یا اللہ ۔ قرآنی آیات سے مزین شعری متن ۔ ڈاکٹر عزیز احسن

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


مضمون نگار : ڈاکٹر عزیز احسن

قرآنی آیات سے مُزَیَّنْ شعری متن![ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اس وقت حضرت علامہ محمد بشیر رزمیؔ صاحب کا شعری کارنامہ موسوم بہ ’’یا اللہ‘‘ میرے پیشِ نظر ہے۔ رزمی صاحب ایک قادرالکلام شاعر ہیں اور فن کے حوالے سے استاد کا درجہ بھی رکھتے ہیں۔ آپ کے شاگردوں کی تعداد بھی قابلِ رشک ہے۔

میں نے ’’یا اللہ‘ کے متن (Text) کے مطالعے سے قبل ان کی شاعری کے کچھ اور نمونے بھی دیکھے تو معلوم ہوا کہ وہ بڑے اعتماد سے اس بات کا اظہار فرماتے ہیں:

’’شاعر، شعر نہیں کہتا بلکہ شعر، شاعر کو اپنے اظہار کا ذریعہ بناتا ہے‘‘ (کہکشانِ نعت، ص۱۸)

رزمی صاحب کے اس بیانیے سے میری توجہ غالب اور رولاں بارتھ کی جانب مبذول ہوئی۔غالبؔ نے کہا تھا:

ما نہ بودیم بدیں مرتبہ راضی غالبؔ

شعر خود خواہشِ آں کرد کہ گردد فنِ ما

(اے غالب ہم تو شاعر ہونا پسند نہیں کرتے تھے ۔شعر نے خود ہی ہمیں اپنا فن بنالینے کی خواہش کی تھی)۔

اور جدید تنقیدی دنیا کے، رولاں بارتھ کا بھی یہ خیال ہے 'Writing writes not Authors' یعنی تحریر لکھتی ہے لکھاری نہیں۔اس کا خیال ہے کہ ہر فن پارہ پہلے سے لکھی گئی تحریروں پر اضافہ ہے۔ کیوں کہ مصنف پر ثقافت، زبان، ادبی روایات وغیرہ کا غیر شعوری اثر ہوتا ہے۔

مشرقی شعریات میں ’’آمد‘‘ کا تصور بھی شعراء کو اس بات کے اظہار پر اکساتا ہے کہ شاعر شعر نہیں کہتا بلکہ شعر خود اپنے اظہار پر شاعر کو مجبور کرتا ہے۔

تخلیقی قوت کے جبر کا اظہار وہی ادیب یا شاعر کرسکتا ہے جس کا ہمہ وقتی وظیفہ تخلیقی دنیا کی سیر ہو۔ چناں چہ اس اعتبار سے رزمی صاحب روایت اور جدیدیت کے سنگم پر کھڑے نظر آتے ہیں کہ ان کے خیالات ہماری شعری روایت کے بڑے ستون ’’غالب‘‘ سے بھی ملتے ہیں اور جدیدادب کے نمائندے رولاں بارتھ سے بھی۔

دوسری بات جو بشیر رزمی صاحب کو عصری شعری منظر نامے میں ایک منفرد شاعر کے طور پر نمایاں کرتی ہے وہ ان کی استادانہ حیثیت ہے۔ ہماری شعری فضا میں شعر گوئی کا قافلہ ہمیشہ ہی سے اساتذہ کی نگرانی میں تخلیقی سفر طے کرتا رہا ہے۔ غالب نے استاد کی رہنمائی کے بغیر شاعری شروع کی تو اسے، بے استادا ہونے کے طعنے بھی سننے پڑے تاہم غالب کی یہ آزادہ روی عام نہ ہوسکی۔ہماری شعری روایت میں، غالب کے بعد سو ڈیڑ ھ سو برس تک استادی شاگردی کا نظام قائم رہا۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد صرف کراچی میں بہت سارے شعراء استادی کے منصب پر فائز تھے مثلاً شاعر لکھنوی، ماہرالقادری، رئیس امروہوی، بہزاد لکھنوی، تابش دہلوی، فدا خالدی دہلوی، نازش حیدری ، قمر جلالوی وغیرہ وغیرہ۔ استادی شاگردی کا رشتہ تو اب کمزور ہوا ہے، کیوں کہ ہر شاعر اپنے آپ ہی کواستاد ماننے لگا ہے۔ اسے کسی کی رہنمائی کی ضرورت نہیں۔استادی شاگردی کا ادارہ قائم تھا تو زبان و بیان کے حوالے سے بعض اساتذہ اپنے شاگردوں کی رہنمائی کے لیے کچھ نکاتِ سخن پیش کرتے رہتے تھے مثلاً

ڈاکٹر ساجد امجد کے مقالے ،’’ اردو شاعری پر بر صغیر کے تہذیبی اثرات‘‘ سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ تنقیدی اصولوں کی بازگشت ،سب سے پہلے دیوانِ فائزؔ دہلوی کے دیباچے میں سنی گئی تھی، جنھوں نے لکھا تھا:

