نعتیہ ادب پر صبیح رحمانی کی ایک گراں قدرکتاب ۔ ندیم صدیقی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


از : ندیم صدیقی

نعتیہ ادب پر صبیح رحمانی کی ایک گراں قدرکتاب[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اللہ رب العزت نےجگر مرادآبادی سے کیا بات کہلوالی:’’ اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں‘‘ وہ جسے چاہے جو دیدے اس کی عطا کا کوئی جواب نہیں اور ہمارے جیسا معیار بھی نہیں۔ یہ جو کراچی میں صبیح رحمانی ہیں عوام میں تو وہ ایک خوش گلو نعت گو مشہور ہیں مگر خواص میں بھی انھیں نعت ہی کے حوالے سے جانا نہیں مانا بھی جاتا ہے جوبڑی بات ہے۔ شعر کہنے والے بہت گزرے اور ایک سے ایک موجودہیں مگر وہ جو محا ورہ ہے کہ ’’ جسے پیا چاہے وہی سہاگن‘‘ صبیح رحمانی اسی محاورے کی ایک زندہ تجسیم ہیں۔ اُنھیں ایک دُنیا جانتی ہےاور یہ پہچان رسول کریمؐ کا حوالہ بن گئی ہے۔ ہم جیسے ایسے موقع پر رشک کیا،اللہ کا شکر ضرور ادا کرتے ہیں ۔ صبیح رحمانی اپنے موضوع اور اپنے طرز کا جو مجلہ’’نعت رنگ‘‘ شائع کرتے ہیں دو دہوں کی مدت میں ابتک اسکے کوئی 25 شمارے منظر عام پرآچکے ہیں اور اس مجلےکی اہل ِعلم سے تحسین کی ۔ ہند میں بھی ’نعت رنگ ‘کے شناسا ہی نہیں بلکہ اچھے خاصے لوگ ہیں جو اِسکے قاری اوراس مجلے کے شریک رہے ہیں۔ نعت تو کہی جارہی ہے اور کہی جاتی رہے گی مگر جس طرح سے ’ نعت رنگ ‘نے نعت کی ادبیت ،افادیت اور اہمیت وغیرہ کے گوشے اجاگر کیے ہیں وہ تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں ،نعت رنگ کے جملہ شمارے اس کے شاہد ہیں۔ صبیح رحمانی ’نعت رنگ‘ ہی پر نہیں رُک گئے بلکہ اُنہوں نے اپنے ہاں’’ نعت ریسرچ سینٹر، کراچی‘‘ بھی بنا رکھاہے۔ جس میں نعت کےموضوع پر موصوف نے جو کچھ یکجا کیا ہے، وہ بھی ایک مثال ہے اور یہ سارا کام اُنہوں نے یکا و تنہا انجام دِیا ہے یہ اور بات کہ ’’ میں اکیلاہی چلا تھا جانب منزل مگر ÷ لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا‘‘۔ نعت کے حوالے سے حال ہی میں کراچی سے624 صفحات کی ان کی ایک کتاب’’ اُردو نعت کی شعری روایت ‘‘ ہمیں موصول ہوئی ہے۔ کتا ب کیا، نعت کے حوالے سے ایک جہانِ معنی ہے جس میں نعت کے موضوع پر ایسے ایسے مضامین اور ایسے ایسے علمی گوشے ہیں کہ شاید و باید ہی اس موضوع پر اس سے پہلے کسی نے اس طرح اور اتنے تنوع کے ساتھ کام کیا ہو۔ نعت پر اِکا دُکا مضامین تو ہمارے ہاں بھی لکھے گئے ہیں مگر اس طرح اور اس انداز میں باقاعدہ کوئی کتاب کم ازکم ہماری ناقص معلومات میں تو نہیں ہے۔ یہ کتاب چار عنوانات پر محیط ہے: ( اُردو نعت کی شعری روایت)’’تعریف ، تاریخ، رُجحانات اور تقاضے‘‘

یقیناً یہ امر قابلِ فخر ہے کہ کوئی ساٹھ برس قبل ناگ پور یونی ورسٹی سے ڈاکٹر رفیع الدین اشفاق نے’’ اُردو میں نعتیہ شاعری‘‘ جیسے عنوا ن پر پہلا تحقیقی کام کیا تھا ، اسکے بعد بھی کچھ کام دوسروں نے بھی کیے ہیں جو ریکارڈ پر ہیں۔ یہ بات بڑی اہم اور انصاف پر مبنی ہے کہ صبیح رحمانی نے اس کتاب میں سب سے پہلا مضمون ( نعت کی تعریف) ڈاکٹر رفیع الدین اشفاق ہی کا رکھا ہے۔ نعت کے باب میں ہند سے جو نام اوّل اوّل ہمارے ذہن میں اُبھرتا ہے وہ ہے محسن کاکوروی کا، یہاں نسلِ نو کو کم معلوم ہوگا کہ محسن کے اس قصیدے کو مشہور اُردو ناقد حسن عسکری نے باقاعدہ موضوع بنا کر مقالہ لکھا۔ کتابِ مذکور میں کوئی تیس ممتاز اہلِ علم حضرات کے مضامین کے ساتھ حسن عسکری کا یہ مقالہ بھی موجود ہے۔ اور ’’ اہل دانش کی آرا ‘‘ کے زیر عنوان ایک باب الگ ہے جس میں رشید احمد صدیقی، پروفیسر کرّار حسین، احسان دانش، احمد ندیم قاسمی، وزیر آغا، نعیم صدیقی، شان الحق حقی، ڈاکٹر وحید قریشی، سلیم احمد، منظور حسین شور، عارف عبد المتین، عبد العزیز خا لد، حفیظ تائب، فرمان فتح پوری، اشفاق احمد،مشفق خواجہ،ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، جعفر بلوچ، خورشید رضوی،شفقت رضوی، کاوش بدری ، ڈاکٹر مظفر شہ میری جیسے اور بھی کئی نام ہیں جن کی مختصر آرا اِس کتاب میں ہمارے قلب و نظر کو منور کر رہی ہیں ۔


