نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27 ۔ ابتدائیہ

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

22552547 1414849971926102 6847160094441319601 n.jpg

نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27

مدیر اعلٰی : صبیح رحمانی

ابتدائیہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اس عہد میں بعض اہلِ نظر کے یہاں یہ احساس نمایاں طور سے موضوعِ گفتگو بنا ہوا ہے کہ اس وقت تہذیب و روایت کا وہ نظام اور قدریں مکمل طور سے معرضِ خطر میں ہیں جن کا ذرا سا بھی تعلق ہمارے مذہبی افکار و تصورات سے ہے۔ یہ خیال غلط نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہم دیکھ سکتے ہیں، عصرِ حاضر میں اسلام کا معاملہ بہ یک وقت کئی طرح کی متحارب قوتوں سے ہے۔ ایک طرف وہ مذہب دشمن قوتیں ہیں جو اُسے ہر ممکن مٹانے کے درپے ہیں۔ یہ قوتیں عالمی سطح پر کام کررہی ہیں اور ان کا مقصد یہ ہے کہ مذہب کو انسانی زندگی سے کسی نہ کسی طرح یکسر نکال دیا جائے۔ اس کے بعد یہ دنیا اُن کے لیے آسان ہدف ہوجائے گی اور دنیا بھر کے انسانوں کو اخلاق و عدل سے عاری نظامِ حیات کے ذریعے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے باسہولت استعمال کیا جاسکے گا۔ ان کے پس منظر میں وہ لوگ اور ادارے کارفرما ہیں جو زرپرست ذہنیت رکھتے ہیں۔ یہ سرمایہ دار دنیا کے نمائندے ہیں اور اس کے جال کو بچھانے میں مشغول ہیں۔


دوسری طرف وہ نظریات و افکار ہیں جو زرپرست ذہنیت کو تو بے شک رد کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی کسی گہری بنیادی غلط فہمی کی بنا پر مذہب کو بھی انسانی ترقی اور سماجی مساوات و استحکام کے لیے ایک رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ حالاںکہ حالات و واقعات نے اس مفروضے کو اس عہد تک آتے آتے کلیتاً غلط ثابت کردیا ہے، لیکن اس کے باوجود ان کی غلط فہمی کسی طرح رفع نہیں ہوتی، اور وہ اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وہ جس مساوات، عدل، استحکام اور خوش حالی کی بات کرتے ہیں، اس کا حصول مذہبی نظام سے ہم آہنگی میں بدرجہا بہتر اور قدرے جلد ممکن ہے۔ اس لیے کہ مذہب تو ان سب امور کو انسانی سماج کے لیے ایک بنیادی تقاضے کے طور پر اختیار کرتا ہے۔ اگر وہ مذہب کے حلیف بن کر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف صف آرا ہوں تو نتائج دیکھتے ہی دیکھتے کچھ سے کچھ ہوجائیں گے۔ تیسری طرف حقیقی روحِ اسلام سے ناواقف مسلمانوں کا وہ گروہ ہے جو اسلام کی اصل تصویر کو ذاتی تاویل و تفسیر کے ذریعے دانستہ نادانستہ مسخ کررہا ہے اور اس کے تعمیری اور انقلابی پیغام کو غیر مؤثر بنانے میں دشمنوں کا آلۂ کار بن کر رہ گیا ہے۔


اسلامی افکار و احکام سے صریح دشمنی اور دیدہ دانستہ ہر ممکن ضرر رسانی کی اس فضا میں مذہبی افکار کی حقانیت اور سربلندی کے لیے کام کرنا اور دینی رشتوں سے اپنے آپ کو منسلک رکھنا، توحید و رسالت کا اثبات و اعلان کرنا، محبتِ رسولVکے نغمے چھیڑنا معمولی بات نہیں، لیکن دل کشا حقیقت یہ ہے کہ آپ کو مذہبی شعور اور اس کے نظامِ اقدار سے گہری اور پُرخلوص وابستگی کے مظاہر بھی یہاں سے امریکا تک جہاں جہاں اسلامی معاشرہ قائم ہوا ہے وہاں وہاں واضح طور پر نظر آئیں گے۔ اس لیے کہ مسلمان کی انفرادی زندگی میں ختمی مرتبت نبیِ آخر الزماں حضرت محمد مصطفی Vکی محبت ایمان کا لازمی جزو ہے تو اجتماعی دائرے میں آپ V کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا اسلام کا لازمی تقاضا ہے۔ یہ محبت اور تقاضا دونوں مل کر ایک ایسی مضبوط اساس اور مستحکم رابطے کی نوعیت اختیار کرلیتے ہیں جس پر اسلامی عقائد و عبادات ہی نہیں، بلکہ باہمی انسانی اخوت و اخلاص کی عمارت بھی استوار ہوتی ہے۔ بقول اقبالؔ:


عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اوّلیں ہے عشق

عشق نہ ہو تو شرعِ دیں بت کدۂ تصورات

٭

شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام

میرا قیام بھی حجاب ، میرا سجود بھی حجاب

اس تناظر میں ہم ایسے مسلمانوں کی زندگی اور اُن کی شعری تخلیقات پر نظر ڈالتے ہیں جو ساری عمر عشقِ نبیِ کریمVکو بصد خلوص نہ صرف نبھاتے رہے، بلکہ اپنے افکار و خیالات میں اعلانیہ اپنے ایمان کی اس اساس اور مستحکم سماجی رابطے اور عشق و شوق کے اس تسلسل کا والہانہ اقرار و اظہار بھی غیرمشروط طور پر کرتے رہے۔ یہ وہ خوش بخت لوگ ہیں جو ایک طرف تو اس اقرار و اظہار سے اپنے اور اُمتِ مسلمہ کے دینی جذبات و احساسات کی تکمیل و تسکین کا سامان کرتے رہے اور دوسری طرف انھوں نے اسلام دشمن قوتوں، تحریکوں اور نظریات کی پھیلائی ہوئی فکری تیرگی کے انسانیت دشمن ماحول میں عشقِ نبی کریمV کے وسیلے سے عزم و ہمت اور وفاداری و جاں نثاری کے چراغوں کو فروزاں کرکے حقِ غلامی بھی ادا کیا۔ اسلامی تہذیب سے آراستہ معاشروں، ملکوں اور زبانوں میں نعت گوئی انھی جذبات و احساسات کا بلیغ ترین مظہر ہے۔


