طارق سلطان پوری ۔ دبستانِ رضؔا کا گلِ سر سبد ۔ سید وجاہت رسول قادری

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


از وجاہت رسول قادری

طارق سلطان پوری ۔ دبستانِ رضا کا گل سر سبد[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

طارق سلطان پوری کی شاعری کے حوالے سے ذیل میں صاحب زادہ سید وجاہت رسول قادری صاحب کے ایک مضمون ’’ طارق سلطان پوری ۔ دبستانِ رضؔا کا گلِ سر سبد‘‘ کا کچھ حصہ پیشِ خدمت ہے،


جب طارق سلطانپوری صاحب کا آتش جوان تھا اور وہ اردو شاعری کے ”بے وفا“ اور ”ہرجائی“، ”محبوب“ کے خیالی لب و رخسار اور عارضی وفانی حسن اور اس کے مرجھا جانے والے لب و رخسار و عارض کی مبالغہ آمیز تعریف و تحسین کے نغمے الاپ رہے تھے اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ اپنی بہترین صلاحیتوں کو زندگی کے لق و دق صحراء میں صنم کدے کی نیرنگیوں اور بوقلمینیوں پر بے محابہ نچھاور اور برباد کررہے تھے کہ اچانک حافظ صاحب بصورتِ خضر ادھر آنکلے اور ان کی دستگیری فرماتے ہوئے فرمایا


ادھر آ ہر قدم پر حسنِ منزل تجھ کو دکھلادوں

فلک کو یاس سے منزل بہ منزل دیکھنے والے


حافظ صاحب اعلی اللہ تعالیٰ مقامہ طارق کو ”حدائقِ بخشش“ کی سیر کو لے گئے۔ وہاں کے گل بوٹوں سے ان کی آنکھیں روشن ہوئیں اور دل و ذہن معطر۔ سیر سے فارغ ہوئے تو مڑ کر دیکھا کہ وہ اب تک بے مقصد اور لاحاصل روایتی شاعری کے لق و دق ریگستان میں محض چند لمحوں کی واہ واہ کی خاطر بھٹکتے پھر رہے تھے۔ امام احمد رضا محدثِ بریلوی علیہ الرحمة کی روح نے دستگیری فرمائی اور ان کی زندگی کا دریائے شور عبور کرواکر انہیں ساحلِ مراد تک پہنچادیا جہاں ان کے دل میں ”عشقِ رخِ شہ کا چراغ“ روشن ہوچکا تھا جس نے ان کے تن و جاں کو پھونک ڈالا۔ یہاں ساحلِ مراد پر پہنچ کر طارق نے ”جہادِ عشقِ صادق“ کی راہ اختیار کی اور ”عشقِ مجازی“ کی وہ تمام کشتیاں جو انہوں نے اپنے فانی ہرجائی، خیالی محبوب کے بہلاوے کے لیے گل و بلبل اور جام و سبو کے استعاروں سے بنائی تھیں، امام احمد رضا کا یہ شعر پڑھ کر جلا ڈالیں


اے عشق تِرے صدقے جلنے سے چھٹے سستے

جو آگ بجھادے گی، وہ آگ لگائی ہے


جس جذبہٴ عشقِ صادق کے تحت طارق بن زیاد نے اپنی کشتیاں جلاکر ”جبلِ طارق“ کی چوٹی سر کی تھی، اسی جذبہ کے تحت جناب طارق نے ایک عظیم پہاڑ کی چوٹی سر کی جسے ”جبلِ عشقِ صادق“ کہا جاتا ہے۔ اس مہم کی سرکوبی میں جب تشنگی حد سے بڑھی تو یہ دعا کی


گدا ہے ساقیِ کوثر تہی سبو طارق

عطائے خاص سے پُر اس کاجام ہوجائے


بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں ان کی یہ دعا ایسی قبول ہوئی کہ انہیں بارگاہِ نبوی سے وہ کچھ عطا ہوا جو انہوں نے مانگا تھا اور وہ کچھ بھی جو نہیں مانگا تھا۔


مِرے حالات سے حاجات سے وہ بے خبر کب تھے

جو مانگا اور جو نہ مانگا گیا، بخشا گیا مجھ کو


پھر جو کچھ عنایاتِ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ اقدس سے ان پر ہوئیں، انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کریں:


سنہری جالیوں کو دیکھنا بخشا گیا مجھ کو

مِری اوقات تھی کیا اور کیا بخشا گیا مجھ کو

برائے مغفرت ذوقِ ثنا بخشا گیا مجھ کو

متاعِ عشقِ محبوبِ خدا بخشا گیا مجھ کو

مجھے وصفِ محمد ( ﷺ) کے لیے اس کی ضرورت تھی

بہت سرمایہٴ فکرِ رضا بخشا گیا مجھ کو

جھلک جس میں ہے نعتِ رومی و اقبال و جامی کی

وہ طرزِ مدحت و رنگِ ثنا بخشا گیا مجھ کو

مجھے شامل کیا خیلِ ثناء گویانِ خواجہ میں

گدازِ کافی و سوزِ رضا بخشا گیا مجھ کو

درِ حضرت پہ میری حاضری کا بن گیا موجب

جنوں بخشا گیا تو کام کا بخشا گیا مجھ کو


لیکن مدحت نگاری کی یہ عظیم صلاحیت جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بلاشبہ طارق سلطانپوری کے لیے ایک بہت بڑا انعام ہے۔ یہ سب کچھ کس کے رابطہ، کس کے واسطے، کس کی برکت اور کس کے فیضِ روحانی سے انہیں عطا ہوا؟ کس ”نسخہٴ کیمیا“ کے استعمال سے ان کا قلبِ زنگ آلود مجلّٰی و مصفّٰی، چشمِ روشن و بینا اور قلم رہِ نعتِ سرورِ ہردوسرا صلی اللہ علیہ وسلم میں رواں دواں ہوا؟ اس کی تفصیل خود ان کی زبانی سنیں:


”اللہ تعالیٰ نے مجھ ہیچ مدان کو جو ذوقِ شعر و سخن اور سرمایہٴ فکر و خیال و ودیعت فرمایا ہے، اسے بچپن سے آغازِ شعور تک بے مقصد و لایعنی موضوعات و معاملات کی نذر کرتا رہا۔ طالبعلمی کے دور میں وقتی و ہنگامی نوعیت کے مسائل پر اور شعور کی پختگی کے ساتھ ساتھ روایتی طور پر گل و بلبل، لب و رخسار اور عارض و گیسو کی مبالغہ آمیز تعریف و تحسین میں اس متاع بے بہا کو صرف کرتا رہا۔ پھر کافی عرصہ تک سیاسی صنم کدے کی نیرنگیاں اور بوقلمونیاں موضوع نگارش رہیں اور نادانی سے اس فضول سعی و کاوش ہی کو اپنا عظیم کارنامہ سمجھتا رہا اور اس طویل عرصے میں نعت حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال و احساس بمشکل ہی کبھی دل و دماغ میں جاگزیں ہوسکا۔


