عربی نعتیہ قصیدہ -علامہ سید آزادؔ بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

شاعر : علامہ سید آزاد بلگرامیؒ

مطبوعہ: دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

نعتیہ قصیدہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱ زاد الالٰہ ُ سنا بقیع الغرقد

حصیاتُہ یلمعن مثلَ الفرقد

۲ و رعی المھینُ بقعہََ رضراضُھا

تحکی جواھر فی نحور الخُرّد

۳ لاغروأ ن أربی العقیق علی الثرَی

فانّ َ الجلامِد و ھو بعض الجلمَد

۴ مائُ العقیق کرامۃ صمد یۃ

ألفَی بہ المرضَی شفاہ الأ کبد

۵ و علی تذکر ِ مائِ ہ و ھوائِہ

ھجمتُ مدامعُ مقلتی و تنھّدَ یی

۶ أشجارُھا قامت علی ساق الھدَ یی

و ظلالُھا مأ الرجالِ السّجّد

۷ أملاک أطباق السماء طیورُھا

و صفیرُ ھا ذکر الالٰہِ السرمَد

۸ جبریل ثَمّ مھلل و مسبّحّ

للہ صوتُ حمامِھاالمتغرّد

۹ قلبی حمامّ بِالمدینۃِ، طائر

لٰکن جسمی موثق فی مِصیَد

۱۰ قالت لطرفائِ الفلاۃِ حمامۃ

لمَ تمرحین و تفخرین؟ فاٗرشد یی

۱۱ قالت لھا:أوَماترَین مکانتیی

قد کان منا منبر لمحمد

۱۲ غوث الورَیٰ، غیث الندی، غرض المنَی

کھف الاٗرامل ، ملجأ المسترفد

۱۳ کحلُ العیونِ غُبار نعلِ المصطفیٰ

و شِراکُھا متمسک المستنجِِد

۱۴ ان الذین عیونھم مجلوّۃ

متمسکون بحبلہ المستحَصِد

۱۵ عطفُ النبیّی علی المفاۃِِ کرامۃ

نجنیی الجنا من غصنِہ المتخَوّد

۱۶ أسنیٰ رسولُ اللہ مرتبۃ َالھُدَ ی

راقتُُ جلالتُہ مقامَ السؤدد

۱۷ شُھبُ السماء بأسرھا مصنوعۃ

من نور ھذ ا لکوکب ِ المتوقّدِ

۱۸ آزادُ یرجو من جنابِک نظرۃ ََ

انجح مرام السائل المترصّد

۱۹ أوصافُک الغراء ھُنّ کواکِبُ

اِحصاوٗھنا أعیَی لسان المُنشِد

۲۰ یا ربّ! ھُد لہ سلاماً ناضراً

مانضّر الاٗمطار نبت الأنجُد


"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

ترجمہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اردو ترجمہ: ڈاکٹر عبد اللہ عباس ندوی

۱- جنّت البقیع کی چمک اور روشنی کو اللہ نے بہت بڑھا دیا ہے ، وہاں کے کنکر ، پتھر ایسے چمکتے ہیں جیسے قطب شمالی کی جانب کا روشن تارہ۔’’ بقیع الغرقد‘‘ مدینہ منورہ کے اس قبر ستان کا نام ہے ، جس میں صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ، اہل بیت، اور ازواج مطہرات ، ہزاروں شہدأ، علمأ، حجاج اور اہل مدینہ دفن ہیں ، اور آج تک وہی قبر ستان عام ہے، اردو میں لوگ اس کو ’’ جنت البقیع‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں ، فرقد ، قطب شمالی کے اس تارے کو کہتے ہیں جس سے لوگ رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔

۲۔ نگہبانی کرنے والا مالک ( اللہ ) اس گوشۂ زمین کی اپنی رحمت کے ساتھ نگرانی فرمائے جس کی کنکریاں ان جواہرات کی مانند ہیں جو کسی خوب رو کے گلے کی زینت ہوں۔

۳۔ اس میں تعجب کی کیا بات ہے کہ عقیق مٹی سے بڑھ گیا ، پتھروں پر فائق ہو گیا اور وہ خود بھی پتھر ہی کا ایک ٹکڑاہے۔ عقیق وادی کو بھی کہتے ہیں اور لعل و جواہر کی قسم کا ایک پتھر بھی عقیق کہلاتا ہے، مدینہ منورہ کی ایک وادی کا نام ’’ العقیق ‘‘ ہے، اس شعر میں ’’وادی العقیق ‘‘ کی رعایت بھی ہے۔

۴۔ وادیٔ عقیق کا چشمہ خدائے بے نیاز کا ایک کرشمہ ہے، مبتلائے الم مریضوں کے لئے شفا ہے۔

