نعت کی تنقید۔اہمیت،مسائل اور امکانات - شاہ اجمل فاروق ندوی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2 مطبوعہ: دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

مضمون نگار: شاہ اجمل فاروق ندوی( نئی دہلی )

نعت کی تنقید- اہمیت، مسائل اور امکانات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

انسانی زندگی میں تنقید کی اہمیت و افادیت مسلم ہے۔ اس کی تعریف میں تو اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن اس کی معنویت میں کوئی اختلاف نہیں۔ علمی دنیا تنقیدی عمل کی افادیت پر متفق ہے۔ جمیل جالبی نے کہا ہے:

’’تنقید فکر و ادب کے لیے ویسے ہی ضروری ہے، جیسے سانس لینا انسان کے لیے ضروری ہے۔ تنقید اچھے اور برے، صحیح اور غلط میں امتیاز پیدا کرتی ہے، تخلیق کو جہت دیتی ہے اور فکر کو بنیادیں فراہم کرتی ہے۔ جیسے مثنوی غزل نہیں ہے، قصیدہ رباعی نہیں ہے، ڈراما ناول سے ایک الگ صنف ہے، اس کا منصب الگ ہے۔ لیکن جیسے ڈرامے میں افسانہ یا ناول میں ڈراما موجود ہوتا ہے، اسی طرح تنقید میں تخلیق اور تخلیق میں تنقید موجود ہوتی ہے۔ بنیادی طور پر تخلیقی اور تنقیدی جبلتیں ایک ہی ہوتی ہیں۔‘‘

(تخفۃ السرور، شمس الرحمن فاروقی، ص:۲۸)

آل حمد سرور نے اسی بات کو مزید وضاحت کے ساتھ اس طرح بیان کیا ہے:

’’تنقید کا کام مفصلہ ہے۔ تنقید دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کردیتی ہے۔ تنقید وضاحت ہے، صراحت ہے، ترجمانی ہے، تفسیر ہے، تشریح ہے، تجزیہ ہے۔ تنقید قدریں ہی متعین نہیں کرتی، وہ ادب اور زندگی کو ایک پیمانہ دیتی ہے۔ تنقید انصاف کرتی ہے۔ ادنیٰ اور اعلیٰ، جھوٹ اور سچ، پست و بلند کے معیار قائم کرتی ہے۔ تنقید ادب میں ایجاد کرنے اور محفوظ رکھنے، دونوں کا کام دیتی ہے۔ وہ بت شکنی بھی کرتی ہے اور بت گری بھی۔ تنقید کے بغیر ادب ایک ایسا جنگل ہے، جس میں پیداوار کی کثرت ہے، موزونیت اور قرینے کا پتا نہیں۔‘‘ (تنقید کیا ہے؟ آل احمد سرور، ص:۳۱)

ایک طرف تنقید کی یہ مسلمہ اہمیت و افادیت ہے، تو دوسری طرف اردو نعت کا وسیع ذخیرہ۔ نعت کے تقدس کی وجہ سے اسے ہم آل احمد سرور کے بہ قول کثیر پیداوار والا جنگل تو نہیں کہہ سکتے، البتہ اتنا طے ہے کہ نعت کے نام پر وجود میں آنے والا بہت بڑا ذخیرہ فنی لحاظ سے نعت کہلائے جانے کا مستحق نہیں ہے۔