خوش قسمتی سے اسی زمانہ میں ایک سلیم الطبع و خوش فکر کرم فرما، حضرت حافظ مظہر الدین نے مطالعہ نعت اور نعت نگاری کی تلقین کی اور ساتھ ہی ”حدائقِ بخشش“ از اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں بریلوی قدس سرہ کا ایک نسخہ بھی مرحمت فرمایا اور پورے ذوق و شوق سے اس کے تفصیلی مطالعے کا پُرزور اصرار کیا اور اس نسخہ ”کیمیا“ کا مطالعہ شروع کیا تو دل و دماغ میں گویا دبستاں کھل گیا


اس سے پہلے اساتذہ فن کی کہی ہوئی نعتیں عموماً پڑھی تھیں لیکن مجھے اس حقیقت کا برملا اظہار و اعتراف کرنے میں ذرہ بھر تامل نہیں کہ ”حدائقِ بخشش“ کے مطالعہ سے جو کیف و سرور جو قلبی انشراح و روحانی انبساط حاصل ہوا اور نعت کا جو فہم و ادراک نصیب ہوا وہ پہلے میسر نہ تھا۔ میں ایک کج مج بیان ہیچ مدان کسی لحاظ سے بھی کسی فنی اور ادبی حیثیت کا مالک نہیں، نعت نگاری ایک زمانے سے میرا وظیفہ حیات ہے۔ اس وظیفہ حیات کو اختیار کرنے پر مجھے ”حدائقِ بخشش“ نے آمادہ کیا۔ اب نعت نگاری میرا سامانِ زندگی ہے، میری روح اور میری متاعِ حیات ہے۔ یہ ”حدائقِ بخش“ کا مطالعہ نصیب نہ ہوتا تو کئی دیگر ہم عصر حضرات کی طرح میں بھی بے مقصد اور لاحاصل روایتی شاعری کے لق و دق صحرا میں بھٹکتا پھرتا


یہ سب حدائقِ بخشش کا فیض ہے طارق

حبیبِ پاک( ﷺ) کے مدحت نگار ہم بھی ہیں


گویا احمد رضا کے ”حدائقِ بخشش“ طارق سلطانپوری کے لیے آقا و مولیٰ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی عنایات کا ذریعہ اور ”رابطہٴ بخشش“ بن گئے۔ دوسرے الفاظ میں اور خود طارق سلطان پوری کے مندرجہ بالا اعتراف کی روشنی میں اعلیٰ حضرت ان کے روحانی مربّی اور استاذ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طارق کی نعت میں امام احمد رضا فاضلِ بریلوی کی طرح نعتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستگی و عقیدت اور صاحبِ موضوع ( صلی اللہ علیہ وسلم) سے شیفتگی و محبت کی شدت کی جولانی اور آپ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے دشمنوں، گستاخوں سے نفرت و بیزاری کا اظہار شروع سے آخر تک یکساں اور موٴثر انداز میں جاری و ساری نظر آتا ہے۔ اگرچہ یہ مقالہ اس اعتبار سے طارق سلطانپوری کے کلام پر تفصیلی تبصرہ کا متحمل نہیں ہوسکتا کیونکہ راقم کا یہ مقام و منصب نہیں، دنیائے شعر و ادب بالخصوص جہانِ نعت کا کوئی عارف ہی اس موضوع پر قلم اٹھاسکتا ہے لیکن ”دبستانِ رضا“ کے ترجمان دورِ جدید کے اس عظیم شاعر کے کلام پر اجمالاً کچھ گفتگو ہوسکتی ہے۔


طارق کس قدر سادگی و برجستگی کے ساتھ اسی جذبہ و عقیدہ کی ترجمانی درج ذیل اشعار میں کرتے ہیں


ہرجگہ وہ مِری بہبود کا رکھتا ہے خیال

عرش پر یا مِرا سلطان مدینے میں رہے

حالِ امت سے وہ رہتا ہے بخوبی آگاہ

لاکھ امت کا نگہبان مدینے میں رہے


حریمین طیبین کی حاضری کے موقع پر طارق نے اپنی وارداتِ قلب امام احمد رضا کے طرز و انداز بلکہ بعض ”حدائقِ بخشش“ کی بحروں میں پیش کی ہیں اور کہیں کہیں ان کے مصرعوں کی گرہیں بھی لگائی ہیں۔ مثلاً ان کی نعت کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں، مگر اس سے پہلے اعلیٰ حضرت کی ایک نعت شریف کے جذبہٴ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لبریز چند اشعار پڑھیں:


دل کو ان سے خدا جدا نہ کرے

بے کسی لوٹ لے خدا نہ کرے

اس میں روضہ کا سجدہ ہو کہ طواف

ہوش میں جو نہ ہو، وہ کیا نہ کرے

دل کہاں لے چلا حرم سے مجھے

ارے تیرا بُرا، خدا نہ کرے

دل سے اِک ذوقِ مے کا طالب ہوں

کون کہتا ہے اِتّقا نہ کرے

لے رضا سب چلے مدینے کو

میں نہ جاؤں، ارے خدا نہ کرے


اب ذرا طارق کا رنگ و انداز بھی اسی لے اور نے میں دیکھئے ، اقبال کا حسنِ تمنا اور رضا کی سرشاری و جانثاری صاف جھلک رہی ہے


یہ لطف خاص بھی اب وہ گدا نواز کرے

مجھے بھی گامزنِ جادہٴ حجاز کرے

رہِ حرم میں مجھے بھی ادب شناس کوئی

رفیقِ راہ بنائے، شریکِ راز کرے


۔۔۔۔۔۔۔


یہ سوچتا ہوں کہ بے دیدِ طیبہ کیا ہوگا

اگر وفا مِری عمرِ گریز پا نہ کرے

کسی طرح جو پہنچ جاؤں تو قیامت تک

خدا حضور کے در سے مجھے جدا نہ کرے


طارق کی ”حدائقِ بخشش“ کی سیر و سیاحت سے محبت اور بارگاہِ رضا میں ”ادب شناسی“ کا یہ ثمرہ تھا کہ ان کی دعا مقبول ہوئی اور بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضری کے لیے رضا بریلوی کی روح ان کی پیشوا بنی۔ یہی نہیں بلکہ طارق کی یہ خوش نصیبی تھی کہ گذشتہ کئی صدیوں کے پیکرِ نور سخن ور اور ثناء گو بھی ان کے ساتھ زمزمہ خوانی کے لیے درِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضر تھے۔ اس کا اعتراف طارق بھی بہت کھلی زبان سے کررہے ہیں:


کیا حسن کیا جمال درِ مصطفی کا تھا

ہر گام پر تھے نور کے پیکر کھڑے ہوئے

بوصیری و سنائی و قدسی، رضا، امیر

اقبال و رومی جیسے سخنور کھڑے ہوئے

کافی، گرامی، سعدی، ضیاء، محسن و حسن

حسان، جامی جیسے ثناگر کھڑے ہوئے


ان تمام بزرگ اساتذہٴ فن کی روحانی (اور کیا عجب کہ تصویر ادب و اخلاق کے ان پیکروں کی جسمانی موجودگی کا خوشگوار لمس بھی طارق نے محسوس کیا ہو) موجودگی نے سرکارِ ابدقرار صلی اللہ علیہ وسلم کے بابِ جود و کرم کے دروازے طارق پر وَا کردیئے چنانچہ وہ برجستہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے


محسوس ہورہا ہے کہ طارق ہم آج بھی

سرکار کے ہیں بابِ کرم پر کھڑے ہوئے


امام احمد رضا کے قصیدہٴ سلامیہ کے مقطع کا قطعہ بند ہے:

کاش محشر میں جب ان کی آمد ہو اور

بھیجیں سب ان کی شوکت پہ لاکھوں سلام

مجھ سے خدمت کے قدسی کہیں ہاں رضا

مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام


راقم کو جب بھی درِ اقدس پر باریابی نصیب ہوئی تو صلوٰة و سلام کے ساتھ یہ دعائیہ مقطع بھی آہستہ آواز میں ترنّم کے ساتھ پڑھا۔ طارق سلطانپوری بھی اسی عاشقِ صادق کے مداح ہیں جن کا نامِ نامی امام احمد رضا ہے۔ عجب اتفاق کہ ان کو بھی جب بارگاہِ اقدس میں باریابی نصیب ہوئی تو انہوں نے مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام پیش کرنے کے بعد ایک نئے لب و لہجہ میں برجستہ امام احمد رضا کی اسی تمنا کو سرِ حشر اپنی مطلب برآوری کے لیے پیش کیا:


دیکھوں درِ رحمت کے دوبارہ بھی نظارے

سرکار کی دہلیز پہ میں مانگتا کیا اور

طارق سے سرِ حشر کہیں کاش یہ قدسی

ہاں مدحتِ سرکار میں اشعار سنا اور


امام احمد رضا فاضلِ بریلوی نے جب دوسرے سفرِ حج کے بعد زیارتِ روضہٴ اقدس کے لیے رختِ سفر باندھا تو بہجت و سرور کی کیفیت طاری ہوگئی اور آپ نے آقا و مولیٰ سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور دو قصیدے فی البدیہہ تحریر کیے۔ پہلے کا عنوان رکھا ”حاضری بارگاہِ بہیں جاہ (1324ھ)“ وصل اول رنگ علمی، ”حضور جانِ نور“ (1324ھ) اور دوسرے کا عنوان ”حاضریٴ درگارہِ ابدی پناہ(1324ھ) ، وصلِ دوم رنگِ عشقی“ رکھا۔ پہلے قصیدے میں 62 اور دوسرے میں 63اشعار ہیں۔ پہلے قصیدے کے دو مطلع ملاحظہ ہوں:


شکرِ خدا کہ آج گھڑی اس سفر کی ہے

جس پر نثار جان فلاح و ظفر کی ہے

گرمی ہے، تپ ہے، درد ہے، کلفت سفر کی ہے

ناشکر یہ تو دیکھ عزیمت کدھر کی ہے


دوسرے قصیدہ کے چند اشعار بھی دیکھیں:

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے

ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے

سونپا خدا کو یہ عَظَمَت کس سفر کی ہے

ہم گردِ کعبہ پھرتے تھے کل تک اور آج وہ

ہم پر نثار ہے یہ ارادت کدھر کی ہے


ذرا اسی بحر، ردیف و قوامی میں طارق کے اشعار ملاحظہ فرمائیں جو انہوں نے منظوریٴ درخواستِ حج کی خوشخبری پر ارتجالاً انہی جذبات کے تحت کہے:


لایا نویدِ حاضریٴ شہر ہائے پاک

آمد سعید آج مِرے نامہ بر کی ہے

میں نے گذاری اس کی تمنا میں ایک عمر

یہ کیفیت جو آج مِری چشمِ تر کی ہے


پھر ”روانگی“ کے عنوان سے ایک نعت لکھی جس کے پہلے شعر میں اعلیٰ حضرت کے پہلے قصیدہ ”حاضریٴ بارگاہِ بہیں جاہ“ کے مطلع کے پہلے مصرعہ پر تضمین کہی۔ رنگِ تغزل اور رنگِ رضا کی آمیزش ملاحظہ ہو۔ صرف دو شعر پیش کیے جاتے ہیں:


جس کا کہ ایک عمر سے طارق تھا انتظار

”شکرِ خدا کہ آج گھڑی اس سفر کی ہے“

یہ لطفِ بے کراں ہے خدائے کریم کا

یہ بخششِ عمیم شہِ بحر و بر کی ہے


اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کلامِ رضا کا حسنِ تغزل اور طرز و ادا ہمیں طارق کے کلام میں جا بجا نظر آتا ہے لیکن ان سب کے باوجود طارق جدید نعتیہ شاعری میں اپنا ایک جداگانہ اسلوب اور منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ وہ اردو و وفارسی کے ایک قادر الکلام نعت گو شاعر ہیں۔ عربی زبان سے بھی انہیں خاصا شغف ہے۔ وہ بیک وقت غزل، قصائد، منقبت، تاریخ گوئی اور تضمین نگاری اور دیگر اصنافِ سخن میں ماہرانہ دسترس رکھتے ہیں اور شعر و ادب کی تاریخ کا گہرا مطالعہ رکھتے ہیں۔ تضمین نگاری کے نمونے تو ان کے کلام میں جگہ جگہ ملتے ہیں لیکن تضمین نگاری پر ان کا بڑا کام امام احمد رضا کے قصیدہٴ سلامیہ”مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام“ کے 171 اشعار پر ان کی دو تضمینیں ہیں، فی الحال اس تضمین پر نقد و نظر موضوعِ سخن نہیں لیکن راقم یہ بات بلا خوفِ تردید کہہ سکتا ہے کہ کم از کم اس کے علم تک برصغیر پاک و ہند میں کوئی ایسا شاعر نہیں جس نے سلامِ رضا کے تمام اشعار پر دو تضمینیں کہی ہوں۔ یہ انفرادیت طارق سلطانپوری کو حاصل ہے۔ اگرچہ سلامِ رضا کے اشعار پر بہت سے نعت گو شعراء نے تضمین کے طور پر طبع آزمائی کی ہے جبکہ تمام اشعار پر مکمل تضمین معدودے چند نے کی ہے جس میں مولانا سید مرغوب احمد اختر الحامدی کی تضمین بہت مقبول و معروف ہوئی اور برصغیر پاک و ہند میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محافل میں کثرت سے پڑھی جاتی ہے۔ فارسی غزل میں حافظ شیرازی علیہ الرحمة سے بہت متاثر ہیں جس کی جھلک ان کے فارسی کلام میں جابجا ملتی ہے۔ اس کے علاوہ غالب، خسرو، سعدی، رومی، جامی اور علامہ اقبال کے فارسی کلام پر بھی ان کی گہری نظر ہے جس کے نمونے ان کے کلام میں اکثر نظر آتے ہیں۔


