فراغ رہووی کی نعتیہ شاعری ۔ اسلم حنیف

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Naat Kainaat Naat Rang.jpg

مقالہ نگار : اسلم حنیف۔بھارت

برائے : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 26

فراغ روہوی کی نعتیہ شاعری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ABSTRACT:

Fragh Rohvi's Naatia poetry's collection "MIRA AAIYNA MADINAH' (MY MIRROR MADINAH) has been introduced in this article by reviewing the poetry in the context of religious poetry done by various other poets and showing some distinctive features of poetry written by Fragh Rohvi. Sensitivity of theme has also been brought into discussion in order to show importance of purity of thought and expression.

اردو شاعری میں نعت نگاری کی روایت قدیم ہے۔مگر جس طرح مرثیہ نگاروں بالخصوص انیسؔ و دبیرؔ نے واقعۂ کربلا کے سلسلے میں بہت سے حقائق،جنگ کے منظر و پس منظر،اسلامی طرزِ معاشرت، شہادت اور طریقۂ غم گساری کے اظہار میں کسی محتاط رویے کو مدنظر نہیں رکھا ہے اسی طرح اردو نعت گویوں نے بھی اس صنف کے حدود کی پاس داری میں عدم تواز ن و احتیاط کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ دلیل یہ کہ اگر ہم حمد،نعت اور منقبت بہ نظر غائر مطالعہ کریں تو عنوان، نام، مقام اور بعض مخصوص تلمیحات اور اشارات سے قطع نظر یہ پہچاننا مشکل ہوجاتا ہے کہ تخلیق حمد ہے،نعت ہے یا منقبت ؟ یہ ایک تلخ اور تفصیلی بحث ہے اس لئے یہاں اس پر گفتگو ممکن نہیں۔البتہ اتنا عرض کیا جا سکتا ہے کہ شاعری میں مبالغہ،غلواور تخیلی پروازوں کے لئے بے حد گنجائشیں موجود ہیں مگر جب متذکرہ اصناف پر طبع آزمائی کی جاتی ہے تو ہم پر بہت سی مذہبی پابندیاں عائد ہو جاتی ہیں اگر ان کا خیال نہ رکھا جائے توفنی و ادبی نقطۂ نظر سے تخلیق کتنی ہی پر تاثیر اور آفاق گیر کیوں نہ ہو اس کی صنفی اور موضوعاتی حیثیت لائق اعتنا نہیں رہتی۔ربوبیت و توحید کے قرآنی مفاہیم،رسولؐ و رسالت کے مبینہ تصورات اور سیرت کے مستند واقعات پر دسترس اگر حمد و نعت کی تخلیق کے لئے ضروری ہیں تو منقبت کسی بزرگ کے ارفع کردار اور صرف منشاء اسلام کے مطابق واقعات اور خالص اسلامی تعلیمات سے مزین افعال و حقائق کے اظہار کی اجازت دیتی ہے لیکن اللہ کی ثنا،رسولؐ کی مدحت اور اولیاء کی توصیف بیان کرنے میں معمولی سی چوک یا محدود و متعین دائروں کا ایک دوسرے دائرے میں نفوذ اور ذات و صفات کے بیان میں غلو و اشتراکیت وغیرہ کو کسی طرح جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔متذکرہ اصناف کی تخلیق کے لئے مذہبی علوم کی شناسائی کے باوجود شاعرانہ تعلیات سے پرہیز اور اظہار پر شعور کی گرفت کا ہونا لازمی ہے ورنہ صاحب علم بھی رو میں بہہ کر راستے سے بھٹک سکتا ہے۔اس مثال مفکر اسلام علامہ اقبال کے یہاں بآسانی مل جاتی ہے۔ان کی غزل کا مطلع ہے:

کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں

کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں

اللہ کو لباسِ مجاز میں دیکھنے تمنا مضحکہ خیز ہی نہیں بلکہ اسلامی نظریۂ توحید کے بالکل منافی ہے۔اسی طرح ان کی نظم ’’التجائے مسافر ‘‘کے اگر چہ کئی شعر ایاک نعبدو ایاک نستعین کے مفہوم سے متصادم ہیں مگر یہ شعر:

تری لحد کی زیارت ہے زندگی دل کی

مسیح و خضر سے اونچا مقام ہے تیرا

محبوبِ الٰہی کی عقیدت میں نبی و غیر بنی کے فرق و امتیاز ہی کو ختم نہیں کرتا بلکہ بزرگ شخصیتوں کے مقابل انبیاء ورسل کے مرتبوں کو بھی کمتر ثابت کردیتا ہے۔ان امثلہ کے پیش نظر ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب اقبال جیسا مفکر جذبے پر جذباتیت،فکر پر تخیل ،وجدان پر شعور اورمذہبی حدود پر عمومی خیالات کے بہاؤ پر قابو نہیں پاسکا تو اردو کے دیگر شعراء نصوصِ اسلامیہ کے گہرے مطالعہ کے بجائے عام نعت گوئی کی روایت پر چلتے ہیں ان کے یہاں خالص مذہبی احساس کی شاعری عمل میں آئے بڑی حد تک غیر ممکنات سے ہے۔

پہلے مذکورہ بالا اجمالی گفتگو اس لئے کی ہے کہ فراغ روہوی کے نعتیہ مجموعے’’مرا آئینہ مدینہ‘‘پر اپنے مختصر تاثرات پیش کرسکوں۔اگرچہ فراغ روہوی کے یہاں بھی کچھ ایسے اشعار موجود ہیں جو روایت کے تحت تخلیق کئے گئے ہیں مگر ان کی شاعری کا بڑا حصہ ان کے محتاط تخلیقی رویے کا مظہر ہے۔ مثلاً ذیل کے اشعار ملاحظہ کیجئے:

حسن یوسف بھی بہت خوب ہے تسلیم، مگر

قابل رشک ہے نبیوں میں سراپا تیرا

چھوڑیں گے نہ ہرگز جیتے جی ہم آپ کا دامن شاہِ امم

’’جو تیرا نہیں وہ میرا نہیں‘‘ اللہ کا جب فرمانا ہے

کسی جامِ جم کی حاجت نہیں اے فراغ مجھ کو

مرے واسطے بہت ہے مرا آئینہ مدینہ

نشانی ہے ابد تک کے لیے ام الکتاب اس کی

کہ جس کے نور سے دنیائے ایمانی منور ہے

ہوئی امامت جو مصطفےٰ کی تومقتدی سارے انبیاء تھے

مرے نبی کا جو مرتبہ ہے عطا کسے وہ مقام ہوگا

موت آئے تو رہِ شاہِ امم پر آئے

دل میں مومن کے یہ ارمان جواں ہوتا ہے

ہم پہ وا ہوجائے گا خود بابِ رحمت ایک دن

جاگزیں دل میں ہے جب الفت رسول اللہ کی

ان کا ہر قول و عمل قرآن کی تفسیر ہے

ہم ادا کرتے رہیں سنت رسول اللہ کی

یوں تو آئے جہاں میں پیمبر بہت

آپ سے کوئی اعلیٰ و برتر نہیں

آپ کی ذاتِ اقدس پہ نازاں ہیں سب

کیا بشر، کیا ملک، کیا، فلک، کیا زمیں

کون انساں جا رہا سوئے سدرہ دیکھئے

جو نہ پہلے ہوسکا وہ واقعہ ہونے کو ہے

یہ اشعارشاعر کے وجود کی گہرائیوں میں موجزن محبت رسول کے احساسات،مذہبی حقائق کے ادراک اور سیرتِ اقدس کے مطالعے کا بھر پور احساس دلاتے ہیں۔اظہار میں ندرت اور سادگی کا عنصر غالب ہے جس کی وجہ سے اشعار براہِ راست ذہن و دل پر اثر انداز ہوکر قاری کے ایمان میں تازگی و حرارت پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

سرورِ کائناتصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بے مثل ذات کے مختلف پہلوؤں اور اپنی بے لوث عقیدت کی ترجمانی کے لئے جناب فراغ روہوی نے جہاں غزل کی ہیئت میں زیادہ تر نعتیں تخلیق کی ہیں وہیں بہت سی نئی اور قدیم اصناف کو بھی بطورِ وسیلہ قبول کیا ہے جن میں رباعی، دوہا، ماہیا اور ہائیکو بھی شامل ہیں۔ذیل میں ہر صنف کی صرف ایک ایک مثال پیش کی جارہی ہے:

دنیا میں اندھیرا ہی اندھیر ہوتا

یہ سانجھ نہ ہوتی نہ سویرا ہوتا

آتا نہ اگر دین محمد ہم تک

ہر گھر میں جہالت کا بسیرا ہوتا

(رباعی)

انساں ہو کر پاگئے پل بھر میں معراج

سچ پوچھو تو ہیں وہی نبیوں کے سرتاج

(دوہا)

