طوطی دکن تہنیت النساء بیگم تہنیتؔ کی ادبی خدمات و نعت گوئی ۔ ڈاکٹر علی باز ہر ہما

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2


مضمون نگار: ڈاکٹر علی مارہرھماؔ (حیدرآباد)

مطبوعہ: دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2


طوطیٔ دکن: تہنیت النساء بیگم تہنیتؔ کی ادبی خدمات و نعت گوئی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

محترمہ تہنیت النساء بیگم تہنیت مشہور محقق اور ماہر لسانیات و دکنیات ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ کی شریک حیات تھیں ان کی ادبی خدمات ناقابل فراموش ہیں وہ ایک باکمال نعت گو شاعرہ تھیں۔ انہوں نے حیدرآباد کے ذی ثروت اور اعلیٰ علمی و مذہبی گھرانے میں 20مئی 1910ء کو آنکھیں کھولیں۔ ان کے والد نواب رفعت یارجنگ ثانی جو کہ مملکت آصفیہ میں بیدر اور اورنگ آباد میں صوبیداری کے عہدے پر فائض تھے۔ رفعت یارجنگ کا سلسلہ نسب خلیفہ اول حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتا ہے۔ ان کی والدۂ ماجدہ محترمہ اسماء بیگم صاحبہ کی پیدائش مدینہ منورہ میں ہوئی تھی۔ جب وہ نو سال کی ہوئیں تب وہ اپنے والدین اور بھائی کے ساتھ ہندوستان تشریف لے آئیں اور تقریباً ربع صدی تک یہاں پر قیام پذیر رہ کر1947ء میں مدینہ منورہ ہجرت کر گئیں۔ 1952ء میں مدینہ منورہ ہی میں انتقال فرمایا اور مدینہ منورہ میں ہی مدفون ہوئیں۔ آپ کا سلسلہ ایک جانب حضرت شہاب الدین سہروردی سے ملتا ہے تو دوسری جانب علماء فرنگی محل سے بھی نہایت قرابت داری تھی تہنیت النساء بیگم کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی انہیں والدہ ماجدہ پڑھایا کرتی تھیں۔ بعد میں محبوبیہ گرلز ہائی اسکول میں داخلہ دلوایا گیا جہاں انہوں نے سینئر کیمبرج تک تعلیم حاصل کی۔

محترمہ تہنیت کو شاعری کا ذوق ورثے میں ملا تھا۔ ان کے چچا سر نظامت جنگ بہادر ایک ممتاز ماہر سیاسیات ہونے کے ساتھ ساتھ انگریزی میں طبع آزمائی کرتے تھے۔ انہوں نے میر عثمان علی خاں آصف جاہ سابع کی غزلوں کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا تھا۔ ان کے علاوہ محترمہ تہنیت کی دو پھوپھیاں خیرالنساء بیگم خیرؔ اور تہنیت النساء ساجدہؔ بھی شاعری کیا کرتی تھیں۔ یہی وجہ رہی ہے کہ انہیں بچپن سے ہی ادبی ذوق کا چسکہ لگا تھا اور جب وہ 10نومبر 1932ء میں ڈاکٹر سیدمحی الدین قادری زورؔ سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں جو ایک محقق و نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ اردو کے قادرالکلام شاعر بھی تھے۔تو اس طرح تہنیت صاحبہ کے ادبی ذوق کو مزید جلا ملی اور ان کی شاعری نکھرنے اور سنورنے لگی۔ سچ کہیں تو و ہ زورؔ صاحب کی شریک حیات ہی نہیں بلکہ شریک کار بھی رہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر زورؔ کے علمی و ادبی کارناموں میں بیگم زورؔ کا بھی گرانقدر حصہ رہا۔ اس تعلق سے ڈاکٹر زورؔ خود فرماتے ہیں کہ:

’’میں اپنی بیوی کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے سارے گھریلو کاروبار سے مجھے آج تک بے نیاز رکھا۔ نہ صرف یہی بلکہ میرے علمی و ادبی کاموں میں بھی انہوں نے دور دور تک ہاتھ بٹایا۔‘‘ (یادگار زورؔ۔ ص:92)

بیگم زورؔ ایک وفاشعار اورسلیقہ مند بیوی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک صابر و شاکر خاتون تھیں۔ دولت مند گھرانے سے تعلق ہونے کے باوجود بے جا خرچ اور غیر ضروری دکھاوے کی شان و شوکت کی قائل نہ تھیں۔ ایک طرح سے کہا جائے تو وہ نام و نمود سے پرہیز کرتی تھیں۔ انہیں ہمیشہ اپنے خاندان کی عزت و حشمت کا بڑا خیال رہتا تھا۔ وہ ہر کام کو سلیقہ و شائستگی کے ساتھ کرنا پسند کرتی تھیں۔ بلکہ زورؔ صاحب کے کہے گئے شعر کے قائل تھیں۔ ؎