تاریخِ ادب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ظہورِ اسلام کے بعد ہر دور کے شعرا نے ہادیِ برحق نبیِ مکرمVکے اوصاف و مناقب اور جمالِ صورت و کمالِ سیرت کے بیان میں ُحسنِ کلام اور ُحسن ِعقیدت کی جولانیاں دکھائی ہیں۔ آپVکے حسن و جمال کی بوقلمونی، آپ Vکی سیرتِ مبارکہ کے نقوشِ لازوال، میلاد و معراج کے تذکرے، آپ کا پیغام، تقویٰ، طہارت، عالم گیری و جہاں بانی، آپ کی محبت میں سوز و گداز، ہجر و وصال، آپ کے قرب کی خواہش، طلبِ شفاعت، آپ کے شہر میں قیام اور موت کی تمنا، آپ کے معجزات و غزوات، آپ کی تعلیمات میں انسان دوستی اور خیر کی روشنی سے معمور معاشروں کی صورت گری ایسے افکار و تصورات نعت گوئی کے عام اور مستقل موضوعات رہے ہیں۔ نعت گوئی کا دامن بھی اسلام کی توسیع کے ساتھ برابر پھیلتا رہا۔ عرب اور اس کے بعد عجمی ممالک میں جب اسلام کا نور پھیلا تو اس میں مقامی رنگوں کی آمیزش نے بھی اس صنف کے موضوعات اور اسالیب کو وسعت دی۔ خصوصاً فارسی نعت گوئی جو طلوعِ اسلام سے کم و بیش تین صدی بعد وجود میں آئی، اس میں جن موضوعات نے جگہ پائی ان میں آشوبِ ذات اور آشوبِ دہر بھی شامل ہوئے۔ اسلامی ممالک میں سیاسی کش مکش، سلطنتوں کی شکست و ریخت اور اقتدار کی جنگ و قتال نے جہاں آبادیوں کو تہ و بالا کیا وہیں لوگوں کے معاشی اور معاشرتی نظام کو بھی زیر و زبر کرکے رکھ دیا۔ اس قسم کے آشوب و ابتلا میں شعرا نے اپنے مصائب و آلام کے نوحے اور حزن و ملال کے مرثیے لکھے۔ استغاثے اور استمداد کے مضامین سامنے آئے جن سے اُردو نعت کے موضوعات کا دامن مزید وسیع ہوا۔


عربی و فارسی کے بعد اُردو زبان میں بھی نعتیہ شاعری کو قبولِ عام حاصل ہوا۔ اُردو میں نعتیہ شاعری کی ایک طویل روایت ہے، اور یہ روایت صرف اظہار کے پیرایوں اور پیمانوں کی نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق ان آداب اور محتاط رویوں سے بھی ہے جو مضامینِ مدحت کو تخیّلی پیکر دینے اور برتنے میں نزاکتیں پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ اُس بارگاہ میں نہ تو بے باکیوں کی گنجائش ہے اور نہ ہی غیر معتدل مبالغے کی پذیرائی۔ اس لیے نعتیہ شاعری روایتی شاعری سے کہیں زیادہ مشکل ہے، لیکن ان مشکلات اور پابندیوں کے باوجود نعتیہ شاعری کو رسمی طرزِ سخن کے خانے میں رکھ کر نہیں دیکھا جاسکتا، کیوںکہ نعتیہ شاعری گہری ارادت اور عقیدت سے تحریک تو ضرور پاتی ہے، لیکن اسے محض عقیدت و محبت کا اظہار سمجھنا اس کی فکری و فنی قدر و قیمت کی نفی کرنے کے مترادف ہے۔ یہ غزل، نظم یا کسی بھی دوسری صنفِ ادب کی طرح ایک ایسی صنفِ اظہار ہے جس میں نازک خیالات اور گہرے افکار کو سہارنے کی پوری سکت ہے۔ نعت کا تخلیقی تناظر اس امر کی صداقت کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔


ہمارے عہد تک آتے آتے اُردو میں نعتیہ شاعری عظمت، رفعت، علمی وقار، لسانی بلندی و لطافت کی مقبولیت کی کئی منازل طے کرچکی ہے اور آج یہ اپنے موضوع کے لحاظ سے اُردو شاعری میں ایک امتیازی شان سے جلوہ گر ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں اُردو نعت گوئی میں فکری اور تخلیقی اعتبار سے جو توانا رجحانات سامنے آئیں ہیں، وہ خوش کن ہی نہیں فکر افروز بھی ہیں۔ عصرِ حاضر کے نعت گو شعرا کا نظامِ فکر و وجدان، قرآنی تعلیمات اور اسلامی اقدار و شعائر کے تحت تشکیل پاکر سامنے آتا ہے۔ آج کا نعت نگار اجتماعی، انفرادی اور کائناتی دُکھوں کے مداوے کے لیے سیرتِ اطہر سے روشنی کشید کر رہا ہے۔ یوں ہماری نعت اسلام اور روحِ اسلام، کائنات اور مقصدِ کائنات، رسولVاور حیاتِ رسول V کی تفہیم کا ایک وسیلہ بن کر محض عقیدت کا معاملہ نہیں رہی، بلکہ فکری و فنی سطح پر بھی ادب و تہذیب کا معتبر حوالہ بن گئی ہے۔


ہمارا عہد صرف نعت کے تخلیقی امکانات ہی کا عہد ثابت نہیں ہوا، بلکہ اس میں نعت کے تنقیدی رجحان اور مطالعاتی منہاج نے بھی نمایاں طور سے فروغ پایا ہے۔ خصوصاً نعت کی فنی و فکری پرکھ کے لیے برسوں سے مروّجہ روایتی تنقیدی اصولوں کی جگہ نئے تنقیدی نظریات کے تناظر میں مطالعۂ نعت کی ضرورت و اہمیت کا احساس اجاگر ہوا۔ اس ضمن میں معروف نقاد ڈاکٹر ناصر عباس نیر کا یہ اقتباس میری بات کی وضاحت کے لیے کافی ہوگا:

"اُردو نعت کی تنقید اس کے تخلیقی ارتقا کا ساتھ دینے سے قاصر رہی ہے۔ اُردو نعت میں ہیئت، اسلوب اور تکنیک کی سطحوں پر جو ارتقائی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، انھیں سمجھنے، ان کی فنی حیثیتوں کا مطالعہ کرنے اور نئے تنقیدی نظریات کی روشنی میں ان کی تعبیر کرنے کی کوشش خال خال ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ اُردو نعت کے تنقیدی مطالعات کی کمی نہیں، مگر یہ مطالعات چند بندھے ٹکے، پامال تنقیدی اصولوں کی روشنی میں کیے گئے ہیں۔ چناںچہ یہ مطالعات اُردو نعت کی شعریات کی گہرائی اور وسعت سے متعلق ہمارے علم میں کوئی اضافہ نہیں کرتے۔ دوسری طرف نعت کا تنقیدی مطالعہ دیگر شعری اصناف کے مطالعے سے خاصا مختلف اور کہیں زیادہ ذمے داری کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ ذمے داری صرف ان تلمیحات کے مستند علم اور ان کے سلسلے میں تقدس و احترام سے عبارت نہیں، جن کا تعلق سیرتِ رسولVسے ہے، بلکہ اس کا تعلق اس امر کے انکشاف سے بھی ہے کہ کس طرح مذہبی و مدحیہ و تحسینی تجربہ، ایک شعری تجربے میں منقلب ہوتا ہے اور کس طرح یہ شعری تجربہ وقت کے ساتھ نئے نئے اسالیب میں ظاہر ہوتا ہے۔ "

(مضمون سے اقتباس مشمولہ نعت اور جدید تنقیدی رُجحانات، مطبوعہ ۲۰۱۶ء، نعت ریسرچ سینٹر، کراچی)


نعتیہ ادب کی تنقید کے بارے میں اس احساس تک پہنچنے کے لیے ’’نعت رنگ‘‘ نے ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ آج نعت پر تنقید کا سفر راست سمت میں جاری ہے اور اس کارواں کا ہر قدم اس منزل سے قریب تر ہوتا جارہا ہے جس کی تمنا ’’نعت رنگ‘‘ کے آغاز میں ہمارے ذہنوں میں بیدار ہوچکی تھی۔ اب ہمارے بیشتر لکھنے والے اسی احساس کے ساتھ اس کارواں میں شامل ہورہے ہیں۔ اُردو تنقید کے معتبر ناموں کا اس کارواں میں شامل ہونا یقینا ’’نعت رنگ‘‘ کے سفر کو اعتبار عطا کررہا ہے۔ نعتیہ ادب میں تازہ مکالمے اور نئے بیانیے کی روشنی طلوع ہورہی ہے۔ ’’نعت رنگ‘‘ کا ہر تازہ شمارہ اس بدلتے تناظر کو نمایاں کرنے والا ایک ایسا اُجلا آئینہ بنتا جارہا ہے جو مستقبل میں بھی اپنے موضوع پر کام کرنے والوں کے لیے رہنمایانہ کردار ادا کرنے کے ساتھ حوالہ جاتی ضرورتوں کو بھی پورا کرے گا۔ (ان شاء اللہ)


’’نعت رنگ‘‘ کا شمارہ ۲۷ پیشِ خدمت ہے۔ تائید و توفیقِ الٰہی کے بغیر کسی کامیابی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ’’نعت رنگ‘‘ بھی فضلِ خداوندی کے سوا کچھ نہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ اُردو کے اہم لکھنے والے بڑی تیزی سے اس صراطِ خیر کے مسافر بنتے چلے جارہے ہیں۔ پیشِ نظر شمارے کے مشمولات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ ہم کو جس راستے کا مسافر بنایا گیا تھا اس پر استقامت اور کامیابی بھی ہمارے ساتھ کردی گئی تھی۔ ر٭ّبِ کریم نے شکر ادا کرنے والوں کو مزید نوازنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ سو، میرے ساتھ ’’نعت رنگ‘‘ کے تمام لکھنے والوں اور پڑھنے والوں کو بھی اس سلسلے میں اپنی دعائوں کو شکرگزاری کے جذبات کے ساتھ جاری رکھنا چاہیے۔


یہاں ایک نکتے کی طرف توجہ دلانا ضروری محسوس ہورہا ہے۔ کوئی لکھنے والا ہو یا پڑھنے والا، ہر شخص کا ہر دوسرے شخص سے مکمل اتفاق ضروری نہیں ہے۔ مکمل یا جزوی اختلاف کسی سے بھی ہوسکتا ہے۔ اختلاف کوئی بری چیز بھی نہیں ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے، ادب، فکر اور تنقید کے لیے تو یہ بڑی بابرکت شے ہے۔ اس لیے کہ اس سے خیال کے نئے در وا ہوتے اور فکر و نظر کے نئے زاویے سامنے آتے ہیں۔ تاہم یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اختلاف کو فکری و نظری سطح پر رہنا چاہیے۔ اسے ذاتی یا شخصی ہرگز نہیں بننا چاہیے اور نہ ہی اسے مخالفت کی سطح پر آنا چاہیے۔ نیا ہو یا پرانا، چھوٹا ہو یا بڑا، ہر لکھنے والے کی اپنی ایک حیثیت اور اہمیت ہے۔ البتہ پرانے اور بڑے لکھنے والوں کے لیے ہمارے رویے میں زیادہ سنجیدگی، متانت اور لحاظ نظر آنا چاہیے۔ اس لیے کہ ہم اپنے بڑوں کی عزت و وقار کا خیال رکھتے ہوئے نظر آئیں گے تو یہ دراصل بعد والوں کی تربیت کا ذریعہ بھی ہوگا۔ ’’نعت رنگ‘‘ نے اختلافات کو ہمیشہ خوش آمدید کہا ہے۔ اس شمارے میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ تاہم آئندہ بے احتیاطی یا بے ادبی کو محسوس کرتے ہوئے ادارہ کسی بھی مضمون کی اشاعت سے انکار کا حق محفوظ رکھتا ہے۔


