیدی شاعرِ عمدہ خیال ساکن ہڑہہ پور و جو ضلع او نام ملک اودھ سے ہے اور اُن کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"(۷)

اور یہی عبارت اگست ۱۹۰۴ء کے تیسرے اور نومبر ۱۹۱۳ء میں چھپنے والے دیوانِ شہیدی کے چوتھے ایڈیشن میں بھی درج ہے۔ اِس طرح شہیدی کا اصل وطن موضع ہڑیا پور ضلع اُونام ہی قرین قیاس ہے۔ شہیدی کے والد کا نام عبدالرسول تھا (۸) جو خود ہی صاحبِ علم شخصیت تھے۔ شہیدی کے والد کے حوالے سے ڈاکٹر لطیف حسین صاحب ادیب لکھتے ہیں کہ "شہیدی کے والد کا نام عبدالرسول تھا وہ بھی شیریں کلام شاعر اور علمِ عروض میں دستگاہِ کامل رکھتے تھے۔ راجہ ٹکیٹ رائے کے فارسی کلام پر اصلاح دیتے اور معلم گری کے ذریعے بسر اوقات کرتے تھے۔"(۹) جہاں تک کی ابتدائی تعلیم کا تعلق ہے اِس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اِس حوالے سے قدیم تذکرے خاموش ہیں تاہم شہیدی کے فنِ شاعری پر عبور اور اُن کی شعر گوئی کے انداز سے یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ شہیدی نے ابتدائی تعلیم حسبِ دستور حاصل کی مگر اِس کے ساتھ ساتھ انہیں یقیناً اپنے والدِ محترم کی خاص شفقت اور محبت بھی ملی ہوگی جس نے اُن کے اندر شعر گوئی کے مادے کو جِلا بخشی ہوگی۔ شہیدی کے حوالے سے یہ کہا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی نہایت آزادانہ اور زندہ دلی سے گزاری۔ مرزا قادر بخش صابر کا بیان ہے کہ "مدت تک پنجاب اور گجرات میں رہا اور آوارگی و وارستگی و وسیع المشربی کے ساتھ بسر کی"(۱۰) اِسی قسم کے خیالات کا اظہار شیفتہ اپنے تذکرے میں کرتے ہیں کہ

"پنجاب اور گجرات کے شہروں میں زیادہ رہے کبھی کھبی دہلی آتے تھے۔ دہلی میں راقم سے متعدد مرتبہ ملاقات ہوئی ہے۔ بے تکلف قسم کے وارستہ مزاج اور وسیع المشرب آدمی تھے، آزادانہ زندگی بسر کرتے تھے۔"(۱۱)

شہیدی کی آزادانہ طبیعت کا ذکر ڈاکٹر لطیف حسین صاحب ادیب بھی اپنے مضمون میں کرتے ہیں کہ

"شہدی جہاں گشت قسم کے انسان تھے۔ وہ پنجاب اور گجرات تک گئے کبھی کبھی دہلی میں جانا ہوا جہاں شیفتہ سے ملاقات رہی۔۔۔۔۔۔۔ پھر بھوپال آگئے آخری عمر میں شہیدی کا قیام بریلی میں رہا جہاں وہ نواب محمد عطا حسین عطا(۱۲) کے مہمان ہوئے۔ شہیدی نے نواب صاحب کی مدح میں اکیس شعر لکھے(۱۳) جو کلیاتِ شہیدی میں سلسلہ تاریخ مثنوی محمد عطا حسین طبع ہو چکے ہیں"(۱۴) روایت ہے کہ شہیدی عاشق مزاج انسان تھے۔ "طبقات الشعرائے میں لکھا ہے کہ "شہیدی ابتداء میں گنگاپرشاد نامی لڑکے پر عاشق تھے اِس لیے اپنی ملکیت کی ہر کتاب پر یا فتاح کی جگہ یا گنگا پرشاد لکھ دیا کرتے تھے"(۱۵)

شہیدی بنیادی طور پر چونکہ آزاد منش اور دوست دار آدمی تھے اِس لیے اُن کی اِس عادت نے انہیں زندگی میں خاصا پریشان کیے رکھا۔ مولانا عبدالحی صاحب "گلِ رعنا" لکھتے ہیں کہ

"شہیدی کا تعلق کیمسریٹ سے تھا وہاں انہوں نے بہت سا روپیہ یار باشی میں اُڑادیا جب حساب طلبی ہوئی تو ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے مگر تھے طبیعت دار جس مکان میں دفتر تھا اِس کے ایک حصے میں رہتے بھی تھے رات کو اُس میں آگ لگادی اُن کے سامان کے ساتھ دفتر بھی جل کر خاکِ سیاہ ہوگیا یہ کچھ دنوں کے لیے دیوانے بن گئے اور خدا خدا کر کے جان بچی"۔ (۱۶) روایت ہے کہ اِس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد زندگی کی کایا پلٹ گئی اور وہ فقیرانہ زندگی بسر کرنے لگے۔ (۱۷)

شہیدی کے وفات کے سلسلے میں بھی معلومات دلچسپی سے خالی نہیں صاحب "گلِ رعنا" لکھتے ہیں کہ سرکاری ملازمت جاتے رہنے پر کوئی تعلق گوارا نہ کیا۔ سیرو سیاحت میں زندگی بسر کی۔ بھوپال، دلی، اجمیر، پنجاب اور گجرات میں اکثر دورہ ہوتا رہتا تھا۔ ۱۲۵۵ھ (۱۸۳۹ء) کو حج و زیارت کے اِرادے سے گھر سے نکلے راستے میں بیمار پڑے، ۴ صفر ۱۲۵۶ھ (بمطابق ۷ اپریل ۱۸۴۰ء) کو تمام منزلیں طے کرکے ایسے مقام پر پہنچے جہاں سے روضہ مطہرہ نظر آتا تھا۔ ایک حسرت ناک نظر اُس پر ڈالی اور روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی(۱۸)۔ اِس سلسلے میں نثار احمد فاروقی کا مضمون "شیفتہ کا ایک غیر مطبوعہ خط" اِس واقعہ کی طرف نہایت اہم اشارہ کرتا ہے۔

"۱۲۵۵ھ میں حج کے لیے روانہ ہوئے راستہ میں جہاز تباہ ہوگیا ایک جزیرے میں پناہ گزین ہوئے یہاں چنا اور باجرہ ابال کرکھانے پر مجبور ہوئے۔ سب حاجیوں کے ساتھ شہیدی بھی اسہال کبدی کا شکار ہوئے شیفتہ اُن کے ساتھ تھے وہ تیمارداری کرتے رہے۔ یہاں سے نکل کر جب یہ لوگ مدینہ منورہ پہنچے تو بیماری کے باعث شہیدی نڈھال تھے جب گنبدِ خضرٰی نظر آیا تو شیفتہ نے فرطِ جذبات سے پکارا شہیدی دیکھو وہ گنبدِ خضرٰی نظر آرہا ہے۔ شہیدی نے غشی کے عالم میں آنکھیں کھول کر نظارہ کیا اور روح پرواز کر گئی۔"(۱۹)

اِس طرح شہیدی کا سن وفات صفر ۱۲۵۶ھ بمطابق ۷ اپریل ۱۸۴۰ء بنتا ہے اور محققین اِس پر متفق ہیں۔

