نعت گوئی کا تاریخی و تنقیدی تجزیہ ۔ شاہد کمال، لکھنو

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

مضمون نگار :شاہدؔکمال، لکھنو

نعت گوئی کا تاریخی و تنقیدی تجزیہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت عربی زبان کا ایک برگزیدہ لفظ ہے ۔ ا س لفظ کا سہ حرفی اشتقاق بااعتبار جنس مونث ہے۔ اور اس کا پہلا حرف مفتوح ہے اور بعد کے دونوں حروف ساکن ہیں ۔عربی لسانیات میں اس کا استعمال صفت کے مترادفات میں ہوتا ہے ،اوریہ ایک نحوی اصطلاح ہے،اور لغوی اعتبار سے اس کا استعمال کسی کی مدح و ستائش کے لئے کیا جاتا ہے۔لیکن اس لفظ کے لغوی واصطلاحی معنی حضرت خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر وثنا سے مختص ہے اور عمومی اصطلا ح میں اسے شاعری کی مقدس ترین صنف سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔جس کا قرآنی تقدس بلا شرکت غیر حضور ختمی مرتبت کی شان جلالت مآب سے ایک نسبت خاص رکھتا ہے۔

فارسی واردو لغات میں بھی لفظ ’’نعت‘‘ کا استعمال بطور صنف شاعری مطلقاً حضور ختمی مرتبت کی تعریف و توصیف سے متعلق ہے۔ ’’لغات کشوری‘‘ جامع اللغات‘‘ ،’’فرہنگ عامرہ‘‘ ’’غیاث اللغات‘‘’’ مہذب اللغات‘‘ فیرو ز واللغات ‘‘ وغیرہ

صاحب ’’غیاث اللغات ’’نعت ‘‘کی تعریف کرتے ہوئے یہ لکھتے ہیں کہ۔


’’ اگرچہ لفظ نعت بمعنی مطلق وصف است لیکن اکثر استعمال ایں لفظ بمعنی مطلق ستائش و ثنائے رسول ؐ آمدہ است۔‘‘


’’فرہنگ آصفیہ‘‘ نے لفظ نعت کی تعریف یوں کی گئی ہے۔


’’نعت (ع)اسم مونث ، تعریف و توصیف،مدح وثنا،مجازاً خاص حضرت سید المرسلین ،رحمت اللعالمین ؐکی توصیف‘‘

نوراللغات کے مطابق۔


’’یہ لفظ نعت بمعنی مطلق وصف ہے،لیکن اس کا استعمال آنحضورؐکی ستائش و ثنا کے لئے مخصوص ہے۔‘‘


علمائے ادب نے اس لفظ کی عصمت و نجابت کے پیش نظر بااعتبار صنف اس کی مختلف توضیحات و تشریحات پیش کی ہیں۔ ،جن کی روشنی میں اس لفظ کی حقیقی تفہیم اور اس کے تمام تر معنوی امکانات کے ادراک کی کوشش کریں گے۔اس لئے کہ ’’نعت ‘‘کے مبادیاتی محاسن اوراس کے ارتقائی پہلو ؤں کا مکمل جائزہ محض کسی فرد واحد کے ذاتی صواب دید کی بنیاد پر ممکن نہیں۔ اصل میں اس صنف کی تعین قدر کے لئے ضروری ہے، کہ دانشوروں کے نظریات کی تدوین اور اس کی تاریخی تطبیق منطقی اعتبار سے کی جائے۔


’’نعت‘‘ سے متعلق بابا سید رفیق عزیزی کا اقتباس ملاحظہ کریں۔


’’حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف ، احوال ، کردار ،افکار ، اشغال ، عادات ، معاملات ، سخاوت ، عفوو در گزر کے حوالے سے جو شاعری کی جاتی رہی ہے اور کی جارہی ،اس صنف سخن کا نام ’’نعت‘‘ طے پاچکا ہے ، ناقدین ادب نے نعت شریف کے اسالیب اور انداز بیان پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔‘‘ <ref> (خزینہ نعت ،ص ۷مرتب صدیقی عبد الروف ، ٹریڈ کر انیکل نئی چالی کراچی، ۱۹۹۸) </ref>


مجید امجد، نعت کے حوالے سے یوں اظہار خیال فرماتے ہیں۔


’’حقیقت یہ ہے کہ جناب رسالتمآب کی تعریف میں ذرا سی لغزش نعت گو کو حدود کفر میں داخل کر سکتی ہے۔ذرا سی کوتاہی مدح کو قدح میں بدل سکتی ہے ،ذرا سا شاعرانہ غلو ضلالت کے زمرے میں آسکتا ہے ذرا سی عجز بیانی اہانت کا باعث بن سکتی ہے۔‘‘<ref> (’’بام عرش ‘‘صفحہ نمبر ۴ ) </ref>

پروفیسر ابوالخیر کشفی تحریر فرماتے ہیں۔


’’بارگاہ مصطفیٰ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم میں جنیدؔ و بایزیدؔ ہی نہیں الفاظ بھی نفس گم کردہ نظر آتے ہیں شرط صرف یہ ہے کہ یہ شعور کامل جسے نفس گم کردگی سے تعبیر کیا گیا ہے ،شاعر کی ذات میں موجود ہو۔‘‘ <ref>(ورفعنالک ذکرک صفحہ نمبر ۲ ) </ref>


ڈاکٹر شوکت زریں چغتائی بااعتبار صنف اس لفظ کی تفہیم اس انداز میں کرتی ہیں۔


’’ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ نعت صدیوں کا سفر کرتی ہوئی آج انتہائی عروج پر ہے ۔آج کا دور اپنی مادیت پسندی کے باوجود امن رحمت میں پناہ ڈھونڈ رہا ہے ۔یہ عہد حاضر کی مجبوری نہیں بلکہ افتخار ہے کہ اس نے اپنے تشخص کا احساس نعت کے حوالے سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ کامیاب کوشش۔‘‘ <ref> (’’اردو نعت کے جدید رجحانات ، صفحہ نمبر ۱۴،بزم تخلیق ادب پاکستان ، کراچی ۲۰۱۱ ) </ref>


پروفیسر عنوان چشتی اس صنف سے متعلق تحریر فرماتے ہیں۔


’’نعت کا فن بظاہر آسان مگر بہ باطن مشکل ترین ہے ، ایک طرف و ہ ذات گرامی ہے ہے جس کی مدح رب العالمین نے خود کی ہے اور اس کو ’’نور‘‘ اور ’’مثل بشر‘‘ کہا ہے اور دوسری طرف زبان اور شاعری کے جمالیاتی تقاضے ہیں ۔‘‘ </ref> (ورفعنالک ذکرک ص ۴) </ref>


ابواللیث صدیقی کا یہ نظریہ ہے کہ:


’’ نعت کے موضوع سے عہدہ برآ ہونا آسان نہیں ، موضوع کے احترام ،کلام کی بے کیفی و بے رونقی کی پردوہ پوشی کرتا ہے، نقاد کو نعت گو سے باز پرس کرنے میں تامل ہوتا ہے ،دوسری طرف نعت گو کو اپنی فنی کمزوری چپھانے کے لئے نعت کا پردہ بھی بہت آسانی سے مل جاتا ،شاعر ہر مرحلہ پر اپنے معتقدات کی آڑ پکڑتا ہے اور نقاد جہاں کا تہاں رہ جاتا ہے ،لیکن نعت گوئی کی فضا جتنی وسیع ہے ، اتنی ہی اس میں پرواز مشکل ہے۔‘‘ <ref> (لکھنؤ کا دبستان ۔۔۔۔صفحہ ۵۴۴ ) </ref>

پروفیسر سید محمد یونس گیلانی ’’نعت ‘‘سے متعلق یو ں تحریر فرماتے ہیں۔


’’نعت کا مفہوم اہل لغت کے نزدیک ان اچھی صفات ، عادات و خصائل کا بیان کرنا ہے ، جو خلقتاََ وطبعاً کسی شخص میں پائی جائیں ، یہی وجہ ہے کہ نعت کا لفظ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کی تعریف و توصیف کے لئے مختص ہوگیا ہے۔ نعت رسول مقبول کا بیان روز اول سے لے کر آج تک مسلسل و متواتر جاری ہے اور ابد تک یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔‘‘ <ref> (تذکرہ نعت گویان اردو ،حصہ اول ،صفحہ ۳ ) </ref>

احسان دانش کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں۔


’’صرف الفاظ سے نعت کا حق ادا نہیں ہوتا بلکہ جو جذبہ الفاظ کا جامہ قبول کر کے کاغذ پر قابل اظہار بنتا ہے ، وہی جذبہ ہے ،جسے ثنائے بے نقط کا نام دیا جاسکتا ہے۔ جذبات کا وہ لمحہ ایسا ہوتا ہے کہ کائنات میں دل کی دھڑکن کے سوا کوئی آواز نہیں آتی۔ اگر آنسو بھی گرتا ہے تو پہروں روح میں اس کی جھنکار گونجتی رہتی ہے ۔ اس وقت انسان اور خدا لسانی طور ایک سطح پر آجاتے ہیں ، کیوں کہ جب کوئی دورود پڑھتا ہے تو خدا فرماتا ہے کہ میں بھی درود پڑھتا ہوں ، دوسرے لفظوں میں نعت کو پیرایہ درد بھی کہا جاسکتا ہے۔‘‘ <ref> (جلوہ گاہ : حافظ مظہر الدین صفحہ نمبر ۱۳ ) </ref>


ڈاکٹر سید شمیم گوہر کی مطابق:


’’ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے نعتیہ شاعری کا آغاز ہوا اور بتدریج ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے آج آفاقی عظمت کی حامل بن گئی ، نعتیہ ادب کی خوشبو قیامت تک مہکتی رہے گی۔‘‘ <ref> (نعت کے چند شعرائے متقدمین ،ص ۹خانقاہ حلیمیہ ابوالعلائیہ ۔ الہ آباد ،۱۹۸۹ ) </ref>

راجہ رشید محمدتحریر فرماتے ہیں:

’’تعریف ، مدح و ثنا، تحمید ، توصیف اور نعت کے الفاظ مختلف مقامات پر حضور رسول انام علیہ الصلواۃ و السلام کی مدح میں استعمال کئے گئے ہیں ۔لیکن جو اصطلاح خاص طورسے کثرت کے ساتھ مدح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے استعمال ہوئی ہے وہ نعت ہے۔‘‘ <ref> (پاکستان میں نعت،ص ۱۰ ایجوکیشنل ٹریڈ رز، اردو بازار لاہور ستمبر ۱۹۹۴ ) </ref>

’الحافظ ابو موسیٰ‘‘ کے مطابق۔

’’النعت وصف الشئی بما فیہ من حسن مالہ الجلیل ولایقال فی المذموم الا بتکلّف فیقول نعت سوء ، فاما الوصف فیقال فیھماای فی المحمود المذموم۔‘‘

’’یعنی نعت وصف محمود کو کہیں گے ۔ اگر بتکلف اس میں وصف مذموم کا مفہوم پیدا کرنا ہو تو ’’نعت سوء‘‘ سے اسے ظاہر کریں گے۔ نعت جب وصف محمود ہے تو وصف کیا ہے؟ وصف کے معنی ہیں کشف اور اظہار ،شاعرانہ اصطلاح میں وصف کسی چیز کے عوارض اور اس کی خصوصیات کو نمایاں کرنے کو کہتے ہیں۔‘‘ </ref> (جامع الترمذی ، مطبوعہ ’اصح المطابع ‘لکھنؤ سنہ ۱۳۱۷ ھ ص ۵۶۸ حاشیہ ۳) </ref>

’’ابن قدامہ‘‘ ’’الحافظ ابوموسی‘‘ کے ’’وصف محمود‘‘ کی مزید توضیح یوں فرماتے ہیں۔

’’ بہترین وصف شاعر وہ ہے جو اپنے شعر میں ان اوصاف کے اکثر حصہ لائے جن سے موصوف مرکب ہے۔ اس کے بعد وہ اوصاف اس قسم کے ہوں جو موصوف میں زیادہ نمایاں ہیں اور اس کے ساتھ زیادہ خصوصیت رکھتے ہیں ۔‘‘ <ref> (شعر الہند حصہ دوم ص ۳۸۹ ’’مولانا عبدالسلام ندوی‘‘ مطبوعہ مطبع معارف اعظم گڈھ) </ref>


مولانا سید عبدالقدوس ہاشمی ندوی نے نعت کی تعریف یوں فرمائی ہے۔


’’نعت عربی زبان کا ایک مادہ ہے۔نعت میں اس کے معنی ہیں ،اچھی اور قابل تعریف صفات کا کسی شخص میںپایاجانا اور ان صفات کا بیان کرنا۔‘‘ <ref> (’’ورفعنالک ذکرک‘‘صفحہ ۱۵) </ref>


