مولانا یوسف علی خاں عزیزؔ بحیثیت نعت گو - ڈاکٹر تسلیم

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

مضمون نگار: ڈاکٹر تسلیم ( جے پور)

مطبوعہ: دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

مولانا یوسف علی خاں عزیزؔ بحیثیت نعت گو[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

بیسویں صدی کے وسطی زمانہ تک راجستھان کے جن شاعروں کو ادبی دنیا میں شہرت اور پذیرائی حاصل ہوئی ان میں ایک اہم نام مولانا یوسف علی عزیزؔ کا بھی ہے۔ اس کا اعتراف بابائے اردو مولوی عبدالحق کو بھی تھا اور بعض دوسروں کے علاوہ جے پور کے مولاناعبد الحئی فائزؔ کو بھی۔ بابائے اردو نے جس انداز میںمولانا یوسف علی خاں عزیز ؔ کی شخصیت اور ان کے ادبی آثار کو خراج تحسین پیش کیا ہے، اس کااندازہ ان کے درج ذیل بیان سے ہو گا:

’مولانا عزیزؔ سلیمانی قدیم درس گاہوں کے تعلیم یافتہ اوراپنے عہد کے علما کے تربیت یافتہ ہیں۔ علاوہ علمی درس گاہ کے بڑے قادر الکلام شاعر ہیں۔ ہر صنف سخن پر قدرت رکھتے ہیں۔ ادبی نکات و رموز سے خوب واقف ہیں۔ان کا کلام اردو کے نامور شعرا کے مقابلے میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ اعلیٰ درجہ کے خطیب اوراثر انگیز مقرر بھی ہیں اور درس و تدریس کا بھی کافی تجربہ رکھتے ہیں۔ دینی معلومات کافی وسیع ہیں،ان کے خیالات میں وسعت اور رواداری پائی جاتی ہے۔اس جامعیت کے اشخاص ہماری قوم میں خال خال نظر آتے ہیں اور آئندہ پیدا ہونے کے آثار نہیں ہیں۔ ؎


یہ ایک فرد ہے انجمن کے برابر

گل تازہ ہے کل چمن کے برابر ‘‘

تقریباً اسی انداز میں مولانا عبد الحئی فائزؔ بھی رقم طراز ہیں :

’ شیخ الوقت، شگفتہ مزاج، مرنج و مرنجاں کا شمار دراصل ان شاذ و ممتا دماغوں میں ہے جن کی ذہنیت وحداست مروجہ تعلیم کی قید و بند سے آزاد ہے۔ آپ نسخۂ کائنات اورصحیفۂ فطرت کا نہایت بالغ نظری سے مطالعہ کر کے اپنے دلی گہرے اثرات کے جذبات عالیہ کو صاف زبان اورموثر بیان میں ادا کرنے کی قابلیت و مقبولیت خدا داد حاصل کر چکے ہیں۔ سید القوم کے ساعی جمیلہ، کافتہ الناس کے بہبود و اتحاد پر مبنی و مشتمل ہیں۔ مذہب، ادب اور تاریخ کے عنوانات زیر مشق ہیں۔ جرأت خاصہ طبیعت ہے۔خود داری کے ساتھ نہایت متواضع، بغایت مخیّر ، بے حد عالی حوصلہ ، نمونۂ سلف صالحین یہ بزرگ، بابائے اردو کے دست راست، بڑے محسن ادب ہیں۔‘‘

ان بیانات سے اندازہ ہوگا کہ یوسف علی خاں عزیز ؔ اپنے دور کی ایک مقبول شخصیت تھے۔ مگر اب نصف صدی سے زیادہ عرصہ گذر جانے کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے کہ راجستھان کے اس جید عالم اور قادر الکلام شاعر کو زمانہ بھولتا جا رہا ہے۔ حال ہی میں راقمتہ الحروف نے ’مولانا یوسف علی خاں عزیزؔ: فکر و فن ‘کے موضوع پر راجستھان یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو و فارسی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی ہے۔اس رسرچ کے دوران اندازہ ہوا تھا کہ مولانا یوسف علی خاں عزیزؔ غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل شاعر اور ادیب تھے۔ دیگر اصناف کے ساتھ نعت گوئی ان کی اولیات میں شامل تھی۔انھوں نے جتنے نعتیہ قصائد اور غزلیں لکھی ہیں وہ سب کی سب عشق نبی سے سرشار ہیں۔ یہی نعتیہ قصائد اور غزلیں فی الوقت ہمارے پیش نظر ہیں۔چنانچہ ان کے مطالعے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قارئین کے لیے یوسف علی خاں عزیز کے سوانحی کوائف مختصراً بیان کر دیے جائیں۔