۵۔ اس وادی کی ہوا اور پانی کی یاد سے میرے چشم و دل سے آنسوؤں کے سوتے ابل پڑے۔

۶۔ اس وادی کے درخت ہدایت کے تنوں پر کھڑے ہیں اور ان درختوں کے سائے تلے سجدہ ریز بندوں کا ٹھکانہ ہے۔

۷۔ ان درختوں کی شاخوں پر ( چہچہا نے والے ) پرندے طبقاتِ آسمانی کے فرشتے ہیں جن کا نغمہ ہمیشہ رہنے والے خدا کا ذکر ہے۔

نوٹ: ’’ املاک ‘‘ ملائکہ کی طرح ملک ( فرشتہ ) کی جمع ہے ، اس کا مصدر الوکہ ہے، پیغام رسانی کے معنی ہیں، لغت میں دیکھنا ہو تو اس کو لاک کے مادہ میں تلاش کیجیے۔

۸۔ وہیں پر ( یعنی اسی وادی میں ) حضرت جبرئیل بھی اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کرتے اور اس کی تسبیح کرتے ہیں، اور کیا کہنا ہے ان درختوں پر چہچہانے والے بلبلوں کا۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

جس طرح فارسی اور اردو میں ’’ بلبل ‘‘ اور ہندی میں ’’ کوئل ‘‘ ایک علامتی پرندہ ہے ، عربی میں ’’ حمامہ ‘‘ کبوتری ، (جمع حمام ) ہے۔

۹۔ میرا دل مدینہ ( کی فضا ) میں اڑنے والا پرندہ ( کبوتر ) ہے لیکن میرا جسم شکار گاہ میں قید ہے۔

۱۰۔ ایک بلبل نے ایک صحرائی درخت سے پوچھا : تم کس بات پر اکڑتے ہو ، تمہیں کس بات پر غرور ہے ؟

۱۱۔ اس درخت نے جواب دیا۔ تمہیں میری حیثیت نظر نہیں آتی ؟ میرے ہی تنے سے محمد (ﷺ ) کا منبر بنا تھا۔

۱۲۔ (اور کون محمد ﷺ ) وہ جو کائنات کے لیے ایک رحمت ، خشک زمین کے لیے آسمانی بارش ، تمنّاؤں کے کعبہ ٔ مقصود ، بیواؤں کے سرِ پناہ، اور بے سہاروں کے ملجا و ماویٰ ہیں۔

۱۳۔ مصطفی (ﷺ ) کی جوتیوں کی خاک آنکھوں کا سرمہ ہے، اور ان جوتیوں کا تسمہ نجات کے طالبوں کے لیے سہارا لینے کی رسی ہے۔ متمسک اس رسی کو کہتے ہیںجس کو پکڑ کر دریا میں ڈوبتا ہوا آدمی سہارا لیتا اور کنارے آ جاتاہے ، مستنجد کے معنی ہیں ،نجات کا طالب۔

۱۴۔ وہ لوگ جنکی آنکھیں ، اس سرمہ سے روشن ہو چکی ہیں وہ آپ کی نہ ٹوٹنے والی رسی کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں۔

۱۵۔ رسول اللہ ﷺ کا لطف و کرم نوازشوں کا سر چشمہ ہے ، ہم آپ ( ﷺ ) کے میوں سے لدی ہوئی شاخوں سے پھل توڑتے رہتے ہیں۔ متخرد۔ اس شاخ کو کہتے ہیں جو میو ں کے بار سے جھک جاتی ہے، کرامۃ یہاں اردو کی کرامت کے معنوں میں نہیں، بلکہ احسان و انعام کے معنوں میں ہے، مفہوم کا لحاظ کرتے ہوئے ’’ نوازشا ت کا سر چشمہ ‘‘ ترجمہ کر دیا گیا ہے۔

۱۶۔ رسول اللہ ( ﷺ ) نے ہدایت کا رتبہ روشن کر دیا اور آپ ( ﷺ ) کی عظمت نے سیادت کے مقام کو بڑھا دیا۔

۱۷۔ آسمان کے سب تارے اسی روشن ستارہ کے نور سے بنے ہوئے ہیں۔

۱۸۔ آزادؔ آپ کے در ِ دولت پر کھڑا نگاہِ کرم کا منتظر ہے ، اس سائل کے مقاصد کو بر لائے جو آپ ( ﷺ ) کی عنایت کی طرف نظر یں جمائے ہوئے ہے۔

۱۹۔ آپ کی خوبیاں تاروں کی مانند ہیں ، جن کا شمار کرنا مدح خواں کے بس سے باہر ہے۔

۲۰۔ اے اللہ !میرا شاداب سلام ان ( ﷺ ) کی خدمت میں پہنچا دے اور اس وقت تک سلام رسانی کا سلسلہ جاری رہے جب تک بارش ِ نشیبی زمینوں کے پودوں کو تازہ کرتی رہے، (یعنی ہمیشہ ہمیشہ )۔


مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
نئے اضافہ شدہ کلام
نئے صفحات