فارسی ادب کا اوّلین قد آور نعت گو شاعر - ڈاکٹر اسماعیل آزادؔ فتح پوری

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

مضمون نگار: ڈاکٹر محمداسمٰعیل آزادفتح پوری (یوپی)

فارسی ادب کا اوّلین قدآور نعت گو شاعر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

مطبوعہ: دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

اب تک کی دستیاب معلومات کی روشنی میں فارسی میں نعتیہ اشعار اوّلاً اوّلاً فردوسیؔ نے کہے ہیں، جن کی کنیت ابوالقاسم اور نام حسن بن شرف ہے۔ آپ کا شاعرانہ لقب یا تخلص فردوسی ؔہے۔ موصوف عہدِ غزنوی کے مشہور شاعر ہیں۔ جنہوں نے ایران کی قومی داستان اور تاریخ کو زندگی بخشی اور فارسی زبان میں ایک نئی جان ڈال دی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ صرف غزنوی دور کے شاعر نہ ہوکر ایران کے بزرگ شاعر کہے گئے۔

عروضی سمرقندی نے’’ چہار مقالہ ‘‘میں ان کی ولادت صوبہ طوس میں تہران کے قریب باژگائوں میں بتلائی ہے۔ موصوف کے سن ولادت کے بارے میں شدید اختلافات ہیں لیکن شاہنامہ میں موجود داخلی شہادات کی روشنی میں ان کی ولادت 330ھ میں قرین عقل معلوم ہوتی ہے، ان کی وفات 411ھ میں ہوئی۔ ان کا ادبی شاہکار ان کا تخلیق کردہ شاہنامہ ہے، جس نے اپنے تخلیق کار کو زندہ جاوید بنادیا۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

فردوسی نے شاہنامہ مذکورہ بالا میں نعت و منقبت میں مخلوط بتیس اشعار کہے ہیں۔ خالص نعت سے متعلق اشعار درج ذیل ہیں:

چو خواہی کہ یابی زہر بدرہا

سر اندر نیاری بدام بلا

بوئے درد گیتی زبد رستگاہ

نکو نام باشی ہر کردگار

بگفتار پیغمبرت را جوی

دل آز تیر گیہا بدیں آب شوی

تو را دین و دانش رہاند درست

رہ رستگاری بیاید بجست

اس کے بعد حضرت ابوبکر کی منقبت اس طور پر کی گئی ہے کہ اس منقبت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی سے مدد لی گئی ہے۔

چہ گفت آں خداوند تنزیل وحی

خداوند امر و خداوند نہی

کہ خورشید بعد از رسولانِ مہ

نتابید برکس زبوبکر بہ

اس سے پیوستہ ایک شعر میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی منقبت اور اس سے پیوستہ شعر میں حضرت عثمان غنی رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کی منقبت کی گئی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی منقبت میں لکھے گئے شعر میں حدیث نبوی سے استعانت کرتے ہوئے فردوسی یوں گرم سخن ہے:

چہارم علی بود جنت بتول

کہ او را بخوبی ستاید رسول

کہ من شہر علمم علیّم درست

دُرست ایں سخن گفت پیغمبرت۱؎

دَرَست اور دُرُست میں تجنیس محرف کا برجستہ استعمال قابلِ ستائش ہے۔ فردوسیؔ نے اپنی اس نعتیہ کاوش میں منقبت کی ضمنی حیثیت رکھی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مطمحِ فکر نعت کو اوّلیت دینا تھا۔ اس طرح اس کے مخلوط 32اشعار میں نعت کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ اس نے خلفائے راشدین و صحابہ ٔ کرام کی مدح اس طرح کی ہے کہ اس سے بھی نعت کی حیثیت واضح ہوتی ہے۔ شگفتگی، روانی، مدلل انداز بیان، مدح کا مودّب پہلو، عقیدت و محبت کا اظہار اور احادیث نبویہ سے لطیف استفادے کرنا۔ اس کی نعتیہ کاوشوں کے مابہ الامتیاز عناصر ہیں۔

شاہنامہ فردوسی میں نعت و منقبت کے بتیس اشعار کو ’’درستائش پیغمبر و یارانش‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔ شاہنامہ کا پہلا عنوان ’’گفتار اندر ستائش خسرو‘‘ دوسرا عنوان ’’گفتار اندر آفرینش جہان و مردم‘‘ اور تیسرا عنوان ’’درستائش پیغمبر ویارانش‘‘ ہے۔

فردوسی کی حیثیت ضمنی نعت گو کی ہے۔ لیکن سلجوقی دور کا حکیم سنائی درحقیقت پہلا نعت گو شاعر ہے، جس نے نعت میں مختلف مضامین کو جگہ دے کر اس میں تنوع اور بوقلمونی پیدا کی۔ حکیم سنائی سے پیشتر کسی نے نعت میں اتنی پختگی، اتنی استواری، اتنی سلاست اور کلام کی اس قدر صفائی کے ساتھ اشعار نہیں کہے تھے۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

سلجوقی دور کی خصوصیت یہ ہے کہ اس دور میں صوفیانہ شاعری پروان چڑھی فارسی کی صوفیانہ شاعری میں سنائیؔ، عطارؔ اور رومیؔ کو سرآمد روزگار سمجھا جاتا ہے اور ان تینوں میں حکیم سنائی کو گل سرسبد کی حیثیت حاصل ہے۔ وہ جس طرح مسائل تصوف نظم کرنے میں اولیت کا درجہ رکھتا ہے، اسی طرح وہ پہلا فارسی نعت گو شاعر ہے، جس نے نعت میں مختلف مضامین کو جگہ دے کر اس میں تنوع اور بوقلمونی پیدا کی۔ حکیم سنائی سے قبل کسی نے نعت میں اتنی پختگی، اتنی سلاست اور کلام میں اس قدر صفائی کے ساتھ اشعار نہیں کہے۔

ابوالمجد مجدود ابن آدم سنائی پانچویں صدی ہجری میں متولد ہوئے۔ راجح قول کے مطابق ان کا سنِ ولادت 427ھ۔ 1045ء اور سنِ وفات 545ھ 1150ء ہے۔

موصوف اپنے اوائل عمر میں غزنوی دربار سے منسلک تھے۔ بعد میں ایک مجذوب کی ملامت نے دل پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ انہوں نے دربار سے اپنے تعلقات منقطع کرکے صوفیانہ مسائل اور نعتیہ مضامین کو شعری جامہ پہنانے میں عمر عزیز صرف کردی۔ حکام و سلاطین کی جھوٹی مدح سے زبان کو ملوث کرنے سے گریز کرتے ہوئے اپنی تمام شاعرانہ صلاحیتیں نعتِ نبوی میں صرف کردیں۔

اے سنائی جز مدح ایں چنیں سید مگوئی

تاتوانی جز بنام نیک او مکشائی دم

پیش علم و حلم و جود او کجا دارند پائی

عالماں را عالمیں و کوہ قاف و ابریم۲؎

اتنا ہی نہیں وہ کائنات کے ہر ذرہ اور عالم کی ہر شیٔ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی تمام صلاحیتوں کو ذات نبوی کی مدح کے لئے بروئے کار لائے وہ ہوا سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:

’’تو حضرت سلیمان کی خدمت کیوں کرتی ہے؟ (اپنی تمام وداعِ خداوندی کو اس ذات اقدس پر کیوں صرف نہیں کرتی، جن کا نام نامی حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی پر کنداں ہے، جس پر ان کی ساری حکمرانی کا دار و مدار ہے) اس نے کہا اسی لئے کہ احمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آپ کی انگوٹھی پر ہے۔