’’تمام اقسامِ شعر میں چاہیے کہ نظم بدیع ہو، قافیے درست ہوں، معنی لطیف ہوں، الفاظ شیریں ہوں، عبارت صاف ہو، یعنی اس کے سمجھنے میں دقت نہ ہو بیان میں تکلف نہ ہو،حروف زائد سے پاک ہو اور الفاظ صحیح ہوں شاعر کے لیے لازم ہے کہ نظم کے طور و ترکیب کو پہچانتا ہو۔تشبیہ کے قاعدوں ، استعارے کی قسموں اور زبان کے محاوروں سے واقف ہو۔قدما ء کی تاریخ اورنظم سے با خبر ہو اور حکماء کے کلام کا تتبع نہ کرے اور اپنی طبع سلیم سے جزیل اور رکیک لفظوں میں امتیاز کرے۔جھوٹی تشبیہوں ، مجہول اشاروں، ناپسندیدہ ایہاموں، غریب وصفوں، بعید استعاروں، نادرست محاوروں اور نامطبوع تکلفوں سے پرہیز کرے‘‘ ۔

ناسخؔ نے شاعری میں تازہ گوئی کی شعوری کوشش کی جس کو ان کے شاگردوں نے ایک تحریک کے طور پر آگے بڑھایا۔ناسخؔ کی اصلاحات اور ان کی شاعری کے اختصاصی پہلوؤں کی نشاندہی رشید حسن خاں نے ’’انتخابِ کلامِ ناسخؔ ‘‘ میں کی ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے بھی ’’تاریخِ ادبِ اردو‘‘ (جلد سوم) میں کچھ تفصیل دی ہے۔

ناسخؔ کے عہد سے زبان کے لیے ریختہ کے بجائے ’’اردو‘‘ کا لفظ مقرر ہوا۔اسی طرح غزل کے لیے ریختہ کے بجائے ناسخ ؔ نے لفظ ’غزل‘ کو رواج دیا۔اسی طرح آئے ہے، جائے ہے ، جیسی افعال کی صورتیں، نیز کسو، کبھو اور ’جا‘ [جگہ] کے لیے’ جائے‘ وغیرہ کے استعمال کی مثالیں بھی ناسخؔ کے ہاں نہیں ملتیں۔ناسخؔ نے اپنے پیشرووں کے متروکات کے ترک کی سختی سے پابندی کی۔

پھر دنیائے سخن میں داغ دہلوی نے بھی زبان و بیان پر خاص توجہ دے کر فن کے اصولوں کو نہ صرف خود اپنایا بلکہ اپنے شاگردوں کے لیے ایک ’’ہدایت نامہ ‘‘ بھی نظم کردیا تاکہ وہ اس کی روشنی میں اپنا کلام جانچنے کے قابل ہوجائیں۔ اس ہدایت نامے میں اس عہد کی تنقید کے اصول بڑی خوبی سے نظم ہوگئے ہیں، مثلاً وہ لکھتے ہیں:

یہی اردو ہے جو پہلے سے چلی آتی ہے ،

اہل دہلی نے اسے اور سے اب اور کیا

مستند اہل زباں خاص ہیں دھلی والے،

اس میں غیروں کا تصرف نہیں مانا جاتا

جوہری نقد سخن کے ہیں پرکھنے والے،

ہے وہ ٹکسال سے باہر جو کسوٹی نہ چڑھا

بعض الفاظ جو دو آئے ہیں اک معنی میں

ایک کو ترک کیا ایک کو قایم رکھا

شعر میں حشو وزوائد بھی برے ہوتے ہیں

ایسی بھرتی کو سمجھتے نہیں شاعر اچھا

گر کسی شعر میں ایطائے جلی آتا ہے

وہ بڑا عیب ہے کہتے ہیں اسے بے معنٰی

استعارہ جو مزے کاہو مزے کی تشبیہ

اس میں اک لطف ہے اس کہنے کا پھر کیا کہنا

اصطلاح اچھی مثل اچھی ہو بندش اچھی

  • روز مرہ بھی رہے صاف فصاحت سے بھرا

ہے اضافت بھی ضروری مگر ایسی بھی نہ ہو

ایک مصرع میں جو ہو چار جگہ بلکہ سوا

عطف کا بھی ہے یہی حال یہی صورت ہے،

وہ بھی آئے متوالی تو نہایت ہے برا

لف و نشر آئے مرتب وہ بہت اچھا ہے*

اور ہو غیر مرتب تو نہیں کچھ بے جا

ایک مصرعے میں ہو تم دوسرے مصرعے میں ہو تو*

یہ شتر گربہ ہوا ، میں نے اسے ترک کیا

شعر میں ہوتی ہے شاعر کو ضرورت اس کی،

گر عروض اس نے پڑھا ہے وہ سخنور دانا

مختصر یہ ہے کہ ہوتی ہے طبیعت استاد

دین اللہ کی ہے ، جس کو یہ نعمت ہو عطا

بے اثر کے نہیں ہوتا کبھی مقبول کلام،

اور تاثیر وہ شے ہے جسے دیتا ہے خدا

گرچہ دنیا میں ہوئے اور ہیں لاکھوں شاعر

کسب فن سے نہیں ہوتی ہے یہ خوبی پیدا

پند نامہ جو کہا داغؔ نے بے کار نہیں

کام کا قطعہ ہے یہ وقت پہ کام آئے گا


اس ہدایت نامے میں داغ نے جو نکات بیان کیے یعنی ،فصاحت کا ہونا،شعری بندش میں چستی کا ہونا استعارے اور تشبیہات کا بر محل استعمال، روزمرہ کی نگہداشت، لف و نشر مرتب اور غیر مرتب کا استعمال،، ردیف کا چست اور درست بیٹھنا، قافیے کا درست ہونا وغیرہ تو محاسن میں شمار کئے جاتے تھے، اور شتر گربہ ، عروضی سقم، حر ف کا دبنا یا گرنا، عیب تعقید، عیب تنافر کا شعر میں ہونا عیب سمجھے جاتے تھے۔

