ڈاکٹر محمود احمد غازی حمد ونعت کے آئینے میں ، پروفیسر محمد اقبال جاوید

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

ABSTRACT[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

Professor Muhammad Iqbal Javed is an appreciator of high emotional expression of poets with sensitivity of grace of devotional poetry and grandeur of Prophet Muhammad (S.A.W). He has expressed his love to the poetry of Dr. Mahmood Ahmad Gazi, who was a renowned religious scholar and a poet. The examples of Devotional poetry presented in the cited article are suggestive of recognition of Late Gazi in the genre of Naatia Poetry, as the same is profoundly written with the high sensibility of Persian traditions besides deep sense of importance of the text of such type of poetry. Contents of Naatia poetry are always sensitive but the same poetry is not being written with that much required care by contemporary poets and, therefore, Professor Iqbal Javed has aptly attempted to invite heed towards some points to ponder with.


پروفیسر محمد اقبال جاوید۔گوجرانوالہ

ڈاکٹر محمود احمد غازی ؒ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

(حمدو نعت کے آئینے میں )


یہ اشرف المخلوقات جانے ،نہ جانے ،سمجھے ،نہ سمجھے ،حقیقت یہی ہے کہ جملہ مخلوق اپنے اپنے رنگ سے خالقِ کائنات کی حمد سرا ہے کہ حمد ٗذکر کی ایک حسین کہکشاں اوریاد کی ایک دل آویز قوسِ قزح ہے۔یہ نفس نفس زیبائی ،روش روش رعنائی اور قدم قدم سچائی ہے ۔ یہ دل کی سعادت جبیں کانور اورذہن کی معراج ہے ۔یہ ہم خاکیوں کا اعزاز اور قدسیوں کا شعار ہے۔اِس سے نیاز کو ناز اور سجدوں کو گداز ملتا ہے ۔ یہ تحدیثِ نعمت اور نیازِ عبدیت ہے ۔یہ عبدِ مجبور کا سہارا اور عبدِ شکور کا فخر ہے ۔

اور نعت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اُس ذاتِ اقدس کی ثنا ہے ،جن کی حیثیت اس کائنات کے لیے اللہ تعالیٰ کے ایک عظیم ترینِ احسان کی سی ہے ۔جو نہ ہوتے تو کائنات نہ ہوتی ،لولاک لما خلقت الافلاک کوگو ضعیف حدیث کہا گیا لیکن اس کے ضعف میں بھی حقیقت کی ایک پوری قوت پوشیدہ ہے اور حقیقت یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم وجہِ وجود کائنات ہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے پاؤں کی ٹھوکر سے ہزاروں طور ابھرتے ہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی رفتارِ حسیں، تاریخ کے رُخ موڑتی اور تمدن کے رنگ نکھارتی رہی ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ہی کے نطقِ عنبر فشاں کا فیض ہے کہ کون ومکاں کو نکہتیں عرب ہی کے صحرا سے مل رہی ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ہی کے کوچے کو چُھو کر گزرنے والی ہوائے مشک بُو سے دل کے غنچے نمو پاتے اور روح کے آنگن مسکراتے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ہی کے محاسن کی دھنک پر فشاں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے نقوشِ پاکی چمک منزل نشاں ہے اور رہے گی۔

حمدونعت کے بارے میں درجِ بالا سطور بے ساختہ قرطاس وقلم کو ’’ نواز‘‘ گئی ہیں کہ پیشِ نظر جناب محمود احمد غازی ؒ کی ایک حمد اورکچھ نعتیہ منظومات ہیں۔وہ بنیادی طور پرشاعر نہیں تھے مگراللہ تعالیٰ نے اُنھیں طبع موزوں اور قلبِ سلیم سے نوازرکھا تھا اور شعر،کلامِ موزوں ہی کا دوسرانام ہے ۔حق یہ ہے کہ علمائے کرام اور صوفیائے عظام کی اکثریت شعر کہتی تونہیں تھی مگراُن کی تحریروں اور تقریروں میں آمد کی ایک ایسی بے ساختگی ہوتی تھی کہ اُن کے جملوں پر بھی مصر عوں کا گمان گزرتا تھا:

لہو جلا کے کیا لفظ کادیا روشن

زمیں اُٹھائی ، اُسے آسماں کیا ہم نے

اور بعض کی فکری صالحیت تو باقاعدہ شعری ستارے اُبھارتی اوراُجالے بانٹتی رہی۔بعض اللہ والو ں کی تحریروں میں اساتذہ کے مستعمل اشعار اہم نکات کی صرف وضاحت ہی نہیں کرتے بلکہ اُن کے حُسنِ ذوق کا دل آویز اظہار بھی ہیں۔اور یوں لگتا ہے کہ وہ اشعار اِسی موقع اور محل کے لیے وجود میں آئے تھے اوراُ ن کے حسنِ استعمال پرتو شعر کہنے والوں کی روح بھی وجد کرتی ہوگی سوزِ دل کو سازِ رگِ جاں بنانے کے لیے جاں گداز مرحلوں سے گزر نا پڑتا ہے

