عہد نبوی کی نعتیہ شاعری

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


کتاب: عہد نبوی کی نعتیہ شاعری - پی ایچ ڈی کا مقالہ

مقالہ نگار: شاہ محمد تبریزی

تجزیہ نگار : غلام محی الدین

بشکریہ : روزنامہ جدت <ref> https://www.dailyjiddat.com/column/2018/06/75391 </ref>

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

ڈاکٹر شاہ محمد تبریزی پہلے شخص ہیں، جنہوں نے ’’عہدِ نبویؐ‘‘ کی نعتیہ شاعری‘‘ پر، ایک ہزار صفحات پر مشتمل ضخیم تحقیقی مقالہ لکھ کر، جامعہ کراچی کے، کلّیہ معارفِ اسلامیہ سے، ڈاکٹر آف فلاسفی (Ph.D) کی ڈگری (سَند) حاصل کی ہے۔ اس موضوع پر، ڈاکٹریٹ کی سطح پر لکھا جانے والا یہ پہلا مقالہ ہے۔

انہیں اس مقالے کے لیے مواد کی تلاش اور کتب کی فراہمی کے لیے سخت جدوجہد اور شدید محنت کرنا پڑی اور بائیس سال کا طویل عرصہ اس کارہائے گراں میں صرف ہوا۔ وہ کہتے ہیں کہ نعتیہ و حمدیہ موضوع پر مضامین لکھتے لکھتے ذہن میں یہ بات سمائی کہ اس موضوع پر پی ایچ ۔ڈی کرنا چاہیے۔ مواد تو اچھا خاصا جمع کر ہی لیا تھا، لہٰذا ذہن بنایا، لَو لگائی اور ’’عہدِ نبویؐ کی نعتیہ شاعری‘‘ کو موضوع بنا کر، کلیہ معارفِ اسلامیہ، جامعہ کراچی میں داخلہ لے لیا۔

انہوں نے تحقیق سے قبل اور دوران تحقیق کراچی کے تقریباً تمام بڑے کتب خانے اور اشاعتی ادارے کھنگالے۔ جہاں سے جو بھی کتاب یا مواد انہیں ملا، وہ لے لیا انہوں نے ایک ایک ہزار روپے کی ایک ایک کتاب خریدی ہے اور بیرون ملک سے بھی کتب منگوائیں، جن میں بیروت (لبنان)، قاہرہ (مصر)، دمشق (شام)، جدہ (سعودی عرب) اور ترکی اور لندن(برطانیہ) شامل ہیں۔ اس سلسلے میں جن شخصیات نے مواد کی فراہمی میں مدد فراہم کی۔ ان میں مدیرِ نعت رنگ، معروف نعت گو و ثناء خواں، سید صبیح الدین صبیح رحمانی اور جناب رشید وارثی (مرحوم) شامل ہیں۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی اور اسٹیٹ بینک، کراچی کے کتب خانوں سے بھی خوب استفادہ کیا اور اس کام کے لیے 1986ء میں لاہور بھی گئے۔ اس کے علاوہ ادارہ تحقیقات امام احمد رضا انٹرنیشنل، کراچی کا کتب خانہ اور صدر نشین ادارہ، علامہ سید وجاہت رسول قادری اور جنرل سیکریٹری پروفیسر ڈاکٹر مجید اللہ قادری کا بھی انہیں بھرپور تعاون حاصل رہا۔

’’عہدِ نبویؐ کی نعتیہ شاعری‘‘ کا یہ علمی و تحقیقی جائزہ، سات ابواب پر مشتمل ہے۔ اس میں ڈیڑھ سو سے زائد صحابہ کرامؓ و صحابیاتؓ کا نعتیہ کلام یکجا کیا گیا ہے۔