یہ دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی کہ حضرت بشیر رزمی نے بھی اپنے شاگردوں کے لیے ایسے ہی نکات اپنے ایک قطعے، بعنوان ’’چند رموزِ شاعری‘‘ میں پیش کردیئے ہیں،وہ لکھتے ہیں:

معروف بھی حروف ہیں مجہول بھی حروف

آہنگ و نغمگی کا خیال آپ کیجیے

رکھیے نگاہِ تیز الف، واؤ، یائے پر

آواز گستری کا خیال آپ کیجیے

یائے خیال کون گراتا ہے شعر میں

ہاں یائے زندگی کا خیال آپ کیجیے

ہر گز نہ اختلافِ ضمیر آئے شعر میں

اس، تو میں فرق ہی کا خیال آپ کیجیے

آئے کسی طرح نہ شتر گربہ شعر میں

بلی اور اونٹنی کا خیال آپ کیجیے

تعقیدِ لفظی آتے ہی معنی بدل نہ دے

تعقیدِ معنوی کا خیال آپ کیجیے

بچنا عیوب ہی سے محاسن کی شان ہے

رزمیؔ سخنوری کا خیال آپ کیجیے

(آسمانِ غزل، ص۱۹۲)

رزمی صاحب نے ’’چند رموزِ شاعری ‘‘ لکھ کر روایت آگاہی اور احترامِ روایت کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے زبان و بیان کی خوبیوں اور خامیوں کی طرف شعرائے عصر کوبالعموم اوراپنے شاگردوں کو بالخصوص محتاط رہنے کی نصیحت کی ہے۔ یہ اشعار لکھ کرحضرت رزمی، فائز دہلوی، ناسخ اور داغ کے اس گروہ میں داخل ہوگئے ہیں جنھوں نے شاعری کو محض کھیل تماشہ نہیں بلکہ ایک بہت زیادہ سنجیدہ سرگرمی کے طور پر قبول کیا اور بیان کی صلاحیت کو امانت کے طور پر استعمال کیا۔کیوں کہ انسان کو بیان کی صلاحیت، عطا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور پر اس کا ذکر فرمایا تھا۔۔۔خَلَقَ الاِنْسَانَo عَلَّمَہُ الْبَیَانَ [الرحمٰن]o (پیدا فرمایا اس نے انسان کو۔اور سکھایا اس کو بولنا[بیان کرنا]) ۔رزمی صاحب کا ادب اور زبان و بیان سے پُر خلوص برتاؤدیکھ کر بے ساختہ میر یاد آگئے:

پیدا کہاں ہیں ایسے پرا گندہ طبع لوگ

افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی (کلیاتِ میر، دیوانِ دوم، ص۲۸۳)

رزمی صاحب کی شعری تخلیقات ، شاعری سے ان کا قلبی لگاؤ، زبان و بیان سے کلاسیکی تعلق اور اظہار کی طرفگی کی طرف اسلوبیاتی حسن کی تلاش و جستجو کا رویہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ شاعری کو محض شاعری نہیں بلکہ معاشرے میں صالح اقدار کی ترویج و اشاعت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے نعتیہ شاعری کی طرف توجہ دے کر ادبی سطح پر ’’حَیَّ عَلَی الخَیْرِ الاِنْسَان۔۔۔حَیَّ عَلَی ثنائےِ محمد ﷺ‘‘ کا نعرہ لگایا۔

آہنگِ احترامِ محمدؐ سنائی دے

مدحت سرا غلامِ محمد ؐ سنائی دے

(کہکشانِ نعت، ص۱۷۲)


ایران کی ایک معروف شاعرہ تھی قرۃ العین طاہرہ۔اس کی ایک غزل ، صوتی دروبست اور معنیاتی ارژنگ صفتی کے باعث اتنی مقبول ہوئی کہ بڑے بڑے شعراء نے اس کا یا تو تتبع کیا یا اس کا ذکر کیا۔ علامہ اقبال نے جاوید نامہ میں اپنے روحانی سفر کے دوران میں ’’نوائے طاہرہ‘‘ سنوائی ہے:

گر بتو افتدم نظر چہرہ بہ چہرہ رو برو

شرحِ دہم غمِ ترا نکتہ بہ نکتہ مو بہ مو

اس غزل میں طاہرہ نے روبرو،مو بہ مو، کو بکو، جو بجو، پو بہ پو، تو بہ تو ، وغیرہ قوافی استعمال کیے ہیں۔رئیس امروہوی نے اسی طرز پر ایک نعت کہی تھی۔ جس میں مصرع ہائے اول میں اردوکا التزام ہے اور مصرع ہائے ثانی فارسی ہی کے پیٹرن پر ہیں۔ مثلاً