کہاں زمانے کا ذہن پہنچا ،مرے تصور کے بانکپن تک

ہزار عالم گزر چکے ہیں ،شعورِ فن سے خلوصِ فن تک

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کو ۱۸ سال کی عمر میں (۱۹۶۸ء) ایک نابینا مصری شاعر (شیخ صاوی علی شعلان) کی صحبت میسرآئی ۔موصوف کو حکومتِ پاکستان نے کلامِ اقبال کے منظوم عربی ترجمے کے لیے مدعوکیاتھا ۔غازی مرحوم کلامِ اقبال کا عربی نثر میں ترجمہ کرتے اور مصری شاعر اُسے عربی نظم کاروپ دیتے تھے ۔اِس مشق سے اُن کے فارسی اور عربی ذوق کو جلا ملی ۔اُنھیں اسی عمر میں کلامِ اقبال ازبر ہوگیاتھا اور مطالب دل میں اتر گئے تھے ۔ چنانچہ انہو ں نے ’’ام الشرق‘‘ کے نام سے کلامِ اقبال کا عربی میں ترجمہ بھی کیا ۔گو انھیں شاعری سے دلچسپی نہ تھی ۔مگر فیضانِ اقبال ؒ نے اُن کی فکر کو صالحیت اور تحریر کودل نشینی کی ایک ایسی کیفیت عطاکی کہ نثری بے کیفیاں ،لطف اور لطافت کے سانچے میں ڈھل گئیں اور اقبالؒ ہی کی آرزو تھی کہ کوئی ایسا بالغ نظر ابھر ے جو اسلامی اصولوں کا عہدِ حاضر کے سماجی ضوابط کے ساتھ موازنہ کرے اور پھر اسلامی ضوابط کی برتری ثابت کرے کہ وہ اصول الہامی اور بہ ہر نوع مکمل ہیں اور دیگر قوانین انسانی ذہن کے ساختہ پر داختہ ہیں اور ہر لمحہ ترمیم و تنسیخ کے محتاج محترم محمود احمد غازیؒ نے شعوری یالاشعوری طور پراقبالؒ کی اِس آرزو کی تکمیل میں اپنے ذہن وفکر ،قلب ونظر اور قرطاس وقلم کی بہترین صلاحیتوں کو صرف کیا اقبالؒ کو حُبِّ رسولصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم اور حُبِّ قرآن ہی نے عظمت عطا کی تھی اور اُس کی اِس رفعت کو چُھونے والا ،کوئی دوردور تک نظرنہیں آتا کہ اقبال ؒ تخیل کا مجدّد اور تصور کا امام تھا ،اُس کی شراب عرب کی کھجور سے کشید ہوکر آئی تھی۔وہ ہر جلوے میں کلیم ،شعلے میں خلیل ،غبار میں سوار ،مُشتِ خاک میں پا رۂ الماس ،جسدِ خاکی میں انگارا ، خاکستر میں چنگاری اور چنگاری میں فروغ جاوداں ڈھونڈتا تھا ، وہ بلالِ مشرق بھی تھا اور کلیمِ ایشیا بھی اور مجھے جناب غازیؒ کی زیرِ نظر منظومات میں اقبالؒ ہی کی اثر آفرینیاں نظرآتی ہیں،یہاں تک کہ کئی مصرعے اقبالؒ ہی سے مستعار ہیں ۔میں اُنھیں کلامِ اقبال ؒ اور پیغامِ اقبالؒ کے تاثرکا ایک خوبصورت نتیجہ سمجھتا ہوں۔

جناب غازی ؒ کی یہ منظومات غزل کی ہئیت میں ہیں ،غزل وہ حقیقت ہے جو حُسن میں بستی ہے ،یہ قلزم کو قطرے میں سمیٹنے پر قادر ہے ۔بہت سی نظمیں مل کر بھی غزل کے ایک مصرعے سے آنکھ نہیں ملا سکتیں اور یہ تخیّل کی وہ معراج ہے جو دیوانگی میں قیس و فرہاد اورفرزانگی میں میرو غالب کو عطا ہوتی ہے ۔اورسب سے بڑھ کر یہ اُن منظومات کو دیارِ خدا ورسولصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکی فضا اور ہوا نصیب ہوئی کہ وہاں ہر رنگ خودبہ خود آہنگ کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے۔وہاں دھڑکنیں ،دردِ دل کہتی ہیں ،آنسو چہکتے اور سکوت بولتا ہے ؂

کسی کے روبرو بیٹھا رہا میں بے زباں ہوکر

مری آنکھوں سے حسرت پھوٹ نکلی داستاں ہوکر

محمود احمد غازیؒ رب العالمین کے گھر میں ہیں ،یاس آس کے دامن میں مسکرا رہی ہے رحمتوں کے در کھلے ہیں اور ہرایک باریاب ہے ؂

مرے جذبوں کو ساری وسعتیں تونے عطا کی ہیں

مرے احساس کے شام وسحر تیرے عطا کردہ

یہ لفظوں کے گہر ، یہ آرزوؤں کے حسیں خاکے

دعاؤں میں جو آتے ہیں نظر ، تیرے عطا کردہ

جمال میں جلال اور جلال اور جمال لیے،یہ واحد مرکز ہے ،جس کے گرد حضور ی کاکیف وسرور والہانہ انداز میں گھومتا اور جھومتا چلا جاتا ہے۔ جذب و جنوں کا یہ بانکپن ،اِس بھری کائنات میں، صرف اورصرف اِسی گھر کاحصہ ہے۔ محمود احمد غازیؒ یہاں اپنی ذات کے ساتھ کائنات لے کر چلتے ہیں اُنھیں امتِ مسلمہ کی بے چارگی مغموم کیے ہوئے ہے ،اُن کی نگاہوں کی تمنائیں ،دل کی دھڑکنیں اور روح کی لرزشیں فریاد کناں ہیں کہ