مولانا یوسف علی خاں عزیزؔ کا تعلق راجستھان کی سابق ریاست ٹونک سے تھا جہاں وہ ماہ رجب ۱۳۰۶ہجری مطابق ۱۴؍ مارچ ۱۸۸۹ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا موجودہ نام ان کے بڑے نانا حضرت کبیر الاولیا کا عطا کردہ ہے۔ جب کہ ان کا تاریخی نام منظور علی (۱۳۰۶ہجری) تھا۔ان کی تعلیم و تربیت اور ملازمت کا آغاز ریاست جے پور میں ہوا تھا۔ یہیں تقریباً بیس سال کی عمر میں وہ بخشی خانہ فوج میں ملازم ہوئے اور رفتہ رفتہ ترقی پاکر کمانڈر اِن چیف کے منصرم ہو گئے۔جے پور میں مختلف عہدوں پر فائز رہنے اور اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کے بعد یوسف علی خاں ۱۹۴۸ء میں سبکدوش ہوئے۔ اس کے بعد بابائے اردو کے اصرارپر وہ پاکستان ہجرت کر گئے۔ پاکستان میں ہی ۱۲؍ نومبر ۱۹۷۵ء کو ان کا انتقال ہوا۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

یوسف علی خاں کو ٹونک اور اس کے بعد جے پور میں بچپن سے ہی ادبی ماحول میسر آیا چنانچہ دس سال کی عمر سے ہی وہ شعر و سخن کی جانب مائل ہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ تقریباً دس ہزار اشعار کہہ لینے کے بعد وہ جے پور میں قیام پذیر مرزا آگاہؔ دہلوی شاگرد مرزا غالبؔ کے حلقۂ تلمذ میں داخل ہوگئے تھے۔وہ اکثر خود کو ’’ عزیز الملک آگاہی و نور دیدۂ غالب‘‘ اور ’’ عزیز اسد اللہی ‘‘ کہا کرتے تھے۔ چونکہ آگاہؔ کوغالب ؔسے تلمذ حاصل تھا اور یوسف علی خا ں مرزا آگاہؔ کے شاگرد تھے، اس نسبت سے مرزاغالبؔ ان کے دادا استاد ہوئے۔یوسف علی خاں عزیز ؔکا مندرجہ ذیل قطعہ اسی نسبت کا مظہر ہے :


