مہکار مدینے کی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


مہکار مدینے کی.jpg

مہکار مدینے کی
رختِ بخشش
مشک ِ مدحت

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png


نعتیہ مجموعہ : مہکار مدینے کی

شاعر : حافظ محمد عبد الجلیل

سال اشاعت : 2018

قیمت: 400 روپے

ناشر : انٹرنیشنل نعت مرکز

احباب کی آراء[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

صبیح الدین رحمانی کی رائے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حافظ محمد عبدالجلیل کی نعتیہ شاعری در حقیقت ان کے دل اور روح کے مطالبے پر وجود میں آنے والی شاعری ھے -اس میں جذبوں کی سچائی ،اظہار کی سادگی و برجستگی ، فکر کی پاکیزگی اور عشق ومحبت کی حرارت نمایاں ہے


حافظ صاحب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے اپنی والہانہ عقیدت ومحبت اور رشتے کا اظہار نہایت سیدھے سادے انداز میں کیا ھے اور یہی اظہار ان کا اور ان کی زندگی اور فن کا اعتبار بن کر سامنے آیا ھے

ان کے کلام میں فریاد کی لے بھی ھے اور سرخوشی کے نغمے بھی وجہ یہ ھے کہ حضور کی ذات ان کے لیے امید کا سرچشمہ بھی اور ہر خوشی کا منبع بھی-میرے نزدیک تو تعلق اور رشتے کا یہ احساس اور شعور بھی عطائے خداوندی ھے

میری دعا ھے کہ رب لوح و قلم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حافظ صاحب کے رشتے اور تعلق کی اس شعری دستاویز کو ان کے لیے توشہ آخرت بنادے آمین


صبیح رحمانی

نعت ریسرچ سنٹر،كراچی

پروفیسر محمد اسلم فیضی کی رائے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مہکار مدینے کی

ساری حمدو ثنا اس ربّ کا ئنا ت کے لئے جس نے ایک لفظ کُن سے سارے عالمین کو تخلیق فرما یا اور اپنے فضل و کرم اور لطف و عطا کی رعنا ئیو ں سے اسے زینت بخشی اور بے حدو بے حساب درود و سلا م ہوں اس مبا رک اور پا کیزہ ہستی پر جو اللہ تبارک و تعالی کا بھی محبوب ہے اور ہر صاحب ِ ایما ن کے دل کی دھڑکنوں میں بھی آبا دہے۔ سچ یہی ہے کہ آنحضرت ﷺ کا وجو دِ مسعود ہی عشق و محبت اور ایما ن و آگہی کا محور ومرکزہے آ پ ہی کی تعلیما ت ہیں جو زندگی بخش بھی ہیں اور زندگی افروز بھی اور آپ ہی کی سیرت طیبہ ہے جو مختلف خصا ئص ، خصو صاََ صفتِ رحمت کی آئینہ دار ہے ۔ اللہ ربّ العزت نے آپ کو رفعت وعظمت کی ہر شا ن سے نوازا ہے یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام ؓ سے لے کر آج تک اہل دانش نظم ونشر میں اپنی محبتوں اور عقیدتوں کا اظہا ر کر تے چلے آرہے ہیں۔


جہا ں تک اردو نعت نگا ری کا تعلق ہے تو ان خوش نصیب شعرا کی فہرست اچھی خاصی طویل ہے جنہو ں نے حمدونعت کو اظہا ر کا وسیلہ بنا یا ہے ۔ ایسے ہی سعادت مندوں میں ممتا ز عالمِ دین اور سکالر الحاج حافظ قاری عبدالجلیل صاحب کا اسم گرامی بھی شا مل ہے۔

وہ دنیاوی علو م سے تو بہر ہ ور ہیں ہی ، دینی علوم ، قرآن و حدیث کی روح سے بھی گہری شنا سائی رکھتے ہیں۔ اور جذ بٔہ عشقِ رسولﷺ سے ان کا سینہ روشن و تا باں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کی پا کیزہ سوچ او ر منزّہ افکا ر کے سحاب پارے نعتیہ اشعا ر میں ڈھل کر سا منے آتے ہیں تو رحمتوں کی پھوار برستی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور ایما ن و ایقا ن کے شگو فوں پر تازگی چھا جاتی ہے۔

وہ اپنے نعتیہ کلام میںعقیدے کی صحت کے ساتھ ساتھ قر ینٔہ ادب کو بھی ملحوظ رکھتے ہیں۔ جذبے کی سچائی اور آقائے دو جہا ں ﷺ سے عشق و محبت کی سر شاری نے ان کی نعتوں کو دل گداز ابلاغ کی نعمت سے مالا مال کر دیا ہے ان کے نعتیہ اشعا ر براہ راست دل پر اثر کر تے ہیں اور قاری حسنِ عقیدت اور جمالیاتی فکر سے اپنے جو ہر ایمان کو ایک طلسماتی چمک سے آبدار محسوس کر تا ہے۔