’’نعت ‘‘کے لغوی اور اصطلاحی معنی کے ضمن میں دانشوروں کی مذکورہ توضیحات و تشریحات سے اس بات کا وضح انکشاف ہوتا ہے کہ ـ’’نعت‘‘ بحیثیت صنف شاعری اپنا ایک انفرادی موضوع رکھتی ہے ۔اس صنف سخن کی موضوعاتی یکتائیت اور اس کا استمرار ہی اس کا انفرادی تشخص ہے ۔غالباً اس کا یہی انفرادی اختصاص اسے شاعری کی دیگر اصناف سخن سے اسے ممتازکرتا ہے۔

سید مرتضی الزبیدی کے مطابق ابتدامیں یہ لفظ(نعت) وصف کے مترادف ضرور سمجھا گیا ۔لیکن بعد میں یہ لفظ ’’نعت‘‘ اپنے جملہ مترادفات سے الگ اپنی ایک انفرادی حیثیت سے متعارف ہوا۔جیسا کہ ’’ابن اثیر نے ’’النہایہ فی غریب الحدیث‘‘ میں اس لفظ ’’نعت‘‘ کی توضیح کچھ اس اندا زمیں پیش کی ۔


’’ یہ لفظ(نعت ) کسی شخص یا کسی چیز کے حُسن و اوصاف بیان کرنے کے لئے ،مختص ہے۔ نہ کہ کسی شخص کے قبح و معائب بیان کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے۔ اگر اس لفظ کے توسط سے کسی کی برائی کا تذکرہ مقصود ہو تواُسے اصطلاحاً’’نعت سو‘‘ یا نعت مکروہ ‘‘ سے تعبیر کیاجاتاہے‘‘۔ ( تاج العروس جلد اول )


لیکن’’ ابن سیدہ‘‘ کے مطابق لفظ ’’نعت‘‘ اپنے معنوی حُسن کی بنیاد پر ایک بہترین لفظ ہی نہیں ،بلکہ اس لفظ کو ایک تجددآمیزمبالغہ اظہار بیان سے بھی تعبیر کیا جاتاہے۔

’’ابن رثیق ‘‘ نے نعت کے حوالے سے وصف کی نہایت بلیغ توضیح کی ہے ان کا یہ قول ہے کہ۔


’’ ابلغ الوصف ماقلب السمع بصراً‘‘

’’ بلیغ ترین وصف اسے کہتے ہیں جو کان کو آنکھ بنا کر پیش کرے۔‘‘

اس ضمن میں عرب کے ایک مشہور ماہر لسانیات ’’ابن عربی ‘‘ کا اس لفظ ’’نعت‘‘ سے متعلق نظریے سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ وہ فرماتے ہیں کہ ”لفظ’’نعت ‘‘ کا معنوی وصف کسی شکیل و جمیل حسین و خوب رو شخص کی توصیف کے لئے مستعمل ہے۔لیکن ایک بنیادی شرط کے ساتھ کہ اس لفظ کا معنوی تعین کسی انسان کے ظاہری خواص یعنی اس کے قدو قامت ،حُسن و رعنائی یا حلیہ وغیرہ کی تعریف و توصیف سے ہی اتصاف ہے۔لیکن اس کے برعکس کسی شخص یا شئے کے معنوی حسن کے بیان کو اس دائرے سے باہر رکھا گیاہے۔‘‘


لیکن ’’نعت ‘‘ سے متعلق اہل عجم ’’ابن عربی‘‘کی اس مشروط تعریف کے متحمل نہیں ہیں ۔چونکہ اہل عجم کے نزدیک ’’نعت‘‘ ایک ایسا وحدہ لاشریک لفظ ہے۔ جس کے تمام ظاہری و معنوی امکانات کا مرکز و محور محض ذات پیغمبر ؐ اسلام ہے۔لہذا اس سے ہٹ کر ’’نعت ‘‘ کا تصور لایعنی ہے۔


’’نعت ‘‘ سے متعلق ڈاکٹر ریاض مجیدکا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔


’’یہ لفظ’’نعت‘‘ خلقتاً عمدہ صفات کے مالک کے لئے استعمال ہوتا ہے، یعنی اس شخص کے لئے جو پیدائشی طور پر خوبصورت ہو ، عمدہ خصلتوں اور اچھے اخلاق والا ہو ،اور یہ لفظ ’’نعت‘‘ اوصاف کے انتہائی درجے کے مفہوم میں آتا ہے۔‘‘


انور احمد میرٹھی نے’’نعت‘‘ کو شاعر کے عجز بیان سے تعبیر کیا ہے ۔یہ اقتباس ملاحظہ کریں۔


’’نعت‘‘ عربی کا لفظ ہے ۔ اس کے معنی تعریف و وصف بیان کرنے کے ہیں اگر چہ عربی میں مدح کا لفظ بھی اس مقصد کے لئے مستعمل ہے لیکن ادبیات میں نعت آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اوصاف و محاسن اور بیان سیرت کے اظہار کے لئے مختص ہے اور یہی وہ صنف سخن ہے جس میں شاعر کا عجز نعت کی خصوصیات کا حصہ ہے چاہے وہ کسی بھی زبان میں ہو۔عربی شاعری میں اس کی مثال حضرت علی کے ایک شعر سے ملتی ہے وہ شعر ملاحظہ کریں۔


اللہ یعلم شانہ

وَھو العلیم بیانہ


اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان جانتا ہے اور وہ آپ ۔۔۔۔۔کے بیان سے باخبر ہے۔‘‘ <ref> (بہر زماں بہر زماں صفحہ نمبر ۴۳) </ref>

لفظ ’’نعت‘‘ کی ان جملہ توضیحات وتشریحات سے الگ ’’مفتی غلام حسین رامپوری کا اپنا خیال ہے کہ

لفظ ’’نعت‘‘ کو اہل بیت علیھم السلام اور صحابہ کرام کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘

مفتی غلام کی حسین کی یہ توضیح درست نہیں ہے ۔اس لئے کہ ’’نعت‘‘ کا انطباق محض حضورا کرم کے محامد و محاسن کے بیان پر ہی ہوتا ہے۔اور اہل بیت علیھم السلام کی اور صحابہ کرام کی مدح کے لئے باضابطہ شاعری میں ’’منقبت‘‘ جیسی صنف مروج ہے۔غالباً مفتی غلام حسین رامپوری نے صنف’’نعت‘‘ میں جو اہل بیت علیھم السلام اور صحابہ کرام کے ذکر کو شامل کیا ہے ۔اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ زمانہ رسالتمابؐ اور عہدتابعین وتبع تابعین کے بعض نعت گو شعرا نے خصوصیت کے ساتھ اہل بیت علیھم السلام اور صحابہ کرام کا تذکرہ اپنے نعتیہ قصائد میں ضمنی طور پر کیا ہے ۔ جن میںجناب حسان بن ثابت اور عہد رسالتمآب کے دیگر شعرا اعظام کے علاوہ مشہور نعت گو شاعر جناب عبداللہ شرف الدین محمد بن ابوالبوصیر (جن کا تذکرہ آگے چل کر تفصیل سے کیا جائے گا)ان کے نعتیہ قصائد میں اہل بیت علیھم السلام کے حوالے سے بیشتر اشعار موجود ہیں۔مثال کے طورپریہ شعرملاحظہ فرمائیں۔


اٰل بَیت النّبی طِبتم خطاب المدحُ فیکم وطاب الرّثاء

انا حسّانُ مدحکم فَا ذا نحتُ علیکم فاِ فّنی الخنساء


’’ اے اہل بیت نبی ؐ تم پاکیزہ ہو اور تمہارے بارے میں میری مدح و رثا،پاک ہے ، میں مدح نگاری میں تمہارا حسّان ہوں اور جب میں تمہارا نوحہ لکھتا ہوں تو ’’خنسا‘‘ بن جاتا ہوں۔‘‘


اما م شرف الدین بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ بالاشعر کے دوسرے مصرعہ میں خاص کر عرب کے دو اہم شاعروں کا تذکرہ کیاگیا ہے، پہلے ’’حسان ابن ثابت علیہ الرحمہ،جن کا نام جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عہد میں نعت گویان میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ ان کے سلسلے سے تاریخ میں بہت سے واقعات نقل ہوئے ہیں اور ان کے اشعار آج بھی نعت گوئی کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہیں ۔(جن کا تذکرہ آگے چل کر تفصیل سے کیا جائے گا) اورایک خاتون شاعرہ’’خنسا‘‘ ہے جس کا تذکرہ مذکورہ شعر میں کیا گیا ہے۔لیکن اس مذکورہ بالا شعر کے ضمن میں ’’خنسا ‘‘ کا اجمالی تعارف اپنے قاری کے لئے ضرور پیش کرنا چاہتا ہوں ، ’’خنسا‘‘ عرب کی ایک فصیح اللسان خاتون تھی اور وہ اپنے وقت کی ایک بہترین شاعرہ تھی۔ جسے شعر گوئی میں ملکہ خاص حاصل تھا، جس کی فصاحت اور بلا غت شعر کی وجہ سے اسے عرب کے اہم شعرا میں ایک خاص مقام حاصل تھا۔اس کا ایک بھائی جس کا نام تاریخ میں ’’صخر‘‘ بیان کیا گیا ہے، وہ اپنے بھائی سے بے پناہ محبت کرتی تھی۔لیکن اس کا بھائی ایک جنگ میں ’’خلد بن ولید‘‘ کی تلوار سے مارا گیا ۔تو اس کے مرنے کا غم ’’خنسا‘‘ پر اتنا شدید ہوا کہ اس نے اپنے بھائی کی پھٹی ہوئی جوتیوں کا ہار بنا کر اپنے گلے میںحمائل کئے ہوئے مدینہ کی گلیوں کوچوں میں پھرنے لگی اور اس نے اپنے بھائی کے قتل ہوجانے پر ایک پُرسوز’’ نوحہ کہا اور جب وہ مدینہ کی گلی اور کوچوں میںپڑھتی اور شدت غم سے یوں سینہ زنی کرتی کہ یہاں تک کے اس کی یہ کیفیت اور اس کے نوحہ کے اشعار سن کر لوگوں کے دلوں پر ایک غم کی کیفیت طاری ہوجاتی اور لوگوں کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسوجاری ہوجاتے۔اس کی مزید تفصیل پڑھنے کے لئے علامہ شبلی نعمانی کی مشہور زمانہ کتاب ’’موزانہ انیس و دبیر‘‘  دیکھی جاسکتی ہے۔


امام شرف الدین بوصیری کے قصیدہ ’’نومیہ‘‘ کا یہ شعر بھی ملاحظہ کریں


علیٰ اَن تذکاری لما قد اصابکم

یجر اٗشبحانی واَن قدُم العھد


’’ جب میں ان مصیبتوں کو یاد کرتا ہوں جو آپ پر (اہل بیت نبی ؐ) پر ڈھائی گئیں تو ایک زمانہ گزرجانے کے بعد بھی میرے غم تازہ ہوجاتے ہیں۔‘‘


یہ بات درست ہے کہ اولین نعت گو شعرا میں یہ رجحان عام تھا کہ وہ حضور اکرم سے تقرب اور محبت کے بنیاد پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کے ساتھ ان کے اہل بیت کا بھی تذکرہ اپنے قصائد میں کرتے تھے۔ جس کا مقصد محض حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حصول محبت و رافت تھی۔جب کہ موجود ہ عہد میں ایسا نہیں ہے۔ اس لئے کہ علمائے ادب نے صنف’’نعت‘‘ کے موضوعات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اہل بیت علیھم السلام اور ان کے صحابہ کرام کے توصیف و ثنا کے بیان کے انضمام کو مسترد کرتے ہوئے ’’نعت‘‘ کو محض جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ذکر سے ہی موسوم کیا ہے ۔اور ان کے اہل بیت اور صحابہ کرام کے تذکرے کے لئے’’منقبت ‘‘ جیسی صنف کی ترویج کی گئی جو آج بھی رائج ہے اور صاحبان مودت اپنی عقیدت کے اظہار کے لئے منقبت کے ذریعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خانوادہ عصمت و طہارت ونجابت اور ان کے اصحاب ذوالاحترام کی خدمت میں اپنے اظہار عقیدت کے لئے ’’منقبت ‘‘جیسی مقدس صنف کا سہارا لیتے ہیں۔


