نعت ورثہ تنقیدی نشست - 22 نومبر 2019

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

تنقیدی نشست 22نومبر 2019[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

منتظم : اشفاق احمد غوری

صدارت : ڈاکٹر شہزاد احمد

مہمان مبصر " سید طاہر

فیس بک ربط : تنقیدی نشست 22 نومبر 2019

الحمدللہ رب العالمین

والصلوٰۃ والسلام علٰی سیدالمرسلین

ایک بار پھر جمعۃ المبارک کی مسعود ساعات میں ایک اور نعتِ مبارکہ کی خدمت میں حاضر ہیں

اس کلام کا توجہ سے مطالعہ فرمائیں اور اپنی اپنی استعداد کے مطابق تبصرہ ضرور فرمائیں ورنہ کم از کم پسندیدہ شعر کوٹ کر کے داد و تحسین کا بہتر طریقہ اپنائیں اور یہی نعت ورثہ کی روایت بھی ہے

کسی بھی سقم کی نشاندہی فرماتے ہوئے اپنا لب و لہجہ دلکش اور شیریں رکھیں تاکہ قاری آپ کے بلند اخلاق کا قائل ہو جائے

ہمیشہ یاد رکھیں کہ اپنا موقف پیش کرنا اہم ترین ہوتا ہے اپنے موقف کو منوانے کیلئے کسی سے الجھنا سعیٔ لا حاصل ہے

کسی بھی رکن کی دل شکنی یا دل آزاری نعت ورثہ اور خصوصاََ تنقیدی نشست میں سب سے بدترین عمل سمجھا جاتا ہے

گزشتہ ہفتے کی تنقیدی نشست کا ربط

https://www.facebook.com/groups/NaatVirsaLiteraryDiscussions/permalink/3107918469222834/

نعتِ رسولِ آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

خدا کے لطف و کرم کے ہوئے نچھاور پھول

درودِ پاک کے جب کِھل گئے زباں پر پھول


نبی کے خلق کی خوشبو کا معجزہ ہے یہ

عدو کے ہاتھوں میں جو بن گئے ہیں پتھر پھول


حسین گنبدِ خضرا میں جو مہکتا ہے

جہان بھر کے گلابوں کا ہے وہ مصدر پھول


مہک اٹھا ہے گلِ جاوداں سے سارا چمن

زہے نصیب کہ سجنے لگے ہیں گھر گھر پھول


جگہ ملے گی ہمیں جنت البقیع میں کیا

دکھائی دیتے ہیں خوابوں میں ہم کو اکثر پھول


تڑپ رہا ہے تمنا میں جس کی باغِ عدن

زمیں کی گود میں ہے کس قدر حسیں تر پھول


حصارِ خوشبو میں رہتے ہیں ہم بھی اب فاعل

کہ اپنی زیست کا بھی بن گیا ہے محور پھول

اہم آراء[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

احمد زاہد  : نہایت عمدہ کلام

سعید قادری  : ماشاءاللہ، اچھا کلام پاک، عمدہ کاوش

صغیر احمد صغیر  : ارےےےےے بھائی.. سبحان اللہ سبحان اللہ

عبدہ دانش  : سبحان اللہ۔۔بہت خوب


صاحبزادہ احمد ندیم  :

خدا کے لطف و کرم کے ہوئے نچھاور پھول

درودِ پاک کے جب کِھل گئے زباں پر پھول

کیا زبان پر پھول کھلنا درست ہوگا زبان سے یا منہ سے پھول جھڑتے ہیں؟


حسین گنبدِ خضرا میں جو مہکتا ہے

جہان بھر کے گلابوں کا ہے وہ مصدر پھول

پہلے مصرعے میں بہتری کی گنجائش ہے


مہک اٹھا ہے گلِ جاوداں سے سارا چمن

زہے نصیب کہ سجنے لگے ہیں گھر گھر پھول

عمدہ ہے


تڑپ رہا ہے تمنا میں جس کی باغِ عدن

زمیں کی گود میں ہے کس قدر حسیں تر پھول

حسین تر برائے قافیہ ہے حسین ترین درست خیال ہے


اشفاق احمد غوری  : ہمیشہ کی طرح جاندار تبصرہ فرمانے پر آپ کا ممنون ہوں لیکن آپ نے مقطع پر گفتگو نہیں فرمائی جس سے تبصرہ ادھورا سا محسوس ہو رہا ہے