حالی سے سہیل اعظم گڑھی تک نعت گوئی میں جو عنصر عصرِ جدید کی عطا ہیں، ان کا ذکر افتخار اعظمی نے سہیل کے فکر و فن کے حوالے سے کیا ہے۔ اقبال سہیل کی نعت جو اپنی صوری اور معنوی خوبیوں کے سبب عصرِ جدید کی نمائندہ نعت ہے، اس کی جو خصوصیات ڈاکٹر ریاض مجید نے اپنی تحقیقی مقالہ ”اردو میں نعت گوئی“ میں تحریر کیے ہیں (42) میں سمجھتا ہوں تھوڑے سے حذف و اضافہ سے طارق سلطانپوری کی نعت گوئی کے رویوں اور میلانات میں بھی جھلکتی ہیں:


1۔ جوش عقیدت، خلوصِ جذبات اور غیرتِ عشق کا برملا اظہار

2۔ تاریخِ اسلام کے صحیح اور موٴثر واقعات کی تلمیح اور شاعرانہ پیرایہ میں مستند احادیث و روایات کا اقتباس (و ترجمہ) یا ان کی تفسیر و تشریح۔

3۔ توحید و رسالت کا صحیح اسلامی شعور جو سلف سے قرآن و حدیث کی روشنی میں ثابت چلا آرہا ہے اور جو ہمارے عقیدہٴ و ایمان کا اصل سرچشمہ ہے۔

4۔ توحید کی آڑ میں شانِ الوہیت، مقامِ رسالت اور عظمتِ اولیاء کی تنقیص کی کوششوں کا نعت گوئی کے ذریعہ سدِّباب اور گستاخانِ بارگاہِ رسالت کی ہجو اور گرفت، شانِ الوہیت اور مقامِ مصطفی کا مثبت انداز میں دفاع۔

5۔ سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم، انبیاء علیہم السلام، صدیقین، شہداء و صالحین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی شان و عظمت بلند کرنے کے لیے مبعوث ہوئے۔ لہٰذا ان سب کا اس طرح ذکر کرنا کہ ان کی عزت و عظمت اور احترام کا جذبہ دل میں پروان چڑھے نہ کہ معاذ اللہ ان میں سے کسی کی تنقیص کا پہلو نکلے۔

6۔ سیرت مبارکہ کے مختلف پہلوؤں پر اس پیرائے میں اظہارِ خیال کہ اسلامی نظریات و عقائد کی مکمل توضیح بھی ہوجائے۔

7۔ بزمِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارکانِ خاص کے مقام و مرتبہ کا صحیح تعین اور اس کے اعتبار سے ان کے فضائل و کمالات کا تجزیہ۔

8۔ نعت و منقبت کے ضمن میں فلسفہ و حکمت کے بہت سے راز ہائے سربستہ کی عقدہ کشائی۔

9۔ شاعرانہ محاسن کی آمیزش مگر اس درجہ نہیں کہ جذبہ کی شدت اور خیال کی قوت میں کوئی کمی واقع ہو۔

10۔ تخیل اور حقیقت میں کامل ہم آہنگی۔


مذکورہ بالا ان خصوصیات کی روشنی میں اگر کلامِ طارق کا جائزہ لیا جائے تو ان میں مجموعی طور پر مذکورہ رویے اور میلانات جھلکتے ہیں۔ ان کی نعتوں میں اگر امام احمد رضا فاضلِ بریلوی کی طرح الفاظ و معنی کا حسن اور مولانا حسن رضا حسن بریلوی کی زبان و بیان کی گونج موجود ہے تو دوسری طرف ان کے پیش رو غالب، حافظ، خسرو، سعدی، رومی، جامی اور علامہ اقبال کے نعتیہ اشعار کی ہلکی مگر موٴثر آواز بھی شامل ہے۔ طارق کے ہاں حافظ مظہر الدین کی طرح ہیئت کے تجربے اور نعت گوئی میں عبارت کی یکسوئی اور انہماک پایا جاتا ہے۔ ان کے نعتیہ مجموعہ میں ایک عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سفرِ عشق کے سچے جذبات و کیفیات اور قلبی واردات و مشاہدات کی متنوع جھلکیاں ملتی ہیں۔ صبا کے ذریعہ بارگاہِ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم میں پیغام رسانی کا جذبہ بھی نظر آتا ہے۔ ایک خوش نصیب زائرِ حرم کی معرفت 12/اشعار پر مشتمل ایک التجا نامہ بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش کیا گیا تھا جس کا ایک شعر یہ ہے


زیارتِ درِ والا نصیب ہو مجھ کو

قیامِ شہرِ مدینہ نصیب ہو مجھ کو


التجانامہ نامہ بر لے کر گیا لیکن بے تابیٴ شوق نے سرکارِ کرم سے صبا کے دوش پر اذنِ حاضری چاہی


لائے گی صبا حاضری کا مژدہ کسی روز

طارق شبِ ہجراں کی سحر ہوکے رہے گی


یہ شعر شاعر کے حسنِ ذوق کی داد کا طلبگار ہے۔ طارق کے پیشرو ممدوح عشقِ مجسم حضرت مولانا نور الدین عبد الرحمن جامی نور اللہ مرقدہ نے صبا کے دوش پر ایک التجانامہ بارگاہِ سید الوریٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش کیا تھا جس کا وجد آگیں مطلع ہے


کہ بود یارب کہ رو در ”طیبہ“ و بطحا کنم

گہ بہ مکہ منزل و گہ در مدینہ جاکنم


ہجر کی گھڑیاں بڑی کٹھن ہوتی ہیں۔ اس کا کرب و درد تو کچھ وہی عاشقِ صادق جانتے ہیں جو اس منزل سے گذرتے ہیں، بالخصوص اس حالت میں کہ نامہ بر عرض داشت لے گیا ہو اور عاشقِ صادق اس کی واپسی کی راہ دیکھ رہا ہو۔ اس کی کیفیت بقول حسن بریلوی انتظارِ وصل میں کچھ یوں ہوتی ہے


کس تمنا پر جئیں یارب اسیرانِ قفس

آچکی بادِ صبا باغِ مدینہ چھوڑ کر


طارق کے درد و کرب کو حسن رضا حسن بریلوی نے محسوس کیا کیونکہ وہ اس راہ کے رہرو ہیں۔ انہوں نے عالمِ بالا سے ان کی رہنمائی کی اور تنبیہ کرتے ہوئے کہا


اے حسن خیر ہے کیا کرتے ہو؟

یار کو چھوڑ کر اغیار سے ربط


تم سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوست یعنی ان کے ولی اور عاشقِ صادق نور الدین جامی سے کیوں رابطہ نہیں کرتے اور ان کے ذریعہ استغاثہ بارگاہِ شہنشاہِ مدینہ میں کیوں نہیں پیش کرتے؟ بات طارق کی سمجھ میں آگئی، ان کی آنکھیں کھل گئیں، وہ خود بھی جامی کے شیدائی ہیں۔ ان کے مقام مرتبہ کے عارف اور سلطان دو جہان صلی اللہ علیہ وسلم کے قدمین شریفین تک ان کی اعلیٰ رسائی کے معترف ہیں، انہوں نے عالمِ ارواح میں شہیدِ محبت حضرت علامہ جامی قدس سرہ کی روحِ مبارک سے رجوع کیا اور ان کی معرفت اپنی زبان میں ان کا کہا ہوا منظوم استغاثہ بارگاہِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم میں یوں پیش کیا:


کون سا ہوگا وہ دن یارب کہ بطحا جاؤں گا

جلوہ زارِ مکہ دیکھوں گا، مدینہ جاؤں گا

خلد نظارہ، جناں بردوش ہو باب السلام

یا ہو بابِ جبرئیل، آنسو بہاتا جاؤں گا

اپنے در پر یارسول اللہ بلالیجئے مجھے

سر کے بل جاؤں گا، باذوقِ تماشا جاؤں گا

مجھ کو جنت کی نہیں ہے آرزو، در آپ کا

ہے مِری جنت، نہ میں اس در سے حاشا جاؤں گا

میں ہوں معذور اضطراب و اشتیاقِ دید میں

ہر گھڑی لکھتا ہوں نامہ اور لکھتا جاؤں گا


حبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اخلاص اور استغراق کی تاثر دیکھئے، دو ہی سال بعد یعنی 1999ء میں انہیں اذنِ حاضری کا مژدہ ملا۔ طارق اسے اپنے عشقِ جنوں خیز کی کامرانی سے تعبیر کرتے ہیں


درِ حضرت پہ میری حاضری کا بن گیا موجب

جنوں بخشا گیا تو کام کا بخشا گیا مجھ کو


پھر درِ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر پہنچ کر نوازشوں کی جو بارشیں ہوئیں، وہ خود ان کے الفاظ میں سنیں:

جو ہیں نامِ آقا پہ مٹ جانے والے

وہ ہیں دائمی زندگی پانے والے

انہیں بھی نہ رحمت سے محروم رکھا

ہمیشہ رہے جو ستم ڈھانے والے

بد اندیش کی بھی بھلائی کے خواہاں

عدو پر بھی ہیں رحم فرمانے والے

نوازا ہمیں تُو نے اتنا کہ اب ہم

کہیں بھی نہیں ہاتھ پھیلانے والے

تُو قاسم اور ہم تیرے محتاجِ نعمت

بحمد اللہ ہم ہیں تِرا کھانے والے

جب آئے تو یہ کس قدر شادماں تھے

خفا ہیں تِرے شہر سے جانے والے

درِ خواجہ سے اور جاؤں کہیں کیوں

یہ لمحے نہیں بار بار آنے والے

تِرے شہر میں موت آئے مجھے بھی

تِرے شہر والے ہوں دفنانے والے

رہے ان میں طارق بھی سرکار شامل

درِ پاک پر ہیں جو لوگ آنے والے


نوٹ: واضح ہو کہ یہ نعت شریف امام احمد رضا بریلوی کی اس مشہور نعت کی بحر، قافیہ اور ردیف میں ہے جس کا مطلع ہے


چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے

مِرا دل بھی چمکادے چمکانے والے


بلاشبہ طارق نے زیرِ نظر نعت میں جدت طرازی اور انفرادیت دکھائی ہے۔

اس وقت طارق سلطانپوری صاحب کا مذکورہ بالا سفر حج بیت اللہ اور زیارت روضہٴ مقدسہ علیٰ صاحبہا التحیة والثناء کے مشاہدات و محسوسات کا تذکرہٴ دلنواز معنون بہ ”تجلیاتِ حرمین“ موسوم بہ اسمِ تاریخی ”رابطہٴ بخشش“ پیش نظر ہے جس کی بنیاد پر ان کی نعتیہ شاعری کے حوالے سے چند کلمات اس ہیچمدان کو لکھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ پروفیسر حسن عسکری کاظمی صاحب (حسن ابدال) نے ”تجلیاتِ حرمین پر ایک طائرانہ نظر“ کے عنوان سے ایک مقدمہ تحریر فرمایا ہے۔ اس کا ایک اقتباس پیش کیا جارہا ہے کیونکہ یہ اقتباس ہمارے ممدوح وصّافِ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت گوئی کے ایک اہم پہلو پر روشنی ڈالتا ہے، وہ ہے ان کی غیرتِ ایمانی اور حمیتِ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم:


”طارق سلطانپوری نے منظوم سفرنامے میں مسجد الجن، غارِ حرا، غار ثور اور المولد النبی کے ذیل میں تفصیلی محاکمہ پیش کیا ہے۔ ان میں موجودہ سعودی حکومت کی توحید اور اس کے تصور کہ ”استخفافِ شانِ مصطفائی“ قرر دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ حبیب خدا کے گھر کو بے زیب و زین چھوڑ کر اسی ارض پاک پر بلند و بالا جاگیریں کھڑی کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ خانہ کعبہ کی بلندی قریباً اڑتیس فٹ ہے لیکن گرد و نواح میں کئی منزلہ عمارتوں کی بلندی ڈیڑھ سو فٹ سے تجاوز کرتی نظر آتی ہے۔ بہرحال اصل بلندی اور ترفع اور معنوی سطوت خدا کے نزدیک ان ظاہری بلندیوں سے مختلف ہے۔ سعودی فرماں رواؤں اور ان کے ہمنواؤں کے نزدیک شعائر اللہ کا مفہوم کیا ہے؟ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے جتنے مقدس آثار ان کے عہد حکومت سے پہے موجود تھے، ان سب کو مٹادیا اور عالمِ اسلام کے احتجاج پر بھی یہ سلسلہ جاری ہے، اس لیے وہ ان آثار سے عقیدت کو بھی شرک تصور کرتے ہیں حالانکہ تعظیم کا مفہوم عبادت سے مختلف ہے اور تعظیم ان صاحبانِ عظمت کے لیے واجب ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے خصوصی انعامات فرمائے اور جن کے راستے پر قائم رہنے کی دعا نماز میں شامل ہے۔ ظاہر ہے ان سے تمسک کے بغیر ہماری نجات ممکن نہیں۔ ان کے ورثے کو باقی رکھنا صاحبانِ ایمان کا وہ حسنِ عمل ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خانہ کعبہ کا طواف اور جملہ مناسکِ حج اور وہ سب مقامات محترم ہیں جہاں جہاں حضور نبی اکرم ( صلی اللہ علیہ وسلم) اور وفا شعار صحابہ کرام (رضی اللہ تعالیٰ عنہم) کے نقوشِ قدم ثبت ہیں۔ ان مقامات پر سجدہ بھی اس لیے کیا جائے کہ ہم گناہگاروں کو یہ اعزاز عطا کیا جاتا ہے اور ہم سجدہٴ شکر بجالاکر بارگاہِ خداوندی میں اپنی دعاؤں کے تسلسل کو باقی رکھ سکیں کہ اس نے تعظیم کے لائق ہستیوں کے حضور ہماری حاضری کا اہتمام فرمایا اور آتشِ جہنم سے بچالیا:


مِرا بدن چھوئے گی نہ دوزخ کہ اس سے ہے

ٹھنڈی ہوائے شہر پیمبر لگی ہوئی


بخشش کے لیے در پہ بلالیتے ہیں آقا

ہم جیسے غلاموں کی انہیں فکر بڑی ہے


اب نارِ جہنم کا مجھے ڈر نہیں طارق

میری بھی نظر گنبد ِ خضرا پہ پڑی ہے


طارق سلطانپوری نے تجلیاتِ حرمین میں مسجد قبلتین، مسجد قبا، کوہِ احد اور جنت البقیع کی زیارت کرتے ہوئے ان سب کی مختصر ترین تاریخ کو بھی سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ فرصت کے لمحوں کو غنیمت خیال کرتے ہوئے نعتِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کہنے اور اسی کیف زا اور پُرنور ماحول میں اس سلسلہ تخلیق کو آگے بڑھانے کا عمل جاری رکھا۔ حضور کے روضہٴ اقدس کی سنہری جالیوں کو نگاہوں سے چومنے اور سامنے کھڑے رہنے کے عرصہ قیام میں عابد نظامی کی زمین میں اشعار کہے۔ یہ تیرہ اشعار کی نعت ان کی عقیدت اور حسنِ اظہار کا مظہر ہے


خالی رہ جائے کسی سائل کا دامانِ طلب

کب یہ امکاں ہے سنہری جالیوں کے سامنے


یقینا ہر زائر ِ حرمِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام زندگی کا یہ خاص لمحہ کہ جب وہ حضور پاک سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل کرتا ہے، اس کی خوش نصیبی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس منظوم سفرنامے کی خوبی یہ ہے کہ عام فہم، رواں اور پاکیزہ اندازہِ بیان کا حامل ہے جسے پڑھتے ہوئے نہ صرف معلومات میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ یہ جی چاہتا ہے کہ طارق سلطانپوری کی طرح ہم بھی اس سعادت سے بہرہ ور ہوں۔“

(تجلیاتِ حرمین، ص: 68 تا 70)


طارق سلطانپوری حرمین شریفین پر قدم رکھتے ہی وہاں کے آثارِ اسلامی بالخصوص سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم ان کے صحابہٴ کرام، ازواجِ مطہرات، اہلِ بیت اطہار اور صلحائے امت سے منسوب مقابر، مساجد اور مکانات کی بے حرمتی اور تباہی دیکھتے ہیں تو خون کے آنسو رونے لگتے ہیں اور غیرتِ عشق و ایمان جوش میں آجاتی ہے اور والیانِ نجد و حجاز کے عزازیلی مسلک و مذہب کو عالمِ اسلام کی خرابی و تباہی و بربادی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اپنے دلِ حزیں کے غم و غصہ کا اظہار کرتے ہیں کہ یا اللہ ان پر قیامت کیوں نہیں ٹوٹ پڑتی؟ خاتم الانبیاء سرورِ ہر دو سرا صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے ولادت، مکان عالیشان جنت نشان کی زیارت کے موقع پر اپنے جذبات کا اظہار ”المولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم“ کے عنوان سے یوں فرماتے ہیں:


درِ دولت پہ ان کے حاضری دی

یہ ہے لاریب میری خوش نصیبی

مقامِ عزت و تکریم ہے یہ

نہایت واجب التعظیم ہے یہ

یہ ہے سرکار کی جائے ولادت

تجلی گاہِ خورشیدِ رسالت

مناسب احترام اس کا نہیں ہے

محبانِ نبی کا دل حزیں

خدا کے گھر میں کچھ بندے خدا کے

ادب نا آشنا ہیں مصطفی کے

پسند ان کو نہیں توقیرِ احمد

مگر پھر بھی ہیں مومن اور موحد

عزازیلی ہے یہ وحدت مآبی

خرابی ہی خرابی ہی خرابی

کرم اے افتخارِ نوح و آدم

”ترحم یا نبیٴ کل ترحم“

9 1 4 1 ھ


ضیائے مولدِ سرکار کی مرہونِ منت ہیں

جہاں میں آج ہیں جس نوع کی جتنی بھی تنویریں

نہیں اس کا تجمل حکمرانوں کو پسندیدہ

اِس ارضِ پاک پر ہرسُو ہیں جن کی خوب جاگیریں

حبیبِ حق کا گھر بے زیب انہوں نے چھوڑ رکھا ہے

حسیں سے ہیں حسیں تر جن کی ہر بستی میں تصویریں

کمر بستہ ہو استخفافِ شانِ مصطفائی پر

”حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں“

(بانگِ درا، خضرِ راہ۔ اقبال)


کوئی بھی ہو ساعت یہاں دلسوز سماں ہے

یہ مولدِ محبوبِ خدائے دو جہاں ہے

بام و در و دیوار سے حال اس کا عیاں ہے

تنویر پہ سلطانیٴ تاریک دلاں ہے

اے مالکِ کُل! روزِ مکافات کہاں ہے؟


طارق سلطانپوری کی شاعری ایک اہم خصوصیت ان کی تاریخ گوئی بھی ہے۔ یہ فن اب شعراء کرام سے اٹھتا جارہا ہے۔ دورِ آخر میں امام احمد رضا فاضلِ بریلوی علیہ الرحمة کو دیگر علومِ فنون کی طرح تاریخ گوئی میں یدِ طولیٰ حاصل تھا۔ شاید، جہاں تک راقم کے علم میں ہے، عصرِ جدید میں برصغیر کے شعراء کی صف میں طارق کے علاوہ کسی اور کی اس فن میں دسترس کی نظیر دکھائی نہیں دیتی۔ اگر کسی صاحب کے علم میں کوئی ایسی شخصیت ہو تو ضرور آگاہ فرمائیں۔


تاریخ گوئی اور تاریخی مادوں کے استخراج کے سلسلے میں دبستانِ نعت کے شعراء میں طارق منفرد مقام رکھتے ہیں۔ جیسا کہ ذکر ہوا امام احمد رضا اس فن کے بھی امام تھے۔ شاید طارق سلطانپوری کی دبستانِ رضا سے بے لوث وابستگی، کلامِ امام سے بطورِ طالبعلم شغف اور اعلیٰ حضرت کی ذات اور علم و فن سے ان کی والہانہ وابستگی اس علم میں ان کی فتوحات کا سبب بنی ہے۔ طارق کو زیرِ نظر فن میں جو حیرت انگیز اور روز افزوں استعداد حاصل ہے، وہ یقینا ان پر امام احمد رضا کے روحانی فیض کے غماز ہیں۔ پروفیسر ارشد ”تجلیاتِ حرمین“ کے مقدمہ میں طارق کی اس صلاحیت پر تبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:


”تاریخی مادے نکالنے میں طارق کو حیرت انگیز ملکہ حاصل ہے اور مہارت حدِّکمال کو پہنچی ہوئی ہے۔ اس خصوصیت کا اظہار تجلیاتِ حرمین میں بھی جابجا ہوا ہے۔ آیاتِ ربانی سے نکالی گئی تاریخوں کے استثناء کے ساتھ میں یہ کہنا پسند کروں گا کہ تاریخی مادے طارق کے سامنے دست بست کھڑے رہتے ہیں۔ نمونے کے طور پر تجلیاتِ حرمین سے چند خوبصورت تاریخوں کا ذکر بے جا نہ ہوگا۔۔ مسجد قبلتین کی حاضری کی تاریخ کہی ہے


