نعتیہ ادب ۔ مسائل و مباحث ۔ نعت گوئی کے لیے شرائط

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


Naat kainaat - naatia masail.jpg

مصنف  : ڈاکٹر ابرار عبدالسلام

کتاب : نعتیہ ادب ۔ مسائل و مباحث ۔ ڈاکٹر ابرار عبدالسلام

(مدیر نعت رنگ کو لکھے گئے خطوط کے آئِینے میں )

کتاب کا پی ڈی ایف ربط : نعتیہ ادب ۔ مسائل و مباحث

نعت گو/ نعت گوئی کے لیے شرائط:[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’ثنائے رسول(ص)‘‘ کے ضمن میں میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ شہر غزل، نعت گو کی تربیت گاہ ہے۔ رموزِشعر سے آشنائی ضروری ہے۔ نعت گو کو شعر کی باریکیوں، نزاکتوں اور لطافتوں سے آگاہ ہونا چاہیے جمالیاتی قدروں کی پاسداری کا اہل ہو تو اسے اقلیم نعت میں داخلے کی اجازت ملنی چاہیے، آنسوؤں سے وضو کرنے کا سلیقہ جانتا ہو تو قلم اٹھائے۔ بارگاہ رسالت مآب(ص) میں ہد یہ نعت پیش کیا جائے تو نعت فنی حوالے سے بھی اعتبارو اعتماد کے معیارات پر پورا اُترتی ہو۔

ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر

نفس گم کردہ می آید جنید و با یزید ایں جا

یہاں تو ذرا سی بھی لغزش یا شوخی سوئے ادب میں شمار ہوگی اس لیے احتیاط اور ادب پہلی شرط ہے لیکن مجھے ڈاکٹر صاحب کے ان خیالات سے اختلاف کرنے کی اجازت دیجیے کہ ’’زبان کے ساتھ فن شاعری اور عروض کا علم بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ یہی شاعری کی اساس ہے‘‘۔

یقینا زبان کے ساتھ فن شاعری اور عروض کا علم بھی شاعر کے لیے ضروری ہے لیکن یہ شاعری کی اساس نہیں۔ شاعری تو دل کے آبگینوں کے رقص میں آنے کا نام ہے، شاعری کی اساس تخیل ہے، شاعرانہ اپروچ ہے۔ اظہار کا کھرا پن ہے۔ ندرتِ فکر اور سوچ کی بلند پروازی ہے۔ جذبے کی سچائی اور اثر پزیری کے اوصاف زندہ شعر کی بولتی علامتیں ہیں، شاعری جمالیاتی شعور کے ابلاغ کا نام ہے، گزارش ہے کہ پہلے شاعری وجود میں آئی۔ فن شاعری کے ضابطے اور اصول اساتذہ کی شاعری سے اخذ کیے گئے کون کافر علم عروض کی اہمیت سے انکار کرسکتا ہے لیکن ہر شاعر کے لیے علم عروض کا ’’ماہر‘‘ ہونا بھی تو ضروری نہیں۔اگر مذکورہ کلیے کو حرف آخر سمجھ لیا جائے تو علم عروض کے ماہرین ہی کو شعر لکھنے کا حق حاصل ہوگا۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ ایک اچھا عروضی ایک اچھا شاعر نہیں ہوسکتا وہ ہر وقت جمع تفریق کے چکر ہی میں رہتا ہے۔ شاعری تو ایک خداداد صلاحیت کا نام ہے، شعوری کوششوں سے محض ان صلاحیتوں میں نکھار پیدا کیا جاسکتا ہے، شاعر پیدا ہوتے ہیں۔ عروض کی کتابیں پڑھ کر شاعر نہیں بنا جاسکتا، علم عروض شاعری کی اساس نہیں بلکہ شاعری علم عروض کی بنیاد ہے، کیا آپ محسوس نہیں کرتے کہ آج لاشعوری طورپر زبان و بیان کا نیا ضابطۂ تحریر مرتب ہو رہاہے۔(ریاض حسین چودھری ص،۳۹۲)


ہمارے بزرگ جو کچھ لکھ گئے ہیں ہم اس سے ہدایت بھی حاصل کرسکتے ہیں اور عبرت بھی بشرطیکہ دیدۂ بینا رکھتے ہوں...... آپ شاید میرے اس مشورے پر ہنس دیں لیکن میں اپنے نوجوان اور جدید شعرا کو یہ مشورہ ضرور دوں گا کہ جس طرح دنیا کا کوئی بھی فن...... گانے بجانے سے لے کر.....کرکٹ، فٹبال اور شاعری تک بغیر سیکھے نہیں آتا...... اس لیے وہ جس شعبے سے بھی متعلق ہوں اس کے بارے میں پرانی سے پرانی اور نئی سے نئی ہر اہم بات ضرور سیکھیں اور معلوم کریں...... خاص طور سے نئے شاعروں کو یہ چاہیے کہ وہ مطالعہ اور مشاہدے کے ساتھ ساتھ جو آئمہ فن آج موجود ہیں ان سے بھی رہنمائی حاصل کریں۔ اس لیے کہ شاعری میں مشکل ترین صنف نعت ہے...... ذرا سے ڈگمگائے اور گئے۔ (سلطان جمیل نسیم ص،۴۳۲)