ذوق پاکیزہ سے ہر چیز ہے لطف و حسین

یہ نہ حاصل ہو تو بیکار ہے دنیا ہو کہ دین

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

وہ ایک شریف النفس، نیک سیرت اور کم سخن خاتون تھیں انکے مزاج میں حجاب بھی شامل تھا۔یہی وجہ تھی کہ وہ نماز و روزے کی پابندی کے ساتھ ساتھ پردے کا خاص لحاظ رکھتی تھیں۔ انہوں نے پردے میں رہ کر ہی کئی ایک سماجی، فلاحی، علمی و ادبی خدمات انجام دیں۔ اس تعلق سے یحییٰ فاروقی لکھتی ہیں کہ:

’’پردے میں رہ کر آپ نے ادارہ ادبیات اردو کی ہر طرح خدمت انجام دی۔ تمام سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں۔ ادارہ ادبیات اردو کے شعبہ خواتین کی سرگرم رکن رہیں۔‘‘ (ماہنامہ ’’نعت‘‘ لاہور، اکتوبر 1992ء، ص:82)

ایوان اردو کے لئے انہوں نے ہی اپنے مکان سے متصل 600گز پر مشتمل پلاٹ کو ادار ہ کی تعمیر کے لئے تحفہ میں دیا تھا۔ اس عمارت کا نقشہ فیاض الدین نظامی نے تیار کیا تھا اورخواجہ حسن نظامی نے اس عمارت کا نام ’’ایوان اردو‘‘ تجویز کیا تھا۔

محترمہ تہنیت نہایت ہی لطیف احساسات کی مالک تھیں۔ والدہ کا تعلق دینی خانوادے فرنگی محل سے ہونے کی وجہ سے عشق رسول ﷺ انہیں ورثے میں ملا تھا۔ ان کی طبیعت و فطرت نے بھی انہیں نعت گوئی کی جانب راغب کیا اور وہ نعت گوئی میں اتنی ڈوب گئیں اور جب رسول ﷺ اس قدر سرشار ہوئیں کہ ایک کے بعد دیگرے تین مجموعہائے نعت پاک شائع ہوگئے۔ وہ بڑے ذوق و شوق سے نعتیں کہتیں اور نہایت ہی جذباتی کیفیت کے ساتھ نعتوں کو پڑھتی تھیں۔ محترمہ تہنیت کو 1951ء میں پہلی مرتبہ حج بیت اللہ کا شرف حاصل ہوا تب سے وہ مسلسل نعت گوئی کرتی رہیں۔ ان کا سب سے پہلا مجموعہ نعت پاک ’’ذکر و فکر‘‘ 1955ء میں شائع ہوا جس میں 75نعتیں شامل ہیں۔ جن میں بلا کی وارفتگیٔ حضور ﷺ جھلکتی ہے جو اس بات کی غماز ہے کہ عشق رسول ﷺ ان کے خمیرمیں شامل ہے۔ اور ساری عمر نعتیں لکھتی رہیں اور عشق رسول ﷺ پر آپ کا خاتمہ بالخیر ہوا۔

نعت گوئی کی تاریخ بھی کافی قدیم ہے۔ عہد عتیق ظہور اسلام کے ساتھ ہی عربی و فارسی کے کئی ایک شعراء نے نعت گوئی میں مقام پیدا کیا۔ یہاں تک کہ ’’قصیدہ بردہ شریف‘‘ عربی میں اتنا مقبول ہوا کہ تب سے آج تک اسے مقدس حیثیت حاصل ہے۔ اور ’’عرفیؔ‘‘۔ ’’ابوطالب‘‘ کے علاوہ ’’کلیم‘‘ کی نعتیں فارسی میں بے حد مشہور و مقبول ہیں۔ مولانا حالیؔ کی کہی گئی نعت ’’وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا‘‘ اپنی لطافت و تاثیر کی وجہ سے ان کے سارے دیوان پر بھاری ہے۔ حالیؔ کے علاوہ کئی ایک اردو کے کلاسیکل اور جدید شعراء نے بھی نعت گوئی کو باعث برکت سمجھا ہے۔یہاں تک کہ اقبالؔ نے کہہ دیا کہ۔ ؎


کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

فیض احمد فیضؔ جیسے نامور شاعر جنہیں اپنی غزلوں اور نظموں کی وجہ سے شہرت حاصل ہے اور ترقی پسند رجحانات کی وجہ سے بھی کافی مقبول ہیں انہوں نے بھی اپنی کلیات میں فارسی نعت کو بیش کیا ہے۔ اردو شعراء نے سراپا نگاری میں عموماً ہندی تخلیقات کے اثرات کو اپنایا ہے۔ جب کہ محترمہ تہنیت نے نعت گوئی میں سراپا نگاری کے لئے فارسی شعراء کی تقلید کی ہے اور انہوں نے جذبہ عشق رسول ﷺ میں ڈوب کر قلبی واردات اور ذہنی کشمکش کی کیفیت کو پراثر انداز میں پیش کیا ہے۔ اس طرح ان کی شاعری ہو کہ نعت گوئی دل و دماغ کی کیفیتوں کا ایک خوشگوار امتزاج ہے۔ ان کے پہلے نعتیہ دیوان کے پیش لفظ کو مشہور رباعی گو شاعر امجد حیدرآبادی نے تحریر کیا تھا جس میں وہ رقمطراز ہیں کہ ؎

’’جہاں تک سمجھا مجھے محسوس ہوا کہ بیگم زورؔ جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ اکثر اشعار سے ایک خاص قسم کی ربودگی اورفریفتگی محسوس ہوتی ہے اور شعر متاثر ہوکر کہے گئے ہیں جن کا اثر پڑھنے والوں پر بھی پڑتا ہے۔ بعض اشعار سے بھی متاثر ہوا ہوں! مثلاً:؎


وقت رخصت ہم پہ جو گزری وہ اب تک یاد ہے

چھوڑتے ہی ان کا در تنہا نظر آنے لگے

(ذکر و فکر۔ پیش لفظ 1955)

بیگم زورؔ کی نعتوں سے متاثر ہوکر ’’انشاپرواز‘‘ مصور فطرت خواجہ حسن نظامی نے انہیں طوطیٔ دکن کے لقب سے نوازا۔ اور ایک جگہ وہ خود رقمطراز ہیں کہ:

’’بہ حیثیت مجموعی سارا کلام کیف اور سوز میں ڈوبا ہوا ہے۔ عاشق رسول ﷺ کی اس مجموعے کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے۔‘‘

(ماہنامہ ’’منادی‘‘، نئی دہلی۔ جولائی، 1955)

اس طرح یہ واضح ہوجاتا ہے کہ سارا کلام پرکیف اور پرسوز ہے اور ہر لفظ سے عاشقانہ اور والہانہ حقیقت کا اظہار ہوتا ہے۔ ان کے کلام کی ایک خوبی یہ ہے کہ انہوں نے ساری نعتوں کو غزل کی ہیئت میں بہت ہی دلکش انداز میں کہی ہیں۔ اس طرح ان کے کلام میں غزل کی غنایت اور نعتوں کا وجد شامل ہے۔جس سے قاری غزل اور نعت دونوں کا لطف ایک ساتھ اٹھا سکتا ہے۔ چند اشعار دیکھئے۔ جس میں انہوں نے مسلک والہانہ کو غزل نما نعت میں کس و ارفتگی کے انداز میں پیش کیا ہے جس میں غنایت بھی شامل ہے۔ یہ نبی اکرم ﷺ کی یاد ہی ہے جو ان سے اس طرح کا کلام لکھا رہی ہے۔ وہ خود فرماتی ہیں کہ  :


نبی ﷺ کی یاد لکھاتی ہے تہنیت ؔہم سے غزل کبھی یوں ہی لکھی نہیں جاتی

پھر نہ آئیں ہم آگہی کے قریب محو حیرت ہیں کسی کے قریب

رہے نظروں میں گنبدِ خضریٰ ان کا جلوہ ہو زندگی کے قریب

سر بہ سجدہ رہیں انھیں نہ کبھی پھر جو پہنچیں در نبی ﷺکے قریب

عمر گزرے ان ہی کے روضے پر جان دے دیں گے ہم ان ہی کے قریب

تہنیتؔ ہجر میں ملول نہ ہو دن ہیں اب تیری حاضری کے قریب

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

ان کے کلام سے یہ اندازہ بھی بخوبی ہوتا ہے کہ عشق نبیﷺ ہی ان کا سرمایۂ حیات ہے اور ساتھ ہی ساتھ اہل بیت سے بھی انہیں بے حد انس و عقیدت ہے۔


سرمایہ گیتی ہے مجھے ان کی محبت

بیکار ہے میرے لئے جو اس کے سوا ہے

اضطراب دل سے محرومی ہے مرجانے کا نام

زندگانی ہے تمہارے لطف فرمانے کا نام

اہل بیت سے عقیدت کو وہ اپنے اشعار میں کہتی ہیں۔ ’کہ آل نبی کی نعت ہی شفاعت کا باعث ہے‘۔