شہیدی نے اپنا ابتدائی کلام غلام ہمدانی مصحفی کو دکھایا اور مصحفی کی وفات کے بعد انہوں نے شاہ نصیر سے کہا۔ اِس حوالے سے ڈاکٹر لطیف حسین صاحب ادیب لکھتے ہیں کہ "اِس سلسلے میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ مصحفی نے "ریاض الفصحا" میں شہیدی کا ذکر نہیں کیا ۔۔۔۔۔۔ میرا خیال ہے کہ شہیدی کی شمولیت ممکن نہیں تھی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ۱۲۳۶ھ (۱۸۲۰ء) اور ۱۲۴۰ھ (۱۸۲۴ء) کے وقفے میں جو تذکرے کی تکمیل اور مصحفی کی موت کا درمیانی زمانہ ہے وہ مصحفی کے شاگرد ہوئے ہوں اور اِس وجہ سے شامل تذکرہ نہ ہوسکے۔"(۲۱)

جہاں تک "ریاض الفصحا" میں شہیدی کی عدم شمولیت کا تعلق ہے اِس کی جو وجوہات ڈاکٹر صاحب نے مندرجہ بالا سطور میں بیان کی ہیں وہ درست معلوم نہیں ہوتیں۔ پہلی بات تو یہ کہ یہ تذکرہ ۱۲۳۶ھ (۱۸۲۱ء) سے ۱۲۴۰ھ (۱۸۴۲ء) کے درمیان نہیں لکھا گیا بلکہ یہ تذکرہ ۱۲۲۱ھ (۱۸۰۴ء) سے ۱۸۳۶ھ (۱۸۲۱ء) کے درمیانی وقفے میں لکھا گیا ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی تحقیق کے مطابق: "ریاض الفصحا تذکرے کا تاریخی نام ہے اِس سے اِس کا سالِ تصنیف ۱۲۲۱ھ نکلتا ہے لیکن تذکرے کے آخر میں دیے گئے قطعات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ اِس کا سالِ آغاز ہے اور اِس کا تکمیلہ ۱۲۳۶ھ میں ہوا ہے۔۔۔۔۔۔ ریاض الفصحا ۱۲۲۱ھ میں شروع ہوکر ۱۲۳۶ھ میں تکمیل کو پہنچا ہے۔" (۲۲)

اِس طرح دیکھا جائے تو اِس تذکرے کی تکمیل کا دورانیہ تقریباً پندرہ سال بنتا ہے اب یہ کہنا کہ شہیدی نے مصحفی کی شاگردی اُس وقت اختیار کی جب تذکرے میں اُن کی شمولیت ممکن نہیں تھی قرآنِ قیاس نہیں لگتا۔ کیونکہ قوی امکان یہی ہے کہ شہیدی نے مصحفی کی شاگردی یقیناً ۱۲۳۶ھ سے بہت پہلے اختیار کرلی تھی کیونکہ دوسری طرف دیکھیں تو شہیدی کی وفات (۱۲۵۶ھ) اور اِس تذکرے کی تکمیل کے درمیان بیس سال کا فرق ہے۔ اب قیاس یہی ہے کہ شہیدی کا یہ دور فنی پختگی کا دور تھا جس میں و خود استاد شاعر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں اور امکان بھی ہے کہ اگر وہ مصحفی کے شاگرد رہے تھے تو ۱۲۳۶ھ سے پہلے رہے ہوں گے۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سی وجوہات تھیں جس کی بنا پر مصحفی نے شہیدی جیسے شاگرد کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ اگرچہ اُن وجوہات کے بارے میں محض قیاس ہی کیا جاسکتا ہے مگر عین ممکن ہے کہ مصحفی اور شہیدی کی ذاتی شخصیات کا تضاد اِس کی بنیاد بنا ہو۔

شہیدی ایک باکمال شاعر تھے۔ صاحب تذکرہ "گلستانِ سخن" لکھتا ہے کہ

"اشعار میں شستگی زبان اور پاکی الفاظ کے لحاظ سے زیادہ رکھتا تھا بعضے اشعار بلندی معنی سے فرقِ اعتبار چرخِ برس تک لے گئے۔"(۲۳)

جب کہ صاحب "گل رعنا" کے خیال میں

"شعر و سخن میں ایسی قدرت باہم پہنچائی تھی کہ زمین کیسی ہی سنگلاخ ہو ایک طرح میں چو غزلہ اور پنج غزلہ لکھتے تھے اور کوئی غزل پچیس اور پینتیس شعر سے کم نہ ہوتی تھی۔"(۲۴) شہدی کے یہاں ایک استادانہ رنگ تھا، علمِ عروض پر انہیں دسترس حاصل تھی۔ شعر میں زبان و بیان کا خاص اہتمام کرتے تھے۔ لفظ اور معنی کے باہمی رشتے کو توازن بخشنا ایک مشکل فن ہے مگر شہیدی نے بڑی خوبصورتی اور چابک دستی سے اِس فن کو برتا ہے۔ اُن کے اِسی استادادنہ رنگ کی وجہ سے ہمیں اُن کے شاگردوں کی ایک طویل فہرست نظر آتی ہے۔ اُن کے شاگردوں میں زیرک پانی پتی، شیفتہ، فقر، نادان دہلوی وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔(۲۵) (۲)

جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں کرامت علی خان شہیدی اُردو شاعری کے ہنگامہ خیز دور کے شاعر ہیں انہوں نے مصحفی اور شاہ نصیر سے تحصیل کیا۔ وہ یقینا مصحفی اور انشاء کے ادبی معرکوں کے چشم دید گواہ ہوں گے اس کے علاوہ انہوں نے آتش اور ناسخ کا دور دیکھا اور غالب کوبھی شعر کہتے سنا ہوگا۔ غرض اِن عظیم شعرا میں رہتے ہوئے شہیدی نے فنِ شعر گوئی میں نہ صرف کمال حاصل کیا بلکہ خود بھی باکمال استاد تسلیم کئے گئے۔

اِن تمام باتوں کے ساتھ ساتھ اہم مسئلہ شہیدی کی شخصیت اور فن کے تعارف کا ہے کیونکہ شہیدی کو وہ مقبولیت حاصل نہ ہوسکی جو میر، مصحفی، آتش، ناسخ، مومن، غالب اور ذوق وغیرہ کے حصے میں آئی ۔ اور تعارف کی اہمیت اُس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب کہ شہیدی کے کلام کی اشاعت کا سلسلہ عرصہ ہوا بند ہوچکا ہے۔

جہاں تک شہیدی کے دواوین کی اشاعت کا تعلق ہے اِس سلسلے میں ڈاکٹر لطیف حسین صاحب ادیب شہیدی کے دستیاب دواوین کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:

"شہیدی اُن چند خوش نصیف شاعروں میں ہیں جن کا دیوان بار بار چھپا جو اُس کی مقبولیت کا ثبوت ہے شہیدی کے جتنے دیوان میری نظر سے گزرے ہیں اُن کی تفصیل یہ ہے:

(i)۔ کلیاتِ شہیدی: یہ عبدالغنی سوداگر کی فرمائش اور شیخ مدد علی نے زیرِ اہتمام ۱۲۷۰ھ (۱۸۵۳ء) میں مطبع آئینہ سکندر میرٹھ میں چھپا تھا۔ تعداد صفحات ۶۸ اور مروجہ دیوانوں کے بقدر کلام پر مشتمل ہے۔ البتہ اِس کے آخر میں قطعات تاریخ درج ہیں دوسرے دواوین میں نہیں ملتے۔ (ii)۔ دیونِ شہیدی (رضا لائبریری، رام پور): اُس کا سائز چھوٹا اور تعداد صفحات ۲۱۲ ہے چونکہ شروع اور آخر کے صفحات نہیں ہیں اِس لیے یہ نہیں بتایا جاسکتا کہ کب اور کہاں چھپا۔ (iii)۔ دیوانِ شہیدی (نول کشور پریس لکھنو): اُس کے صفحات ۹۸ اور سالِ طباعت ۱۸۸۰ء ہے یہ پہلا ایڈیشن ہے اِس کے بعد تین ایڈیشن اور نکلے۔ آخری ایڈیشن ۱۹۱۳ء کا ہے۔ اِس طرح دیونِ شہیدی میرے علم میں چھ بار طبع ہوا۔" (۲۶) آگے چل کر ڈاکٹرصاحب شہیدی کے ایک قلمی نسخے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ

"رضا لائبریری رام پور میں دیوانِ شہیدی کا ایک قلمی نسخہ بھی ہے (تقریباً ۱۲۶۸ھ ۱۸۵۱ء) جس کی تعداد صفحات ۷۸ ہے" (۲۷)

مندرجہ بالا سطور میں ڈاکٹر لطیف حسین صاحب ادیب کے حوالے سے دیوانِ شہیدی کے مختلف نسخوں کا ذکر تھا۔ میری نظر سے دیوانِ شہیدی کے چار نسخے گزرے ہیں۔

۱۔ دیونِ شہیدی، مطبع رفیع منشی نول کشور لکھنو بار اوّل نومبر ۱۸۸۰ء تعداد صفحات ۹۸ ۲۔ دیونِ شہیدی، طبع نول کشور لکھنو بار چہارم نومبر ۱۹۱۳ء تعداد صفحات ۹۸ ۳۔ دیونِ شہیدی، مطبع نول کشور لکھنو بار چہارم نمبر ۱۹۱۳ء تعداد صفحات ۹۸ ۴۔ دیونِ شہیدی، مطبع رفیع جوہر ہند دہلی (منشی جی نرائن) سن ندارد

دہلی سے چھپنے والا غالباً یہ پہلا اور واحد ایڈیشن ہے۔ صفحات کی تعداد ۹۶ ہے۔

اِس کے علاوہ میرے علم میں دیوانِ شہیدی کے دو قلمی نسخے بھی آئے ہیں۔ ایک نسخہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ہے جبکہ دوسرا قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد یں پیر حساب الدین راشدی کلیکشن میں موجود ہے۔ اِس قلمی نسخے کے بارے میں مجھے جناب مشفق خواجہ نے بذریعہ خط (مرقومہ: ۲۶ فروری ۱۹۹۶ء) مطلع فرمایا تھا کہ "مجھے ایک قلمی نسخے کا علم ہے جو پیر حساب الدین راشدی کے پاس تھا۔ اب یہ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پیر حساب الدین راشدی کلیکشن میں ہے۔" مگر کوشش کے باوجود میری نظر سے یہ قلمی نسخہ نہیں گزرا، البتہ اِس کلیکشن میں دیوانِ شہیدی کا پہلا ایڈیشن موجود ہے۔ جہاں تک مذکورہ بالا دیوانِ شہیدی کے مختلف ایڈیشنوں کا تعلق ہے تو یہ بات واضح ہے کہ نول کشور لکھنو کے زیرِ اہتمام چھپنے والے دیوانِ شہیدی کے ایڈیشنوں کے صفحات کی تعداد ۹۸ ہے۔ پہلے ایڈیشن (نومبر ۱۸۸۰ء) کے آخری صفحہ پر مندرجہ ذیل عبارت ہے۔

"الحمد اللہ والمنتہ کہ مشہور دیوان کرامت علی خان شہیدی شاعر عمدہ خیال سکان ہڑہہ پور وہ جو ضلع اونام لک اودھ سے ہے اور اُن کے کلام بلاغت نظام سے اربابِ وطن کے دل میں ایک ولولہ پڑا ہوا ہے یہ وہ کلام بلاغت انضمام ہے کہ اب تک اصحابِ فن سے اس کلام پر دادِ سخن ہے۔ اکثر محافل حال وقال میں غزلیں معرفت کی گائی جاتی ہیں عشاق کے دل پر اک چوٹ لگاتی ہیں درینولا یذل توجہ ارجمند و ہمت بلند صاحب فتوت و ہمیت مرجع و مارب جمہور منشی نول کشور دام اقبالہ مطبع گرامی واقع لکھنو کلہ حضرت گنج متصل ڈاک خانہ سرکاری ماہ نومبر ۱۸۸۰ء مطابق ماہ ذی حجہ ۱۲۹۷ھ میں مطبوع ہوکر اشاعت پذیر ہوا" (۲۸) جبکہ تیسرے ایڈیشن (اگست ۱۹۰۴ء) کے آخر صفحہ پر مندرجہ ذیل نوٹ درج ہے۔

"الحمداللہ والمنتہ کہ مشہور دیوان کرامت علی خان شہیدی شاعرِ عمدہ خیال ہڑہہ پور وہ جو ضلع اونام ملک اودھ سے ہے اور اُن کے کلام بلاغت نظام سے اربابِ وطن کے ۔۔۔۔۔ توجہ ارجمند وہ ہمت بلند صاحب فتوت و ہمت جناب منشی پراگ نرائن صاحب مالک مطبع دام اقبالہ مطبع نول کشور میں بمقام لکھنو بار سوم ماہ اگست ۱۹۰۴ء مطابق جمادی الثانی ۱۳۲۲ھ مطبوع ہوکر اشاعت پذیر ہوا۔" (۲۹) یہی عبارت تقریباً انہی الفاظ میں چوتھے ایڈیشن میں بھی درج ہے۔ یہاں تاریخ اشاعت بار چہارم نومبر ۱۹۱۳ء مطابق ماہ ذی الحج ا۱۳۳۱ھ درج ہے۔

اِن تینوں ایڈیشنوں میں صفحات کا کوئی فرق نہیں البتہ کتابت کی تبدیلی ہے۔ غزلیات وغیرہ کی ترتیب ایک سی ہے البتہ تیسرے ایڈیشن کا ٹائیٹل سبز اور چوتھے ایڈیشن کا گلابی ہے۔

اِس کے برعکس دہلی میں چھپنے والے دیوانِ شہیدی کی صورت حال ذرا مختلف ہے۔ لکھنو اور دہلی سے چھپنے والے ایڈیشنوں کے موازنہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ دہلی میں چھپنے والا دیوانِ کتاب اور طباعت کے حوالے سے نہایت ناقص ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ اِسے نہایت جلد بازی میں چھاپا گیا ہے۔ "نسخہ دہلی" کے آخری صفحہ پر مندرجہ بالا عبارت درج ہے۔

