وہ سرورِ کشورِ رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

وہ سرورِ کشورِ رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

وہ سرورِ کشورِ رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے

نئے نرالے طرب کے ساماں عرب کے مہمان کے لیے تھے


وہاں فلک پر یہاں زمیں میں رچی تھی شادی مچی تھیں دھومیں

اُدھر سے انوار ہنستے آتے اِدھر سے نفحات اُٹھ رہے تھے


نمازِ اقصیٰ میں تھا یہی سرِ عیاں ہوں معنیِ اول آخر

کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر جو سلطنت آگے کرگئے تھے


بڑھ اے محمد قریں ہو احمد قریب آ سرورِ ممجد

نثار جاؤں یہ کیا ندا تھی یہ کیا سماں تھا یہ کیا مزے تھے


تبارک اللہ شان تیری تجھی کو زیبا ہے بے نیازی

کہیں تو وہ جوشِ لَنْ تَرانی، کہیں تقاضے وصال کے تھے


اٹھے جو قصرِ دنیٰ کے پردے کوئی خبر دے تو کیا خبر دے

وہاں تو جاہی نہیں دوئی کی نہ کہہ کہ وہ بھی نہ تھے ارے تھے


حجاب اٹھنے میں لاکھوں پردے ہر ایک پردے میں لاکھوں جلوے

عجب گھڑی تھی کہ وصل و فرقت جنم کے بچھڑے گلے ملے تھے


وہی ہے اول وہی ہے آخر وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر

اُسی کے جلوے اُسی سے ملنے اُسی سے اُس کی طرف گئے تھے


نبیِ رحمت شفیعِ امت رضا پہ للہ ہو عنایت

اسے بھی ان خلعتوں سے حصہ جو خاص رحمت کے واں بٹے تھے


ثنائے سرکار ہے وظیفہ، قبولِ سرکار ہے تمنا

نہ شاعری کی ہوس نہ پروا، روی تھی کیا کیسے قافیے تھے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