جب کہ عرب کے نعت گویان کے نعتیہ قصائد میں کثرت کے ساتھ ایسے اشعار مو جود ہیں جس میں رثائی کیفیت پائی جاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجودان اشعار کا شمار نعت ہی میں کیا جاتا ہے۔حضور اکرم کے وصال کے بعد جن شعرا نے نعتیں کہیں ہیں ۔اس میں رثائی کیفیت کا پایا جانا ایک فطری امر ہے ، اسی وجہ سے بعض محققین اور مولفین نے جب نعت جیسی صنف سخن پر خامہ فرسائی کی اور جب نعتیہ قصائدمیں موجود ان اشعار کی یافت کی تو انھوں نےایک منصوبہ بند زمرہ بندی کے تحت اس کی تفہیم و تعبیر کے بغیراسے مرثیہ اور نوحہ سے بھی تعبیر کیا، جب کہ اس طرح کی تخصیص ایک قابل غور مسئلہ ضرور ہے۔جس پر ایک عمیق نگاہ اور عقلی دیدہ ریزہ کی ضرورت ہے۔حالانکہ صنف نعت میں اس طرح کے تجدد آمیز امتیازات ضرور کئے گئے ہیں۔اس کے لئے آپ ’’حیات عامر حسینی‘‘کی کتاب کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔


’’نعت اور مرثیہ کو الگ کرنا ایک حیثیت سے ناممکن ہے ، کیوں کہ تبلیغ و حجت و شہادت دین حق کی تاریخ اور رسول اعظم و آخر صلی اللہ علیہ وسلم و آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مختلف و متنوع پہلو ہیں جو ایک دوسرے سے کلی طور پر جڑے ہوئے ہیں ۔ یہی اس کی Dialecticsکہے اس سے الگ کچھ اور ہوہی نہیں سکتا۔ دین حق کی تبلیغ و حفاظت و سربلندی اور اللہ کی رضا کا حصول اور خلافت ارضی کی ذمہ داری ایک کائناتی عمل ہے اس کی ابتدا و انتہا اور محو ذات اقدس محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔‘‘ <ref> کتاب :نعت،مرثیہ اور عرفان (ایک علمیاتی ،بحث)‘‘ مطبع زینب پبلی کیشنز علی گڑھ 2016 </ref>


اس اقتباس سے مولف کی ذہنی کشمکش اوراس کے نفسیات الجھاؤ کو آسانی سے محسوس کرسکتے ہیں،اس اقتباس میں بہت سے ایسے نکات ہیں ۔جس پر کھل کر بات کی جاسکتی ہے ۔لیکن موضوع کی نزاکت اس بات کی متحمل نہیں ہے، کہ ان نکات کو معرض بحث لایا جائے ۔ لیکن اس اقتباس میں ’’نعت اور مرثیہ‘‘ سے متعلق جو خلط مبحث ہے ۔اس کے درمیان ایک خط امتیاز ضرور قائم کیا جانے چاہئے،مولف نے اردو ادب کی دواہم صنف سخن ’’نعت‘‘ اور مرثیہ ‘‘ کو ایک ہی صنف قرار دیا ہے۔جو منطقی اعتبار سے درست نہیں ہے۔ اس لئے کہ ’’اردو ادب میں ’’ نعت‘‘ ایک مستقل صنف سخن کی حیثیت رکھتی ہے، اور ’’مرثیہ‘‘ بھی رثائی ادب کی ایک مقبول ترین صنف سخن ہے۔ جو کسی طرح کے تعارف کی محتاج نہیں۔لیکن مولف مزید اس کے آگے تحریر فرماتے ہیں۔


’’نعت اور مرثیہ کو الگ کرنا ایک حیثیت سے ناممکن ہے ‘‘


یہ نظریہ اپنے اندر کوئی مستقل منطقی استدلال نہیں رکھتا ۔مولف نےعرب کے ان نعت گو شعرا کے نعتیہ قصائدمیں موجود وہ اشعار جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وصال کے بعد کہے گے ہیں ۔ان اشعار میں حضوراکرم کے محاسن و محامد کے بیان کے ساتھ اس خلق مجسم اور سراپا رحمت و رافت کے اس دنیا سے اٹھ جانے کے بعد، جو محرومیت اور منہومیت اور کربناک اذیت کا احساس اور اس سے پیدا ہونے والے دلوں میں حزن و ملال اور رنج و الم کا اظہار کیا گیا، اسی کو بنیاد بنا کر ’’نعت‘‘ اور ’’مرثیہ‘‘ کو ایک ہی صنف قرار دیا۔جو قطعی درست نہیں ہے۔اگر اس نظریہ کو درست مان لیا جائے توہمارے اردوادب میں موضوعات کے اعتبار سے بہت سی ایسی اصناف سخن ہیں ۔جس میں بیک وقت مختلف موضوعات کی پیش بندی کی جاتی ہے۔


لیکن اس کے بعد بھی اس کے درمیان کوئی خط فاصل نہیں قائم کیا جاتا مثلا قصیدہ میں ،خاص کر تشبیب کے اشعارموضوع کے اعتبار سے مکمل غزل کی عکاسی کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان تشبیب کے اشعار کے بنیاد پر قصیدے اور غزل کو ایک ہی صنف نہیں قرار دیا جاتا۔اس لئے کہ غزل ایک الگ صنف سخن ہے اور قصیدہ الگ صنف سخن ہے۔ اسی طرح سے اپنے موضوعات کی بنیاد پر ’’نعت ‘‘ ایک الگ صنف سخن ہے اور’’مرثیہ‘‘ ایک الگ صنف ہے ، لہذا اس بنیاد پر دونوں مختلف صنفوں کو ایک ہی صنف قرار دینا یہ قطعی منطقی نہیں ہے۔


مولف کو یہ تسامح نعتیہ اشعار میں موجود ان اشعار کہ وجہ سے ہوا جس میں رثائی کفیت پائی جاتی ہے۔جس کی وجہ سے مولف اس طرح کے غیر منطقی ارتکاب کے مرتکب ہوے، اور کچھ اشعار مولف نے اپنے جواز کے لئے اس طرح کے اشعار خود اپنی مذکورہ کتاب میں بھی کوڈ کئے ہیں،اور ایسے بہت سے اشعار نعت میں پائے جاتے ہیں جسمیں رثائی کیفیت کی بھر پور عکاسی کی گئی ہے جسے بطور امثال یہاں پیش کرتا ہوں۔


وہ اشعار ملاحظہ کریں ۔جسے جناب فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا نے اپنے بابا جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات کے بعد کہے ہیں۔جن میں کچھ اشعار اپنے بابا کی مدح میں کہے ہیں ۔جن میں جدائی کی کرب انگیز کیفیت کی براہ راست عکاسی کی گئی ہے۔لہذا مختلف شعرا کے کچھ ایسے نعتیہ اشعار پیش کرتا ہوں جس میں رثائی اور مبکی کیفیت پائی جاتی ہے۔جناب سید ۃ النسالعالمین جناب فاطمہ زہرا صلواۃ اللہ علیھا کے یہ اشعار ملاحظہ کریں۔


ماذاعلی من شم تربتہ احمد

الایشم مدی الزمان غوالیا


’’ وہ شخص جس نے (رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کے قبر کی مٹی سونگھ لی تو اس پر تعجب کیا ہے کہ وہ ساری عمر کوئی اور خوشبو نہ سونگھے‘‘


صبت علی مصائب لو انھا

صب علی الایام عدن لیالیا


’’اے بابا(رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم) آپ کے بعد مجھ پر وہ مصیبت ڈھائی گئی اگر وہ مصیبتیں اگر دن پر پڑتیں تو وہ سیاہ راتوں میں تبدیل ہوجاتیں۔‘‘


اِغرّا آفاق السمائ و کوّرت

شمس النّھار وَاظلم الارمان


’’آسمان کی وسعتیں گردآلود ہوگئیں اور دن کی بساط کو لپیٹ دی گئی اور سورج گہن آلود ہوگیا جس کی وجہ سے سارا زمانہ تاریک ہوگیا۔‘‘


ولارض من بعد النبی کَئبۃ

اسفا علیہ کثیرۃُ الاحزان


’’رسول اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے وصال کے بعد زمین ابتلائے دردو غم میں ڈوب گئی‘‘


فلیبکہ شرق البلادِ و غربھا

یا فخر من طلعت لہٗ النیران


’’اب مغرب و مشرق ان (رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے ہجر میں اشک ریز ہیں ،فخر صرف ان کے لئے ہے جن سے تجلیات الہی کا ظہور ہوا‘‘


یاخاتم الرسل المبارک صنوۃ

صلی علیک منزل القرآن


’’اے خاتم الرسل (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)آپ خرو برکت کے وہ بہتے ہوئے دریا ہیں ، جس پر اللہ تعالی نے قرآن جیسی عظیم کتاب نازل کی اور اُس نے اپنے محبوب کے ذکر کو درودوسلام میں بھی شامل رکھا۔‘‘


حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بھی جو نعتیں کہیں ہیں ان میں سے کچھ اشعار پیش ہیں جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات کے بعد کہے گئے ہیں (حضرت علی علیہ السلام کی نعت گوئی پر آگے تفصیل سے تذکرہ کیا جائے گا) لیکن یہاں پر ان کے چند اشعار ضرور پیش کرتا ہوں اپنے موقف کی دلیل کے طور پر ملاحظہ فرمائیں۔


امن بعد تکفین النبی ودفنہ

باثوابہ آسی علی ھالک ثوی


’نبی کریم( صلی اللہ علیہ والہ وسلم )کفن پوش ہونے کے بعد ان کے انتقال کے غم میں ،میں غم زدہ ہوں وہ جس نے قبرکواپنی ابدی قیام گاہ بنا لی۔‘‘


زرانا رسول اللہ فینا فلن نری

بذالک عدیلاً ما حیینا من الرویٰ


’’رسول خدا (صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کی موت کی مصیبت مجھ پر اس طرح نازل ہوئی ،کہ جب تک میں زندہ رہوں گاہر گز اُ ن جیسی شخصیت کبھی دیکھنے کو نہیں ملے گی۔‘‘


وکان لنا کالحصن من دون اھلہ

لہٗ معقل حرز حریز من الرویٰ


’’رسول کریم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ہمارے لئے ایک مضبوط ترین قلعہ تھے جو دشمنوں سے حرزوامان کی حیثیت رکھتے تھے۔‘‘


وکنا بمراہ نری النور والھدی

صباحاً ماراح فینا او غتدی


’’جب ہم انھیں(رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم)دیکھتے ہیں تو وہ سراپا اور مجسم نور ہدایت ہیں،جب ہم انھیں گھر سے نکلتے اور صبح شام چلتے پھرتے تو اہم انھیں دیکھتے تھے۔‘‘


لقد غشیتنا ظلمۃ بعد موتہ

نھاراً فقد زادت علی ظلمہ الدجیٰ


’’ان کے (رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم )کی وفات کے بعد ایسا اندھیر ا چھا گیا کہ یہ دن بھی مانند سیاہ رات کے ہوگیا۔‘‘ <ref> (الشہید:661ہجری) </ref>

جناب حسان ابن ثابت کے بہت سے ایسےنعتیہ کلام ہیں جس میں رثائی کیفیت پائی جاتی ہے۔ جو رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات کے بعد کہے گئے ہیںان کے مختلف نعتیہ قصائد میں موجودکچھ اشعار آپ بھی ملاحظہ کریں۔


امسی نسائک عطلن البیوت فما

یضربن فوق قضا ستر باوتاد


’’خانوادہ عصمت و طہارت کی خواتین نےاب اپنے گھروں سے نکلنا چھوڑ دیا ہے ، یہاں تک کہ اب وہ اپنے پردوں کے پیچھے میخیں بھی نہیں لگاتیں۔‘‘


مثل الرواہب یلبسن المباذل قد

ایقن بالبؤس بعد النمۃ البادی


’’یہ خانودہ عصمت کی خواتین (حضور کے وصال کے بعد)راہباؤں کی طرح بہت ہی کم قیمت اور بوسیدہ کپڑے پہنتی ہیں انھوں نے اس نعمت کے اٹھ جانے کے بعد اس کھلی ہوئی مصیبت کو اپنا شعار زندگی بنالیا ہے۔‘‘


کان ایضائً وکان النور نتبعہ

بعدالالہٗ وکان السمع و البصرا


’’وہ(رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نور مجسم تھے خدا کے بعد ہم جن کا اتباع کرتے تھے ،وہ ہماری آنکھ اور کان تھے۔‘‘


فبورکت یاقبر الرسول وبورکت

بلادثوی فیھا الرشید المسدد


’’اے رسول مکرم و معظم وہ قبر بہت بابرکت ہے جوآپ کی ابدی قیام گاہ ہے، اور اس شہر کو بھی اللہ تعالی نے وہ برکت اور وہ عظمت عطا کی جہاں آپ قیام پذیر تھے۔‘‘


وراحوا بحزن لیس فیھم نبیھم

وقد وہنت منہم ظہور واعضد


’’یہ وہ غم رسیدہ اور الم نصیب لوگ ہیں جن کے درمیان ان کا نبیؐ نہیں رہا جس کی وجہ سے ان کی کمریں خمیدہ اور زوربازو کمزور ہوگیے ہیں۔‘‘


