نعت گوئی کے بنیادی تقاضے -ڈاکٹر رؤف خیر (حیدرآباد)

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2


مضمون نگار: ڈاکٹر رؤف خیر ( حیدر آباد )

مطبوعہ: دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2


نعت گوئی کے بنیادی تقاضے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اللہ رب العزّت فرماتا ہے ’’ کہ دیجئے اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو۔ خود اللہ تم سے محبت کرئے گا۔تمہارے گناہ معاف فرما دئے گااور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے ‘‘۔ ( آیت ۳۱۔ آل عمران )

بندے کی عزت اسی میں ہے کہ وہ اپنے آقا کے حُکم کے آگے سرِ تسلیم خم کردے۔ اطاعت کا حُکم ایسی ہستی کے لیے دیا جا رہا ہے جسے چن لیا گیا ہے ایک اور جگہ ارشاد باری ہے۔

’’ وہی ہے جس نے نا خواندہ لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتاہے ، ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے۔ یقینایہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے ‘‘ ( سورۂ جمعہ آیت۲)

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

ایسی شخصیت جو انسانوں کو اللہ کا حکم اس کی نشانیاں دکھا کر اس سے جوڑتی ہو ، انسانوں کو پاکیزگی کی تعلیم دے کر انہیں پاک کرتی ہو ( جسمانی اعتبار سے بھی اور روحانی اعتبار سے بھی ) اور جو تمام انسانیت کو حکمت کے ساتھ زندگی گزارنا سکھاتی ہو ایسی شخصیت بجائے خود نمونہ ٔ حیات بھی ہوتی ہے۔ لَقَد کَانَ لَکُم فِی رَسُولِ اللّہِ اُسوَۃ حَسَنَۃ ایسی ہستی کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے اسی تعریف و توصیف کو ادبی اصطلاح میں ’’ نعت ‘‘ کہتے ہیں۔ علیہ السلام کی اصطلاح صرف اور صرف رسولوں اور پیغمبروں کے لیے مخصوص ہے۔ اسی طرح رسول اللہ کے صحبت یافتہ صحابیوں کے لیے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے رسول اکرم ﷺ کو دیکھا ’’ رضی اللہ عنہم ‘‘ کہا جاتا ہے۔ غیر نبی کو علیہ السلام نہیں کہا جا سکتا اسی طرح غیر صحابی کو ’’ رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘‘ نہیں کہا جائیگا یہ مخصوص اسناد وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہیں۔

جس طرح حمد صرف اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہے اسی طرح نعت صرف رسول اللہ کے لیے مختص ہے۔ نعت کہنے کے لیے میرے خیال میں ایمان شرط ہے۔ بادشاہوں کے مبالغہ آمیز قصائد کی طرح نعت نہیں کہی جا سکتی۔ قصائد کا بنیادی مقصد جلبِ منفعت ہے اور نعت میں مادی غرض و غایت ایمان کے مغائر ہے۔ زبان پر کچھ دل میں کچھ ہو تو ایسی منافقت کا یہاں گزر نہیں۔ یہی سبب ہے اللہ رب العزت نے زبانی جمع خرچ والی محبت کی نفی کرکے شرط عائد کردی ’’ کہ دیجیے اگر تم اللہ کی محبت کے دعوے دار ہو تو ہمارے رسول ﷺ کی تابعداری کرو‘‘۔ گویا نعت کہنے کے لیے ایمان کا عملاً ثبوت دینا بھی ضروری ہے ورنہ یَقُولُونَ مَالَا یَفعَلُون کی زد میں آ جانے کا ڈر ہے۔نعت میں گہرائی و گیرائی اور اثر اسی وقت پیدا ہوگا جب نعت دل سے کہی جائیگی ایمان کے تقاضے کے طور پر جو توصیفی کلمات زبان پر آئیںگے وہ سچے جذبات کے آئینہ دار ہوں گے۔ ؎


