مجلہ دبستان نعت پر عمیق نظر ۔ اقبال اعظمی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Dabastan e naat.jpg

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

مضمون نگار: اقبال ؔاعظمی( یوپی)

مطبوعہ: دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

’’ دبستان نعت پر ایک عمیق نظر‘‘[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

محترم جناب ڈاکٹر سراج حمد قادری صاحب

ایڈیٹر ’’ دبستان ِ نعت ‘‘

خلیل آبا ، سنت کبیر نگر

سلام مسنون

امید کہ آپ بخیر ہوں گے۔ آپ کے تحقیقی مقالے ’’ نعتیہ روایت کا عروج و ار تقاء ‘‘ کے توسط سے میں آپ کو کئی برسوں سے جانتا ہوں۔ آپ کی ادارت میں نکلنے والے نعتیہ جریدے ’’دبستان ِ نعت ‘‘ کا پہلا شمارہ جنوری تا جون ۲۰۱۶؁ء ہمارے بھتیجے مولانا وصال احمد اعظمی صاحب کے بدست مو صول ہوا۔ مکمل طور پر تو نہیں مگر کہیں کہیں سے اس کا مطالعہ کیا۔ آپ اس جریدے کے ذریعہ گمنام اور ایسے نعت گو شعرأ کو متعارف کرانا چاہتے ہیں جن پر اہلِ قلم نے یا تو اب تک قلم ہی نہیں اٹھایا اور قلم اٹھایا بھی تو ان پر بہت کم لکھا گیا۔ آپ کا یہ جذبہ قابلِ تحسین ہے۔ پہلے ہی شمارے میں آپ اپنے مقصد میں بہت حد تک کامیاب نظر آتے ہیں کیوں کہ آپ نے اس میں کئی اہلِ علم قلم کاروں اور شعرأ کو متعارف کرایاان سے اکثر لوگ نا واقف ہیں۔ یہاں تک کہ میرے ہی قصبے گھوسی کے ۳۷ ؍ نعت گو علمأ کی فہرست جناب مولانا ڈاکٹر شکیل احمد اعظمی صاحب نے پیش کی ان میں سے کئی ایسے نام ہیں جنہیں میں بحیثیت شاعر نہیں جانتا تھا۔ مجموعی طور پر تمام مضامین معلوماتی اور قابلِ ستائش ہیں۔ اگر چہ اس شمارے میں کہیں کہیں کتابت کی غلطیاں پائی جا رہی ہیں مگر جریدے کی اہمیت پر ان کا اثر پڑنے کا امکان کم ہے۔ اس کے علاوہ کچھ دیگر خامیاں بھی در آئی ہیں۔ چند کا ذکر یہاں کر دینا مناسب سمجھتاہوں۔

’’ اسلام کے اساطیر الاوّلین کا مثالی کردار پیش کرسکتے ہیں۔ ( ص ۱۴ )

اساطیر ! عربی،مونث، اسطارہ اور اسطورہ کی جمع ، قصے کہانیاں۔

اساطیر الاوّلین !اگلے لوگوں کے قصے کہانیاں ( فیروز اللغات جلد کلاں )

اساطین ! عربی ، مذکر ، اسطوانہ کی جمع ، بہت سے ستون ( فیروز الغات )

لہٰذہ ’’ اساطیر الاوّلین ‘‘ کی بجائے ’’ اساطین امت ‘‘ ہونا چاہئے۔

’ ماضی کے دریچوں کو جھانک کر دیکھتے ہیں ‘‘ ( ص ۹ ) ’’ کو ‘‘ کی بجائے ’’ سے ‘‘ ہونا چاہئے۔

’’ بالکل کلمۂ توحید کے مانند ہے۔ ‘‘ (ص ۱۱) ’’ کے ‘‘ کی بجائے ’ ’ کی ‘‘ ہونا چاہیٔ۔