باد را گفتم سلیماں را چہ خدمت کنی

گفت ازاں کش نام احمد بر خاتم بود ۳؎

اس کا عقیدہ ہے کہ مدحِ نبی ﷺ میں اپنا ہی فائدہ ہے۔ نعت گوئی ارتقائی مراحل طے کرنے میں سلّم (سیڑھی) کا کام انجام دیتی ہے۔

اے سنائی از رہ جان گوئی مدح مصطفی

تا ترا سوی سپیر بر تریں سلّم بود ۴؎

سنائی نے ایک دیوان اور کئی مثنویاں بطور یادگار چھوڑی ہیں۔ سنائی کی تمام مثنویوں کے مطالب صوفیانہ اور عرفانی مضامین سے پُر ہیں۔ ان میں توحید، نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم، منقبت صحابہ، ترک دنیا، ظاہر سے بیزاری، رجوع الی الباطن، خودپسندی اورغرور کے ترک کی تعلیم جیسے مضامین بیان کئے گئے ہیں، مگر ان کی تمام مثنویات میں حدیقۃ الحدیقہ سب سے زیادہ مشہور ہے۔ یہ مثنوی ۵۲۵ء میں اختتام کو پہنچی تھی۔ اس میں گیارہ ابواب اور دس ہزار اشعار ہیں۔ نعت سے دلچسپی رکھنے والے حضرات کے لئے حدیقہ کا مطالعہ اس لئے بھی ناگزیر ہے کیونکہ شاعر موصوف نے اپنے مذکورۃ العنوان شاہکار کے باب دوم میں صرف نعتیں جمع کی ہیں۔ یہ نعتیں مختلف النوع مضامین کی حامل ہیں۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

کلیات سنائی میں مشمول نعتیہ قصائد کے مطالعہ حسب ذیل ہیں: ۵؎

کفر و ایماں را ہم اندر تیرگی ہم در صفا

نیست دارالملک جز رخسار و زلف مصطفی ۶؎

روشن آں بدری کہ کمتر منزلش عالم بود

جزمِ آں صدرے کہ قبلہرش حضرت اعظم بود ۷؎

زہے پشت و پناہِ ہر دوعالم

سر و سالار فرزندان آدم ۸؎

چوں بصحرا شد جمال سید کونین از عدم

جاہ کسریٰ ازو بعالم ہائی عزل اندر قدم ۹؎

ای کشتہ زتابش صفائی تو

آئینہ روی ما قضائی تو ۱۰؎

جوئندۂ جان آمدہ ای عقل زہے کو

دلخواہِ جہاں آمدہ ای قوم فہی کو ۱۱؎

حکیم موصوف کی ایک نعتیہ کاوش جو 21 اشعار پر مشتمل ہے اور جس کا پہلا شعر ہے:

مرحبا ای رایت تحقیق را رایت حشم

رای تو شد حشم توفیق بفرازد علم ۱۲؎

اس لئے اہم ہے کہ شاعر نے اپنی اس کاوش میں مدح کے ضمن میں حضرت رسالت مآبﷺ کے احسانات جاندار طریقے پر شمار کئے ہیں اور قرآنی تلمیحات شاعرانہ انداز میں بیان کی ہیں۔ صنائع لفظیہ و معنویہ کا استعمال فطری اور برجستہ ہے۔ شاعر کہتا ہے:

کرنبودی بود تو موجود کلی را وجود

حق بجاں تونکردی یاد در قرآن قسم ۱۳؎

گر نخواندی رحمۃ للعالمیں ایزد ترا

در ہمہ عالم کہ دانستی صمد را از صنم

چوں لعمرک گفت اینجا جای دیگر والضحیٰ

کشتماں روشن کہ تو بوالقاسمی نہ بود الحکم

تا نسیم روی و مویت پردہ از رخ برمداشت

نہ ظلم از نور پیدا بود نہ نور از ظلم

عالمی بیمار غفلت اندر راہ لا

حق ترا از حقۃ تحقیق فرمودش نعم

کاں محمد روطبیب حاذق و صادق توئی

خلق کن با خلق و در نہ درویشاں را ادم

ہر کرا شربت بود شافی بدہ اینک قدح

ہر کرا حجت بود حاجت بخواہ انیک کرم

حکیم سنائی نے ایک دوسرے قصیدے میں آپ کی اولویت و افضلیت اس طرح بیان کی ہے:

سرور دوجہاں کار ساز حشر و نشر

آفتاب دیں محمد سید عالی ہمم

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

حکیم سنائی نے 79 اشعار کا ایک قصیدہ یحییٰ صاعد معروف بہ عارف ذرگر کی مدح میں لکھا ہے اور اس میں یہ جدّت طرازی کی ہے کہ قصیدہ کی تشبیب میں نعتیہ مضامین نظم کئے ہیں۔ تشبیب میں آمد ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی تیز بہائو والا دریا ہے، جو روانی کے ساتھ بہہ رہا ہو۔ چند اشعار ہدیۂ ناظرین ہیں۔

اے سنائی گر ہمچوئی زلطف حق سنا

عقل را قربان کن اندر بارگاہِ مصطفی

ہیچ مندیش از چنیں عیاری ایرا بس بود

عاقلہ عقل ترا ایمان و سنت خوں بہا

مصطفی اندر جہاں آنکہ کس گوید ز عقل

آفتاب اندر فلک آنکہ کسی گوید سہا

طوقداران الٰہی از زباں ذوق و شوق

عقل را در شرع او خوانند غمخوار کیا

در شریعت ذوق دیں یابی نہ اندر عقل از آنک

قشر عالم عقل دارد مفز روح انبیاء ۱۴؎

قصیدہ مذکورۃ السبق کی تخلیص (گریز) میں قلم شاعر سے مثالی نعتیہ اشعار نکلے ہیں۔ تشبیہات اصل مدّعا کو واضح کرنے میں ممدو معاون ہیں، ان کا استعمال صرف محاسن شعری کے بطور نہیں ہوا ہے۔

صورت آدم ز احمد بود لیک اندر صفت

آدم از احمد پدید آمد چو ز آصف برخیا

جوہرش چوں ز اضطرار عقل و نفس اندر گذشت

گفت در کوشش کہ الرحمن علی العرش استویٰ

خاک آدم ز آفتاب جو در زین رخ شدہ است

عارف زاگرش خواند پردہ دار کبریا ۱۵؎

حکیم سنائی کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ نعت میں منبعِ نعت سے جس قسم کی مدد چاہتا ہے اپنی شعری کاوش میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ہی اوصاف کا تذکرہ کرتا ہے، جو مستعان بہ سے مناسبت رکھتے ہوں۔ اسی طرح اس کے کلام میں معنوی مراعاۃ النّظیر کا استعمال ملتا ہے۔ شاعر کی یہ ادا اس کے کلام میں بلا کا اثر پیدا کردیتی ہے۔ ساتھ ہی اس طور پر اس کے کلام میں منبع نعت سے متعلق سوانح حیاتی عناصر بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ مرقومہ ذیل اشعار بطور شہادت پیش کئے جاسکتے ہیں:

از زبان خود ثنائے گوئی مارا در عرب

تا زبان ماترا اندر عجم گوید ثنا

ہر کجا کام تو آمد افتخار آرد زمیں

ہر کجا عدل تو آمد انقیاد آرد سما

ای یتیمی کردہ اکنوں با یتیماں لطف کن

وی غریبی کردہ اکنوں با غریباں کن وفا ۱۶؎

سنائی بکثرت تلمیحات استعمال کرکے اپنے قاری کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنی معلومات کا دائرہ وسیع کرے۔ وہ قرآنی آیات اکثر بعینہ نقل کرتا ہے اور جہاں کہیں وہ تلمیحاتی استعمال میں قرآنی آیات بعینہ نقل نہ کرکے ان کے آزاد ترجمے نظم کرتا ہے۔ وہاں کلام سنائی سے کماحقہٗ مستفید ہونے کے لئے غیر معمولی دقّت نظر مطلوب ہوتی ہے۔ مثال میں حسب ذیل اشعار نقل کئے جاتے ہیں:

لاف نحن الفالبوں بسیار کس گفتند ز لیک

غالبو نشان کشت آمنا چو ثعباں تو عصا ۱۷؎

یا الم نشرح چہ گوئی مشکلی باشد بہ بند

با فترضیٰ، ہیچ عاصی در مقام غم بود

طاؤس سدرہ یکی پر کز ہما می دولتش

بر پر خود الست ازاں پر وحی را محرم بود

خضر کردہ چشمہ حیواں ازاں میکشت دیر

تا مکر دریا بدش یادی دمی ہم دم بود ۱۸؎

زہے پشت و پناہ پر دوعالم

سرو سالارِ فرزندانِ آدم

دلیل رایست ابراہیم آذر

منادی ملّتت عیسیٰ مریم ۱۹؎

نبودی گر برایت گفت ایزد

نہ آدم آفریدی و نہ عالم

کلاہ و تخت کسریٰ از تو نابود

سپاہ ملک و قیصر از تو درہم ۲۰؎

آیت نصر من اللہ چوں برآمد از عرب

آتش اند زد بجاں شیر یاران عجم

خاک پائے بوذرش از یک جہاں نو در بہشت

دزد نعلین بلال او را بہ صدر و ستم

ہمچو لاشہ سرنگوں آنکس کہ رو راگفت

وزسعادت بانعم شد آنکہ او را گفت نعم

چرخ اعظم آمدہ بیش قیامش در رکوع

کارم کسریٰ از و کسر و زجاہ او نجم

تا بیان شرع دینش را خداوند جہاں

یاد کرد اندر کلام خود نہ افزوں و نہ کم

صاقدین بوذر لا وہم قانتین مقدار بود

منفقین سلماں علی متفریں آمد بہم

برسما دارد چوں میکائیل و چوں جبرئیل دوست

پر زمیں دارد چو صدیقی و فاروقی خدم ۲۱؎


"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

حکیم سنائی کی وہ نعتیں، جن میں وہ استعمال تلمیحات سے گریز کرتے ہیں، سادگی، صفائی سلاست اور سریع الفہمی میں اپنے آپ مثال ہوتی ہیں۔

مہتر اولاد آدم خواجۂ ہر دوجہاں

آنکہ یزدانش امامت داد برکل امم

از جلال و جاہ اقبالش خدائے ذوالجلال

نام اوپیش از ازل با نام خود کردہ رقم

سرورِ ہر دوجہاں و کارساز حشر و نشر

آفتاب دینِ محمد سید عالی مقام

مصطفی و مجتبیٰ آں کز برائے خیر حال

درادای وحی جبریلش ندیدی متہم ۲۲؎

حکیم سنائی نے حدیقہ الحدیقہ کے باب ثانی کو نعت نبی کے لئے وقف کردیا ہے اور چودہ عنوانات کے تحت کافی جاندار نعتیں لکھی ہیں۔ حدیقہ میں شامل نعتیں منبع نعت کی حیات طیبہ کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالتی ہیں۔ ان نعتوں میں سوانح حیاتی عناصر بکثرت ملتے ہیں۔ سنائی کا یہ وصف قابل تحسین ہے کہ اس نے شاعرانہ واقعیت کے ساتھ تاریخی صداقت کا بھی لحاظ رکھا ہے اور واقعیت و حقیقت کا دامن ہر جگہ اس کے ہاتھ سے وابستہ رہا ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حدیقہ میں شامل عنوانات سلسلہ وار لکھ دیئے جائیں اور ہر عنوان کے ذیلی مضمون کا بھی ہلکا سا تعارف کرادیا جائے تاکہ حکیم موصوف کی نعتیہ کاوشات کا ایک اجمالی خاکہ ذہن نشین ہوجائے۔

حکیم سنائی نے حدیقہ میں مرقوم نعتوں کے عنوانات باب دوم میں اجمالاً جمع کرتے ہوئے لکھا ہے۔

(1) فی فضیلۃ نبینا محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی سائر الانبیاء۔(2) وفی معراجہ۔ (3) وفی بداۃ ذاتہ۔ (4)وبدوشانہ۔ (5)وفی منقبتہ۔ (6)و فی حسن خلقہ۔ (7)وکرامتہ۔ (8)وانشراح صدرہ۔ (9)ومشیتہ۔ (10)واتباعہ۔ (11) وبعثیہ۔ (12)وارسالہ۔ (13) وفی الصلوٰۃ علیہ۔ قال اللّٰہ تعالیٰ ان اللّٰہ و ملائکتہ یصلون علی النبی، یا ایھا الذین آمنوا صلوا علیہ و سلموا تسلیما۔ وقال اللّٰہ تعالیٰ و ما ارسلنٰک الا رحمۃ للعالمین و قال علیہ السلام انا سید ولد آدم ولا فخر و آدم و من دونہ تحت لوائی یوم القیامۃ ولا فخر۔

شاعر باب دوم کے مضامین کا دستور تعارف دے کر ہر ایک عنوان کے تحت نعتیہ مثنویاں لکھتا ہے۔ ہر مثنوی فارسی زبان و ادب میں نقش اوّل ہونے کے باوجود معلوماتی ہے اور شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے۔ مثنویوں کے عنوانات اس طرح ہیں:-

(1) فی معراجہ صلوٰۃ اللہ و سلامہ علیہ۔ آغاز،ص:185۔

(2) فی فیضلتہ علی سائر الانبیاء۔ ص:190۔

(3) فی بدایۃ ذاتہ علیہ السلام۔ ص:191۔

(4) فی کرامتہ علیہ السلام۔ ص:192۔

(5) فی اتباعہ علیہ السلام۔ ص: 196۔

(6) فی انشراح صدرہ علیہ السلام۔ ص:199۔

(7) فی مشیتہ صلوٰۃ الرحمن علیہ۔ ص:200۔

(8) وما ارسلنٰک الا رحمۃ للعالمیں۔ ص: 202۔

(9) فی الصلوٰۃ علیہ۔ ص:205۔

(10) فی بدوشانہ۔ ص:207۔

(11) فی منقبتہ علیہ السلام۔ ص: 220۔

(12) فی بعثہ وارسالہ علیہ السلام۔ ص:226۔

(13) فی حسنہ خلقہ۔ ص: 231۔

(14) فی فضیلتہ علی سائر الانبیاء و معراجہ۔ ص:238۔

جملہ انبیائے عظام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تقدیم بالشرف کی بابت جو ابیات کہے گئے ہیں، وہ صاف و سادہ ہیں اور ان میں کہیں بھی تقلید، گنجلک اور پیچیدگی نہیں ہے۔ شاعر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کی درمیانی نسبت کو کہیں استاد و شاگرد، کہیں مہندس و مزدو، کہیں عقل و سر اور کہیں نبی و ولی کے تفاوت کو دکھلاکر واضح کیا ہے:

او سری بود و عقل گردن او

او ولی بود و انبیاء تن او ۲۳؎

حکیم سنائی ایک مقام پر آپ کی فضیلت ظاہر کرتے ہوئے استعارہ کا سہارا لے کر کہتا ہے:

فیض فضل خدا دایۂ او

فر پر ہمائی سایۂ او ۲۴؎

حدیقہ کے باب دوم میں معراج پر مستقلاً اشعار کہے ہیں۔ حکیم سنائی فارسی زبان و ادب کا پہلا شاعر ہے، جس نے نعت کے ضمن میں معراج نامے داخل کئے۔ اس کے بعد تقریباً نعت کے ہر بڑے شاعر نے نعت کے تحت معراج نامے لکھے۔ اور اس طرح شعرائے نعت نے معراج سے متعلق جملہ جزئیات جمع کردیں۔

معراج کے لغوی معنی زینہ ہے۔ عرف عام میںیء رجب کی ستائیویں شب کو سنہ 10ھ میں نبی آخرالزماں ﷺ کے مسجد حرام سے مسجداقصیٰ۲۵؎ اور وہاں سے آسمان۲۶؎ اور پھر اس کے آگے عجائب ملکوت۲۷؎ وغرائب قدرت کا مشاہدہ کرتے ہوئے ملاء اعلیٰ تشریف لے جانے اور خالق کائنات سے شرف ۲۸؎ ملاقات حاصل کرنے اور دیدار الٰہی سے مستفیض۲۹؎ ہونے کے واقعہ کو معراج کہتے ہیں۔ لفظ معراج کا مادہ عرج ہے۔ چونکہ احادیث نبویہ میں الفاظ ’’عرج بی‘‘ استعمال فرمائے گئے ہیں۔ اس لئے اس واقعہ مبارکہ کے لئے لفظ معراج خاص ہوگیا۔ لفظ معراج کے معنیٰ زینہ بھی ہیں۔ چونکہ عروج و ارتقا منزل بمنزل ہوا۔ لہٰذا واقعۂ باطنی کے لئے یہ تشبیہ ظاہری بھی خوب ہے۔۳۰؎

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

ذکرِ معراج میں شاعر نے سب سے پہلے وہ تلمیحات استعمال کی ہیں، جن کا استعمال ما بعد کے شعراء کے یہاں سرمایہ افتخار کے طور پر ملتا ہے۔ مقالہ میں ذیل کے اشعار میں موجود تلمیحات پیش کی جاسکتی ہیں:-

دوجہاں پیش ہمنشیں بدوجو

سرما زاغ البصر و ما طفیٰ بشنو

شدہ از صخرہ تا سوئے رفرف

قاب قوسین لطف کردہ بکف

قامت عرش با ہمہ شرفش

ذرۂ پیش ذروۂ شرفش

بر نیادہ خدای در معراج

برسر ذاتش از لعمرک تاج

بافترضیٰ دل تباہ کر است

بالعمرک غم گناہ کر دست ۳۱؎

ہمتش الرفیق الاعلیٰ جوی

عزّتش لا بنی بعد ی گوئی ۳۲؎

عالم خاکی سے آپ کے جسمانی افتراق کی ابتدا شاعرانہ انداز میں بیان کرتے ہوئے شاعر کہتا ہے:

برنہادہ ز بہر تاج قدم

پا می بر فرق عالم و آدم ۳۳؎

پای او تاج فرق آدم شد

دست او رکن علم عالم شد ۳۴؎

شاعر نے کس قدر بلیغ انداز میں معراج کے مفہوم کی وضاحت صرف ایک شعر میں کی ہے:

بار گیرش سوِ ازل معراج

نردبانش سو ابد منہاج

اس نے کس قدر ایجاز کے ساتھ معراج کا اجمالی خاکہ صرف ایک شعر میں کھینچتے ہوئے کہا ہے:

در شب از مسجد حرام بکام

رفتہ و دویدہ و آمدہ بمقام ۳۵؎

سنائی کے معراج نامہ میں ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں معراج کی تفصیلی جزئیات نہیں ملتیں، لیکن خالص نعت کے اشعار تعداد میں زیادہ ہیں۔ حکیم سنائی کی بداعتِ اظہار اور تشبیہات و استعارات کا برمحل استعمال سامعہ کو متاثر کئے بغیر نہیں رہتا۔

چشم جمشید ماندہ در ابروش

قرص خورشید حیرہ گیسومش

رنگ رخسارۂ زحل کامش

نقش پیشانی قمر نامش

شرف اہل حشر فتراکش

لوح محفوظ ملک ادراکش

بودہ در مکتب حکیم و علیم

لوحِ محفوظ برکنار مقیم ۳۶؎

’’لولاک لما خلقت الافلاک‘‘ کے جانے پہچانے مضمون کو بداعت اسلوب ہی نہیں جاذب سامعہ بنادیا۔

غرض عالم آدم از

اوّل غرض آدم احمد مرسل ۳۷؎

آپ کی فضیلت میں لکھی گئی نعتوں کا انداز مدلل ہے۔ شاعر جملہ انبیاء علیہم السلام پر آپ کے تفوّق کی ایک دلیل یہ بتلاتا ہے کہ ہر شریعت کے لئے کہنگی و تنسیخ ہے۔ جب کہ آپ کی شریعت مطہرہ کے لئے نہ کہنگی ہے اور نہ تنسیخ۔

تیغ و قرآں درا شدہ معجز

نشود شرع او خلق ہرگز۳۸؎

بدایت ذات کو موضوع بناکر جو نعتیہ اشعار کہے گئے ہیں، ان میں آپ کے ظہور میمنت لزوم اور اس کے عواقب و اثرات نیز عصری کوائف کابیان حسین و لطیف اوردلکش استعارات کا سہارا لے کر کیا گیا ہے۔

حکیم سنائی میلادنامہ کا موجد ہے۔ بعد کے شعراء بالخصوص شعرائے اردو نے بہت سے میلادنامے لکھے اور اس میدان میں بھی اپنی طبیعت کی جولانیاں دکھلائی ہیں۔

دیدہ از چشم دل بنوراحمد

از دریچہ ازل سرافی آید

شد ز تابش نشانہ کسریٰ

سر ایوان طارم کسریٰ

پای کویاں عروس عشق ازل

سرنگوں اوفتادہ لات و ہبل

دادہ دادش ہمہ خلائق را

عزّ معشوق و ذلِّ عاشق را

رفتہ از اقتداش تا عیوق

زشت و نیکو و لاحق و مسبوق

شاعر نے آخری شعر میں اقتدا ’’لاحق‘‘ اور ’’مسبوق‘‘ کی فقہی اصطلاحات جمع کردی ہیں۔ اس طرح شعر معرض بحث میں صنعت مراعاۃ النظیر کا استعمال بے حد فطری انداز میں برجستہ ہوا ہے۔ ایسا متصوّر ہوتا ہے کہ شاعر کے یہاں صنعت کا استعمال نہیں ہورہا بلکہ صنعت خود شعر کے اندر آگئی ہے یا شعر خود صنعت کے اندر چلا گیا ہے۔