کس کا جمالِ ناز ہے جلوہ نما یہ سو بہ سو

گوشہ ، بگوشہ، دربدر، قریہ بہ قریہ، کُو بہ کُو

عالمِ شوق میں رئیس کس کی مجھے تلاش ہے

خطہ بہ خطہ، رہ بہ رہ، جادہ بہ جادہ، سُو بہ سُو

(ارمغانِ نعت، ص ۲۵۹)

رئیس امروہوی کے مطلع اور مقطع میں پہلے مصرعے اردو میں ہیں اور دوسرے مصرعے کامل فارسی میں ہیں۔ لیکن یہ طرز اردو والوں کے لیے بھی اجنبی نہیں ہے۔ سخن گوئی کے اس اندازمیں لفظوں کی اصوات سے نغمگی پیدا کی گئی ہے۔ رزمی صاحب نے بھی ایک نعت مکمل اسی انداز سے کہی ہے۔مطلع ملاحظہ ہو: رَحْمَتُہٗٗ جَمَالُہ،ٗ شِدَّتُہٗ جَلَالُہٗ حِکْمَتُۃٗ ‘ کَمَالُہٗ ، دیکھ رہا ہوں ہشت سُو

اس مطلع میں تین زبانیں استعمال ہوئی ہیں۔ پہلا مکمل مصرع اور دوسرے مصرعے کی ابتداء (رکن اول) عربی میں ہے۔حشو [درمیانی حصہ] ’’دیکھ رہا ہوں‘‘ اردو ہے اور ضرب [آخری حصہ] ’’ہشت سُو‘‘ فارسی ہے۔ اس طرح یہ مطلع صنعتِ تلمیع[ذو لسانین یا کثیراللسان] کی اچھی مثال ہے۔

صَلِّ عَلیٰ محمَّدٍ صَلِّ عَلیٰ مُخَلَّدٍ نطق بہ نطق لب بہ لب بزم بہ بزم سُو بہ سُو (کہکشانِ نعت، ص۱۵۱)

یہ شعربھی صنعتِ تلمیع کا حامل ہے۔ پہلا مصرع عربی اور دوسرا فارسی میں ہے۔ پوری نعت ہی اس صنعت کا اشاریہ ہے۔ بحر مترنم ہے اور صوتیاتی دروبست ایک سرشاری و نغمگی کی فضا قائم کرتا ہے۔ علامہ رزمی کی یہ نعت جدید اصولِ نقد یعنی اسلوبیات(Stylistics) کے مطالعے کے لیے اچھا لوازمہ فراہم کرتی ہے۔

مجھے اس موقع پررزمی صاحب کی عام شاعری اور نعتیہ شاعری کا حوالہ دینے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں اور ان صلاحیتوں کے اظہار کی فنی نزاکتوں سے کچھ آگاہی حاصل ہوجائے۔ فن آگاہی، روایت پسندی، کلاسیکی طرزِ سخن کی پیروی اور لسانی اصولوں کی پاس داری کرتے ہوئے رزمی صاحب کو قرآنِ کریم فرقانِ حمید کے اسلوب کی جمالیات میں عروضی اوزان و بحور کا التزام تلاش کرنے کی جستجو ہوئی تو انھوں نے قرآنِ کریم کا اس زاویہء نگاہ سے مطالعہ کیا اور جوئندہ یابندہ کے مصداق ایسی بہت ساری آیات تلاش کرنے میں کامیابی حاصل کرلی جن میں معنیاتی روشنی، اظہاری الوہیت، بیانی ترفع اور عروضی وزن کے جملہ اوصاف موجود پائے۔ پھر انھوں نے ان تمام آیات کو اپنے تین تین مصرعے کہہ کر اشعار میں بحیثیت ’’اقتباس‘‘ نقل کردیا۔ اس طرح ان کا شعری عمل (Poetic work) ایک ایسا ارژنگ بن گیا جس میں معنیاتی ہیولوں کے ساتھ ملفوظاتی تنوع کی دیدنی تصاویر سجی ہوئی ہیں۔


قرآنِ کریم ،شاعری نہیں ہے۔ لیکن عربوں کے مزاج کے مطابق شعری حسن کا مکمل حامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عربوں نے قرآنِ کریم کو شاعری سمجھا جس کی تردید خود قرآن کے ذریعے کردی گئی۔اس تردید کی وجہ یہ تھی کہ شاعری کا مدار تخیل (Imagination) پر ہے جبکہ قرآنِ کریم سراسر بیانِ حقیقت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو ابتداء ہی میں فرمادیا کہ قرآن ایسی کتاب ہے جو اللہ کی طرف سے نازل کی گئی ہے ۔اس کے منزل من اللہ ہونے اور اس میں بیان کردہ حقائق کے مبنی بر حقیقت ہونے کے بارے میں کوئی شک کیا ہی نہیں جاسکتا۔ حضورِ اکرم ﷺ کے شاعر اور قرآن کے شاعری ہونے کی تردید قرآنِ کریم میں متعدد بار کی گئی۔۔۔مثلاً