باب اول: پانچ فصول پر مشتمل ہے۔اس میں شاعری کے حوالے سے اسلام کا نقطۂ نظر، قرآن و احادیث نبویؐ کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے، جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ شاعری، قرآن کی نظر میں معیوب نہیں اور یہ کہ ،کون سی شاعری معتوب ہے اور قرآن کس شاعری کی مذمت کرتا ہے۔ ان آیات کریمہ کی تائید میں احادیث نبویہؐ پیش کی گئی ہیں۔


قرآن کریم، عہدِ نبویؐ کا اولین نقش نعت ہے، جس میں نعت کے اصول و ضوابط اور طریقۂ کار کی نشان دہی کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ نعت کہنے کے لیے بنیاد (Base) کیا ہونی چاہیے اور زبان و اسلوب کیسا اختیار کرنا چاہیے۔


علمائے علم و فن کہتے ہیں کہ عربی ادب کی ابتدا بھی دنیا کی دیگر بڑی زبانوں کے ادب کی طرح شاعری ہی سے شروع ہوئی۔ یونانی تہذیب ہو یا مصری حیات۔ ان کی زندگیوں کا بڑا انقلابی حصہ شاعری ہی کی مرہون منت ہے۔ قدیم تواریخ میں بابل و نینوا بھی اسی تہذیب کا حصہ رہے ہیں۔ مزامیر دائودؑ آج بھی ان کے مذہب کا حصہ ہے۔ مذہبی شاعری ہر تہذیب کا جزو حیات رہی ہے۔


ماقبل و بعد از اسلام، شاعری ہی اہل عرب کا ذریعۂ اظہار تھی بلکہ ان کی اولین زبان تھی، جس کا انہوں نے بھرپور استعمال کیا۔ قبل از اسلام شاعری ان کی مجبوری تھی، لیکن بعد از اسلام وہ ضرورت میں تبدیل ہوگئی، جیسا کہ پروفیسر نکلسن کہتا ہے:

In those day poetry was no luxury for the cultured few but the sole medium of literary expression.

صحابہ کرامؓ، مُردہ دل اور خشک مزاج ہرگز نہ تھے، بلکہ وہ زندہ رَو تھے اورا پنی مجالس میں اشعار پڑھتے تھے۔ شعر و سخن کی اس محفل کا مقصد، اسلامی ادب کو پروان چڑھانا تھا۔

اس باب میں شعر کی حکمت و عظمت، احادیث نبویہؐ کی روشنی میں، حضورؐ کا ذوق شعری اور آپؐ کی شعر فہمی پر روشنی ڈالی گئی ہے، گو کہ آپؐ شاعر نہ تھے، لیکن اعلیٰ ذوق شعری رکھتے تھے۔ رجزیہ اشعار پڑھنا آپؐ سے ثابت ہے اور اسی سبب آپؐ نے مسجد نبویؐ میں حضرت حسانؓ کے لیے منبر بچھوائے اور نعتیہ اشعار سماعت فرمائے اور انہیں دعائوں سے نوازا۔ آپؐ نے بہ فرمائش صحابہ کرامؓ سے اشعار سماعت فرمائے۔ آپؐ نے فرمایا: شعر میں حکمت اور دانائی بھی ہوتی ہے۔ ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا: ’’کلمۂ حکمت‘‘ تو مومن کی متاع گم شدہ ہے۔

حضورؐ کی تفہیم شعری بھی اعلیٰ ذوق کی مظہر تھی۔ آپؐ نے معروف جاہلی شاعر، امرء القیس کے اشعار کو با اعتبار موضوع نا پسندیدہ قرار دیا، لیکن اس کی شاعرانہ عظمت کو ’’اشعر الشعراء‘‘ کا خطاب دے کر اس کے کمالات شعری کا اعتراف فرمایا۔ اسی طرح جب آپؐ کے سامنے مشہور جاہلی شاعر، عنترہ بن شداد کا شعر پڑھا گیا، تو آپؐ نے اس سے ملنے اور اسے دیکھنے کا اشتیاق ظاہر فرمایا۔