اوزان کا شعور نہ درک بحور ہے

شاعر تو بس تمہاری عقیدت میں چور ہے

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

ایسے بے شعور جذبۂ اظہار کی پذیرائی بھی نہیں کی جاسکتی۔ عشق تو ہو لیکن اظہار عشق کا سلیقہ نہ ہو تو یہ غیر مستحسن ہی ٹھرئے گا۔رسولِ اکرم ﷺ کی جناب میں تو آواز بلند کرنا بھی نہ صرف سُوادب ہے بلکہ اہم ترین گناہ ہے۔ ؎


اعمال ہوئے حبط جو اونچی ہوئی آواز

ایمان ہوا ضبط اگر اور مگر کی

یہاں ifs and buts کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تعمیل حکم ہی ایمان کی پہچان ہے۔ گویا اس ہستی کے حضور منھ کھولنے کے لیے الفاظ نرم اور لہجہ با وقار ہونا ضروری ہے ورنہ اعمال کے حبط ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ خوش گوار الفاظ کا خوش کن معنوی اظہار جو بڑی خوش اسلوبی سے کیا گیا ہو شریعت کا شناس نامہ ہے۔

اردو شاعری میں محبوب کا سراپا بیان کرنا ایک عام سی بات ہے اور اس سراپا نگاری میں شعرأ نے اپنا اپنا کمال بھی دکھایا ہے۔ ؎


نازکی اس کے لب کی کیا کہیے

پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

زلف و لب ، و رخسار کی تعریف کا یہ روایتی شعری اظہار نعت میں بھونڈے پن کا مظہر ہوا کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی زلفوں کی تعریف ، لب و ر خسار کا ذکر اسی روایتی محبوب سے روایتی عشق کا روایتی اظہار ہے جو رسول اللہ ﷺ کی شان کے منافی ہے۔

نعت میں رسولِ اکرم کی شخصیت کے پیغمبرانہ کردار کی عکاسی میں شریعت کے جوہر دکھائے جائیں تو وہ شعر و ادب کا شاہکار ہو سکتے ہیں۔ ایرانی اثرات کی وجہ سے رسول ِ اکرم ﷺ کو بھی اردو شاعری کا معشوق بنا کر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ رسول اللہ ﷺ وہ مردِ کامل ہیں جو شجاعت و فراست کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ اخلاق و کردار کی قابلِ تقلید مثال ہیں۔ اطاعت و بندگی کا کمال ہیں۔ نعت میں انہی خصوصیات کااظہار تمام تر فنی رچاؤ کے ساتھ ہو تو نعت بھی اپنے ممدوح کے شایانِ شان ہو سکتی ہے۔ ماہر ؔالقادری نے ایسی ہی نعت کا حق ادا کیا ہے۔ ؎


"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دست گیری کی

سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی

سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں

سلام اس پر کہ جس نے گالیاں کھا کر دعائیں دیں

سلام اس پر کہ جس کے گھر میں چاندی تھی نہ سونا تھا

سلام اس پر کہ ٹوٹا بوریا جس کا بچھونا تھا

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے جب رسول اکرم ﷺ کے اخلاق و کردار سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے سوال کیا تھا کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ؟ گویا قرآن جو دستور حیات کے طور پر اتارا گیا ہے اس کا عملی نمونہ رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس رہی ہے۔ ایسی با عمل ہستی سے سچے عشق کا مطلب ہے اس کے نقشِ قدم پر چلنا اور نعت کا حق وہی ادا کر سکتا ہے جو رسول اللہ ﷺ سے عشق کا عملی ثبوت دیتا ہے ورنہ صرف لفاظی کو نعت کا نام نہیں دیا جا سکتا۔

میں بار بار یہ بات اس لیے دہرا رہا ہوں کہ جو لوگ غیر اللہ کو دیوتا ، داتا فریاد رس ، مشکل کشا، حاجت روا سمجھتے ہوں یا جن کے پاس دولت کا خدا، علم کا خدا ( لکشمی ،سرسوتی وغیرہ ) الگ الگ ہوں یا جو امام الانبیأ کو اپنا امام بنانے کے بجائے اپنے اپنے الگ الگ امام بنا لیے ہوں ، ان کی نعت میں وہ خلوص دل آ نہیں سکتا جو خالص محمدی کی عقیدت میں ہو سکتا ہے۔ جو اللہ کو حاجت روا مشکل کشا سمجھنے کے ساتھ ساتھ اللہ کے مخلص بندوں کو بھی مشکل کشا سمجھتا ہوو ہ اللہ کی حمد کس منھ سے کر سکے گا اسی طرح جو صرف اورصرف رسول اللہ ﷺ کو اپنا امام و مقتدا سمجھنے کے بجائے غیر نبی کا نقشِ قدم اختیار کرتا ہو اس کے منھ سے نعت اچھی نہیں لگتی۔ ؎