آگ ہے ، اولادِ ابراہیم ؑ ہے ، نمرود ہے

کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے

اُن کے چند حمدیہ اشعار دیکھیے کہ اُن کے دل کی دھڑکنوں کو کیسے زبان مل گئی ہے ؂

شہیدِ نازِ او بزمِ وجود است

قتیل جلوہ اش سرخ و کبود است

تلامیذ خلیلاں اندر آتش

کمالِ آزراں نار و وقود است

چہ پرسی از نمازِ عاشقانش

تفنگ و تیر و تکبیر و سجود است

جلال و کبریائے ربِّ کعبہ!

بہر سو در جہاں اورا نمود است

بہرسو کہکشانِ رنگ و بو بینم ، خرد دنگ است

’’من ایں دانم کہ من ہستم ،ندا نم ایں چہ نیرنگ است‘‘

اُن کی ایک نعت کا عنوان ہے ’’جمالِ خواجہۂ طیبہ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم اس قدر اجمل ،اکمل اوراحسن تھے کہ الفاظ اپنی تمام تر رعنائیوں کے باوجود سراپا نگاری سے قاصر ہیں،فطرت کا سارا شباب اور کائنات کاسارا نکھار بھی یکجا کرلیا جائے پھر بھی اُس شہِ انجم مطاف کی تصویر کشی ناممکن ہے،جس کی مسکراہٹوں سے کلیاں چٹکنا سیکھتی تھیں اور جس کے خرامِ نازسے ریت کو ریشم کا لوچ مل جاتا تھا۔

رنگ ،خوشبو ،صبا،چاند ،تارے ،کرن،پھول ،شبنم، شفق ،آب جُو ،چاندنی

تیرے معصوم پیکر کی تخلیق میں ،حُسن فطرت کی ہر چیز کام آگئی

اللہ تعالیٰ کی عطا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی ضیا سے ،جناب غازیؒ کی بصیرت کا وہ عالم ہے کہ دونوں عالم کی درخشانی دل کے آئینے میں جھلک رہی ہے اور علوم ومعارف کی تا با نیوں نے اُنھیں جگمگا رکھا ہے۔اور یہ کرم اُس ذاتِ عظیم و جلیل صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکاجو بہ ظاہر گنبدِ اخضرمیں آرام فرماہے مگر جلوے ہیں کہ ہردور کو روشن کیے ہوئے ہیں

تجلّیوں سے تری مستنیر و تابندہ

زمانِ ماضی وعصرِ روان و آئندہ

جناب غازیؒ بھی اِنھی انوار کے ہالے میں ہیں،دیارِ ناز کے اِس قیام نے اُنھیں کِھلاہُوا پھول اور کُھلا ہُوانافہ بنارکھا ہے اور یہ فیض ہے اُس ذاتِ گرامی قدرصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا ،جو جس راستے سے گزرجاتی تھی خوشبو خود غمازی کرتی تھی کہ ’’ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے ۔

خوشبو بتارہی ہے کہ وہ راستے میں ہیں

موجِ صبا کے ہاتھ میں اُن کا سراغ ہے

اَب جمالِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے بارے میں محمود احمد غازی ؒ کے وہ اشعار دیکھیے جوانھوں نے ۲۲ دسمبر ۲۰۰۴ء کو مدینہ ،منورہ کی عنبر فشاں فضاؤں میں کہے نہیں بلکہ اُن سے کہلوائے گئے تھے:

نعت میں کیسے کہوں ان کی رضا سے پہلے

میرے ماتھے پہ پسینہ ہے ثنا سے پہلے

دوعالم راتواں دیدن بمینائے کہ من دارم

کراباشد میّسر چشم بینائے کہ من دارم

کند پروردگارم رازدانِ علّم الاسماء

زہے تابانئ دانش بہ طیبائے کہ من دارم

شبم روشن زنور جاں فزا ،روزم نشاط افزا

کجا طور کلیمے پیش سینائے کہ من دارم

بہ چشم ظاہرِ تو مصطفی در روضہ اش پنہاں

بہ ہرسو جلوہ اش تاباں بہ پہنائے کہ من دارم

جمالِ خواجۂ طیبہ دو عالم راکند روشن

’نگوید لن ترانی کس بسینائے کہ من دارم‘

مقام مصطفی بینی اگر بادیدۂ دل بیں

ندارد کس چناں چشمے بہ دنیائے کہ من دارم

مہِ تاباں مہِ انور اگر خواہی کہ می بینی

بیا‘بیں آں مہِ کامل بہ صحرائے کہ من دارم

دلم چوں کہکشاں روشن شوداز دیدہ ام ریزد

زہے تابش ،خوشا نورے بدنیائے کہ من دارم

بقائے جاوداں یا بم جمالِ مصطفی بینم

عبیر افشاں ہمیں آیم ز صحرائے کہ من دارم

’’مقامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم‘‘ سے متعلق جناب غازیؒ کی نعتوں میں بعض قرآنی اشارات ہیں اُن پر بساط پھر روشنی ڈال رہا ہوں تاکہ قارئین اُن نکات کے حسنِ استعمال سے کیف اندوز ہوسکیں ۔