اس شمارے میں معروف شاعر، نعت نگار اور نقاد و محقق محترم ڈاکٹر ریاض مجید کا ایک مضمون بھی شامل ہے، جس میں نعت کے تحقیقی و تنقیدی مطالعات کے لیے بعض موضوعات کی نشان دہی کی گئی ہے۔ ہمیں بے حد خوشی ہوئی کہ اُن جیسی شخصیت نے نہ صرف اس کام کی ضرورت محسوس کی، بلکہ اس پر قلم بھی اٹھایا۔ گزشتہ برس ہم نے بھی پاکستان اور ہندوستان کی نمایاں جامعات کو ایک مراسلہ بھیجا تھا، جس میں کچھ موضوعات کا تعین کیا گیا تھا۔ اعادے کی غرض سے اُن موضوعات کو یہاں درج کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔


۱۔ نعت پر شرعی تنقیدی افکار کا تنقیدی محاکمہ

۲۔ جدید اردو نعت کا اسلوبیاتی مطالعہ

۳۔ قدیم و جدید نعتیہ شاعری کے اہم رجحانات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ

۴۔ اردو کے معروف غزل گو شعرا کی نعت گوئی کا تنقیدی مطالعہ

۵۔ بیس ویں صدی کے مقبول نعت نگار/ احوال و آثار

۶۔ اردو نعتیہ شاعری میں رزمیہ عناصر کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ

۷۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ شعرا کی نعتیہ شاعری کا تنقیدی مطالعہ

۸۔ نعت گو شاعرات کی زبان و بیاں کے خصوصی امتیازات

۹۔ اردو مرثیے میں نعتیہ عناصر کا تنقیدی و تحقیقی مطالعہ

۱۰۔ اردو کے اہم تذکروں میں نعتیہ اشعار کے حوالوں کا تحقیقی مطالعہ

۱۱۔ نعتیہ شاعری میں موضوعِ روایات کا محققانہ جائزہ

۱۲۔ اردو نعت کی شعری جمالیات کا تجزیاتی مطالعہ

۱۳۔ اردو کی قدیم مثنویوں میں نعتیہ عناصر کا تحقیقی جائزہ

۱۴۔ اردو کے قدیم قصائد میں نعتیہ عناصر کا تحقیقی مطالعہ

۱۵۔ اردو نعت پر لکھے گئے تحقیقی مقالات کا تنقیدی جائزہ

۱۶۔ نعتیہ ادب میں تحقیقی مقالوں کے موضوعات اور طریقِ تحقیق کا تنقیدی جائزہ

۱۷۔ اردو میں نعتیہ صحافت کا تحقیقی جائزہ

۱۸۔ نعتیہ تذکرہ نگاری کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ

۱۹۔ اسلامی ادب کی تحریک اور فروغِ نعت کے امکانات— ایک تحقیقی مطالعہ

۲۰۔ اردو میں نعتیہ گیت نگاری کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ

۲۱۔ اردو کی روایتی اور جدیدنعتیہ شاعری کے موضوعات کا تقابلی مطالعہ

۲۲۔ نعت نمبروں کی روایت کا تحقیقی جائزہ

۲۳۔ نعت گو شعرا کے فکر و فن پر لکھی جانے والی کتب کا تنقیدی جائزہ

۲۴۔ اردو نعت اور عقیدۂ ختم نبوت— ایک تحقیقی جائزہ

۲۵۔ اردو میں نعتیہ گل دستوں کی روایت کا تحقیقی مطالعہ

۲۶۔ جدید اردو غزل میں نعتیہ عناصر کا تحقیقی مطالعہ

۲۷۔ قصیدہ بردہ کے منظوم اردو تراجم کا تقابلی جائزہ

۲۸۔ اردو نعتیہ شاعری میں قرآن و احادیث کی تلمیحات کا تحقیقی مطالعہ

۲۹۔ فتاواے رضویہ میں نعتیہ نکات کا تحقیقی جائزہ

۳۰۔ نعت میں سراپا نگاری کی روایت کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ

۳۱۔ پاکستان/ بھارت کی علاقائی زبانوں میں نعت گوئی کا تحقیقی جائزہ

۳۲۔ پاکستان میں نعت خوانی کا فن— فروغ و ارتقا سے مسائل و مباحث تک

۳۳۔ اردو کے اہم نعتیہ انتخابوں کا تنقیدی مطالعہ

۳۴۔ اردو میں نعتیہ دیباچہ نگاری کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ

۳۵۔ اردو میں غیر منقوط نعتیہ شاعری کی روایت کا تحقیقی جائزہ

۳۶۔ جدید اردو نعت میں علامت نگاری کے رجحانات کا تنقیدی جائزہ

۳۷۔ اردو نعت میں تلمیحات کا استعمال— ایک تحقیقی مطالعہ

۳۸۔ اردو کے نمائندہ نعت شناس— احوال و آثار

۳۹۔ اردو کے اہم نعتیہ قصائد کا تجزیاتی مطالعہ

۴۰۔ اردو نعتیہ شاعری میں فلسفیانہ رجحانات کا تحقیقی مطالعہ

۴۱۔ اردو کی متصوفانہ شاعری میں نعتیہ عناصر کا تحقیقی جائزہ

۴۲۔ نعتیہ ادب میں منظوم تراجم کی روایت کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ

۴۳۔ جامعات میں نعت شناسی کی روایت کا تحقیقی جائزہ

۴۴۔ فروغِ نعت میں تعلیمی اداروں کا حصہ— ایک تحقیقی مطالعہ

۴۵۔ فروغِ نعت میں رسالہ ’’شام و سحر‘‘ کا حصہ— ایک تحقیقی مطالعہ

۴۶۔ ’’نعت نامے‘‘ [مجموعۂ خطوط] کا تجزیاتی و تنقیدی مطالعہ

۴۷۔ بیس ویں صدی کے رسول V نمبر اور نعتیہ ادب— ایک تحقیقی مطالعہ

۴۸۔ نعت رنگ کے تنقیدی مباحث— ایک تحقیقی مطالعہ

۴۹۔ نعتیہ تنقید کے فروغ میں ڈاکٹر عزیز احسن کا حصہ— ایک تحقیقی مطالعہ

۵۰۔ حفیظ تائب کی دیباچہ نگاری کا تنقیدی مطالعہ

۵۱۔ ڈاکٹر سیّد محمد ابوالخیر کشفی اور نعت کے تنقیدی زاویے— ایک تحقیقی مطالعہ

۵۲۔ فروغِ نعت میں راجا رشید محمود اور ان کے رسالے ’’ماہنامہ نعت‘‘ کا حصہ

۵۳۔ فروغِ نعت میں پروفیسر محمد اکرم رضا کی خدمات کا تحقیقی جائزہ

۵۴۔ فروغِ نعت میں پروفیسر محمد اقبال جاوید کی خدمات کا تحقیقی جائزہ

۵۵۔ اردو نعت میں شرعی تنقید اور رشید وارثی— ایک تنقیدی مطالعہ

۵۶۔ نعت کا تنقیدی منظرنامہ اور ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی— ایک مطالعہ