نعتیہ نظم ( ص ۳۵۴) یہ نظم بحرِ متقارب فعولن۔فعولن۔فعولن پر کہی گئی ہے۔

گل ہائے مدحت کے گجرے صبا اپنے آنچل میں اس در کی مٹی کا غازہ چھپاتی رہے گی۔ لیکن پہلے مصرع میں فعلن فعولن فعولن ہے اور بقیہ تمام مصرعوں میں فعولن فعولن فعولن ہے۔

تقطیع! گُل ہا ئے مدحت کِ گجرے فعلن فعولن فعولن

صبا اپ نِ آچل مِ اس در کِ مٹی کَ غازہ چھپاتی رہے گی

فعولن فعولن فعولن فعولن فعولن فعولن فعولن

اگر سنجیدگی سے غور و خوض کیا جائے تو حمد و نعت سے زیادہ سچی شاعری کسی اور بھی صنف نے اہِل علم و ادب کو دیا ہی نہیں ‘‘ (ص ۱۰)

’’ دیا ‘‘ کی بجائے ’’ دی ‘‘ ہونا چاہیٔ۔

ولادت مصطفوی ﷺ ( ابوالخیر کشفی ) ( ص ۳۴۸)

یہ نعت بحر ِ ہجز مثمن سالم پر ہے۔ یعنی ایک مصرع میں مفاعیلن چار با ر آئے گا۔جبکہ اس نعت کے ایک مصرع میں مفاعیلن تین بار اور ایک مصرع میں پانچ بار آیا ہے۔ بقیہ مصرعوں میں چار چار بار مفاعیلن آیا ہے۔ملاحظہ فرمائیں۔

(۱)نگاہ ِ کفر و ظلمت ہو گئی اندھی

تقطیع ! نگاہِ کف رُظلمت ہو گئی اندھی

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن

شیاطیں اس طرح بھاگیٔ کہ جیسے ابرہہ کی فوج بھاگی تھی

تقطیع! شیاطی اس طرح بھاگے کِ جیسے اب رہہ کی فو ج بھاگی تھی

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن

مقبول وہ بندہ جو بندہ ہے خدا کا( چندر بھان خیال ، ص ۳۶۰)

اس میں بندہ کے بعد ’’ ہے ‘‘ لفظ چھوٹ گیا ہے۔

اس کو یوں پڑھیٔ !

مقبول وہ بندہ ہے جو بندہ ہے خدا کا

ادھو مہاجن بسمل ؔ ( ص ۳۶۱)

(۱)آنسو کا ہر اک قطرہ پھر مثلِ گوہر ہوگا۔کتابت میں ’’ گہر ‘‘ کی جگہ ’’ گوہر ‘‘ چھپ گیا ہے۔ اس کو یوں پڑھیٔ!

آنسو کا ہر اک قطرہ پھر مثلِ گہر ہوگا۔

(۲)بند کرکے نگاہوں کو جائے گا جو طیبہ

چو کھٹ پہ محمد کے پھر اہلِ نظر ہوگا

یہ نعت بحرِ ہزج اخرب مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن پر کہی گئی ہے۔

پہلا مصرع ساقط الوزن ہے۔ طیبہ کے بعد لفظ ’’ جو ‘‘ ہو نا چاہئے۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

دوسرے مصرع میں چو کھٹ کو بطورِ مذکر استعمال کیا گیا ہے ، جبکہ چو کھٹ مؤنث ہے۔ لہٰذا دوسرے مصرع میں ’’ کے ‘‘ کی بجائے ’’ کی ‘‘ ہونا چاہئے ، دونوں مصرعوں کو یوں پڑھا جائے !