ہم نعت والے ہیں۔ نعت کے والہ و شیدا ہیں۔ نعت کے عاشق وجویا ہیں، لیکن ہم علمی دنیا میں نعت کی عدم مقبولیت کا الزام غیروں کے سر دھرنے کی ناانصافی نہیں کرسکتے۔ ہم آئے دن یہ شکوہ کرتے ہیں کہ نعت کو اس کا جائز مقام نہیں دیا جارہا ہے۔ نعت کو قصیدے و مثنوی اور غزل و مرثیے کی طرح پڑھا پڑھایا یا سمجھا سمجھایا نہیں جاتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا نعت والوں نے نعت کو ایک فن پارے کی حیثیت سے برتا ہے؟ اُس کو اُسی طرح اختیار کیا ہے، جس طرح کسی سخن پارے کو اختیار کرنا چاہیے؟ سچی بات یہ ہے کہ ہماری اردو نعت اپنی عمر کے لحاظ سے عمر رسیدہ اور وسعت کے لحاظ سے بڑی وسیع و کشادہ، لیکن علمی و فنی لحاظ سے بہت محدود و مختصر ہے۔ اس عظیم خلا کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں نعت کی تنقید اپنے تمام اصول و کلیات کے ساتھ وجود میں نہیں آسکی۔ نعت پر لکھا تو جاتا رہا، لیکن انصاف کے ساتھ ایک فن پارے پر جس طرح تنقیدی عمل ہونا چاہیے، وہ نہیں ہوسکا۔ نتیجہ یہ ہے کہ نعت کے متعلق متعدد ابتدائی و اساسی موضٰوعات اب تک تشنہ ہیں۔ ان کے متعلق نہ ہم نے کوئی بحث کی ہے اور نہ کسی نتیجے تک پہنچ سکے ہیں۔ کسی شاعر یا متشاعر نے رسول اکرم ﷺ کی شان میں جو کچھ کہہ دیا، اُسے نعت سمجھ لیا گیا۔ نہ اُسے جانچا پرکھا گیا، نہ اس کی چھان پھٹک ہوئی۔ بس یہ مان لیا گیا کہ نعت وجود میں آگئی۔ خواہ نعت کے نام پر وجود میں آنے والی وہ عبارت فنی لحاظ سے درست ہو یا نہ ہو۔ فکری لحاظ سے راست ہو یا نہ ہو۔ ممکن ہے کہ اس طرح کی نعتیں (جن کو نعت کہنا بھی درست نہیں ہے) کہنے والوں کا جذبہ پوری طرح صادق ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عوام اُس نعت نما عبارت کو سن کر جھوم اٹھیں۔ لیکن یہ ممکن نہیں کہ اُسے نعت کے ذخیرے میں شامل کرلیا جائے۔ جذبہ و نیت اور چیز ہے اور فکر و فن بالکل دوسری چیز۔ نظم ہو یا نثر، وہ اُسی وقت نظم یا نثر کہلاتی ہے، جب اپنے اصول و ضوابط کے ساتھ تخلیق کی گئی ہو۔ آپ نثر کہیں اور اصرار کریں کہ اُسے نظم سمجھ لیا جائے، یا نظم کہیں اور چاہیں کہ اُسے نثر مان لیا جائے، یہ کیسے ممکن ہے؟ اس صورت حال میں نعت کی تنقیدی روایت کو صحیح بنیادوں پر استوار کرکے مستحکم کرنا بے حد ضروری ہے۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

اردو نعت میں تنقیدی روایت کے استحکام کے لیے دو بنیادوں پر کام کرنا ضروری ہے:

۱- نعت کے اصول تنقید کی دریافت

۲- اصول و ضوابط پر مبنی عملی تنقید کا وجود

یہ دونوں چیزیں لازم و ملزوم ہیں۔ صرف اصول وضع کرکے بیٹھ جانا بھی بے کار ہے اور بے اصولی کے ساتھ تنقید کرتے رہنا بے فائدہ۔ جب تک یہ دونوں بنیادیں ایک ساتھ فراہم نہ کی جائیں گی، اس وقت تک مثبت، مستحکم اور صالح تنقید وجود میں نہ آسکے گی۔ ان دونوں نکات پر قدرے تفصیلی گفتگو کی ضرورت ہے۔

