نعیم صدیقی ایک منفرد نعت گوشاعر ۔ ڈاکٹر عبداللہ ہاشمی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Naat Kainaat Naat Rang.jpg

مقالہ نگار : ڈاکٹر عبداللہ شاہ ہاشمی۔لاہور

برائے : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 26

نعیم صدیقی..........ایک منفرد نعت گو[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ABSTRACT:

Naeem Siddiqi was a prominent religious scholar, poet and Editor of a periodical Journal Saiyyara. He contributed towards creative literature of genre of Naat in Urdu besides presenting biographical study of Prophet Muhammad (S.A.W). This article delineates features of devotional poems written by Naeem Siddiqi in order to showing literary worth.

قرآن پاک کے نزول سے قبل الہامی صحائف میں النبی المنتظر ملتاہے۔چناں چہ راہبوں اور نجومیوں نے باربار حضوراکرمصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آمد کاتذکرہ کیا اورپیش گوئیاں کیں۔پھر قرآنِ پاک نازل ہوناشروع ہواتوخود ربِّ کائنات نے قرآنِ مبین میں درود کی ابتدا کی اورنعت کاحکم دیا۔ حدیث شریف میں بھی ایسے واقعات مذکور ہیں جونعت کے ذیل میں آتے ہیں۔ہجرت کے بعد حضرت حسانؓ بن ثابت اوردیگر شعرا نے نعتیں لکھیں۔جب عرب سے نکل کر عجم میں اسلام کا ظہور ہوا تو فردوسی سے لے کرشیخ سعدیؒ تک تمام نامور شعرا نے اعلیٰ پائے کی نعتیں اورقصائد لکھے۔ اردو زبان اورادب میں نعت گوئی کی روایت اورارتقااردوزبان کے ارتقا کے ہم قدم رہا۔جنوبی ہند میں جومولودنامے،نورنامے اورقصائد لکھے گئے ان میں اردونعت کاسرمایہ فنی سے زیادہ تبلیغی اور مقصدی ہے البتہ شمالی ہند میں شعرا نے نعت گوئی کے فن کوفکری اورفنی جہت دی۔لکھنؤ میں کئی ایک شعرا کاسرمایہ زیادہ تر نعت پرمشتمل نظرآتاہے اورنعتیہ دیوان لکھے گئے۔امیرؔ مینائی اورمحسن کاکوروی اورآگے چل کر حالیؔ کی نعتیہ شاعری نے نعت گوئی کے ارتقا میں اہم کردار اداکیا۔اب نعت گوئی کادائرہ وسیع تر ہوتاگیا اورمضمون آفرینی اورخیال بندی میں صنائع وبدائع کابکثرت استعمال ہونے لگا۔مولانا احمد رضا خان بریلوی جوایک بڑے عالم دین اورمحب رسول تھے،انھوں نے منطق وہئیت اورنجوم وہندسہ کی اصطلاحات کوشامل نعت کیا اوراس دور میں نعت کی مقبولیت میں بہت اضافہ ہوا۔

اقبال کاکلام عشقِ رسول اورپیام قرآن سے بھرا ہواہے۔وہ ایک رحجان ساز شاعر تھے اور ان کے بہت سے نعتیہ اشعارزبان زدِعام ہیں۔حالیؔ ،اقبال اورظفرعلی خان نے سیرتِ پاک کے اہم واقعات اورتعلیماتِ رسول کونعت کا موضوع بنایا اوراستمدادواستغاثہ کو جزونعت بنایا تونعت گوئی کا کینوس وسیع ہوتا گیا۔نعیم صدیقی نے نعت گوئی کی ابتدا کی تونعتیہ کلام اوراس کے موضوعات کایہ سارا تناظران کے سامنے تھا۔

نعیم صدیقی کی شاعری کادورانیہ سترسال پرمحیط ہے۔۱۹۳۲ء سے تادمِ واپسیں یہ سلسلہ جاری رہا۔اگرچہ ابتدا میں انھوں نے دیگر اصنافِ شعر کے ساتھ نعت میں بھی طبع آزمائی کی لیکن ۱۹۶۳ء میں جب انھوں نے ادبی پرچہ ماہنامہ’’سیّارہ‘‘جاری کیا تونعت کی ترویج ان کے مشن کاجزوِ اعظم بن گئی اور نعت کے دورنو میں جوارتقا ہوا،اس میں ماہنامہ’’سیّارہ‘‘ کاکردار نمایاں ہے۔