کرار حسین کے مضمون کا جو اقتباس اس کتاب میں نقل کیا گیا ہے اس کا ایک ٹکڑا یہاں مقتبس کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے:۔۔۔’’ نفس نفس نے مدینے سے کسبِ نور کیا ÷ نظر نظر کو ملی روشنی مدینے سے، اس مقام پر دل و عقل کا روایتی تضاد مٹ جاتا ہے،لیکن حقیقت میں یہ مقام دل ہی کا ہے۔ دل ہی سے عقل کی تربیت ہوتی ہے۔ محبت ہی سے شعور و آگہی پیدا ہوتی ہے۔ مؤدّت ہی سے دین کی سمجھ اُبھرتی ہے۔‘‘ یہ ٹکڑا کیا ہے ایک طویل تر موضوع کو بڑے سلیقے سے چند لفظوں میں بیان کردیاگیا ہے۔ یہاں ہمیں ایک شعر بھی یاد آگیا : اگر کچھ علم ہے، تو بس یہی ہے÷ محمدؐ کو سمجھنا آگہی ہے۔


اس کتاب میں جن کے تفصیلی مضامین شامل ہیں اِن میں ہند کے ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط، ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی جیسےحضرات بھی صبیح رحمانی کی اس مبارک کاوش کو منور رکرہے ہیں۔۔۔۔ سوچنے اور غورو فکر کا عمل کسی عبادت سے کیاکم ہے۔ اس کتاب کا محرک پاکستان کے ایک ممتاز اہلِ ادب اور صحافی مبین مرزا کا ایک سوال ہے۔ جو اُنہوں نے صبیح رحمانی سے کیا تھا کہ’’ ہمارے نعتیہ ادب کی روایت اب کس منزل میں ہے اور کون سے مباحث ناقدین کی توجہ کا مرکزہیں۔‘‘ بظاہر یہ ایک سوال ہی ہے مگر اس سوال نے کیا جواب پایا وہ بہت اہم ہے بلکہ اسی نے سوال کو بھی ایک حرمت ِمعنی دیدیے۔ صبیح رحمانی نے دیباچے میں لکھا ہے کہ

’’۔۔۔ مبین مرزا کے استفسار نے میرے لئے بصیرت کا ایک نیا دَر وا کر دِیا۔‘‘

حقیقت یہی ہےکہ مبین مرزا کا سوال ہی اس کتاب کے وجود کا سبب ہے۔ بیشک اللہ کس طرح سوال ذہنوں میں ڈالتا ہے اور کس طرح اسکے جواب کیلئے کسی سے بھی کام لے لیتا ہے۔ صبیح رحمانی کی یہ کاوشِ جمیل یقیناً ایک سعادت عظمیٰ کہی جانی چاہیے۔ اسکا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ اس کتاب نے موضوع کو تمام کر دِیا ۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کوئی بھی موضوع تمام کہاں ہوتا ہے وہ تو جو کہا گیا ہے کہ چراغ سے چراغ جلتے ہیں اور یہ بھی صحیح ہے کہ اندھیرے کا واویلہ کرنا تو سب کو آتا ہے مگر اس اندھیرے میں ایک چراغ جلا دینا بڑی بات ہے اب جو چاہے اس چراغ سے چراغ روشن کرتا رہے۔۔۔۔ نعت کے موضوع پر جو بھی کام کریگا وہ محروم نہیں رہ سکتا بس یہ ہے کہ جدوجہد،سعیٔ مسلسل اور قبول کے درجات الگ الگ ہیں۔ صبیح رحمانی کی خوش بختی یقیناً سعیٔ مشکور بن جائے گی کہ یہ ا ن کا حق ہے۔ شمس الرحمان فاروقی نے بجالکھا ہے کہ’’ یہ کتاب نعت کے ہر طالب علم، خصوصاً نعت پر تحقیقی کام کرنے والے کیلئے ناگزیر حوالہ تادیر رہے گی۔‘‘ صبیح رحمانی کو یہ علمی اعزاز بھی مبارک ہو۔ یہ کالم کتاب کا بس ایک تعارف ہے ۔ اسکے حصول کیلئے آپ موبائیل یا ای میل پر رابطہ کر سکتے ہیں:

sabeehrehmani@gmail.com

مآخذ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

http://urdu.maeeshat.in