شاگرد کو سنتے ہیں تو یاد آتے ہیں استاد

استاد جوہوتے ہیں بنا جاتے ہیں استاد

استاد کے شاگرد ہی کہلاتے ہیں استاد

اس رمز کو پاتے ہیں تو بس پاتے ہیں استاد

چھپتی ہے کہیں شان سخن اہل سخن سے

آگاہؔ کا شاگرد ہوں ، آگاہ ہوں فن سے

مولانا یوسف علی خاں عزیز ؔ جیسا کہ ذکر کیا گیا ، مختلف اصناف شاعری پر قادر تھے۔ اسلامی تاریخ و ادب سے واقفیت کی بنا پر انھوں نے وقتاً فوقتاً جو کچھ لکھا وہ مبشرات ؔحق آیات، معجزؔ نما سیرت،ہادیٔ برؔ حق، فقہ کے ؔامام اعظم،میلاد ؔعزیز،ایمان ؔعزیز،زندہ ؔمعجزہ، حدیث ؔحسن، ذواؔلنورین، وحدتؔ الوجود، تاریخؔ اتحاد اسلام اور تاریخؔ افتراق اسلام جیسی کتابوں کی صورت میں موجود ہے۔ یہ تمام کتابیں اردو نثرمیں ہیں۔ ان کے علاوہ شاعری اور اس کی جملہ اصناف مثلاً غزل، قصیدہ، مرثیہ ، رباعی، مثنوی ،قطعہ، مسدس، مخمس وغیرہ کی ہیئتوں میں جو سرمایہ ٔ ادب ان سے یادگار ہے ، وہ بھی بہت قابل لحاظ ہے۔ان شعری اصناف کے علاوہ انھیں نعت، سلام اور منقبت گوئی میں بھی ید طولیٰ حاصل تھا۔ چنانچہ ان کا نعتیہ کلام فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں موجود ہے۔ اگر ہم فی الوقت فارسی زبان میں لکھے گئے اس کلام سے صرف نظر کر لیں تو اردو میں کہے گئے نعتیہ قصائد اور غزلوں کے علاوہ سلام اورمنقبتوں کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔یہ سارا کلام یوسف علی خاں عزیزؔکی کتا ب’ نغمۂ ؔعندلیب‘ مطبوعہ کراچی‘(۱۴۱۹ ھ؍ ۱۹۹۸ء) اور ’قران ؔناطق‘ مطبوعہ کراچی ( ۱۹۶۷ء) میں موجود ہے۔ان ہی کتابوں سے انتخاب کر کے ایک دوسرا مجموعۂ نعت یوسف علی خاں عزیزؔکے بڑے بیٹے سید صداقت علی نے ’ارمغان ِ ؔعزیز‘ (مطبوعہ کراچی۲۰۱۰ء)کے نام سے شائع کیا ہے۔ان کتابوں پر جن حضرات کے تبصرے شائع ہوئے ہیں ان میں پروفیسر سید کرار حسین، ڈاکٹر فرمان فتحپوری، خالدمحمود نقش بندی،پروفیسر ظفر اقبال، ڈاکٹر محمد مسعود احمد اور ڈاکٹر ناصر الدین وغیرہ کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے۔

یوسف علی خاں حافظ قران بھی تھے اور اسلامی ادب و تاریخ پر ان کی گہری نظر تھی۔ اس کا احساس ان کے نعتیہ کلام کے علاوہ ان قصائد ، مثنویوں اور مراثی سے بھی ہوتا ہے جو ادب ؔعزیز(حصہ اول و دوم ) مطبوعہ ۶۶۔۱۹۶۷ء کراچی میں شامل ہے۔مثنویاں تو تمامتر مذہبی نوعیت کی ہی حامل ہیں۔اس سلسلے میں یوسف علی خاں عزیزؔ کی کتابیں مثلاً معینؔ الادب (مطبوعہ ۱۹۲۹ء)، صداقت ؔعزیز( مطبوعہ ۱۹۳۳ء)، دہلی) اور قران ناؔطق مع لواء الحمد (مطبوعہ ۱۹۶۸ء) کوموضوع گفتگو بنایا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ان کا بیشتر سرمایۂ ادب مذہبی نوعیت کا حامل رہا۔فی الوقت اس کی تفصیل سے قطع نظر، پیش نظر مضمون کا مقصد یوسف علی خاں عزیزؔ کے نعتیہ کلام کی جانب قارئین کی توجہ مبذول کرانا ہے جو اپنی غایت کے لحاظ سے نعتیہ ادب کا بیش بہا سرمایہ ہے۔

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

یوسف علی خاں عزیزؔ کا نعتیہ کلام عموماً دو شعری اصناف پر مشتمل ہے۔ اول قصیدہ اور دوم غزل۔ یعنی نعتیہ قصائد اور نعتیہ غزلیں لیکن ان کے علاوہ متعدد قطعات بھی ایسے ہیں جنھیں نعتیہ قطعات کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ان مختلف شعری اصناف کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یوسف علی خاں عزیزؔ عشق نبی میں سرشار تھے۔ ان کا مشہور نعتیہ شعر ہے۔ ؎


پڑھنی ہے نعت پاک شہہِ انبیا مجھے

اپنی زبان دیدے ذرا اے خدا مجھے

اس شعر میں شاعر نے جس زبان کی تمنا کی ہے، اس کا ا نداز اور بیان بھی ممدوح کے حسب منشا ہی ہو نا چاہئیے۔ چنانچہ یوسف علی خاں لکھتے ہیں۔ ؎