(۱) ہمارے ہاں نعت پر ہونے والی تنقیدی گفتگو عام طور پر بہت سطحی ہوتی ہے۔ اس درجہ سطحی کہ اُسے تنقید کے دائرے میں داخل کرنا بھی جرم لگتا ہے۔ گفتگو کرنے والا، زیربحث مجموعے یا فن پارے کو دیکھتا ہے اور اس میں موجود عام باتوں کو نثر میں بیان کرتا چلا جاتا ہے۔ فلاں کی نعتیہ شاعری میں عشق رسول پایا جاتا ہے، مدینے جانے کا شوق ملتا ہے، رسول اکرم سے وابستہ ہر چیز سے محبت ملتی ہے، رسول کے آل و اصحاب سے بھی والہانہ لگائو ہے،اتباع سنت کا جذبہ ہے، وغیرہ۔ حالاںکہ ان باتوں کا بیان سرے سے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ جس شخص کو اس کا وجدان نعت کہنے پر مجبور کر رہا ہے، اس کے اندر محبت رسول کا ہونا ایک فطری امر ہے۔ جب رسول سے محبت ہے تو آپ سے وابستہ مادی و روحانی تمام چیزوں سے محبت ہوگی ہی۔ اس میں بیان کرنے والی کیا بات ہے؟ فن پارے پر جس طرح گفتگو ہونی چاہیے، وہ ہوتی ہی نہیں۔ شاعری کے فنی محاسن کا کوئی ذکر ہی نہیں آتا۔ آتا بھی ہے تو برائے نام۔ اس غیر ذمے دارانہ روش کا نتیجہ ہے کہ نہ جانے کیسی کیسی چیزوں کو نعت کے زمرے میں شامل کردیا گیا ہے۔ لیکن یہ غیرذمے دارانہ رویہ بھی بے سبب وجود میں نہیں آیا۔ جب نعت کے اصولِ تنقید ہی وضع نہیں کیے گئے تو ناقد سے کیسی شکایت؟ وہ کن اصولوں کے مطابق تنقید کا فریضہ انجام دے گا؟ جیسے ہی وہ کسی نعت پر گفتگو کرنے چلتا ہے، بے راہ روی اور بے سمتی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اُسے اپنے سامنے کسی متعین راہ کے بجائے ایک وسیع صحرا نظر آتا ہے۔ وہ جس سمت میں چاہتا ہے ، چل دیتا ہے۔ احمد امین نے تنقید کے دو بنیادی مقاصد بیان کیے ہیں:

لنقد مھمتان مختلفتان۔ مھمۃ التفسیر Interpretation و مھمۃ الحکم Judgment۔ و حقاً إنہ عملیاً۔ قد اجتھت ھاتان الوظیفتان عادۃً حتی یومنا الحاضر۔

(النقد الأدبي، ڈاکٹر احمد امین، ص: ۱۸۰)

تنقید کے دو مختلف مقاصد ہیں۔ تشریح (Interpretation) اور فیصلہ (Judgment)۔ سچ تو یہ ہے کہ تنقید ایک عملی چیز ہے۔ اس میں یہ دونوں مقاصد آج تک فطری طور پر شامل سمجھے جاتے ہیں۔

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نعت کی تنقید ان دونوں مقاصد میں سے کسی ایک مقصد کو بھی پورا کرتی نظر نہیں آتی۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اب تک ہم نعت کے اساسی اصول تنقید بھی وضع نہیں کرسکے ہیں۔ ایسے متعدد مسائل ہیں، جن کا کوئی حل دریافت نہیں کیا گیا۔ حل دریافت کرنا تو دور کی بات ہے، دریافت کی کوشش بھی نہیں ہوئی۔ جب ہمارے پاس اُن مسائل کا کوئی حل نہیں ہے تو ناقد سے مستحکم تنقید کی امید کرنا بھی فضول ہے۔ وہ تو اپنے ذہن کے مطابق تنقیدی عمل انجام دے گا۔ جس سمت چاہے گا، جائے گا اور جو چاہے گا ، لکھے گا۔ نہ اصول کی پابندی اور نہ ضوابط کا لحاظ۔ مثال کے طور پر نعت میں عقائد کی بحث کرنے یا نہ کرنے کا مسئلہ ہے۔ نعت پر گفتگو کرتے وقت عقائد کی بات آنی چاہیے یا نہیں؟ نہیں تو کیوں نہیں؟ اور ہاں تو کو کس طرح اور کتنی؟ عام طور سے دیکھنے میں آتا ہے کہ کسی کی نعت پر گفتگو کرنے والے اس مسئلے میں بے سمتی اور بے اعتدالی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ شاعری پر گفتگو کرتے کرتے کب اعتقادی و فقہی موضوعات میں داخل ہوجاتے ہیں، پتا ہی نہیں چلتا۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شعری تنقید، اعتقادی اور فقہی تنقید بن جاتی ہے اور افادیت کے بجائے مضرت رساں ہوجاتی ہے۔ اس طرح کی تنقید نما گفتگو نعت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا پاتی۔ اس مسئلے میں سنجیدہ مباحثے کے بعد ایک مثبت نتیجے تک پہنچنا ضروری ہے۔ ورنہ نعت کو بھی اعتقادی مکاتب فکر کی طرح تقسیم کرنا پڑے گا۔ جیسے: شیعہ نعت، سنی نعت، بریلوی نعت، دیوبندی نعت، تقلیدی نعت اور غیرتقلیدی نعت وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ شعر و ادب میں اس طرح کی تقسیم انتہائی لغو قرار دی جائے گی۔ اس صورت حال سے بچنے کے لیے ہمیں ہر حال میں ’’نعت کی تنقید میں عقائد کی بحث‘‘ پر سیرحاصل گفتگو کرکے کچھ متفق علیہ نتائج اخذ کرنے ہوں گے۔