حضورؐ شعر و ادب پر قدغن نہ لگاتے، بلکہ اس کی ترویج کے لیے صحابہ کرامؓ کی حوصلہ افزائی فرماتے، جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے سوال کے جواب میں آپؐ نے فرمایا: مجھے میرے رب نے تعلیم ادب دی ہے اور پھر یہ کہ میں نے قبیلہ بنی اسد میں پرورش پائی ہے۔ ڈاکٹر عبدالحلیم لکھتے ہیں کہ رسول کریمؐ کی زبان اقدس سے نکلا ہوا لفظ ’’ادّبنی‘‘ عربی ادب میں پہلی مرتبہ استعمال ہوا ہے، اس سے پہلے یہ لفظ عرب کی تاریخ شعر و ادب میں کہیں استعمال نہیں ہوا۔(تاریخ ادب عربی) اس باب میں ایک اہم بحث مسجد میں نعتیہ اور جنگی مواقع پر رزمیہ و رزجیہ اشعار کا پڑھنا بھی ہے۔ اس باب کا ایک اور اہم موضوع ’’شعرائے خاندان رسالتؐ کی نعتیہ شاعری‘‘ ہے جس میں مسلم و غیر مسلم دونوں شامل ہیں۔ اس میں خاندان رسالتؐ کے اڑتیس شعراء و شاعرات کا کلام دیا گیا ہے۔ حضورؐ کے ساتویں نمبر کے دادا حضرت کعب (بن لؤیّ) نے آپؐ کی بعثت سے پانچ سو ساٹھ سال قبل، آپؐ کی نعت کہی، گویا نعت کی ابتداء آپؐ کے خاندان سے ہوئی۔ حضرت کعب، آپؐ کے اجداد میں اولین فرد ہیں جنہوں نے اپنی نعت میں، آپؐ کا اسم گرامی ’’محمد‘‘ پہلی مرتبہ استعمال کیا اور آپؐ کی چودھویں نمبر کے دادا، حضرت کنانہ (بن خزیمہ) پہلے شخص ہیں، جنہوں نے اپنی نعت میں سب سے پہلے آپؐ کا اسم گرامی ’’احمد‘‘ استعمال کیا۔ یہ زمانہ ما قبل از اسلام و ولادت و بعثت کا ہے۔ آپؐ کے دادا حضرت عبدالمطلب پہلے شخص ہیں جنہوں نے آپؐ کی ولادت کے بعد سب سے پہلے اپنی نعت میں آپؐ کے اسم گرامی ’’محمد‘‘ کا استعمال کیا۔

عورتوں میں سب سے پہلی نعت آپؐ کی والدہ حضرت آمنہؓ نے اور مردوں میں سب سے پہلی نعت آپؐ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے کہی، علاوہ ازیں آپؐ کے چچا، چچا زاد بھائی، آپؐ کی دادیاں، چچیاں، پھوپھیاں بھی بہترین شاعر و شاعرات تھیں۔ ان کا نعتیہ کلام بھی دیا گیا ہے ،جب کہ آپؐ کی ازواج مطہراتؓ اور آپؐ کی صاحب زادی حضرت فاطمہؓ بھی عمدہ شاعرات تھیں، ان کا بھی نعتیہ کلام شامل مقالہ ہے۔


حضورؐ کے خاندان کے میں، آپؐ کے چچا ابو طالب اور آپؐ کے چچا زاد بھائی، حضرت علیؓ بن ابی طالب، دونوں صاحب دیوان شاعر ہیں جو کہ طبع شدہ ہیں ۔دیوان ابو طالب اور دیوان علیؓ عربوں ہی میں نہیں بلکہ عجم میں بھی معروف ہے اور پاک و ہند میں ان کے تراجم بھی ہوچکے ہیں ۔یہ اعزاز خاندان بنو ہاشم (قبیلہ قریش) کے سوا کسی اور خاندان عرب یا قبیلہ کو حاصل نہیں کہ باپ، بیٹے دونوں صاحب دیوان شاعر ہوئے ہوں۔