ہبوطِ آدم ؑ کے ساتھ ہی رشدو ہدایت کی ترسیل کا وعدہ بھی تھا اور وعدہ کرنے والابھی وہ ، جوبہرکیف وعدہ وفا کرتا ہے ،چنانچہ رنگ وبو کے اس قافلے کا رواں دواں رہنا ،اُلوہی منشا تھا ،جسے نبوت کہتے ہیں،ہر نبی اِس قافلۂ رنگ وبو کا ممتاز راہی بھی تھا اورقافلہ سالارکا منتظر اور مخبر بھی جناب غازیؒ کے اِ ن نعتیہ اشعار کے مطابق ،آخر میں وہ آئے جن کے انوار سے ہرنبی کا نور مستعار تھا کہ آنے والے کا نور تجلیاتِ ربّانی کا پرتو تھا۔نور ،روشنی ہے اور روشنی اللہ کی عطا ہے جو اللہ والوں کا مقسوم ہے ۔ نبوت کی یہ روشنی ،نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی تشریف آوری سے تکمیل کو پہنچی، تکمیل کے بعد ،نہ کسی اضافے کی ضرورت ہوتی ہے نہ ترمیم کی ۔اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ہی کمال کاملاں بھی ہیں اور جمالِ مرسلاں بھی۔ہونے والے خلیلِ کبریا بھی ہوئے ،کلیمِ کبریا بھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ٹھہرے حبیبِ کبریا ۔

انبیاء را عظمتاں از مصطفی

آں مجاز وہست حقیقت مصطفی

انبیاء روشن ز نور مصطفی

مصطفی روشن ز نور مبتدا

انبیاء از فیض او نور قمر

طالبِ نورِ محمد بحر وبر

اے محمد تو کمال کاملاں

مصطفی رازِ جمالِ مرسلاں

پور آذر را خلیلی دادہ اند

ہم کلامی با شباں بخشیدہ اند

پور مریم روحِ حق نا میدہ شد

ہم چناں پیغمبری بحشیدہ شد

برتر آمد از رسولاں مصطفی

آں حبیبِ کبریا در اصطفا

نور یزداں ہر کجا از مصطفی

ایں جہاں تابد زنور مصطفی

از کمال مصطفی کامل ہمہ

در صلائے مصطفی شامل ہمہ

از چراغِ مصطفی روشن ہمہ

از فروغش تابِ ایں گلشن ہمہ

از در پیغمبری مارا نصیب

در پنا ہش ہر فقیر وہر غریب

اِس امرکی صداقت میں نہ ماضی شبہ کرسکتا ہے نہ حال اور نہ مستقبل کرسکے گا کہ اَب جہاں جہاں روشنی ہے وہ اس چراغِ رسالت ہی کی دین ہے اور جہاں جہاں ظلمت ہے وہ روشنی کے لیے مدینے ہی کی طرف لپک رہی ہے ،یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کو ’’سراجِ منیر ‘‘ کہا گیا ، جناب غازی ؒ کے مطابق چراغ (لفظ سراج غالباً فارسی لفظ چراغ کا معرب ہے ) کی تشبیہ محض تفہیمِ مطالب کے لیے ہے ۔ورنہ دنیا کے چراغوں کو اُس چراغ سے کیا نسبت ،جسے نورِ حق نے روشن کیا ہوا ور روشن تر رہنا جس کا مقدر ہو۔حق یہی ہے کہ کائنات کو جمال وکمال کی ہر کیفیت ،اِسی سراج منیر سے ملتی رہی ہے اور ملتی رہے گی۔ ’’سراج‘‘ کے لفظی اور بنیادی مفہوم میں حُسن کی دل آویزی بھی پائی جاتی ہے۔ زیب وزینت کی نظرنوازی بھی اور جمال کا کمال بھی جو سراج نعت نگار کے پیش نظر ہے اُس کے مقابل نہ آفتاب کا چراغ جل سکتا ہے نہ ماہتاب کا،بلکہ ہر چراغ اُس کے رُوبہ رُو داغ داغ ہے ۔اَب اس ’’سراج منیر ‘‘ کی کرنوں سے مستنیر ،جناب غازیؒ کے کچھ نعتیہ اشعار دیکھیے :