نعیم صدیقی کی زندگی مقصدیت کے تابع رہی اوران کی تخلیقات میں مقصدیت کی چھاپ نمایاں طورپردکھائی دیتی ہے۔انھوں نے نعت گوئی میں بھی مقصدِ حیات سے صرفِ نظر نہیں کیا۔اپنی نعت گوئی کے اسی حوالے سے لکھتے ہیں:

’’میں نے ساری شاعری اس شعور کے ساتھ کی ہے اوراسی شعور کے ساتھ نعت لکھ کرمیں نے محسوس کیاہے کہ میں لادینیت کے خلاف خداپرستی کے محاذ کومضبوط کررہاہوں۔‘‘۱؂

کسی شخصیت کے فکروفن اورافکار ونظریات کی قدروقیمت کیتعین اوراس کی بہتر تفہیم کے لیے اس کے نظریۂ فن کاجاننا ناگزیر ہوتاہے۔نعیم صدیقی ادب میں مقصد کواولیت کادرجہ دیتے ہیں اور مقصد سے مراد نظریۂ حیات ہے جس پرادب کی عمارت تعمیر کی جانی چاہیے۔وہ چاہتے ہیں کہ ایسا ادب تخلیق کیاجائے جس کے مطالعے کے بعد قاری محسوس کرے کہ فکرونظر کی راہوں پرترقی کاکوئی قدم اٹھایاہے۔ان کے بقول’’شعر میں جمالیت کے ساتھ پیغمبرانہ روح بھی ہونی چاہیے اورپیغامِ شعر اس طرح ہونا چاہیے جیسے کسی پیکرمیں روح ہوتی ہے کہ وہ دکھائی نہیں دیتی مگرکام کرتی ہے۔‘‘۲؂

اسی طرح نعیم صدیقی اپنی نعت گوئی کے حوالے سے اپنے نظریۂ فن کی یوں وضاضت کرتے ہیں:

’’میں نے جس نظریے کودل میں رچاکر نعت کے میدان میں کام کیا،وہ یہ تھا کہ ہروہ شعری کاوش نعت میں داخل ہے جس کامرکزی سرچشمۂ تخلیق محبتِ رسولصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمہو۔حتیٰ کہ آزاد نظم کی کوئی لمبی بیل ہی کیوں نہ ہو،اس کی روح بھی جذبۂ عقیدتِ رسالت ہے تواس کاہرپھول ،اس کی ہرپتی اور ہر کونپل نعت کی تعریف میں شامل ہے۔‘‘۳؂

ان کے مجموعۂ نعت اوررسائل وجرائد میں اورغیر مطبوعہ نعتوں کے مطالعے سے ان کے اس نقطۂ نظر کی تصدیق ہوتی ہے۔انھوں نے نعت کی تخلیق میں اس نقطۂ نظر اورنظر یے کو اوجھل نہیں ہونے دیا اس لیے نعت ان کے ہاں روایتی پن یامحض فنی ریاضت کاعکس نظر نہیں آتی۔ان کی جملہ تخلیقات کامرکزہ اسلام ہے اس لیے ہرجگہ ادب برائے زندگی کانظریہ موج زن نظر آتاہے۔اسی نظریے کی پاسداری میں ان کی نعتوں میں معنویت کی ایک جیسی لہرنظرآتی ہے۔البتہ نعت گوئی میں انھوں نے آدابِ نعت کاپوراپورا خیال رکھاہے اورالفاظ وتراکیب ایسے منتخب کیے جوحضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے شایانِ شان ہیں۔وہ نعت گوئی جیسے کارِمبارک کی نزاکتوں سے پوری طرح آگاہ ہیں اس کے تقاضوں کوپیش نظر رکھتے ہیں: ’’میرے سامنے تین تقاضے بہ یک وقت رہتے ہیں۔حضور کی دعوتِ انقلاب کاابھارنا،اس انقلاب کی روح کوکارفرما کرنے کے لیے ہی نعت کے پیرایوں میں نت نئے وضاحتی تجربے کرنا(حتیٰ کہ اصطلاحات اورالفاظ و ترا کیب کے دائروں میں ایجادیں کرنا)اورفنی و لسانی حسن کی حباب آسا نازک لطافتوں کاتحفظ کرنابلکہ ان کو نشوونما دینا۔‘‘۴؂