"ہزار شکر خالقِ کردگار کہ دریں زمان فرخی، قران شہیدی شاعر گو سخج و سخندان کا، دیوان بصد زیب و زینت واسطے تفریحِ خاطر شایقیناًن مطبع جوہر ہند دہلی میں بحسن وسعی کار پر دازان باہتمام بلند ہمت و عالی منزلت منشی جی نرائن صاحب حلہ اشاعت سے مزید ہورک فیض بخش خاص و عام ہوا۔ نظر نیان عالی ہمت سے امید ہے کہ جلد جلد اِس دیوان کو خرید فرماویں گے اور لطف اٹھاویں گے۔" (۳۰)

اِس اختتامی عبارت سے اِس نسخہ کے سنِ اشاعت کے بارے میں علم نہیں ہوسکتا البتہ قیاس یہی ہے کہ یہ دہلی میں چھپنے والا پہلا ایڈیشن ہے اور شاید آخری بھی اور یہ شہیدی کی وفات سے کافی عرصہ بعد شائع کیا گیا ہے۔ اس کے سنِ اشاعت کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا البتہ اسے دیکھ کر صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نول کشور لکھنو سے چھپتے ہوئے نسخے کو سامنے رکھ کر اس کی کتاب کی گئی ہے کیونکہ غزلیات کی تعداد اور ترتیب بالکل ایک سی ہے۔ لکھنو اور دہلی سے چھپنے والے ایڈیشنوں میں چند امتیازات مندرجہ ذیل ہیں۔

(i)۔ نول کشور لکھنو کے ایڈیشنوں کی کتاب اور طباعت خوبصورت اور معیاری ہے۔ اِس کے علاوہ ٹائیٹل کا صفحہ رنگین ہے جبکہ رفیع جوہر ہند دہلی سے چھپنے والے دیوان کی کتاب اور طباعت دونوں نہایت ناقص اور غیر معیاری ہیں تقریباً ہر غزل میں پانچ چھ سے زیادہ کتابت کی غلطیاں ہیں اور ستم یہ کہ کئی مقامات پر الفاظ غائب ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے کاتب نے جلد بازی میں کئی الفاظ چھوڑ دیے ہوں اور بعد میں اِس پر نظر ثانی کی تکلیف بھی گوارا نہیں کی گئی۔ یوں اشعار کی صحت اور وزن دونوں متاثر ہوئے ہیں۔ (ii)۔ لکھنو کے دیوان صفحات ۹۸ جب کہ دہلی کا دیوان ۹۶ صفحات پر مشتمل ہے۔ (iii)۔ لکھنو کے دیوان میں ہر غزل کا نمبر اور تعداد اشعاردی گئی ہے جبکہ دہلی کے دیوان میں یہ اہتمام نہیں رکھا گیا اور بعض اوقات ایک غزل کے اختتام پر دوسری غزل تلاش کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ (iv)۔ دونوں دیوانوں میں املا کا نمایاں فرق ہے نیز لکھنو اور دہلی کی زبان کے حوالے سے تذکیروتانیث کا فرق بھی نمایاں ہے۔

جائزے کی چند ایک مثالیں دیکھیں۔

۱۔ ازل نمبر ۳ شعر نمبر ۱۴ مصرعہ ثانی لکھنو کے ایڈیشن میں یوں درج ہے

مری نعلین کو دے تعلبندی تاجِ سلطان کا

دہلی کے ایڈیشن میں کتابت کی غلطی سے "دے" درج نہیں ہوسکا۔

۲۔ غزل نمبر ۳ ہی کا مقطع لکھنو کے دیوان میں یوں درج ہے

شہیدی منقبت خواں ہوں جنابِ شاہ مرداں کا

۳۔ غزل نمبر ۴ شعر بمبر ۱۱ مصرعہ اولٰی لکھنو کے دیوان میں یوں ہے

عدو کا سینہ اس کے کینہ سے اک دم نہیں ایمن

دہلی کے دیوان میں کینہ غلطی سے کعبہ ہوگیا ہے

۴۔ غزل نمبر ۵ شعر نمبر ۱۰ مصرعہ اولٰی لکھنو کے دیوان میں اِس طرح سے ہے

پہنی ہے خاکِ یار کی تسبیح یار نے

دہلی ایڈیشن میں یار کتابت کی غلطی سے "مار" ہوگیا ہے۔

۵۔ غزل نمبر۴ شعر نمبر ۳ مصرعہ ثانی لکھنو ایڈیشن میں اِس طرح درج ہے

کہیے جو مجھ کو دم سے ترے، مشتعل ہوا

دہلی کی ایڈیشن میں "مجھ کو" کتابت کی غلطی سے درج ہونے سے رہ گیا ہے۔

۶۔ غزل نمبر ۷ کے تمام اشعار کے مصرعہ ثانی میں ردیف کی غلطی موجود ہے۔

الغرض دہلی سے چھپنے والے ایڈیشن میں بلا مبالغہ سینکڑوں غلطیاں موجود ہیں کہیں لفظ درج نہیں ہوا اور کہیں غلط درج ہوگیا ہے۔ اِن چند غلطیوں کی نشان دہی سے سارے دیوان کی صحت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ (۳) دیوانِ شہیدی کی مختلف اشاعتوں کے تذکرے کے بعد یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ موجود ایڈیشنوں میں شہیدی کا کل سرمایہ کتنا ہے۔ جیسا کہ آچکا ہے کہ دہلی سے چھپنے والا دیوان ناقص اور غیر تسلی بخش ہے اور یہ نول کشور لکھنو ہی کے انداز سے چھپا گا اس لیے ضروری ہے کہ نول کشور کے زیر اہتمام چھپنے والا دیوان ہی کو مدنظر رکھ کر شہیدی کے کل کلام کا خاکہ تشکیل دیا جائے۔

۱۔ کرام علی خان شہیدی کے دیوان کا بیشتر حصہ غزلیات پر مشتمل ہے۔ ۹۸ صفحات کے دیوان میں ۸۷ صفحات پر غزلیات پھیلی ہوئی ہیں۔ اِن ۸۷ صفحات میں کل ۲۲۴ غزلیات ہیں جن کے کل اشعار کی تعداد ۲۵۴۱ ہے۔ اِن میں سب سے طویل غزل (غزل نمبر ۲) ۳۳ اشعار پر مشتمل ہے جبکہ سب سے مختصر غزل (غزل نمبر ۱۴۵، ۲۰۸) صرف تین اشعار پر مشتمل ہے۔

۲۔ دیوانِ شہیدی میں قطعات بھی شامل ہیں جن کی تعداد پانچ ہے جبکہ کل اشعار ۱۷ ہیں۔

۳۔ قطعات کی طرح رباعیات پر بھی شہیدی نے خاص توجہ نہیں دی دیوان میں شامل رباعیات کی تعداد صرف چھ ہے۔

۴۔ دیون ایک مثنوی "نامہ" کے عنوان سے شامل ہے جس کے اشعار کی تعداد ۴۵ ہے۔

۵۔ شہیدی نے جامی، جرات، عطا اور نصیر کی زمین میں مخمس لکھی ہیں جن کے کل ۵۸ بند ہیں۔

