نیاز سواتی کی نعت پر مسدس حالیٰ کے اثرات ۔ ڈاکٹر نذر عابد

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Naat Kainaat Naat Rang.jpg

مقالہ نگار : ڈاکٹر نذر عابد۔ہزارہ

برائے : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 26

نیاز سواتی کی نعت پر’’مسدسِ حالیٰؔ ‘‘کے اثرات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ABSTRACT:

Niaz Sawati's poetry carry similarities of thought and pattern of expression borrowed from Maulana Altaf Hussain Hali. This article shows similarity of sensibility and textual relativity of poetry of Niaz Sawati with the Sestet of Hali. Subject matter of both Hali and Niaz Sawati is the same and both poets have put their inner feelings in their utterances. Hence the poetic voices become identifiable.

مولانا الطاف حسین حالیؔ کی طویل نظم’’ مدوجزر اسلام‘‘ المعروف’’ مسدسِ حالیؔ ‘‘ اردو میں قومی شاعری کا اولین سنگ میل ہے۔ سرسید کی فرمائش پر لکھی گئی حالی کی یہ طویل نظم ۱۸۷۹ء میں پہلی بار اشاعت پذیر ہوئی تو اسے قبولیت خاص و عام حاصل ہوئی۔ عام طور پرکسی فرمائش کے تحت لکھے گئے فن پارے میں تاثر پذیری کا اعلیٰ شعری معیار قائم نہیں ہو پاتا لیکن ’’ مسدس حالی ؔ ‘‘کو اس سلسلے میں یوں استثنا حا صل ہے کہ یہاں تو فرمائش محض ایک محرک بنی جب کہ اس طویل قومی نظم میں بیا ن کرد ہ مضا مین کا لاوہ تو شاعر کے دل و دماغ میں نہ جانے کب سے پک رہا تھا جس کی حرارت میں درد مندی اور خلوص پر مبنی شاعر کے احساسات و جذبات کی تمام تر حدتیں اپنی پوری شدت کے ساتھ موجود تھیں۔ڈاکٹر رام بابو سکسینہ نے بجا طور پر اسے ایک الہامی کتاب کا درجہ دیتے ہوئے اردو کے افقِ شاعری پر طلوع ہوتا ہوا ایک ستارہ قرار دیا ہے: ’’یہ ایک الہامی کتاب ہے ۔اس کو تاریخِ ارتقاکے ادبِ اردو میں ایک سنگِ نشان سمجھنا چاہیے۔ یہ ایک تارہ ہے جو اردو کے افقِ شاعری پر طلوع ہوا۔اس سے ہندوستان میں قومی اور وطنی نظمو ں کی بنیاد پڑی۔‘‘۱؂

حالیؔ نے اپنی اس طویل نظم کا خاکہ تیار کرتے ہوئے اسے تین حصوں میں تقسیم کیا ۔ پہلے حصے میں قبل از اسلام دورِ جاہلیت کی قبائلی زندگی کا نقشہ کھینچا ۔ دوسرے حصے میں ظہورِ اسلام کی برکات اور مسلمانوں کے عروج کی داستان رقم کی جب کہ تیسرے حصہ مسلمانوں کے زوال اور زبوں حالی کا نوحہ ہے۔ ا س کی و ضاحت خود حالی نے اپنی اس تصنیف کی اشاعتِ اول کے دیباچے میں یوں کی ہے:

’’اس مسدس کے آ غا ز میں پان سات بند تمہید کے لکھ کر اول عرب کی اس ابتر حالت کا خاکہ کھینچا ہے جو ظہورِاسلام سے پہلے تھی اور جس کا نام اسلام کی زبان میں جا ہلیت رکھا گیا ۔ پھر کوکبِ اسلام کا طلوع ہونا اور نبی امیصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تعلیم سے ریگستان کا دفعتا سر سبزو شاداب ہو جانا اور اس ابرِ رحمت کا امت کی کھیتی کو رحلت کے وقت ہرا بھرا چھوڑ جانا اور مسلمانوں کا دینی و دنیوی ترقیات میں تمام عالم میں سبقت لے جانا بیان کیا ہے۔اس کے بعد ان کے تنزل کا حال لکھا ہے اور قوم کے لیے اپنے بے ہنر ہاتھوں سے ایک آئینہ خانہ بنایا ہے جس میں آ کر وہ اپنے خط و خال دیکھ سکتے ہیں کہ ہم کون تھے ،اور کیا ہو گئے۔‘‘۲؂