ایک بڑا مسئلہ لفظیات کے استعمال کا بھی ہے۔ نعت کا مرکزی موضوع رسول اکرم ﷺ کی ذات، صفات اور سیرت ہے۔ لہٰذا نعت میں لفظیات کا استعمال زیادہ نازک اور محتاط رخ اختیار کرجاتا ہے۔ دنیا کے عام محبوبوں کے لیے استعمال ہونے والے الفاظ، کنایات، استعارات اور تشبیہات کا استعمال نعت میں درست ہے یا نہیں؟ رسول کریم کے اسم ذات کے استعمال کی گنجایش ہے یا نہیں؟ واحد مذکر حاضر اور جمع مذکر حاضر کے صیغے (تو اور تم) استعمال کیے جاسکتے ہیں یا نہیں؟ اس طرح کے کئی مسائل ابتداء ہی سے ہمارے ہاں مختلف فیہ رہے ہیں۔ کوئی ان مسائل میں اثبات کا قائل ہے اور کوئی نفی کا۔ دورِ حاضر میں ان مسائل پر بحث کرکے کسی نتیجے تک پہنچنا ضروری ہوگیا ہے۔

ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ نعت کا مرکزی موضوع خیالی یا مثالی نہیں ہے۔ اس کا اپنا ایک مستقل وجود ہے۔ اس وجود پر تاریخی دلائل و شواہد متفق ہیں۔ صرف وجود پر نہیں، بلکہ پوری زندگی اور سیرت و کردار پر۔ لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک تاریخی شخصیت کے متعلق افسانوی خیالات اور تصوراتی بیانات پیش کرنا درست ہے یا نہیں؟ اثبات میں جواب دیا جائے تو علمی، تحقیقی اور تاریخی اصول و ضوابط پر ضرب پڑتی ہے۔ جواب نفی میں ہو تو دائرہ سخن بھی محدود ہوتا ہے اور نعت کے موجودہ ذخیرے کا بڑا حصہ قابل گرفت قرار پاتا ہے۔ یہ مسئلہ بھی تمام جوانب کے ساتھ بحث و تحقیق کا محتاج ہے۔

آج کل دو بڑے مسائل اور پیدا ہوگئے ہیں۔ ایک روح عصر کا مسئلہ اور دوسرا ہیئتی تجربوں کا مسئلہ۔ یہ دونوں مسائل اردو کے دورِ جدید کی دین ہیں۔ اب شاعری صرف حظ اٹھانے کا ذریعہ نہیں رہی، بل کہ مقصدی ہوگئی ہے۔ اسی طرح اس کا ظاہری دامن محدود نہیں رہا، بل کہ وسیع تر ہوگیا۔ شاعری میں مقصدیت کی روش بھی چل نکلی اور ہیئتی تجربے بھی کیے جانے لگے۔ موجودہ نعت گو کے سامنے یہ دونوں مسائل بڑی شدت کے ساتھ موجود ہیں۔ وہ نعت میں روح عصر کا اہتمام کرے یا نہ کرے؟ کرے تو کس طرح؟ جب مرکزی موضوع متعین ہے تو اس کے ساتھ دوسرے موضوع کو ضم کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اگر نعت میں روح عصر کی وکالت کی جاتی ہے تو اس کے طریقۂ کار کی تعیین بھی ضروری ہوگی۔ اس سے نسبتاً آسان مسئلہ ہیئتی تجربوں کا ہے۔ ہمیں ہیئتی تجربے کرنے یا نہ کرنے کے فوائد و مضرات پر غور کرنا ہوگا اور ایک راہ عمل طے کرنی ہوگی۔