ہردوعالم بر فروخت از مصطفی

مستنیر ہر ذرہ خاک از مصطفی

روشن از نور سراجش ہر بشر

از تب و تابش جمالِ بحر وبر

برتر است و بہتراز روشن چراغ

نورِ تابانش کجا دارد چراغ

ایں مثال است از برائے فہم ما

ورنہ کے باشد چراغ را ایں بہا

ایں چراغِ روشن آمد در مثل

ایں چراغاں را نبا شد آں امل

نیست ایں تشبیہ در بابِ کمال

در منال و در فضیلت ،در جمال

ہست ایں تشبیہ از بہرِ نگہ

چشم ما در امر حق کور وسیہ

ایں مثالاں از برائے فہم ما

تانبا شد مشکلے در فہم ما

آں درودے چوں خلیلِ آزری

برتر ش آمد درودِ داوری

برتر از نور چراغت در بہا

در لطافت نورِ دینِ مصطفی

شہرت و آوازۂ نورِ چراغ

پیش نورِ مصطفی ہست داغ داغ

از قمر برتر چراغت در کمال

آفتابِ ہم نبا شد آں کمال

ہردو رانورِ کمال است از خدا

ہردورا شانِ جمال است از خدا

دیگراں را ماہتاب است بے اثر

نور او بر دیگراں است کور وکر

آفتابے روشنے دارد شکوہ

زد منورعالمِ صحراء و کوہ

دیگراں راآفتاب ہم بے اثر

کے شود پیدا ازو انجم دگر

آفتاب و ماہتاباں کوہ نور

آفتابے دیگرے را چوں گور

یک چراغ آرد ہزاراں در وجود

یک منیر سوزد ہزاراں رابہ جود

مصطفی روشن تراز نورِ ہمہ

مصطفی برتر ز آفتابِ ہمہ

آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ’’شاہد‘‘ ہیں۔حق وصداقت کے ،وہ جہاں کہیں بھی ہو ،کہ وہ انسانیت کی مشترکہ میراث ہے اور شاہد کاحق وصداقت کی منزل تک پہنچنا نتیجہ ہے ،مشاہد ے کی معراج کا ،عقل واستدلال کا نہیں کہ وہ تو نہ رہ نشیں ہے نہ راہی ۔نہ اُسے راستے کا علم ہے نہ منزل کا ۔ شاہد ، اپنے مشاہدے کی بنیاد پر حقائق کااظہار کرتا ہے اور کسی حقیقت کے حواس کی گرفت میںآجانے کا دوسرا نام مشاہدہ ہے اور پوشیدہ حقائق کو بے نقاب دیکھنے والا ’’نبی‘‘ کہلاتا ہے اوراُن حقائق کو دوسروں تک پہچانے والا ’’رسول ‘‘ کہلاتا ہے اور جب رسول اپنے متبعین کے اعمال واحوال کی نگرانی کرتا ہے تو ’’شہید‘‘ کہلاتا ہے۔یہ بھی صداقت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم روزِ حشر ہم پر گواہ ہوں گے اور ہم پہلی امتوں کے بارے میں اللہ پاک ،رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم اور قرآنِ پاک کی حقانیت کی روشنی میں گواہی دیں گے اور ہماری اِس گواہی سے اُن کی قسمتوں کے فیصلے ہوں گے ۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم’’نذیر‘‘ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا انکار ،اللہ تعالیٰ اوراُس کی رحمتوں کا انکار ہے اوراقرار کی جزا اور انکار کی سزا مل کے رہے گی۔یوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے کج روی اور گُم رہی کے سنگین نتائج سے انسانیت کو متنّبہ فرمایا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ’’بشیر‘‘ ہیں کہ احکامِ الٰہی کے مطابق زندگی بسر کرنے والوں کو حُسنِ عاقبت کی خبردیتے ہیں اور رشد وہدایت کا وہ صحیفہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی وسا طت سے ہم تک پہنچا جو فوزو فلاح کاآخری نقیب ہے۔جس نے انسانیت کو یاس وقنوط کی جگہ رجا وتیقّن عطا کیا گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم بہ یک وقت جنّت کی بشارت بھی دیتے ہیں اور جہنم سے ڈراتے بھی ہیں ۔یوں جمال وجلال اور ترغیب وترہیب کو بہترین توازن عطا ہُوا اور ظاہر ہے کہ ایمان خوف ورجا کے مابین ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ’’شفیع‘‘ ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی شفاعت ہم عاصیوں کا واحد سہارا ہے اوریہ بھی یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ جلال میں شفاعت وہی کرسکیں گے جنھیں اجازت عطا ہوگی اورصرف اُسی کے لیے جس کے لیے اجازت ملے گی ،یہ شفاعت ملائکہ بھی کریں گے ، انبیاء بھی،شہدا بھی،صالحین بھی ،حفاظ بھی ،مگراللہ تعالیٰ پرکسی کا دباؤ نہیں ہوگا ،سوائے قرآن مجید کے کہ وہ اللہ ہی کا کلام ہے ۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ’’ذکر رفیع‘‘ کے حامل ہیں اوقاتِ عالم کاایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرتا جوآپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے ذکر کی رفعت کااعلان نہیں کرتا ۔ اللہ تعالیٰ کاذکر بھی رفیع ہے اوراُن کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کابھی ۔رفعِ ذکر ،سنّتِ نبوی کے تحفظ کی یقین دہانی بھی ہے کہ جس طرح قرآن کا متن سینوں میں محفوظ ہے، اسی طرح اُ س متن کی علمی تشریح بھی بہ ہررنگ محفوظ ہے۔ جناب غازیؒ کی درج ذیل نعت میں مقام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے انھی حقائق کاذکر ہے ،بلیغانہ انداز سے کہ :