یہاں ان تینوں حصوں سے متعلق ایک آدھ بندمثال کے طور پرپیش کیا جا رہا ہے تاکہ تینوں حصوں کا اپنا مخصوص مزاج سامنے لایا جا سکے اور محسوس کیا جا سکے کہ شاعر نے ان تینوں حصوں کے اپنے اپنے خاص ماحول کے پیشِ نظر کس قدر اپنی منفرد شعری مہارت کا ثبوت دیا ہے زمانہ ء جاہلیت میں عربوں کی قبائلی زندگی میں باہمی افتراق و انتشار اور روز مرہ زندگی کے وحشی پن کا منظرنامہ یوں پیش کیا ہے۔

قبیلے قبیلے کا بت اک جدا تھا

کسی کا ہبل تھا کسی کا صفا تھا

یہ عزہ پہ وہ نائلہ پر فد ا تھا

اسی طرح گھر گھر نیا اک خدا تھا

نہاں ابرِ ظلمت میں تھا مہرِ انور

اندھرا تھا فاران کی چوٹیوں پر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چلن ان کے جتنے تھے سب وحشیانہ

ہر اک لوٹ اور مار میں تھا یگانہ

فسادوں میں کٹتا تھا ان کا زمانہ

نہ تھا کوئی قانون کا تازیانہ

وہ تھے قتل و غارت میں چالاک ایسے

درندے ہوں میں بے باک جیسے ۳؂

جہالت کی اس تاریک رات میں اس عظیم ذات کا ظہو ہوتا ہے جس کی سیرت و کردار کی کرنیں جہالت کی ان تاریکیوں کو تہذیب و اخلاق کی روشنیوں میں بدل دیتی ہیں اور دکھوں کی ماری انسانیت سکھ کا سانس لیتی ہے۔

یکایک ہوئی غیرتِ حق کو حرکت

بڑھا جانبِ بوقبس ابرِ رحمت

ادا خاکِ بطحا نے کی وہ ودیعت

چلے آتے تھے جس کی دیتے شہادت

ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہویدا

دعائے خلیل62 اور نویدِ مسیحا ۴؂

حالی نے اس مقام پر تین چار ایسے بند تخلیق کیے ہیں جو نعتیہ شاعری کی اعلیٰ مثال ہیں۔ان بندوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرت و کردار کی ایسی جھلکیاں پیش کی ہیں جن کی بدولت انسانی معا شرے میں سماجی سطح کا ایک ایسا عظیم انقلاب برپا ہوا جس کی کرنوں سے انسانیت تا قیامت مستنیر ہوتی رہے گی۔

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا

مرادیں غریبوں کی بر لانے والا

مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا

وہ اپنے پرا ئے کا غم کھانے والا

فقیروں کا ملجا ، ضعیفوں کا ماویٰ

یتیموں کا والی ، غلاموں کا مولیٰ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطا کار سے در گزر کرنے والا

بد اندیش کے دل میں گھر کرنے والا

مفاسد کا زیر و زبر کرنے والا

قبائل کو شیر و شکر کرنے والا

اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا

اور اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا ۵؂

حضوررسالت مآبصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا جب اس دنیا سے پردہ فرمانے کا وقت آیا تو انھوں نے اپنی عظیم تعلیمات کی بدولت ایک ایسی تربیت یافتہ قوم اس دنیا میں چھوڑی جس نے اپنے نبیصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عطا کی گئی تربیت کی بنیاد پر پوری دنیا کی پیشوائی کی۔

جب امت کو مل بھی چکی حق کی نعمت

ادا کر چکی فرض اپنا رسالت

رہی حق پہ باقی نہ بندوں کی حجت

نبی نے کیا خلق سے قصدِرحلت

تو اسلام کی وارث اک قوم چھوڑی

کہ دنیا میں جس کی مثالیں ہیں تھوڑی ۶؂

تاہم جب اسی بے مثل قوم نے اپنے نبی کی تعلیمات سے رو گردانی اختیار کرناشروع کر دی تو نتیجے کے طور پر تاریخی اصول کے تحت یہ قوم بھی تنزل کا شکار ہو ئی ۔ حالی نے اپنی اس طویل نظم میں اس تنزلی کا بھی درد ناک نوحہ قلم بند کیا۔