۶۔ تاریخ گوئی کے حوالے سے شہیدی نے مثنوی ہیت میں "تاریخ مثنوی محمد عطا حسین" کے عنوان سے مختصر نظم بھی لکھی ہے جس کے اشعار کی کل تعداد ۳۶ ہے۔

۷۔ فرد کے حوالے سے کل گیارہ اشعار شامل دیوان ہیں۔

۸۔ بندخمسہ کے عنوان سے دو بند دیوان میں موجود ہیں۔

۹۔ دیوان میں "جنازہ نامہ" کے عنوان سے مخمس ہیت میں ایک نظم بھی موجود ہے جس کے کل ۱۶ بند ہیں۔ (۴)

نعت: کرامت علی خان شہیدی کے حالات زندگی، اُن کے دیوان کی مختلف اشاعتوں کے ذکر اور اُن کلام کی فہرست مرتب کرنے کے بعد شہیدی کی شاعری کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے یہ بات نمایاں طور پر نظر آئے گی کہ اگرچہ شہیدی نے ہر مقبول صنف سخن میں طبع آزمائی کی ہے خصوصاً غزلیات کا نہایت معقول سرمایہ انہوں نے چھوڑا ہے مگر اُن کی اصل وجہ شہرت اُن کا نعتیہ کلام ہے۔ شہیدی کے کلام میں ایک قصیدہ نما نعت، دو دو نعتیہ غزلیات، ایک نعتیہ رباعی اور مولوی جامی کی غزل پر ایک نعتیہ مخمس شامل ہے۔ اِس قلیل نعتیہ سرمایہ کے باوجود نعت گوئی میں اُن کی شہرت بقائے دوام کا درجہ رکھتی ہے۔ ڈاکٹر لطیف حسین صاحب ادیب کے بقول:

"شہیدی نے نعتیہ قصیدے، نعتیہ غزلیں اور نعتیہ خمسے لکھے۔ اِن نعتوں میں قصیدے کی شان، غزل کی آمد و آورد اور خمسے کی بر جستگی ہے۔ اُن کی نعتیہ غزلوں میں جذبات نگاری بھی ہے اور عارض و گیسو کی توصیف بھی ہے۔"(۳۱)

شہیدی کا شمار اوّلین نعت گو شعرا میں ہوتا ہے۔ اگرچہ شہیدی سے بہت پہلے نعتیہ شاعری کے ابتدائی نمونے دکن میں نظر آتے ہیں۔ اِس کے بعد شمالی ہند میں بھی نعت اور منقبت کو فروغ حاصل ہوا بلکہ اِن علاقوں میں زیادہ رجحان منقبت کا رہا جبکہ نعتیہ کلام کی حیثیت محض عقیدت اور ثواب سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اِس کے علاوہ لکھنو کے ماحول کے زیر اثر منقبت لکھنے والے شعرا ہی زیادہ رہے۔ اِس عہد کے اہم لکھنے والوں میں نظیر اکبر آبادی، شہیدی، لطف علی خان لطف اور غلام امام شہید نے نعت کی طرف خاطر خواہ توجہ دی (۳۲) مگر جو بے ساختگی اور والہانہ پن شہیدی کے حصہ میں آیا وہ کسی اور کو نصیب نہ ہوسکا اور یہی نہیں بلکہ جب کھبی اُردو کی نعتیہ شاعری کا ذکر آتا ہے تو شہیدی کا نام عزت سے لیا جاتا ہے۔(۳۳)

جہان تک نعت کے ہیتی پیمانے کا تعلق ہے تو نعت کسی بھی ہیت میں لکھی جاسکتی ہے۔ شعرا نے (اور خود شہیدی نے) قصیدہ، غزل، رباعی اور مخمس ہیتوں کو چنا ہے اوراِن اصناف کے ہیتی مزاج اور رویوں کو مد نظر رکھتے ہوئے نعت کہی ہے۔ قصیدہ کی صنف میں نعت کا خاص تہذیبی اور ادبی حوالہ بنتا ہے جو کہ نعت میں سرایت کرجاتا ہے۔ بلند آہنگی، پر شکوہ الفاظ تراکیب و مرکبات اور تشبیہات و استعارات کا خاص انداز نعت کا جزو بن جاتے ہیں۔ اِس طرح غزل کی صنف میں نعت کا مزاج دھیما، پرسوز اور داخلی کیفیات سے معمور ہونے کے ساتھ ساتھ غزل کی مختلف لفظیات کو ساتھ لے کر آئے گا۔ شہیدی کی نعتیہ شاعری میں انہی متنوع رنگوں کی جھلک نظر آئے گی۔ اُن کا نعتیہ قصیدہ، پر شکوہ الفاظ اور بلند آہنگ لہجے کے ساتھ محبت کا والہانہ پن اور عظمت کا احساس لئے ہوئے ہے۔ یہ قصیدہ ۳۳ اشعار پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر ریاض مجید نے اِسے تین حصوں میں تقسیم کرکے نعت کے تین غالب موضوعات سے جوڑ دیا ہے۔ پہلا حصہ حضور اکرمﷺ کے اوصاف و مدح سے عبارت ہے، دوسرے حصے میں شفاعت طلبی کو موضوع بنایا گیا ہے جبکہ تیسرا حصہ شیفتگی و فدائیت کے اظہار پر مشتمل ہے۔(۳۴)

شہیدی کا یہ نعتیہ قصیدہ اُردو نعت گوئی میں نہایت سنجیدہ، باقاعدہ اور فنی حوالے سے نہایت اہم کوشش ہے۔ اِس میں والہانہ پن اور محبت کے جذبات کا جو بے ساختہ پن ہے اُس کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ شہیدی نے اِس میں زبان کی صناعی کا استعمال کیا ہے اور خاص لکھنوی اندازِ نظر کو بھی برتنے کی کوشش کی ہے۔ بعض اشعار میں اُن کی یہ شعوری کوشش محسوس بھی ہوتی ہے مگر اِس کے باوجود اکثر اشعار چونکہ ایک وجدانہ حات اور بے خودی کی کیفیت میں لکھے گئے ہیں اِس لئے اِن پر شدید آمد کا احساس ہوتا ہے۔ تراکیب، تشبیہات و استعارات اور سمعی و بصری تمثالیں حسن میں اضافہ کرتے ہیں۔ سید یونس شاہ اِس قصیدے کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ

"اِس قصیدے میں ۳۳ اشعار ہیں جن میں بڑی سادگی سے آرزووں اور تمناوں کا اظہار ہے۔ شاعرانہ صناعی جو لکھنوی شاعری کا طرہ امتیاز ہے اِس قصیدے میں بدرجہ اتم موجود ہے اور قاری معنی کے علاوہ لطف زبان سے محفوظ ہوتا ہے۔"(۳۵)