  • وَمَا عَلَّمْنٰہُ الشِّعْرَ وَمَا یَنْبَغِیْ لَہٗ ط اِنْ ھُوَ اِلَّاذِکْر’‘ وَّقُرْاٰن’‘ مُّبِیْن’‘ یٰسٓ ۔آیت ۶۹ ۔۔۔۔۔۔اور نہیں سکھائی ہم نے اس نبی کو شاعری اور نہیں تھی اس کے شایانِ شان یہ چیز۔نہیں ہے یہ مگر ایک نصیحت اور صاف پڑھی جانے والی کتاب۔
  • (کفار نے کہا)بَلْ ھُوَ شَا عِرٌ ج سورۃ الانبیآء [آیت ۵] بلکہ یہ شخص شاعر ہے۔
  • وَیَقُوْلُوْنَ اَءِنَّا لَتَارِکُوْٓا اٰلِھَتِنَا لِشَاعِرٍمَّجْنُوْن۔۔۔۔۔۔سورۃ الصآفّٰت۳۷، آیت ۳۶۔۔۔اور کہتے تھے کہ کیا ہم چھوڑدیں اپنے معبودوں کو ایک شاعر کی خاطر جو دیوانہ ہے؟
  • اَمْ یَقُوْلُوْنَ شَاعِرٌ ۔۔۔کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ شخص شاعر ہے۔سورۃ الطُّور۵۲۔۔۔آیت ۳۰
  • وََّمَا ھُوَ بِقُوْلِ شَا عِرٍ ط۔۔۔سورۃ الحآقَّۃ ۔۔۔۶۹، آیت نمبر:۴۱۔۔۔اور نہیں یہ کلام کسی شاعر کا ۔
  • وَالشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُھُمُ الْغَاوٗن۔۔۔سورۃ الشعراء، ۲۶، آیت ۲۲۴۔۔۔اور رہے شعراء تو چلا کرتے ہیں ان کے پیچھے بہکے ہوئے لوگ۔

ان آیاتِ قرآنیہ کی روشنی میں یہ وضاحت تو از خود ہوجاتی ہے کہ قرآنِ کریم شاعری نہیں ہے اور صاحبِ قرآن حضرت محمد مصطفی ﷺ شاعر نہیں ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنا پیغام بھی انتہائی حسین اسلوب میں اپنے بندوں تک پہنچایا ہے۔۔۔اور جمالِ بیان اور کمالِ اظہار کا معجزہ یہ ہے کہ شعر نہ ہوتے ہوئے بھی اس کلام میں جگہ جگہ ایسی آیات آگئی ہیں جن میں عروضی اوزان کا دربست موجود ہے۔قرآنِ کریم کے زندہ معجزہ ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ قیامت تک اس کے حسنِ صوری اور معنوی پر پڑے ہوئے پردے اٹھتے جائیں گے۔ چناں چہ محمد بشیر رزمی پر ، ان کے دانند�ۂ عروض ہونے کی وجہ سے ، یہ انکشاف ہوا کہ قرآنِ کریم کی بہت سی آیات ، عروضی اوزان کے مطابق ہیں۔


’’یا اللہ‘‘ محمد بشیررزمی صاحب کا ایسا شعری عمل (Poetic Work) ہے جس میں قرآنی جمالیات کی روشنی سے جگمگاتی ہوئی آیات کے ساتھ ساتھ بندے[شاعر] کی کاوش کے ملفوظاتی اظہارات بھی روشن روشن نظر آرہے ہیں۔

بشیر رزمی صاحب نے ’’یا اللہ‘‘ میں جو قرآنی آیات پیشِ نظر رکھی ہیں ان میں عروضی اوزان کے اعتبار سے ۱۸ بحور آگئی ہیں۔ ان اٹھارہ بحور کے اوزان ۱۲۳ ہیں۔ یہ اوزان صرف سرسری تلاوتِ قرآن سے حاصل نہیں ہوئے بلکہ بڑے غور و خوض کا نتیجہ ہیں۔ پھر وزن کے مطابق کسی آیتِ قرآنی یا اس کے ایک حصے کو،بحر میں پاکر شاعر نے تین تین مصرعے کہے اور صنعتِ اقتباس کی صورت میں ہر قطعے یا رباعی میں‘ ان آیات یا ان آیات کے کسی حصے کو بطور مصرعِ آخر رقم کردیا۔ مثلاً

بس ترے ہی سامنے ہم جھکاتے ہیں جبین لاکھ ہم عاصی سہی اَنْتَ خَیْرُ الْغٰفِرِیْن (تو[ہی ]سب سے بہتر بخشنے والا ہے)

’’اَنْتَ خَیْرُ الْغٰفِرِیْن‘‘ سورہء اعراف کی آیت نمبر ۱۵۵ کے آخری الفاظ ہیں، جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کا حصہ ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ حضرت موسٰیؑ جب طور پر تشریف لے گئے اور ان کی قوم نے بچھڑے کی پوجا شروع کردی تو موسیٰ علیہ السلام نے واپس آکر ان کی سرزنش کی ۔انھوں نے ندامت کا اظہار کیا تو ان میں سے ستر افراد کو ساتھ لے کر موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور کی جانب تشریف لے گئے اور توبہ کی قبولیت کے لیے دعا کی۔ دعا قبول ہوئی لیکن ان ستر آدمیوں نے اللہ کے دیدار کا مطالبہ کیا تو زلزلہ آگیا جس سے ان کی ہلاکت کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ چناں چہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پھر بخشش کے لیے دعا فرمائی۔