آج نعت کے ناقد کو اس طرح کے متعدد مسائل درپیش ہیں۔ ان کو حل کیے بغیر نعت میں مستحکم تنقیدی روایت کی طرح نہیں ڈالی جاسکتی۔ جب تک صالح نعتیہ تنقید وجود میں نہیں آئے گی، تب تک ہم ادبی حلقوں میں نعت کے لیے پائے جانے والے اجنبی ماحول کو بھی ختم نہیں کرسکتے۔

(۲) نعت کی تنقید کے اصول و ضوابط طے کرنے کے بعد عملی تنقید کا مرحلہ آئے گا۔ اس مرحلے میں ہمیں ناقد کے شخصی اوصاف طے کرنے ہوں گے۔ ایک عام ناقد میں جن اوصاف کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے، وہ تمام اوصاف نعت کے ناقد کے اندر بھی ہونے چاہییں۔ لیکن نعت کے موضوع کے لحاظ سے اس کے اندر کچھ اضافی صلاحیتیں بھی درکار ہوں گی۔ وہ صلاحیتیں کون سی ہوں؟ ان کا تعین ضروری ہے۔ ان صلاحیتوں کا تعین اُس بے تکے رویے پر روک لگادے گا، جو تنقید کے نام پر ہمارے ہاں پایا جاتا ہے۔

ہم بڑے فخر کے ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ نعت کا موضوع بہ ظاہر ایک ذات میں محیط ، لیکن حقیقتاً کُل کائنات پر پھیلا ہوا ہے۔ اس لیے کہ وہ ذات گرامی جو نعت کا مرکز و محور ہے، وہ اپنی صفات اور تعلیمات کے لحاظ سے دو جہانوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اس وسیع ترین موضوع کے باوجود نعت کو اس کا جائز مقام نہیں دیا جاتا۔ اس سلسلے میں دوسروں پر الزام دھرنے سے بہتر ہے کہ اپنا جائزہ لیا جائے۔ نعت کے ساتھ جانب داری برتنے والوں سے شکوے شکایت کے بجائے اپنا محاسبہ کیا جائے۔ اس سچائی کا انکار کون کرسکتا ہے کہ نعت کے نام پر نہ جانے کیا کیا چیزیں نعت کے ذخیرے میں شامل کردی گئی ہیں؟ ایسا اس لیے ہے کہ ہم نے چھان پھٹک کا دروازہ کھولا ہی نہیں۔ جانچ اور پرکھ کی روایت قائم ہی نہیں کی۔ ناپ تول کے لیے میزان وضع ہی نہیں کیا۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ اگر نعت کے سلسلے میں ایک مستحکم تنقیدی روایت وجود پذیر ہوجائے اور وہ پوری دیانت داری کے ساتھ کام کرنے لگے تو بہت جلد مثبت نتائج سامنے آنے لگیں گے۔ نعت کو بے دھڑک دوسری اصناف کے ساتھ رکھا جانے لگے گا۔ نعت کا شجرِ طوبیٰ پوری شان و شوکت کے ساتھ برگ و بار لانے لگے گا۔ اس سے کہیں آگے بڑھ کر نعت انسانیت کو مضبوط نظریاتی اساس فراہم کرنے لگے گی۔


اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
اس سال کی کچھ اہم کتابیں

اس سیکشن میں اپنے کتابیں متعارف کروانے کے لیے "نعت کائنات" کو دو کاپیاں بھیجیں

نئے صفحات