نعت گوئی کے بنیادی تقاضے

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


"منظر ایوبی

مضمون نگار : منظر ایوبی

حوالہ: جسارت میگزین کے ایک مذاکرے سے اقتباس </ref> https://www.jasarat.com/sunday/2019/06/16/نعت-میں-غُلو-کی-گنجائش-نہیں،-پروفیسر-م/ </ref>


نعت گوئی ک بنیادی تقاضے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

غزل کی طرح نعت گوئی کی جملہ روایات بھی اردو شاعری میںعربی اور فارسی ادب سے اخذ کی گئیں۔ تاریخ نعت گوئی کا مطالعہ اس امر کا مظہر ہے کہ اردو شاعروں کی اکثریت نے شرو ع ہی سے بعض بنیادی احتیاطوں اور نزاکتوں کو پیش نظر نہیں رکھا۔ کسی بھی عہد کی نعتیں پڑھ کر دیکھ لیجیے آپ میرے اس خیال کی تائید کرنے پر مجبور ہوں گے کہ وہ نعتیں اپنے تنوع‘ موضوعات‘ تاریخی مواد‘ زبان کی مٹھاس اور بیان کی دل کشی کے باوجود کسی نہ کسی حد تک مبالغہ اور غلو سے مبرا نہیں ہیں۔ اس کے اسباب میںیقینا جہاں عربی اور فارسی نعت گوئی کا اتباع شامل ہے وہ بیشتر اردو نعت گو شعرا پر تصوف کا غلبہ بھی ہے جو اس بات میں شریعت‘ طریقت‘ عقیدت اور محبت سے متعلق بہت سی بحثوں کو جنم دیتا ہے اور گفتگو کے کئی دروازے کھولتا ہے۔

میرے نزدیک فنِ نعت گوئی جن احتیاطوں کا متقاضی ہے‘ ہر نعت گو اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ دیگر اصنافِ شاعری میں بحور اور اوزان کے مختلف خانوں میں لفظوں کی دروبست سے کام چل جاتا ہے۔ نعت کے موضوع کو محور فکر بنانے کے لیے سمندروں کی گہرائی جیسے علوم و فنون کے ماہرین کا پتا بھی پانی ہو جاتا ہے۔ ہما شما یا کم علم و بے مایہ قلم کاروں کا تو ذکر ہی کیا۔دیگر اصناف سخن ہر نوع کے سقم کی متحمل ہوسکتی ہیں لیکن نعت واحد موضوع ہے جو اپنے دامن پر ذرہّ برابر دھبہ برداشت نہیں کرسکتا۔ سخنور کو تخلیق نعت کے دوران دماغ کی ساری چولیں ہلانا پڑتی ہیں اس کی ذرا سی بے احتیاطی تمام ریاض و کاوش کا خون کر دیتی ہے‘ پل بھر میں اس کی ساری تخلیقی صلاحیتیں اوندھے منہ زمین پر گر پڑتی ہیں۔ ایسے ہی مواقع پر جگر مرادآبادی (مرحوم) کا یہ مصرع ’’اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں‘‘ نعت گو کی ڈھارس بندھاتا ہے یا پھر علامہ اقبال کا یہ شعر:

مقامِ شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں انہیں کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد

سچی بات تو یہ ہے کہ نعت کے موضوع کو مرکز فکر بنانا اتنا سہل نہیں جتنا سمجھ لیا گیا ہے۔ ہزار نزاکتوں اور احتیاطوں ہی سے اردو کی نعتیہ شاعری کو ہر دور میں حسان بن ثابت خاقانی‘ فردوسی‘ سعدی‘ نظامی‘ قدسی‘ عرفی‘ جامی اور جلال الدین جیسے عظیم المرتبت نعت گو شاعروں کی تلاش رہی ہے حالانکہ اردو میں نعت گوئی کے فن کو بام عروج پر پہنچانے والوں کی کمی نہیں ہے۔ دکنی شاعری کے ابتدائی عہد سے لے کر آج تک شاذونادر ہی کسی شاعر نے اپنے مجموعۂ کلام‘ دیوان یا کلیات کا آغاز حمد و نعت سے نہ کیا ہو بلکہ یہ روایت تو اتنی مستحکم ہو چکی ہے کہ آج بھی جب ہم ذرائع ابلاغ کی ترویج و ترقی اور سائنس کے انکشافات و ایجادات کی طویل مسافت طے کرنے کے بعد اکیسویں صدی میں سرگرم عمل ہیں‘ حمد و نعت شامل کیے بغیر کسی شعری مجموعہ کی اشاعت و طباعت کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔

امیر خسرو سے غالب و مومن و ذوق تک اور حالیشبلیاقبالظفر علی خان اور حفیظ سے لے کر محسن کاکورویبیدم وارثی اور ماہرالقادری تک ایک طویل قطار ہے جس میں اہم اور قد آور شخصیتیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی عقیدت و ارادت کے پھول کھلاتی اور خوشبوئیں بکھیرتی نظر آتی ہیں۔

آج بھی جب ہم گزشتہ پچیس تیس برس کا جائزہ لیتے ہیں تو نعت گو شاعروں کی خاصی بڑی تعداد اس باب خاص میں اپنی تخلیقی توانائیاں بھرپور انداز میں صرف کرتی نظر آتی ہیں لیکن ان میں اکثریت ایسے نعت گو شعرا کی ہے جو اظہار جذبہ و احساس میں افراط و تفریط کا شکار ہوئے ہیں اور بقول ابوالخیر کشفی ’’آج کے بہت سے نعت گو شعرا کے یہاں دل و ذہن کی ہم آہنگی نہیں ملتی۔‘‘

اس میں کلام نہیں کہ تاریخی بصیرت فنکارانہ صلاحیت‘ فنی شعور کی پختگی اور اظہار و ابلاغ پر مکمل دسترس ہے لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے والہانہ محبت اور عقیدت کے نتیجے میں جنم لینے والے جذبات اور احساسات کئی فراوانی انہیں نعت گوئی کی بعض بنیادی حدود و قیود کی پابند نہیں رہنے دیتی۔ وہ جوش بیاں میں ایسے ایسے امور ذہنیہ اور کیفیات قلبیہ کی تصاویر پیش کرتے ہیں جو نعت کے زمرے میں آنے کے بجائے خالص عاشقانہ غزل کے موضوعات معلوم ہوتے ہیں مثلاً سرکار دو عالم کی سراپا نگاری میں آپؐ کے گیسوئے پاک‘ لب و عارض‘ ابرو‘ جبین اقدس اور خدوخال وغیرہ کو کائنات کی مختلف اشیا سے اتنے بھرپور انداز میں مشابہت دی جاتی ہے کہ ایسی نعتوں پر بعض عام شعری قصائد (جو محبوب مجازی کی شان میں کہے جاتے ہیں) کا گماں گزرتا ہے۔ اس ذکر پر مجھے اپنے ایک دیرینہ رفیق کار و معروف ادیب و شاعر پروفیسر عاصی کرنالی کے وہ الفاظ یاد آتے ہیں جو انہوں نے کسی نعت گو شاعر کے کلام پر اظہار خیال کرتے ہوئے ادا کیے تھے کہ ہم اپنے جذبات کو کتنا ہی پاک صاف کرلیں‘ جسمانیت محبوب کے تصور سے باہر نہیں آسکتے۔ اسی لیے توصیف زلف و رخسار اور قصیدہ چشم و لب کے دائرے سے باہر نہیں آتے۔ حُسن کے ظاہری و مجازی متعلقات ہمارے دامن گیر رہتے ہیں اور ہم سراپا نگاری تک جذباتی فریضے اور وظیفے ادا کرتے ہیں۔ جب غزل کی یہی حیثیت ہماری نعت کا مدار بنتی ہے تو ہمارے اکثر شعرا ترفع اور تقدس کی اس سطح تک نہیں پہنچتے جو ممدوح نعت سے منسوب و مخصوص ہے۔ بہت سی نعتیں ایسی نظر سے گزرتی ہیں کہ اگر ان میں آقا یا مولا یا سرکار کا لفظ نہ ہو تو وہ نری غزلیں ہی محسوس ہوتی ہیں۔