مطلوب الرسول :

سبحان اللہ ۔ بہت عمدہ مطلع،ردیف کاخوبصورت استعمال۔

دوسرےشعرمیں پتھرکےاستعارے نے رنگ بھردیاہے لیکن خُلق کی خوشبوکی ترکیب کچھ خاص لطف نہیں دے رہی۔

تیسرے شعرمیں مصدرکابطورقافیہ عمدہ استعمال ہے لیکن مجموعی طورپرشعرمیں ابلاغ کی کمی محسوس ہورہی ہے۔ایک تویہ کہ گنبدخضرا میں مہکنے والے پھول سے کیامرادہے،کیاگنبدخضراخودیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔پھریہ کہ جہان بھرکے گلاب ہی فقط کیوں،ہمہ قسم پھول کیوں نہیں۔

چوتھاشعربھی تفہیم میں ابہام پیداکررہاہے۔بلاشبہ گل جاوداں سے مراد آقاعلیہ السلام ہی ہیں لیکن گھر گھرپھول مہکنے والی بات نہیں کھل رہی۔

پانچواں شعر ایک اچھاتخیل لیے ہوئے ہے۔لیکن تلازماتی اعتبار سے کمزورلگ رہاہے کیونکہ خواب میں پھولوں کے آنے کاتعلق جنت البقیع سے کیسے جڑتاہے۔ایک نیاخیال ہے۔

اگلےشعرمیں روایتی مضمون باندھاگیاہے۔دوسرے مصرع میں کس قدرحسیں تر سے سقم پیداہوگیاہے۔

مقطع میں شاعر نے کس کیفیت کوبیان کرناچاہاہےیہ واضح نہیں ہوسکا۔کس پھول کےمحوربننے سے زیست خوشبوبن گئی۔

مجموعی طورپرعمدہ نعت مبارکہ پرشاعر کومبارکباد


فیصل ندیم فیصل : سبحانﷲ--سبحانﷲ--سبحانﷲ

بہت ہی اعلی و ارفع اور عقیدت میں گندھے اشعار عطا ہوئے ہیں--

جزاکﷲ خیراًکثیرا------

ڈھیروں داااااااد و تحسین اور دعائیں


جاوید نظامی :

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمدللہ رب العالمین

السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

خدا کے لطف و کرم کے ہوئے نچھاور پھول درودِ پاک کے جب کِھل گئے زباں پر پھول

ماشاءاللہ بہت خوبصورت مطلع


نبی کے خلق کی خوشبو کا معجزہ ہے یہ

عدو کے ہاتھوں میں جو بن گئے ہیں پتھر پھول

اولی بہتری چاہتا ہے

ثانی مصرع عمدہ


حسین گنبدِ خضرا میں جو مہکتا ہے

جہان بھر کے گلابوں کا ہے وہ مصدر پھول

گلابوں کی تخصیص نے شعر کو کمزور کر دیا


مہک اٹھا ہے گلِ جاوداں سے سارا چمن

زہے نصیب کہ سجنے لگے ہیں گھر گھر پھول

یہ شعر میرے سمجھ میں نہیں آیا


جگہ ملے گی ہمیں جنت البقیع میں کیا

دکھائی دیتے ہیں خوابوں میں ہم کو اکثر پھول

خواب میں پھول نظر آنا جنت البقیع میں جگہ ملنے نشانی کیسے


تڑپ رہا ہے تمنا میں جس کی باغِ عدن

زمیں کی گود میں ہے کس قدر حسیں تر پھول

یہ شعر اور بہتر ہو سکتا تھا


حصارِ خوشبو میں رہتے ہیں ہم بھی اب فاعل

کہ اپنی زیست کا بھی بن گیا ہے محور پھول

ثانی مصرع سے بات واضح نہیں ہو پا رہی ہے


ماشاءاللہ بہت خوب وااااااااااہ زندہ باد اچھی شاعری کے لیے بہت بہت مبارک باد پیش کرتا ہوں 🌹🌹🌹