۵۷۔ فروغِ نعت میں گوہر ملسیانی کی کاوشوں کا تحقیقی مطالعہ

۵۸۔ نعتیہ تذکرہ نگاری اور نور احمد میرٹھی— ایک تحقیقی مطالعہ

وفیات:[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’نعت رنگ‘‘ کے ہر شمارے میں بعض رفیقانِ سفر کی جدائی کا ذکر کرتے ہوئے دل کی عجب حالت ہوتی ہے۔ موت ایک حقیقت ہے، مگر جانے والے اور خاص طور پر آپ کے فکری یا نظریاتی رفقا جو نعت کے فروغ میں آپ کے ساتھ شانہ بہ شانہ مصروفِ عمل رہے ہوں، ان کی جدائی معمولی صدمہ نہیں رہتی: کتنے رفیق ہم سے اچانک بچھڑ گئے

اب ان کی زندگی بھی بسر کر رہے ہیں ہم(نیازبدایونی)

’’نعت رنگ‘‘ نے نعت کے ادبی فروغ کی جو تحریک شروع کی تھی، اس میں شامل ہر وہ شخص جو آج بہ ظاہر ہمارے ساتھ نہیں، اب بھی شریکِ کار ہے۔ اس لیے کہ ’’نعت رنگ‘‘ میں نعت پر مجموعی ادبی گفتگو کی مضبوط و مستحکم ہوتی فضا میں ان کی آوازوں اور تحریروں کا جذب و شوق ہمیشہ شامل رہے گا۔ شمارہ چھبیس اور ستائیس کی اشاعت کے درمیانی عرصے میں بھی ہمیں ایسے ہی صدموں سے دوچار ہونا پڑا۔ دیکھیے کن کن دوستوں کا زخمِ جدائی روح پر دائمی نقش چھوڑ گیا، کیسے کیسے زخم دل کا گھائو بنے، بیان مشکل ہے۔

منیبہ شیخ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت خوانی کے اُفق پر چالیس سال سے معیار، اعتبار، عشق و ادب اور تہذیب و شائستگی کی علامت بن کر چمکنے والا نمایاں ستارہ بھی موت کی تاریکی میں گم ہوگیا، مگر اپنے پیچھے نعت خوانی کے اعلیٰ ذوق اور پڑھت کی ایک ایسی مؤدب اور شائستہ مثال چھوڑ گیا جسے نعت کی مجلسی روایت میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ منیبہ شیخ بنیادی طور پر درس و تدریس سے وابستہ رہیں، اس لیے انھوں نے نعت خوانی کے شعبے میں بھی اپنے نظریۂ نعت خوانی اور اندازِ ادائی کی تربیت کا بہت خیال رکھا، جس کی عمدہ مثال ان کی منہ بولی بیٹی تحریم کے اندازِ ثنا خوانی میں نظر آتی ہے۔ انھوں نے ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن سے اپنے پڑھے ہوئے کلام سے بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغۂ ُحسنِ کارکردگی سے بھی نوازا۔

گوہر ملسیانی (۱۵؍جولائی ۱۹۳۴ء- ۲۵؍فروری ۲۰۱۷ء)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اُردو کے اہم شاعر، ادیب اور تذکرہ نگار پروفیسر طفیل احمد گوہر ملسیانی بھی اس سال ہم سے رُخصت ہوئے۔ گوہر ملسیانی نے نہ صرف کئی علمی کتابیں تصنیف کیں، بلکہ اسلامی اصنافِ شعری کی تخلیق میں خصوصی دل چسپی لی اور حمد و نعت لکھنے والے اہلِ سخن کو بھی سنجیدگی سے سراہا۔ ’’عصرِ حاضر کے نعت گو‘‘ گوہر ملسیانی کے قلم سے نکلنے والا وہ ادبی شاہکار ہے جس نے ان کی تذکرہ نگاری اور تنقیدی جوہر ہی کو اجاگر نہیں کیا، بلکہ پاکستان کے ادبی منظرنامے پر نعت کے ادبی اسالیب کی چاندنی بھی بکھیر دی۔ ادب کی عمومی جہتوں کے حوالے سے بھی تنقید، تحقیق، شاعری اور نثرنگاری کے شعبوں میں گوہر ملسیانی نے ایسے کئی علمی کام چھوڑے ہیں جن کی روشنی سے علم و ادب کے افق پر اُجالا رہے گا۔

خصوصاً نعتیہ ادب کے لیے گوہر ملسیانی کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ ’’نعت رنگ‘‘ کے ساتھ ان کا تعلق نہایت گہرا تھا۔ ہر شمارے کے لیے وہ کچھ نہ کچھ لکھتے رہے۔ آخری دنوں میں میرے کہنے پر انھوں نے نعت پر اپنے لکھے ہوئے مضامین یک جا کرکے اشاعت کے لیے ’’کتاب سرائے‘‘ کو بھیجے تھے۔ اُمید ہے جلد وہ مجموعۂ مضامین شائع ہوکر مطالعاتِ نعت کے سرمائے کو مزید وقیع کرے گا۔ گوہر صاحب کے چند شعر ملاحظہ فرمائیں:

اتباعِ صاحبِ قرآن کرنا ہے مجھے

جنت الفردوس کا سامان کرنا ہے مجھے

آپ کا پیغام لے کر مصحفِ قرآن سے

پھر مکمل نعت کا دیوان کرنا ہے مجھے

پیش کرنا ہے مجھے گوہرؔ محبت کا ثبوت

جان و تن ، مال و متاع ، قربان کرنا ہے مجھے

بیکل اُتساہی (یکم جون ۱۹۲۸ء - ۳؍دسمبر ۲۰۱۶ء)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شعر و ادب کی دُنیا میں بیکل اتساہی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ اپنے مخصوص شاعرانہ اسلوب اور دل آویز ترنم سے بین الاقوامی شہرت حاصل کرنے والے اس اہم شاعر کے تعارف کا ایک معتبر اور وقیع حوالہ نعت گوئی بھی ہے جس میں ان کی پہچان اور اختصاص ان کے پوربی، اودھی اور بھوجپوری زبانوں میں لکھے گئے وہ گیت ہیں جو ماحول کو منور اور سماعتوں کو روشن کرتے رہے ہیں۔ ان کے کئی مختصر مجموعے ۱۹۹۲ء سے پہلے ہی شائع ہوچکے تھے جن میں ’’نغمۂ بیکل‘‘، ’’تحفۂ بطحا‘‘، ’’خوشۂ عقبیٰ‘‘، ’’سرورِ زندگی‘‘، ’’پیامِ رحمت‘‘، ’’جامِ گل‘‘، ’’موجِ نسیم‘‘، ’’سرورِ جاوداں‘‘، ’’نورِ یزداں‘‘، ’’نور کی برکھا‘‘، ’’عرش کا جلوہ‘‘، ’’نشاطِ زندگی‘‘، ’’بزمِ رحمت‘‘، ’’آفتابِ نور‘‘، ’’حسن مجلّیٰ‘‘، ’’موجِ نسیم‘‘، ’’کلامِ بیکل‘‘ اور ’’ترانۂ بیکل‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ ۱۹۹۲ء میں ان کا نعتیہ مجموعہ ’’والضحیٰ‘‘ شائع ہوا، اور پھر ۱۹۹۷ء میں ’’والفجر‘‘ زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا۔ بیکل اتساہی پاکستان نعت اکیڈمی کے زیرِ اہتمام ’’عالمی نعت کانفرنس‘‘ میں ادیب رائے پوری کی درخواست پر پہلی بار کراچی ۱۹۸۲ء میں تشریف لائے۔ پھر اس کے بعد متعدد عالمی مشاعروں میں اُنھیں کراچی مدعو کیا گیا۔ ان کی مقبولیت اور خدمات کو دیکھتے ہوئے حکومتِ ہند نے انھیں ’’پدم شری ایوارڈ‘‘ سے بھی نوازا۔ یقین کی روشنی سے منور بیکل اتساہی کا یہ قطعہ ملاحظہ کیجیے اور ان کی مغفرت کے لیے دُعا میں شامل ہوجایئے:


چہرۂ گردشِ ماحول نکھر جائے گا

ایٹمی دَور کا انسان سدھر جائے گا

اے نئے دَور تجھے امن کی حاجت ہے اگر

تھام لے دامنِ سرکارV، سنور جائے گا

ڈاکٹر محمد اسلم فرخی (۲۳؍اکتوبر ۱۹۲۳ء- ۱۵؍ جون ۲۰۱۶ء)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

معروف استاد، ادیب، شاعر، خاکہ نگار، محقق، انشا پرداز اور براڈ کاسٹر پروفیسر ڈاکٹر محمد اسلم فرخی علمی و ادبی حلقوں میں بے حد مقبول تھے اور احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ خاکہ نگاری میں ان کے کام نے معیار اور اعتبار کے حوالے سے زندہ رہنے والے نقش قائم کیے۔ تصوف ان کا خاص اور پسندیدہ موضوع رہا۔ ’’نظامِ رنگ‘‘ ان کے رنگِ عقیدت کو بجا طور پر ظاہر کرنے والی کتاب ثابت ہوئی۔ شعر بہت عمدہ کہتے تھے۔ میں نے ’’نعت رنگ‘‘ کے شمارہ نمبر ۲، دسمبر ۱۹۹۵ء میں ان کی چند نعتوں پر مشتمل ایک گوشہ شائع کیا تھا جسے خاصی پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔ بعدازاں بھی ڈاکٹر صاحب ’’نعت رنگ‘‘ کے لیے کبھی کبھی کوئی تحفہ عطا فرماتے رہے۔ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرنا اور انھیں علمی و ادبی طور پر متحرک رکھنے کے لیے ڈاکٹر صاحب نے ہمیشہ حوصلہ افزا رویہ رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے گرد ان کے شاگردوں کا ایک بڑا حلقہ آخری عمر تک قائم رہا۔ ان کی نعت کے چند شعر ملاحظہ فرمائیں:

مری رفتار کے دیکھو قرینے

مدینے جا رہا ہوں میں مدینے

براہِ شوق ہوں محتاط اتنا

بندھے ہوں جیسے پیروں میں نگینے

مرا اعزاز حد سے بڑھ گیا ہے

بلایا ہے مجھے میرے نبی نے

محبت کی ہوا میں اُڑ رہا ہوں

رواں جیسے سمندر میں سفینے

مدینے پہنچے پھر واپس نہ آئے

کیا ہے قصد اسلم فرخی نے

حسن اکبر کمال (۱۴؍ فروری ۱۹۴۶ء - ۲۱؍جولائی ۲۰۱۷ء)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حسن اکبر کمال ایک باکمال شاعر و نقاد تھے۔ غزل، گیت نگاری، حمد و نعت اور سلام و منقبت میں انھوں نے اپنے فن کے کمالات دکھائے اور خوب شہرت کمائی۔ عزت و شہرت اور نام وری کے باوجود اُن کی طبیعت میں انکسار تھا۔ میں نے اکثر انھیں اپنے ایک دوست پروفیسر مختار کے ہاں محفلِ نعت میں جو ہر سال منعقد ہوتی تھی، بڑی نیازمندی اور عاجزی سے شریکِ بزم دیکھا۔ محفل کے اختتام پر ان کا محبت سے قریب آنا، پڑھے گئے کلام پر اپنی پسندیدگی کا والہانہ اظہار کرنا اور نم ناک آنکھوں سے دعائیں دینا اس حقیقت کو سامنے لاتا تھا کہ وہ اندر سے روشن اور دینی اقدار کو اہمیت دینے والی شخصیت ہیں۔ پھر کچھ عرصے بعد وہ میرے اور قاری وحید ظفر قاسمی صاحب کے پڑھے ہوئے کلام یا ان بحروں میں کچھ نعتیں لکھ کر محفل میں آنے لگے اور ان کی خواہش رہتی کہ ہم ان نگارشات کو محفل میں پڑھیں۔ ہم دونوں نے ان کی چند نگارشات پڑھیں بھی جس پر محفل میں ان کی سرشاری اور اشک باری آج بھی یادداشت کا حصہ ہے۔ چند سال پیشتر ان کا مجموعۂ نعت ’’التجا‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ یہ مجموعہ سعادت کا مرقع ہے جس میں حضور نبی کریم V کو عقیدت اور والہانہ انداز میں یاد کیا گیا ہے۔ ہر صفحے پر حضوری کی کیفیات کا سلیقے اور شائستگی سے اظہار ملتا ہے:

وہ سبز گنبد ، سنہری جالی ، حرم کا جلوہ جو یاد آیا

تڑپ اُٹھا دل ، وہاں سے آکر دیارِ طیبہ جو یاد آیا

حریمِ سرکار میں تھا حاضر ، میں بے نوا نعت گو مسافر

عجیب دل نے سکون پایا ، وہ ایک لمحہ جو یاد آیا

ریاض حسین چودھری مرحوم (۸؍نومبر ۱۹۴۱ء- ۶؍ اگست ۲۰۱۷ء)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ریاض حسین چودھری کا شمار پاکستان کے ان چنیدہ نعت گو شعرا میں ہوتا تھا جو اپنے اسلوب سے الگ پہچانے جاتے تھے۔ تازہ کاری اور عشق و محبت کا والہانہ پن ان کے اسلوب کے نمایاں اوصاف تھے۔ جدید نعت کے جتنے موضوعاتی زاویے ہوسکتے تھے، ریاض حسین چودھری کے ہاں سب کے سب نہایت سلیقے اور توازن کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ اپنے تخلیقی سرمائے سے نعتیہ ادب کو ثروت مند کرنے والے اس شاعر نے بارہ مجموعے پیش کیے، جب کہ تیرھویں اور چودھویں مجموعے کے مسودے تیار ہیں اور ان پر اہلِ علم سے تأثرات حاصل کیے جارہے تھے۔ ان کا اسلوب جس طرح شاعری میں منفرد اور جدید تھا اسی طرح ان کی نثر بھی نہایت خوب صورت تھی۔ نعتیہ ادب پر لکھے ہوئے ان کے مضامین اکثر ’’نعت رنگ‘‘ کی زینت بنتے رہے ہیں۔ وہ عمر کے آخری حصے میں بھی تخلیقی طور پر نہایت فعال اور متحرک رہے۔ کئی بیماریوں سے نبرد آزما ہونے اور ضعف کے باوجود نعت گوئی کا شغف انھیں تازہ دم رکھتا تھا۔ اکثر فون پر اپنے آنے والے مجموعوں کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے ان کی آواز میں عزم و ہمت کی روشنی صاف محسوس ہوتی تھی۔ کتابوں کے ناموں پر مشورہ، کن احباب سے رائے لی جائے، ’’نعت رنگ‘‘ میں شائع ہونے والے تنقیدی مضامین پر اپنے خیالات کا اظہار، غرضے کہ وہ نقاہت اور بیماری کے باوجود کافی دیر تک فون پر گفتگو میں مصروف رہتے اور نعت کے ادبی فروغ کی صورت گری کے خوابوں کو تعبیر میں ڈھلتے دیکھ کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے۔ انھوں نے اپنی نعت کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مکالمے کی صورت دے دی تھی۔ دیکھیے لاغر وجود میں ایک توانا روح کس طرح آقا سے التجائے کرم میں مصروف ہے:


حضور کتنے عوارض بدن سے لپٹے ہیں

قدم اُٹھانے کی ہمت نہیں رہی آقا

حضور سانس بھی لینا محال ہے اب تو

کھڑی ہے سر پہ مرے شامِ زندگی آقا


ان کے چار مجموعوں کو صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ خدا کرے ان کا باقی ماندہ تخلیقی و تحریری سرمایہ بھی شائع ہوکر محفوظ ہوجائے۔

ثاقب انجان مرحوم (۲۴؍جولائی ۱۹۲۷ء- ۲۴؍اکتوبر ۲۰۱۶ء)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ثاقب انجان کا تعلق کراچی سے تھا۔ جب جب ان سے ملاقات ہوئی ان کی سادگی اور اخلاص نے متأثر کیا۔ غزل کا مجموعہ ’’ریگِ ساحل‘‘، منظوم واقعۂ کربلا ’’حدیثِ غم‘‘ اور نعتیہ مجموعہ ’’ابرِ کرم‘‘ ان کا علمی و تخلیقی سرمایہ ہے۔ مرحوم کو نعت گوئی سے خصوصی شغف تھا، اکثر نعتیہ مشاعروں میں ذوق و شوق سے شرکت کرتے دکھائی دیتے۔ ان کی شخصیت کی طرح ان کی شاعری بھی سادگی کا مظہر تھی:


کس کو دُنیا کی خبر ہے ان دنوں

جانبِ طیبہ سفر ہے ان دنوں

ایک جلوہ ، ایک منزل ، اک خیال

فکر کتنی مختصر ہے ان دنوں

خواب و بیداری میں بھی پیشِ نظر

روضۂ خیرالبشر ہے ان دنوں

رہروِ راہِ مدینہ سے نہ پوچھ

زیست کتنی معتبر ہے ان دنوں

کن خیالوں میں ہیں گم انجانؔ آپ

کون منظورِ نظر ہے ان دنوں


احمد صغیر صدیقی (۱۹۳۸ء- ۲۰۱۷ء)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