’’اَنْتَ خَیْرُ الْغٰفِرِیْن‘‘ کے الفاظ کا یہ پس منظر جاننے کے بعد شاعر نے پہلے دومصرعوں میں یہ اقرار کیا کہ ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں، یعنی ہم سرکش نہیں ہیں۔ پھر کہا ’’ لاکھ ہم عاصی سہی ‘‘۔۔۔ لیکن تو یہودی سرکشوں کو بھی بخش دیتا ہے تو ہمیں بھی بخش دے۔ کیوں کہ تو ہی سب سے بہتر بخشنے والا ہے۔ اس طرح شاعر نے قرآنِ کریم کی ایک طویل آیت کا صرف ایک حصہ لے کر ، اس کا وزن متعین کیا اور پھر اس کے مفہوم کو پیشِ نظر رکھ کر اس کے گرد شعری متن کا ہالہ بنایا۔ یہی نہیں بلکہ اپنے قارئین کو یہ بھی بتادیا کہ قرآنِ کریم کے یہ الفاظ ’’فاعلاتن فاعلن؍فاعلان‘‘ کے وزن پر پورے اترتے ہیں جسے بحرِ مدید مربع سالم مذال کہتے ہیں۔

اس طرح قراء تِ قرآن کرنے، اس کی طویل طویل آیات میں سے عروضی اوزان کے مطابق الفاظ چننے اور ان کے معانی کا احصا ء کرنے کے بعدشعری متن بُننے سے شاعر کا ایک خاص زاویے سے تدبرِ قرآن کا طریقِ کار بھی نظر آتا ہے اور شاعرانہ مہارت بھی ظاہر ہوتی ہے۔تخلیقی نقش نمبر ۱۲۰ ملاحظہ ہو:

نغمہ سرا ہو جیسے بادِ صبا کا جھونکا سینہ کشا صدا ہے فَا لتّٰلِیٰت، ذِکْرَا

’’فَا لتّٰلِیٰت، ذِکْرَا ‘‘ (پھر قرآن کی تلاوت کرنے والوں کی قسم)سورہء الآّٰفّٰ کی مکمل آیت نمبر ۳ ہے۔اللہ تعا لیٰ نے قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے والوں کی بھی قسم کھائی ہے۔ شاعر نے اپنے تخیل میں اس قسم کے مفاہیم کا ایک دائرہ بنایا اور جان لیا کہ قرآنِ کریم کی تلاوت میں توحیدی نغمے کی سرشاری ہے جو بوقتِ تلاوت ٹھندی ہوا کے جھونکے کی طرح فرحت بخشتی ہے، نتیجتاً شرحِ صدر کا باعث ہوتی ہے۔ یعنی پیغامِ ربانی کے سمجھنے کی صلاحیت عطا کردیتی ہے۔ قرآنِ کریم کی اس آیت کا عروضی وزن بھی شاعر نے بتادیا ہے جو ’’مفعولُ فَاعِ لاتُن‘‘ ہے جس کا عروضی نام ’’بحرِ مضارع مربع اخرب سالم‘‘ ہے۔

جیسا چاہا پہلے پیدا کردیا اس میں پھر اعمال کا رکھا صلہ بس یہی ہر فرد کی تقدیر ہے لَیْسَ لِلْاِِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی


سورۂ والنجم کی آیت 39 کے الفاظ ہیں ’’ وَاِنَّ لَیْسَ لِلْاِِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی‘‘ (اور یہ کہ ،انسان کے لیے نہیں لیکن جو اس نے کوشش کی) بحرِ رمل مسدس محذوف کا وزن پیشِ نظر رکھ کا شاعر نے آیتِ کریمہ کے صرف یہ الفاظ لیے’’ لَیْسَ لِلْاِِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی‘‘۔ قرآنِ کریم کے یہ الفاظ انسان کو اعمال کی ترغیب دے رہے ہیں۔ شاعر نے پہلے تو اللہ کی قدرت کا اعتراف کیا کہ اس نے انسان کو جیسا چاہا پیدا فرمادیا ہے۔ پھر بتایا کہ انسان کی تقدیر کا دارو مدار اس کے اعمال پر ہے جس کا صلہ اللہ تعالیٰ عطا فرمادیتا ہے۔ چناں چہ انسان[صحیح سمت میں] جتنی کوشش کرے گا اس کا اچھا صلہ پالے گا۔

شاعری کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ اس کا انحصار صرف تخیل پر ہے۔ اس میں متن (Text) کی خوبی یا خرابی کا کوئی دخل نہیں۔شاعر جیسے چاہے شعری متن تخلیق کرے، شرط صرف حسنِ بیان کی ہے۔ بیان میں خوبصورتی ، اسلوب میں دلکشی اور اظہار میں طرفگی ہو تو کلام مقبول ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ عہدِ جاہلیت کے شاعر امراء القیس کے معاملے میں دیکھا گیاکہ اس کے اسلوب کے باعث نبیء کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے بھی اسے ’’اشعرا لشعرا ء‘‘ قرار دیا ’’یعنی وہ شاعروں کاسرتاج ہے‘‘ ۔۔۔ لیکن اسی شاعر کے متن کی لایعنیت کے حوالے سے اسے’’ و قائد ہم الی النار‘‘’’ اور جہنم کے مرحلے میں ان سب کا سپہ سالار بھی ‘‘ فرمادیا۔