مہکار مدینے کی حافظ قاری عبدا لجلیل صاحب کا پہلا مجمو عٔہ کلام ہے۔


نام ہی ایسا پیارا اور ایما ن افروز ہے کہ لیتے ہی شہر حبیب ﷺ کی فضائوں کے پر کیف جھونکے دل و دماغ کو اپنی مہکا ر سے معطر و معنبر کر دیتے ہیں ۔ میر ی دعا ہے کہ یہ مجموعہ اللہ تعا لیٰ اور اس کے پیا رے محبو بؐ کی با رگاہ میں شرفِ قبولیت حاصل کرے اور قاری صاحب کے لئے تو شٔہ آخرت اور نجا ت کاوسیلہ بنے ۔ آمین ثُم آمین۔ بجاہِ سیّدالمرسلینؐ

اسلم فیضی کوہاٹ

خالد محمود خالد کی راۓ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مد حت ِشا ہ کون ومکا ن ﷺ

نعت گوئی کا فن ہر کسی کو عطا نہیں ہو تا۔ یہ دولت اْنہی کا مقدر بنتی ہے جن کے دل میں عشقِ رسولﷺ کی دولت ہوتی ہے۔ جب انسان ذکرِ سرکار میں سرشا ر رہنے لگے تو اس کی سوچ بھی مدحت بن جا تی ہے اور ذہن میں ابھر نے والے الفاظ مدحت کے موتیوں کی لڑی بن جاتے ہیں۔ نعت گوئی کاسلسلہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔سعادت کے اس سفر میں حافظ عبدالجلیل بھی شریکِ سفرہیں جنہو ں نے آقا کریم ﷺؐکی مدحت بیان کرنے کی سعادت حا صل کی ہے یو ں تو ہر اْمّتی کی آ رزو ہوتی ہے کہ وہ اپنے آ قاﷺ کی تعریف و توصیف کرے لیکن ہر کو ئی یہ کا م کر نہیں سکتا۔ بقول شاعر الفاظ بے بس ، زباں معذور ہم سے حقِ مدحت ادا کیا ہوگا ہو کنارہ نہ جس سمندر گا وہ سمندر عبور کیا ہوگا حافظ عبدالجلیل ہر وقت ذکرِ سرکا رﷺ میں کھو ئے رہنے والی شخصیت ہیں جن کے شب و روز ، معمولات ، سوچ وفکر اور گفتگو مد حتِ سر کا رﷺسے شروع ہو کر اِسی کے گرد گھومتی ہے اسی کیفیت میں شوقِ مدحت پرواز کرتا ہے اورشاعری کی اس منزل پر جا پہنچتا ہے جسے "نعت" کہتے ہیں آ پ کا مسوّدہ نعت جو شائع ہونے جارہا ہے، کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے مدحت ِسرکار ﷺ کو ہر انداز سے رقم کرنے کی کوشش کی ہے۔ مختصر اور طویل دونوں بحروں کا استعمال کیا ہے۔ قا فیے بھی خوبصورت ہیں اور مضامین بھی سیر ت سے ماخوذ ہیں۔یہ امر مسلمہ ہے کہ کسی نعتیہ مجموعے کی اشا عت سے نہ تو سرکار کی مدحت کا حق ادا ہوسکتا ہے اور نہ ہی شاعر کی تکمیلِ تمناّہوسکتی ہے البتہ کسی نعتیہ مجموعے کی اشاعت شاعر کو نعت گو شعراء کی فہرست میں لا کھڑاکرتی ہے جو دنیا اور آ خرت میں اس کی خوش نصیبی کا با عث ہے اور یقیناََ روزِمحشر ان کی نجات کا زریعہ بنے گی۔ اللہ تعا لیٰ نے حافظ عبدالجلیل کو ایسا شوق اور بصیرت عطا کی ہے کہ وہ نہ صرف احساسا ت و جذبات کو جان سکتے ہیں بلکہ انہیں شعروں میں ڈھالنے کافن بھی جانتے ہیں۔ انہوں نے بڑی مہارت سے انہیں شعروں کی لڑی میں پرونے کوشش کی ہے انکے کلام میں موجود فکر وخیال کی گہرائی و گیرائی اور اظہا ر بیان کی سادگی اور سلاست نے مجھے بے حد متاثر کیا ہے نعت کی اصل روح یہ ہے کہ سننے والے میں روحانی سر شاری کی کیفیت پیدا ہو اور تخیل کے ساتھ پرواز کرتاچلا جائے ۔ تاریخ شا ہد ہے کہ محبت رسولﷺسے فکری اور عملی وابستگی ہمیشہ مقام ِ رفیع کا باعث بنتی ہے۔اس لحاظ سے صاحب کتاب ، حافظ عبدالجلیل خوش قسمت ہیں وہ اپنی عملی اور نظریا تی صلاحیتوں کو ذکر و فکر ِرسولﷺ کی نذر کر دیتے ہیں۔ جس طر ح شاعری بحور اور اوزان کی پا بند ہوتی ہے اسی طرح نعت خوانی بھی شاعر سے بہت سے تقا ضے کر تی ہے بلکہ یہاں تو قدم قدم اور لفظ لفظ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے کرتے ہیں خدا کو تو سبھی اہل دعا یا د اور صاحبِ معراج کو کرتا ہے خدا یا د میں دل کی گہرائیو ں سے حا فظ عبدالجلیل کو ان کی اس کو شش پر اور پہلے نعتیہ مجموعے کی اشاعت پر مبا رک با د پیش کرتا ہوں اور ان کے لئے دعا گو ہوں جس طرح ان کا دل عشقِ سرکا ر ﷺ میں روشن ہے ان کا قلم بھی سدا نعت کا نور بکھیرتا رہے۔

آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ

خالد محمود خالد سمن آبا د کراچی


ارسلان احمد ارسل کی راۓ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حافظ عبدالجلیل کی سعادت

یہ دور امت مسلمہ کی زبوں حالی کا دور ہے۔نفسا نفسی کا عالم ہے۔اخلاقی قدریں پامال ہو چکی ہیں۔حضور سرورِ کونین ﷺ کی یادوں کے چہرے دھندلا تے چلے جا رہے ہیں ایسے عالم میں اگر کوئی مدحت سرکارﷺ پر مامور ہے تو اس سے بڑی اس کی خوش قسمتی کیا ہو سکتی ہے۔ جناب حافظ عبدالجلیل سے میری براہ راست ملاقات نہیں ہے لیکن اب شاید اجنبیت بھی نہیں ہے کیونکہ وہ جس منزل کے مسافر ہیں مجھے بھی اسی راستے کا جاروب کش ہونے کی سعادت حاصل ہے۔الحمدُ لِلٰہ ۔ عبدالجلیل صاحب کے صاحبزادے محمد آصف جلیل سے میری شناسائی ہوئی تو میں جلیل صاحب کی شخصیت اور ان کے کلام سے واقف ہوا۔پھر جب آصف جلیل نے زیر مطالعہ مجموعہ ـــ( مہکار مدینے کی ) کا مسودہ مجھے بھیجا تو ان کی نعت گوئی کی مزید خصوصیات میرے سامنے آئیں۔ حافظ عبدالجلیل کی نعت گوئی کی سب سے بڑی خصوصیت سلاست اور روانی ہے ۔وہ مشکل پسندی کے کوچے میں داخل نہیں ہوئے بلکہ آمد کو آورد پر فوقیت دیتے نظر آئے اور جہاں آمد کی شاعری ہو گی وہاں تصنع اور بناوٹ نہیں ہو سکتی اورمدح رسولﷺ کا سب سے بڑا تقاضا ہی یہی ہے کہ وہ بناوٹ سے پاک ہو کیونکہ وہ بارگاہ تو ایسی ہے کہ جہاں فریاد لفظوں کی محتاج نہیں ،خامشی اور اشک ہی حال دل بیان کر دیتے ہیں۔واصف علی واصفؒ نے اس ضمن میں کیا اچھا کہا ہے۔

اشکوں نے بیاں کر ہی دیا راز تمنا

ہم ڈھونڈ رہے تھے ابھی اظہارکی صورت

اس مجموعے میں جہاں حمد و نعت شامل ہیں وہیں مناقب کا بھی ایک خو بصورت گلدستہ ہے اور اظہار کا قرینہ اتنا مئودب ہے کہ بے ساختہ داد دینے کو جی چاہتا ہے اور دل سے تحسین کے کلمات نکلتے ہیں ۔ ’’ اللہ کرے مرحلہ ء شوق نہ ہو طے‘‘

ان کا ایک قطعہ دیکھیے کہ یہ اپنے سینے میں امت کا کتنا در د لیے ہوئے ہیں

راحت قلب غریباں بے کسوں کے چارہ گر

سخت مشکل میں گھرے ہیں ہو کرم کی اک نظر

تیری کملی کی پناہ میں ہر کوئی محفوظ ہے

بزم ہستی میں تری ہستی ہے سب سے معتبر

میں دعا گو ہوں کہ جناب حافظ عبدالجلیل کا یہ مجموعہ سعادت بارگاہ رب کریم اور بارگاہ رسالت ﷺ میں نہ صرف مقبول ہو بلکہ پذ یرائی حاصل کرے ا ور بروز حشر ان کی شفاعت کا سبب بنے آمین ۔ بجاہِ سیدالمرسلین ﷺ