سفینہ چاہیے اِس بحرِبے کراں کے لیے

شاہد و روشن چراغ وہم نذیر

او گواہ واو شفیع وہم بشیر

داعئ راہِ خدا ہم رہنما

رافعِ ذکرِ خدا قبلہ نما

کاملان وانبیاء بودند بسے

معجزات حق بیاوردند بسے

نورشاں محدود وفانی بودہ است

درزماں و در مکان آنی بودہ است

مصطفی آورد ہزاراں معجزات

عظمتش برتر زکون و کائنات

در قران و در نماز و حج ببین

تاببینی معجزات دائمین

اللہ تعالیٰ نے پہلے انبیائے کرام کو دلیلِ نبوت کے طور پر معجزات عطا فرمائے ، تاکہ کفّار حق کی عظمتوں کے قائل ہوسکیں مگر وہ جملہ معجزات ، وقتی،ہنگامی اور فانی وآنی تھے کیوں کہ اُن کی نبوت بھی محدود تھی مگر نبئ پاک صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کوقرآنِ مجید کی شکل میں ایک دائمی معجزہ عطا کیا گیا ۔ کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی رسالت بھی دائمی تھی،قرآن پاک کتابِ زندہ ہے،زندگی آمیز بھی ہے ،زندگی آموز بھی اور زندگی بخش بھی ۔اُس کی رشدو ہدایت کا اسلوب جاوداں ہے اُس کی فصاحت وبلاغت کے مقابل عرب کے جُملہِ فصیحانِ تمرّدخُو عاجز ہوکر رہ گئے تھے معراجِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ایک ایسا اعجاز ،ایک ایسی فضیلت ،ایک ایسی رفعت اور ایک ایسی قربت ہے کہ کسی اور نبی کو نصیب نہ ہوئی۔نماز اِسی معراج سے عطا ہونے والا تحفہ ہے جوہماری معراج ہے کہ ہمیں اس کے طفیل اُس ذاتِ بلند وبرتر سے ہم کلامی کا شرف ملتا ہے جو رحمن بھی ہے اور رحیم ۔اِسی نماز میں ہماری دنیاوی آسودگی اوراُخروی سرخ روئی مضر ہے تاریخ بتاتی ہے کہ جب مکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے نام لیواؤں کو ناقابلِ بیان تکلیفیں دی جارہی تھی اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کو وطنِ مالوف سے نکالنے کی سازشیں ہورہی تھیں اور یہ بھی طے پاچکا تھا کہ اِس شمع ہدایت کو ،ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گُل کردیا جائے۔عین اُس عالم میں آسمان پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے عروج وارتقا کے سامان ہورہے تھے قضا و قدر کے دفاتر میں معراج وتقدم کے ہنگامہ خیز چرچے تھے چنانچہ اللہ کی مشیّت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کواٹھایا اور مسجد اقصیٰ تک لے اڑی ،پرواز اوراڑان کایہ منظر اس لیے تھا کہ جس شخص کو تم وطن سے نکال رہے ہو،ساری دنیا اس کا وطن قرار پائے گی ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم آسمان تک گئے اور حجب واستار کو چیرتے ہوئے جناب باری تک پہنچ گئے۔باتیں ہوئیں ،اسرارِ دین سمجھائے گئے ،نمازیں عطا ہوئیں ،شریعت کی تفصیلات دی گئیں اورسب سے بڑی بات یہ کہ قرب اِلٰہی کا بلند ترین مقام حصہ میں آیا ۔

محمود احمد غازی ؒ کی درجِ ذیل نعتوں میں قربِ حق کی انھی حقیقتوں کا دل نواز اور روح پرور تذکرہ ہے :