برے ان پہ وقت آکے پڑنے لگے اب

وہ دنیا میں بس کر اجڑنے لگے اب

بھرے ان کے میلے بچھڑنے لگے اب

بنے تھے وہ جیسے بگڑنے لگے اب

ہری کھیتیاں جل گئیں لہلہا کر

گھٹا کھل گئی سارے عالم پہ چھا کر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نہ ثروت رہی ان کی قا ئم نہ عزت

گئے چھوڑ سا تھ ان کا اقبال و دولت

ہوئے علم و فن ان سے ایک ایک رخصت

مٹیں خوبیاں ساری نوبت بہ نوبت

رہا دین باقی نہ اسلام باقی

اک اسلام کا ر ہ گیا نام باقی ۷؂

حالیؔ کی اس طویل نظم نے اردو کی قومی شاعری کو ہر دور میں متاثر کیا ۔ یہاں تک کہ اقبال کی’’ شکوہ‘‘ اور ’’جوابِ شکوہ‘‘ جیسی شاہکار نظموں میں بھی ہےئت سے لے کر موضوعات و مضامین تک’’مسدسِ حالیؔ ‘‘ کے اثرات نمایاں طور پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

قومی و ملی شاعری کے علاوہ اردو کی نعتیہ شاعری میں بھی اس نظم کے ا اثرات تلاش کیے جا سکتے ہیں۔حالیؔ نے اپنی اس نظم میں نعتیہ شاعری کا ایک ایسا انداز متعارف کرایا جس کے تحت حضور اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ والا صفات سے عقیدت کا اظہار ان کی سیرت و کردار کے اعلیٰ معیار کے اعتراف کی صورت میں کیا گیا ۔ وہ سیر ت و کردارجس کی پیروی کی صورت میں انسانی بستیوں میں ذہنی و روحانی حوالے سے انفرادی اور اجتماعی ہر دو سطح پر فکری و سماجی انقلاب برپا ہوا۔

نیاز سواتی (۹۴۱اء۔۱۹۹۵ء) خطہ ء ہزارہ کے وہ نمایاں شاعر ہیں جن کی شہرت اپنے علاقے سے نکل کر ملک کے دوسرے معروف ادبی حلقوں میں بھی پہنچی ۔ ان کی معروف وجۂ شہرت طنزو مزاح پر مبنی ان کا وقیع کلام ہے۔ تاہم ان کی نعتیہ شاعری بھی اپنا ایک معتبر مقام رکھتی ہے۔ ان کے نعتیہ کلام میں جابجا ’’مسدسِ حالیؔ ‘‘ کے ا ثرات یوں محسوس کیے جا سکتے ہیں کہ وہ اکثر اپنی قدرے طویل نعتیہ نظموں میں لگ بھگ وہی انداز اختیار کرتے ہیں جو ’’مسدسِ حالیؔ ‘‘ کا امتیاز ہے۔ نیاز سواتی اپنی ایک نعتیہ نظم ’’ ظہورِ قدسی‘‘ میں دنیائے قبل از اسلام کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں۔

ذر ا سی بات پر اہلِ عرب آپس میں لڑتے تھے

ذر ا سی بات پر اک دوسرے کو قتل کرتے تھے

بجا ئے حق تعالیٰ کے ، خدا اصنام ہوتے تھے

عرب میں سب قبائل کے جدا اصنام ہوتے تھے

غلاموں پر ستم ڈھانے کو وہ جائز سمجھتے تھے

انھیں ہر وقت تڑپا نے کو و ہ جا ئز سمجھتے تھے ۸؂

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آگے چل کر اسی نظم میں بعثتِ حضور اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی برکات دکھاتے ہوئے ایسا انداز اختیار کیا ہے کہ ’’مسدسِ حالیؔ ‘‘ کے ا ثرات نمایاں طور پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