یبکون من تبکی السموات یومہ

ومن قد بکتہ الارض فالناس اکمد


’’یہ لوگ اس عظیم ہستی پر گریہ کناں تھے جس کی وفات پر آسمان و زمین رورہے تھے اور لوگ اس سے کہیں زیادہ غمزدہ تھے۔‘‘


فینا ھم فی نعمۃ اللہ بینھم

دلیل بہ نہج الطویقۃ یقصد


’’اچانک جب ان کے درمیان اللہ کی نعمت رسول خدا(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی شکل میں موجودتھی،یہ ایک ایسے رہبر تھے جن کی رہنمائی میں ہدایت کا راستہ بہت واضح اور روشن تھا۔‘‘


عزیز علیہ ان یجوروا عن الہدی

حریص علی ان یستقیموا ویھتدوا


’’لوگ ان کی قیادت میں اس راستے پر چل پڑتے تھے ۔ انھیں(رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم) پر یہ بات بہت گراں گزار تھی کہ ان کی امت اس صراط مستقیم سے بھٹک نہ جائیں۔‘‘


عطوف علیھم لایثنی جناحۃ

الی کنف یحنوعلیھم ویمہدوا


’’جو اس بات کے لئے ہمہ وقت فکر مند تھے کہ لوگ صراط مستقیم پر گامزن رہیں وہ (رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم) بڑے شفیق اور مہربان تھے جو کسی سے بے اعتنا ئی کا اظہار نہیں فرماتے تھے۔‘‘


فبیناھم فی ذالل النور اذ غدا

الی نورھم سہم من الموت مقصد


’’وہ نور مجسم لوگوں کے لئے راستہ ہموار کرتے رہتے ، ان پر اپنی مہربانی کا اظہار فرماتے ،لوگ ان سے فیضاب ہورہے تھے کہ اچانک موت کے سفاک تیر نے اس خلق کے مجسم کو اپنی زد میں لے لیا۔‘‘


بطیبۃ رسم للرسول ومعہد

منیر وقد تعفرالرسوم وتہمد


’’مدینہ منورہ میںرسول کریم کے منزل مقام و شرف کے آثار قیامت تک محفوظ رہیں گے،جب کہ دوسروں کے آثار ہمیشہ باقی نہیں رہتے ۔‘‘


ولاتمتحی الآیات من دار حزمۃ

بھا منبر لہادی الذی کان یصعد


’’لیکن اس مکرم اور قابل احترام(رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی نشانیاں کبھی ختم نہیں ہوں گی ،یہاں تک وہ منبر بھی موجود ہے جس پر آپ بیٹھ کر خطبہ دیتے تھے۔‘‘


وواضح اثار وباقی معالم

وریع لہ فیہ مصلی و مسجد


’’آج بھی ان سےآثارکی نشانیاں بہت واضح ہیں،جسمیں ان کا مکان ،ان کی نماز پڑھنے کی جگہ یہاں اتک کہ آپ کی سجدہ گاہ تک باقی ہے۔‘‘


بھا حجرات کان ینزل وسطہا

من اللہ نور یستضا یوقد


’’آپ کا وہ مکان جہاں پر نزول وحی و نور ہوتا تھا جسے اکتساب فیضان کیاجاتا تھا۔‘‘


وھل عدلت یوما رزیۃ ھالک

رزیۃ یوم مات فیہ محمد

’’کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات کا دن کسے کے مرنے کے دن کی مصیبت کے برابر ہوسکتا ہے۔‘‘


نقطع فیہ منزل الوحی عنہم

وقد کان ذانور یعور وینجدُ


’’(حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی وفات کی وجہ سے وہ شخص ہمارے درمیان سے اٹھ گیا جس پر وحی الہی کا نزول ہوتا تھا اور جس کا نور دنیا کے تمام نشیب وفراز کوروشن کرتا تھا۔‘‘


یدل علی الرحمن من یقتدی بہ

وینقذ من ھول الخرایا ویرشد

’’اُس(رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے نور کی ا قتداکرنے والے ہدایت یافتہ ہوگئے ،جنھیں ذلت و رسوائی اور خواری سے نکال کر اُسے عزت وشرف سے آراستہ کردیا۔‘‘


امام لہم بہدیہم الحق جاھداً

معلم صدق ان یطیعوہ یسعدوا


’’وہ(رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ایک ایسے رہبر اور قائد تھے جو لوگوں کو حق کے راستے کی نشاندہی کرتے تھے، وہ سچائی کا درس دینے والے تھے ، اگر خلق خدا ،اُس کی اقتدا کرتی تو وہ لوگ نیک و سعید بن جاتے تھے۔‘‘


عفو عن الذلات یقبل عذرھم

وان یحسنو افاللہ بالخیر اجوہ


’’وہ(رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم) لوگوں کی غلطیوں کو درگرزکردینے والے تھے اور ان کی عذر خواہی کو قبول فرمانے والے تھے اگر کوئی بھلائی کرنے والااور اللہ کی اطاعت کرنے والا ہوتا تو آپ ٔ اس کے لئے بیحد سخاوت فرماتے۔‘‘


وان ناب امرلم یقوموا بجملہ

فمن عندہ تیسیرما یتشدد


’’اگر کوئی دشوارگزار معاملہ پیش آتا جس کی عقدہ کشائی سے لوگ عاجز ہوتے تو آپ اس کے ہر مسئلے اور معاملات کی پیچیدگی کو بڑی خوش اسلوبی سے سلجھانے والے تھے۔‘‘


حضرت عباس بن عبد المطلب نے بھی نعتیں کہیں جن کے کچھ اشعار میں اپنے قارئین کی خدمت میں ضرور پیش کرونگا لیکن حضرت عباس بن عبدالمطلب کا ایک اجمالی تعارف اس ضمن میں پیش کرتا چلوں۔


جناب عبا س بن عبدالمطلب ؑ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جلیل القدر صحابی تھے ، اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چچا بھی تھے،اسلام کی ترویج اور جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے تحفظ میں ایک اہم خدمت انجام دی ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ، اور آپ اپنے زمانے کی ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے۔ جن سے کتب احادیث میں کثرت سے احادیث نقل کی گی ہیں، آپ سلسلہ روات میں سلسلۃ الذھب کی حیثیت رکھتے ہیں۔

آپ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ آپ سے نقل کی ہوئی احادیث پرعالم اسلام کے تمام تر مسالک اتفاق رکھتے ہیں ۔اور ان کی ذریعہ بیان ہونے والی احادیث درجہ استناد کی حیثیت رکھتی ہے ۔ آپ نے بھی اپنے بھتیجے اور داعی اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان میں نعتیہ اشعار کہےہیں ۔ان اشعار میں پائی جانے والی فصاحت و بلاغت سے انداز ہوتا ہے کہ وہ فصحائے عرب میں اپنا ایک اہم مقام رکھتے تھے۔انھوں نے جو اشعار حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حوالے سے کہیں ہیں اس میں جذبات کی ایک سیلانی کیفیت اور محبت کی ایک انجذابی کیفیت پائی جاتی ہے جسے پڑھنے کے بعد روح کو بالیدگی کا احساس ہوتا ہے۔انھوں نے ان اشعار میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے تمام ظاہری اور معنوی خواص کا ذکر بڑے خوش اسلوبی کے ساتھ کیا گیا ہے۔ جسے پڑھنے کے بعد عشق و عرفانیات کے بہت سے مرموزات قاری پر واشگاف ہوتے ہیں۔ آپ کا انتقال 654 ہجری میں ہوا،جن کی قبر مدینہ منورہ میں ہے جو آج تک امت مرحومہ کا نوحہ پڑھ رہی ہے۔اس افسوسناک صورت کو دیکھ کر دلی اذیت اور روحانی کرب کا احساس ہوتا ہے،اور دل میں ایک ٹیس اور خلش پیدا ہوتی ہے،جس کا اظہار کرنے کے لئے میرے پاس لفظیں نہیں ہیں۔ دنیا کے تمام قومیں اپنے بزرگوں کی علمی وراثت اور ان کے آثار کو محفوظ رکھتی ہیں ۔لیکن اسلام میں کچھ فسطایت اور صہونیت نظریات کے پروردہ ذہین ان اسلامی شعائر اور ان آثار کو مٹانے کی مسلسل کوشش کررہی ہیں۔جس سے تاریخ اسلام کا ایک سنہری باب وابستہ ہے اگر اسی طرح ہمارے ماضی کے باقیات اور آثار کو ختم کردیا جاےگا تو آنے والی نسلیں اسلام کی اصل تاریخ سے محروم ہوجائیں گی،اور ہماری اسلام تہذیب و ثقافت کے بیچ ایک ایسا خلا واقع ہوجائے گا کہ جسے پُر کرنا ایک امرناگزیز کی شکل اختیا ر کر لےگا۔لہذا اس موضوع پر تمام عالم اسلام کو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔یہ میرا ذاتی کرب تھاجسے کا اظہار کرنا میں نے مناسب سمجھا اس لئے اسے زیب تحریر کرردیا ۔ حالانکہ یہ موضوع اس بات کامتقاضی نہیں ہے۔لیکن میں یہاںبطور امثال چند اشعار اپنے قارئین کی خدمت میں ضرور پیش کرونگا۔


من قبلھا طبت فی الظلال وفی

مستودع حیث یخصف الورق


’’آپ (رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم) اس سے پہلے خاص طرز عاطفت میں زندگی بسرکی اور ایک ایسی پناہ گاہ میں جہاں کھانے کے لئے پتے اور بدن ڈھاکنے کے لئے پتوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔‘‘


اس شعر میں حضرت عباس بن عبدالمطلب نے شعیب ابی طالب کا ذکر کیا ہے جب مکہ کے کفار و مشرکین حضور اکرم کے’’ اعلائے کلمۃ الحق‘‘اور عربی قبائلی رسوم کے خلاف اپنی آواز بلند کی تو روسائے اور امرائے مکہ جو مشرکین اور کفاروں میں سے تھے انھوں نے پہلے اس آواز کو ہمیشہ کے لئے خاموش کرنے کی کوشش کی لیکن ان کے چچا سید البطحا جناب ابوطالب علیہ السلام کی کفالت اور ان کی سرپرستی کی وجہ سے جب یہ ممکن نہیں ہوسکا ،تو انھیں مادی چیز وں کی لالچ دی گئی لیکن یہ طریقہ کار موثر نہیں ہوسکا،آخر میں کفارو مشرکین کے مختلف قبائل کے آپسی مشورت اور اجماع سے یہ فیصلہ لیا گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور ان کی استعانت کرنے والوں کا سماجی بائیکاٹ کردیا جائے۔لہذا ایک معاہدہ کے تحت آپ کا سوشل بائیکاٹ کردیا گیا، جناب ابوطالب علیہ السلام نے اپنے بھتیجے اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ ایک پہاڑی کے درے میں اقامت پذیر ہوئے ،جسے آج شعیب ابی طالب کے نام سے جانا جاتا ہے۔


ثم ھبطت البلاد و لابـشر

انت ولامضغۃ ولا علق


’’پھر آپ کا (رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کا نزول ایک شہر میں ہوا نہ تو آپ اسوقت ’’مضغہ‘‘ تھے اور نہ ’’علقہ‘‘


بل نطفۃ ترکب السفین وقد

الجم نـسراً واھلہ الغرق


’’وہ آب صفاف کشتیوں پر سوار تھا جب سیلاب کی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی موجیں پہاڑ کی چوٹیوں سے ٹکرا رہی تھیں،اور لوگ غرق آب ہورہے تھے۔‘‘ یہ بہت ہی خوبصورت تلمیحی شعر ہے اس شعر میں جناب عباس ابن عبدالمطلب علیہ السلام نے جناب نوح کے سیلاب کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جب جناب نوح علیہ السلام کی امت پر ان کی تبلیغ کا اثر نہیں ہوا بلکہ وہ اور زیادہ جسور اور کھلے عام گناہوں کا ارتکاب کرنے لگے پیغمبر خدا کے سمجھانے کے باوجود تو جناب نوح علیہ السلام نے اپنی امت کی نافرمانی کی وجہ سے خدا کریم کی بارگاہ میں بدعا کی تو اللہ تعالی نے جناب نوح علیہ السلام کی امت پر پانی کی شکل میں عذاب نازل کیا جس کی وجہ سے تمام لوگ غرق آب ہوگئے سوائے ان لوگوں کے جو جناب نوح علیہ السلام کی کشتی پر سوار تھے۔اس شعر میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ آ پ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہی کی وہ ذات مقدس تھی جس نے جناب نوح علیہ السلام کی کشتی کو اس سیلاب سے نجات دی تھی۔