"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کرامت کے اظہار میں لکھے گئے ابیات خالص نعت کے اشعار ہیں۔ اس عنوان کے تحت وارد ابیات میں سے پہلے بیت میں شاعر نے صنعت تلمیح سے امداد لیتے ہوئے تقابلی انداز میں آپ کے عہد مبارک کی تعریف اس طرح کی ہے۔

گر ملک دیو شد گہ آدم

دیو در عہد او ملک شد ہم ۳۹؎

سنائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ آنکھ، زبان تو زبان آپ کی ابرو پر بھی ’’نہیں‘‘ لفظ کبھی نہیں دیکھا گیا۔

ہیچ سائل بخشندی و بخشم

لا در ابروی او ندیدم چشم ۴۰؎

سنائی کا کہنا ہے کہ جبرئیل آپ کی خاک راہ بن کر ہی شاہنشہ ملائک بن سکے۔ آپ کا ذکر خیر ارواح ملائک کے لئے غذا ہے:

جبرئیل از کرامتش در راہ

بر ملک جمع گشتۂ شاہنشاہ

طیب ذکرش غذای روح ملک

طول عمرش مدار دور فلک

شاعر حضرت آدم کے تقدم بالزّماں اور آپ کے تقدم بالشرف کو ظاہر کرتے ہوئے کہتا ہے:

پدر ملک بخش عالم او

پسر نیک بخت آدم او

آدمی از وی پسر پدر گشتہ

وز نجابت دراپسر گشتہ

چشم روشن شدہ از آدم

جان او از چناں پسر خرم ۴۱؎

معرض بحث نعتیہ مثنوی کے آخری دو بیت جو کہ درج ذیل ہیں، مضمون کے اعتبار سے حاصل ابیات ہیں، اور مثنوی میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔

منفرد بخطّہ ملکوت

متوحد بفرت جبروت

جان او بر پریدہ ز آب و زگل

دوست را دیدہ از دریچۂ دل ۴۲؎

شاعر نے اتّباع کے عنوان کے تحت، جو اشعار حوالۂ قرطاس کئے ہیں، وہ اس اجمال کی تفصیل کے سلسلے میں ہیں کہ نبی کی اتّباع خلائق خداوندی پر اس لئے بھی لازم ہے کہ کائنات اپنے وجود میں آپ کی رہینِ منت ہے۔ عالمِ آب و گل پر آپ کے اتنے احسانات ہیں، جو حیطۂ اعداد سے باہر ہیں۔

آدمی زندہ انداز جانش

انبیاء گشتہ اند مہمانش

آنکہ شب را سپید موی کند

کی سخن را سیاہ روی کند

اسی ضمن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی معجزات نظم کئے گئے ہیں۔ آتش کسریٰ کے سرد ہوجانے والے واقعہ کو نظم کرتے ہوئے حکیم سنائی کہتا ہے:

آتش کسریٰ از تفش بگریخت

جانِ خود زیر پائے اسپش ریخت۴۳؎

شاعر نے اتباع کے ذیلی عنوان کے تحت آپ کے اوصاف حسنہ اور خصائل حمیدہ بیان کئے ہیں۔ تلمیحات کا استعمال بھی برجستہ اور فطری ہے:

یافتہ دین حق بدو تعظیم

خلق او را خدای خواندہ عظیم ۴۴؎

گاہ گفتی جہاں مرا ست تبع

گاہ گفتی رجوع گاہ اشبع ۴۵؎

اس شعر میں مصابیح میں مرقوم مندرجہ ذیل حدیث کی جانب تلمیح ہے:

قال عرض علی رب لیجعل لی بطحا ملکۃ ذھباً فقلت لا یا ربی و لکن اشبع یوماً و اجوع یوماً فاذا جمع تفرع الیک و ذکرتک و اذا شبعت حمدتک و شکرتک۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پروردگار نے میرے سامنے یہ بات رکھی کہ وہ میرے لئے مکہ کے بطحا کو سونے کا کردے۔ میں نے جواباً عرض کیا نہیں میرے پروردگار! میں ایک دن بھوکا اور ایک دن شکم سیر رہنا چاہتا ہوں تاکہ بھوکا رہنے پر آپ کے سامنے گڑگڑائوں اور آپ کا ذکر خیر کروں اور آسودہ ہونے پر آپ کی حمد کروں اور آپ کا شکر ادا کروں۔

شق القمر کے معجزہ کو نظم کرتے ہوئے شاعر کہتا ہے:

آں بنالی کہ کردہ مہ بدونیم

کی کشیدی زخامہ حلقہ میم ۴۶؎


اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

انشراح صدر سے متعلق ابیات بہت سے اچھے نعتیہ اشعار کے حامل ہیں۔ انبیائے ماسبق میں سے ہر ایک موقر اور صاحبِ عظمت ہے۔ لیکن جب ان کی عظمت و وقار کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و توقیر سے کی جائے، تو دونوں کے مابین کوئی تناسب سمجھ میں نہیں آتا۔ اس تناسب کا لفظ صفر سے اظہار بہت پرمغز اور بلیغ ہے۔

انبیاء گرچہ محتشم بودند

ہر یکے صفر آں رقم بودند ۴۷؎

صفر کی حیثیت صرف اسی وقت ظاہر ہوتی اور بڑھتی ہے، جب اس کے ساتھ کوئی ہندسہ آجائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہندسہ ہیں اور سارے انبیاء آپ کے صفر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ صفر کی حیثیت سے عالم انسانی میں آتے رہے اور آخر میں نبی آخرالزماں نے ابنے قدوم میمنت لزوم سے ہندسے کی شکل میں جلوہ افروز ہوکر ہر صفر کی وقعت و اہمیت واضح کردی۔ صفر کے ساتھ اگر ہندسہ نہ آئے، تو وہ صفر محض ہے۔ شعر مذکورہ بالا نبی آخرالزماں کے تقدم بالعلیۃ، تقدم بالوجود اور تقدم بالشرف کو ظاہر کرتا ہے۔

شاعر نے مشیّت کے ذیلی عنوان کے تحت عقل و نقل کا سہارا لے کر بہت سے جاندار ابیات کہے ہیں۔ پورے ذیلی باب کے کلیدی ابیات دو ہیں، جو کہ رقم ذیل ہیں:

پیش او گوش کشتہ عقل ہمہ

پس از وفاش گشتہ نقل ہمہ

ہر مصالح کہ مصطفی فرمود

نقل داند کہ گوش باید دید ۴۸؎

آپ صلی اللہ علیہ وسلم عالم کے لئے رحمت بن کر تشریف لائے۔ شاعر نے اس مضمون پر لکھے گئے ابیات کا عنوان کلام الٰہی سے مستعار لیا ہے۔ اس سلسلے کے اشعار میں متنوّع انداز میں اوّلاً یہ بات واضح کی گئی ہے کہ آپ کی ذات بابرکات موجودات عالم کے لئے رحمت ہے۔ کوئی متنفس اپنا اتنا خیرخواہ اور خیراندیش نہیں ہوسکتا، جتنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لئے ہیں:-

برتر از نفس تو رحیم ترست

در شفاعت ازاں کریم ترست

شاعر مطالبہ کرتا ہے کہ ایسے رحیم و کریم کی اتباع بغیر چوں چرا کرنا چاہئے:

ہر چہ او گفتہ امر مطلق داں

و آنچہ او کردہ حق داں ۴۹؎

حکیم موصوف نے حدیث نبوی ’’مثل امتی کمثل الغیث لا یدری اوّلہ خیر ام آخرہ‘‘۵۰؎ کو کس لطیف پیرائے میں شعری جامہ پہناتے ہوئے مرقومہ ذیل بیت کہا ہے۔

امَّتانش چو قطرۂ باراں

کاوّل و آخرش بود چو میاں

’’فی الصلوٰۃ علیہ‘‘ کے ذیلی عنوان کے تحت مرقومہ نعتیہ ابیات، شاعر کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت و عقیدت کے مظہر ہیں۔ مخلص عقیدت نے کہیں کہیں شاعر کے انداز بیان کو تحکمانہ بنادیا ہے:

خاک او باش و بادشاہی کن

آں او باش و ہرچہ خواہی کن

شاعر کا عقیدہ ہے کہ ہر وہ فرد، جو اس کے دربار کا خاک نہیں ہوا، ذلیل ہے، خواہ فرشتہ ہی کیوں نہ ہو:

کانکہ او خاک نیست بردر او

گر فرشتت خاک برسر او

عقل و جان دولت احمدی سے مشرف ہوکر زندہ جاوید اور امر ہوجاتی ہیں:

عقل و جاں را بدولت احمد

از بقا ساختند جیش ابد ۵۱؎


"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

شاعر نے آپ کی شان ظاہر کرنے میں جتنی تلمیحات استعمال کی ہیں، اتنی تلمیحات اس نے کسی بھی نعتیہ کاوش میں استعمال نہیں کیں۔ تلمیحات مذہبی ہیں اور ان میں بھی اکثر قرآنی ہیں۔ اسی لئے اکثر اشعار میں صنعت تلمیح کا استعمال ملتا ہے۔

انظروا کیف مسرف الاندار

واذکروا اذ معرّف الاسرار

پہلے مصرع میں آیت فانظر کیف کان عاقبۃ المنذرین۔

(سورہ یونس۔1، ع-8/12)

اور دوسرے مصرع میں آیت یا ایھا الذین آمنوا اذکروا اللّٰہ ذکراً کثیراً وسبحوہ بکرۃ و اصیلا۔ (سورہ الاحزاب-6۔ ع-5/2) کی طرف اشارہ ہے۔

اھبطوا امر آمد از قرآن

پا غش ربنا ظلمنا خواں

پہلے مصرع میں ’’قلنا اھبطوا بعضکم بعض عدوٌ و لکم فی الارض مستقر و متاع الی حین‘‘ (سورہ بقرہ-9 ع-3/3) اور دوسرے مصرع میں ’’قالا ربنا ظلمنا انفسنا و ان لم تغفرلنا و ترجمنا لکنونن من الخاصرین‘‘ کی طرف اشارہ ہے۔

ان شر الدواب مختصراں

اہل حسن المآب معتبراں

پہلے مصرع میں ’’ان شر الدواب عند اللّٰہ الصم البکم الذین لا یعقلون‘‘ (قال الملا، انفال:9۔ع-3/16) اور دوسرے مصرع میں ’’الذین آمنوا و عملوا الصالحات طوفیٰ لہم و حسن مآب‘‘ کی طرف اشارہ ہے۔

اسی طرح حکیم سنائی نے بہت سے اشعار میں قرآنی آیات بطور تلمیح استعمال کی ہیں۔

شاعر نے حضرت نوح، خلیل، موسیٰ، عیسیٰ، ابن مریم، ادریس، خضر، ذوالنون، صالح، لوط، ہود، یوشع، سلیمان، اسحاق، اسمٰعیل، یعقوب، یوسف، شعیب علیہم السلام۔ انبیائے ماسبق کی مایہ الامتیاز تحقیقات کا تذکرہ کرتے ہوئے شاعرانہ انداز بیان میں ثابت کیا ہے کہ وہ سب کے سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرہون منت ہیں۔اس نعتیہ مثنوی کا بیت اوّل مع اس بیت کے، جس کو راقم الحروف ذیل میں بیت اوّل کے بعد حوالۂ قرطاس کررہا ہے، ساری مثنوی میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔

انبیاء آسماں پیادہ شدند

وزو سادہ بسوے سادہ شدند۵۲؎

(بیت اول)

رفعت ادریس از ثنائے تو یافت

سدرہ جبرئیل از برائے تو یافت ۵۳؎

پوری مثنوی میں ’’لولاک لما خلقت الاخلاک‘‘ میں مخفی بنیادی خیال کی وضاحت کی گئی ہے۔ شاعر کا عقیدہ ہے کہ عرش کو رفعت اور بلندی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی وجہ سے ملی ہے:

شرف قاب اذاں نقاب فزود

رفعت عرش رتبت از تو ربود ۵۴؎

آپ کی نعت خوانی کے لئے زمانہ کے درمیان سے جمعہ، بیض، عید، لیلۃ القدر، اور شب برأت، مکان کے درمیان سے مکہ، یثرب، حرا اور حرم آئے:

از زماں آمدند بہر ثنات

جمعہ و بیض و عید و قدر و برات

و زمکاں آمدند قدہا خم

مکہ و یثرب و حری و حرم ۵۵؎

کائنات اور کائنات کی ہر شیٔ آپ ﷺ کے علو مکانی و رفعت شانی کے مظاہر ہیں۔

ہفت سیّارہ و دوازدہ برج

شدہ نام ترا خزانۂ درج ۵۶؎

منقبت پر کہے گئے نعتیہ ابیات میں قابل رقم بات یہ ہے کہ شاعر نے لفظ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت لطیف تشریح کی ہے۔

گویدت معنی محمد راست

مح و مدّست و ہر دو برّ و عظات

محمد کفر از سرا می پردہ دیں

مدا طناب شرع تا برد ۵۷؎

حکیم سنائی نے ایک دوسرے مقام پر حروف صاد، دال، عین اور شین کی تشریح اس طرح کی ہے:

صاد و دال آب داد صادق را

عین و شین عشوہ داد عاشق را ۵۸؎

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے پر تبصرہ کرتے ہوئے شاعر کہتا ہے:

روئے از خوب و رائے او ثاقب

ازش خوندہ حاشیہ و عاقب ۵۹؎

اسی ضمن میں راقم الحروف یہ عرض کردینا چاہتا ہے کہ مرقومہ ذیل بیت کا مصرع اوّل نبی آخرالزماں کی بلندی ظاہر کرتا ہے جب کہ مصرع ثانی ایسا کرنے سے قاصر ہے۔ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا مرتبہ تو اس سے یقینا بلند ہوا کہ انہوں نے نبی آخرالزماں کو اپنا خسر پایا لیکن منبع نعت کے علو مکان کے سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت علی کا خسر ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا، لیکن اتنی بات تو اہم ہے ہی کہ باب بیت العلم کی ہر ایسی شخصیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داماد تھی۔

مفخر جملہ انبیا او بود

خسر و میر مرتضیٰ او بود ۶۰؎


اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

نعتیہ ابیات کے درمیان گوش و زبان کا تذکرہ آیا، تو حکیم سنائی نے ہر دو اعضاء پر کئی لطیف و بلیغ اشعار کہہ دیئے، اس کے بعد اس نے اصل مدّعا کی جانب گریز کرتے ہوئے بیت مندرجہ ذیل کہا ہے اور پھر نعت خوانی میں منہمک ہوگیا:

باز گشتم بہ نعت سید قاب

بر گرفتم زروی عذر نقاب ۶۱؎

اس طرح شاعر موصوف نے مثنوی میں قصیدہ کی شان پیدا کردی ہے۔

بعثت و رسالت کے سلسلے میں شاعر نے بتلایا ہے کہ بے خودی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تخت، بے کلامی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تاج، رعب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لشکر اور معراج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مرکب ہے۔

بیخودی تخت و بے کلامی تاج

لشکرش رعب و مرکبش معراج ۶۲؎

رسالت کے سلسلے میں حضرت جبرئیل کی شخصیت اس لئے اہم ہے کہ وہ ذات خداوندی و مرسل الیہ کے مابین فرائض پیغام رسانی انجام دیتی ہے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام اکثر بشکل حضرت دحیہ کلبی ادب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے حاضر خدمت ہوتے تھے۔ ذیل کے ابیات میں مناظر مرقع نگاری لائق تحسین ہیں: پشت احمد چو کشت محرابی ۶۳؎ پیش روی آمدی چو اعرابی ۶۴؎ جبرئیل از پئی دعا کردن راست انگشت و خم سر و گردن ۶۵؎ کہ نمودی چو شرقی از عربی رای او را روی دحیۃ الکلبی

واضح ہو کہ حضرت دحیہ الکلبی بہت توانا حسن و جمال کے مالک تھے۔ ’’ومن احسن من اللہ صبعۃ‘‘ کے نگارخانہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و جمال کی آرائش کی گئی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ ﷺ کے ایمان کی دعا مانگتے ہوئے فرمایا تھا۔ ’’اللھم ارزق دحیۃ الکبی الاسلام‘‘ (خدایا! دحیہ الکلبی کو اسلام کی دولت سے نواز دے)۔ شاعر نے بیان کیا ہے کہ اجرام فلکی نے اپنے بیش بہا خزانے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نثار کردیئے۔ اس سلسلے کے صرف تین ابیات منقول ہیں:

زحلش کردہ زیر پای نثار

ہمت و ذہن و حفظ و فکر وقار

دادہ مریخش از برائے خطر

مجد و اقدام و عزم و زور و ظفر

شمس پیشش کشیدہ بہر جمال

رفعت و قدرت و بہاء و جلال ۶۶؎

شاعر نے اپنی مذکورہ بالا مثنوی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے براہ راست عواقب و اثرات یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کا تذکرہ کیا ہے۔ وہ ایک مقام پر کہتا ہے:

جملہ یارانش جاں فدی کردہ

لفظ او روز و شب غدی کردہ

جاہ او ہم رکاب علّیین

دین او ہم عنان یوم الدین ۶۷؎

حکیم موصوف نے غزوۂ احد کا بھی خاکہ کھینچا ہے اورغزوہ مذکورہ کے کئی جزئیات اور جزئی واقعات اس ڈھنگ سے بیان کئے ہیں کہ وہ ایک کامیاب مرقّع نگار اور کامراں منظر نگار نظر آتا ہے۔

مثلہ افگندہ حمزہ در میداں

ہمچو ہفتاد زاں جوانمرداں

خواجہ ابلیس نعرہ زن برکوہ

کانیت فخی بزرگ و کاہ شکوہ

کشتہ شد نقطۂ امید و امل

روی یاراں بہ پشت کشتہ بدل

ہند ہند و نہادہ برسرِ کوہ

کافراں پیش او گروہ گروہ ۶۸؎

سنائی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق پر کلیدی بات صنعت محرف کے فطری اور برجستہ استعمال کے ساتھ اس طرح کہی ہے:-

خلق او خلق را نوید گرست

نو رماہ از فروغ جرم خورست ۶۹؎

حکیم سنائی نے آپ کے اخلاق حسنہ پر مرقومہ نعتیہ مثنوی کا افتتاح شاعرانہ انداز میں اس طرح کیا ہے:

عندلیباں باغ آن خوشخوی

در ترنم تبارک اللہ گوی

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شرع کی تعریف اس انداز سے کی گئی ہے کہ وہ بداعت اسلوب کے ساتھ مراعاۃ النظیر کی صنعت سے مالا مال اور استعارات کے حسن سے مزین ہے۔ نیز فلکی اصطلاحات کسوف و خسوف کا استعمال بھی لطیف ہے۔

ماہ راہش خسوف پنذیرد

شمس سرعش کسوف پندیرد ۷۰؎

اسی نعت میں ایک دوسرے مقام پر شرع کی تعریف، فقہی اصطلاح قیاس و استحسان کا سہارا لیتے ہوئے اس طرح کی گئی:

شرع او در بصیرت و احساں

بر تراست از قیاس و استحساں ۷۱؎


"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بڑا وصف یہ تھا کہ اپنے اوصاف حسنہ اور خصائل حمیدہ سے دوسروں کو متاثر کرتے تھے، بوڑھوں کو جوانوں کا سوز و ساز اور مٹّی کو پانی کی سی آب و تاب عطا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بے نظیر لیاقت سے کل روئے زمین کو مسجد بنادیا۔

شیخ را سوز و ساز دادہ چو شباب

خاک را آبرو دادہ چو آب

از ہمہ بندہ بود از سرجد

ہمہ عالم زپای او مسجد ۷۲؎

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جان کی زکوٰۃ اونٹوں کی شکل میں ادا کی گئی۔ بارگاہ ایزدی سے عبداللہ بن عبدالمطلب کی قربانی کی جگہ اونٹ کی قربانی قبول ہوئی۔

از پی جان آں سر سادات

اشتر بار کش بدادہ زکات ۷۳؎

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کی برتری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدر و منزلت کے تفوق کے سلسلے میں حتمی بات کہتے ہوئے شاعر کہتا ہے:

در رہ مصطفی ژندی نیست

برتر از قدر او بلندی نیست ۷۴؎

حکیم سنائی نے جملہ انبیائے عظام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج کے عنوان سے جو نعتیہ کاوش سپرد قلم کی ہے، اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تفوق کو واقعہ معراج سے ثابت کیا گیا ہے اور یہ دکھلایا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مقام سے بھی آگے گئے۔ جہاں حدث کی گنجائش نہیں ہے اور جہاں صرف قدم کا گزر ہے۔ جبرئیل علیہ السلام نے منتہائے حدث پر پہنچ کر عرض کیا تھا:

پیش ازیں مر مرا مجال نماند

حدیثاں را زبان قال نماند ۷۵؎

اسی نعت میں ایک دوسرے مقام پر جبرئیل علیہ اسلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح ہمکلام ہوئے:

زاں مقامیکہ من بماندم بس

نرسد ہیچ و ہم خاطر کس ۷۶؎

اس طرح حکیم سنائی نے باوجود یہ کہ ان کے سامنے ایرانی ادبیات میں نعتوں کے نمونے نہتھے، پختہ، کامیاب شاندار اورجاندار نعتیں لکھی ہیں۔ وہ بایں معنیٰ فارسی زبان کے پہلے نعت گو شاعر ہیں کہ انہوں نے نعت میں تنوّع اور بوقلمونی کی اور نعت پر مختلف عنوانات کے تحت اشعار کہے۔ ان کی نعتیہ کاوشوں میں پیغمبر اسلام کی حیات طیبہ سے متعلق اتنے عناصر ہیں کہ اگر ان کو منظم طور پر یکجا کرلیا جائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس سوانح حیات کا ایک خاکہ مرتب ہوجائے گا۔ اس کی نعتوں میں جذبات کی صداقت، عقیدہ کی پختگی اور خلوص کی حکمرانی ہے اس کی اکثر نعتوں کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جذبات و عقیدہ کا ایک دریا ہے، جو ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ وہ پہلا شاعر ہے، جس نے نعت پر باقاعدہ طبع آزمائی کرکے، اسے ایک صنف سخن بنانے کی کوشش کی، اس نے نعت میں سب سے پہلے معراج نامے اور میلاد نامے داخل کئے۔ نعت کے باب میں وہ اس لئے بھی سدا یاد رکھاجائے گا۔ کیونکہ اس نے سب سے پہلے مدیح خیرالمرسلین کے لئے لفظ ’’نعت‘‘ استعمال کیا ہے۔ اس کے بعد مدح رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اس لفظ کی اتنی ترویج ہوئی کہ فارسی اور اردو ادب میں نعت کے اصطلاحی معنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلقات و منسلکات کا تعارف نیز ان کی تعریف و توصیف قرار پائے۔ سنائی نے سب سے پہلے شعر کے جامے میں کہا تھا:

در سخن جز نام او گفتن خطا باشد خطا

در ہنر جز نعت او گفتن ستم باشد، ستم


"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

حواشی:-

۱؎ شاہنامہ فردوسی جلد اول : فردوسی، صفحہ-4، مطبوعہ نامی پریس منشی نول کشور، لکھنؤ۔ ۲؎ کلیات سنائی: حکیم سنائی، ص-56، مطبع برجیس بمبئی شوال المکرم 1328ھ۔ ۳؎ کلیات سنائی، ص-24۔ ۴؎ کلیات سنائی، ص-24 ۵؎ کلیات سنائی، ص-24۔ ۶؎ کلیات سنائی، ص-10۔ ۷؎ کلیات سنائی، ص-23۔ (نوٹ : اس قصیدہ میں نعت و منقبت کا اِدُغام ہے۔) ۸؎ کلیات سنائی، ص-58۔ ۹؎ کلیات سنائی، ص-55۔ ۱۰؎ کلیات سنائی، ص-86۔ ۱۱؎ کلیات سنائی، ص-86۔ ۱۲؎ کلیات سنائی، ص-82۔ ۱۳؎ کلیات سنائی، ص-82۔ ۱۴؎ کلیات سنائی، ص-7۔ ۱۵؎ کلیات سنائی، ص-7۔ ۱۶؎ کلیات سنائی، ص-10و 11۔ ۱۷؎ کلیات سنائی، ص-11۔ ۱۸؎ کلیات سنائی، ص:23۔ ۱۹؎ کلیات سنائی، ص:58۔ ۲۰؎ کلیات سنائی، ص:59۔ ۲۱؎ کلیات سنائی، ص:56۔ ۲۲؎ کلیات سنائی، ص:56۔ ۲۳؎ کلیات سنائی۔ ص:183۔ ۲۴؎ کلیات سنائی۔ ص:184۔ ۲۵؎ سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلاً من المسجد الحرام الی المسجد الاقصیٰ الذی بارکنا حولہ۔ ۲۶؎ حدیث نبوی : انہ قال فی روایۃ اسریٰ بی الی السماء ترینی ربی حتی کان بینی و بینہ کتاب قوسین اور ادنیٰ۔ جلالین شریفین، ص:437، حاشیہ نمبر-16۔ ۲۷؎ لقد رای من آیت ربہ الکبریٰ، قال فما خطبکم۔ سورہ النجم-21، ع-2/4۔ ۲۸؎ فکان قاب قوسین او ادنیٰ فاوحیٰ الی عبدہ ما اوحیٰ۔ قال فما خطبکم۔ سورہ النجم۔ 21، ع-2/4 ۲۹؎ ماذاغ البصر و ما طغیٰ۔ قال فما خطبکم سورہ النجم۔ 21، ع-2/4۔ ۳۰؎ رحمۃ للعالمین جلد۔ دوم، ص:117 ۳۱؎ حدیقہ سنائی۔ ص:186۔ ۳۲؎ حدیقہ سنائی۔ ص:189۔ ۳۳؎ حدیقہ سنائی۔ ص:185۔ ۳۴؎ حدیقہ سنائی۔ ص:186۔ ۳۵؎ حدیقہ سنائی۔ ص:187 ۳۶؎ حدیقہ سنائی۔ ص:187۔ ۳۷؎ حدیقہ سنائی۔ ص:190۔ ۳۸؎ حدیقہ سنائی۔ ص:194۔ ۳۹؎ حدیقہ سنائی۔ ص:194۔ ۴۰؎ حدیقہ سنائی۔ ص:194۔ ۴۱؎ حدیقہ سنائی۔ ص:195۔ ۴۲؎ حدیقہ سنائی۔ ص:196۔ ۴۳؎ حدیقہ سنائی۔ ص:196۔ ۴۴؎ حدیقہ سنائی۔ ص:197۔ (قرآنی آیت انک لعلی خلق عظیم کی طرف تلمیح ہے۔) ۴۵؎ حدیقہ سنائی۔ ص:198۔ ۴۶؎ حدیقہ سنائی۔ ص:196۔ ۴۷؎ حدیقہ سنائی۔ ص:199۔ ۴۹؎حدیقہ سنائی۔ ص:203۔ اللہ پاک نے فرمایا ہے ’’وما رمیت اذ رمیت و لکن اللہ رمی و ما ینطق عن الہویٰ ان ھو الا وحی یوحیٰ۔‘‘ قال فی خطبکم سورہ نجم۔ ۵۰ ترجمہ : میری امت کی مثال ابرباراں کے مانند ہے۔ ابر دیکھ کر یہ بات نہیں جانی جاتی کہ ابر باراں کا ابتدائی حصہ بہتر ہے یا اس کا اختتامی حصہ۔ ۵۱؎ حدیقہ سنائی۔ ص:206۔ ۵۲؎ حدیقہ سنائی۔ ص:207۔ ۵۳؎ حدیقہ سنائی۔ ص:208۔ ۵۴؎ حدیقہ سنائی۔ ص:208۔ ۵۵؎ حدیقہ سنائی۔ ص:209۔ ۵۶؎ حدیقہ سنائی۔ ص:210۔ ۵۷؎ حدیقہ سنائی۔ ص223۔ ۵۸؎ حدیقہ سنائی۔ ص:221۔ ۵۹؎ حدیقہ سنائی۔ ص:220۔ ۶۰؎ حدیقہ سنائی۔ ص:221۔ ۶۱؎ حدیقہ سنائی۔ ص229۔ ۶۲؎حدیقہ سنائی۔ ص:231 ۶۳؎ سنائی عہد تک فارسی کے حروف تہجی میں گاف نہ تھا، اس لئے گشت، کشت لکھا ہوا ہے۔ ۶۴؎ حدیقہ سنائی۔ ص232 ۶۵؎ حدیقہ سنائی۔ص229۔ ۶۶؎ حدیقہ سنائی۔ ص234 ۶۷؎ حدیقہ سنائی۔ ص235 ۶۸؎ حدیقہ سنائی۔ ص 233 ۶۹ حدیقہ سنائی۔ ص236 ۷۰؎ حدیقہ سنائی۔ 236


نئے صفحات
گذشتہ ماہ زیادہ پڑھے جانے والے موضوعات