ارسلان احمد ارسل

چیئر مین انٹر نیشنل نعت مرکز لاہور

ڈاکٹر طاہرحمیدتنولی کی راۓ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت، بندہ پر اللہ کی عطاوءں میں سب سے بڑی عطا کو یا د کرنے اور پھر رسولِ کریم ؐسے تعلق غلامی اور آ پؐ کے وسیلے سے اللہ ربُّ العزّت سے تعلقِ بندگی کی استواری اور پائیداری کا وسیلہ ہے. نعت گو شاعر کا شرف یہ ہے کہ وہ اس کا رِ خیر میں اپنے ساتھ قاری کو بھی شامل کرلیتا ہے ۔ " مہکار مدینے کی" یہ سب کچھ بھی ہے اور حضور اکرمؐ کی ذاتِ مبارکہ سے محبت کی کیفیات کا حَسین بیان بھی ۔ مجرّد فراق کی شدّ ت ہوش و حواس کی معطلی کا باعث ہوتی ہے مگر محبتِ رسولؐ کی حیا ت آفرینی ایک جدااثر رکھتی ہے کہ یہاں دوری ،قرب، ہجر ، وصال اور بُعد، دیدار میں ڈھل جاتا ہے۔ اِک حشر ہوا برپاَ ، اک ہوک اُٹھی دل میں جب گنبدِ خضر ا کو نظروں سے نہاں دیکھا نسبتِ رسالت ، آ خرت کا توشہ ء معتبر ہی نہیں ، دنیا کے کا ر زارِ حیا ت میں بھی اس کیلئے پنا ہ گاہ ، قوتِ قلب و روح اور اعداء کے مقابل وہ اسلحہ و حمایت ہے کہ اسے" وا للہُ یَعصِمُکءَ مِنَ النَّاس" کی فیض رسانی عطا کی گئی ہے ۔ " مہکار مدینے کی" قاری کو اس پہلو سے بھی آشنا کرتا ہے۔ اُمّت کسی عدّو سے پھر خوف کھائے کیوں اس کیلئے تو ڈھال ہے میرے نبیؐ کی ذات مگر نعت کا اصل فیضان زندگی میں تب ہی جاری و ساری ہوتا ہے کہ رسول کریمؐ کی بارگاہ میں حضوری کا تصوّر و آرزو , اپنی کم ما ئیگی کے احساس سے مملو ہو کر " مہکار مدینے کی" کے ایسے اشعار " چو ں بنامِ مصطفٰےؐ خوانم درود "کا رنگ لئے ہوتے ہیں۔

کچھ ہار درودوں کے تو کچھ اشکِ ندامت

کیا خوب اثاثہ ہے مرے زادِ سفر میں


ڈاکٹر طاہر حمید تنولی

اقبال اکیڈمی لا ہور

شجاعت علی راہی کی راۓ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

کیا خوب اثاثہ ہے مرے زادِ سفر میں

کا ئنا ت میں انسان کا ظہور احسن التقویم کی صورت میں ہُوا اور انسانیت کی معراج ذاتِ خیرا لبشرؐ ہے جن کے با رے میں ارشا د فرما یا گیا:

لولا کٔ لما خلقت الا فلا کٔ

’’یعنی اگر یہ آپﷺ کے لئے نہ ہوتا تو میں کا ئنا ت کو تخلیق ہی نہ کرتا۔ جبھی تو شاعر مشرقؒ گویا ہو ئے‘‘ ۔


بہ مصطفیٰﷺ بر ساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست

اگر بہ اُونہ رسیدی ‘ تما م بولہی است


ارتقائے انسانیت کے لئے لا زم ہے کہ فکر و نظر کو اس عظیم ترین رول ما ڈل پر مر کوز کیا جائے جس کی خاطر پوری کا ئنا ت کی تخلیق و تشکیل کا عمل کا رفر ما ہوا۔

نعت گو شعر اء کو یہ اعزاز حا صل ہے کہ انہوں نے اپنی نگاہوں کا مرکز اس بلندترین شخصیت کو بنا یا ۔ اِسی قبیلے کے ایک ممتا ز فرد حافظ عبدا لجلیل ہیں جن کی زندگی علم و ہنر کا دلکش نمونہ رہی ہے اور جن کی خطابت کی قندیل نے ہزاروں لا کھوں سا معین کے دل و دما غ کو روشن کیا ہے۔

حافظ عبدا لجلیل کی نعت سادگی‘ روانی اور جذبہء عشق و مودّت سے بریز ہے ۔ انہوں نے نعت کے آداب کو بھی برقرار رکھا ہے اور اپنی بے پناہ مودّت کا والہا نہ اور بھر پور اظہا ر بھی کیا ہے۔ ان کے عشق میں تر بتر اجلے اشعارآپ کو مدینہ کی روشن گلیوں میں لے چلتے ہیں اور آپ کی روح میں با لیدگی پیدا کرتے ہیں۔ آپ خود کو ایسی فضا میں پا تے ہیں جہا ں کھجوروں کی شیریں مٹھاس ہے اور جہا ں سا نس لیتا ہوں تو جنت کی ہوا آتی ہے (جگر) مشتے نمونہ از خروارے