بند کرکے نگاہوں کو جائے گا جو طیبہ

چوکھٹ پہ محمد کی پھر اہلِ نظر ہوگا

تقطیع! بد کرک نگاہو کو جائے گ جُ طیبہ کو

مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن

یہ بات عام طور پر مانی جاتی تھی کہ شاعر کے کلام میں طلسماتی طاقت ہوتی ہے اور ان پر جنات قابو ہیں ‘‘ ( فنِ نعت اور نعت گوئی از ڈاکٹر خسرو حسینی ، ص ۳۳) ’ قابو ‘‘ کی بجائے ’’قابض ‘‘ ہو نا چاہئے۔

’ قرآن مجید کی بلیغ و فصیح بیانی نے عربوں کے فخر اور احسا س برتری ِ، جو ان کے شعر و سخن کی وجہ سے تھی ‘‘ (ص ۳۴)

’ قرآن مجید کے فصیح و بلیغ طرزِ بیان نے ‘‘ ہونا چاہئے۔

’’ اللہ تعالیٰ نے شاعر کو مجنوں ضرور کہا ہے۔‘‘

وہ کون سی آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے شاعر کو مجنوں کہا ہے ؟

’ جن کے فعل و قول میں کوئی مناسبت نہیں۔ ‘‘ ( ص ۳۴ )

’’ جن کے قول و فعل ‘‘ ہونا چاہئے۔

’ یعنی سب سے بہتر شعر وہ ہے جو سب سے زیادہ جھوٹ کا حامی ہے ‘‘ (ص۳۴ )

’ حامی ‘‘ کی بجائے ’’حامل ‘‘ہونا چاہئے۔

’’ حقیقت نگاری اور کردار آموزی وغیرہ وغیرہ داخل ہو کر شعر و سخن کو ایک مقصد عطا کیا۔ ‘‘ (ص ۳۵)

’ آموزی ‘‘ کی بجائے ’’ سازی ‘‘ اور وغیرہ وغیرہ کے بعد ’’ نے ‘‘ ہونا چاہئے۔

’’ترجیح بند‘‘۔ ( ص ۳۶) یہاں پر ’’ ترجیع بند ‘‘ ہو نا چاہئے۔

’ الدایح النبویہ ‘‘ ( ص ۳۶)

’ المدائح النبویہ ‘‘ ہونا چاہئے۔

’ سامنے آنے والے نئی ہیئتیں ‘‘ ( ص۳۷) ’’ والے‘‘ کی بجائے ’’ والی ‘‘ ہونا چاہئے۔

’ ہم یہاں پر ‘‘( ص ۳۸ ) ’’ پر زائد ‘‘ ہے۔

’ فن ِ شعر کے وہ سا رے اصناف فنِ نعت میں کامیابی کے ساتھ آزمائے گئے ہیں۔‘‘ (ص ۴۳)

اصناف ! صنف کی جمع ، قسمیں ( مونث ) فیروز الغات۔ ’’ سارے ‘‘ کی بجائے ’’ ساری ‘‘ اور ’’ آزمائے گئے ہیں۔ ‘‘ کی جگہ ’’ آزمائی گئی ہیں ‘‘ ہونا چاہئے۔

’’ ترجیح بند ‘‘ ( ص ۴۳ ) ’’ ترجیع ‘‘ بند ہونا چاہئے۔

’ جنہوں نے نعتیں بھی کہی ‘‘ ( ص ۴۳ ) ’’ کہی ‘‘ کی بجائے ’’ کہیں ‘‘ ہونا چاہئے۔

’ جنہوں نے چند ہی نعت کہے ہیں۔ ‘‘ ( ص ۴۳) ’’ کہے ‘‘ کی بجائے ’’ کہی ‘‘ ہونا چاہئے۔

’ ان کی شہرت زیادہ ان نعتوں کی وجہ ہوگی۔ ‘‘ ( ص۴۳) ’’ وجہ سے ہوئی۔ ‘‘ ہونا چاہئے۔

’ تیسری جماعت کو سب سے زیادہ اہم اور قابلِ الذکر شعرأ سے توصیف کرتے ہیں۔ ‘‘ (ص ۴۴)