کوثر سے دھلی ہوئی زباں ہو

قراں سے ملا ہوا بیاں ہو

تائید خدائے انس و جاں ہو

حبّ نعت رسول دو جہاں ہو

یوسف علی خاں نے اسی جذبے سے سرشار ہو کر متعدد نعتیہ قصیدے اور ۱۰۵؍ سے زائدنعتیہ غزلیں کہی ہیں۔پہلے چند نعتیہ قصائد کے مطلعے ملاحظہ کیجیے :

۱-

نہ زانو تھا نہ آئینہ نہ حیرت تھی نہ سکتہ تھا

وہ زلفیں جب بھی تھیں ، وہ نور رخ جب بھی چمکتا تھا

(تعداد اشعار ۸۱؍)

۲-

خالق اپنے نور سے جب نور پھیلانے لگا

حسن روئے حق نما ، ظاہر نظر آنے لگا

(تعداد اشعار ۹۳؍)

۳-

عالم میںکہیں نام نہ تھا مہر و وفا کا

عالم تھا جہاں بھر میں جفا کا ہی جفا کا

(تعداد اشعار ۹۵؍)

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

۴-

نشۂ عشق حقیقی سے جو سرشار نہ تھا

ایسا بیہوش کسی دور میں ہشیار نہ تھا

(تعداد اشعار ۲۲؍)

۵-

مہر و عزت، ذرہ خاکِ زمین مصطفیٰ

بہر رحمت ، قطرۂ آب و جبین مصطفیٰ

(تعداداشعار ۱۹؍)

۶-

کھٹکا لگا ہوا ہے اس دور میں فنا کا

ساقی مجھے پلا دے ساغرمئے بقا کا

( تعداد اشعار ۳۱؍)

۷-

الٰہی کس بلا کا منقلب دور قمر آیا

کہ ثابت کا اثر بھی لے کے لاکھوں شور و شر آیا

( تعداد اشعار ۵۷؍)

۸-

ذرّے ہیں آئینہ دار آفتاب

ہیں زمیں یا جلوہ زار آفتاب

( تعداد اشعار ۳۶؍)

۹-

اٹھا اوج فاراں سے رحمت سحاب

دعا میکشوں کی ہوئی مستجاب

( تعداد اشعار ۵۳؍)

۱۰-

ملحوظ خدا ہے ادب شان محمد

ہشیار ذرا نعت سر آیان محمد

( تعداد اشعار۶۱)

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

۱۱-

پھر وہی چشم تمنا ہے وہی سرمۂ نور

پھر وہی منظر سینا ہے وہی جلوۂ طور

( تعداداشعار ۴۸؍)

۱۲-

باد رحمت چل رہی ہے آئے بادل دل کے دل

لو گھٹا گھنگور چھائی ہے ترشح بر محل

( تعداد اشعار ۶۱؍ )

۱۳-

کہہ گئے کعبے میں دل پر ہاتھ رکھ رکھ کر خلیل

کہ ہو گیا سینہ منوّر جلوۂ نور جمیل

( تعداد اشعار ۷۵؍)

۱۴-

غنچۂ و گل سے ہوا آج معطّر ہے نسیم

کس کی زلفوں کی یہ پھیلی ہے گلستاں میں شمیم

( تعداد اشعار ۵۹؍)

۱۵

آتا ہے کون گل بدن ایسا صبا کے ساتھ

خوشبو جو عطر بن کے اڑی ہے ہوا کے ساتھ

( تعداد اشعار ۵۳؍)

۱۶-

اللہ کی حمد ورد زباں ، یہ طور ہے فرض عبادت کا

ہے نعت محمد زیب بیاں ، یہ رنگ ہے اصل محبت کا

( تعداد اشعار ۵۵؍)

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

مزید مطلعوں کی تفصیلات سے قطع نظر، عرض یہ کرنا ہے کہ یوسف علی خاں عزیزؔ کے تمام تر نعتیہ قصائد نہ صرف حمد باری تعالیٰ بلکہ نعت رسول عربی کی شان والا صفات کے علم بردار ہیں۔ یہ اللہ کی وحدانیت اور رسول کی مدحت سے لبریز ایسے قصائد ہیں جن میں اسلامی تاریخ کا گہرا رنگ قارئین کو متوجہ کرتا ہے اور وہ اپنے اندر غیر معمولی روحانی کشش بھی محسوس کرتا ہے۔مثلاً مثنوی کی ہیئت میں لکھے گئے ایک قصیدے کے بعض اشعار دیکھیے، ان کے مطالعے سے موضوع پر شاعر کی فنکارانہ دسترس کا خود بخود اندازہ ہو جائے گا۔ ؎