آپؐ کا خاندان فن شعر و ادب سے مالا مال تھا۔ عربی زبان و ادب و مراثی و قصائد بالخصوص نعتیہ ادب کی ترویج و اشاعت اور نعت گوئی کی شروعات بعد از ولادت آپؐ کے خاندان سے ہوئی۔


اس باب کا ایک اہم موضوع جہادی اشعار بھی ہیں جس میں ہجویات و رزمیہ اشعار شامل ہیں۔ یہ باب اول آٹھ سو اٹھاسی حوالہ جات پر مشتمل ہے۔


باب دوم: تین فصلوں پر مشتمل ہے۔ اس میں صحف قدیم، توریت و زبور و اناجیل میں مذکور نعوت نبویہؐ شامل ہیںاور کتب سماوی میں نعوت محمدیؐ‘‘ کے عنوان سے انبیائے سابقین کی بشارتیں اور احبار و رہبان و کہّان و کاہنات کی پیش گوئیاں (بشارات) شامل ہیں ،یکجا کی گئی ہیں۔ اس باب کا بڑا حصہ عبرانی زبان پر مشتمل ہے۔ ان نعوت و بشارات عبرانیہ کا عربی، انگریزی اور اردو ترجمہ بھی دیا گیا ہے۔ اس باب میں دو صد انسٹھ حوالہ جات شامل ہیں۔


باب سوم: چھ فصول پر مشتمل ہے۔ اس میں ولادت و بعثت نبویؐ سے قبل کی نعتیہ شاعری کا جائزہ پیش کیا گیا ہے جس میں بالخصوص شاہ یمن تبّع ثانی کی آج سے ڈھائی ہزار سال اور آپؐ کی ولادت سے ایک ہزار سال قبل کہی گئی وہ نعت رسول کریمؐ شامل ہے، جس میں اس نے اپنے اسلام لانے کا تذکرہ کیا ہے۔ یہ نعت شریف جب بدست حضرت ابو ایوب انصاریؓ، آپؐ کی بارگاہ میں پیش کی گئی تو آپؐ نے اسے ’’اخی الصالح‘‘ (نیک بھائی) کا خطاب عطا فرمایا۔ یہ نعت شریف اپنے تمام تر تاریخی شواہد کے ساتھ مقالہ میں شامل ہے۔

اس کے علاوہ اس باب کی ایک فصل جنات کی نعتیہ شاعری پر مشتمل ہے ،جس میں جنّ کی وہ نعت بھی شامل ہے جس کے ذریعے مدینہ میں بعثت نبویؐ کی پہلی خبر پہنچی، اس کے علاوہ جنّات کی بشارات بہ شکل نعت اور قصیدۂ جنّیہ، جو حضرت عمرؓ (جن) کے نام سے معروف ہے، شامل مقالہ ہے۔ علاوہ ازیں ہواتفِ غیبی سے بشارات مصطفیؐ اور بتوں کی نعتیہ شاعری کو بھی اس باب میں شامل کیا گیا ہے، نیز عربی زبان کا پہلا باقاعدہ نعتیہ قصیدہ کس نے اور کب کہا؟ عبدالمطلب، ابو طالب یا ورقہ بن نوفل نے؟ اس پر بھی مدلّل بحث کی گئی ہے۔ عہد نبویؐ میں کہے گئے ان تینوں شخصیات کے قصائد، عربی نعتیہ ادب میں ’’بنائِ قصائد نعت‘‘ کا درجہ رکھتے ہیں۔

اس باب میں’’ قرآن کریم اور نعوت محمدؐی‘‘ بھی ایک اہم عنوان ہے، جس میں قرآن کریم میں بیان کی گئی نعوت محمدؐی کو یکجا کیا گیا ہے۔ اس میں سینتالیس موضوعات پر ایک سو ستّر آیاتِ نعوت درج کی گئی ہیں۔ یہ باب تین سو بیاسی حوالہ جات پر مشتمل ہے۔