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

’ سب سے زیادہ اہم اور قابلِ ذکر شعرأ کے اوصاف سے متصف کرتے ہیں۔‘‘ ہونا چاہئے۔

’ جو شعرأ حفظ مراتب کا خیال نہ رکھتے ہوں وہ انتہائی ضلالت پر اتر آنے کے مترادف ہے۔ ‘‘ ( ص ۵۱ ) ’’ جو شعرأ حفظِ مراتب کا خیال نہ رکھتے ہوں ان کا یہ عمل انتہائی ضلالت پر اتر آنے کے مترادف ہے۔ ‘‘ ہو نا چاہئے۔

’ اعتراضات جذبۂ ظاہری کو نمایاں کرتی ہیں ‘‘ (ص ۵۱) ’’ کرتی ‘‘ کی بجائے ’’کرتے ‘‘ ہونا چا ہئے۔

’’ جو بھی احساسات اور جذبات شعر کے ذریعہ نمودار ہوں گے ان کو صرف ادبی سطح پر پڑھا جائے گا بلکہ وہ عوام تک پہنچیں گی۔ ‘‘ (ص ۵۲)

’ صرف ‘‘ کی بجائے ’’ نہ صرف ‘‘ اور ’’ گی ‘‘ کی بجائے ’’ گے ‘‘ ہونا چاہئے۔

’ عربی میں جمع مذکر حاضر کی ضمیر انتم واحد مذکر کی جگہ شاید ہی استعمال ہوا کرتا ہے۔ ‘‘ ( ص ۵۳)

’ کرتا ‘‘ کی بجائے ’’ کرتی ‘‘ ہو نا چاہئے۔

’’ جہاں نعت شریف لکھا جا رہا ہے۔ ‘‘ ( ص ۵۴ ) نعت ( مونث ) مدح ، تعریف (فیروز الغات)

’ لکھا جا رہا ہے ‘‘ کی بجائے ’’ لکھی جا رہی ہے ‘‘ ہونا چاہئے۔

’’ لحن کی وجہ کوئی کمی بیشی نہ ہو نے پائے ‘‘ (ص۵۴)’’ لحن کی وجہ سے‘‘ ہونا چاہئے۔

" جس کی وجہ سا معین کے توجہ کی یکسوئی میں فرق پڑ جائے۔ ‘‘ ( ص ۵۴ )

توجہ:۔( مونث) رغبت، خیال ، مہربانی ( فیروزا لغات ) ’ ’ جس کی وجہ سے سامعین کی توجہ ‘‘ ہونا چاہئے۔

" نعت خواں کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ الفاظ کو صحیح رکھے اور غلط نہ پڑھیں۔ ‘‘ (ص۵۴)

’ پڑھیں ‘‘ کی بجائے ’’ پڑھے ‘‘ ہو نا چاہئے۔

’ سامعین نعت پر بھی اوپر بیان کی ہوئی شرائط لازم آتے ہیں۔ ‘‘ ( ص ۵۴ )

شرائط:۔ ( مذکر، مونث) شرط کی جمع ( فیروز الغات )

بطور مذکر :۔اوپر بیان کئے ہوئے شرائط لازم آتے ہیں۔ ہوگا۔

بطور مونث!اوپر بیان کی ہوئی شرائط لازم آتی ہیں۔ ہوگا۔

’ صوفیہ کرام نے نہ صرف فن شعری میں بلکہ فن نثر میں بھی نعت کہی ہے۔ ‘‘ ( ص۵۵)

’ صوفیہ ‘‘ کی بجائے ’’ صوفیا ‘‘ اور شعری کی بجائے ’’ شعر ‘‘ ہونا چاہئے۔

’ ان کی تصانیف میں جا بجا نعتیہ اشعار بھی درج ہیں جو خود کی کہی ہوئی ہیں۔ ‘‘ ( ص۵۵) ’’ کہی ہوئی ‘‘ کی بجائے ’’ کہے ہوئے ‘‘ ہو نا چاہئے۔