اِس نعتیہ قصیدے کے چند اشعار ملاحظہ ہوں

رام پیدا کیا کیا طرفہ بسم اللہ کی مد کا

سر دیواں لکھا ہے میں نے مطلع نعت احمد کا

طلوعِ روشنی جیسے نشاں ہو شہ کی آمد کا

ظہورِ حق کی حجت سے جہاں میں نور احمد کا

اُدھر اللہ سے واصل اِدھر مخلوق میں شامل

خواص اِس برزخِ کبرٰی میں ہے حرفِ مشدّد کا

تمنا ہے درختوں پر ترے روضے کے جا بیٹھیں

قفس جس وقت ٹوٹے طائرِ روحِ مقید کا

خدا منہ چوم لیتا ہے شہیدی کس محبت سے

زباں پر میری جس دم نام آتا ہے محمد کا

شہیدی کی نعتیہ غزلوں اور رباعی میں بھی عقیدت کا گہرا رنگ نظر آئے گا۔ شہیدی کا فکری رویہ اور مزاج چونکہ لکھنو تھا، اِس لئے اِن کے یہاں لکھنو کی زبان کا خاص لسانی و تہذیبی شعور دکھائی دے گا۔ ڈاکٹرریاض مجید نے اِس خیال کا اظہار کہ اُن کے یہاں موضوع و اظہار کے انتخاب اور پیش کش میں لکھنوی شاعری کے اثرات ملتے ہیں، نکتہ آفرینی اور صنعت گری کے نمونے کم و بیش سبھی شعروں میں ملتے ہیں جن کے سبب خارجیت نمایاں ہے اور واقعی احساسات اور واردات کا فقدان ہے۔ (۳۶) جہاں تک خارجیت کا تعلق ہے تو یہ ہر لکھنوی شاعرکا بنیادی حوالہ بنتی ہے کیونکہ اِس کے پس منظر میں ایک مکمل سیاسی، سماجی اور تہذیبی عمل کار فرما تھا۔ مگر شہیدی نے اُس خارجیت کے باوجود نعت گوئی کو باقاعدہ ایک شعری اظہار کا وسیلہ بنایا ہے اور اِسے محض عقیدت و ثواب سے نکال کر فن کی بنلدی تک پہنچایا ہے۔ چند اشعار دیکھیں۔

ہے سورۃ واشّمس اگر روئے محمد

واللیل کی تفسیر ہوئی موئے محمد

کس وضع اٹھائے ہوئے ہیں بارِ دو عالم

ظاہر میں تو نازک سے ہیں بازوئے محمد

کعبہ کی طرف منہ ہوئے نمازوں میں ہمارا

کعبہ کا شب و روش ہے منہ سوئے محمد

رضواں کے لئے لے چلوں سوغات شہدی

گر ہاتھ لگے خارو خس کوئے محمد

غزل:

شہیدی کے دستیاب شعری سرمایہ کو دیکھ کر قطعی طور پر یہ رائے قائم کی جاسکتی ہے کہ شہیدی کا مزاج غزل کے مزاج سے ہم آہنگ ہے اور اِس میں اپنا اظہار پاتا ہے۔ غزل کی صنف کا انتخاب کرنے اور اِس میں شعر کہنے کی یوں تو کئی و جوہات ہوسکتی ہیں مثلاً اُس عہد کا غالب رجحان غزل کا تھا نیز غزل کو تخلیق کا اعلٰی ترین معیار تسلیم کیا جاتا اور غزل گو استاد فن خیال کیا جاتا تھا۔ دوسرا اُس عہد میں مشاعرے کی مضبوط تہذیبی روایت موجود تھی اور غزل اپنے فنی اسالیب میں اِس روایت کی سب سے اہم صنف بن گئی تھی اور تیسری اہم بات یہ کہ شہیدی تک آتے آتے غزل کی صنف اپنی ایک مضبوط اور مربوط روایت تشکیل دے چکی تھی۔ دہلوی اور لکھنو ذائقوں نے غزل کو نئے موسموں اور نئی دنیاوں سے آشنا کیا۔ اِس صورت حال میں غزل لامحالہ شعرا کا پہلا انتخاب ٹھہرتی رہی۔

شہیدی بھی اِس ماحول اور شعری مزاج سے متاثر ہوئے اور غزل اُن کی بنیادی تخلیقی اظہار بنی۔ وہ مصحفی کے شاگرد رہے اگرچہ بعد میں وہ شاہ نصیر سے مشورہ سخن لیتے رہے مگر اُن کے اُسلوب پر نمایاں چھاپ مصحفی ہی کی رہی اور یہی پس منظر اُن کی شاعری کو سمجھنے اور اُس کا تجزیہ کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ شہیدی کی غزل میں چند باتیں قابل ذکر ہیں۔

عشقیہ واردات کا بیان دیگر شعرا کی طرح شہیدی کی غزل کا بنیادی وصف ہے۔ یہ وہ خوبی ہے جو اُن کی غزلوں میں مختلف رنگوں اور ذائقوں سے نمایاں ہے۔ شہیدی کے بارے میں ڈاکٹر لطیف حسین صاحب ادیب کی رائے بالکل صائب ہے کہ وہ بندہ عشق تھے، جن کی تمام زندگی عشق کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی۔(۳۷) شہیدی نے اپنی غزل میں اپنے بندہ عشق ہونے، اپنی آوارگی اور وارستی کا ثبوت پیش کیا ہے۔ شہیدی کی ذہنی ساخت پرداخت لکھنو میں ہوئی اور وہ بنیادی طور پر لکھنو ہی کی پیداور تھے اِس لئے اُن کے یہاں عشق کا وہی خاص رنگ ملے گا جو لکھنوی شاعری کا خاصہ ہے۔ خارجیت، عشق کا بے دھڑک اظہار، حسن کی تعریف، بازاری محبوب، کوٹھے کی روایات، محبوب کی محض دکھاوے کے طور پر بے وفائی اور پھر میلاب کے الف لیلوی قصے وغیرہ غرض سبھی حوالے ڈھلائے لکھنوی انداز میں بیان کئے گئے ہیں۔ اُن کی غزل عام لکھنوی شعرا کی طرح عموماً دردوسوز، کسک وجلن اور داخلی واردات کے کرشمہ سے تقریباً عاری ہے۔ البتہ ایک بات ضرور ہے کہ عشق کے اظہار میں شہیدی زیادہ رکھ رکھاو اور تکلف کے عادی نظر نہیں آتے بلکہ ایک لا ابالی، کھلا ڈلا اور آوارہ مزاج عاشق کا سا انداز اُن کی غزلوں میں پایا جاتا ہے۔