نعت گوئی میں ایک مشکل مقام آتاہے جہاں ذرا سی لغرش،ذرا سی کوتاہی اورذرا ساغلو نعت گو کو بہت دور لے جاتاہے۔اس مشکل مقام سے گزرنے کے لیے الوہیت اورمقامِ رسول کاکامل شعور ان کے پیش نظر رہاہے۔یہ معاملہ اتنا نازک ہے کہ جنید وبایزید بھی توازن برقرار نہیں رکھ سکتے۔نعت گو دوہرے رحجانات کی کشمکش سے گزررہا ہوتاہے اورعشقِ رسول میں ڈوب جاتاہے۔بقول ماہرالقادری :

اک سمت محبت ہوتی ہے

اک سمت شریعت ہوتی ہے

یہاں محبت کوشریعت کے پل صراط سے گزرنا ہوتاہے۔

نعیم صدیقی کی نعتیں اورسیرت پرشاہ کار تصنیف ’’محسنِ انسانیت‘‘میں حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمکی ذات سے ان کے دل میں محبت کادریاموج زن ہے۔عشق ومحبت کی وارفتگی اورعقیدت وارادت کی لہر ان کے سرمایۂ نعت میں اپنے تمام رنگوں کے ساتھ اترآتی ہے۔ان کی نعتوں میں منفرد جذب وشوق کے مناظر ابھرتے نظر آتے ہیں۔ان کی ایک نعت کاایک بند ملاحظہ ہو:

ہے مضطرب سی تمنا کہ ایک نعت کہوں

میں اپنے زخموں کے گلشن سے تازہ پھول چنوں

پھر ان پہ شبنم اشکِ سحر گہی چھڑکوں

پھران کی لڑیاں پروکے تمھاری نذرکروں

میں ایک نعت کہوں،سوچتا ہوں کیسے کہوں ۵؂

اوریہ نعت اس شعر پراختتام پذیر ہوتی ہے:

حضور ایک ہی مصر ع یہ ہوسکا موزوں

میں ایک نعت کہوں،سوچتا ہوں کیسے کہوں ۶؂

حسنِ سلیقہ،گہری دردمندی اورشدید احساس یہاں نمایاں ہے۔اس نعت میں قوم کی زبوں حالی اورہمارے قومی ومعاشرتی رویوں کی عکاسی بھی ہے اور اس میں مولانا حالیؔ ،اقبال اور ظفرعلی خاں کی روایت کاتسلسل بھی نظر آتاہے:

عقیدتیں بھی ترے ساتھ کافری بھی پسند

قبول نکتۂ توحید،بت گری بھی پسند ۷؂

نعیم صدیقی نے اگرچہ روایتی ہیئتوں اورپیمانوں میں بہت سی نعتیں کہی ہیں لیکننعت کی تخلیق کے لیے جدید اورہئتی پیکر بھی تراشے ہیں مثال کے طورپر:

میرے نبی!

میرے نبی محترم:

میرے نبی:

تومرے دل کی روشنی،تومری جاں کی تازگی

حرم سے تایروشلم ،یروشلم سے تابہ عرش

طویل ہے تیری گلی ۸؂

قومی صورت پراستمداد واستغاثہ کوحالی نے اہمیت دی،اقبال اورظفر علی خاں نے اس میں اضافے کیے۔اس روایت کوتوانا کرنے میں نعیم صدیقی بھی پیش پیش رہے۔ انسانی دکھ درد کی الم ناک تصویریں ان کی نعتوں میں موجود ہیں:

اے میرے نبی صدق و صفا

بن باپ کے عاجز بچے جب افلاس کے گھر میں پلتے ہیں

اوران کے افسردہ چہرے جب پیٹ کی آگ میں جلتے ہیں

کچھ جھوٹی امیدوں سے ان کو جب بیوہ ماں بہلاتی ہے

ایسے میں تڑپتا ہے یہ دل،ایسے میں تری یاد آتی ہے ۹؂

اسی طرح قومی اورملّی مسائل اورغم ناک واقعات ان کی نعت میں عام ملتے ہیں:

امت پہ کتنی آج گراں ہوگئی حیات

ارزاں بہت ہی خونِ مسلمان ہے اے حضور

لاشے تڑپ رہے ہیں سرِدار وزیرِ تیغ

کیا پُرفتن یہ حشر کاساماں ہے اے حضور ۱۰؂

اگرچہ حالیؔ ،اقبال ،ظفرعلی خاں اور حفیظ کے ہاں عقیدتوں کی پختہ روایت خاصی توانا تھی اس کے باوجود نعیم صدیقی کے ہاں ثروتِ افکار اوراندازِ بیاں کی فروانی نے اسے اورتوانا کیا ہے۔انھوں نے نعت گوئی ‘ اقبال کانعتیہ کلام خصوصاً’’فریادِامت‘‘اورظفرعلی خاں کی نعتیں پڑھ کر شروع کی البتہ ڈکشن الگ ہے۔الفاظ کے دروبست ،ردیف قافیہ کی غنائیت اورازان وبحورمیں جہاں استفادے کی مثالیں موجود ہیں وہاں نئے تجربات کی جھلکیاں بھی ان کے ہاں عام ہیں۔مزید یہ کہ انھوں نے سیرت کے انقلابی پہلو کو نعت میں بھی اجاگر کیا ہے۔ڈاکٹر ریاض مجید لکھتے ہیں: ’’نعیم صدیقی کے نزدیک نعتِ رسول اکرم شاعرانہ زورِبیان کے نمونے کی بجائے حیات افروز اسلامی مقاصد کے حصول کاذریعہ ہے۔‘‘۱۰۔الف نعیم صدیقی نے آزاد نظم کے ہئتی پیکر کواپنی نعت کے لیے باربار استعمال کیا لیکن کہیں بھرتی کا احساس نہیں ہوتا۔آزاد نظموں میں’’گرداب وگہر‘‘ان کے ہئتی اوراسالیبی روّیے کی نمائندگی کرتی ہے۔انھوں نے بیس پچیس صفحات پرمشتمل طویل نعتیں بھی لکھی ہیں لیکن ان طویل نظموں میں بھی ان کی اپنے فن پرگرفت مضبوط ہے ڈاکٹر تحسین فراقی نے درست کہا کہ:

’’نعیم صدیقی نے آزاد نعت گوئی میں کامیاب تجربے کیے ہیں اورعجیب بات یہ ہے کہ طویل آزاد نعتوں میں بھی نعت کے Tempo میں فرق نہیں آتا۔‘‘۱۱؂

نعیم کے مجموعہ نعت کے کئی ایڈیشن پاکستان اور بھارت میں شائع ہوچکے ہیں ۔ان کادوتین مجموعوں کے برابر نعتیہ کلام زیرِ ترتیب ہے۔نعت گوئی میں انھوں نے نعت کوایک بلند آہنگ دیا۔انھیں اپنی فنی خوبیو ں کاادراک ہے:

’’میرے ہاں زمینوں کاانتخاب،بحروں کی ترتیب،قوافی اورردیف کے نظام اورنظم کے لیے نت نئی ہئتوں کی تشکیل کے لیے جوچیزیں معیار رہی ہیں ان میں سرِ فہرست آہنگ ہے........نئے نئے موضوعات،نئے اسالیب،نئی تراکیب واصطلاحات اورنئے استعارات خیالات کی تصویر کشی کے لیے اختیار کرنے پڑے۔‘‘۱۲؂

اس آہنگ نے قاری کومتوجہ کیالیکن کہیں کہیں مفہوم ومعافی کونقصان پہنچا البتہ نعت کے لب ولہجے میں حسن کااضافہ ہوا۔نعت گوئی کے علاوہ نعیم صدیقی نے پاکستان میں نعت گوئی کو’’سیارہ‘‘کے ذریعے جوفروغ دیا وہ لائقِ تحسین ہے۔یہ اقدام اس قدر قوی ثابت ہواکہ آزاد خیال مدیران بھی اپنے جرائد میں نعت کوجگہ دینے لگے ہیں اوریہ رحجان وقت کے ساتھ قوی ہورہاہے۔

حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱۔نور کی ندیاں:نعیم صدیقی،ادارہ معارفِ اسلامی ،لاہور،۱۹۷۸،ص۸

۲۔ماہنامہ’’چراغ راہ‘‘،کراچی ،اگست ستمبر۱۹۶۵ء،ص۶۴

۳۔نور کی ندیاں،ص۹

۴۔ایضاً،ص۲۵

۵۔ایضاً،ص۲۷

۶۔ایضاً،ص۲۷

۷۔ایضاً،ص۲۱

۸۔ ایضاً،ص۷۴

۹۔اردو میں نعت گوئی:ڈاکٹر ریاض مجید،اقبال اکادمی پاکستان،لاہور،۱۹۹۰ء،ص۴۹۸

۱۰۔مجلہ’’شام وسحر‘‘،جلد دوم،لاہور،ص۱۲۱

۱۰۔الف۔ ایضاً

۱۱۔ماہنامہ’’چراغ راہ‘‘،کراچی،اگست ستمبر۱۹۶۵ء،ص۶۷