پوٹھوہار آرٹس کونسل کا سالانہ نعتیہ مشاعرہ 2016

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

از سائل نظامی

ماہِ ربیع الاول اور عیسوی سال کے اختتام پرپوٹھوہار آرٹس کونسل نے ایک عظیم الشان نعتیہ مشاعرہ کا اہتمام کیا۔جس کی صدارت بزرگ شاعرسید نصرت زیدی نے کی۔ مہمانِ خصوصی لاہور سے تشریف لائے ہوئے ممتاز شاعر قاری صادق جمیل تھے جبکہ لاہور ہی سے تشریف لائے ہوئے صاحبِ طرز شاعر واجد امیر اور جڑواں شہروں کی ادبی تقریبات کے روحِ رواں طارق نعیم مہمانِ اعزاز تھے۔نظامت کے فرائض پوٹھوہار آرٹس کونسل کے ڈائریکٹرجنرل پیر عتیق احمد چشتی نے انجام دیے۔ جن شعراء نے بارگاہِ رسالت میں ہدیۂ عقیدت پیش کیا ان میں پیر عتیق احمد چشتی، فرحانہ علی، وقار محمود(لاہور)، عامر حبیب عامر(سوہاوہ)، فرزانہ ناز، وقاص احمد انمول، جنید نسیم سیٹھی، سائل نظامی،شہزاد واثق، رفعت وحید، احمد محمود الزماں، ڈاکٹر ذوالفقار علی دانش(حسن ابدال)، صغیر انور، فرح دیبا، مظہر شہزاد خان، ڈاکٹر فرحت عباس، فرخندہ شمیم، سلطان محمود(لاہورڈاکٹر سید اسد علی شاہ(سرگودھاعبد القادر تاباں، خرم خلیق، صفدر قریشی، نسیم سحر، طارق نعیم، واجد امیر(لاہورقاری صادق جمیل(لاہور)اور سید نصرت زیدی شامل ہیں۔ انتخابِ نعت پیش خدمت ہے۔

پیر عتیق احمد چشتی(میزبانِ محفل)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

پائے اذنِ حضور گر مِرا دل

اڑ کے جائے بغیر پر مِرا دل

فرحانہ علی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

آپ کی یاد میں جو اشک گرے ، موتی ہو

کاش اک قطرۂ بے مایہ گہر ہو جائے

وقار محمود[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

چشمِ کرم نے آپ کی حیران کر دیا

مجھ سا فقیر لمحے میں سلطان کر دیا

عامر حبیب عامر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

جب تصور میں دل مدینے چلا

آنسوؤں میں بدل گئے الفاظ

فرزانہ ناز[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

دل پریشان تھا، جان پر تھی بنی اسمِ آقا لیا اور مصیبت ٹلی

وقاص احمد انمول[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

و اللیل کی زلفیں ہیں تو مازاغ ہے کاجل

قرآں بھی تِرے ذکر کے سانچے میں ڈھلا ہے

جنید نسیم سیٹھی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ہو حرفِ شوق مِرا معتبر، جو تو چاہے

نصیبِ شعر ہو کیف و اثر، جو تو چاہے

سائل نظامی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یکلخت چمک اٹھیں مِرے سوگ زدہ نین، اے سیدِ کونین

آنکھوں سے لگا پاؤں اگر آپ کے نعلین، اے سیدِ کونین

شہزاد واثق[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت کہنے کا سلیقہ کوئی کیا جانتا ہے

کوئی کیا جان سکے گا جو خدا جانتا ہے

رفعت وحید[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مجھے یوں دوسروں سے معتبر رکھا گیا ہے

محمد کی غلامی کا شرف بخشا گیا ہے

احمد محمود الزماں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

لب پر نبی کے وصف کا جب تک سخن رہا

انوار کی فضاؤں میں میرا بدن رہا

ڈاکٹر ذوالفقار علی دانش[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اس ایک پل کے لئے مَیں جیا تھا مر مر کے

لحد میں بگڑی بنانے حضور آ پہنچے

صغیر انور[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

انہیں بھیجا گیا انور بنا کر رحمتِ عالم

میاں سارے زمانے کو نبی کا نام کافی ہے

فرح دیبا[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یہ کہاں تھی مِرے نصیب کی بات

یعنی مدحت حضور کی اور مَیں؟

مظہر شہزاد خان[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

خاکِ پائے مصطفی

آنکھ میں جو ڈالی تو

رات روشن ہو گئی(ہائیکو)

ڈاکٹر فرحت عباس[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

جود و کرم سکون کی برسات کیجئے

آقائے کائنات عنایات کیجئے

فرخندہ شمیم(اسلام آباد)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نور کے خزینے سے

نعت اشرفی پائی

سرفراز ٹھہری ہوں(ہائیکو)

سلطان محمود[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

کوئی نہیں تھا حال ہمارا زمین پر

پھر رب نے مصطفی کو اتارا زمین پر

ڈاکٹر سید اسد علی شاہ(سرگودھا)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

فرقت کی اذیت مِرے پیکر نے سہی ہے

پر روح ازل سے ہی مدینہ میں رہی ہے

عبد القادر تاباں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شدتِ غم میں نظر آتی ہے رحمت ان کی

دھوپ چھا جائے تو سائے کا پتا چلتا ہے

خرم خلیق[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یہ کون کہتا ہے خرم، حضور نور نہیں

فلک پہ جا کے پلٹ کر بشر نہیں آتا

صفدر قریشی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

بناؤں زائچے جب انقلاب کے صفدر

ہر ایک نقش میں عکسِ رسول نقش کروں

نسیم سحر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

فضا کیوں نہ ہو مشکبو کو بکو

محمد کی ہے گفتگو کو بکو

طارق نعیم(مہمانِ اعزاز)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

کوئی پیام مِری سمت بھی کبھو آئے

کہ اب تو آنکھ سے پانی نہیں لہو آئے

تِرے خیال میں وہ رفعتیں ملیں ہم کو

قدم زمیں پہ رہے، آسماں کو چھو آئے

واجد امیر(مہمانِ اعزاز)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

تو نے تلوار اٹھائی نہ لڑائی سے ہوا

فتح مکہ ہوا اور صلح صفائی سے ہوا

وہ جو تسخیر نہ ہوتا تھا دلوں کا لشکر

بعد از جنگ اسیروں کی رہائی سے ہوا

قاری صادق جمیل(مہمانِ خصوصی)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

جدھر سے گذروں ، مِرے ہاتھ لوگ چومتے ہیں

مَیں چند گھڑیاں مدینے میں کیا گذار آیا

کوئی یقین نہ کرتا تھا میری باتوں پر

تمہارا نام لیا ، سب کو اعتبار آیا

سید نصرت زیدی(صدرِ محفل)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

دل میں حسرت ہے، نہ لکھا ہو کسی نے ایسا

مَیں تِری مدح و ثناء میں کبھی ایسا لکھوں

شہر فہرستِ سکونت میں جو لکھنا ہو مجھے

کربلا لکھوں، نجف لکھوں، مدینہ لکھوں