رات تھی یا استتار آفتاب

صبح لایا انتظار آفتاب

آئے دنیا میں وہ نور حق، جو ہیں

ربّ مہ، پروردگار آفتاب

آگئے عزت فزائے ماہتاب

آگئے حاجت بر آر آفتاب

ان سے چمکی قسمت ماہِ ربیع

ان سے دمکا بخت یار آفتاب

نازش عرش و عزیز کائنات

فخر ماہ و افتخار آفتاب

زینت لعل و ضیا بخش نہار

مرکز ماہ و مدار آفتاب

رحمت عالم، شفیع انبیاء

ماہُ تسکین و قرار آفتاب

صدقے خورشید رسالت پر ہوئے

کل کبار و کل صغار آفتاب

روز افزوں چہرے کی تشبیہ سے

عزت ماہ و وقار آفتاب

ظلِ زلف و تابش رخسار پاک

محسن لیل و نہار آفتاب

حسن کے بانی، حبیب کردگار

دلبر ماہ و نگار آفتاب

آسماں لینے جھکا خیرات حسن

لے کے طشت زرنگار آفتاب

اقتدار ِسرّ قدرت پر نثار

ق

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

رجعت بے اختیار آفتاب

پھیرنے والے کی روشن برتری

کہہ رہا ہے اضطرار آفتاب

جو عطا ہوتی نہ نورانی حیات

بن گیا ہوتا مزار آفتاب

ایک اور نعتیہ قصیدۂ مقتضب کے یہ ابتدائی اشعار بھی ملاحظہ کیجیے۔ رسول اللہ کے حسن و جمال کی کیسی دلکش تصویر پیش کی ہے۔ ؎


تیری تصویر کس نے کن حسیں ہاتھوں سے کھینچی ہے

حسیں ہاتھوں سے کیا ، حسن آفریں ہاتھوں سے کھینچی ہے

تری تحریر سے روشن ہے، تونے صورتِ قدرت

حسیں آنکھوں سے دیکھی ہے ، حسیں ہاتھوں سے کھینچی ہے

سواد ِ خط کو تیرے دیکھنے والوں پہ روشن ہے

ضیائے چشمۂ مہر مبیں ہاتھوں سے کھینچی ہے

حصار شرع و نقش معرفت، پانوںسے کھینچا ہے

بنائے عافیت ، دیوار دیں ہاتھوں سے کھینچی ہے

جو دیکھا نامۂ اقدس، کہا قیصرنے اسقف سے

یہ کس نے صورت صدق و یقیں ہاتھوں سے کھینچی ہے

قمر شق ہو، برابر ہو یہ کس کو دسترس حاصل

لیکر اعجاز کی اے مہ جبیںہاتھوں سے کھینچی ہے

شب معراج اگر ہوتے تو ہم بھی پوچھتے حق سے

یہ کس نے صورت حسن آفریں ہاتھوں سے کھینچی ہے

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

جیسا کہ ذکر کیا گیا،یوسف علی خاں عزیز ؔنے نعتیہ قصائد کے علاوہ نعتیہ غزلیں بھی کہی ہیں۔ یہ غزلیں بظاہر سہل ممتنع کا انداز رکھتی ہیں مگر ان میں اکثر قران و احادیث کے تراجم بھی موجود ہیں۔ ان کے متعلق نغمۂ ؔعندلیب کے ایک مبصر جناب خالد محمود کا بیان ہے کہ ’’ حضرت (یعنی یوسف علی خاں عزیزؔ ) کے نعتیہ مجموعے کو پڑھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آپ کی ذات ایک مسیحا تھی جو گونگے الفاظ کو استعمال کے بعد قوت گویائی بخش دے اور الفاظ بول اٹھیں۔ یہ ایک انمٹ حقیقت بھی ہے اور مشاہدہ بھی مگر ہر ایک شعر کو محبت کی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔‘‘ ( بحوالہ نغمۂ عندلیب ص ۳۴۰)ذیل میں چند منتخب نعتیہ اشعار ملاحظہ کیجیے۔ اس سے اندازہ ہوگا کہ یوسف علی خاں عزیز ؔ نہ صرف موضوع بلکہ اس کے فنکارانہ بیان پر بھی قدرت رکھتے تھے:


رسول اسم صفت ہے ظہور معنیٰ ہے

سمجھنے والوں نے ظاہر خدا کو دیکھ لیا

زبان دل سے پڑھا کلمۂ شہادت جب

خدا کو دیکھ لیا مصطفیٰ کو دیکھ لیا

اعجاز سراپا پے یا جلوہ گہہ قدرت

اے قامت بے سایہ ائے سایہ ٔ بے ظلمت

آئینۂ آیت میں گنجینۂ رافت میں

ہے صاف تری صورت ، ہے پاک تری سیرت

تہذیب نکھرتی ہے اخلاق سنورتے ہیں

ہر قال میں سو حکمت ،ہر حال میں سو رحمت

شان خدا بھی آپ، نشان خدا بھی آپ

حق کا بیاں بھی آپ ہیں حق کی ادا بھی آپ

احمد ہیں حامدوں میں محمد ہیں خلق میں

یوں مجتبیٰ بھی آپ ہیں یوں مصطفیٰ بھی آپ

خدا کا حسن ہے روئے محمد

خدا کا خلق ہے خوئے محمد

ہوا آزاد فکر دو جہاں سے

اسیر بند گیسوئے محمد

محبت میں عجب کچھ دلکشی ہے

کھچا جاتا یے دل سوئے محمد

کیا شان ہے اے صلِ علیٰ شان محمد

ہے رحمت اللہ بھی قربان محمد

اسرار مشیّت، خم ِ ابروئے معنبر !

اظہار ِ حقیقت ، رخ تابان محمد

طٰہٰ کی دمک، جسم منور کی لطافت

یٰسیں کی چمک، تابشِ دندان محمد

میرا یہ عقیدہ ہے یہی ہے مرا ایماں

ممکن ہی نہیں خلق میں ہم شانِ محمد

خوشا قسمت ہوا ہے ہند سے آنا مدینے میں

الٰہی حشر تک ہو جائے رہ جانا مدینے میں

حضور؟ اللہ کا دیدار بندوں کو کہاں ہوگا

مرا یہ پوچھنا اوران کا فرمانا مدینے میں

حیراں ہیں سب رتبہ شناسان محمد

کس طرح لکھیں مدحت شایان محمد

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

آخری الذکر شعر دراصل ایک قصیدے کامطلع ہے۔ مشہور پاکستانی نقاد پروفیسر فرمان فتحپوری نے اپنے تبصرے میں اس کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ اس قصیدے میں کم و بیش سو اشعار ہیں کہ سرور آگیں وجدانی کیفیتوں کے جام چھلکاتے ہیں۔زبان و بیان کے رنگ جماتے ہیںاور حضور اکرم کی سیرت طیبہ و اسوۂ حسنہ کے جلال و جمال کے ایسے مناظر دکھاتے ہیں کہ ان اشعار کو سننے اور پڑھنے والے خود بھی ثنا خوان محمد کی صف میں شعوری یا لاشعوری طور پر آ کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ کسی شاعر کی نعت گوئی کا ایسا وصف ہے جو توفیق الٰہی کے بغیر میسر نہیں آتا۔بحمد للہ یہ توفیق ’ نغمۂ عندلیب کے شاعر کو حاصل ہے۔‘‘

(بحوالہ نغمۂ عندلیب ص ۳۳۷)

یوسف علی خا ں عزیزؔ بلا شبہ ایک بلند پایہ نعت گو شاعر تھے۔ان کا نعتیہ کلام حد ادب سے کبھی تجاوز نہیں کرتا:


ملحوظ نعت میں رہے حد ادب عزیزؔ

کہہ دیں نہ اہل ذوق کہ حد سے نکل گیا

مزید دیکھیے =[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

سانچہ:بکس مضامین

نئے صفحات