مولانا محمد علی جوہر کی ملّی شاعری میں نعتیہ عناصر ۔ ڈاکٹر محمد طاہر قریشی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Naat Kainaat Naat Rang.jpg

مضمون نگار: ڈاکٹر محمدطاہر قریشی۔کراچی

مولانا محمد علی جوہر کی ملّی شاعری میں نعتیہ عناصر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ABSTRACT: Maulana Muhammad Ali Jauhar was great freedom loving leader who rendered sacrifices for freedom of India, particularly Indian Muslims. He remained in prison for years during his struggle but did not give up hope and wrote Editorials for his Newspaper against British Government in occupied India. He also wrote poetry and expressed his Love of Prophet Muhammad (S.A.W). He penned down some couplets in praise of Him (S.A.W.). The couplets, he wrote, though not much in terms of quantity, yet are of great value in poetic sensibility and impression due to the reason that they carry valuable sentiments of devotion. This article present some account of devotional poetry of Maulana Muhammad Ali Jauhar.

مسلمانانِ ہند کی سیاسی تاریخ میں مولانا محمد علی جوہر کی شخصیت نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ کم ہی شخصیات ہیں جو اتنی کثیرالصفات ہوتی ہیں۔ وہ بیک وقت شعلہ بیان مقرر، قلم کو تلوار بنا دینے والے جری صحافی ۱؎ الفاظ سے گولہ باری کرنے والے ادیب، اسلام اور پیغمبر اسلام کے سچے شیدائی، تحریک خلافت کے ایسے رہنما کہ محمد علی جوہر اور تحریک خلافت لازم و ملزوم، علی گڑھ اور آکسفورڈ کے بہترین طالب علم، انگریزی کے اعلیٰ درجے کے انشاء پرداز اور ایک بہترین مدیر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بلند پایہ شاعر بھی تھے۔ ۲؎ جمال الدین افغانی کے بعد جوہرؔ نے ’’اتحاد بین الاسلامی‘‘کی آواز کو نہ صرف بلند کیا بلکہ عملاً اس کے لیے وقف بھی ہوگئے۔ ۳؎ ہندوستان ہی نہیں دنیائے اسلام میں کہیں بھی کسی کلمہ گو کے پھانس چبھی تو بقول عبدالماجد دریا بادی، اس کی چبھن محمد علی جوہر کے سینے میں لگتی۔ ۴؎ ،اسلام یا شعائر اسلام پر کہیں کوئی حملہ ہو تو اس کی تڑپ محمد علی کے سینے میں پیدا ہوتی۔ ۵؎ اس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے مسلمانوں کو آزادی کا صحیح مفہوم بھی سمجھایا اور اس کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کا جذبہ بھی پیدا کیا۔ ۶؎ محمد علی جوہر کی ساری زندگی برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی سیاسی اور فکری رہنمائی کرتے ہوئے گزری۔ ۷؎؎ ان کی تحریر و تقریر اور شاعری کا مرکز و محور ملّت اسلامیہ بالخصوص ہندوستان کی ملّت اسلامیہ تھا۔ وہ اپنی زندگی میں ہندوستان کو آزاد ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکے لیکن جس طرح مسلسل انھوں نے اپنی قوم کے لیے جدوجہد کی ہے ان کا نام ہمیشہ ’’برصغیر کی تاریخ میں زندہ رہے گا۔‘‘ ۸؎

جہاں تک محمد علی جوہر کی شاعری کا تعلق ہے تو ان کا کلام ’’جبر و استبداد کی قوتوں کے مقابلے کے لیے اعلان کلمۃ الحق کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘ ۹؎ ملّی شاعری میں ان کا بھی ایک مقام ہے اگرچہ شاعرانہ مقام کے لحاظ سے ’’وہ اقبال کے افکار بلند کی گرد کو بھی نہ پہنچتے تھے لیکن اسلامی انقلابی افکار اور ملّی احساسات کے لحاظ سے محمد علی اقبال سے کم نہ تھے۔‘‘۱۰؎ جوہر کے کلام کا ایک ’’معتدبہ حصہ ’محبوسیات‘ کے تحت آتا ہے۔‘‘۱۱؎ لیکن ایسی شاعری میں بھی مایوسی اور پژمردگی کا کوئی گزر نہیں ہے بلکہ امید، حوصلے اور باطل کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا جذبہ نمایاں ہے اور اس میں آورد کے بجائے آمد ہی آمد ہے۔ ۱۲؎ ان کی غزلیں صرف شاعر کے جذبۂ دروں کی ہی غمّاز نہیں ہیں۱۳؎ بلکہ اس دور کے سیاسی ماحول اور مسلمانانِ ہند کے اجتماعی احساسات کی ترجمان بھی ہیں۔