کیا حق آ شنا انسان کو آکر محمد نے

تمدن کو نکھارا دینِ حق لا کر محمد نے

محمد نے کیا شیر و شکر آکر قبائل کو

محمدنے بنایا معتبر آکر قبائل کو ۹؂

اسی طرح ایک اور طویل نعت میں بھی یہی صورت ملتی ہے جس میں دورِ جاہلیت کے قابلِ مذمت رسم و رواج پر روشنی ڈالنے کے بعد نبیِ آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آمد کی برکات کا والہانہ انداز میں ذکر کیا ہے۔

ابنِ آدم کی نظروں میں عزت نہ تھی

بنتِ حوا کی کوئی بھی وقعت نہ تھی

جب محمد کی دنیا میں بعثت ہوئی

اس کو وقعت ملی اس کو عزت ملی

ختم کر دی غلامی سدا کے لیے

درس ہم کو دیا ہے مساوات کا

رخ پلٹ کے ہی چھوڑا وہ حالات کا

چاک پردہ کے امتیازات کا ۱۰؂

’’بعثتِ نبوی ‘‘ کے عنوان سے ایک نعتیہ نظم میں نیاز سواتی نے ’’مسدسِ حالیؔ ‘‘ کا وہی انداز اپنایا ہے جس میں انھوں نے بعثت ِ نبوی سے ما قبل اور ما بعد حالات کا تقابل اور موازنہ کیا ہے۔

سرکارِ دو عا لم جب آئے ، الحاد کی ظلمت دور ہوئی

اِس شمعِ نورِ ہدایت سے ، یہ سب دھر تی پر نور ہوئی

صحرائے عرب وہ خطہ تھا ، دنیا میں نہ جس کی وقعت تھی

یہ ان کا کرم ہے دنیا میں ، جو ارضِ عرب مشہور ہوئی ۱۱؂

’’ ظہورِ قدسی‘‘ کے زیرِ عنوان ایک نظم کی ابتدا میں خدا کی زمین پر جہالت کی تاریکیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے او ر نظم کے آخری حصے میں حضور پُر نور کے ظہورِ قد سی کے فیوض و برکات بیان ہوئے ہیں۔

چا ر سو تھیں جہالت کی تاریکیاں

ظلمتوں میں گھری تھی خدا کی زمیں

آپ آئے تو ہر سو سویرا ہوا

کفر کا دور جگ سے اندھیرا ہوا ۱۲؂

نیاز سواتی نے اپنی پابند نعتیہ نظموں کے علاوہ آزاد نعتیہ نظموں میں بھی جابجا لگ بھگ وہی انداز اختیار کیا ہے۔وہ اپنی ایک آزاد نعتیہ نظم ’’ طلوعِ آفتابِ رسالت ‘‘ کی ابتدا ان لائنوں سے کرتے ہیں۔

نہ تھا تصور کسی بھی قانون کا عرب میں

زمین انسان کے لہو سے ، عرب کی، سیراب ہو رہی تھی

حیا و اخلاق کا جنازہ نکل چکا تھا

خدا کا موجود تھا نہ کوئی بھی نام لیوا

چراغ ایماں کے سارے گل تھے ۱۳؂

اسی نظم کا اختتام ان لائنوں پر ہوتا ہے جن میں خوشبوئے نبوت کی مہکاروں اور آفتابِ رسالت کی ضوبار یوں کا ذکر ملتا ہے۔

عرب کی دھرتی پہ ایک ایسا گلاب مہکا

کہ جس کی خوشبو سے سا ری دنیا ہوئی معطر

عرب سے وہ آفتاب ابھرا کہ جس کی ضوسے

تمام دھرتی پہ چار سو ہو گئے اجالے ۱۴؂

ایک نظم ’’ آمدِ داعئی اسلام‘‘ کا آغاز بھی اس تیر ہ و تار فضا کی تصویر آفرینی سے ہوتا ہے جس میں سرزمینِ عرب کفر و الحاد کے بادلوں میں گھری ہوئی دکھائی دیتی ہے۔