محبوب کے قدمو ں اک سیل رواں دیکھا

ہا تھوں میں لئے کا سہ ہر پیرو جواں دیکھا


وہ شہر مدینہ کے پر نو ر گلی کو چے

ہم نے تو جد ھر دیکھا رحمت کو وہاں دیکھا


جذبا ت مدینے میں رہتے ہیں کہا ں قا بو

خود رفتہ نظر آیا جس کو بھی جہا ں دیکھا


ذکر تیر ا جو عا م کر تے ہیں

اپنا اونچا مقا م کر تے ہیں


تیرے حسن و جمال کی با تیں

صبح کرتے ہیں شا م کرتے ہیں


تو جو را ضی‘ خدا بھی راضی ہے

با ت اس پر تما م کر تے ہیں


دولت ہے مرے پا س نہ ما یہ مرے گھر میں

آقا نے بلا یا ہے مجھے اپنے نگر میں


ہے اسم محمد ﷺ کے اجا لوں کا تصدّق

رہتا ہے اجا لا ہی ہمیشہ مرے گھر میں


ہے عر شِ مُعلی ّ ٰ سے بھی آگے تری منزل

یہ چا ند ستا رے ہیں ترے گر د سفر میں


کچھ ہا ر درودوں کے تو کچھ اشکِ نِدامت

کیا خوب اثاثہ ہے مر ے زادِسفر میں


شجاعت علی راہی

کوہاٹ


تبسم نواز وڑائچ کی راۓ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حا فظ محمد عبدالجلیل۔ ایک ہمہ جہت نعت نگار

شعرو شاعری اور ادب کی تخلیق پر وردگار کی طرف سے کسی انسان کو عطا کی جانے والی گرانقدر صلاحیت ہے۔ یہ اْس رزاقِ متین کی طرف سے بندے کو دیا جانے والا بہترین رزقِ سخن ہے۔ اورجب یہ رزقِ سخن کسی انسان کو اْس قطار میں لا کھڑا کر ے کہ جہاں حسان بن ثابت ؓ ، عبداللہ ابنِ رواحہ ؓ ، امام بوصیری ؒ ، فرزوق ، محسن کا کوروی ، احمد رضا خان بریلوی ؒ ، عبد ا لرحمان جامیؒ ، امیرخسروؒ ، میر انیسؒ و میرزا دبیر جیسے دربارِ رسالت واما مت کے مداح وثنا خواں مو جودہوں تو پھر واقعی یہ رزقِ سخن بہترین رزقِ سخن کہلانے کا حق دار ہے۔

اَحسنْ الرازقین کی طرف سے جنا ب حافظ محمد عبدالجلیل صاحب کو بھی یہ رزقِ سخن نعت گوئی و منقبت نگاری کی صورت میں ودیعت کیا گیا ہے نعت گوئی چودہ سو سالہ اسلامی تاریخ کا وہ درخشا ں تسلسل سے کہ جس کے مو ٔسس عمِ مصطفےﷺ سید نا ابو طالبؑ تھے کہ جن کا قصیدہ لامیہ نعتیہ ادب کا ایک بے نظیر و بے مثال شہکار ہے اور نعت گوئی کسی بھی انسان کیلئے ایک بہت بڑا اور منفرد اعزاز ہے جس پر جتنا بھی شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے۔

مہکا ر مدینے کی جناب حافظ محمد عبدالجلیل کا نعتیہ اور منقبت نگاری پر مشتمل مجوعہ ہے جس میں اْنہوں نے اپنی منتخب نعتوں اور منقبتوں کی اشاعت کا اہتمام کیاہے۔

مہکا ر مدینے کی" کا مطالعہ کرتے ہوئے حافظ محمد عبدالجلیل کی ذات میں سرکارِ سرورِ کائنات فخِرموجودات وجہِ تخلیق کائنا ت ﷺ سے بے پناہ عشق و محبت اور عقید ت کے جذبا ت کی خوشبو کا ایک خوشگوار احساس جنم لیتا ہے۔ مذکورہ نعتیہ مجمو عہ میں جہاں زبان و بیان کے حوالے سے فا ضل نعت نگار کی قا بلیت و صلا حیت کا ادراک ہوتا ہے وہاں پر اْنکے کلام کی سادگی و سلاست اورروانی بھی قاری کو بے پنا ہ متا ثر کرتی ہے۔