اشفاق احمد غوری

بہت مختصر لیکن عمدہ تبصرہ فرمایا آپ نے ۔ ممنون ہوں


عمران شریف  :

خدا کے لطف و کرم کے ہوئے نچھاور پھول

درودِ پاک کے جب کِھل گئے زباں پر پھول

دونوں مصرعوں میں گہرا ربط نہیں بن سکا

کھل گٸے

شعر کو کمزور کر رہا ہے اگر یوں ہوتا

دردو پاک کے جب جب کھلے زباں پر پھول

خدا کے لطف و کرم کے ہوٸے نچھاور پھول

تو زیادہ بہتر تھا

کیونکہ محنت پہلے اور ثمر بعد میں ملتا ہے


نبی کے خلق کی خوشبو کا معجزہ ہے یہ

عدو کے ہاتھوں میں جو بن گئے ہیں پتھر پھول

سبحان الله۔ بہت عمدہ۔ واقعی آپ کے متاثر کن اخلاق نے سخت دلوں کو موم کر دیا


حسین گنبدِ خضرا میں جو مہکتا ہے

جہان بھر کے گلابوں کا ہے وہ مصدر پھول

سبحان الله، بہت عمدہ


مہک اٹھا ہے گلِ جاوداں سے سارا چمن

زہے نصیب کہ سجنے لگے ہیں گھر گھر پھول

مضمون بن نہیں سکا۔ شاعر پہلا مصرع چینج کر لے تو شعر بہت اعلی بن سکتا ہے


جگہ ملے گی ہمیں جنت البقیع میں کیا

دکھائی دیتے ہیں خوابوں میں ہم کو اکثر پھول

خواب میں پھول دکھنے کی یہ تعبیر نہیں بنتی۔ ہاں اگر خواب کی تعبیر مندرجہ بالا مراد لی ہےتو پہلے مصرع میں شک نہیں یقین کی کیفیت کا اظہار کریں توبہتر ہے


تڑپ رہا ہے تمنا میں جس کی باغِ عدن

زمیں کی گود میں ہے کس قدر حسیں تر پھول

حسین تر خود ہی مکمل ترین تعریف ہے اس کے ساتھ کس قدر کا اضافہ موزوں نہیں ہے


حصارِ خوشبو میں رہتے ہیں ہم بھی اب فاعل

کہ اپنی زیست کا بھی بن گیا ہے محور پھول

اس میں پھول سے مراد یقینا آقا ٕ دوجہاں ﷺ ہیں ۔ شعر مناسب ہے بہت مضبوط نہیں ۔ تھوڑی محنت سے نعت مزہد پر لطف ہو جاٸے گی

نعت کے باب میں ایک بہترہن نعت پیش کرنے پر شاعر کو مبارکباد۔ اللہ تعالی قلم میں مزید طاقت عطا فرماٸے


وقاص عاجز : میں اشفاق احمد غوری صاحب کو تنقیدی نشست کا سلسلہ شروع کرنے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں یہ سلسلہ جاری رہے گا

ابوالحسن خاور : خوش آمدید وقاص عاجز صاحب، نعت ورثہ پر یہ اور ایسے دیگر تنقیدی سلسلوں کو اب تو دس سال ہونے کو آئے ۔

اشفاق احمد غوری : یہ سلسلہ بہت پہلے سے ابوالحسن خاور ۔ صاحب چلا رہے ہیں میں تو چند ہی ہفتوں سے خاور صاحب کا ہاتھ بٹانے کی غرض سے حاضر ہوتا ہوں اور جتنے دن مقدر میں ہوگا نعت کی خدمت کرتا رہوں گا پھر کوئی اور آ جائے گا لیکن یہ سلسلہ ان شاء الله چلتا رہے گا

ابوالحسن خاور: ہم نہ ہوں گے تو کوئی ہم سا ہوگا ۔ہم سب کی سعادت ہے کہ اللہ کریم ہم سے یہ کام لے رہا ہے ۔


نواز اعظمی:

چند معروضات احباب کی جانب سے پیش کردہ آراء کے تناظر میں

خدا کے لطف و کرم کے ہوئے نچھاور پھول

درودِ پاک کے جب کِھل گئے زباں پر پھول

پہلے مصرع میں حرفِ اضافت "کے" کی تکرار شعری تاثر کو مجروح کر رہی ہے ۔ "نچھاور" کا استعمال یہاں درست نہیں ہوا کیونکہ نچھاور ہونا ادنیٰ کا اعلیٰ پر ہوتا ہے نہ کہ اعلیٰ کا ادنیٰ پر زبان و بیان کے اعتبار سے اور پہلے مصرع میں "ہوئے" کی مناسبت سے کھل گئے کے بجائے "کھلے" ہونا چاہیے تھا


نبی کے خلق کی خوشبو کا معجزہ ہے یہ

عدو کے ہاتھوں میں جو بن گئے ہیں پتھر پھول

خلق کی خوشبو کی ترکیب درست ہے پھول سے تلازمے کے طور پر لفظِ خوشبو لایا گیا ہے ۔ "ہاتھوں" میں واو اور نون غنہ کی آواز دب رہی ہے اگر واحد لایا جاتا تو بھی لسانی اعتبار سے مصرع درست ہوتا ۔ اس شعر سے ذہن وادیِ طائف کی طرف جاتا ہے جہاں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خلق کی اعلیٰ مثال قائم کی اور پتھر برسانے والے بعد میں ایمان لائے گویا وہی پتھر پھول میں تبدیل ہوگئے ۔ لیکن اگر پتھر دل کے متعلق بات ہوتی تو اور بھی زیادہ حسن آجاتا شعر میں


حسین گنبدِ خضرا میں جو مہکتا ہے

جہان بھر کے گلابوں کا ہے وہ مصدر پھول

"حسین" کا لفظ اضافی ہے جو محض وزن پورا کرنے کے لیے لایا گیا ہے گنبدِ خضرا میں مہکنے والے پھول سے مراد نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتِ بابرکات ہے حضور باغِ رسالت کے ایسے پھول ہیں کہ دنیا کے جتنے بھی پھول ہیں سب اِسی پھول کے صدقے مہکتے ہیں "گلابوں " کہہ کر شاعر نے خاص کر دیا جب کہ پھولوں کا ذکر ہونا چاہیے تھا


مہک اٹھا ہے گلِ جاوداں سے سارا چمن

زہے نصیب کہ سجنے لگے ہیں گھر گھر پھول

اس شعر میں ابلاغ کا مسئلہ ہے کوئی دوست وضاحت کردیں کہیں آمدِ رسول کے حوالے سے تو نہیں؟


جگہ ملے گی ہمیں جنت البقیع میں کیا

دکھائی دیتے ہیں خوابوں میں ہم کو اکثر پھول

تعبیر درست ہو سکتی ہے میرا خیال ہے کہ شاعر نے "پھول" کہہ کر جنت البقیع میں مدفون نفوسِ قدسیہ مراد لیا ہے


تڑپ رہا ہے تمنا میں جس کی باغِ عدن

زمیں کی گود میں ہے کس قدر حسیں تر پھول

پہلے مصرع میں "جس" کا لفظ دوسرے مصرع میں "ایسا" یا "وہ" کا متقاضی ہے


حصارِ خوشبو میں رہتے ہیں ہم بھی اب فاعل

کہ اپنی زیست کا بھی بن گیا ہے محور پھول

سبحان اللہ ۔ دوسرا مصرع ذرا چست کرنے کی ضرورت ہے


سبحان اللہ سبحان اللہ عمدہ کلام ہوا ہے بہتر سے بہتر کی گنجائش ہر کلام میں موجود ہوتی ہے تھوڑی توجہ سے مزید نکھر سکتا ہے بہت داد شاعر محترم کے لیے


فراز عرفان  : ما شاء الله ۔ بہت عمدہ کاوش ہے ۔ اہل علم کی تنقید سے بالکل سہمت ہوں ۔ جتنی خوبصورت ردیف ہے اگر تراکیب میں تھوڑی تبدیلی کی جائے تو کلام بہت نکھر سکتا ہے

شاعر کے لئے دعا گو ہوں

مہک اٹھا ہے گلِ جاوداں سے سارا چمن زہے نصیب کہ سجنے لگے ہیں گھر گھر پھول

سبحان الله


ابوالحسن خاور :