محمد علی جوہر ۱۹۲۲ء میں جب بیجا پور ڈسٹرکٹ جیل میں قید تنہائی میں تھے تو کال کوٹھڑی میں انھیں نعرۂ تکبیر اللہ اکبر کی آوازیں سنائی دیں جس سے انھوں نے اندازہ لگایا کہ ترکوں کو یونانیوں کے خلاف سمرنا میں کامیابی حاصل ہوئی ہے جس پر انھوں نے مندرجہ ذیل غزل کہی۔ ۱۴؎ کئی اشعار اس میں ایسے ہیں جو ملّی شاعری کے زمرے میںآتے ہیں اور نعتیہ عناصر کے حامل ہیں:


ہے نام مصطفی کی یہ برکت کہ پھر خدا

یوں جڑ جما رہا ہے محمد کے دین کی

بہرِ خدا یہود و نصاریٰ کو دو نکال

یہ ہے وصیّت اس کے رسول امین کی

وہ انبیاء کا مولد و مدفن سپرد ہے

ختم الرسل اور اس کے ہر اک جانشین کی

چودہ برس جو قبلہ رہا ہے رسول کا

اپنا لہو رگوں میں ہے اس کی زمین کی ۵؎۱

آخری شعر کے مصرع ثانی کو جوہر نے یوں بھی لکھا ہے:

قیمت ہے اپنا خون اسی کی زمین کی ۱۶؎


مولانا محمد علی جوہر کا شعری سرمایہ مقدار میں زیادہ نہیں ہے۔ اس میں بیشتر غزلیات ہیں جسے کلیتاً ملّی شاعری میں شمار کرنا تو صحیح نہیں ہے لیکن ان کی غزلوں میں کئی اشعار ایسے نظر آتے ہیں جن میں جوہر کا ملّی کرب نہ صرف برعظیم پاک و ہند کی ملّت اسلامیہ کے لیے بلکہ عالم اسلام کے لیے بہت واضح طور پر جھلکتا ہے۔ مذکورہ بالا غزل کو صرف ہیئت کے لحاظ سے ہی غزل کہا جا سکتا ہے وگرنہ اس میں غزل یا روایتی غزل جیسی کوئی بات نہیں ہے اور کوئی مناسب عنوان دے کر اسے بآسانی نظم قرار دیا جاسکتا ہے۔ اسی قبیل کی جوہر کی دیگر غزلیات ہیں۔ کئی غزلیات مولانا محمد علی جوہر کے ایامِ اسیری کی یادگار ہیں لیکن اسیری کے دوران بھی جوہر دل شکستہ نہیں ہوتے۔ ان کا جذبۂ اسلامی اور خدا اور رسولصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت انھیں مایوسی سے بچائے رکھتی ہے۔ اس کا اظہار ان کی شاعری میں بھی نظر آتا ہے۔ چند منتخب اشعار درج ذیل ہیں:


مرا یہ شور و شیون سب درِ باغ جناں تک ہے

فغان بلبل نالاں بہارِ بے خزاں تک ہے

بھلا مایوس کیوں کر اس سے ہو امّت محمد کی

کہ جس نصرت کا وعدہ ہر ضعیف و ناتواں تک ہے ۱۷؎

ایک دوسری غزل جس کا مطلع ثانی ہے:

قید ہے جوہر کہ بیجا پور کی تسخیر ہے

گولکنڈے بھی جو جا پہنچے تو عالم گیر ہے


اور آگے چل کے واضح کرتے ہیں کہ قرآنِ پاک بھی انھیں اس لیے عزیز ہے کیوں کہ اس میں سرورِ کائنات کی جیتی جاگتی تصویر نظر آتی ہے:


ہو محمد کیوں نہ قرآں اور بھی ہم عزیز

اس میں خود تیری جو جیتی جاگتی تصویر ہے ۱۸؎


جوہر یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اگر روزِ محشر، شافع محشر کی شفاعت نصیب نہ ہو تو مسلمان بے یار و مددگار ہو جائیں گے۔جوہر کی ایک مشہور غزل کا مطلع ہے:


سینہ ہمارا فگار دیکھیے کب تک رہے

چشم یہ خوننابہ بار دیکھیے کب تک رہے


اس غزل میں کئی ملّی اشعار ہیں۔ ایک شعر میں امّت مسلمہ کی امیدوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:


امّتِ احمد کو ہے فضل کی تیرے امید

فضل کی امیدوار دیکھیے کب تک رہے ۲۰؎


مولانا محمد علی جوہر کے دیوان میں، جسے دیوان کہنا درست نہیں ہے کیوں کہ اس میں غزلیات ردیف وار نہیں ہیں، ایک نظم ’’شان کلکتہ‘‘ کے عنوان سے ہے جو کلکتہ میں ہنگامے اور حکومت کے مسلمانوں پر تشدّد سے متاثر ہوکر لکھی گئی ہے جس میں شاعر نے مسجدِ کان پور کا بھی فخریہ تذکرہ کیا ہے:


اللہ نے بڑھائی ہے کیا شانِ کلکتہ

روحِ رسول آج ہے مہمانِ کلکتہ

یثرب کی خاکِ پاک کے ہر ذرّہ کے لیے

سوجان سے فدا ہیں غلامانِ کلکتہ

مسرور خلد میں ہیں شہیدانِ کان پور

ہوں گے شریکِ بزمِ شہیدانِ کلکتہ ۲۱؎


سرسیّد احمد خان کی قومی خدمات کے محمد علی جوہر زبردست مدّاح تھے۔ ۱۹۰۷ء میں سرسیّد ڈے کے موقعے پر جوہر نے ایک نظم پڑھی تھی جس کا عنوان ’’عرضداشت بخدمت سرسیّد احمد خان مرحوم و مغفور‘‘ تھا۔ ۲۲؎ پوری نظم میں سرسیّد کے کارناموں کو، جو انھوں نے ملک و قوم کے لیے کیے، زبردست خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔ ایک شعر میں سرور کونین کے حوالے سے کہتے ہیں:


ملا ہے تم کو ورثہ قوم کی مشکل کشائی کا

عزیز مصطفی تم ہو عزیز مرتضیٰؓ تم ہو ۲۳؎


جوہر کی غزلیات سے چند اور شعر پیش کیے جاتے ہیں جو ذکر مصطفی کے حامل ہیں:


کافر ہنسی اڑائیں خدا کے وعید کی

ساعت نہ یوں ٹلے گی عذاب شدید کی

ہے خواب میں بھی حسنِ پیمبر تجھے حجاب

جوہر کی آرزو ہی رہی تیری دید کی ۲۴؎

نہیں معلوم کیا ہو حشر جوہر کا پر اتنا ہے

کہ ہاں نام محمد مرتے دم وردِ زباں پایا ۲۵؎

ہے محمد کی شفاعت تو خدا کی رحمت

حشر کیا عید ہے امّت کے گنہگاروں کی ۲۶؎

بے مایہ سہی لیکن شاید وہ بُلا بھیجیں

بھیجی ہیں درودوں کی کچھ ہم نے بھی سوغاتیں ۲۷؎


مولانا محمد علی جوہر کا مختصر شعری سرمایہ اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ اگر وہ سیاست اور صحافت کے گرفتارِ بلا نہ ہوتے تو ان میں بڑا شاعر بننے کی پوری صلاحیت موجود تھی۔ لیکن اس مختصر سے سرمائے میں بھی ملّت اسلامیہ کا درد، اتحاد اسلامی کی آرزو، اپنے دین و مذہب سے سچا لگائو اور خاص طور پر خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت کے عناصر پوری طرح جلوہ گر ہیں۔


حواشی و حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱۔ قدوائی، توکّل حسین، مقدمہ بر ’’مولانا محمد علی جوہر، حیات اور تعلیمی نظریات‘‘، ص ۸