انبیاء را معجزات آمد دلیل

تاکہ باشد عظمت شاں را دلیل

معجزاتے کانبیاء آوردہ اند

ہم نشانِ رفعتِ شاں بودہ اند

با قدیماں معجزہ بد ظاہری

از محمد معجزہ شد قاہری

ظاہری باشددلیل آفلیں

قاہری آرد حیات خالدیں

ظاہراں را زندگی باشد قلیل

قاہراں را سرمدی راہ وسبیل

ظاہری رااز یدبیضا مثال

قاہری بیں در کلامِ ذوالجلال

ایں کلامِ ذوالجلال آمد دلیل

بر ثبوتِ عظمتِ پورِ خلیل

بر سماوات و فلک رفت مصطفی

تابیا رد معجزات باصفا

تو گماں داری کہ اسراست یک سفر

من ہمی بینم درونش صد گہر

از کمال مصطفی گیر ند کمال

در جمال مصطفی جویند جمال

از فلک آوردہ است سوز و سرور

نے فقط فردوس وحور وہم قصور

سوز و سازِ مصطفی در کائنات

کائنات گیرد ازونوروثبات

در رجب آمد سفر تا بیت قدس

از قدوم مصطفی تنویر قدس

آمد از اسرا نماز مومناں

در نماز آمد عروجِ مومناں

زیں عروجِ مصطفی مارا ضیا

زیں نمازِ باصفا مارا بقا ٍ نورِ دیں بارد نمازِ مومنے

سرِّ دیں دارد عروجِ مومنے

چوں ہمہ اعجاز ھا مارا مفید

ہم عروجِ مصطفی مارا مفید

اے خوشاآں مسلمِ روشن ضمیر

کز ضیائے مصطفی شد مستنیر

از بیانِ معجزاتِ مصطفی

ماہمہ از نورِ یزداں باصفا

از کمالات و جمالِ احمدے

در ہمہ عالم جمالِ سرمدے

ایں سعادت از برائے مومناں

ایں کمال آمد برائے مسلماں

ہر کمالش ازرہِ درس وعبر

ذکر اور بالد ہمی فکر ونظر

از دعائے پور آذر بر کتش

در نویدپور مریم ذروتش

از وجودِ مصطفی نور خدا

در دلم از ابتدا تا انتہا

از رسول خالقِ کون و مکاں

در و جو دم نورِ علم و امتناں

امتنانِ خالقِ ارض و سما

برثبوتِ نعمتِ یزداں ندا

درکمالِ مصطفی مارا سبق

اتباعِ مصطفی آمد زِحق

اے خوشا ایں ماہِ پرنورِ رجب

اے خوشا آں ساعتِ ماہِ رجب

در طلب از قصۂ اسرا عبر

گرتو داری جذبۂ فکر ونظر

ملت بیضا زاسرا مستنیر

مردحق ! تو ہم ازو نورے بگیر

نعت ،رفعتِ ذکرِمحمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے اعلانِ ربّانی کاایک دل نواز تسلسل ہے،حُبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کادل کی گہرائیوں میں اُترجانا ، اَساسِ نعت ،گنبدِ اخضر سے دُوری کااحساس،گدازِ نعت اور اسؤہِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا چراغ زندگی بن جانا،مقصودِ نعت ہے ،نعت ،سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ہی کی ایک منظوم صورت ہے جناب غازی ؒ کا ایک خوب صورت نثری اقتباس دیکھیے ۔

مدائحِ نبوی کوبھی ادبیاتِ سیرت یا منظوم سیرت کاایک حصہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ صحابہ کرامؓ بلکہ اُن سے پہلے ہی سے مدائحِ نبوی کارواج چلاآرہا ہے۔بعض اشعار جناب عبدالمطلب سے بھی منسوب ہیں،جب اُن کا انتقال ہواتو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عمر آٹھ سال تھی لیکن اس وقت بھی جناب عبدالمطلب نے ایک موقع پر بعض شعر کہے تھے جو سیرت ابنِ ہشام وغیرہ میں نقل ہیں۔جناب ابو طالب نے بھی حضورصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے بارے میں کچھ شعر کہے تھے جن میں سے ایک شعر بہت قبول ومشہور ہے :

و ابیض یستسقی الغمام بوجھہ

ثمال الیتامی عصمۃ للا رامل

(وہ گوراچٹا مکھڑاجس کانام لے کر بادلوں سے بارش برسانے کی دعا کی جاتی ہے جو یتیموں کا ٹھکانا اور بیواؤں کا سہارا ہے )

جب سیدنا ابو بکر صدیقؓ بیمار تھے ،آپؓ کا بالکل آخری وقت تھا۔غشی کی کیفیت تھی اوراس کے بعد انتقال ہوگیا ۔حضرت عائشہ صدیقہؓ پاس بیٹھی ہوئی تھیں اور والد کے بسترِمرگ پر ہونے کے موقع پر شدید غم کی کیفیت میں انھوں نے یہ شعرپڑھا ۔حضرت ابو بکر صدیقؓ نے فوراً آنکھیں کھولیں اور فرمایا یہ شعر حضورصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے لیے ہے کسی اور کے لیے نہیں کہا جاسکتا ،اس کے بعد پھر غشی کادورہ طاری ہوگیا ۔ جناب ابو طالب کاکہا ہوا یہ شعر اس وقت سے ہی صحابہ میں بہت مشہور تھا،اس وقت سے آج تک ہرشاعر اور ہرادیب اپنی مقدور اور بساط کے مطابق منظوم خراج عقیدت حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذاتِ مبارک کو پیش کرتا چلا آرہا ہے ۔فارسی اور اردو کا دامن اس بارے میں سب سے زیادہ وسیع ہے ،اس میں اگر کوئی لسانی عصبیت کارفرما نہ سمجھی جائے تومیں یہ عرض کرسکتا ہوں کہ اردو اور فارسی کا دامن نعتیہ کلام اور منظوم سیرت کے معاملے میں عربی سے بھی زیادہ وسیع ہے۔

جناب محمود احمد غازیؒ کی یہ نعتیں فارسی زبان میں ہیں،یہ ایک لسانی اورادبی حقیقت ہے کہ فارسی نے عربی کی بلاغت کو حلاوت عطا کی ہے اور اردو نے اس حلاوت کوفصاحت کی شگفتگی سے نوازا ہے،اِسی لیے کہتے ہیں کہ اردو نے عربی اور فارسی کا دودھ پی کر پرورش پائی ہے ۔نقدونظر سے متعلق بلیغ اور مغلق اصطلاحات سے قطع نظر ،ان نعتوں کامجموعی اعتبار سے جائزہ لیتے ہوئے مجھے یہی دیکھنا ہے کہ غازی مرحوم ؒ نے کیاکہا اور کیسے کہا؟حق یہ ہے کہ انھوں نے اپنی نعتوں میں جو کہا وہ قرآن وحدیث کی واضح روشنی میں کہا اورخوب صورت انداز سے کہا یوں اُن کی نعتیں حسن وعشق اور علم و رعرفان کاایک دل آویز امتزاج بن گئی ہیں ۔عقیدہ اور عقیدت دونوں نکھر نکھر کر ،قاری کے وجدان کو نکھارتے چلے جاتے ہیں۔ ان کے ہاں جوش ہے کہ ہوش کا دامن تھام کر چل رہا ہے ،جنوں ہے کہ شعور سے راہ نمائی لے رہا ہے اور عقیدت ہے کہ بصیرت کی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے ۔اُن کی نعتوں میں محب سراپا آرزو ہے اور محبوب سراپا نوازش ۔نتیجہ معلوم کہ آرزو کی تاب وتب ہے کہ جگمگاتی ہی چلی جارہی ہے ۔تمناؤں کی زیرِ نظر قوسِ قزح ہمارے تاریخی آثارکو یوں لفظ روشن کرتی چلی جارہی ہے کہ ناظر،تصورکی دل آویز یوں میں کھوسا جاتا ہے اور ماضی کی درخشانی ،حال کی لُٹی ہوئی صبحوں اور بجھی ہوئی شاموں کو اُجالتی چلی جاتی ہے ، جناب محمود احمد غازی ؒ کی یہ آرزوئیں ،اپنے جلومیں جھلملاتے آنسوؤں کاخراج بھی لیے ہوئے ہیں اور لرزتے قلم کا نیاز بھی کہ یہی وہ بارگاہِ ناز ہے جس کی محبت ہمارا قبلۂ مراد اورکعبۂِ شوق ہے آرزو کے اِسی رنگ وآہنگ نے نعت گوکو یوں سروِچراغاں بنا رکھا ہے :