شاعری دراصل جذبا ت نگاری اور مختلف کیفیات و احساسات کی تر جمانی کے سا تھ ساتھ اپنے دور کے حالات کی بھی بہترین عکاس ہو تی ہے ایک کامیا ب سخن نگار نعت گوئی کے حوالے سے بھی انہی اجزائے ترکیبی کو ایک دوسرے اندازِ فکر سے اجا گر کرتا ہے اور یہی اس کے فن کی بلندی اور کامیا بی کا تعین کرنے کا پیمانہ قرار پاتاہے "مہکار مدینے کی" میں حا فظ محمد عبدالجلیل صاحب نے جہاں عجزوانکساری ، محبت و عقیدت کی سر شاری اور دھلیز با رگاہِ رسالت پہ اپنے گلہائے عقیدت پیش کرتے ہوئے جانبازی و فداکاری کا مظاہرہ کیا ہے وہیں پر اپنی نا رسائی کا احوال بھی بیان کیا ہے۔ زما نے کے دکھوں ، انفرادی واجتماعی معاشرتی زبوں حالی پہ فریاد بھی کی ہے اور بارگاہِ رسالت سے بخشش ، کرم اور لطف و عطا کی خیرات بھی طلب کی ہے۔

مہکا ر مدینے کی میں جہاں عقیدت و محبت کا وفور ہے وہاں عشق و مو ٔدت کا سرْور بھی ہے سیرتِ طیبہ کے جلووں کا نور بھی ہے آپکو اس کی نعتوں کو پڑھتے ہو ئے مدینے کی مہکتی فضا ؤں اورمعطّر ہوا ؤں کا احساس بھی ہو گا اور اس بلد ٔہ طیبہ کے گلی کوچوں کی صدا ؤں کا آ ھنگ بھی آپکی سماعتیں سنیں گی۔ ان نعتوں میں جہاں پر آپکو ایک مہجور کی تڑپ اور کسک محسوس ہوگی وہیں پہ حضورﷺ کے در پہ حاضری کے وقت کی وابستگی و تشنگی بھی درِ احساس پہ دستک دے گی۔

اس فقیرِ درِ اہلِ بیت کو یقین کامِل ہے کہ حافظ محمد عبدا لجلیل صاحب کا یہ کلام نعتیہ ادب میں ایک گرانقدر اضافہ تصور کیا جائے گا اور مذ ھبی وادبی حلقوں سے خراج تحسین کا حقدار قرار پائے گا۔

میری دعا ہے کہ حا فظ صاحب کی اس خوبصورت ، دلکش ودلربا عقیدت کو بارگاہِ رسالت علیہ الصلوٰ ۃو اسلام سے بہترین اجر عطافرمایا جائے اور زادِ اآخرت قرارپائے۔ آمین۔

محترم قاریئن آ یئے "مہکار مدینے کی" میں سے چند گلہا ئے عقیدت آپکی دلچسپی اور اپنی حاضری کی قبولیت کی غرض سے دیکھتے ہیں جن سے آپکو ھمارے فاضل نعت گوکی نعتیہ شاعری سے متعارف ہونے کا موقع ملے گا۔

جس کو طیبہ کی یارو گلی مل گئی

ساری دنیا کی سمجھو خوشی مل گئی


عْشاق چلے جس دم سرکار کے روضے سے

آنکھوں میں جھڑی دیکھی دل گِریہ کناں دیکھا


عاصیو تھام لو دامنِ ِ مصطفیٰ ﷺ ، ہے انہی کی رضا میں خدا کی رضا

زندگی اْن کی اطاعت میں کیجئے بسر، اْ ن کی اطاعت کو زادِ سفر کیجئے


اْن کے در سے جو دور رہتے ہیں

اْن کا جینا فضول ہوتا ہے


درِ اقدس پہ بلواتے ہیں آ قا ﷺ سب غلاموں کو

خلوصِ دل سے جو کوئی مدینہ دیکھنا چاہے


حق نے کیا بلند یوں ہوگا نہ سر نگوں کھبی

تیر ے کمال کا عَلَم دھر کے عر ض و طول میں


آئے مرے حضورﷺ تو منظر بدل گئے

احوال سارے دھر کے یکسر بدل گئے


اْمت تیری  ! گمراہی کی دلدل میں دھنسی ہے

اے کا ش  ! بدل جائے یہ کردار کا موسم


ہوتا رہے دن رات درودوں کا وظیفہ

ہو جائے معطر مرے گھر با ر کا موسم


میرے سرکار ﷺ قدرت نے تجھ کو ہے سرا جاََمُّنیرا بنایا

نور ہی نور ہے اس فضا میں جس جگہ تیری جلوہ گری ہے


کرم کی اک نظر کر دے ، بڑی مشکل نے گھِر ا ہے

زبوں حالی مسلماں کی تجھے معلوم سب آقاﷺ


مصطفٰے کی آ ل کا جو درد رکھتے ہیں جلیل

تا قیامت اْن غلاموں کی وفا پر ہو سلام


تبسم نواز وڑائچ

سر گودھا

ہدیہ ء تشکر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حمد و صلوٰۃ کے بعد، رب کا ئنات کا بے پایا ں کرم اور صد ہزار با ر شکر کہ اُس ذاتِ پا کٔ نے اپنے اس بے مایہ بندے کو اپنی حمدو ثناء ، اپنے محبوب کریم ﷺ کی مدحت اور اپنے محبوب و مقرب بندوں کی تعریف و تو صیف کی توفیق مرحمت فرما ئی۔

