مجدد نعت حفیظ تائب ۔ سعد اللہ شاہ

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

از سعد اللہ شاہ

حضور ﷺکے ذکر پر آپ کی پلکوںپر عقیدت کے ستارے جھلملانے لگتے‘ لبوں پر تشکر کے الفاظ مہکتے اور آپ کا دل احساسِ تشکر سے سرشار ہو جاتا آقاؐ کے سامنے پیش کرنے کیلئے نذرانۂ سخن اگر آراستہ و پیراستہ ‘صنائع بدائع سے مزین اور تشبیہ و استعارہ سے متصف ہو تو لطف آ گیں ہے ان کی نعتوں میں حسن وجمال بھی ہے اور فضائل و شمائل بھی، ان کا میلان سراپا بیانی کی طرف کم اور سیرت نگاری کی جانب زیادہ تھا حفیظ تائب کا نام نعت سے اس قدر وابستہ و پیوستہ ہے کہ نعت ان کا تشخص اور پہچان بن چکی ہے۔ کیوں نہ بنتی کہ انہوں نے اپنے آپ کو توصیفِ مصطفیٰؐ کے لیے وقف کر دیا تھا۔ ان کے شب و روز گل ہائے عقیدت سے مہکتے رہتے تھے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ربِ ایزدی نے انہیں اپنے محبوب کی ثناء و مدحت کے لیے انتخاب کر لیا ہے۔ وہ خود بھی اس قبولیت سے آگاہ تھے اور سپاس گزار بھی:


کتنا بڑا کرم ہے کہ تائب سا بے ہنر

توصیفِ مصطفیٰؐ کے لیے چن لیا گیا

نعتِ حضرتؐ مری پہچان ہے سبحان اللہ

یہی دنیا‘ یہی ایمان ہے سبحان اللہ


حفیظ تائب کی ولادت اگرچہ پشاور میں مورخہ 14فروری 1931 کو ہوئی مگر ان کا آبائی گائوں احمد نگر ضلع گوجرانوالہ تھا۔ اسی مناسبت سے ایمائیت کے ساتھ تائب صاحب نے کہا تھا:


خوش ہوں کہ میری خاک ہی احمدنگر کی ہے

مجھ پر نظر ازل سے شہِؐ بحر و بر کی ہے


آپ کی ولادت کی خوشخبری ایک درویش نے آپ کے والد مکرم حاجی چراغ دین قادری سروری کو دی تھی کہ آپ کا فرزند حمد و نعت گوئی میں مقام پیدا کرے گا۔ آپ کے والدِ ماجد خود بھی برگزیدہ شخص تھے۔ ان کی وجہِ شہرت امامت و تدریس فی سبیل اللہ تھی۔ ساتھ ہی ساتھ نعت خوانی کا اہتمام خصوصاً کرتے۔ حفیظ تائب کو نعت سے شغف اور محبت یہیں سے ملی۔ اگرچہ انہوں نے آغازِ سخن غزل سے کیا مگر یہ وہ غزل نہیں جو لہو و لعب کی طرف لے جاتی ہو۔ آپ کی غزل میں بھی تصوف اور ایقان کی جھلک موجود تھی۔ شاید یہ مشقِ سخن نعت گوئی کی تیاری تھی جب آپ گلشنِ نعت میں داخل ہوئے تو پھر یہیں کے ہو رہے۔ اس کی آب و ہوا آپ کو بہت راس آئی۔ یہ باریابی آپ کے سچے جذبے‘ بے پایاں خلوص‘ کھری طلب اور بے پناہ عاجزی کے باعث نصیب ہوئی۔حضور کے ذکر پر آپ کی پلکوںپر عقیدت کے ستارے جھلملانے لگتے‘ لبوں پر تشکر کے الفاظ مہکتے اور آپ کا دل احساسِ تشکر سے سرشار ہو جاتا۔ اپنی کیفیتِ حضوری کو انہوں نے اپنے سخن میں یوں پیش کیا کہ سلیقہ اور قرینۂ نیاز مندی بتا دیا:


شوقِ نیاز و عجز کے سانچے میں ڈھل کے آ

یہ کوچۂ حبیبؐ ہے پلکوں سے چل کے آ

سوزِ تپش سخن میں اگر چاہتا ہے تُو

عشقِ نبیؐ کی آگ سے تائب پگھل کے آ


حفیظ تائب پر قدرت مہربان تھی۔ خودبخود ان کی سمت نمائی ہوتی گئی۔ واپڈا میں رہے اور پھر اورینٹل کالج کے شعبہ پنجابی میں استاد مقرر ہوئے۔ آپ ویسے بھی کثیر المطالعہ تھے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ درس و تدریس سے منسلک ہوگئے۔ استاد کے پاس اور کچھ ہو نہ ہو اسے وافر وقت ضرور میسر آ جاتا ہے۔ حفیظ تائب نے اپنا وقت قیمتی بنا لیا۔ آقاؐ کی محبت ذوق و شوق کو مہمیز لگاتی گئی اور تخلیق کا عمل جاری رہا۔ چونکہ آپ نقاد‘ استاد اور محقق بھی تھے اس لیے معیار قائم رکھنے کی قابلیت بھی پیدا ہوگئی۔ ویسے تو نعت گوئی سر بسر عطائے خداوندی ہے جیسے کہ حافظ افضل فقیر نے کہا تھا:


کیا فکر کی جولانی‘ کیا عرضِ ہنر مندی

توصیفِ پیمبرؐ ہے‘ توفیقِ خداوندی


جب اجازت مل جاتی ہے تو پھر پسِ پردہ فکر کو جولانی بھی مل جاتی ہے اور ہنرمندی بھی نصیب بنتی ہے۔ آقاؐ کے سامنے پیش کرنے کے لیے نذرانۂ سخن اگر آراستہ و پیراستہ ہو‘ صنائع بدائع سے مزین ہو اور تشبیہ و استعارہ سے متصف ہو تو لطف آ گیں ہے تاہم بنیادی بات نیت‘ خلوص‘ شیفتگی اور والہانہ پن کی ہے۔ حفیظ تائب کے لیے غایتِ حیات صرف نعت ہی تھی تو انہوں نے اسے اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ عطاء الحق قاسمی نے بجا کہا تھا کہ

’’وہ نعت کب کہتے ہیں‘ نعت میں زندہ رہتے ہیں‘‘۔

مجھے تو یوں لگتا ہے جیسے وہ قیامت کے دن نعت پڑھتے ہوئے اٹھیں گے۔ لیجیے میرا خیال سخن میں ڈھل گیا:


اٹھیں گے حشر میں تائبؔ ثناء بہ لب اے سعدؔ

مرا گمان حقیقت سے ہوگا ہم آغوش


ان کی نعتوں میں حسن وجمال بھی ہے اور فضائل و شمائل بھی۔ ان کا میلان سراپا بیان کرنے کی طرف کم اور سیرت نگاری کی جانب زیادہ تھا۔ اس حوالے سے ان کا تعلق ثناء گستران کے اس کارواں سے ہے جس کے مسافر مولانا حالی علامہ اقبال اور مولانا ظفر علی خاں ہیں۔ وہ محسن کاکوروی کی طرز کو بھی اپناتے ہیں۔ فکری حوالے سے وہ مولانا حالی کے ساتھ زیادہ انسیت رکھتے ہیں۔ حالی کی طرح انہوں نے بھی مسلمانوں کی حالتِ زار‘ شہر آشوب اور مسائل پیش کیے ہیں۔ حالی نے مسدس میں اور اقبال نے شکوہ اور جوابِ شکوہ میں ہماری بے اعتدالیوں‘ بے راہ رویوں اور بداعمالیوں کا ذکر کیا اور زوال کے اسباب بتائے ہیں۔ اسی طرح حفیظ تائب نے بھی حضوری میں دل کے پھپھولے پھوڑے ہیں اور اس امت کے لیے رہنمائی مانگی ہے۔ تائب صاحب اپنا تعلق خاطر یا ربط باہم ان ہستیوں سے جوڑنے کے آرزو مند ہیں جو عشقِ نبیؐ سے سرشار ہو کر نعت سے وابستہ رہیں۔ جن رفتگاں سے وہ متاثر ہیں ان کی ہم نشینی کے لیے خدائے بزرگ و برتر سے دعا جو ہیں۔ انہوں نے کس خوبصورت انداز میں اپنے پیش روئوں کی توصیف بھی کر دی ہے۔