پھر اللہ کے رسول ﷺ نے اسی عہدِ جاہلیت کے ایک شاعر عنترہ کا یہ شعر سماعت فرمایا :

و لقد ابیت علی الطویٰ و اظلہ حتیٰ انال بد کریم الما کل ’’میں نے بہت سی راتیں محنت و مشقت میں بسر کی ہیں تاکہ میں اکل حلال کے قابل ہو سکوں‘‘۔

تو ارشاد ہوا:’’کسی عرب کی تعریف نے میرے دل میں اس کا شوق ملاقات نہیں پیدا کیا لیکن میں سچ کہتا ہوں کہ اس شعرکے نگارندہ کے دیکھنے کو میرا دل ، بے اختیار چاہتا ہے‘‘ ۔ حضورِ اکرم ﷺ نے دو مختلف المزاج شعراء کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار فرماکر شاعری کا جواز پیدا کرتے ہوئے قیامت تک ہونے والی شعری تخلیقات کے لیے ایک منہاج بھی مقرر فرمادیا ۔


علاوہ ازیں حضورِ اکرم ﷺ نے بعض احادیث میں شعری معیارات بھی متعین فرمائے تاکہ امتِ مسلمہ کے شعراء صالح ادب کی تخلیق میں سرگرم رہیں۔

۱۔’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بعض بیان سحر ہوتا ہے‘‘۔۲۔ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بعض اشعار حکمت ہوتے ہیں۔۳۔ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کلام میں مبالغہ کرنے والے ہلاک ہوگئے یہ کلمات تین مرتبہ فرمائے۔روایت کیا اس کو مسلم نے۔۴۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مومن شخص کفار کے ساتھ اپنی تلوار اور زبان کے ساتھ جہاد کرتا ہے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم کفار کو شعر اس طرح مارتے ہو جس طرح تیر مارا جاتا ہے۔(روایت کیا اس کو شرح السنۃ میں)۔یہ تمام احادیث امام ولی الدین محمد بن عبداللہ الخطیب العمری رحمۃ اللہ علیہ نے مشکوٰۃ شریف کے ’’بَابُ الْبَیَانِ وَالشِّعْرِ‘‘(بیان اور شعر کا بیان) کے تحت جمع کی ہیں۔ اشعار میں حکمت کے عنصرکا ذکر حدیث میں بھی ہے اور قرآنِ کریم میں بھی۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا ط ’’[ترجمہ]اور جسے مل گئی حکمت سو درحقیقت مل گئی اسے خیرِ کثیر‘‘[البقرۃ، آیت ۲۶۹]۔

حضورِ اکرم ہی نے ایک اور مقام پر فرمایا:

’’[ترجمہ]کلمہء حکمت تو مومن کی متاعِ گم شدہ ہے جہاں سے بھی اسے ملے وہ اس کا بہتر حقدار ہے‘‘۔

علامہ بشیر رزمی نے بھی حکمتِ قرآنی کی تحصیل اور ترسیل کاطریقہ اپنایا اور قرآنِ کریم کی آیات کو ان کے مفہومیاتی ہالے میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ان میں پنہاں عروضی اوزان کی نشاندہی کی۔

علامہ بشیر رزمی، ایک فن آگاہ استاد ہیں ۔انھوں نے رباعیات بھی کہی ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ رباعی جیسی مشکل صنفِ سخن میں کامیابی صرف قادرالکلام شعراء ہی کو حاصل ہوتی ہے۔رباعی کے تخلیقی تقاضے (Requsites of Creativity) پورے کرنا ہر موزوں طبع کے لیے ممکن نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ بیشتر شعراء اس صنف کی جانب متوجہ نہیں ہوتے۔ رزمی صاحب کی دو نعتیہ رباعیات ملاحظہ ہوں:

مبعوث ہوئے رحیم رحمت کے لیے مقدور اجازت ہے شفاعت کے لیے قربان محمدؐ پہ کہ وہ حشر کے دن سجدے میں دعا کریں گے امت کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس رباعی میں دو تلمیحاتی حوالے قرآنِ کریم کے ہیں اورایک حوالہ حدیث کا مضمر ہے۔ [۱] وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ o (اور نہیں بھیجا ہم نے تم کو اے نبی مگر رحمت بنا کر جہاں والوں کے لیے۔۔۔سورۃ الانبیآء ۲۱، آیت ۱۰۷) [۲] مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِاِذْنِہٖ ط(کون ہے جو سفارش کر سکے اس کے پاس بغیر اس کی اجازت کے۔۔۔سورۃ البقراۃ۲، آیت۲۵۵)۔پیر محمد کرم شاہ الازہری لکھتے ہیں ’’ اِلَّا بِاِذْنِہٖ‘‘ سے واضح فرمایاکہ وہ محبوب و مقبول بندگانِ خدا ضرورشفاعت کریں گے جن کو ان کے رب نے اجازت مرحمت فرمائی ہوگی۔سب سے پہلے شفاعت کرنے والے اللہ کے محبوب وحبیب محمد مصطفےٰ علیہ افضل التحیۃ و اجمل الثناء ہوں گے جو اس روز مقامِ محمود کے منصبِ رفیع پرمتمکن ہوں گے۔(ضیاء القراٰن)