باب چہارم: چھ فصلوں پر مشتمل ہے۔ اس میں عہدِ نبویؐ کی نعتیہ شاعری کے عنوان سے بعد از ولادت و بعثت بشاراتِ مصطفیٰؐ کو یکجا کیا گیا ہے، جس میں جنات اور بتوں کی بشارات شامل ہیں۔ ان ہی بشارات کے ذریعے کئی نام ور صحابہ کرامؓ نے اسلام قبول کیا اور انہیںحضورؐ کی بعثت و ولادت کی خبر، اِنہیں اصنام و جنات کے ذریعے ملی تو انہوں نے کفرو شرک کی زنّار سے نجات پائی۔

اس باب کی فصل سوم اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس میں صحابہ کرامؓ اور صحابیاتؓ کی نعوت کو مع تذکرہ یکجا کیا گیا ہے ۔اس باب میں سرزمین حبشہ، مکہ اور مدینہ میں کہی گئی نعتیں شامل ہیں اور اس میں مدینہ میں کہی گئی وہ اولین استقبالی نعت بھی شامل ہے جو تمام نعتوں کا مصرع اول اور مطلع اول ہے ؎ طلع البدر علینا من ثنیات الوداع اس باب میں خلفائے راشدین کی نعتیہ شاعری بھی درج ہے۔ اس باب کا ایک اہم موضوع ’’خواتین کی نعتیہ شاعری‘‘ بھی ہے۔ یہ باب چار سو چھ حوالہ جات پر مشتمل ہے۔


باب پنجم: تین فصلوں پر مشتمل اس باب میں، حضورؐ کے دفاع میں، میدان کارزار میں کہے گئے نعتیہ اشعار یکجا کیے گئے ہیں۔ اس کی فصل اول میں دربار رسالتؐ کے چار شعراء کا مفصل تاریخی نعتیہ جائزہ پیش کیا گیا ہے اور فصل دوم میںجہادی نعتیہ اشعار درج کیے گئے ہیں ،جو دفاع رسولؐ میں کہے گئے۔

نعتیہ شاعری کا ایک پہلو آپؐ کے دفاع میں کہے گئے وہ اشعار نعت بھی ہیں جو آپؐ کی حفاظت و نگرانی و نگہبانی کے لیے کہے گئے ہوں، خواہ وہ جنگ و جدل کے مواقع پر کہے گئے ہوں یا دشمنان اسلام کی ہجو کی رد میں یا آپؐ کے شمائل و فضائل اور خصائل و مفاخر، ان اعداء کے مقابل بیان کرنے کے لیے کہے گئے ہوں یا دشمنوں کے سامنے آپؐ کی شان و عظمت، شرف و عزو قدر، فخر وبڑائی، جاہ و بلندی کو ظاہر کرنے کے لیے، ایسے تمام اشعار کا شمار، نعتیہ اشعار ہی میں کیا جائے گا اور اسے آپؐ کی نعت شریف ہی کہا جائے گا۔ صنف ادب میں اسے کوئی بھی نام دیا جائے اسم با مسمیٰ ’’نعت‘‘ ہی رہے گا۔ اس سلسلے میں پہلا نام اور پہلا کام آپؐ کے چچا حضرت ابو طالب کا ہے۔ زمانۂ ابتدائے اسلام میں روئے زمین پر حضرت ابو طالب ہی کی وہ اولین ہستی و ذات تھی جس کے سائے میں شجر اسلام، سائبان و سایہ دار بنا۔

اس باب کا ایک اہم موضوع ’’عہد نبویؐ کے غیر مسلم نعت گو شعراء و شاعرات‘‘ ہیں جس میں مشرکین مکہ اور مشرکین مدینہ کی نعتیہ شاعری کو شامل کیا گیا ہے۔ یہود و نصاریٰ، کفار و مشرکین نے آپؐ کی بارگاہ میں جو نعتیں رقم کی ہیں ،وہ عربی نعتیہ ادب کا اثاثہ ہیں ،جو زبان و بیان کی پَرکاریوں سے پُر ہیں۔ یہ بات سہ صد پینتیس حوالہ جات پر مشتمل ہے۔