تنقل من صالب الی رحم

اذا مـضیٰ عالم بداطبق


’’آپ کا نور اصلاب مطہرہ میں منتقل ہوتا رہا ایک دن وہ آیا جب آپ کا نور اس پاکیزہ صلب سے ظہور پذیر ہوا۔‘‘


وردت نار الخلیل مکتتماً

فی صلبہ انت کیف یحترق


’’جب خلیل خدا آتش نمرود میں تھے تو آپ کا(رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کو نور صلب ابراہیم علیہ السلام میں پوشیدہ تھا۔‘‘


حتی احتویٰ بینک المھیممن منَّ

خندف علیا تحتہا النطق


’’یہاں تک کہ آپ کو وہ مقدس اور شان جلالت مآب گھرانہ جو خندف جیسی عظیم المرتبت خاتون کا ہے ،جس کادامن رحمت زمین پر سایہ فگن ہے۔‘‘


وانت لمال ولدت اشرقت الا

رضی وضات بنور کالافق


’’جب آپ کے(رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نور مقدس کا ظہور ہوا تو ، تمام و شرق و غرب آپ کے نور کی ضیاپاشی سے روشن ہوگیا۔‘‘


فنحن فی ذالک الضیاٗ و فی النور

وسسبل الرساشاد نخترق


’’ہم لوگ اسی کے نور کی روشنی میں ہدایت اور استقامت کی راہیں نکال رہے ہیں۔‘‘


ان مذکورہ اشعار میں جناب عباس بن عبدالمطلب نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ان تمام محاسن کو بیان کیا ہے ،جو معنوی عرفان کےتمام مرموزات کو واضح کررہا ہے۔ حالانکہ ان مذکورہ اشعار میں خارجی طور سے رثائی کیفیت کا احساس نہیں ہوتا ۔لیکن ان اشعار کی زیریں لہروں میں ایک ایسے نارسائی کا احساس پوشیدہ ہے ،جو اس نعمت عظمیٰ کے محرومی کے احساس سے عبارت ہیں۔


جناب کعب بن مالک بھی حضور اکرم کے نعت گویان میں ایک اہم مقام کے حامل ہیں (جن کا تفصیلی تذکرہ آگے کیا جائے گا) ان کے نعتیہ اشعار میں بھی حضور کے وصال کے پُردرد اشعار موجود ہیں میں یہاں ان کےکچھ اشعار اپنے بات کے وثوق اور دلیل کی لئے ضرور نقل کرونگا۔


یاعین بکی بدمع ذری

لخیر البریۃ والمصطفیٰ


’’اے میری آنکھ کائنات کی اس عظیم اور برگزیدہ شخصیت پر اس طرح سے گریہ کر کہ آنسووں کا تسلسل بن جائے۔‘‘


وبکی الرسول وحق البکا

علیہہ لدی الحرب عند اللقا


’’اس برگزیدہ شخص پر رو اس لئے کہ اس پر رونا جائز ہے ، یہاں تک جب دشمن بھی میدان جنگ میں صف بستہ ہوں اور اس مشکل کی گھڑی میں بھی۔‘‘


علی خیر ماحملت ناقۃ

واتقی البریۃ عند التقیٰ


’’اے میری آنکھ اس پر اشکبار ہو جس کی ذات مقدس کے بار کو اس اونٹنی (ناقہ کسوی) نے نہیں اٹھایا سوائے اس کے جس کی ذات کائنات میں اللہ کی سب سے برگزیدہ شخصیت تھی۔


علی سی ماجد جحفل

وخیر الانام و خیر اللُھا


’’اے میری آنکھ اس پر اشکبار ہو جو تمام نبیوں کا سردار وبلند کرداراور عظیم المرتبت تھا،جس کی سخاوت تمام مخلوق خدا میں بے نظیر و بے مثال تھی۔‘‘


لہ حسب فوق کل الانام

من ہاشم ذالاک المرتجیٰ


’’وہ(رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم) خاندان بنی ہاشم ہے، جس کا خاندان اشراف عرب میں سب سے زیادہ عظمتوں کا حامل تھا،جس کا کوئی ہمسر نہیں اور سب کی امیدیں اُسے سے وابستہ تھیں۔‘‘


نخص بما کان من فضلہ

وکان سراجاًلنا منذرا


’’جن کی دادو دہش سے سب سرفراز ہوتے اور وہ تاریکیوں میں ایک روشن چراغ تھا۔‘‘


وکان بشیر النا منذرا

نور الناضوہ قداسنا


’’وہ بشارت دینے والااور آخرت کے عذاب سے ڈرانے والا تھااور وہ ایک ایسا نور تھا جس سے سارے عالم میں روشنی تھی۔‘‘


فانقذنا اللہ فی نورہ

ونحن برحمۃ من لظیٰ

’’خداوند عالم نے اسی کے وسیلے سے ہی ہمیں تاریکی سے روشنی کی ہدایت کی اور وہی نجات دہندہ ہے اور جہنم کی آگ سے بچانے والاہے۔‘‘


مذکورہ نعتیہ قصائدمیں نعتیہ اشعار کے ساتھ مرثیہ کے بھی اشعار ہیں، اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔لیکن کیا ان رثائی اشعار کی بنیاد پر دومختلف صنف سخن کا انضمام درست ہے اگر یہ درست ہے تو اس کے لئے کوئی منطقی استدلال ضرور ہونا چاہئے۔ان نعتیہ اشعار میں پائی جانے والی رثائی کیفیت کو نعت کے معنوی تلازمات سے الگ کر کے دیکھنا یہ نعت کےجملہ اوصاف کے منافی ہے۔لہذا ان اشعار کو بھی نعت کے ہی ضمن میں رکھا جانا چاہئے۔


لیکن ’’حیات عامر ‘‘ نے اپنی کتاب ’’نعت، مرثیہ اور عرفان‘‘(ایک علمیاتی بحث)میں نعت میں ایک مکمل موضوعاتی صنف سخن مرثیہ کا اختصاص نعت کے ساتھ کیا تو ضرور ہے لیکن آگے چل کر اسی کتاب میں مولف محترم اپنے اس موقف کو خود مسترد کرتے ہیں۔ یہ اقتباس ملاحظہ کریں۔


’’یوں نعت اور مرثیہ اہل بیت طاہرین ؑ کا چولی دامن کا ساتھ ہے حالاں کہ نعت اور مرثیہ دو الگ اصناف سخن ہیں لیکن اس کے باوجودبہت اعلیٰ نعت اور مراثی لکھے گئے ، ان میں ایک گہرا تعلق صاف دکھائی دیتا ہے ۔ کبھی نعت مرثیہ کی اور کبھی مرثیہ نعت کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔۔۔۔‘‘


مولف کا یہ تذبذبانہ رویہ اور نفسیاتی کشمکش کسی حتمی فیصلہ سے مانع ہے۔ اس لئے وہ کبھی نعت کو مرثیہ سے تعبیر کرتے ہیں اور کبھی مرثیہ کو نعت سے متعارف کراتے ہیں۔اور اس ادغام و انضمام و اتصال میں کسی منطقی انجام کار کی کوئی امکانی صورت نظر نہیں آتی۔لہذا یہ کہنا قطعی درست نہیں کہ نعت اور مرثیہ دونوں ایک ہی صنف سخن ہیں۔ یا دونوں کے درمیان ایک ہی جیسا اتصال پایا جاتا ہے۔ نعت اور مرثیہ لغوی اور اصطلاحی اور اپنے موضوعاتی سطح پر بھی اپنے الگ الگ زوایہ انفراد کی عکاسی کرتے ہیں۔مولف محترم کا یہ اقتباس بھی قابل غور ہے۔


’’ حسین ؑ اور آپ کے اہل بیت طاہرین ؑ نورمحمدی کا مظہر ہیں اور اس نورانی کاروان کے درخشاں ستارے جس نے ہرزمانے میں سیاہی و تاریکی کے پردوں کو تار تار کرکے توحید کے حقیقی پیغام کو انسانیت تک پہنچایا۔ آپ کی ذات گرامی اور آپ کے اہل بیت طاہرین ایک جسد واحد ہیں انھیں ایک دوسرے سے الگ کیا ہی نہیں جاسکتا ایسا کرکے نہ انھیں اور نہ ان کے عظیم مشن کو سمجھا جاسکتا ہے۔‘‘ <ref> ’’نعت ، مرثیہ اور عرفان (ایک علمیاتی بحث ؍ص؍18 ) مولف حیات عامر حسینی‘‘ </ref>


مولف کے اس اقتباس سے قطعی انحراف و انصراف نہیں کیا جاسکتا۔یہ بات سچ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور ان کی آولاد اطہار کو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات سے الگ کر کے نہیں دیکھا جاسکتا ۔لیکن جہاں تک صنف سخن کی بات ہے تو محض کسی ذاتی سبب عقیدت و محبت کی بنیاد پر کسی صنف سخن میں ترمیم و تنسیخ کہاں تک درست ہے یہ اہل علم فراست مجھ سے بہتر جانتے اور سمجھتے ہیں۔لیکن مولف نے اپنے موقف کی توثیق کے لئےبطور استدلال اکابرین شعرا کے بعض اشعار اپنے موقف کی مزید تو‌ثیق کے لئے پیش کئے ہیں ۔جوحضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات کے بعد کہے گئے ہیں۔ان اشعار کے متون میں رثائی آثار اور مبکی کیفیت کی آمیزش پائی جاتی ہے۔جس کی بنیاد پر مولف نے اسے مرثیہ قرار دیا ہے۔جب کہ میں اس سے قطی اتفاق نہیں رکھتا۔چونکہ نعت خالص محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات گرامی سے اتصاف رکھتی ہے ۔لہذا، اگر جن شعرا نے نعت کے اشعار کےساتھ کچھ مبکی اشعار کہیں ہیں تو موضوعاتی اعتبار سے اُسے نعت کا ایک ضمنی لاحقہ کی طور پر دکھا جانا چاہئے،بجائے اس کے کہ اُسے مرثیہ سے تعبیر کیا جائے۔


اسی موضوع کے ضمن میںابن العربی ابوبکر الدین (الشیخ لاکبر) یہ اپنے عہد کے بڑے فلسفی اور تصوف میں ایک انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کی بہت سی مشہور کتابیں ہیں جو آج مختلف مدارس میں پڑھائی جاتی ہیں ۔’’فصوص الحکم‘‘ شیخ اکبر کی یہ کتاب بہت ہی نادرو نایاب ہیں۔ انھوں نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان میں نعتیں بھی کہیں ہیں۔ جن میں رثائی کیفیات کی بھرپور آمیزش پائی جاتی ہے۔جن کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔


الابابی من کان ملکا وسیداً

وآدم بین المائ والطین واقف


’’میرےماں باپ آپ پر فدا ہوں کہ وہ کون تھا کہ جب ’’آدم آب وگِل‘‘ کے درمیان تھے تب بھی وہ سید و سردار تھا۔‘‘


فذاک رسول الابطحی محمد

لہٗ فی العلا مجد تلید وطارف


’’وہ محمد رسالتمآب جن کو اللہ تعالی نے ہر رفعت وشرف سے مشرف فرمایا چاہے وہ جدید ہو قدیم‘‘


اتی بزمان السعد فی آخر المدیٰ

وکانت لہ ٗ فی کل عصر مواقف


’’وہ اپنی تمام سعادتوں کے ساتھ آخری زمانے میں تشریف لائے لیکن وہ زمانے میں سب بلند مرتبت اور مقام فضیلت کے حامل ہیں۔‘‘


اتی الانکار الدہر یحبرصدعہ

فاثنت علیہ السن وعوارف

’’ان کی آمد نے ٹوٹے ہوئے زمانے کی خلیج کو پُر کردیا اس کی ذات پر زبانیں اور عطیات خداوندی ثنا خواں رہیں۔‘‘


اذا رام امراً الایکون خلافہ

ولیس لذاک الامر فی الکون صارف


’’ وہ جس بات کے لئے ارداہ کرلیتے تو وہ اس پر ثابت قدم رہتے یہاں تک کی کائنات کی کوئی چیز ان کے بات سے انھیں منحرف نہیں کرسکتا۔ ‘‘


اس بحث کو مزید استدلالی استناد کے لئے کچھ محققین اور دانشوروں کے ان نظریات کو پیش کرنا ضرور سمجھتا ہوں جنھوں نے نعت جیسے عظیم صنف سخن کے سلسلےمیں اپنے نظریات کا اظہار کیا ہے۔


اسی ضمن میں پرفیسر ڈاکٹر فرمان فتحپوری کی یہ تعریف ’’نعت‘‘ کے قطعی معنی کے تعین میں ایک اہمیت رکھتی ہے ۔