حبیب حق ضامن شفاعت ہے دل میں آل نبی ﷺ کی الفت

یہ زاد رہ مل گیا ہے ہم کو رہ عدم کے سفر سے پہلے

الٰہی ایماں کے اٹھائے دنیائے فانی سے

ہو سایہ حشر میں خاتون جنت کا یہ ارماں ہے

عدوے حسین ابن علی کے متعلق فرماتی ہیں کہ۔ ؎

کاش یہ جانتے اعدائے حسین ابن علی

کس قدر چاہتے تھے سرور دیں پیاروں کو

لیکن محترمہ تہنیتؔ مطمئن ہیں کہ انہوں نے اپنا رشتہ پیاروں سے جوڑ لیا ہے۔


قرب حضور تاکہ میسر ہو بعد مرگ

جاتے ہیں ہم مدینے کو اپنے کفن کے ساتھ

محشر میں ہم بھی ساتھ انہیں کے اٹھیں کہ جو

ہیں فاطمہ کے ساتھ حسین و حسن کے ساتھ

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

’’صبر و شکر‘‘ نعمتوں کا دوسرا مجموعہ ہے جس میں 91 نعتیں اور ایک سلام شامل ہے۔ جس کا ہر ہر لفظ حضور کی محبت سے لبریز ہے۔ یہ مجموعہ نعت 1956ء میں شائع ہوا تھا۔ اشعار میں پاکیزہ جذبات کے علاوہ ترنم بھی شامل ہے اور یہ بھی عشق رسول ﷺکے جذبات کا آئینہ دار ہے اوراضطراب و بے چین دلوں کے لئے باعث تسکین ہے۔ دراصل کلام میں محترمہ تہنیت کی دلی تمنا شامل ہے جو ہر عاشق رسول ﷺ کے دل کی آواز ہے۔


نبیﷺکی مدح سرائی میں تہنیت کتنے

غلام داخل خلد بریں ہوئے ہوں گے

گزرے اسی طرح سے یہ زندگی ہماری

آئین مدینے سے ہم اور پھر مدینہ جائیں

اس ضمن میں حضرت امیر مینائی کا ایک شعر دیکھئے:؎

مدینے جاؤں پھر آئوں مدینے پھر جائوں

تمام عمر اسی میں تمام ہوجائے

’’تسلیم و رضا‘‘ تہنیت کا تیسرا نعتیہ دیوان ہے جو 40نعتوں اور 9منقبتوں پر مشتمل ہے اوراس مجموعے میں ایک طرح کا سوز و گداز شامل ہے۔


دل درد آشنا نہیں ملتا

یوں تو دنیا میں کیا نہیں ملتا

شعر میں جب تڑپ نہ ہو دل کی

لطف ہم کو ذرا نہیں ملتا

تہنیتؔ الفت نبی ﷺ کے بغیر

زندگی کا مزہ نہیں ملتا

سوز و گداز کے ساتھ ساتھ کلام میں موسیقیت، غنایت و ترنم کی آمیزش سے نعت میں وجدانی کیفیت بھی شامل ہوجاتی ہے۔


کبھی ہو عطا ہمیں بھی وہی چشم عارفانہ

ہمیں کچھ خبر نہیں ہے جو لگا ہے تازیانہ

ہمیں غم نہیں ہے اس کا کہ ہوئے ہیں خوار و رسوا

جو خلق ہے بس تو یہ ہے نہ ہو دین بھی روانہ

وہ اضطراب و حب رسول ﷺ میں ڈوب کر ایک دم سہم جاتی ہیں کہ کہیں بے ادبی نہ سرزد ہوجائے۔ تب ہی تو وہ کہتی ہیں۔ ؎


تیرا اضطراب اے دل مجھے بے ادب نہ کردے

ہے یہ بارگاہ اقدس ذرا یاں سنبھل سنبھل کے

اس طرح نعتوں کے ذریعے بارگاہ رسول میں گل ہائے عقیدت پیش کرتے ہوئے حیدرآباد دکن کی مایہ ناز ہستی، تہذیب و ثقافت کا مجسمہ، اعلیٰ اقدار و روایات، بلند کردار و معیار اور پاسبان ادب کی شمع فروزاں محترمہ تہنیت بروز جمعہ 8نومبر 1996ء کوگل ہوگئیں لیکن عاشقان رسول ﷺ کے دلوں کو اپنی روشنی سے آج بھی سرفراز کررہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے ، آمین۔

مزید دیکھیے =[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

سانچہ:بکس مضامین

نئے صفحات