پھول ردیف کے حوالے سے اعلیحضرت کا کلام ذہن میں آنا فطری عمل ہیں ۔ آپ کی مہارت یہ رہی کہ آپ نے لفظ "پھول" کو مختلف معنوں میں استعمال کیا ۔ جن میں ہلکا پھلکا، پاک و صاف، گناہ سے مبرا، غرور، اترانا، زیور شامل ہیں ۔ اس نعت مبارکہ کے شاعر نے بھِی ایسی کوشش کی ہے ۔ تیسرے، ما قبل آخری اور آخری شعر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ کو "پھول" کہا ہے ۔ لیکن کوئی نیا معنی سامنے نہیں لایا جا سکا۔

بنت کے اعتبار سے کچھ بہتری کی ضرورت ہے جس پر احباب نے کچھ گفتگو کی ہے ۔

تاہم اس ردیف میں کوشش کرنا بہت قابل ستائش ہے ۔ جو پیش کیا اس کے لیے داد


سجاد بخاری  :

درج ذیل اشعار پسند آئے.

دلی داد و دعائیں

حسین گنبدِ خضرا میں جو مہکتا ہے

جہان بھر کے گلابوں کا ہے وہ مصدر پھول

مہک اٹھا ہے گلِ جاوداں سے سارا چمن

زہے نصیب کہ سجنے لگے ہیں گھر گھر پھول

تڑپ رہا ہے تمنا میں جس کی باغِ عدن

زمیں کی گود میں ہے کس قدر حسیں تر پھول


رضوان عاشق :

السلام علیکم

سبحان اللہ ماشا اللّٰہ ۔۔

بہت عمدہ اور پر کشش اشعار ہیں ردیف کی لطافت جہاں سامع کو متوجہ کرنے میں کامیاب ہے وہیں مضامین میں اس کی خوبصورت تکمیل بھی متقاضی ہے۔۔ کچھ تبصرے پڑھنے کا موقع ملا بہت عمدہ گفتگو ہوئی بالخصوص جناب نواز اعظمی صاحب کی گفتگو بہت خوبصورت تھی اس کے بعد کسی رائے کی گنجائش تو نہیں ہے مگر حصول سعادت کے لیے اپنی فہم کے مطابق عرض کرتا ہوں


مطلع میں نچھاور کو "برسے" یا "عطا ہوئے" جیسے مفہوم سے بدلنا چاہیے

دوسرا شعر بہت عمدہ خوشبو کا لفظ بہت خوبصورتی سے رکھا گیا بہت داد

تیسرے میں حسین کے لفظ کو اگر کسی ایسے لفظ سے بدلا جائے جو خوشبو سے یا پھول سے ربط رکھتا ہو تو شعر کا حُسن بڑھ جائے

چوتھا شعر بہت اعلی سرکار کے فیضانِ عام کی عمدہ تمثیل باندھی گئی

پانچواں شعر اساتذہ کی آراء مختلف ہیں مگر مجھے بہت پسند آیا خواب کو دنیا کی نیند سے اور اس نیند کو قبر کی نیند سے عمدہ مطابقت دی گئی پھر جس تعبیر کی آرزو کی گئی اس سے شعر کا لطف مزید بڑھ گیا

چھٹا ، روایتی مضمون اگر دلکش ادائیگی سے آئے تو نیا لگتا ہے لیکن یہاں ایسا کچھ نہیں ہوسکا

مقطع اچھا ہے مگر یہاں پھول جسے حضور صلیٰ اللّٰہ علیہ وسلّم سے منسوب کیا گیا بہت عامیانہ طور پر برتا گیا جسے مکمل وارفتگی سے آنا چائیے تھا ۔۔

آخر میں شاعر محترم کو بہت مبارکباد اور تمام شریک گفتگو احباب کو دعائیں جنہوں نے اتنی خوبصورت گفتگو فرمائی والسلام


اشفاق احمد غوری  : ہفتۂ رواں کی تنقیدی نشست کے مہمان مبصر نہایت قابلِ احترام و تکریم جناب سید طاہر صاحب کی خدمت میں مودبانہ گزارش ہے کہ اس نعتِ مبارکہ کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار فرمائیں


سید طاہر  :