چوں صدای درد مندودل نواز آید بروں

خضر وقت ازخلوت دشت حجاز آید بروں (۱)

مہلتِ ایں زندگی ازیک نفس رشکِ جناں

آں نفس کزوی شرارِ دلگداز آید بروں

عمرخود باگردشِ شام وسحر بخشیدہ ای

زندگی کے از شبِ تار ودراز آید بروں؟

مردِحق رامی نیابی در حریم دلبراں

می ندانی مردِ حق از ترکتاز آید بروں

پردہ ہائے رنگ وبوچوں می شود زیر وزبر

عالمِ تاب وتبِ دل سرفراز آید بروں

رہ گئی یہ بات کہ جناب محمود احمدغازی ؒ کانعتیہ سرمایہ اس قدر مختصر کیوں ہے ،جب کہ وہ حُبِّ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے بھی بہرہ ورتھے اور شعری صلاحیتوں سے بھی متصف ،وہ راسخ الایمان بھی تھے اور قادر الکلام بھی،وہ دینی اقدار کے مظہر بھی تھے اور شرعی آداب کے نمائندہ بھی ۔ اُن کی عالمانہ وجاہت بھی مسلمہ تھی اور مومنانہ بصیرت بھی میرے نزدیک اِس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اُنھیں احساس تھا کہ:

  • نعت میں محض لفظی خوش نمائی سے بات نہیں بنتی۔
  • وہ خوب سمجھتے تھے کہ وہ کوئی کم مرتبہ شاعر نہ تھا جس نے نعت گوئی کو تلوار کی دھار چلنے سے تشبیہ

دی تھی۔

  • وہ اس حقیقت سے بھی آشنا تھے کہ مُشک وگلاب سے ہزار بار منہ کو دھو کربھی وہ اسمِ پاک زبان پر لانا ’’کمال بے ادبی‘‘ ہے۔

(۱) مصرع از علامہ اقبال ۔است (زبور عجم ۔ص۴۶۵)

  • انھیں بیدل کاعلم تھا کہ اُس نے مدتوں پہلے کہاتھا ؂

زلافِ حمد ونعت اولیٰ است برخاکِ ادب خفتن

سجو دے می تو اں بُردن،دُرودے می تواں گفتن

  • وہ خوب جانتے تھے کہ ایک ہی ذاتِ بلند وبرتر ،’’مرتبہ دانِ محمدصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم‘‘ہے اور وہی

آدابِ ثنا بھی جانتی ہے۔

  • وہ ماضی بعید کی اُن عظیم شخصیات سے بہ خوبی آشنا تھے جو نعت کہتے ہوئے لرزا کرتی تھیں کہ کہیں

قلم کی کوئی ہلکی سی چُوک،خطرے اور خسارے کا باعث نہ بن جائے ۔

لمحۂ فکر یہ ہے کہ آج ہر ’’باتخلص‘‘ بلا تامل تلوار کی دھار پر چلا جارہا ہے ،کیایہ حقیقت نہیں کہ ہمارا(الا ماشاء اللہ )ظاہر قرآن وسنّت کے مطابق ہے نہ باطن ۔نہ معارفِ قرآنی کا ہمیں کوئی خاص فہم ہے اور نہ انوارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے کوئی خاص علاقہ ،مگر نعتوں کے ڈھیرہیں کہ لگتے چلے جارہے ہیں ،یہ کیا بات ہوئی کہ دور نعت کا ہے ،اس لیے نعت کہنا چاہیے ،جب کہ ہردور نعت کا دور رہا ہے اور رہے گا کہ نعت درودوسلام ہی کی ایک شکل ہے کون سمجھائے اِس ’’عہدِ تیز رفتار‘‘کو، کہ نعت ،سنبھل سنبھل کر، لرز لرز کر اور سہم سہم کر،اپنی عظیم نسبت کوشعری پیرہن میں ڈھالنے کی ایک امکانی کوشش ہے کاش دورِ حاضر سمجھے کہ اُس بارگاہِ ناز میں ، جنید وؒ بایزید ؒ ایسی ایک ’’نفس گُم کردہ‘‘حاضری پر شوکتِ الفاظ سے معمور ہزاروں نعتیں قربان کی جاسکتی ہیں:

طوفانِ نوح لانے سے اے چشم فائدہ!

دواشک بھی بہت ہیں اگر کچھ اثر کریں


مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت رنگ | کاروان ِ نعت | فروغ نعت | نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 25