مجدد نعت حفیظ تائب ۔ سید خالد یزدانی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

از : سید خالد یزدنی

بشکریہ : نوائے وقت

مجدد نعت حفیظ تائب[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مجدد نعت حفیظ تائب آج ہم میں نہیں ان کو ہم سے جدا ہوئے نو برس بیت گئے مگروہ آج بھی ہمارے دلوں میں موجود ہیں نعت خواں ان کے کلام کو آج بھی پیش کرکے داد و تحسین پا رہے ہیں بلاشبہ حفیظ تائب اردو پنجابی نعت گوئی کی تاریخ میں اہم اور نمایاں شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ان کی نعتیں آج بھی فضاﺅں میں ہوا کے دوش پر کانوں میں اترتی ہیں تو سننے والے کے دل و دماغ کو مسحور کردیتی ہیں نعتیہ کلام کی یہی خوبی ہے اسے حفیظ تائب نے لکھا ہے

حفیظ تائب نے شاعری کی ابتدا تو غزل سے کی مگر بعد میں غزل ترک کرکے نعت کے میدان میں ایسے آئے کہ پھر اسی کے ہوکر رہ گئے۔ ان کی پیدائش 14 فروری 1931ء کو پشاور میں ہوئی مگر آبائی علاقہ احمد نگر ہے ابتدائی تعلم بھی یہیں حاصل کی بعد ازاں لاہور آگئے ۔ 1974ءمیں پرائیویٹ ایم اے پنجابی کیا۔ پھر شعبہ پنجابی اورینٹل کالج میں بطور لیکچرر بھرتی ہوئے اور یہیں سے 13 فروری 1991 کو ریٹائر ہوئے۔ وہ 1988ءمیں کینسر کے مرض میں مبتلا ہوئے لیکن انہوں نے اپنے علمی و ادبی مشاغل میں اپنی بیماری کو بھی آڑے نہ آنے دیا۔ بالآخر 23 ربیع الثانی 1425 ھ اپنے خالق حقیقی سے جاملے بعدازاں مر حوم کو لاہور کے مقامی قبرستان مےں سےنکڑوں سوگواروں نے نماز جنازہ ادا کر کے سپرد خاک کےاتھا حفیظ تائب کی زندگی مےں اےک بار صاحب طرزشاعر ادیب احمد ندیم قاسمی نے ان کی نعت گوئی پر اظہارکرتے ہوئے کہا تھا کہ

”میں نے فارسی، اردو اور پنجابی کی بے شمار نعتیں پڑھی ہیں، ان میں آنحضرت سے عقیدت اور عشق کا اظہار تو جابجا ملتا ہے مگر حفیظ تائب کے ہاں اس عقیدت اور عشق کے پہلو بہ پہلو میں نے جو ندرت اظہار دیکھی ہے، اس کی مثال ذرا کم ہی دستیاب ہوگی۔“

یوں تو حفیظ تائب کی زندگی میں ہی ملک کے معروف اہل علم و فن نے ان کو خراجِ تحسین پیش کیا تھا اور ان کی وفات کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ ان کا حمدیہ اور نعتیہ کلام ان کے دل کی آواز تھا اور عشق رسول ان کے ہر ہر شعر میں جھلکتا ہے اس لئے تو ڈاکٹر سید عبداللہ نے کہا تھا

حفیظ تائب کی نعتیں سچائی کے وصف سے متصف ہیں۔ ان کے اظہار میں خلوص ہر جگہ نمایاں ہے۔ حفیظ تائب کو نعت کے ان شعری تقاضوں کا پورا خیال رہتا ہے۔ ان کی نعت میں مترنم ردیف بڑی اہمیت رکھتی ہے چونکہ نعت عموماً سنائے جانے کے لئے لکھی جاتی ہے اس لئے نعت کا شاعر اجتماعی ساعت کے تقاضوں کا خیال رکھتا ہے حفیظ تائب بھی یہی کرتے ہیں۔“

ہر سال حفیظ تائب کی برسی پرتقاریب اور مجدد نعت کے حوالے سے سیمینارز کا باقاعدگی سے انعقاد کرنے کے علاوہ ان کی غیر مطبوعہ/ غیر مدون تصنیفی کام کی تدوین کا سلسلہ جاری رکھنے کے لئے چند سال پہلے حفیظ تائب فاﺅنڈیشن کا قیام بھی عمل میں لایا گیا تھا۔ عبدالمجید منہاس جو تا ئب مرحوم کے بھائی ہیں کو فاﺅنڈیشن کا اتفاق رائے سے چیرمین منتخب کیا گیا تھا جن کی مساعی سے ہر سال باقاعدگی سے حفیظ تائب کے مشن کو جاری رکھنے کے لئے وہ تن من دہن سے کوشاں ہیں اس میں نواسہ¿ حفیظ تائب محمد نعمان بھی منہاس صاحب کی معاونت کررہے ہیں تاکہ حفیظ تائب کے حمدیہ و نعتیہ کلام کی ازسر نو اشاعت کے ساتھ حمد و نعت اور دیگر متعلقہ موضوعات کے بارے میں کتب و جرائد پر مشتمل ایک وسیع کتب خانے کا قیام و انصرام ہرسکے تاکہ حمد و نعت کے موضوع پر تخلیقی اور تحقیقی کام کرنے والوں کو مطالعہ کی سہولت مل سکے۔

آج مجدد نعت حفیظ تائب کی نویں برسی ہے حاجی چراغ دین منہاس قادری سہروردی جیسے باعمل درویش کو خدانے جو بیٹا عطا کیا اس وقت کسے علم تھا کہ اسے اس کی زندگی ہی میں عہد ساز نعت گو شاعر کی حیثیت سے ساری دنیا میں جانا پہچانا جائے گا اور اس کا نعتیہ کلام دنیا بھر میں سراہا جائے گا۔ مجدد نعت حفیظ تائب کی برسی پر خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ان کی چند نعتیں رقم کرتا ہوں۔ جس میں وارفتگی بھی ہے اور شستگی کے ساتھ شائستگی بھی۔برجستگی کے باوجود متانت جو لازمہ ء ادب ہے۔ آرائش کا یہ رنگ اور زیبائش کا یہ ڈھنگ ان کی نعتوں میں ہر جگہ جلوہ افزا ہے۔

شوق و دنیاز و عجز کے سانچے میں ڈھل کے آ یہ کوچہ حبیب ہے پلکوں سے چل کے آ ٭٭ خوشبو ہے دو عالم میں تری اے گل چیدہ کس منہ سے بیاں ہوں ترے اوصافِ حمیدہ ٭٭ اللہ نے پہنچایا سرکار کے قدموں میں کیا کیا نہ سکوں پایا سرکار کے قدموں میں

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حفیظ تائب | حفیظ تائب پر مضامین