’ صوفیہ کرام کا کلام ‘‘ ( ص ۵۵ ) ’’ صوفیا ئے ‘‘ ہو نا چاہئے۔

حافظ شیرازی کے اشعار ( ص ۵۵ )

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659


(۱) اے خسرو خوباں نظری سوئے گدا کن

رحمی بمن سوختہ بے سرو پا کن

اس شعر میں دوسرا مصرع بحر سے خارج ہے۔ یہ دونوںا شعار بحر ہزج اخرب مقصور محزوف بر وزن مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن پر کہے گئے ہیں۔

’ نظری ‘‘ اور ’’ رحمی ‘‘ کو ’’ نظرے ‘‘ اور ’’ رحمے ‘‘ لکھنا چاہئے۔

دوسرا مصرع:۔ ’’ رحمے بمن سوخۃجاں بے سرو پا کن ‘‘ ہو نا چاہے۔

تقطیع:۔ اے خسر وِ خوبان َ ظرے سوئے گدا کن

مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن

رحمے ب منے شوخ تَ جا بے سَ رُپا کن


(۲)دارد دل دریش تمنائے نگاہے

زاں چشم ِ سیہ مست بیک غم زدہ روا کن

(درویش کا دل ایک نگاہ کی تمنا رکھتا ہے۔ اس مست اور کالی چشم کی ایک ادا سے حاجت روائی کر دینا )

دوسرا مصرع بحر سے خارج ہے۔ ’’ غم زدہ روا کن ‘‘ کا ترجمہ ’’ حاجت روائی کردینا ‘‘ کیا گیا ہے۔ حاجت کے لئے اس میں کوئی لفظ نہیں آیا۔غمزدہ بمعنی ’’ غم کامارا ہوا ‘‘ ہوتا ہے نہ کہ ’’حاجت‘‘ پھر یہ بھی نہیں معلوم کہ کس کی’’ حاجت روائی کر دینا۔ ‘‘

یہ شعر یوں ہونا چاہئے۔ ؎


دارد دلِ درویش تمنائے نگاہے

زاں چشم ِ سیہ مست بیک غمزدہ را کن

( درویش کا دل تیری ایک نگاہ کا تمنائی ہے۔ اپنی کالی مست آنکھوں سے غم کے مارے پر ایک نظر کر۔ )

تقطیع :۔ زا چشم سیہ مست بیک غمز دراکن

مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن

’ عربی کے بھی نعتیں۔ ‘‘ ( ص ۵۵ ) ’’ کے ‘‘ کی بجائے ’’ کی ‘‘ ہونا چاہئے۔

’ لطیف اثر صاحب پر اللہ جلّ شاہ کی ایک خصوصی عنایت ہے۔ ‘‘ ( ص ۱۶۴۔از طاہرؔ سلطانی)

’’ جلّ شاہ ‘‘ کی بجائے ’’ جل ّ شانہ ‘‘ ہو نا چاہئے۔

سن ستتر میں مدینے مجھ کو بلوایا گیا اس طریقے کہ دنیا آج تک حیران ہے

( شاعر رؤف ؔ امروہوی ، مقالہ نگار ڈاکٹر صابر ؔ سنبھلی ص ۱۹۸) کتابت میں ’’طریقے‘‘ کے بعد ’’ سے ‘‘ لفظ چھوٹ گیا ہے۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

’’ آپ کے عقیدت مندوں کا ‘‘ (ڈاکٹر صابر سنبھلی ص ۲۰۱) ’’ کے ‘‘ کی بجائے ’’ کی ‘‘ چھپ گیا ہے۔

استاد شاعر جناب یعقوب اعظمی صاحب کی رحلت پر آپ نے رباعیات میں خراج تحسین پیش کیا تھا۔

دنیائے فکر و فن کا وہ یعقوب اعظمی کردار کا بلند طبیعت صاف تھا

علمِ عروض میں نہ تھا اس کا کوئی جواب ہر صاحبِ کمال کو یہ اعتراف تھا

(نثار کریمی ایک قادر الکلام شاعر از وصال اعظمی ص ۲۷۴؍۲۷۳)