غیر نبی کو آنکھ اٹھاکر نہ دیکھنا

دعویٰ ہی عشق کا ہے اگر مصطفی کے ساتھ

اچھی نہیں یہ چار طرف جھانکنے کی خو

دیکھو کبھی رسولِ خدا کا نبھا کے ساتھ

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

مجھے معاف فرما ئیں میں غیر مسلموں کی نعت سے خوش نہیں ہوتا یہ منھ دیکھے کی تعریف صرف قافیہ و ردیف کے حوالے سے توصیفی جذبات کا تہذیبی اظہار ہے۔ یہ کام علامہ اقبال ؔ نے بھی رام کو امامِ ہند اور گرو نانک کو پنجاب کا موحد قرار د ے کر کیا ہے۔ اقبال ؔ تو بڑے سیکولر آدمی تھے وہ ہر مکتب ِ فکر کے آدمی کو خوش رکھنے کا ہُنر جانتے تھے۔ ان سے ہندو خوش ، سکھ خوش، صوفی و کوفی خوش، شیعہ و سُنی خوش، حتیٰ کہ قادیانی بھی خوش۔ ؎


بدعتی اور خبیث بھی خوش تھے

ان سے اہلِ حدیث بھی خوش تھے

علامہ اقبال ؔ نے نعت پاک میں یقینا اپنی پہچان بنائی ہے۔ شریعت کے معیار پر اقبال ؔ کا کلام جس قدر پورا اترتا ہے اتنا ہی عقیدت کی مثال بھی ہے۔ اقبال ؔ نے اپنا مرد کامل رسول اللہ کی ذات ہی کو قرار دیا۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ اقبالؔ کی فکر خالص نعتیہ فکر ہے۔ انہوں نے اردو اور فارسی میں اپنی عقیدت کی بے شمار مثالیں پیش کی ہیں۔ لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب ، کہنے والا قول فیصل کی طرح یہ کہتا ہے۔ ؎

بہ مصطفی بہ رساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست

گر بہ او نہ رسیدی تمام بو لہبی است

یہ حدیث اقبالی بھی حدیث قدسی کا درجہ رکھتی ہے کہ۔ ؎

کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

شریعت کے نام پر ہمارے بزرگ شعرأ نے ہندو ستانی تہذیبی اثرات کو نعت میں برتا ہے۔ مثلا ً محسن ؔکا کوروی کہتے ہیں۔ ؎


سمت کاشی سے چلا جانبِ متھرا بادل

برق کے کاندھے پہ لاتی ہے صبا گنگا جل

گھر میں اشنان کریں سرو قدان گوکل

جاکے جمنا پہ نہانا بھی ہے اک طولِ عمل

کالے کوسوں نظر آتی ہیں گھٹائیں کالی

ہند کیا ساری خدائی میں بتوں کا ہے عمل

مگر جب نعت آگے بڑھتی ہے تو اک حسنِ تقلیب پیدا ہوتا ہے۔ ؎


جس طرف ہاتھ بڑھے کفر کے ہٹ جائیں قدم

جس جگہ پاؤں رکھیں سجدہ کریں لات و ہبل

اسی طرح دیو مالائی تصورات کے زیر اثر بھی نعت کہی گئی ہے۔ لَولَاکَ لَمَا خَلقتُ الافَلَاک جیسی موضوع روایت آج ہر کس و ناکس کے دل دماغ پر مسلط ہے حالانکہ یہ روایت صحاح ستہ تو کجا احادیث کے کسی بھی متداول ذخیرے میں موجود نہیں۔ قرآن و سنت سے نا بلد علمأ و شعرأ موضوعات کبیر کی اس من گھڑت روایت کو حرزِ جاں بنائے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ اقبالؔ سہیل جیسا سنجیدہ شاعر بھی کہتا ہے۔ ؎