قتل کے دن دوڑ کر میں پائے جاناں پر گرا

تشنہ عمر خضر تھا، آپ حیواں پر گرا

ہجر میں جینے سے مرنا وصل میں مجھ کو قبول

یہ سخن پروانہ کہہ کر شمع سوز مر گیا

عشق میں کم تر ہنسے اور بیشر رویا کئے

ایک شب کا لطف برسوں یاد کر رویا کئے

غضب ہے جس بت کافر پر اپنا دم نکلتا ہے

نیا تابوت اُس کے کوچے سے ہر دم نکلتا ہے

ہر طرف سینکڑوں خورشید و قمر جلوہ فروش

وہ اُدھر کوٹھے پر اپنے یہ اِدھر کوٹھے پر

جھانکنا روزنِ دیوار سے اب چھوڑ دیا

یا کھڑے رہتے تھے ہم دو دو پہر کوٹھے پر

شہیدی اپنے انداز و اُسلوب میں مصحفی سے شدید متاثر نظر آتے ہیں اور بہت سی غزلیات انہوں نے مصحفی کی زمینوں میں کہی ہیں، یوں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اُن کے یہاں عشق، معاملاتِ عشق اور واردتِ قلبی کے حوالے سے زیادہ امکانی وسعت نظر نہیں آتی بلکہ وہ ایک لگے بندھے انداز میں شعر کہتے ہیں۔ اُن کے یہاں وہی اُسلوب، آہنگ اور موضوعات ہیں جو اکثر لکھنوی شعرا کے یہاں عمومی طور پر نظر آتے ہیں۔ لکھنوی انداز و مزاج میں اگر کوئی شاعر رول ماڈل بنتا ہے تو وہ جرات ہیں۔ لکھنو کے اکثر شعرا نے اُنہی کی تقلید کرنے کی کوشش کی ہے جس میں وہ زیادہ کامیاب نہیں ہوسکے۔ شہیدی نے بھی اِسی ڈگر پر چلنے کی کوشش کی اور اِس وجہ سے اُن کے یہاں معاملہ بندی کا رجحان ملے گا مگر اُن پر مصحفی کا انداز غالب رہا اور جہاں یہ انداز اپنا رنگ دکھاتا ہے وہاں شہیدی نہایت عمدہ شعر کہتے نظر آتے ہیں۔

کرچکے نیم نگہ پر مرے دل کا سودا

نہ خریدو یہ ابھی اور بھی ارزاں ہوگا

رحم آتا ہے مجھے اِس نوجوانی پر تری

اے شہیدی رات دن کا رنج و غم اچھا نہیں

وہ وقت تو آنے دو بتائیں گے شہیدی

بن آئے کسی شخص پہ مر جاتے ہیں کیسے

سیکھ لے ہم سے کوئی ضبط جنوں کے انداز

برسوں پابند رہے پر نہ ہلائی زنجیر

اب شہیدی سے تو ہے ضبط جنوں بس دشوار

دامن یار ہی چھوٹا تو گریباں کیسا

شہیدی کی غزل کی ایک خوبی حسن کی جلوہ گری اور کرشمہ سازی کے بیان میں ہے۔ محبوب کے حسن و جمال، اُس کے اندازِ دلربائی، اُس کی چال ڈھال اور ناز و ادا کا بیان شہیدی کے یہاں بہت خوبصورت انداز میں آیا ہے۔ اُن کے یہاں حسن کو دیکھنے اور لطف اٹھانے کا عمل ہے نہ کہ وہ اُسے کسی گہری تخلیقی واردات کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اُن کا قلم محض محبوب کا خارجی خدوخال کی تصویر کھنچتا ہے اور اِس معاملے ہیں وہ بعض اوقات بہت شوخ ہو جاتے ہیں۔ خارجی خدوخال اور حسن محبوب کے بیان میں شہیدی نے جس طرح تشبیہات و استعارات کو برتا ہے وہ اُن کی فنی پختگی کا ثبوت ہے۔

اے پری حیراں ہوں تیرے خندہ تقریر کا

اک طلسم نو ہے کھلنا غنچہ تصویر کا

اُس کے ابرو پر ہمیشہ چیں نظر آتی رہی

بل نکل سکتا نہیں ہے ہم سے اُس شمشیر کا

کسی کے عارض و گیسو کی مجھ کو یاد آتی ہے

نہ چھیڑ اے ہم نشین قصہ شب غم، گل صنوبر کا

ہوا زلفِ سیہ پر نامہ اعمال کا شبہہ

دُر گوش اُس کا میں سمجھا ستارہ صبح مخضر کا

حسن محبوب کی تصویر کشی کے حوالے سے ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ انہوں نے مصحفی کی طرح رنگوں کو بہت اہمیت دی ہے۔ جس طرح محصفی کے یہاں 'رنگ' مختلف امیجز بناتے ہیں اِس طرح شہیدی کے یہاں بھی یہی حوالہ بہت مضبوط آتا ہے، بلکہ اِس سےبھی آگے انہوں نے آواز کے حوالے سے بھی نہایت خوبصورت امیجز تخلیق کئے ہیں۔ امیجز (تماثال آفرینی) کا یہی رجحان شہیدی کے یہاں دلکشی اور خوبصورتی پیدا کرتا ہے۔ وہ الفاظ کے ذریعے ایسی چلتی پھرتی تصریریں تخلیق کرتا ہے کہ ایک ڈرامائی کیفیت تخلیق ہوجاتی ہے۔ مثلاً

تصور عاشقِ بے تاب نے دل میں جہاں باندھا

نقاب اُس شرمگیں نے اپنے چہرے پر وہاں باندھا

لبِ جو کس نے اے رشک پری ایسا سماں باندھا

کہ تو نے دو ترانے گائے اور آب رواں باندھا

کیا چھپے آبی دوپٹہ میں جھلک اُس کان کی

جلوہ عکس قمر کا آپ کب حائل ہوا

یقین ہے چاندک کا دھوکا پڑے گا چہرہ پر

ابھی کھلے گا ترا موسم جوانی رنگ

اِس مضمون میں شہیدی کے کلام کا تنقیدی جائزہ لینا مقصود نہیں ہے، بلکہ یہ عرض کرنا ہے کہ شہیدی دیگر لکھنوی شعرا سے موضوعات اور اُسلوب دونوں بنیادوں پر مختلف نہیں ہیں۔ اُن کی غزل میں وہ تمام صفات پائی جاتی ہیں جو لکھنوی مزاج کا خاصہ ہیں۔ شہیدی کی اصل وجہ شہرت اُن کی نعت گوئی ہے، بلکہ نعت گوئی میں وہ رجحان ساز شاعر تسلیم کئے جاتے ہیں۔

حواشی و حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری، "اُردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری" (لاہور، مجلس ترقی ادب، اوّل ۱۹۷۲ء) ص ۵۴۷۔ (ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی فراہم کردہ فہرست کے مطابق جن تذکروں میں شہیدی کا حوالہ موجود ہے وہ یہ ہیں۔ (i) "گلشنِ بے خار" از مصفتفٰی خان شیفتہ (ii) "تاریخ ادب ہندوستانی" از گار سیں دتا سی (iii) "خوش معرکہ زیبا" از سعادت خان (iv) "بہارِ بے خزاں" از احمد حسین سحر (v) "گلستانِ بے خزاں" از قطب الدین باطن (vi) "طبقات الشعرائے ہند" از کریم الدین اور فیلن (vii) "یادگارِ شعرا" از سپرنگر (viii) "سراپا سخن" از سید محس علی (ix) "گلشنِ ہمیشہ بہار" از نصراللہ خان خیشگی (x) "نسخہ دلکشا" از جنم جی مترار ماں (xi) "گلشانِ سخن" از قادر بخش صابر (xii) "ریاض الفردوس" از محمد حسین خان شاہجہان پوری (xiii) "قطعہ منتخب" از عبدالغفور خاں نساخ (xiv) "سخنِ شعرا" از عبدالغفور خاں نساخ (xv) "تذکرہ نادری" از کلبِ حسیں خاں نادر (xvi) "ارمغانِ گوگل پرشاد" از گوگل پرشاد (xvii) "طورِ کلیم" از سید نورالحسن خاں (xviii) "بزمِ سخن" از سید علی حسن خان)۔