از سر و قلب ”لطف“ ہے تاریخ

”خواہشِ مصطفی ہوئی پوری“

39 + 1380 = 1419ھ

نئے غلافِ کعبہ کی تاریخ

میرے دلبر ہو تیرے حسن کی خیر

میرے جانی ”مبارک خلعتِ نو“

9 1 4 1 ھ


سحابِ کعبہ کی بوندوں سے لطف اندوز ہونے کی تاریخ

لطفِ ہاتف سے اس کی ہے تاریخ

”ہوگیا آج خاص لطفِ خدا“

9 1 4 1 ھ


غارِ حرا کی زیارت کی تاریخ ع

حاضری کی کہے ہے یوں تاریخ

”قلزمِ آب و تابِ غارِ حرا“

9 9 9 1 ء


تجلیاتِ حرمین میں کئی جگہ قرآنِ پاک اور حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑی خوبصورتی سے اقتباس کیا گیا ہے، دو مثالیں نقل کرتا ہوں:


قَدْ نَرٰی سے فَوَلِّ وَجْھَکَ سے

آشکارا ہے شانِ مصطفوی


اور


حضور میری خطائیں ہیں حد وعد سے سوا

شفاعتی لکبائر سے حوصلہ ہے بڑا


اسی طرح بعض معروف نعت نگاروں کے مصرعے بھی بڑی خوبصورتی سے استعمال کئے ہیں مثلاً:


نفس گم کردہ می آیند جنید و بایزید ایں جا

ادب گاہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر

(عزت بخاری)


سلام اے آمنہ کے لال اے محبوب سبحانی

(حفیظ جالندھری)


شکرِ خدا کہ آج گھڑی اس سفر کی ہے

(امام احمد رضا بریلوی)


امیر مینائی کی ایک غزل کا مصرع بڑی خوبصورتی سے استعمال کیا ہے

آج کعبہ ہے مِرے پیشِ نظر

”دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے“


طارق نے مادہ ہائے تاریخ کے استخراج کے ساتھ ساتھ امام احمد رضا فاضلِ بریلوی علیہ الرحمة کی شان میں منظوم خراجِ تحسین بھی پیش کیا ہے اور وہ اس موضوع پر گذشتہ 25سال سے لکھ رہے ہیں۔ امام احمد رضا کے علاوہ بھی دیگر علماء و مشائخ اور اہلِ علم شخصیات پر بھی لکھا ہے۔ 2008ء کی امام احمد رضا کانفرنس کے موقع پر ”زیبا باغِ معرفتِ حق“ (1921ء) کے عنوان سے چھوٹی بحر میں ایک خوبصورت منقبت کہی تھی جس میں اعلیٰ حضرت کی ذات میں علم و عشق کے حسین امتزاج کی اعلیٰ شان کو نہایت خوبصورت پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ منقبت سالنامہ معارفِ رضا 2008ء میں شائع ہوئی، راقم ان کی تاریخ گوئی اور منقبت گوئی کے ایک نمونے کے طور پر اہلِ علم کی تفنن طبع اور دعوتِ فکر کے لیے پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے۔


زیبا باغِ معرفتِ حق

1921ء

(سالِ وصال 1340ھ/ 1921ء)


اجملِ ہر جہاں کا دِلدادہ

والہٴ ماہِ انورِ طیبہ

مصطفی کا غلام شاہ حشم

عبد ذی شانِ سرور طیبہ

وہ ثنا خوانِ مصطفی بے مثل

بے بدل وہ ثناگرِ طیبہ

اس کا ممدوح اک ملیح عرب

اس کا موصوف دلبر طیبہ

اس کے اشعار نعت کا ہر شعر

عکسِ زیبائے منظرِ طیبہ

اس کی تحریر و گفتگو کا خصوص

ذکر ایمان پرورِ طیبہ

جان و دل سے عزیز تر اس کو

ہر وہ شے جو ہے مظہرِ طیبہ

فاتحِ مکہ کا مدِیح نگار

نعت گوئے مُظفّرِ طیبہ

قائدِ کاروانِ عشقِ حبیب

ترجمانِ قد آورِ طیبہ

عاشق و واصف محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) تھا

مثل حسَّان منبر طیبہ

اس کا سالِ وصال ہے طارق

جلوہ ہائے پیغمبر طیبہ

0 4 3 1 ھ


جیسا کہ تحریر کیا گیا کہ طارق سلطانپوری کا شمار عصرِ جدید کے ان نعت گو شعرائے کرام میں ہوتا ہے جنہوں نے روایاتی نعتیہ شاعری کی اہم خوبیوں کو برقرار رکھتے ہوئے افکار و خیالات کو جدید اسلوب پر وسعت بخشنے کی کوشش کی ہے۔ گفتگو کے نئے ڈھنگ اور نئے سلیقوں کو متعارف کرایا ہے۔ اسی درج بالا منقبت کو دیکھ لیں: فاتحِ مکہ کا مدیح نگار، نعت گوئے مظفر طیبہ، قائدِ کاروانِ عشقِ حبیب، ترجمانِ قد آور طیبہ کیسی اچھوتی اور زوردار ترکیب ہیں۔ سیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کے نئے زاویئے پیش کئے ہیں۔ عشق و سرمستی کا جذبہ پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ نعت گوئی کے حدود و قیود اور ادب و آداب کو ملحوظ رکھنے کی راہ دکھائی ہے اور پیغامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم عام کرنے کا ذریعہ بھی بنایا ہے۔ نعتیہ ادب میں فکر کی بلندی کے ساتھ الفاظ کے ذخیروں کو بڑھایا اور موجودہ ذخائر کے معانی کو وسعت دینے کی کوشش کی گئی جس سے اردو ادب کا دامن وسیع سے وسیع تر ہوا ہے۔ مثال کے طور پر طارق کے کلام سے ایک نمونہ پیش کرتے ہیں۔ نظم کا عنوان ہے ”منیٰ“۔ یہ دورانِ حج مناسکِ حج ادا کرنے کے بعد منیٰ میں قیام کی بظاہر ایک منظر کشی ہے لیکن طارق نے منظر کشی کے ساتھ امتِ مسلمہ کو جگہ جگہ رُک کر جو پیغامات دیئے ہیں، اس نے نعت کی افادیت اور مقصدیت میں اضافہ کردیاہے۔