آپ اگر مقصود نہ ہوتے کون و مکاں موجود نہ ہوتے اور مسجود نہ ہوتے آدم ﷺ

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

یہی حال قَابَ قَوسَینِ اَو اَدنیٰ والی آیت کا ہے۔ سورہ ٔ نجم کا مطالعہ کریں اور کسی مستند مفسر قرآن کی تفسیر پڑھیں تو پتہ چلے کہ دو کمانوں یا اس سے بھی کم فاصلے کا معاملہ اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے ما بین نہیں بلکہ جبرئیل اور رسول اللہ کے درمیان تھا۔ قرآن کے بجائے قوالی سے رغبت رکھنے والے ذہن و دل اس میں بھی عجیب عجیب جلوئے دیکھتے ہیں۔ شریعت کا کمال بعض اشعار میں ایسا بھر پور ہوا ہے کہ وہ اشعار یا مصرعے ضرب الثل ہو گئے ہیں۔ جیسے۔ ؎


بلغ العلیٰ بکمالہٖ

حسنت جمیع خصالہٖ

کشف الدجیٰ بجمالہٖ

صلوا علیہ و آلہٖ

یا پھر وہ مشہور و ممتاز مصرع


بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

بزم آفندی کا یہ شعر ایرانی و اردو شعری روایت اور شریعت کی خوب مثال ہے۔ ؎


ایک دن عرش پہ محبوب کو بلوا ہی لیا

ہجر و غم کہ خدا سے بھی اٹھایا نہ گیا

اس شعر پر بڑا سر دُھنا جاتا ہے لیکن ذرا سا غور کریں تو اس میں اللہ میاں کی توہین کا پہلو بھی نمایاں ہوگا۔ اس میں شک نہیں شریعت میں حسن غلو سے پیدا ہوتا ہے لیکن مبالغہ مضحکہ خیز بھی لگتا ہے۔

تاریخ و سیرت سے نا بلد شعرأ نے جھوٹی روایتوں پر اپنے شعر کی بنیاد رکھ کر ایسی ایسی کھو کھلی عمارتیں کھڑی کر دیں کہ ہنسی آتی ہے۔ اللہ کے رسول کی ذات کو غیر مرئی ثابت کرنے کے لیے پٹکے کے نکل آنے کا بیان ، آدم علیہ السلام کا آسمان پر لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھ کر مغفرت طلب کرنا ، اللہ کے رسول کو اللہ سے جدا نہ سمجھنا یعنی انہیں احمد ِ بے میم سمجھنا اور یہ کہنا۔ ؎


وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہوکر

اتر پڑا ہے مدینے میں مصطفی ہوکر

کچھ لوگ تو یہاں تک جرأت و جسارت کرتے ہیں کہ حج تو بہانہ ہے ، در اصل جانا تو مدینہ ہے۔ ؎

میں جھوٹ نہ بولوں گا ملاّ کے ڈرانے سے

جاتا ہوں مدینے کو میں حج کے بہانے سے

اللہ کے پلے میں وحدت کے سوا کیا ہے

جو کچھ مجھے لینا ہے لے لوں گا محمد سے

ایسے عقائد پر یہ خوش گمانی بھی ہے کہ۔ ؎


دوزخ میں میں تو کیا میرا سایہ نہ جائے گا

کیوں کہ رسول پاک سے دیکھا نہ جائے گا

ڈاکٹر ریاض مجید نے ایسی ہی اندھی عقیدت کو ہندوستانی اثرات کی مرہون منت ثابت کیا ہے جو وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کے نام سے ویدانت کے فلسفے ہی کا ایک روپ ہے۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