تھے یہاں سارے عمل ردِّعمل کے محتاج

زندگی بھی ہمیں درکار تھی مرنے کے لیے


احمد صغیر صدیقی بھی چلے گئے، ان کا یہ خوبصورت شعر ان کے شعری مجموعے ’’لمحوں کی گنتی‘‘ میں کبھی نظر سے گذرا تھا، آج اس اندوہناک خبر نے ذہن میں یہ شعر تازہ کردیا۔ احمد صغیر صدیقی بحیثیت شاعر، ادیب، نقاد، کہانی کار اور مترجم کے عصری ادبی منظرنامے پر اپنی شناخت اور اعتبار کے رنگوں کو گہرا کر چکے تھے۔ ان کی مطبوعہ کتب میں ان کے تراجم کردہ کہانیوں کے چار مجموعے، نفسیات اور پُراسرار علوم پر ان کی متعدد مطبوعہ کتب کے علاوہ ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’گوشے اور جالے‘‘ اور چار شعری مجموعے ’’سمندری آنکھیں‘‘، ’’کاسنی گلپوش دریچے‘‘، ’’اطراف‘‘ اور ’’لمحوں کی گنتی‘‘ شامل ہیں۔ ہندوپاک کے تمام قابل ذکر رسائل و جرائد میں ان کا کلام اور تحریریں تواتر سے شائع ہوتی رہیں۔ نعت رنگ سے انھیں بے حد محبت تھی اور وہ مذہبی شاعری کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات اور ان کے جواب میں شائع ہونے والے مضامین کو بہت توجہ اور شوق سے پڑھتے تھے۔ نعت رنگ میں ان کے مستقل خطوط شائع ہوتے رہے ہیں اور ہر خط میں وہ بعض نکات ایسے اٹھاتے تھے جس پر لوگوں کا ردعمل نعتیہ تنقید میں نئے مباحث کو جنم دیتا تھا۔ میرے نام خطوط کے مطبوعہ مجموعہ ’’نعت نامے‘‘ میں ان کے ۴۵ خط محفوظ ہیں اور وہ بھی ایسے کہ ہر خط ایک مضمون معلوم ہوتا ہے۔ انھوں نے نعت رنگ کے لیے بعض مضامین بھی لکھے جو ان کی تنقیدی بصیرت اور جرأتِ اظہار کا آئینہ خانہ ہیں۔ ان کی نعتیں بھی نعت رنگ میں محفوظ ہوتیں رہیں، وہ ہر شمارے کے لیے کوئی نہ کوئی تازہ نعت بھی ارسال فرماتے۔ مجھ سے آخری ملاقات میں انھوں نے بتایا کہ انھوں نے نعت رنگ کے شمارہ ۲۶ کے مشمولات پر ایک مضمون لکھا ہے وہ جلد فراہم کریں گے، ساتھ ہی یہ ذکر بھی ہوا کہ وہ اپنے عارضہ قلب کے علاج کے لیے امریکہ جانے والے ہیں، پھر ایک دن مجھے ڈاک سے ان کا مذکورہ مضمون موصول ہوا۔ رسید کے لیے فون کیا تو فون بند تھا، معلوم ہوا کہ وہ امریکہ چلے گئے۔ سنا ہے کہ امریکہ جاتے ہوئے ان کی جہاز میں طبیعت بگڑ گئی اور انھیں امریکہ جاتے ہی اسپتال میں داخل کروانا پڑا جہاں وہ دو ماہ زیر علاج رہنے کے بعد گھر منتقل کیے گئے، مگر ان کی صحت سنبھل نہ سکی اور بالآخر ۱۱؍ستمبر ۲۰۱۷ء کو ان کا انتقال ہوگیا۔


نعت رنگ کے قارئین اور نعت کے تنقیدی زاویوں پر کام کرنے والے احمد صغیر صدیقی کو کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے۔ نعت کے ادبی فروغ میں پوری دلچسپی اور ذمہ داری سے جن ادیبوں نے اس عہد میں اپنا حصہ ڈالا اُن میں احمد صغیر صدیقی اور ان کے لکھے ہوئے تنقیدی خطوط کو کبھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے دو نعتیہ شعر ملاحظہ فرمائیں:


آرزو ہے یہی دل میں تری چاہت نہ ہو کم

دور کتنا ہی رہوں لطف رفاقت نہ ہو کم

میرے آقا مجھے دل جوئی کے لفظوں سے نواز

ساری دُنیا میں لٹائوں مری دولت نہ ہو کم

فقیرِ مصطفی امیر (۲۰؍نومبر ۱۹۴۲ء - ۲۲؍ستمبر ۲۰۱۷ء)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

محمد امیر نواز اعوان کا قلمی نام فقیرِ مصطفی امیر تھا۔ میانوالی میں پیدا ہوئے۔ بی اے تک تعلیم حاصل کرکے محکمہ پولیس میں ملازمت اختیار کی اور وہیں سے بحیثیت سینیئر سپرنٹنڈنٹ آفس پولیس پنجاب کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔ دُنیاوی طور پر اس منصب تک پہنچنے کے بعد عموماً انسان میں خودنمائی اور فخر کے کئی پہلو اُجاگر ہو جاتے ہیں، مگر میری جتنی بھی بار موصوف سے فون پر بات ہوئی، میں نے انھیں سراپا نیاز پایا۔ شاعری ان کا مشغلہ تھی۔ متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے مگر جب دامنِ ذکر رسالت سے وابستہ ہوئے تو پھر یہیں کے ہو رہے۔ میری معلومات کے مطابق ان کے چھ نعتیہ مجموعے شائع ہوئے۔ ہو سکتا ہے یہ تعداد زیادہ ہو، ان کی نعت گوئی نبی کریم Vسے ان کی گہری عقیدت اور والہانہ پن کا اظہار ہے۔ انھیں فن سے زیادہ جذبہ صادق کی نمود سے اپنے نعتیہ کلام کو آراستہ کرنے کا ذوق و شوق رہا۔


نعت گوئی سے اپنے پُرخلوص رشتے کے اظہار کے لیے انھوں نے صرف نعت کہی نہیں بلکہ نعت گوئی کے فروغ کے لیے بھی ’’انجمن فقیرانِ مصطفی‘‘ جیسے ادارے قائم کیے جو مسلسل نعتیہ مشاعروں کے انعقاد اور اشاعتی سرگرمیوں میں مصروفِ عمل رہے۔ ان کی ادارت میں سہ ماہی ’’متاعِ امیر‘‘ اور ’’نعت گو‘‘ کے نام سے دو شمارے جاری ہوئے، مگر یہ اپنا اشاعتی سفر زیادہ دیر برقرار نہ رکھ سکے، مگر ان کے چند شمارے بھی فقیرِ مصطفی امیر کے حوصلے، عزم اور لگن کی زندہ گواہی کے طور پر محفوظ ہوگئے ہیں۔ خداوندکریم سے اس خادمِ نعت کی مغفرت کے لیے دُعاگو ہوں۔


نعت گو ہوں، کہیں بھی دفن کرو

شہرِ طیبہ کی حد سے اُٹھوں گا

میں تو محشر میں بھی امیر نواز

نعت پڑھتا لحد سے اُٹھوں گا


دُعا ہے کہ ربِّ کریم ان تمام مرحومین کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین !


صبیح رحمانی