عبدالمنان طرزی کانعتیہ آہنگ ۔ فراغ رہووی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Naat Kainaat Naat Rang.jpg

مقالہ نگار : فراغ رہووی۔بھارت

برائے : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 26

عبدالمنان طرزی کانعتیہ آہنگ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ABSTRACT:

"TALA'AL BADRO ALAINA" a collection of devotional poetry of Abdul Mannan Tarzi has been reviewed in this article. Poetic narrative of Tarzi has been admired due to impressive creative expression and authenticity of text. It is also admirable that Abdul Mannan Tarzi is a Hafiz-e-Qur'an and has some knowledge of Arabic language which supported his creative text in Naatia Poetry.

سرورِ کائنات‘ فخرِ موجودات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی توصیف میں کائنات کی تمام مخلوقات بشمول چرند و پرند اور شجر وحجر ہمہ دم مصروف رہا کرتی ہیں ۔یہ وہ ذاتِ بابرکات ہے جس کی مدح میں خود خداوند کریم بھی شامل ہے اور اس کی خدائی بھی ۔ یہ ایسی مدح و ستائش ہے جس نے شاعری کی دنیا میں نعت کی صنف کو وجود بخشا ۔ یعنی شاعری کی ایک ایسی صنف جو آں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرت و کردار ، عادت و اطوار اور کمالات کے بیان کے لیے مخصوص ہو ۔

ہر شاعر نعت کہنے کو اپنا فریضہ جانتا ہے ۔ لیکن نعت تومدح و ستائش کے الفاظ کے ڈھیر لگادینے کا نام نہیں بلکہ یہاں جذبے کا تقدس الفاظ کو زندگی اور پاکیزگی عطا کرتا ہے ۔ عقیدت جتنی شدید ہوگی، جذبہ جتنا توانا ہوگا نعت کی اثر آفرینی بھی اسی اعتبار سے زیادہ یا کم ہوگی ۔ عقیدت و محبت فقط الفاظ یا تعریف و توصیف کا نام نہیں‘ بلکہ عقیدت کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ حتی المقدور ممدوح کے رنگ میں خود کو ڈھال لینے کی کوشش کی جائے ۔ آپ کا اسوہ ‘ آپ کی طرزِ زندگی کو انتہائی الفت و محبت کے ساتھ اپنی حیات میں شامل کرنے کی کی تگ ودو ہمہ وقت جاری رہے ۔ اگر ایسا ہوا تو عقیدت و محبت کی سرشاری کی زبان سے جو الفاظ نکلیں گے وہ ایک خاص جذبے کے ترجمان ہوں گے اور ایسے میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی شاعر بے خودی میں پکار اٹھے طلع البدر علینا!

عبد المنان طرزی ایک پروفیسر ہیں‘ شاعر ہیں لیکن وہ حافظِ قرآن بھی ہیں اور عاملِ سنن بھی ۔ ایسے میں ان کی زبان سے بے ساختہ اگرطلع البدر علینا کے الفاظ نکلتے ہیں تو انھیں اس کا حق پہنچتا ہے ۔ اسی استحقاق نے ان کی نعتوں کے مجموعہ ’’طلع البدر علینا‘‘کو شعری افق پر دیکھنے دکھانے کی کامیاب کوششش کی ہے۔ اس نعتیہ مجموعے میں چاند کی ٹھنڈی روشنی کا عکس ہی نہیں بلکہ جذبے کی صداقت کی منہ بولتی تصویر بھی ہے۔ اس کا ایک ایک لفظ عقیدت و محبت میں ڈوباہوا ہے ۔ آغاز حمد سے ہوا ہے۔ یکے بعد دیگرے تین حمد غما زہیں کہ شاعر کو خالق و مخلوق اور معبود اور عبد کے رشتے کا بھی شعورہے۔ بات رسمی اور روایت کی پیروی کی ہوتی تو ایک حمد کہہ لی جاتی ۔ لیکن یہاں ایک نہیں تین تین حمد اور پھر اس کے بعد نعتوں کا سلسلہ۔ پہلے خالق کی بڑائی بار بار اور اسی اعتبار سے محبوب کی مدح سرائی سلسلہ در سلسلہ۔ حمدمیں شاعر نے محبوبِ حقیقی کی ثنا خوانی کا شرف حاصل کرتے ہوئے اس کی قدرت اور بزرگی کا یوں اعتراف کیا ہے :