یارب! ثناء میں کعبؒ <ref>کعب بن زہیر </ref>کی دلکش ادا ملے

فتنوں کی دوپہر میں سکوں کی ردا ملے

حسانؒ <ref> حسان بن ثابت </ref> کا شکوہِ بیاں مجھ کو ہو عطا

تائیدِ جبرئیلؑ بوقتِ ثناء ملے

بوصیریِؒ <ref> امام بوصیری </ref>عظیم کا ہوں میں بھی مقتدی

بیماریِ الم سے مجھے بھی شفا ملے

جامیؒ <ref> عبدالرحمان جامی </ref> کا جذب‘ لہجہِ قدسیؒ <ref> حاجی محمد جان قدسی </ref> نصیب ہو

سعدیؒ <ref> شیخ سعدی شیرازی </ref> کا صدقہ شعر کو اذنِ بقا ملے

آئے قضا شہیدیِؒ <ref> کرامت علی شہیدی </ref>خوش بخت کی طرح

دوری میں بھی حضوریِ احمدؒ رضا <ref> امام احمد رضا خان بریلوی </ref> ملے

مجھ کو عطا ہو زورِ بیانِ ظفر علیؒ <ref> مولانا ظفر علی خان </ref>

محسنؒ <ref> محسن کاکوروی </ref> کی ندرتوں سے مرا سلسلا ملے

حالیؒ <ref> مولانا الطاف حسین حالی </ref> کے درد سے ہو مرا فکر استوار

ادراکِ خاص حضرتِ اقبالؒ <ref> علامہ محمد اقبال </ref> کا ملے

جو مدحتِ نبیؐ میں رہا شاد و بامراد

اس کاروانِ شوق سے تائبؔ <ref> حفیظ تائب </ref>بھی جا ملے


وہ مزاجاً بھی ایک مُصلح اور خدمت گزار تھے۔ ہر وقت سمٹے سمٹائے‘ گردن خم اور آنکھیں نیچی۔ جیسے وہ زمین پر بوجھ نہیں بننا چاہتے۔ تکبر‘ نخوت اور گھمنڈ کا کبھی شائبہ تک نہیں تھا۔ ان کے اس رویے نے انہیں ہر دلعزیز ہی نہیں اتنا مکرم و محترم بنا دیا کہ انہیں مل کر لوگ فخر محسوس کرتے۔ وہ شدید بیماری کے عالم میں بھی جس طرح طہارت اور پاکیزگی کا خیال کرتے وہ حیران کن تھا۔ وہ حالی کی طرح اپنے معاشرے کی تطہیر چاہتے تھے۔ ان کے اندر امت مسلمہ کے لیے ایک تڑپ تھی کہ وہ اسوۂ حسنہ سے روشنی حاصل کرکے ایک مرتبہ پھر دنیا میں سرخرو ہو۔ خورشید رضوی صاحب نے ان کے اور حالی کے درمیان مماثلت کو بہت اچھے انداز میں واضح کیا ہے اور انہوں شیخ عبدالقادر کے بانگ درا کے لیے لکھے گئے مقدمہ کا حوالہ دیا ہے جو ایک ہی وقت میں تائب صاحب کے لیے زبردست خراجِ تحسین بھی ہے۔ شیخ عبدالقادر لکھتے ہیں:


’’ اگر میں تناسخ کا قائل ہوتا تو ضرور کہتا کہ مرزا اسداللہ خاں غالب کو اردو اور فارسی شاعری سے جو عشق تھا اس نے ان کی روح کو عدم میں جاکر بھی چین نہ لینے دیا اور مجبور کیا کہ وہ پھر کسی جسدِ خاکی میں جلوہ افروز ہو کر شاعری کے چمن کی آبیاری کرے اور اس نے پنجاب کے ایک گوشے میں جسے سیالکوٹ کہتے ہیں دوبارہ جنم لیا اور محمد اقبال نام پایا‘‘۔ میرے دل میں کچھ ایسا ہی خیال مولانا حالی اور حفیظ تائب صاحب کی نسبت پیدا ہوتا ہے۔ ذکاوت اور شرافت‘ فنکاری اور اخلاص‘ صلاحیت اور محنت‘ کمال اور انکسار‘ گداز اور ہمت کا جو امتزاج حالی شخصیت میں دکھائی دیتا ہے۔ حفیظ تائب کی ذات اسی کا نقشِ مکرر محسوس ہوتی ہے بلکہ آخر آخر میں تو ایک روز میں نے از رہِ تفنن ان سے کہا بھی کہ حضرت! اب تو وضع قطع میں بھی موبمو حالی دکھائی دینے لگے ہیں ‘‘۔

اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ نعت حفیظ تائب کے قلب وذہن پر اثر انداز ہوئی۔ ان کے چہرے مہرے سے‘ ان کی نشست و برخاست اور رہن سہن سے سیرت مترشح تھی۔ باشرع ہونا از بس ضروری ہے اور پھر عادات و اطوار نکھرے ہوئے۔ دوسروں کی تعظیم‘ وضع داری‘ برداشت اور نرم خوئی سب کچھ حضورؐ کے مکارمِ اخلاق کا صدقہ ہے۔ نعت کے آثار خود پر نظر آ جائیں تو یہ اس در سے باریابی کی سند ہے۔ انہوں نے اپنے گلشن نعت کو سجانے کے سو جتن کیے۔ مطالعہ‘ تجسس‘ جستجو‘ تلاش‘ سوچ بچار اور دھیان سب کچھ نظر آتا ہے۔ سخن کاری کوئی آسان کام ہے! اور پھر جب ذکر آقاؐ کا ہو تو احتیاط اور احترام کی حد شروع ہو جاتی ہے۔ تائب صاحب نے سخن آرائی میں بساط بھر کوشش کی۔ آتش نے یونہی نہیں کہا تھا: بندشِ الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا اس حوالے سے خاص طور ان کا قصیدۂ نعتیہ ’آیۂ نور‘ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ میں تو اس میں کھو کر رہ گیا گو کہ یہ حالی کی زمین میں لکھا گیا ہے مگر اس کی اپنی اہمیت اور مقام ہے۔ تائب صاحب روایتی تمہید و تشبیب کو ایک طرف رکھتے ہوئے سیدھے مدح پر آگئے ہیں:


جب کیا میں نے قصدِ نعتِ حضورؐ

ہوئے یکجا شعور و تحتِ شعور

ورنہ میں اور محامدِ احمدؐ

جس کی خاطر ہوا یہ نور و ظہور

نطق جس کا حیات کا دستور

زندگی جس کی ہے منارۂ نور

حسن سے جس کے کائنات حسیں

عشق سے جس کے خلق ہے مسحور


غزل کے حصہ میں قافیہ بدل کر کیا دلگداز شعر نکالے ہیں۔ قاری دل تھام کر رہ جاتا ہے۔


جی رہا ہوں میں اس دیار سے دور

چارہ جو جیسے چارہ کار سے دور

گم ہوں یادِ حبیبؐ میں تائب

فکرِ فردا کے خلفشار سے دور


اور پھر طلب کے ضمن میں طلب دیکھیے:


صلۂ مدحِ مصطفیٰؐ چاہوں

یہ نہیں میری طبع کو منظور

کیا یہ اعزاز کم ہے میرے لیے

نعتِ خیر الوریٰؐ پہ ہوں معمور


اس کے بعد دعا میں ایک ہی شعر کے اندر سب کچھ مانگ لیا:


آخرت کے سبھی مراحل میں

میرے نزدیک تر ہوں میرے حضورؐ


دل تو چاہتا تھا کہ میں ’آیۂ نور‘ پورے کا پورا نقل کر دوں۔ مگر دو شعروں نے تو مجھے مار ہی دیا۔ میں کلیات بند کرکے دیر تک آنکھیں بند کیے‘ انہیں تصویر میں ڈھالتا رہا۔


آب جُو کی طرح ہوں سرگرداں

نکل آیا ہوں کوہسار سے دور

اک گلِ حسرتِ ملال میں ہوں

مسکرایا ہوں شاخسار سے دور


تائب صاحب کے حوالے سے خورشید رضوی نے ان کی تخلیقی اپج کا ذکر کیا کہ بعض اوقات وہ حیرت انگیز مضامین لے کر آتے ہیں۔ ظاہر ہے ایسا انہماک‘ لگن اور وابستگی کی شدت کے باعث ہو پاتا ہے۔ مثلاً ان کے یہ دو اشعار ان کی ندرتِ کلام کا پتہ دیتے ہیں:


آئے سرکارؐ دستار پہنے نظر

گنبدِ سبز کی جب زیارت ہوئی

چار سے بڑھ کے مینار دس ہوگئے

میرے سینے میں بھی اور وسعت ہوئی


گنبدِ سبز اور آپ کے عمامہ اور توسیعِ مسجد نبویؐ کو ذہن میں رکھیے اور لطف لیجیے۔ آپ کی شاعری میں قرآن و سنت کا مطالعہ جابجا جھلکتا ہے۔ اقبالؒ کی ایک جھلک یہاں نظر آتی ہے۔ ایک شعر دیکھیے:


ذہن میں رکھ آیۂ لاتر فعو اصواتکم

بات کر طبعِ پیمبرؐ کی نفاست دیکھ کر


(اس آیت میں کہا گیا ہے کہ تم اپنی آوازوں کو نبیؐ کی آواز سے بلند نہ کرو) حفیظ تائب کے بارے میں احمد ندیم قاسمی جو کہ خود نعت کے بے مثال شاعر ہیں کا فرمانا ایک سند سے کم نہیں۔ میں خود ان بے شمار محفلوں میں موجود تھا جہاں انہوں نے فرمایا کہ انہیں اس بات پر فخر ہے کہ وہ عہدِ تائب میں زندہ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ’’یہ دور اردو زبان میں نعت کا دورِ روشن ہے اور اس دورِ روشن کے آفتاب بلاشبہ حفیظ تائب ہیں‘‘۔ تائب صاحب نے نعت میں پورے عہد کی نمائندگی بھی کی۔ ان کے ہاں حالی کی تتبع میں استغاثہ اور استمداد کا پہلو بہت عیاں نظر آتا ہے۔ حالی نے کہا تھا:


اے خاصۂ خاصانِ رسلؐ وقتِ دعا ہے

امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے


تائب فرماتے ہیں:


’’پھر اٹھا ہاتھ بہرِ دعا یانبیؐ‘‘

اور یہ کہ

خلق دیتی ہے دہائی مصطفیٰؐ یا مصطفیٰؐ

کرب سے اب ہو رہائی مصطفیٰؐ یا مصطفیٰؐ


ساتھ ہی آپ کے ہاں احتیاط کا انداز بھی حالی جیسا ہے کہ کوئی مبالغہ نہ ہونے پائے اور کوئی ایسا لفظ نہ آئے کہ آپؐ کے شایانِ شان نہ ہو۔


لب رہیں ترجمانِ صدق و صفا

دل ہو کذب و مبالغہ سے نفور

حفیظ تائب کے مجموعہ ہائے شعری میں صلو علیہ و آلہٖوسلمو تسلیماکوثریہنسیبسک متراں دیوہی یاسیں وہی طٰہٰتعبیر اور مناقب شامل ہیں۔ آپ کو کئی اعزازات ملے مگر میں ان کا تذکرہ کرنا اس لیے نہیں چاہتا کہ ان کو ملنے والا کوئی بھی اعزاز انہی کے باعث کچھ توقیر رکھتا ہے ورنہ ’’کیا یہ اعزاز کم ہے ان کے لیے/ نعتِ خیرالوریٰ پہ ہیں معمور‘‘ محسن کاکوروی نے کیا خوب کہا تھا: ہے تمنا کہ رہے نعت سے تیری خالی/ نہ مرا شعر‘ نہ قطعہ‘ نہ قصیدہ‘ نہ غزل تائب صاحب نے بھی سخن کی ہر ہیئت میں طبع آزمائی کی اور عقیدت کے پھول کھلائے۔ ان کی رحلت کے بعد ان کا فیض جاری ہے اور ان کے برادر خورد عبدالمجید منہاس نے ہمیں تائب صاحب سے جوڑ کر رکھا ہوا ہے۔ اللہ انہیں عمرِ دراز دے کہ وہ حفیظ تائب فائونڈیشن کے زیر اہتمام آقاؐ کے ذکر کو بلند کرتے ہیں۔ ایں سعادت بزورِ بازو نیست تا نہ بخشے خدائے بخشندا


حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]