۲۔ دریابادی، عبدالماجد، مولانا، ’’مولانا محمد علی کی جامعیت‘‘، ص ۲۴

۳۔ یوسفی، اللہ بخش، ’’علی برادران، نام و نسب‘‘، ص ۱۱۳

۴۔ ایضاً، ص ۲۴

۵۔ ایضاً

۶۔ قدوائی، توکّل حسین، محوّلہ بالا، ص ۱۸

۷۔ نیر، طاہرہ، ڈاکٹر، ’’اردو شاعری میں پاکستانی قومیت کا اظہار‘‘، ص ۹۰

۸۔ قادری، محمد ایوب، پروفیسر، تعارف بر ’’مولانا محمد علی جوہر، حیات اور تعلیمی نظریات‘‘، ص ۲۰

۹۔ برنی، انعام عظیم، ’’مولانا محمد علی جوہر کی شاعری ایک آپ بیتی‘‘، ص ۱۱۶

۱۰۔ شاہجہاں پوری، ابو سلمان، ڈاکٹر، ’’مولانا محمد علی جوہر اور اقبال‘‘، ص ۲۴۱

۱۱۔ برنی، انعام عظیم، محوّلہ بالا، ص ۱۱۶

۱۲۔ حسین، اعجاز، ڈاکٹر، ’’مختصر تاریخ ادب اردو‘‘، ص ۳۵۱

۱۳۔ محمود الرحمان، ڈاکٹر، ’’جنگ آزادی کے اردو شعراء‘‘، ص ۲۴۵

۱۴۔ ’’دیوان جوہر‘‘، ص ۵۱

۱۵۔ ایضاً

۱۶۔ ایضاً

۱۷۔ ایضاً، ص ۶۳

۱۸۔ ایضاً، ص ۸۵

۱۹۔ ایضاً، ص ۱۴۱

۲۰۔ ایضاً، ص ۱۴۲

۲۱۔ ایضاً، ص ۱۵۴

۲۲۔ ایضاً، ص ۱۶۳

۲۳۔ ایضاً، ص ۱۶۴

۲۴۔ ایضاً، ص ۱۰۱

۲۵۔ ایضاً، ص ۱۰۵

۲۶۔ ایضاً، ص ۱۱۷

۲۷۔ ایضاً، ص ۱۳۱

فہرست ِ اسنادِمحوّلہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

برنی، انعام عظیم، ۱۹۷۸ء، ’’مولانا محمد علی جوہر کی شاعری ایک آپ بیتی‘‘، مشمولہ: سہ ماہی ’’العلم‘‘ (کراچی)، مولانا محمد علی جوہر نمبر

حسین، اعجاز، ڈاکٹر، ۱۹۵۶ء، ’’مختصر تاریخ ادب اردو‘‘، اردو اکیڈمی سندھ، کراچی، پہلا پاکستانی ایڈیشن

دریا بادی، عبدالماجد، مولانا، ۱۹۷۸ء، ’’مولانا محمد علی کی جامعیت‘‘، مشمولہ: العلم (سہ ماہی)، مولانا محمد علی جوہر نمبر، کراچی

ابو سلمان شاہ جہاں پوری ، ڈاکٹر، ۷۸۔۱۹۷۹ء، ’’مولانا محمد علی جوہر اور اقبال‘‘، مشمولہ: ’’علم و آگہی‘‘ (کراچی)، مجلّہ گورنمنٹ نیشنل کالج

قادری، محمد ایوب، ۱۹۹۰ء، تعارف بر ’’مولانا محمد علی جوہر، حیات اور تعلیمی نظریات‘‘، مؤلف، ثناء الحق صدیقی، آل پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس، کراچی، بار دوم

قدوائی، توکل حسین، ۱۹۹۰ء، مقدمہ ’’مولانا محمد علی جوہر، حیات اور تعلیمی نظریات‘‘، آل پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس، کراچی، بار دوم

محمود الرحمن، ڈاکٹر، ۱۹۸۶ء، ’’جنگ آزادی کے اردو شعراء‘‘، قومی ادارہ برائے تحقیق تاریخ و ثقافت، اسلام آباد، بار اوّل

نیر، طاہرہ، ڈاکٹر، ۱۹۹۹ء، ’’اردو شاعری میں پاکستانی قومیت کا اظہار‘‘، انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی، بار اوّل

یوسفی، اللہ بخش، ۱۹۷۸ء، ’’علی برادران نام و نسب‘‘، مشمولہ: سہ ماہی ’’العلم‘‘ (کراچی)، مولانا محمد علی جوہر نمبرجوہر، محمد علی،مولانا، ۱۹۶۲ء، ’’دیوان جوہر‘‘، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، بار اوّل