بحمدہ ِتعا لیٰ ایک مذہبی گھر انے میں ٓ ا نکھ کھولی اور بچپن سے ہی خوبصو رت اور نکھرے ہو ئے عقیدے پر مبنی ما حول میسّرآیا۔ اپنے آ با ئی شہر جنڈ میں محتر م قا ری کرم الٰہی اورمحتر م قاری رب نواز جیسے شفیق اسا تذہ کی تربیت نے عشقِ مصطفی ؐکی حرارت گو یا نس نس میں بھر دی۔ عہد طالب علمی میں نعت پڑ ھنے اور سننے کا جنون کی حد تک شو ق رہا ۔

سترّ کی دہا ئی کے وسط میں کو ہا ٹ آیا تو پروفیسر محمد اسلم فیضی اورپروفیسر عبدالخا لق عا بد جیسے اسا تذہ کی صحبت نصیب ہوئی جس سے اُردو ادب اور شعروسخن سے شغف پیدا ہوا۔ ادبی محافل میں شرکت نے ادبی ذوق کو مزیدجِلا بخشی۔

مذہبی پس منظر کی وجہ سے اسّی کی دہا ئی کے اوائل میں نعت گو ئی کا شوق ہوا۔ ڈرتے ڈرتے اپنے استاد گرامی پروفیسر محمد ا سلم فیضی سے ذکر کیا تو اُنہوں نے بھر پور حوصلہ افزائی کی۔ یوں اَسّی کی دہا ئی کے اواخر میں پہلی با ر با قاعدہ نعت کہنے کا شرف نصیب ہوا۔

جب سے طیبہ کی یار و گلی مل گئی

ساری دنیا کی سمجھو خوشی مل گئی


عشق خیرالورٰی پر نہ ہو ناز کیوں

قبر کے واسطے روشنی مل گئی


کیوں جلیل اپنی قسمت پر نازاں نہ ہو

تیرے د ر کی اسے چا کری مل گئی،

۱۹۹۳؁ ء میں حج کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس مقدس سفر میں قیام مدینہ منورہ کے دوران گنبدِ خضرٰی کے سا ئے میں چند ا شعا ر ترتیب پا ئے۔

محبو ب کے قدموں میں اک سیل رواں دیکھا

ہا تھوں میں لئے کا سہ ہر پیر و جواں دیکھا


عُشّا ق چلے جس دم سرکار کے روضے سے

آنکھوں میں جھڑی دیکھی دل گریہ کُناں دیکھا


اک ہُوک اُٹھی دل میں اک حشر ہو ا طاری

جب گُنبد ِ خضرا کو نظروں سے نہا ں دیکھا

پھر یہ سلسلہ چل نکلا ۔ جب بھی کوئی نئی نعت لکھتا تو استاذی المکرم ممتاز ما ہرِ ِ تعلیم ، نامور شاعر اور ـ ’’ کرنو ں کا سفر ‘‘ ، ’’ بارش میں دستک ‘‘ ، ’’جھیل میں اترتی شام‘‘ اور ’’ تتلی ، پھول اور میں ‘‘ جیسے خوبصورت شعری مجموعہ جا ت کے خالق ، محتر م پروفیسر محمد اسلم فیضی کو دکھا لیتا۔ آپ نہ صر ف اصلا ح دیتے بلکہ نعتیہ مجمو عہ ترتیب دینے کا مشورہ بھی عطا کر تے ۔ ان کی مسلسل حوصلہ افزائی سے کبھی یہ خیال آتا کہ مجھ جیسا بے ما یہ او ر نکما آ دمی اتنا عظیم کا م کیونکر پائے گا لیکن پھر اپنا یہ بھی ایما ن ہے کہ جب تک آ قاؐ کی نظر عنا ئت شا مل حال نہ ہو نعت کہنا نا ممکن ہے اور اگر مجھ جیسے بے وقعت آدمی سے حضورعلیہ الصلوۃواسلام کی مدح و ثنا ء جیسا عظیم کا م ہو پا ئے تو یہ محض اللہ کی توفیق ِخا ص اور آقا کریم ؐ کی نظرِ عنا یت ہے۔ سو اس عظیم کر م نوازی پر شکرانے کے طور پر نعتیہ مجموعہ ترتیب دینے کا ارادہ کیا ۔ مسوّدے کی تیاری کے مرحلے میںمیر ے دیرینہ رفیقِ کار برادرم پیاؤ نور ، عزیزم سیف ا لرحمن سیفی اور عزیزم محمد و قا ص خا ن نے بھر پور معاونت کی جبکہ محتر مہ طیّبہ ستّی صاحبہ نے کتاب کے ٹا ئٹل اور بیک پیجز کی گرافک ڈیزائننگ کی ۔