جلوے بکھرے تھے

جس دم سدرہ سے آگے

آقا گزرے تھے

(ہائیکو)

مہمانِ خدا تم سا

عرشِ معلی پر

کوئی نہ ہوا تم سا

یہ مثالیں ہر صنف کے مخصوص آہنگ اور خارجی اصولوں کی پابندیوں سے آگہی اور موضوع کے ساتھ برتاؤ کے خوب صورت امتزاج اور ترسیل کے مؤثر طریقۂ کار کا پتہ دیتی ہیں۔

’’مرا آئینہ مدینہ‘‘ کے سرورق پر اگرچہ ’’نعتیہ کلام‘‘ کی سرخی موجود ہے مگر جناب فراغ روہوی نے کلام کی تدوین میں ایک خاص اہتمام کو برقرار رکھا ہے مثلاً یہ کہ غزل نما ہیئت کی فارم میں سب سے پہلے حمدیہ کلام ہے یعنی اللہ کی تعریف و توصیف کو اوّلیت دی گئی ہے پھر حرفِ دعا کے عنوان سے اللہ کے حضور میں اپنی حاجات کو پیش کیا گیا ہے اور نعتوں کا سلسلہ شروع ہوکر اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔یہی قرینہ رباعی،دوہا،ہائیکو اور ماہیا میں بھی برقرار رکھاگیا ہے جو مجموعے کو انفرادی حیثیت عطا کرتا ہے۔مگر سرورق پر درج عنوان سے سے واضح نہیں ہوتا ہے کہ مجموعے میں حمد و مناجات بھی موجود ہیں۔

میں نے فراغ روہوی کے مجموعے میں موجود نعتیہ کلام ہی کو موضوعِ بحث بنایا ہے جب کہ اس میں حمدیں اور مناجاتی نظمیں بھی غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں۔

ترقی پسندی تحریک اور جدیدیت کی تحریک کے بنیادی اصولوں میں مذہب کی کوئی اہمیت نہیں ہے اس لئے ان تحریکوں کے خالص فنکاروں نے حمد و نعت جیسی اصناف کے تخلیقی رجحان کوشدید نقصان پہنچایالیکن تحریکوں کے گنے چنے فنکاروں کو چھوڑ کر لا تحریک کے فنکاروں نے جہاں مذہب بیزار عقائد اور مغرب کی الحادی فکریات کو ذہنی،عملی اور تخلیقی سطحوں پر مستردکیاوہیں دیگر روایتی اصناف کے ساتھ حمد و نعت جیسی اصناف کو بھی ادبی منظر نامے پر زندہ وتابندہ رکھا۔یہی نہیں بلکہ اپنی نوجوان نسلوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ فنی قدروں اور پابند اظہاری ہےئتوں کی اہمیت کا احساس بھی بیدار کیا یہی وجہ ہے آٹھویں دہے کی ما بعد جدید لا تحریک کے فنکار اپنے اسلاف کی روایت کو آگے بڑھانے میں مصروف ہیں۔بات آہی گئی ہے تو یہ اظہار بھی ضروری ہے کہ بعض حضرات جو نئی نسل کوترقی پسند تحریک یا جدیدیت کی توسیع قرار دے رہے ہیں یا اس نسل کی انفرادی حیثیت کے بارے میں طرح طرح کے سوالات پیدا کررہے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔نئی نسل کے تخلیقی ادب کے امتیازات میں جہاں اور بہت سے عناصرموجود ہیں وہیں اہم عنصر مذہب اور بیشتر نئی اصناف کے ساتھ اس کی قدیم اصناف کے احیاء کو قرار دیا جاسکتا ہے۔ جناب فراغ روہوی لاتحریک کے اہم شعراء میں شامل ہیں اور ان کا مجموعہ ’’مرا آئینہ مدینہ‘‘ اس تحریک کی مذہب سے والہانہ عقیدت،نعت کی قدیم ہیئت اور رباعی جیسی مشکل صنف پر طبع آزمائی کے ساتھ دوہا،ہائیکو اور ماہیا جیسی نئی اصناف پر قدرت لاتحریک کی امتیازی خصوصیات اور تحریکی ادب سے جدا تخلیقی جہات کی آئینہ دار ہے۔

جناب فراغ روہوی نے حمدونعت جیسی پاکیزہ اور مقدس اصناف کے مجموعے کی کوئی قیمت نہیں رکھی ہے اس سے ان کے بلند خیالات اور طہارتِ احساس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