ہے سر کوبی شیاطیں کی ضروری

شیاطیں بانیانِ فتنہ و شر


منیٰ کے تین شیطانوں کی خاطر

چنے مین نے بھی مزدلفہ سے کنکر


ہجومِ خلق بے اندازہ و حصر

اِک انسانوں کا متلاطم سمندر


تمازت کی نہ کوئی حبس کی حد

نہ گھبرایا غلامِ شاہِ کوثر


رسائی تھی ہدف تک گو نہ آساں

چلا لیکن خدا کے آسرے پر


عنایت سے خدا و مصطفی کی

سہولت ہی سہولت تھی میسر


مسلسل تین دن باعزمِ راسخ

لگائی ضرب شیطانوں کے سر پر


انہیں دھتکارا ابراہیم (علیہ السلام) نے جب

نظر کے سامنے آیا وہ منظر


حریصِ مرضی و خوشنودیٴ رب

خدا کا عبدِ خاص، اللہ اکبر


ہوا بیٹے کی قربانی پہ تیار

رضا جوئے خدائے پاک و برتر


ارادہ پختہ تھا نیت تھی صادق

ملی اس کو رضائے ربِّ اکبر


ہوا پیدا اُسی کے خانداں میں

خدا کا آخری پیارا پیمبر


ادا کی اُس نے بھی سنت خلیلی

وہ جو ہے بدر کا سالارِ لشکر


یقیں افروز ہے تاریخ اس کی

منیٰ کی داستاں ایمان پرور


یہ سنت سیکڑوں سالوں سے اب تک

ادا کی جارہی ہے باتواتر


رمی کی اور قربانی کی حکمت

ہے واضح خوب اربابِ نظر پر


(تعالی اللہ حزب اللہ کی شوکت)

شکوہِ اہلِ حق، اللہ اکبر


ہوئی تاریخ اس منظر کی موزوں

تعالیٰ شانہ، ”یہ پیارا منظر“

9 1 4 1ھ

پہلا شعر کس قدر ایمان پرور اور فکر انگیز ہے۔ منیٰ کے میدان سے امت مسلمہ کے لیے اس سے بڑا پیغام نشر نہیں ہوسکتا۔ یہ طارق سلطانپوری کی عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی سے مجلہ فکر، اقبال کے الفاظ میں ”دانشِ نورانی“ کا کمال ہے۔ آج اسلامی ممالک میں فتنہ و شر کی بھرمار ہے۔ ہمیں اپنے اندر کے شیاطین کی بھی سرکوبی کرنی ہوگی۔ ساتھ ساتھ شاعر حج کے مقصد کی طرف بھی اشارہ کررہا ہے۔ اراکینِ حج کی ادائیگی محض ایک رسم نہیں ہیں بلکہ ان سے صفائی قلب، بالیدگیٴ روح مقصود ہے، اگر یہ نہیں تو حج ایک سعیٴ لاحاصل ہے اور وقت، مال اور وسائل کی بربادی۔ پھر منظرکشی کا کمال ایک ایک مصرعہ سے ظاہر ہوتا ہے، ملاحظہ ہو


انہیں دھتکارا ابراہیم نے جب (علیہ الصلوٰة والسلام)

نظر کے سامنے آیا وہ منظر


شاعر، قاری کو ”دورِ براہیم“ کی سیر کرادیتا ہے جس کے لیے اقبال نے کہا ہے: ”یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے۔“ اور لفظ ”دھتکارا“ شیطان کے مقابل کس قدر زور آور اور نفرت آگیں استعارہ ہے۔ اسی طرح اس سے قبل والا شعر ملاحظہ کریں، ”باعزم راسخ شیاطیں کے سروں پر ضربِ کاری“ نفسِ امارہ کو کچلنے کی کیسی اچھی ترغیب و تشویق ہے۔ پھر سیدنا حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام کے لیے ”حریص مرضی و خوشنودیٴ رب“ کس قدر پیاری ترکیب و کنایہ ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں بیٹے کی قربانی کے صلے میں جو نعمت کبریٰ عطا فرمائی، اسے رب کی ”رضائے اکبر“ کہہ کر نسلِ ابراہیمی میں سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی طرف کیا خوبصورت کنایہ ہے۔ پختہ ارادہ اور نیت صادق کی برکات کا ثمرہ ”رضائے اکبر“ کا حصول قرار دے کر اخلاصِ نیت اور عزم مصمم کی اہمیت کو کس خوبصورتی سے اجاگر کیا جارہا ہے۔ دوسری جگہ رمی اور قربانی کی حکمت و فلسفہ کی طرف اشارہ کرکے ”اربابِ نظر“ کو غفلت سے ہوشیار کیا جارہا ہے۔ غرض کہ اول شعر سے آخر شعر تک یہ نعت مقصدیت سے پُر ہے اور پھر منیٰ کے ماحول کی منظر نگاری اس پر مستزاد۔ زیر نظر نعت طارق کی اعلیٰ شعری صلاحیتوں کا اچھا نمونہ، خوبصورت اور بامقصد شاعری کی عمدہ مثال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ طارق کے کلام پر لب کشائی کرنا کسی ماہرِ فن کا ہی کام ہے۔ راقم کو اپنی بے بضاعتی کا احساس ہے لہٰذا اس مضمون میں الفاظ و بیان اور تشریح و تعبیر کی کوئی غلطی نظر آئے تو تعجب نہیں۔ راقم مفید مشوروں اور اصلاح کا کھلے دل سے خیر مقدم کرے گا۔


بلاشبہ طارق کا کلام ایسا ہے کہ عصرِ حاضر کے ممتاز نعت گو شعراء کے مقابلہ میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ طارق طبیعتاً نہایت خلیق، منکسر المزاج، درویش صفت انسان ہیں۔ ذکر و فکرِ مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں ہمہ وقت مستغرق رہنا ان کی زندگی کا شعار ہے۔ مزاجاً شہرت گریز ہیں۔ یہ ہمارا فرض ہی نہیں، بلکہ ضرورت ہے کہ طارق سلطانپوری جیسے عظیم وصّافِ نبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعتیہ شاعری کی طرف اہلِ علم، ادباء، شعراء اور ناقدینِ فن کی توجہ مبذول کرائیں۔ علمی و ادبی نشستوں کا انعقاد کرکے ان کی نعت گوئی پر تحقیقی مقالے لکھوائے جائیں۔ برصغیر کے مستند شعراء اور ناقدینِ فن سے ان کے مجموعہ کلام پر نقد و نظر اور تبصرے لکھوائے جائیں۔ میٹرک کی سطح سے لے کر جامعات اور کالجز کی سطح تک نصاب میں طارق سلطانپوری کے کلام کو منظور کرایا جائے۔ جامعات میں ان کے مجموعہ کلام پر ایم۔فِل اور پی۔ایچ۔ڈی کے مقالے لکھوائے جائیں۔ جامعات اور تحقیقی اداروں کی جانب سے نعتیہ ادب کے فروغ کے سلسلہ میں طارق کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں اسناد اور تمغے دیئے جائیں۔ ان جیسی شخصیات ملت کا بہت بڑا اثاثہ ہیں۔ ہمیں چاہئیں کہ ہم ان کی قدر کریں۔


بنام آں کہ جاں را فکرت آموخت

چراغِ دل بہ نورِ جاں برا فروخت


وصلی اللّٰہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا مولانا محمد وعلی اٰلہ وازواجہ واصحابہ وذریاتہ والیاء ملتہ اجمعین وبارک وسلم۔

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

طارق سلطان پوری | وجاہت رسول قادری