طالب جوہری

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


طالب جوہری کے ایک قصیدے سے انتخاب


پھونک کر دشتِ عرب کی کوکھ میں رُوحِ اِرم

اِک گھنیری چھاؤں پھیلا دی سرِ فرقِ امم


وہ قدیم انسان تخلیقِ جہاں سے بھی قدیم

جس کے احساسات کی تجسیم ہیں لوح و قلم


وہ بقا پرور کہ با معنی ہے مفہومِ وجود

وہ فنا دشمن کہ اب اِک لفظ مہمل ہے عدم


وہ ازل آثارِ تعلیمِ ملائک جس کی بھیک

وہ ابد کردارِ جنّت جس کے دروازے پہ خم


جس کے بل پر ناز کرتا ہے امانت کا مزاج

جس کے دم سے سانس لیتا ہے دیانت کا بھرم


اُس سے باتیں کر کے پا لے ہم کلامی کا شرف

تھم، خدا کے واسطے، اے نارسا ادراک تھم


اے قضا آگاہِ مرسل اے قدر پیما نبی

اے عمودِ خیمۂ جاں اے وجودِ کیف و کم


تُو دیارِ آگہی میں رب کے ہونے کا نشاں

تُو فصیلِ فہم پر توحیدِ خالق کا علم


عقل کی خاکِ تیمّم ہے ترے قدموں کی دھُول

فکر کا آبِ وضو ہے تیری پیشانی کا نَم