نعت لکھنا بقول عرفی تلوار کی دھار پر چلنے کا عمل ہے ۔تہذیب وادب کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ شعری جمالیات کا التزام آسان کام نہیں ہے ۔نعت نگاری کے لیے محض سرکارِ دوعالم ؐ کی محبت وعقیدت ہی کافی نہیں ہے ۔اس کے لیے اُس ذات عظیم کی حتی الامکان تفہیم بھی چاہیے ۔یوں تو حقیقت محمدیؐ کوخالق کائنات کے سوا کون جانتا ہے ۔مگر ایک امتی ہونے کی حیثیت سے ہمارے ذہنوں میں ختمی مرتبت ؐ کاکیا تصور ہے ،یہ بات نعت نگاری میں بہت اساسی اہمیت رکھتی ہے ۔رسول کریمؐ کے مقام بشریت اور مقام نبوت کے متوازن تصور ہی سے ایک مودب اوراثر انگیز نعت تخلیق کی جاسکتی ہے ۔ یہاں غزل کے عام محبوب اور محب والی کیفیت زیبا نہیں ہے ۔ نعت آقا اورغلام کے رشتے پراستوار ہوتی ہے ۔یہاں برابری گستاخی ہے ۔ یہ حفظ مراتب کی دنیا ہے یہاں تعظیم کی کڑی شرطیں ہیں ۔اور انہی پابند یوں اور شرائط میں رہتے ہوئے ایک نعت نگار کواپنے جمال فن اور تخلیقی شعور کے نگ دکھا نے پڑتے ہیں ۔ آپ مبارک باد کے مستحق ہیں کہ آپ نے نعت پر تنقید کاباقاعدہ آغاز کیااور قدیم اور جدید نعتوں کے مضامین اور اسالیب پر معروف اہل قلم سے انتقادی مقالات لکھوائے ۔جس کی وجہ سے ادب کے عام قاری کو نعت کاایک نیا شعور ملا۔(فراست رضوی ص،۲۵؍۹۰۲)


قرآن کا ترجمہ کرنے کے لئے صرف عربی داں ہونا کافی نہیں ، اسی طرح نعت کہنے کے لئے صرف شاعر ہونا کافی نہیں ورنہ خود ظہیر صاحب وہ اوصاف کیوں لکھ رہے ہیں جن کے بعد ان کے نزدیک مشکل نہیں ہوسکتی ؟ نعت نگاری میں ان اوصاف کے باوجود بھی کوئی لغزش بعید از امکان نہیں -(کوکب نورانی ص،۳؍۱۵۶)


اس بارے میں عرض ہے کہ نعت نگار ہو یا سیرت نگار ، انہیں ’’ شرک ‘‘ کی صحیح تعریف اور اس کی بنیادی باتوں سے آگہی ہونی چاہیے اور یہ آگہی حقائق اور ادلّہ شرعیہ کے مطابق ہو ۔ علمائے حق اہلِ سنّت و جماعت نے عقائد و نظریات پر جو کتابیں یاد گار بنائی ہیں ان کا مطالعہ ضرور کیا جائے ۔(کوکب نورانی ص،۳؍۲۴۸)


ان باتوں کے حوالے سے یہ کہوں گا کہ نعت گوئی کے لیے نعت گو کا سیرت ِ رسولِ کریم(ص)سے پوری طرح واقف ہونا ، بلاشُبہ بہت اچھی اور اہم شرط ہے لیکن’’ پوری طرح واقفیت ‘‘ تو کیا ، بنیادی ضروری واقفیت میں بھی ’’ کچھ ‘‘ ہی شمار ہوں گے ۔


نظم و نثر میں نعت کہنے والوں کو ضرور چاہیے کہ وہ سیرت ِ رسولِ کریم (ص) پر لکھی گئی مستند کتابوں کا توجہ سے مطالعہ ضرور کریں اور خود اپنی فہم کی تائید و تصدیق بھی جب تک حقائق و براہین سے نہ پائیں ، اسے بیان نہ کریں ۔(کوکب نورانی ص،۳؍۲۴۷)


میری عرض صرف اتنی ہے کہ کوئی شعر کہے یا تُک بندی کرے مگر نعت شریف صرف وہی کہے جو نعت شریف کہنے کو غایت درجہ سعادت جانے اور خود کو بخوبی یہ باور کرالے کہ اس کی ہر قابلیت و صلاحیت کی نہایت کے باوجود اس سے ذاتِ ممدوح((ص))کی مدح وثنا کا حق ادا نہیں ہوسکتااورذاتِ ممدوح ((ص))کی محبت وتعظیم کے ہرہر تقاضے کا ہر مرحلے اور ہر لمحے پاس ولحاظ رہے۔(کوکب نورانی ص،۳؍۳۳۱)

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
نئے صفحات
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659