’’ ادبیات اور اصطلاحات شاعری میں ’’نعت ‘‘ کا لفظ اپنے مخصوص معنی رکھتا ہے ،یعنی اس سے صرف آنحضرت کی مدح مراد لی جاتی ہے۔ اگر آنحضرت کے سوا کسی دوسرے بزرگ یا صحابی و امام کی تعریف بیان کی جائے تو اُسے منقبت کہیں گے۔‘‘ <ref> (’’اردو کی نعتیہ شاعری ‘‘ صفحہ ۲۱،ڈاکٹرفرمان فتحپوری آئینہ ادب چوک مینار انار کلی ،لاہور ،۱۹۷۴) </ref>

برصغیر کے معروف محقق ڈاکٹر عاصی کرنالی ’’نعت ‘‘ کے لغوی و اصطلاحی معنی کے ضمن میں یہ بات بڑے وثوق سے تحریر کرتے ہیں کہ:

’’لغوی معنی و مفاہیم کے باوجود اصطلاحی طور پر نعت کا لفظ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی اور صفات حمیدہ و طیبہ ہی کے بیان کے لئے مخصوص ہے جبکہ دوسری ہستیوں کے لئے وصف مدح ، مدحت ، منقبت ، تعریف ، توصیف کے الفاظ کا استعمال انھیں ممتاز ومختلف کرتا ہے ۔‘‘ <ref> ’’اردو حمد و نعت پر فارسی شعری روایت کا اثر‘‘ صفحہ ۶۲؍۶۳) </ref>


’’نعت ‘‘کے اسی اختصاصی معنی کے جواز میں مبین مرزا کی یہ تشریح بہت اہمیت کی حامل ہے ، جس سے گریز نہیں کیا جاسکتا ۔


’’اب سوال یہ ہے کہ کیا لفظ ’’نعت‘‘ کا اطلاق رسول اللہ کی مدح کے سوا کسی اور شخص کی مدح پر ہو سکتا ہے ؟’’نعت‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے ۔جس کے معنی تعریف ، تو صیف ،اور مدح کے ہیں ،تاہم اب یہ لفظ ہمارے یہاں اپنے لغوی معنوں میں نہیں بلکہ اصطلاحی معنوں میں رائج ہے۔اس لفظ کا اصطلاحی مفہوم ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی منظوم توصیف ، اہل علم اور اہل زبان کا قاعدہ یہ ہے کہ جب کوئی لفظ اصطلاحی معنی اختیا ر کرلے تو اس کے استعمال میں احتیاط برتتے ہیں ،ہم نے کبھی کہیں یہ نہیں پڑھا اور نہ ہی کسی کو کسی سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ فلاں شخص فلاں صاحب کی بہت ’’نعت کر رہا تھا‘‘ یعنی(تعریف کر رہا تھا)اس لئے نہیں سنا کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد سے لے کر کم علم بلکہ مطلق لاعلم شخص تک سب کے سب یہ بات قطعی واضح طور پر جانتے ہیں کہ لفظ’’ نعت‘‘ محض محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی گرامی کے توصیفی تذکرے کا مفہوم رکھتا ہے اور اسے کسی اور کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہئے۔‘‘ <ref> (مبین مرزا’’لفظ نعت کا استعمال ایک توجہ طلب مسئلہ ‘‘ نعت رنگ ‘‘ شمارہ ۱۱کراچی پاکستان) </ref>


یہ مذکورہ اقتباس اس لئے اہم ہیں کہ موجودہ عہد میں ’’نعت‘‘ کو اس کے معنوی زوایہ انفراد اور اس کے اختصاصی موضوع سے الگ ہٹ کر عمومی سطح پر ایک جدید تصرف کی شعوری کوشش کی جارہی ہے۔جو قطعی درست نہیں اس لئے کہ ’’نعت‘‘ اپنے تمام تر لغوی و اصطلاحی معنی میں ایک ایسا جامع لفظ ہے ۔جو اپنے اندر کسی بھی طرح کی تصریف و تصحیف کی جسارت کو برداشت نہیںکرتا ۔لہذا اس میں کسی طرح کے ادبی اجتہادات کی گنجائش نہیں ۔


مبین مرزا کے مضمون’’لفظ نعت کا استعمال ایک توجہ طلب مسئلہ‘‘ کا اقتباس جسے حوالہ کے طور پراوپر پیش کیا گیا ہے۔ اصل میں یہ مضمون ’’نعت‘‘ کے حوالے سے کئے جانے والے اسی اجتہاد کے استراد میں لکھا گیا ہے۔جس کی کوشش صلاح الدین پرویز نے اپنے ادبی رسالے’’ استعارہ‘‘ میں کی ہے ،اس رسالے کے پشت ورق پر ’’شری کرشن جی‘‘ کے نام سے لکھی گئی ہندی میں ایک نظم کے اس عنوان سے ہے جسے ’’نعت ‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا ہے ۔جس کا تذکرہ پروفیسر جیلانی کامران نے ماہنامہ ’’علامت‘‘ جولائی سن ۲۰۰۰ کے شمارہ کے’’ ادبی زوایہ ‘‘میں بھی کیا ہے۔


اردو ادب کے بعض ناقدین و مفکرین نے ادب کے دو اہم صنف نظم اور نثر میں کی جانے والی جناب رسول خدا کی مدح و ثنا کو مجموعی طور پر نعت کہا ہے ۔


ڈاکٹر فرمان فتحپوری کا یہ اقتبا س بھی ملاحظہ کریں۔

’’اُصولاً آنحضرت ؐ کی مدح کے متعلق نثر اور نظم کے ہر ٹکڑے کو نعت کہا جائے گا، لیکن اردو اور فارسی میں جب نعت کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس سے عام طور پر آنحضرتؐ کی منظوم مدح مراد لی جاتی ہے۔‘‘ </ref> (اردو کی نعتیہ شاعری ، ص ۲۱) </ref>


ڈاکٹر فرمان فتحپوری مزید تحریر فرماتے ہیں کہ:


’’۔۔۔آنحضرت ؐ کی مدح کے متعلق نثر ونظم کے ہر ٹکڑے کونعت کہا جائیگا۔۔۔‘‘ <ref> (نعت کالغوی مفہوم) </ref>


راجہ محمودرشید کا بھی یہی نظریہ ہے ۔اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔


’’وہ بیان یا تحریر جو نظم یا نثر میں آقائے کائنات علیہ السلام و الصلواۃ کی مدح میں تخلیق ہو نعت ہے۔‘‘ <ref> (پاکستان میں نعت: راجا محمود رشید ،ایجوکیشنل ٹریڈرز ،اردوبازار لاہور۱۹۹۴ ) </ref>


میرے ذاتی نظریہ کے مطابق یہ درست نہیں ہے ۔چونکہ یہ نظریہ اپنی دلیل میں کوئی منطقی جواز نہیں رکھتا ۔اس لئے کہ علمائے ادب نے حضور سے متعلق منثور موضوعات کو نعت کے زمرے میں نہیں رکھا ہے۔ محض ’’نعت ‘‘کےانھیں موضوعات کو نعت کا جز قرار دیا گیا ہے ،جو نظم کی صورت میںبیان کئے جاتے ہیں ۔اس ضمن میں معروف دانشور علی جواد زیدی نے بھی اس کی تردید فرمائی ہے ۔ یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔


’’نعت کا اطلاق صرف شاعری پر کیا گیا ہے اور نثر میں سیرت و اکتسابات نبوی کے بارے میں جو لکھا گیا ہے اور نبی اکرم ؐ کے جو اوصاف و محامد بیان ہوئے ہیں وہ سیرت و تاریخ کہلائے نعت نہیں۔‘ <ref> (نعت خیر المرسلین نمبر اگست ۱۹۹۴ ص۶) </ref>

ڈاکٹر طلحہ رضوی برقؔ نے بھی اس نظریہ کی تردید کی ہے ۔ یہ اقتباس ملاحظہ کریں۔


’’ نعت اس کلام منظوم کو کہتے ہیں ،جو حضور انور محمد رسول اللہ کی شان اقدس میں زیب قرطاس ہو۔‘‘ <ref> (اردو کی نعتیہ شاعری ،ص ۶ دانش اکیڈمی آرا بہار۱۹۷۴ ) </ref>

نعت کے اسی اصطلاحی مفہوم کے ضمن میں ممتاز حسین کا یہ اقتباس لفظ ’’نعت‘‘ کی عمومی تفہیم میں مزید اہمیت کا حامل ہے اقتباس ملاحظہ کریں۔


’’ میرے نزدیک ہر وہ شعر نعت ہے جس کا تاثر ہمیں حضور ؐ کی ذات گرامی سے قریب لائے جس میں حضور کی مدح ہو یا حضور سے خطاب کیا جائے ، صحیح معنوں میں وہ نعت ہے ۔‘‘ <ref> (ممتاز حسین ’’خیر البشر کے حضور میں‘‘ ص ۱۵) </ref>


لفظ ’’نعت ‘‘ سے متعلق علی جواد زیدی کایہ ادبی و تاریخی تجزیہ بھی ’’نعت‘‘ کی لفظی و معنوی توضیح و تشریح میں بہت اہمیت رکھتا ہے اقتباس ملاحظہ کریں۔


’’ نعت کی اصطلاح لغت عربی سے ماخوذ ضرور ہے ،لیکن وہاں کافی دنوں کے بعد یہ ایک صنف کی حیثیت سے اُبھری۔شروع میں یہ حماسی قصائد کی ایک شاخ ہی تھی۔ ابتداًفضائل ، مناقب ، مدح اور نعت کا استعمال کسی تفریق کے بغیر ہوتا رہا ، احادیث کے مجموعوں بلکہ ’صحاح‘ تک میں فضائل رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ’’کتاب الفضائل‘‘ (صحیح مسلم ، اور قریش کے فضائل ’’کتاب المناقب القریش‘‘ (صحیح بخاری کے تحت درج ملتے ہیں ۔ عربی میں کافی دنوں تک ’’نعت ‘‘ کا استعمال کئی طریقوں سے جاری رہا ۔لیکن آہستہ آہستہ ــ’’منقبت ‘‘ کا اطلاق مدح اہلبیت ؑ اور مدح صحابۂ کبار بلکہ مدح اولیا تک کے لئے ہونے لگا اور نعت مدح رسول ؐ سے مختص ہوگئی ۔ اس اختصاص کی وجہ سے اس دائرے کی حد بندی علمائے نقد و ادب کے ہاتھوں سے نکل کر فقیہوں بلکہ عام واعظوں اور مبلغوں کے ہاتھوں میں پہنچ گئی۔‘‘ <ref> (نعت خیر المرسلین نمبر اگست ۱۹۹۴ ء) </ref>


یہ اقتباس لفظ ’’نعت‘‘ کے معنوی اختصاص پر بھر پور روشنی ڈالتا ہے ۔لیکن اسلامی ادبیات میں’’ نعت‘‘ کا سب سے پہلا تصرف حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کیا ہے۔جس کا تذکرہ (جامع ترمذی ص ۵۶۷)میں کیا گیا ہے۔


’’شمائل ترمذی‘‘ میں بھی یہ روایت کچھ اس انداز سے نقل ہوئی ہے ،کہ حضرت علی علیہ السلام نے مدح نبوی میں سب سے پہلے ’’نعت ‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے ۔آپ نے ارشاد فرمایا۔


’’مَن رَاہ بدیھۃ حصابہ و من خالطہ معرفہ ، احبہ یقول ناعتہ لم ارا قبلہ ولابعدہ مثالہ۔‘‘


’’جس شخص کی نظر آپ (رسول خدا صل اللہ علیہ وسلم ) پر یکبارگی پڑتی وہ ہیبت کھا تا ہے، جو آپ (رسول خدا صل اللہ علیہ وسلم )سے زیادہ ملاقات کرتا رہتا وہ آپ (رسول خدا صل اللہ علیہ وسلم )سے محبت کرنے لگتا، اور ’’ناعت‘‘یعنی (نعت کہنے والا) یہ کہہ اٹھتا ہے کہ اس نے آپ (رسول خدا صل اللہ علیہ وسلم )کے مثل نہ اس سے پہلے کسی کو دیکھا اور نہ بعد میں۔‘‘ <ref> (جامع ترمذی ص ۵۶۷) </ref>