جامع ترمذی میں ایک طویل حدیث ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ قیامت میں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک سب شفاعت طلب لوگوں سے کہہ دیں گے ’اِذْ ھَبُوْا اِلیٰ غَیْرِیْ‘ تم لوگ کسی اورکے پاس جاؤ۔ یہاں تک کہ لوگ آپﷺ کے پاس آکر شفاعت کا سوال کریں گے اور آپﷺ عرش کے نیچے سجدہ ریز ہوجائیں گے۔ پھر آپ ﷺ سے کہا جائے گا ، اے محمد( ﷺ)سر اٹھاؤ اور مانگو،جو مانگو گے عطا کیا جائے گا۔ شفاعت کرو قبول کی جائے گی۔ پھر حضور اپنا سر اٹھائیں گے اور فرمائیں گے اے رب! میں اپنی امت کی نجات اور فلاح کا طلب گار ہوں۔(جامع ترمذی شیرف مترجم، جلد دوم، ص۱۴۳)

اسی طرح درجِ ذیل رباعی میں بھی تلمیحاتی نظام کا پرتو محسوس کیا جاسکتا ہے:

کچھ اور بلندی کو اٹھا کرتے ہیں طے جادہء محبوبِ خدا کرتے ہیں پیغمبر و صدیق و شہید و صالح مر کر بھی نہیں مرتے ، جیا کرتے ہیں

یہاں بھی دو تلمیحاتی اشارے ہیں۔ سورۂ النسآء کی آیت نمبر ۶۹ میں اللہ کی طرف سے انعام پانے والوں میں ’’نبیّٖن ،صدیقین، شہداء اور صالحین ‘‘کا ذکر فرمایا گیاہے اور سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۱۵۴ میں شہداء کے لیے فرمایا ہے کہ وہ زندہ ہیں[لیکن] تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ۔اور چوں کہ شہداء تو خود نبی علیہ السلام کی اتباع کرتے ہوئے شہید ہوئے اور زندگی کا انعام پایا ، اس لیے نبی علیہ السلام ،صدیقین اور آپﷺ کی امت کے صالحین بھی اسی طرح زندہ ہیں۔ یہی خیال درجِ بالا رباعی میں پیش کیا گیا ہے۔ ان دونوں رباعیات کی قراء ت سے بھی یہ اندازہ ہوا کہ بشیر رزمی صاحب شعری متن کو قرآن و حدیث کی روشنی سے منور کرنے کی شعوری کوشش بھی کرتے ہیں۔

سورہء اٰلِ عمران کی آیت نمبر ۱۱۰ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اے مسلمانو!تم،وہ) بہترین امت ہو جسے پیداکیا گیا ہے انسانوں کی [رہنمائی] کے لیے ،حکم دیتے ہو تم اچھے کاموں کا اور منع کرتے ہوبرے کاموں سے اور ایمان رکھتے ہو اللہ پر ۔۔۔اٰلِ عمران۳، آیت نمبر ۱۱۰) ۔حضور نبیء کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کو خیرِ امت عطا کی گئی اور بالیقیں یہ کثیر تعداد میں ہے اور ہوگی۔ کیوں کہ قیامت سے قبل ہر انسان کا دین صرف اسلام ہوگا ، اس طرح صرف خیرِ امت کی عددی برتری قائم ہوگی! معانی کے اعتبار سے امت ہی آلِ نبی علیہ السلام ہے۔ رزمی صاحب پر الکوثر کے معنوی ابعاد(Dimensions) اس طرح منکشف ہوئے:

الکوثر کے معنی رزمیؔ


رب نے آخر کھولے مجھ پر

اُمَّت بھی تو آلِ نبیؐ ہے

اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْ ثَرْ

(سورۃ الکوثر آیت ۱۔۔۔ہم نے بے شک تجھے کثیر تعداد میں امت عطا کی‘‘۔

بعض بحریں بڑی مترنم ہوتی ہیں۔ ایک چھوٹی بحر کی طرفگی ملاحظہ ہو:

جو ہوئے ہیں سر خم

بس وہی ہیں اسلم

کافروں سے کہہ دو

حَسْبُھُمْ جَہَنَّمْ

(ان کے لیے جہنم کافی ہے۔سورۂ المجادلۃ ،آیت نمبر:۸)

اس بحر کا نام ’’بحرِ رزمی‘‘ رکھا گیا ہے کیوں کہ یہ بحر حضرتِ رزمی کی ایجاد ہے۔ (فاعلن فعولن)

فکر و خیال کی پاکیزگی کا جو رویہ علامہ موصوف کی شاعری پر سایہ فگن نظر آتا ہے وہ متنی اور اسلوبی (Textual and Stylistic) دونوں اعتبارات سے وزن و وقار سے ہم کنار ہے۔ میں علامہ محمد بشیر رزمی صاحب کو ان کی شاعری کے ارتفاعی کام یعنی ’’یا اللہ‘‘ کی اشاعت پر مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کے جذبے کو شعراء کے ہر طبقے میں عام کردے تاکہ شاعری سے دینی خدمت کا کام بھی لیا جاسکے!


جمعہ: ۱۵؍ شعبان ۱۴۳۸ھ ؁ ۔۱۲؍مئی ۲۰۱۷ء ؁