غیر مسلموں کے عقائد و رسوم و رواج سے مسابقت ہی کی وجہ سے اسلام ہند و پاک میں تباہ ہو رہا ہے۔ تصوف برائے شعر گفتن خوب است۔ اسی تصوف کی وجہ سے شعریت پیدا پہوتی ہے سیدھے سادے انداز میں سیرت نبوی بیان کر دی جائے تو چٹخارے کے عادی ذہن و دل کو سرور حاصل نہیں ہوتا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارے مشائخین بہر حال شاعر بھی ہوتے ہیں۔ امداد اللہ مہاجر مکی ، قاسم نانوتوی ، سید سلیمان ندوی ، عبد الماجد دریاآبادی سب شاعر بھی گزرے ہیں۔ ؎

ہو آستانہ آپ کا امداد کی جبیں

اس سے زیادہ کچھ نہیں درکار یا رسول

( مہاجر مکی )

ولے یہ رتبہ کہاں مشت خاک قاسمؔ کا

کہ جائے کوچہ اطہر میں تیرے بن کے غبار

( قاسم ؔنانوتوی)

لے جائے گا منزل سے بہت دور بشر کو

جو جادہ سفر کا ترے جادے کے سوا ہے

( سلیمان ندوی )

مولانا محمد علی جوہر کی نعت کا یہ شعر بہت مشہور ہے۔ ؎

توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے

یہ بندہ دوعالم سے خفا میرے لیے ہے

کچھ شاعر ایسے گزرے ہیں جنہوں نے نعت گوئی میں عمر عزیز صرف کی۔ امیرؔ مینائی ، بہزادؔ لکھنوی ، مولانا احمد رضا خاں بریلوی ، محسنؔ کاکوروی وغیرہ۔ ان دنوں شعری مجموعوں میں تبرکاً ایک دو نعتیں رکھنے کا رواج عام ہے مگر سوال وہی سچی عقیدت کا ہے۔ جدید شاعر آنجہانی پرکاش فکری کہتے ہیں۔ ؎


سہل ہے راستہ محمد کا

جل رہا ہے دیا محمد کا

یہی وہ صراط مستقیم ہے جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ھٰذا صراطی یہی وہ دیا ہے جس کی روشنی قیامت تک ختم نہ ہوگی۔ شعریت کوئی جامد چیز نہیں ہے۔ یہ خوش مذاقی کا ایک اسلوب ہے اور خوش مذاقی کے معیارات بھی جدا جدا ہوتے ہیں۔ جدید شعرأ آج روایتی شعرأ کی بہ نسبت زیادہ بہتر نعت کہنے لگے ہیں۔ اس کا سبب علم کی فراوانی ہے۔ پڑھا لکھا طبقہ خدا اور رسول خدا میں تمیز کرتا ہے اور صدق دل سے رسول اللہ کے راستے کا طالب ہے۔ وہ اپنی ذات کو رسول اکرم ﷺ پر قربا ن کر دینے کا جذبہ رکھتا ہے۔ ساتھ ہی جدید طرز اظہار سے آشنا ہے۔ چند مثالیں پیش ہیں۔ ؎


دیکھو گے ؟ آؤ تم کو دکھاؤں خدا کا رنگ

کردار مصطفی میں ہے رب علا کا رنگ

دنیا کے رنگ پھیکے پڑے جس کے سامنے

وہ رنگ ہے تو صاحب غارِ حرا کا رنگ

( ندیم صدیقی)

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

ایک اُمی طبیب حاذق سے عصر بیمار نے شفا پائی

( تابش ؔدہلوی )

مظفر ؔ وارثی کی مشہور و مقبول نظم ’’ مرا پیمبر عظیم تر ہے ‘‘ کا یہ ایک بند ملاحظہ فرمائے۔ ؎


وہ خلوتوں میں بھی صف بہ صف بھی

وہ اس طرف بھی وہ اُس طرف بھی

محاذ و منبر ٹھکانے اُس کے

وہ سر بہ سجدہ بھی سر بہ کف بھی

کہیں وہ موتی کہیں ستارہ

وہ جامعیت کا استعارہ

وہ صبح تہذیب کا گجر ہے

مرا پیمبر عظیم تر ہے

مزید دیکھیے =[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

سانچہ:بکس مضامین

نئے صفحات