۲۔ ڈاکٹر لطیف حسین صاحب ادیب "کرامت علی خاں شہیدی" (مضمون) مشمولہ "معارف اعظم گڑھ (نمبر۱، جلد ۹۳ء جنوری ۱۹۶۴ء) ص ۴۳

۳۔ ایضاً

۴۔ ایضاً

۵۔ مولانا سید عبدالحی، "گلِ رعنا" (لاہور، عشرت پبلشنگ پاوس، ۱۹۶۴ء) ص ۲۷۴

۶۔ مرزا قادر بخش صابر، "گلستانِ سخن" جلد دوم مرتبہ خلیل الرحمٰن داودی (لاہور، مجلس ترقی ادب، ۱۹۶۴ء) ص ۸۰

۷۔ کرامت علی خان شہیدی، "دیوانِ شہیدی" (لکھنو، مطبع رفیع منشی نول کشور، بار اوّل، نومبر ۱۸۸۰ء) ص ۹۸

۸۔ مولانا سید عبدالحی، "گلِ رعنا"، ص ۲۷۴

۹۔ ڈاکٹر لطف حسین صاحب ادیب، معارف، اعظم گڑھ، ص ۴۳

۱۰۔ مرزا قادر بخش صابر، "گلستانِ سخن" جلد دوم، ص ۸۱، ۸۰

۱۱۔ مصطفٰی خان شیفتہ، "تذکرہ گلشنِ بے خار" (کراچی، نفیس اکیڈمی، ۱۹۶۳ء) ص ۱۵۸

۱۲۔ نواب محمد عطا حسین عطا ایک سخن شناس رئیس تھے اور خود بھی شعر کہتے تھے۔ شہیدی کے علاوہ دیگر شعرا اُن کے دربار سے وابستہ رہے انہوں نے شہیدی کو رہنے کے لیے مکان عطا فرمایا۔ محققین کی رائے میں نواب صاحب موصوف نے غزل، ہجو، اور مثنوی وغیرہ میں طبع آزمائی کی ہے مگر اُن کا کلام دستیاب نہیں ہے البتہ دیوانِ شہیدی مطبع نول کشور کے چاروں ایڈیشنوں کے صفحہ نمبر ۹۳پر شہیدی نے "خمسہ بر غزل عطا" کے عنوان سے نواب صاحب کی غزل پر مخمس ہیت میں ایک نظم لکھی ہے جو سات بندوں پر مشتمل ہے۔

۱۳۔ ڈاکٹر لطیف حسین صاحب ادیب نے تاریخ مثنوی محمد عطا حسین کے اشعار کی تعداد اکیس بتائی ہے۔ ممکن ہے ڈاکٹر صاحب کے مدنظر ۱۸۵۱ء والا نسخہ ہو جبکہ نول کشور کے زیر اہتمام شائع ہونے والے دیوانِ شہیدی بار اوّل ۱۸۸۰ء بار سوئم ۱۹۰۴ اور بار چہارم ۱۹۱۳ء میں اِس مثنوی کے اشعار کی تعداد ۳۶بنتی ہے اور شہیدی نے اِس کی تاریخ ۱۲۵۴ھ نکالی ہے۔

دل اہل طرب کرنے کو مسرور گل رنگین بہار گلشن سور (۱۲۵۴ء)

۱۴۔ ڈاکٹر لطیف حسین صاحب ادیب، معارف، اعظم گڑھ، ۱۹۶۴ء، ص ۴۴

۱۵۔ کریم الدین اور فیلن، "طبقات الشعرائے ہند" (مطبع العلوم مدرسہ دہلی ۱۹۴۸ء) ص ۳۶۹

۱۶۔ مولانا سید عبدالحی، "گلِ رعنا"، ص ۲۷۴

۱۷۔ جسٹس ایس اے رحمان (چیئرمین)، "اردو جامع انسائیکلوپیڈیا" جلد اول (لاہور، غلام علی اینڈ سنز، ۱۹۸۷ء) ص ۸۶۷

۱۸۔ مولانا سید عبدالحی، "گلِ رعنا"، ص ۲۷۴

۱۹۔ نثار احمد فاروقی، "شیفتہ کا ایک غیر مطبوعہ خط" مشمولہ آج کل ۱۹۶۴ء۔ بحوالہ ڈاکٹر تبسم، شاگردانِ مصحفی، (لاہور، مکتبہ عالیہ) ص ۳۹،۳۸

۲۰۔ ڈاکٹر تبسم کاشمیری، "شاگردانِ مصحفی"، ص ۳۷

۲۱۔ ڈاکٹر لطف حسین صاحب ادیب، معارف، اعظم گڑھ، ۱۹۶۴ء، ص ۴۶

۲۲۔ ڈاکٹر فرمان فتح پور، "اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری"، ص ۲۳۴

۲۳۔ مرزا قادر بخش صابر، "گلستانِ سخن" جلد دوم، ص ۸۰

۲۴۔ مولانا سید عبدالحی، "گلِ رعنا"، ص ۲۷۴

۲۵۔ عبدالرشید عصیم، "تذکرہ تلامزہ شاہ حاتم" (ملتان، بیکن بکس، ۱۹۹۴ء) ص ۳۸۱

۲۶۔ ڈاکٹر لطیف حسین صاحب ادیب، معارف، اعظم گڑھ ۱۹۶۴ء، ص ۴۶، ۴۵

۲۷۔ ایضاً

۲۸۔ "دیوانِ شہیدی"، مطبع منشی نول کشور، اول نمبر ۱۸۸۰ء ص ۹۸

۲۹۔ "دیوانِ شہیدی"، نول کشور لکھنو بار سوم، ۱۹۰۴ء، ص ۹۸

۳۰۔ "دیوانِ شہیدی"، مطبع رفیع جوہر ہند دہلی، سن ندارد، ص ۹۶

۳۱۔ ڈاکٹر لطیف حسین صاحب ادیب، معارف اعظم گڈھ، ص ۵۲

۳۲۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری "اُردو کی نعتیہ شاعری" (لاہور، آئینہ، ۱۹۷۴ء) ص ۵۰

۳۳۔ ڈاکٹر رفیع الدین اشفاق "اُردو میں نعتیہ شاعری' (کراچی، اُردو اکیڈمی سندھ، ۱۹۷۵ء) ص ۲۲۶

۳۴۔ ڈاکٹر ریاض مجید "اُردو میں نعت گوئی" (لاہور، اقبال اکادمی ، اوّل ۱۹۹۰ء) ص ۳۰۴

۳۵۔ سید یونس شاہ، "تذکرہ نعت گویانِ اُردو" (ایبٹ آباد، الگیلان پبلیشرِ سن ندارد) ص ۲۷۲

۳۶۔ ڈاکٹر ریاض مجید، "اُردو میں نعت گوئی"، ص ۳۰۷

۳۷۔ ڈاکٹر لطیف حسین صاحب ادیب، معارف اعظم گڈھ، ص ۴۸

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

زبان و بیان آداب ِ نعت
نعت خواں اور نعت خوانی نعت گو شعراء اور نعت گوئی
شخصیات اور انٹرویوز معروف شعراء