اس قول کے مطابق حضرت علی علیہ السلام نے آپ صلی اللہ و علیہ والہ وسلم کے اوصاف و کمالات کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے لئے ’’واصف‘‘ کے بجائے ’’ناعت‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ ’’ناعت ‘‘ عربی کا لفظ ہے اور یہ فاعل کا صیغہ ہے ۔جس کے معنی ہیں ’’نعت کہنے والا حضرت علیؑ کا‘‘ لفظ’’ واصف‘‘ کے مقابل لفظ ’’ناعت‘‘کا توضیحی استراد ،اصل میں یہ ایک ادبی و منطقی پیش رفت تھی، عربی اصناف سخن میں نعت جیسی صنف سخن کی ظہوپذیریت کی طرف۔ ورنہ عربی میں اس کے مرادف ’’مدح‘‘ کا لفظ عمومی طور سے مستعمل ہے۔ جس کا اطلاق نثر او ر نظم دونوں پر ہوتا ہے۔ انبیاء کرام، اولیا اللہ،خاصان خدا اور عام انسان کی تعریف و توصیف بھی اس ضمن میں آتی ہے۔لیکن ’’نعت‘‘ مدح و ستائش کی انفرادی شکل ہے۔اور اس کےلغوی اور اصطلاحی تصرفات کا لسانی و ادبی جواز محض نبی مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔اس سے ہٹ کر نعت کی کوئی ادبی و لسانی حیثیت نہیں ہے۔


نعت کے بنیادی ماخذ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

دنیا کی ہر تخلیق کا ایک نقطہ مستقر ہوتا ہے۔جہاں سے وہ اپنے ارتقائی سفر کے ساتھ رفتہ رفتہ اپنے تمام تشکیلی مراحل سے گزر کر ایک نئی شکل و صورت کے ساتھ نمو پذیر ہوتی ہے۔کم و بیش یہی صورت زبان وادب کی بھی ہے۔ہر اصناف سخن کا ایک خاص موضوع ہوتا ہے ۔چاہے وہ غزل ہو مثنوی واسوخت،،رباعی، قصیدہ، مرثیہ ،نوحہ یا نعت ہو،ان کے اپنے اپنے مخصوص موضوعات ہیں،اور ان تمام اصناف سخن میں وقت اور حالات کے ساتھ اسلوبیاتی و موضوعاتی سطح پر ضمنی طور پر توسیع و تغیر ہوتا رہتاہے ۔لیکن اس کے بنیاد ی ماخذ میں ترمیم و تنسیخ نہیں واقع ہوتی ۔اگر ان اصناف سخن کے بنیادی ماخذ میں ترمیم وتنسیخ کا عمل شروع ہوجائے ،تو اس اصناف سخن کی اصلی حالت بدل جائے گی مثلا اگر غزل کے بنیادی ماخذمیں تنسیخ واقع ہوجائے ،تو ہوسکتا ہے ۔غزل محض غزل نہ ہوکر کوئی اوردوسری صنف سخن کی شکل اختیار کر لے اور قصیدہ قصیدہ نہ ہوکر مرثیہ ہوجائے ۔ لہذا یہ ممکن نہیں ہے۔

اسی طرح سے نعت کا بنیادی ماخذ قرآنی آیات و احادیث اور روایات ہیں ۔جہاں سے نعت اپنے موضوعات کا اکتساب کرتی ہے، اور ان موضوعات کا تعلق براہ راست حضور گرامی قدر کی ذات بابرکت سے انسلاک رکھتا ہے ۔لہذا ایک شاعر کے لئے حضور کی ذات والا صفات سے عشق اوراس کا عرفان ہونا ضروری ہے۔ ورنہ عشق کے بغیر یہ نعت گوئی اُس موذن کے اذان کی طرح ہے ۔جس کا دل اسرار اُلوہیت کے سرمدی ساز اور روح بلالی کے ابدی سوزسے محروم ہو۔


’’نعت ‘‘ ایک مشکل صنف سخن ضرور ہے لیکن ایک شاعر کے لئے نعت کہنا اس سے مشکل ترین امرہے۔


نعت سے متعلق پروفیسر سید رفیع الدین اشفاق کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔


’’ ۔۔۔۔حقیقت یہ ہے کہ یہ موضوع(نعت) ایسا نہیں جس پر ہر کس و ناکس تخیل اندازی اور خامہ فرسائی کر سکے ۔ اس راستے میں شاعر کو جگہ جگہ رکاوٹیں پیش آتی ہیں ۔ایک تو موضوع اک احترام شاعر کو مجبور کرتا ہے کہ وہ نپے تلے الفاظ ، حسن خطاب اور حسن بیان کے ساتھ عقیدے کی تفصیلات اور باریکیوں کو صحت کے ساتھ لے کر چلے اور قدم قدم پر اس کا لحاظ کرے کہ تخیل کی پرواز کہیں ان مقامات تک نہ پہنچا دے جن سے صادق البیانی پر حرف آئے اور نتیجۃً نعت ، نعت نہ رہے ۔۔۔۔‘‘ <ref> (اردومیں نعتیہ شاعری ص ۵۴مطبوعہ اردو اکیڈمی سندھ کراچی) </ref>


چونکہ نعت گوئی وارفتگی عشق کا نام ہے اور عشق تجلیات پروردگار کا ایک ایسا مظہر ہے جو حقیقت محمدؐ کی شکل میں مجسم ہوتا ہے،اور حقیقت محمد ؐ ہی اس کائنات کا تخلیقی جواز ہے ۔جس کے بغیر وجود و عدم کا تصور لایعنی ہے۔ اس کی تائید و توثیق میں قرآن مجید میں کثرت سے آیات وارد ہوئی ہیں۔قرآن مجید میں خالق موجودات نے اپنے برگزیدہ بندے محمد ؐ کی زندگی کے تمام پہلوؤں پر مختلف انداز سے گفتگو فرمائی ہے ۔محمد ٔ کی زندگی کا کوئی ایسا گوشہ نہیں ہے، جسے پروردگار عالم نے تشنہ مفہوم رکھا ہو۔جناب رسول خدا کی تمام انبیائے ماسلف پر فوقیت و برتری،تمام موجودات عالم پر آپ کا تصرف و قدرت ،آپ کا اسوہ حسنہ ،اللہ جل شانہ سے آپ کا تقرب ،محبوبیت ، عبدیت اور رسالت جیسے منصب جلیل پر فائز ہونااوراللہ تعالی کاتمام موجودات عالم پر اپنے حبیب کی محبت کو فرض قرار دینا وغیرہ۔

اللہ جل شانہٗ نے جس طرح قرآن مجید میں اپنے مقرب ترین محبوب کی مدح سرائی فرمائی ہے، ایسی مدح وستائش انسانی قوت فکر اور اس کی ذہنی وسعت سے کہیں بالاتر ہے۔آپ اللہ جل شانہٗ کی نعت گوئی کا انداز ملاحظہ کریں۔جب پرور دگا عالم نے اپنے حبیب کے بچپن کی زندگی دیکھی تو "سورة الضحى" میں ارشاد فرمایا۔

أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَىٰ ﴿٦﴾

’’(اے میرے حبیب)جب میں نے تمہیں یتیم دیکھا تو کیا میں نے تمہیں(رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم)پناہ نہیں دی۔‘‘


اور جب اپنے محبوب کی تنگدستی دیکھی،تو اس قادر مطلق نے ارشاد فرمایا کہ۔


وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَىٰ ﴿٨﴾


’’(اے میرے محبوب )جب میں نے تمہیں نادار پایا تو کیا میں نے تمہیں مالدار نہیں بنایا۔‘‘


(اس آیت کی تفسیر ضرور پڑھیں کہ اللہ تعالی نے کس وسلیے سے اپنے حبیب کی مالی طور سے امداد فرمائی)اسی سورہ میں اللہ تعالی آگے براہ راست اپنے حبیب رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو مخاطب کرکے ارشاد فرما رہا ہے کہ۔


وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَىٰ ﴿٥﴾

’’اور عنقریب تمہارا رب تم کو اتنا دے گا کہ تم خوش ہو جاؤ گے ۔‘‘


اس آیت میں کتنی نرالی شان سے اللہ اپنے محبوب بندے کی نازبرداری کررہا ہے ۔کہ میں تمہیں اتنا عطا کرونگا کہ تم مجھ سے راضی ہوجاوگے۔اب اس سے بڑا اعزاز ایک بندے کے لئے کیا ہوگا کہ اُس کا رب خود اس کے رضا کا اتنا خیال رکھتا ہو،اور یہاں تک کہہ دے کہ میں تمہیں اتنا عزو شرف بزرگی و بلندی کرامت و عظمت سے نوازونگا، اس سےبڑھ کر نعت اور کیا ہوسکتی ہے۔اوریہاں تک جس شہرمیں اپنے حبیب کو رہائش پذیر دیکھا اس شہر کے لئے ارشادفرمایا۔


لَا أُقْسِمُ بِهَـٰذَا الْبَلَدِ ﴿١﴾ وَأَنتَ حِلٌّ بِهَـٰذَا الْبَلَدِ ﴿٢﴾


’’میں (اللہ )قسم کھاتا ہوں اس شہر کی جس شہر میں تُو(رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم )رہتا ہے۔‘‘


اور جب اُس (اللہ تعالی)نے اپنے محبوب کو سفر میں دیکھا تو ارشاد فرمایا۔


وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَىٰ ﴿٧﴾

جب اپنے حبیب کے حسن عمل کو دیکھا تو ارشاد فرمایا ۔


لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ

’’بیشک تمہارا حسن عمل لوگوں کے لئے نمونہ عمل ہے۔‘‘


جب اللہ تعالی نے اپنے حبیب کے اخلاق کریمانہ کو دیکھا تھا فرمایا۔


وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ ﴿٤﴾


’’بیشک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر فائز ہو۔‘‘


جب خداے کریم نے آپ(رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے چہرہ مبارک کو دیکھا تو اُس نے ارشاد فرمایا۔


وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا ﴿١﴾

’’سورج اوراس کی دھوپ کی قسم‘‘


کیا خوبصورت تمثیل پیش کی ہے سورج اور دھوپ کے استعمال سے خداوند کریم نے یعنی آپ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کے چہرے کا نور ایسا روشن اور تابناک ہے جس پر کسی کی نگاہ نہیں ٹھہر سکتی ۔

اور جب اللہ تعالی نے اپنے حبیب کی زلفوں کو دیکھا تو ارشاد فرمایا۔


وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَاهَا ﴿٤﴾

’’اور رات کی قسم جب وہ سورج کو ڈھانپ لیتی ہے۔‘‘


حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ظاہری حسن کی اس سے بہتر مثال اور کیا ہوسکتی ہے۔ خدا نے ان کے چہرے کی تشبیہہ سورج سے دی اور ان کی زلفوں کی تعریف اس سیاہ رات سے کی جو سورج کو بھی اپنے دامن میں پوشیدہ کر لیتی ہے ۔


جب خدا نے اپنی محبوب کی زبان کو دیکھا تو اس سے صادر ہونے والے کلمات کی تائید و توثیق اس آیت کے ذریعہ فرما دی۔


وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ﴿٤﴾

’وہ اپنی مرضی سے کلام نہیں کرتا جب تک کہ اُس پر وحی نازل نہیں ہوتی۔‘‘


جب خدا نے اپنے بندے اور محبوب کے قلب مطہر کو دیکھا تو اُس نے ان کے قلب مطہر کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔


أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ ﴿١﴾

’’اے مرے (نبیؐ) کیا میں نے تمہارا شرح صدر نہیں فرمایا۔‘‘

جب اُس (اللہ تعالی) نے اپنے حبیب کی پشت نبوت پسند کو دیکھا توقرآن شریف میں ارشاد فرمایا کہ ۔

وَوَضَعْنَا عَنكَ وِزْرَكَ ﴿٢﴾

’’اور میں نے تمہاری پشت کوسبک بار کردیا۔‘‘


’’جب خدائے عظیم نے اپنے محبوب نبی کے دست حقیقت پسند کو دیکھا تو اُس نے ان کے ہاتھ کی تعریف کرتے ہوئےارشاد فرمایا۔


وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ رَمَىٰ ۚ

’’اے میرے محبوب تم نے جو تیر پھینکا ہے تم نے نہیں بلکہ اُسے میں نے پھینکا۔‘‘


جب خدا نے اپنے محبوب کی عبا اور قباکو دیکھا تو اس کی تعریف میں ارشاد فرمایا۔


يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ ﴿١﴾ يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ ﴿١﴾

’’اے میرے کملی پہننے والےاور عبا اوڑھنے والے‘‘


جب اللہ تعالی نے اپنے حبیب کے گھر کو دیکھا تو ارشاد فرمایا۔


فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّـهُ أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ

’’(اُس کے نور کی طرف ہدایت پانے والے) اُن گھروں میں پائے جاتے ہیں جنہیں بلند کرنے کا، اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ نے اذن دیا ہے ۔‘‘ اللہ تعالی جلہ شانہ نے جب اپنے حبیب کے اہل بیت کو دیکھا تو فرمایا کہ۔


إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ﴿٣٣﴾

’’بیشک اللہ تعالی نے اہل بیت رسول (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) سے تمام رجس و کثافت سے دور رکھا ہے جیسا کہ دور رکھنے کا حق ہے۔‘‘