برادرم جناب اشفاق غوری صاحب نعت ورثہ کو اس معتمد تنقیدی سلسلے پر اس تسلسل سے کام کرنے ہر ہدیہءتبریک پیش کرتا ہوں۔

مبارک ہیں وہ قلم۔و قرطاس ۔۔وہ اذہان و قلوب جو نعت جیسی عظیم اور بابرکت صنف سے وابستہ ہوں۔۔۔جو سنتِ ربِ اکبر کرہے ہیں۔۔۔تو میں اس نعت کے شاعر محترم کی بارگاہ میں خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔۔۔

جہاں تک نعت پر تبصرہ کرنے کا حکم ہے تو ایک طالب علم کی بات کو سن لیجیے۔۔۔آپکا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں

جب ہم نعت کہتے ہیں تو ذہن میں اس کے تقدس کے ساتھ ساتھ اس کے تقاضوں کا علم ہونا بھی ضروری ہے۔۔اور یہ کہ نعت کا ہر شعر اسی ذات کریم کے حوالے سے مخصوص ہونا چاہیئے کہ جب آپکی نعت کا ایک شعر بھی کہیں پڑھا جائے تو اسمیں ابلاغ کی کمی نہ ہو۔۔۔۔اس ذات شاہِ والا کا کوئی نہ کوئی پہلو اسمیں نمایاں ہورہا ہو۔۔اکثر احباب کو دیکھا کہ وہ نعت میں ایسے اشعار کہہ جاتے ہیں جن کوہم اپنی کسی بھی محبوب ہستی کیلئے نمائندہ کہہ سکتے ہیں


اور متذکرہ نعت کے کئی اشعار میں یہ مسئلہ رہا۔۔۔اسی طرح دو اشعار کے بعد اس نعت کے باقی ماندہ اشعار میں ابلاغ کی قدرے کمی محسوس ہوئی۔۔

خدا کے لطف وکرم سے ہوئے نچھاور پھول

درود پاک کے جب کھل گئے زباں ہر ہھول

مجموعی طور پرمطلع اچھا ہے


نبی کے خلق کی خوشبو کا معجزہ ہے یہ

عدو کے ہاتھوں میں جو بن گئے ہیں پتھر پھول

میرے خیال میں اس شعر کو واقعہ طائف کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے تاہم اسے عمومی طور پر دیکھا جائے تو ہاتھ میں پتھر دشمنی اورہاتھ میں پھول محبت کی علامت ہے ۔ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کے خلق نے جہاں جہاں دلوں کو رام کیا اس شعر کا کینوس وہاں تک جاتا ہے ۔


حسین گنبدِ خضرا میں جو مہکتا ہے

جہان بھر کے گلابوں کا ہے وہ مصدر پھول

اگرچہ کچھ احباب نے اعتراض کیا ہے کہ شعر کو گلابوں تک محدود کیا ہے ۔ لیکن موازنے میں جب اعلی کو کمتر دکھا دیا جائے تو ادنی خود بخود تابع ہو جاتا ہے ۔ مثلا اگر کہا جائے کہ تمام علماء بخاری شریف سے استفادہ کرتے ہیں تو یہ اعتراض نہیں اٹھے گا کہ طالب علموں کا ذکر کیوں نہیں کیا ؟ گلاب کو پھولوں کا سردار ہی سمجھا جاتا ہے تو اس کا ذکر سب پھولوں کا ذکر ہے ۔


مہک اٹھا ہے گلِ جاوداں سے سارا چمن

زہے نصیب کہ سجنے لگے ہیں گھر گھر پھول

حضور صلی اللہ علیہ علیہ وآلہ وسلم کو گل جاوداں کہا اور دنیا کو چمن ۔ جب ایک علامتی نظام شروع کیا اور دوسرے مصرعے میں بھول گیا کہ جب جہان کو چمن کہہ دیا تو اب گھر نہیں رہے ۔ ہاں اگر شاعر چمن کو محدود کرتا جیسے