میں بندہ ترا تو میرا خدا ، سبحان اللہ سبحان اللہ

بندے سے خدا کا یہ رشتہ ، سبحان اللہ سبحان اللہ

میں حرفِ دعا ، تودستِ عطا ، سبحان اللہ سبحان اللہ

محتاج ترے ہیں شاہ و گدا ، سبحان اللہ سبحان اللہ

حمد تیری ہی خدایا دولتِ نادار ہے

جس نے یہ اعزاز پایا اس کو کیا درکار ہے

حکم کے پابند تیرے ہیں نظامِ دوجہاں

تیری قدرت ہے مسلّم اور تو مختار ہے

عبد اور معبود کے رشتے کے قبول کرنے میں جذب وکیف کی یہ مستی کہ نظام دوجہاں کے مختار کی حمد کو اپنے لئے اعز از تصورکرے اور دستِ عطا کے سامنے شاہ و گدا ہر ایک کو حرفِ دعا قرار دینا شاعر کے جذبے کی سرشاری کی بین دلیل ہے۔یہی سرشاری خلاقِ کائنات کے ممدوح کی طرف رخ کرتی ہے تو دیکھئے کہ اظہار کی کیفیت کس طرح بدلتی ہے۔ شاعر محبوبِ خدا اور خود اپنے محبوب کو کس طرح خراج پیش کرتا ہے۔ شاعر اپنے محبوب کو کبھی جمالِ بز مِ عرفاں اور ضیائے شمع ایماں قرار دیتاہے‘ کبھی ماہِ اسریٰ اور شکوہِ سرِ ا دنیٰ کہتا ہے ۔ لیکن غور کیجئے کہ ہر صورتِ حال میں شاعرانہ غلو کے با وجود حقیقیت یا حق کی شناخت پر حرف نہیں آتا بلکہ ساری کاوشیں حقیقتِ عظمیٰ کی شناخت کا پہلو بن جاتی ہیں ۔ فقط چند اشعار نمونتاً ملاحظہ کرتے چلیں:

بلا شبہ تو بشر ہے ، تو کبھی خدا نہیں ہے

کوئی کیا بتائے لیکن تو کیا ہے کیا نہیں ہے

تو ضیائے شمعِ ایماں،تو جمالِ بزمِ عرفاں

ترے حسن کا تبسم کہیں نارسا نہیں ہے

یہ عروجِ ماہِ اسریٰ ، یہ شکوہِ سرِّ ادنیٰ

تری طرحِ لامکاں تک تو کوئی گیا نہیں ہے

وہی زندگی سنوارے ، وہی عاقبت بنالے

ترے راستے سے ہٹ کر کوئی راستہ نہیں ہے

زخموں کا مداوا مرے کچھ اور نہیں ہے

یا گنبدِ خضریٰ ہے ‘ یا پھر ا س کا مکیں ہے

روشن ترے کردار کی قندیل ہے ایسی

دشمن نے بھی مانا ہے تو صادق ہے امیں ہے

اگر مہر و مہ و انجم میں نورِ مصطفائی ہے

تو نورِ مصطفی عکسِ جمالِ کبریائی ہے

رہا دل اسیر جس کا وہ فریبِ شوق ٹھہرا

تجھے آرزو بناتے تو کچھ اور بات ہوتی

یہ ہوا کے سرد جھونکے جو شمیمِ زلفِ آقاؐ

مرے واسطے بھی لاتے تو کچھ اور بات ہوتی

کہاں تک ناتواں دل، ہجر کا بارِ گراں اٹھائے

توجہ آپ کی اب ہے ضروری یا رسولؐ اللہ

گھٹا جاتا ہے دم، ہر ریشۂ دل ٹوٹا جاتا ہے

بڑھی جاتی ہے حد سے ناصبوری یا رسولؐ اللہ

جس رات کا سرمایہ نہ ہو تیرا تصور

اس شب کو شبِ قدر کی عظمت نہ ملے گی

وہ دل جو تری یاد سے ناآشنا ٹھہرے

اس دل کو کبھی حق کی ہدایت نہ ملے گی

نعت کی صنف کو بہت آسان تصور کیا جاتا ہے۔ تعریف و توصیف کے دریا بہانے کو عام طور پر اچھی نعت تصور کیا جاتا ہے لیکن اصل میں نعت کا فن پلِ صراط سے کامیابی کے ساتھ گزرنے کے عمل کے مصداق ہے۔ بلاشبہ تمام تعریفیں اس خالقِ کائنات کے لیے ہیں جو وحدہٗ لاشریک ہے اور اس کے بعد توصیف کے کلمات کسی پر ختم کیے جاسکتے ہیں تو وہ بھی اسی وحدہٗ لاشریک کے محبوب یعنی شہِ کونین کی ذاتِ گرامی ہے ۔ اور مادح اور ممدوح کے درمیان جوکچھ بھی ہے اس پر سلامتی سے گزرنے کا فن نعت گوئی کا فن ہے ۔ یعنی حضور کے اوصاف تو بیان ہوں لیکن اس طرح کہ لاشریک کے تصور کوکہیں سے ذرہ برابر بھی ٹھیس نہ پہنچے ۔ اور یہی وہ فن ہے یا نکتہ رسی یا پل صراط ہے جہاں اکثر شاعر ناکام رہ جاتا ہے ۔ عقیدت کے جذبات اسے غلو پر آمادہ کر دیتے ہیں اور غلو میں لاشریک کا شریک بنا ڈالتے ہیں اور یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ حضورؐ کی توصیف کرتے ہوئے ان کی ذات کو ختم کر ڈالا اور اسے خدا کی ذات میں شامل کر دیا۔ دراصل شناخت اصل وہ ہوا کرتی ہے جو اپنی بنیاد پر کھڑی ہو نہ کہ یہ دوسری ذات کا سہارا پائے ۔یہی وہ مقام ہے جہاں غلو کی حدیں بھی مقرر کردینی پڑتی ہیں ۔ بلاشبہ بات یا نکات کی ترسیل کے لیے غلو ایک لازمی عنصر ہے اس کے بغیر صحیح طریقے سے بات کی ترسیل ممکن نہیں ہوپاتی لیکن نعت کہتے ہوئے غلو میں بھی اس بات کا انتہائی خیال رکھنا لازمی ہے کہ لاشریک کی صفات کا کوئی شریک نہ ٹھہرے اور فخرِ موجودات کی صفات کے ساتھ کائنات کی اور خالقِ کائنات اور خالقِ کائنات کے رشتے کا اظہار نامہ بن جائے ۔ اس لیے نعت میں سب سے اہم حصہ اُسوے کے بیان کاہوا کرتا ہے۔ یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ نعت گو جذبی اور عملی طور پر اُسوے کا اسیر اور پابند نہ ہوجائے۔ دیکھئے کہ طرزی کس طرح اس منز ل سے بھی کامیاب گز رتے ہیں۔ فقط چند اشعار اور قارئین کے حسن نظر کے سامنے آجائیں تو عشق و عرفان کی منزل کی شناخت اور شاعر کے شعور اورسلیقۂ اظہار کی شناخت بھی ہوجائے ۔ملاحظہ ہوں چند اشعار:

کہیں وہ یٰسین اور طٰہٰ ہیں والشمس و ضحاھا

یہ سب کی سب ہیں انھیں کی نعتیں ہمارے حسنِ بیاں سے پہلے

وہ منزل قرب کی جس کی سند قُوسینِ او اَدْنٰی

علو کا پوچھنا کیا تاحدِ عرشِ بریں تم ہو

سماعت کیا ‘ بصارت کیا ‘ یہ مااوحیٰ وہ اِذ یغشیٰ

حرارت قلب کی تیرے حریمِ کن فکاں تک ہے

نظر کی حد ہے مازاغ البصرکی معنویت میں

تری رفتار کی گرمی صراطِ کہکشاں تک ہے

ہے لبِ جبریلؑ پہ الا قلیلا کی سند

صاحبِ لولاک کی شانِ عبادت دیکھ کر

سرِمحشر صدا ہر سمت ہوگی نفسی نفسی کی

لبِ آقاؐ پہ لیکن ربِّ ہب لی امتی ہوگا

مجھ کو نہیں معلوم کہ طرز ی عربی زبان سے کتنا واقف ہیں ۔ لیکن وہ حافظِ قرآن بھی ہیں۔ اس لئے یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ وہ مقامِ محمود سے اچھی طرح واقف ہیں۔ انھوں نے اکثر اسوے کے بیان میں قر�آن سے استفادہ کیا ہے ۔ کہیں کہیں مقطعات بھی پرکاری سے اپنے اشعار میں صرف کرلئے ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ شاعرکو اردو ز بان پر ہی قدرت نہیں بلکہ اردو میں عربی فارسی کی روایت سے اچھی طرح واقف ہے۔ ۔کبھی کبھی سہلِ ممتنع میں بھی وہ اپنے جذبۂ دل کو اس طرح پیش کرجاتے ہیں کہ مدح کا حق ادا ہوجاتا ہے۔ سہل ممتنع کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں :

جسے عشقِ محبوب داور رہے گا

وہ ہمراہِ سلمانؓ و بوذرؓ رہے گا

رسالت کی دے گی کھلے منہ گواہی

اگر بند مٹھی میں کنکر رہے گا

دل کو ہر دم ہے انتظار اپنے

اب تو ذی الحج کے ہی مہینے کا

سارے دیوانے ایک جیسے ہیں

اک جنوں ہے مگر قرینے کا

’’ طلع البدر علینا ‘ ‘تو نعتوں کا مجموعہ ہے لیکن طرزی صاحب کی فکری جولان گاہ نے دیگر اصنافِ سخن پر بھی اپنی کمندیں ڈالی ہیں اور ’’رفتگاں و قائماں‘‘ تو ایک ایسا ستارۂ تقدیر بن کر ان کی شاعری کے افق پر چمکا ہے جس نے دنیائے ادب میں شاعرانہ تنقید کی ایک نئی طرح ڈال دی ہے ۔ چنانچہ ’’سیرت الرسول ، دستار طرح دار ، نارنگ زار ، مناظر نامہ ، منظور جائزے ‘‘ کے علاوہ ’’ تعارف ‘ تبصرہ اور منظور تاریخ ‘‘ کا ایک نیا باب ادب کی دنیامیں کھل گیاہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ دربھنگے جیسے کو ردہ شہر سے اتنے سارے ادبی ستارے اچانک کس طرح جگمگا اٹھے ! کیا واقعی دربھنگے کا ادبی افق اتنا وسیع و عریض ہے کہ وہاں کا ہر شاعر ایک ستارہ نہیں بلکہ اپنی جھولی میں کہکشاں سجائے رکھتا ہے۔ کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ دربھنگہ یا متھلا کی سرزمین علمی ‘ادبی اورتہذیبی اعتبارسے اتنی زرخیز رہی ہے کہ ودّیا پتی اپنی سرزمین متھلا سے اٹھ کر بنگال کی سرزمین کے لیے ایک مثال بن گیا ۔ مصوری کی دنیا میں تو متھلا اسکول نمایاں ہے ہی لیکن اردو شعر و ادب کی دنیا میں بھی متھلا یا دربھنگے کی سرزمین کو ایک خاص اہمیت حاصل رہی ہے ۔ داغ دہلوی کے وابستگان کی شکل میں ہو یا امیر مینائی کے تلامذوں کی صورت میں‘ اردو زبان و ادب کے معیار اور اپنے مخصوص اسلوب کی بنا پر اپنی ایک شناخت رکھتی ہے ۔مولانا خیر رحمانی ،سعادت پیغمبرپوری، محسن دربھنگوی، عبدالعلیم آسی وغیرہ کے نام تواہم ہیں ہی۔ لیکن اس سرز میں کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ بہار کے تین علامہ میں ایک علامہ اجتبیٰ حسین رضوی بھی اس سرزمین سے وابستہ رہے۔ آج کی دنیا تو مظہر امام کے نام سے اچھی طرح واقف ہے لیکن کم لوگ اس سے واقف ہیں کہ مظہر امام کے ماموں کا جلیل جالوی کا تعلق بھی داغؔ سے رہا۔ لیکن ایک خاص نکتہ یہ بھی ہے کہ ز بان کے معیار کے اعتبار سے تو یہاں کے شعرا داغؔ اور کچھ امیرؔ سے بھی منسلک رہے لیکن فکر ی اعتبار سے یہاں کے اکثر شعرا داغ کی پیروی کی بجائے علامہ شوق نیموی کے ز یرِ اثر فکری معیار کو کبھی آلودہ ہونے نہیں دیا۔ طرز ی نے بھی اس معیار کو خوب خوب نبھایا ہے۔ اس مجموعے میں کچھ قطعات بھی شامل ہیں ۔ ایک قطعہ ملاحظہ ہو :

وہ لمحہ بڑا کیف پرور رہے گا

حیاتِ آفریں خوب منظر رہے گا

میں باچشمِ نم چوم ہی لوں گاروضہ

سلام علیکَ زباں پر رہے گا

یقیناًعشقِ محمد کے طفیل طرزی صاحب کی دعا بارگاہِ رب میں مقبول ہوئی اورانھیں حج بیت اللہ کی سعادت بھی حاصل ہوئی ہے ۔ اس پاک سرزمین پر قدم رکھنے کے بعد ان کے قلب پر جو تاثرات نقش ہوئے ہیں ان کو بھی اشعار کا پیراہن عطا کر دیا ہے۔ جو نظم کی صورت میں بعنوانات یوں ہمارے سامنے آئے ہیں ‘ مثلاً طوافِ کعبہ ‘ سعیِ صفا و مروہ ‘ زم زم اگر پی لیجیے ‘ عرفات کا وقوف ‘مزدلفہ شب گزاری ‘وہ منیٰ کے چار دن ‘ آؤ رمی کرلیں ‘ ترے روضے کی جالی ہے ‘ مسجدِ نبوی ‘ حرم سے حرم تک وغیرہ ۔ ان میں آخر الذکر نظم طویل نظم ہے اور خوبصورت نظم قرار دی جاسکتی ہے ۔ ان نعتیہ شاعری کے مطالعے کے بعد بس ایک دعا دل سے نکلتی ہے کہ اللہ کرے زورِ قلم اور ز یادہ !