جب اُ س نے اپنے حبیب کی رحمت و رافت و محبت کو اپنے بندوں کے ساتھ اخلاق کریمانہ کو دیکھا تو اُس(اللہ تعالی)نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے عمل کو پوری کائنات انسانیت کے لئے اتباع کا حکم دیتے ہوے ارشاد فرمایا۔

مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ

’’ جس نے رسول کی اطاعت (حکم مانا)کی بیشک اُس نے اللہ کی اطاعت کی۔‘‘


اس آیت کا کلیدی مفہوم اللہ کی تمام عبادت اور حکم کا مرجع اطاعت رسول خدا کی ذات بابرکت ہے ۔گویا اُس کے رسول کے حکم عدولی اللہ کے حکم کی نافرمانی کے مترادف ہے۔جب اللہ تعالی نے اپنے حبیب کی پوری زندگی کے ہر پہلو کو روشن اور پوری انسانیت کے لئے ایک مثالی زندگی دیکھی تو اُ س نے سارے عالم کو خطاب کرتے ہوئے قرآن شریف میں بڑے واضح اور وشگاف لہجہ میں ارشاد فرمادیا کہ ۔


’’قُل ان کنتم تُحبّون َ اللہ فَاتّبعونی یُحببکم اللہ ۔‘‘

’’ اے رسول کہدیجئے کہ اے لوگو ! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میرااتباع کرو اور اگر تم ایسے کروگے تو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا۔‘‘


اس آیت میں اللہ تعالی نے اپنے رسول کی برگزیدگی اور محبوبیت کا اتنا پاس رکھا ہے کہ اس نے اپنے محبت کی بنیاد جناب رسول خدا کی محبت پر رکھی اس شرط کے ساتھ اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ تم سے محبت کرے تو تم میرے رسول سے محبت کرو ،یعنی اگر کوئی شخص محض اللہ کی محبت کا دعویٰ دار ہو اور وہ جناب رسول خدا سے محبت نہ کرتا ہو تو وہ اللہ کا محبوب بندہ نہیں ہوسکتا ۔ اللہ جل شانہ نے جب اپنے حبیب میں اپنی رحمت و لطف وکرم کے حسن مجسم کو دیکھا تو اُس نے براہ راست ارشاد فرمایا کہ۔


’’وَمَا اَرسلنا ک اِلّا رحمۃًللّعالمین۔‘‘ (سورہ انبیا :۸۷)

(اور ہم نے تمام عالمین کے لئے سراپا رحمت بناکر بھیجا ہے۔)

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا ﴿٤٥﴾

"اے میرے نبی ؐمیں نے تمہیں گواہ ، خوشخبری دینے والااور لوگوں کو (اللہ تعالی) کے عذاب سے ڈرانے والابنا کر بھیجا ہے۔‘‘


جب خدائے عظیم نے اپنے محبوب ترین بندے سے ملاقات کا ارداہ ہوا تو اُس(اللہ تعالی)نے خود اسے فرش زمین سے عرشی معلی پر بلایا اور اپنے محبوب سے باتیں کیں ، جس کا تذکرہ بڑے فخر سے اللہ تعالی نے خود فرمایا۔


سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الـْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ﴿١﴾

’’بابرکت اورپاکیزہ ہے وہ ذات جو اپنے بندے (محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد قصیٰ کی سیرکرائی تاکہ وہ اپنے (محبوب) کو اپنی نشانیاں دکھائے،اس لئے کہ اللہ تعالی سمیع اور بصیر ہے، یعنی دیکھنے اور سننے والاہے۔‘‘


جب اللہ تعالی نے اپنے نبی رحمت کی زندگی کے معمولات، ان کےحسن کرم ا ور اخلاق کا مشاہدہ کیا اوران کی بزم میں کچھ بیٹھنے والوں کو دیکھا کہ وہ نبی سے طرح طرح کے سوالات کرتے ہیں اور ان لوگوں کا انداز تخاطب نبی کریم کے شایان نہیں ہے تو اس کریم خدا نے یہ آیت نازل فرما دی کہ


يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ ﴿٢﴾

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی آواز نبیؐ کی آواز سے بلند نہ کرو، اور نہ نبیؐ کے ساتھ اونچی آواز سے بات کیا کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب غارت ہو جائے اور تمہیں خبر بھی نہیں۔‘‘


وہ شخصیت کتنی عظمتوں ،برکتوں ،اعلی مدارج کی حامل ہوگی جس کا ذاکر خود اللہ تعالی ہو


جو خالق کون ومکاں اور عالمین کا پیدا کرنے والاہے ۔وہ اپنے محبوب کا تذکرہ کتنی جلالت وتمکنت و بے نیازی کے ساتھ کررہا ہے،اگر ساری دنیا مل کر اب اس کی محبوب کا ذاکر ہوجائے تو اللہ کا اپنے محبوب کی شان میں کی جانے والی ایک آیت کا بھی حق نہیں ادا کرسکتا ۔شاید یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے مومن بندوں کو اپنے محبوب کے ذاکروں میں شامل کرنے کے لئے ارشاد فرمادیا کہ۔


إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴿٥٦﴾


’’اللہ اور اس کے ملائکہ نبیؐ پر درود بھیجتے ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو ۔‘‘


مزید آیات اور احادیث و روایات کا ذکر انشااللہ مزید تفصیل کیا جائے گا۔


جناب رسول خدا کی عظمت و جلالت اور ان کے اخلاق و کردار کی بھر پور عکاسی ہوتی ہے ۔ قرآن نے صبح قیامت تک آنے والی نسل آدمیت کو احترام محمد مصطفی ؐ کے الہیٰ آئین کا درس دیا ہے ۔یہاں تک ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب سے گفتگو کرنے کا سلیقہ اور ان کی بزم میں نشست وبرخواست کے ادب بھی بتا دیئے ہیں۔ اسلامی نصائص کی بنیاد پر نعت نگاری کے مبادیاتی اصول انھیں ضوابط پر استوارکئے گئے ہیں۔ لہذا اس محترم صنف سے ارادتمندانہ نسبت رکھنے والے اور نعت گو شعرا کے لئے نعت گوئی کے اداب کا رمزشناس ہونا جتنا اہم ہے اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے، کہ وہ اس کی تاریخ سے بھی واقفیت رکھتا ہو۔


بعض علمائے ادب نے ایک مخصوص رجحان اور نظریہ کے تحت نعت کی اجتہادانہ تقسیم بندی کی ہے ۔جس کی اقتدا کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر سید رفیع الدین اشفاق نے نعت گوئی کی قسمیں بیان کی ہے۔ان کے مطابق نعت کی تین قسمیں ہیں۔

”(۱) ایک وہ نعت جو عقیدۃً یا تبرکا اور رسماً برائے نام لکھی گئی ۔

(۲) دوسری مقصدی نعت جو شعرانے مستقلاً لکھیں۔

(۳) تیسری قسم کو اصلاحی نعت قرار دیں گے جو در اصل مقصدی نعت ہی کی ایک قسم ہے۔‘‘ <ref> (اردو میں نعتیہ شاعری ص ۶۰) </ref>


صاحب تصنیف نے ان اقسام کی تشریح اپنے مبلغ علم کی بنیاد پر کی ہے۔میرے نزدیک نعت کی یہ اجتماعی تقسیم غیر منطقی ہے ۔اس لئے کہ یہ تقسیم نعت کے مکمل موضوعات پر بسیط نہیں ہے ۔بلکہ یہ جزوی موضوعات کی مشروط کیفیت کی عکاسی کرتی ہے ،جو نعت کے فطری اظہار بیان کے منافی ہے۔ویسے بھی اگر دیکھا جائے تو عقیدہ و مقصد چاہے وہ اصلاحی صورت میں ہو یا رسمی طور پر ہر نعت گو شاعر اپنے اظہار بیان میںشعوری یا غیر شعوری طور پر اس کا پاس و لحاظ حتماً کرتا ہے۔ لہذا یہ تقسیم مقتضایات نعت کے مکتفی نہیں ہے۔ لیکن عرب کے کچھ ناقدین مثلاً ابن عربی وغیرہ نے صنف نعت کی قسمیں ضرور بیان کی ہیں ۔ جس سے کچھ مفکرین اتفاق بھی رکھتے ہیں ۔


نعت کی دوقسمیں ہیں۔

(۱) ’’نعت مطلق‘‘

(۲) ’’نعت سُو‘‘

’’نعت مطلق‘‘ اس نعت کو کہتے ہیں جس میں شاعر نعت کے اختصاصی موضوعات کا اظہار اس کے متعین حدود میں رہ کے اس کے تمام فنی و ادبی محاسن کے ساتھ کرے۔جس میں ممدوح کی ہتک حرمت کا شائبہ نہ پائے جائے۔اسے نعت مطلق سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

’’نعت سُو‘‘ اس نعت کو کہتے ہیں جس میں نعت کے اختصاصی موضوعات کے اظہار بیان میں ممدوح کے احترام کو ملحوظ خاطر نہ رکھا جائے ، اسے ’’نعت سُو‘‘ کہتے ہیں۔


اسی طرح سے علمائے عجم نے بھی نعت کی ادبی و مذہبی افادیت کی بنیادپر نعت کے اساسی موضوعات کی تقسیم دو طرح سے کی ہے۔


(۱) اس تقسیم کے پہلے زمرے میںحضور گرامی قدر کی دنیا میں آمد سے پہلے کے واقعات کا تذکرہ جس کا ذکر کتب سماوی میں کیا گیا ہے ، آپ کے آمد کی وہ بشارتیں اور آتیں جس کے بارے میں انبیائِ ما سلف نے اپنی اپنی امتوں کو دی تھیں،آپ کے نور کا صلب عبداللہ میں منتقل ہونے والے آثار و بیانات کا ذکرآپ کی نسبی افضلیت آپ کے آ باو اجداد کی علمی و روحانی فیض رسانی کے واقعات ،آپ کا سبب خلقت کائنا ت ہونا ، آپ کے خلق عظیم و رحمت و رافت کا ذکر آپ کے مبعوث بر رسالت ،خاتم النبین اور رحمۃ اللعالمین کا ذکر وغیرہ کو پہلے زمرے میں رکھا گیا ہے۔

(۲) اس کے دوسرے حصے میں آپ کے ظہور کے وقت اس دنیا مین رونما ہونے والے معجزات اور،آپ کے بچپن سے متعلق ظہور کرنے والےحیرت انگیز واقعات کا بیان ،مکہ میں دین اسلام کی تبلیغ اس کی راہ میں پیش آنے والی زحمتیں ،اور آپ پر کفا ر مشرکین کی ایذا رسانیوں کا سلسلہ ،اعلائے کلمۃ الحق کی جزا کے طور پر آپ کا سماجی بایئکاٹ ،معجزؤ شق القمر ، رجعت الشمس ،سنگریزوں کا آپ کے ہاتھوں پر کلمہ پڑھنا ، حیوان و نباتات و جمادات کا آپ کے حضور سجدہ تعظیمی کرنا واقعہ معراج کا بیان،دعوت ذوالعشیرہ کا اہتمام آپ کی زندگی میں ہونے والے غزوات ( جنگ بدر، جنگ احد، جنگ خندق، صلح حدیبیہ اور فتح مکہ وغیرہ)بنی نوع انسان پر آپ کے احسانات ، آپ کی امانت داری ، دیانتداری ، صداقت بیانی، عدالت ، شجاعت ، نجابت ، سخاوت ، شرافت ، اخوت، محبت ، جو د وبخشش اور علم و حلم کا تذکرہ ،آپ کی خدمات ،خطبات ، فرمودات، ارشادات اور نزول قران کا ذکر ، اور اس کے ساتھ آپ کے حلیہ مبارک اور آپ کا طرز معاشرت اٹھنے بیٹھنے کا انداز گفتگو کرنے کا سلیقہ اور آپ کی جامہ زیبی خوش قامتی ،حسن وجمال ، سراپا نگاری علم لدنی انبیاء ماسلف سے تقابل و تماثل ، اماکن و مساکن ،اور خواص اسم محمد کے ساتھ تذکرہ درو دو سلام جیسے موضوعات کو رکھا گیا ہے۔


اور بیشتر علمائے ادب نے ان دو موضوعاتی تقسیم کے ضمنی موضوع کے طور پر حضور اکرم سے امید شفاعت ، استغاثہ و مناجات جیسے موضوعات کا بھی ذکر کیا ہے۔


اگر اس ضمن میں نعت کی ہیت کی بات کی جائے تونعت گوئی کے لئے کسی خاص ہیت کا تعین نہیں کیا گیا ہے۔شعرائے متقدمین جدیدیت و مابعد جدیت کے تمام نعت گوشعرا نے مختلف فارم میں نعتیں کہیں ہیں ۔جس کا تذکرہ اس کے آگے تفصیل سے کیا جائے گا۔


جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


بشکریہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

فروغ نعت ۔ شمارہ 15

حواشی و حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]