اکثر نعتوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لفظ ’’تو‘‘ یا ’’اس‘‘ کا استعمال بری طرح کھٹکتا ہے ضرورت شعری کی بنا پر بھی اس نوع کے لفظوں کو نعتوں میں نظم نہیں کرنا چاہیے کہ یہ الفاظ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شایان شان نہیں۔ علاوہ ازیں اس قسم کی بیسیوں بدعتی نعتیہ شاعری میں مروج ہیں جن سے اب گریز لازم ہے کیوں کہ ہمارے نزدیک یہ تمام کی تمام نہ صرف تضحیک کی آئینہ دار ہیں بلکہ سراسر مبالغہ و غلو کی ذیل میں آتی ہیں۔ ہمارا یہ اظہاریہ مثالوں کا متحمل نہیں ورنہ بطور حوالہ ان گنت اشعار نذر قارئین کیے جاسکتے ہیں۔

ہمارا خیال میں جدید نعتوں میں مبالغہ آرائی اور غلو کے اظہار کا ایک سبب جدید نعت گو شاعروں میں آسمان نعت کے اس خورشید عالم تاب کا اثر بھی معلوم ہوتا ہے جسے دینی حلقوں میں امام حضرت احمد رضا خان بریلوی اور تاریخ نعت گوئی میں فاضل بریلوی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ فاضل بریلوی سے تجر علمی اور حب رسولؐ کے اس منصب پر فائز ہیں جس کا ہر کس و ناکس تصور بھی نہیں کرسکتا۔ ان کی زبان و بیان اور اندازِ سخن آرائی کی تقلید نہ ہر نعت گو کو زیب دیتی ہے اور نہ ہر ایک شاعر کے بس کی بات ہے۔ اس ضمن میں اگر نعت گو شعرا یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ وہ جن تشبیہوں‘ استعاروں‘ اشاروں‘ کنایوں‘ علامتوں اور شعری صفتوں سے اپنی نعتوں کو مزین کرتے ہیں تخاطب کے اس عمل میں منصب و مقام کا لحاظ کیے بغیر بعض لفظوں کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں وہ شاعری کی دیگر اصناف کا زیور ضرور ہیں نعت کا نازک پیکر ان کا متحمل نہیں۔ توصیف محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں نعت گو کو ذہن حاضر اور دل کو گرفت میں رکھنا پڑتا ہے تاکہ اس کے قلم سے طلوع ہونے والے حروف ثنا خالق کائنات کے محبوب کی مکمل بشریت بے مثال شخصیت اور لازوال شان و عظمت کے آئینہ دار ہوں۔ فی زمانہ ہمیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مغرب کی ثقافتی اور تہذیبی یلغار سے اپنے ماحول اور معاشرے کو محفوظ رکھنے اور انہیں بعض لا دینی اقدار خبیثہ سے پاک کرنے کے لیے نعت گوئی کو محض کارِ ثواب نہ سمجھیں بلکہ اسے ذریعہ بنائیں۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ یا آپؐ کے کردار کے مختلف پہلوئوں کو مرکز و محورِ فکر بنا کر ہمارے نعت گو شعرا نئی نسلوں اور الحاد گزیدہ افراد کی تربیت کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں اسی طریقے سے نعت گوئی کے بنیادی مقاصد کی تکمیل ممکن ہے اور فنِ تخلیق کا یہی رویہ ہماری نعت گوئی کو مبالغہ اور غلو سے بچا سکتا ہے

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
مضامین میں تازہ اضافہ
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
نئے صفحات

حواشی و حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]