پر و فیسر محمد اسلم فیضی نے علالتِ طبع اورضعفِ بصری کے باوجود کتاب کا مسوّدہ دیکھا ، اغلاط کی نشاندہی کی اور اصلاح فرمائی اور ہر مرحلے میں رہنمائی فرمائی اور مسوّدے پر نظرِ ثانی فرمائی اور اپنے خوبصورت اور قیمتی تاثرات سے نوازا۔ علاوہ ازیں ممتاز ماہرِ تعلیم ، نامور شاعروادیب ، ناول نگار ، افسانہ نگار، مترجم اور کئی کتابوں کے مصنف جناب شجاعت علی راہی نے بھی اپنی گوں نا گوں مصروفیات میں سے وقت نکا ل کر مسوّدہ دیکھا ، تیکنیکی اغلاط کی نشاندہی اور درستگی کی اور اس بندۂ نا چیز کی اس پہلی کاوش کو سراہا اور اپنے خوبصورت اور قیمتی تاثرات سے نوازا۔

عظیم نعت گو شاعر ، حسنِ ازل ، قدم قدم سجدے اور یلِ تجلّیّات جیسے شہرہ ٔآفاق نعتیہ مجموعہ جات کے خالق جناب خالد محمود خالد ، جن کا ایک مصرع ’’یہ سب تمھارا کر م ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے ‘‘ اسی (۸۰) کی دہائی میں زبان زدِ عام ہوا اور جس نے خالد محمود خالد اور ان کی نعت گوئی کو آفاقی شہرت عطاکی ۔ یہ اس بات کا بیّن ثبوت ہے کے خالد محمود خالد کی نعت بارگاہِ سرورِ کونین ﷺ میں شرفِ قبولیت پا چکی ہے ۔ چنانچہ جناب خالد محمودخالد نقشبندی جیسے عظیم نعت گو شاعر کے اس فقیر کے بارے میں کہے گئے کلماتِ تحسین یقینا اس فقیر کیلٔے بہت بڑا اعزاز ہے ۔

دور حاضر کے عظیم نعت گو شاعرارسلان احمد ارسل ،چیئر مین انٹر نیشنل نعت مرکز لاہور ، نے اس فقیر سے بالمشافہ ملاقات نہ ہونے کے باوجود محض بیٹے محمد آصف جلیل کے توسط سے انتہائی شفقت فرماتے ہوئے بندہ تاچیز کیلئے کلماتِ تحسین کہے اور اس پہلی کاوش کوبڑی فراخدلی سے سراہا ۔ جب فون پر شکریہ ادا کیا تو بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا ــ’’جو محسوس کیا ہے وہی لکھا ہے‘‘ ــ

ممتاز شاعر و ادیب ، نظم و نثر پر مشتمل تقریباََ پچیس (۲۵) کتابوں کے مصنف محتر م تبسم نواز وڑائچ نے بھی محض ٹیلی فون پر صوتی تعلق کی بنیا د پر بند ۂ نا چیز کی اس پہلی کاوش پر بہت خوبصورت تا ثرات سے نوازا۔ ان شہرۂ آفا ق شخصیات کے کلمات ِ تحسین اس بندۂ نا چیز کیلئے یقینََا بہت بڑا اعزاز ہے۔

حضرت صاحبزادہ پیر حبیب اللہ شاہ صاحب المعروف پیر جی سرکار دامت بر کاتہم العا لیہ کا بالخصوص ممنون احسان ہوں کہ آپ نے بندۂ ناچیز کی اس کاوش کو سراہا اور اپنی دعا ؤں سے نوازا ۔ اللہ کریم آپ کا سا یہ عاطفت سدا قائم و دائم رکھے (آمین)۔

آخر میں اُن تمام مقتدر ہستیوںکا صمیمِ قلب سے شکریہ اداکر تا ہوں جنھوں نے اس دُشوار راستے پر چلنے میں اس بندۂ نا چیز کی رہنمائی کی اور اپنے خوبصورت اور قیمتی خیالات و تاثرات سے بھی نوازا ۔ علا وہ ازیں دیگر تمام احباب کا بھی تہِ دل سے ممنون ہوں جنھوں نے اس کتاب کی اشاعت تک تمام مراحل میں معا ونت کی ۔ اللہ کریم سب کو جزا ئے خیر سے نوازے ۔ آمین بجاہِ سید المرسلین ﷺ

حافظ محمد عبدالجلیل

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
اس سال کی کچھ اہم کتابیں

اس سیکشن میں اپنے کتابیں متعارف کروانے کے لیے "نعت کائنات" کو دو کاپیاں بھیجیں

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
نئے صفحات