کفر سے سب فضا تیر ہ و تا ر تھی

تیرگی تھی ، اجالا کہیں بھی نہ تھا

کفر کے بادلوں سے گھری تھی زمیں

ابنِ آدم خدا سے نہ تھا آشنا

ابنِ آدم کی کوئی نہ توقیر تھی

سب فضائے عرب خونِ آلود تھی ۱۵؂

یہی نظم اپنی اختتامی لائنوں میں کفر کی کالی گھٹاؤں کے چھٹنے اور تعلیماتِ نبویؐ کی خوشبوؤں سے فضا ؤں کے معطر ہونے کی نوید دیتی ہے۔وہ تعلیماتِ نبوی جن کے طفیل انسانیت نے زندگی گزارنے کے سلیقے اور قرینے سیکھے۔

آپ نے آکے جینا سکھایا ہمیں

زندگی کا قرینہ بتایا ہمیں

آپ نے ہی دیا نطق مظلوم کو

حق نہ حاصل تھا جینے کا محکوم کو

آپ نے ابتدا کی نئے دور کی

کفر کی دور کالی گھٹائیں ہوئیں

خوشبوؤں سے معطر فضائیں ہوئیں ۱۶؂

ایک اور آزاد نظم ’’ محسنِ انسانیت ‘‘ میں بھی نیاز سواتی نے یہی انداز اپناتے ہوئے آفتابِ رسالت کے طلوع ہونے سے قبل دنیا کی ایک ایسی تصویر پیش کی ہے جو توحید اور تہذیب کی روشنی سے نا آشنا ظلمت کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی ہے۔

ہر سمت اندھیرے چھائے تھے

جب تک نہ محمد آئے تھے

ہمراہ نہ جب تک وہ اپنے پیغام خدا کا لائے تھے

تہذیب سے دنیا عاری تھی

توحید کی لو سے دور بہت ، مخلوق خدا کی ساری تھی

اوہام تھے اور محصور تھے ہم

توحید سے کوسوں دور تھے ہم ۱۷؂

اس نظم کے آخر میں شاعر نے اس احسانِ عظیم کا ذکر کیا ہے جو محسنِ انسانیت نے پورے عالمِ انسانیت پر کیا اور ان کا یہ احسان تا قیامت انسانیت کے ماتھے کا جھومر بن کر جگمگاتا رہے گا۔

سرکارِ دو عالم نے آکر اس دنیا کو پر نور کیا

ہر سمت اندھیرا کفر کا تھا وہ آپ نے آکر دور کیا

احسان یہ ہم پر آپ کا ہے

حق سے جو شناسا آج ہیں ہم ۱۸؂

یوں دیکھا جائے تو نیاز سواتی کے نعتیہ کلام پر ’’مسدسِ حالیؔ ‘‘ کے ا ثرات اس حد تک ضرور مرتب ہوئے ہیں کہ ان کی مذکورہ نعتیہ نظموں میں خاص طور پر مسدس میں بیان کیے گئے ابتدائی دو حصوں یعنی دورِ جاہلیت کا بیان اوربعثتِ نبوی کا ذکر پر نور جابجا ہوا ہے۔ جہاں تک مسدس کے تیسرے حصے یعنی مسلمانوں کے تنزل کے بیان کا تعلق ہے تو یہ منظم انداز میں ان کے ہاں نہیں پایا جاتا البتہ غیر منظم انداز میں مختلف نعتوں میں اس کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔

حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱۔رام بابو سکسینہ ، تاریخِ ادبِ اردو ، ترجمہ:مرزا محمد عسکری ،عشرت پبلشنگ ہاؤس لاہور،۱۹۷۴ء، ص۲۰۱

۲۔الطاف حسین حالیؔ ،مسدسِ حالیؔ ، تاج کمپنی لاہور،۱۹۸۷ء ،ص۱۰

۳ تا ۷ ۔ ایضََا ص۱۹۔۲۰۔۲۱۔۲۷۔۳۸ بالترتیب

۸۔ نیاز سواتی، مدحتِ پیمبرؐ ، مثال پبلشرز ، فیصل آباد، ۲۰۱۴ ء ص۵۷

۹ تا ۱۸۔ ایضََا ص۵۸۔۶۴۔۸۰۔۹۰۔۵۵۔۵۶۔۶۰۔۶۲۔۱۹۱۔۱۹۲ بالترتیب