مہک اٹھا تھا گلِ جاوداں سے باغ ِ عرب

تو پھر گنجائش نکلتی کہ عرب میں گھر گھر میں کھلے ہوئے پھول سجنے لگے ہیں ۔


جگہ ملے گی ہمیں جنت البقیع میں کیا

دکھائی دیتے ہیں خوابوِں میں ہمکو اکثر پھول

یہاں جنت البقیع کا میسر آنا پھول خواب میں دیکھنے سے جوڑنا ۔۔۔۔کم از کم میرے لئے تو نیا ہے۔۔۔۔


تڑپ رہا ہے تمنا میں جسکی باغِ عدن

زمیں کی گود میں ہے کس قدر حسیں تر ہھول

قافیے کی مجبوری کے ساتھ ۔۔۔۔یہ شعر کسی بھی معتبر ہستی ۔۔۔(جوکہ زمیں کی گود میں آرام فرما ہو) سے جوڑا جاسکتا ہے

اگر اس شعر کو نعت سے الگ کہیں پڑھا جائے تو نعت کی کیفیت میسر نہیں آتی۔۔


حصارِ خوشبو میں رہتے ہیں ہم بھی اب فاعل

کہ اپنی زیست کا بھی بن گیا ہے محور

مقطع میں بھی نعت کا رنگ نظر نہیں آتا ۔۔۔اگر ہم اسے غزل میں رکھیں تو بھی یہ شعر وہاں مجازیت کی نمائندگی کرتا ہے۔۔۔ مجموعی طور پر یہ اس نعت کو دوبارہ تھوڑی سی محنت سے ایک عمدہ نعت میں بدلا جاسکتا ہے


اشفاق احمد غوری زیرِ بحث نعتِ مبارکہ کے شاعر سے ملتمس ہوں کہ اگر آپ اپنا نام ظاہر فرمانا چاہتے ہیں تو تشریف لائیں اور نشست کے شرکاء کا شکریہ ادا فرمائیں اور اگر آپ نعتِ مبارکہ پر کئے گئے کسی اعتراض کی وضاحت فرمانا چاہیں تو بھی تنقیدی نشست کی انتظامیہ آپ کو خوش آمدید کہتی ہے

  • شاعر نے اپنے نام کا اعلان نہیں کیا ۔ اس تنقیدی نشست میں اس بات کی اجازت ہے کہ شاعر احتتام میں چاہے تو اپنے نام کا اعلان کرے اور چاہے تو نہ کرے


اشفاق احمد غوری :

آج کا دن صدر نشین کے لئے مخصوص ہے

میں ملتمس ہوں جناب ڈاکٹر شہزاد احمد صاحب سے کہ وہ تشریف لائیں اور اپنے خیالاتِ عالیہ سے نوازیں ۔ نعت ورثہ کے تمام احباب سے ڈاکٹر صاحب کی صحت کے حوالے سے خصوصی دعاؤں کی درخواست ہے

ابوالحسن خاور : احباب کو یاد رہے کہ ڈاکٹر شہزاد احمد صنف نعت میں پی ایچ ڈی سکالر ہیں ۔ اس سے پہلے نعت گوئی میںِ پی ایچ ڈی کے مقالے ہو چکے تھے ۔ ڈاکٹر شہزاد احمد نے ایک نیا اور بہت مشکل راستہ نکالا ۔ ان کی پی ایچ ڈی کا مقالہ "اردو نعت پاکستان میں" ایک مقالہ کیا 1947 سے لے کر رقم ہونے کے سال تک کے نعتیہ منظر ناموں کا انسائیکلو پیڈیا ہے ۔انہوں نے نعت کے متعلقہ ہر اہم شخصیت، تنظیم، اخبار، میگزین کا ذکر کیا ہے ۔ اس ایک مقالے کا ہر ہر باب ایک مکمل موضوع ہے ۔ اور یہ پی ایچ ڈی کا واحد مقالہ ہے جس میں نعت گوئی کے علاوہ نعت خوانوں کا کچھ تذکرہ بھی موجود ہے ۔

  • ڈاکٹر شہزاد احمد اس وقت زیادہ علیل تھے تو غزل اور اس پر ہونے والا تمام تبصرہ پڑھ کر اپنی رائے نہ دے پائے ۔ اور نشست کا اختتام ہوگیا۔

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

"' نعت ورثہ کی تنقیدی نشستیں  : 22 نومبر 2019 | 29 نومبر 2019

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
نئے صفحات