باب ششم: تین فصلوں پر مشتمل ہے۔ اس باب میں عہد نبویؐ میں صحابہ کرامؓ و صحابیاتؓ کی نثری نعوت کے نمونے شامل ہیں۔ دنیائے نعت، بلکہ تاریخ اسلام میں کہے گئے تمام نثری نعتیہ کلام میں، کسی خاتون کا کہا گیا سب سے بہترین و اعلیٰ ترین، اولین و خوب صورت ترین نثری نعت کا طویل ترین، بے مثل و بے نظیر نمونہ، حضرت ام معبد الخزاعیؓ کی نثری نعت بھی شامل ہے۔ آپ تاریخ اسلام کی اولین و آخرین خاتون صحابیہؓ ہیں جنہوں نے حضورؐ کی طویل ترین نثری نعت بیان فرمائی ہے، گو کہ آپ شاعرہ نہیں تھیں لیکن آپ کو سراپائے رسولؐ نے شاعرہ بنا دیا۔ حضوراقدسؐ کا سراپا دیکھ دیکھ کر آپ نعت کہنے پر مجبور ہوگئیں۔ الفاظ بول اٹھے، جملوں میں ترنگ سج گئے۔ سراپائے حسن و جمال و کمالِ رسولؐ نے آپؐ کو نعت کہنے پر ایسا اکسایا کہ عربی ادب میں ’’نعت کا سرتاج‘‘ دے گئیں۔ آپ کی یہ نعت بتیس جزو (نثری جملوں) پر مشتمل ہے۔

اس باب کی فصل دوم بھی اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس میں نعتیہ شاعری میں ’’سوانحی، حیاتی اور تاریخی عناصر کا ارتقاء‘‘ بیان کیا گیا ہے، جو کہ حضور نبی کریمؐ کے عہد میں وقوع پزیر ہوا اور عہد نبویؐ میں ہی اس صنف کو عروج حاصل ہوا۔ عہد نبویؐ کی نعوت میں آپؐ کی مکمل سوانح حیات اور آپؐ کی تاریخ حیات کا مکمل نقشہ موجود ہے جسے آپؐ کے عہد کے شعرائے اسلام نے منظوم و منعوت کیا ہے۔ آپؐ کی والدہ حضرت آمنہؓ آپؐ کے دادا حضرت عبدالمطلب ،آپؐ کے چچا حضرت ابو طالب اور حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب اور آپؐ کے چچا زاد بھائی حضرت علیؓ بن ابی طالب، اس صنف میں خشتِ اول کی حیثیت رکھتے ہیں۔

اس باب کا ایک اہم عنوان ’’عہد نبویؐ میں نعتیہ قصائد کا ارتقاء‘‘ اور ’’عہد نبویؐ میں نعتیہ مراثی کا ارتقاء‘‘ بھی ہے۔ مرثیہ، قصیدہ اور عربی شاعری کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اگر یہ دو چیزیں عربی شاعری سے خارج کردی جائیں تو پیچھے کچھ نہیں بچتا، ادب رہ جائے گا، ادبیت ختم ہوجائے گی۔ عربی شاعری میں زبان و بیان کی چاشنی اسی میں ہے۔ نعتیہ ادب میں یہ اضافہ میراث، مال متروکہ کے طور پر شامل ہوئیں اور نعتیہ ادب کا دامن بھر گئیں۔ نبی کریمؐ کے وصال پر کہے گئے مراثی، اس کی اعلیٰ مثال ہیں۔ حضورؐ کے دادا عبدالمطلب عرب ہی نہیں بلکہ اس دنیا کے اولین فرد تھے جنہوں نے اپنی زندگی ہی میں اپنی چھ بیٹیوں سے اپنا مرثیہ کہلوا کر سنا اور پھر اپنے مرنے کے بعد ان مراثی کو اس طرح پڑھنے کا حکم دیا جس طرز پر انہیں سنایا گیا تھا۔ یہ بھی ایک تاریخی ریکارڈ اور عربی ادب کی حقیقت اور فن شاعری میں سند ہے کہ کسی شخص پر اس کی چھ بیٹیوں، یعنی حضورؐ کی چھ پھوپھیوں نے ،الگ الگ ردائف و قوافی پر مشتمل، اپنے والد یعنی حضورؐ کے دادا پر بیک وقت چھ مرثیے پڑھے۔

