ظہور الحسن درس

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


مولانا ظہور الحسن کا تخلص "ظہور" ہے ۔ والد گرامی کا نام شیخ الحدیث علامہ عبدالکریم درس ہے ۔ 9 فروری 1905 کو ظہور الحسن درس کی ولادتمیں ہوئی ۔ پیر سید ظہور الحسن بٹالوی نے آپ کے کان میں اذان کہی اور اپنا نام ظہور الحسن عطا کیا ۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے جد اعلی کے قائم کیے ہوءے مدرسے " مدرسہ درسیہ " صدر کراچی سے حاصل کی بعد ازاں والد گرامی اور شیخ الحدیث علامہ عبدالکریم درس اور مولانا صوفی عبد اللہ درس سے درسی نصاب کی تکمیل کرکے فارغ التحصیل ہوئے اور حضرت سید عبدالسلام الگیلانی القادری سے سلسلہ قادریہ میں بیعت ہوئے اور خلافت و اجازت حاصل کی

تصانیف[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

  • تحقیق الفق امافی کلمتہ الحق 1937
  • خون کے آنسو 1940
  • چشم تلطف پنجتن 1946

نمونہ ءِ کلام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

گذرے جو صبا تو کبھی طبیہ کی گلی سے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

گذرے جو صبا تو، کبھی طیبہ کی گلی سے

اک عرض ہے کر دینا رسول عربی سے


کہتا تھا سلام آپ کا اک عاشق ِ تفتہ

بےچین تھا ، مجبور تھا ، درد ِ جگری سے


فرقت میں تڑپتا تھا وہ دلدادہ ء الفت

بلوا لو مدینے میں کہ مضطر ہے ، کبھی ہے


اللہ کے محبوب ہو اے فخر ِ دو عالم

رتبہ ہے سوا آپ کا ہر ایک نبی سے


کس طرح بھلائے کوئِ دل سے تجھے آقا

دل سب کا منور ہے تری جلوہ گری سے


جنت میں چلا جائے طفیل ِ شہ ِ والا

فرمان ِ خدا حشر میں یہ ہوگا سبھی سے


ناکام رہوں کیسے کراچی میں ظہور ، اب

امید قوی مجھ کو ہے مکی مدنی سے

حبدا ۔ صلی علی صدر العلی یہ ہی تو ہیں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حبدا ۔ صلی علی صلی صدر العلی یہ ہی تو ہیں

تاجدار ہل اتی، شمس الضحی یہ ہی تو ہیں


جلوہ نور خدا ، بدر الدجی یہ ہی تو ہیں

دیکھیے حضرت محمد مصطفی یہ ہی تو ہیں


لیلتہ المعراج میں کہتے تھے سب سے جبرائیل

جن کا طالب ہے خدا وہ مہ لقا یہ ہی تو ہیں


کر رہے ہیں انبیا آپس میں سب سے گفتگو

ہم ہیں عالی مرتبہ پیش ِ خدا یہ ہی تو ہیں


حاملان ِ عرش نے دیکھا جو اس شب آپ کو

کہتے تحے سب صدرِ ایوان ِ دنی یہ ہی تو ہیں


متقدائے انبیا و پیشوائے اولیا

پادشاہ ِ دوسرا خیر الوریِ یہ ہی تو ہیں


دستگیر ِ بے کساں و چارہ ساز ِ عاشقاں

شافع ِ کل عاصیاں ، روز ِ جزا یہ ہی تو ہیں


محفل میلاد میں ہوتا ہے ان کا ہی ظہور

کچھ بصیرت چاہیے وہ مہ لقا یہ تو ہیں

محمد سے الفت جو کامل رہی ہے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

محمد سے الفت جو کامل رہی ہے

عطا بھی خطاوں میں شامل رہی ہے


بتا تو ہی ہستی ، ترے عاشقوں کی

کبھی یاد سے تیری غافل رہی ہے


خدا کی قسم حسرت ِ دید تیری

مری زندگانی کا حاصل رہی ہے


ہیں چرچے ترے جب زبان چمن پر

تو مدحت تری شمع محفل رہی ہے


جسے حسرت ِ دید کہتے ہیں عاشق

وہ حسرت مری حسرت دل رہی ہے


کوئی شان ِ احمد کو سمجھا نہ سمجھے

کہ عاقل ، یہاں عقل عاقل رہی ہے

ظہور ِ حزیں کو مدینے بلالو

کہ باقی یہی حسرت ِ دل رہی ہے


ملے جس سے جنت وہی چیز ہے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ملے جس سے جنت وہی چیز ہے

نبی کی محبت بڑی چیزی ہے


نہ ہو شکر ہر سانس پر کیوں بھلا

خدا کی عطا کی ہوئی چیز ہے


ادا فرض ِ الفت اگر کر رہے ہیں

تمنائے دل بھِ کوئی چیز ہے


یہ مانا کہ کعبہ ہے کعبہ ہمارا

مدینہ مگر دوسری چیز ہے


بنایا انہیں دونوں عالم کی رحمت

قسم حق کی ذات نبی ، چیز ہے


ہو ایمان مومن کا یا زہد ِ زاہد

غرض دی ہوئی آپ کی چیز ہے


مدینے پہنچ کر یہ کہتی ہے قسمت

جسے ڈھونڈھتے تھے وہی چیز ہے


زمانے کی کل نیکوں میں ریا ہے

ظہور ایک یاد نبی چیز ہے

وفات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

14 نومبر 1972 کو 67 سال کی عمر میں انتقال فرمایا اور دھوبی گھاٹ قبرستان ، لیاری، کراچی میں مدفون ہوئے ۔


شراکتیں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یہ صفحہ منظر عارفی کے ایک مضمون سے شروع کیا گیا ۔