عزیزم مولانا وصال احمد اعظمی صاحب کو اس میں سہو ہو گیا ہے۔ میرے برادرِ مکرم جناب نثار کریم صاحب مرحوم نے یہ اشعار قطعہ کی ہیئت میں کہے ہیں۔ اس مضمون میں آپ کے تین قطعات پیش کئے گئے ہیں جو بحر مضارع مکفوف محذوف بروزن مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن پرکہے گئے ہیں۔

رباعی:۔ رباعی میں چار مصرعے ہوتے ہیں۔ تیسرے مصرع کے علاوہ بقیہ مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ رباعی بحر ہزج مثمن کے زحافات پر کہی جاتی ہے۔ رباعی کے چوبیس (۲۴) اوزان مقرر ہیں۔ بارہ ( ۱۲) اخرب اور بارہ (۱۲) اخر م کے۔ ان کے علاوہ کسی بھی وزن پر کہے گئے چار مصرعے رباعی میں شمار نہیں ہوتے۔ انہیں قطعہ کہتے ہیں۔

اخرب کے اوزان کی مثال:(۱) مفعول مفاعلن مفاعیل فعول

(۲)مفعول مفاعیل مفاعیل فعول

اخرم کے اوزان کی مثال :

(۱)مفعولن مفاعلن مفاعیل فعول

(۲)مفعولن مفعول مفاعیل فعول

غالب نے اسے غزل ہی رہنے دیا ہے۔ ‘‘ ( ڈاکٹر سید حسین احمد شاہ، پٹنہ ص ۲۵ )

غزل:۔ (مونث ) عورت سے باتیں کرنا ، نظم کی ایک صنف ( فیروز اللغات ) غزل مؤنث ہے۔ لہٰذا ’’ دیا ‘‘ کی بجائے ’’ دی ‘‘ ہونا چاہئے۔

" درج بالا حمدیہ اشعار یہ ثابت کرتے ہیں کہ کرشن کمار طور ؔ کا دل ایمان کی روشنی اپنے آپ میں رکھتا ہے۔ ‘‘ (از ڈاکٹر فہیم احمد صدیقی ص۸۰؍۷۹)

کسی غیر مسلم شاعر کا حمدیہ یا نعتیہ کلام اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ اس کا دل ’’ایمان کی روشنی اپنے آپ میں رکھتا ہے۔‘‘جب تک کہ وہ صدق دل سے ایمان نہ لائے۔

’حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا ‘‘( ۸۲؍۸۱)ادب کا تقاضہ ہے کہ امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کہا جائے۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

’ ان کے حق میں سب سے بڑا انعام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں نعت کہنے کی سعادت سے نوازا ہے۔ اس سے بڑھ کر کوئی انعام نہیں ہو سکتا ہے۔ ‘‘( ص ۸۳ )

نعت گوئی مومن کے لئے سعادت ہے ، غیر مسلم کے لئے نہیں۔

ڈاکٹرفہیم احمد صدیقی صاحب فن نعت کے پہلے نقاد ہیں جنہوں نے ایک غیر مسلم کے نام کے پہلے لفظ ’’ حضرت ‘‘ لکھا ہے۔ یعنی ’’ حضرت کرشن کمار طور ‘‘دبستان نعت کے مدیر اور تمام اہلِ قلم مبارکباد کے مستحق ہیں کہ ان حضرات کا یہ عمل صحرا میں پھول کھلانے کے مترادف ہے۔

اخلاص اور خیر خواہی کے جذبے کے تحت یہ مراسلہ لکھا گیا ہے ، کسی کی دل آزاری کے لئے نہیں۔ اگر کسی بھائی کو اس سے تکلیف پہنچے تو مجھے معاف فرما دیں گے۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
نئے صفحات