مرثیہ عربی ادب کا خاصّہ ہے، بعینہٖ اسی طرح، جیسے رجزیہ اشعار، میدان کارزار (جنگ) کا شعار ہیں اور حدی خوانی ،بدوی زندگی کی علامت ہے ۔صحابہ کرامؓ و صحابیاتؓ نے حضورؐ کے نہایت خوب صورت، زبان و بیان سے پُر نعتیہ مراثی رقم کیے۔ نعتیہ مراثی نعتیہ ادب کا ایک اہم جز ہیں۔

حضرت حسانؓ عہد اسلام، عہد نبویؐ کے سب سے بڑے نعت گو شاعر، نعتیہ ہجو اور نعتیہ مراثی کے بانی شاعر، سب سے بڑے مرثیہ گو اور نعتیہ ادب میں شاہ کار مراثی تخلیق کرنے والے فرد ہیں۔ آپ نے حضورؐ کی وفات پر چار مراثی میں بیاسی اشعار کہے۔ پہلا مرثیہ اڑتالیس اشعار پر مشتمل ہے۔ اس باب میں خواتین کے نعتیہ مراثی بھی شامل ہیں۔ آپؐ کی پھوپھی حضرت صفیہؓ اور آپؐ کی صاحب زادی حضرت فاطمہؓ کے مراثی عربی نعتیہ ادب کا شاہ کار ہیں۔ یہ باب دو صد پینسٹھ حوالہ جات پر مشتمل ہے۔ ساتواں باب: چار فصول پر مشتمل ہے۔ جس میں عہد نبویؐ میں نعتیہ شاعری بحوالہ شمائل رسولؐ، سیرت رسولؐ، حدیث رسولؐ اور بحوالہ عشق رسولؐ شامل ہے۔ اس باب کا ایک اہم موضوع ’’عہد نبویؐ کی نعتیہ شاعری کے ماخذات‘‘ اور نعت صحابہؓ کے مضامین و موضوعات‘‘ ہیں۔ ’’عہد نبویؐ اور عصر حاضر کی نعتیہ شاعری کاعلمی و تقابلی جائزہ‘‘ بھی اس باب کا ایک اہم موضوع ہے۔ اس میں عہد حاضر کے شعراء کی نعتیہ شاعری میں ’’ زبان و بیان کی بے اعتدالیان و بے احتیاطیاں‘‘ بھی بیان کی گئی ہیں۔ یہ باب چھ سو چودہ حوالہ جات پر مشتمل ہے۔


یہ مقالہ سات ابواب کی تیس فصول پر مشتمل ہے۔ اس میں کل تین ہزار ایک سو اننچاس حوالہ جات درج ہیں، جب کہ اس مقالے کی تکمیل کے لیے عربی زبان کی پچانوے ،اردو زبان کی ایک سو ،فارسی زبان کی ایک اور انگریزی زبان کی چار کتب، یعنی کل دو سو کتب سے استفادہ کیا گیا ہے۔

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
اس سال کی کچھ اہم کتابیں

اس سیکشن میں اپنے کتابیں متعارف کروانے کے لیے "نعت کائنات" کو دو کاپیاں بھیجیں

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
نئے صفحات

حواشی و حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]