شوکت عابد کی ملّی شاعری۔ایک تجزیاتی مطالعہ ۔ ڈاکٹر طاہر مسعود

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Naat Kainaat Naat Rang.jpg

مقالہ نگار : ڈاکٹر طاہر مسعود۔کراچی

برائے : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 26

شوکت عابد کی ملی شاعری......ایک تجزیاتی مطالعہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ABSTRACT:

Poetry of Shaukat Aabid contains his heart felt pain for Muslim Ummah.He has called Muslims towards teachings of Holy Prophet Muhammad (S.A.W) that every Muslim is a family member of all Muslim population of the world. This feeling has aroused the sense of creating poems in perspective of world wide cruelty being faced by Kashmir, Palestine, Afghanistan, Iraq and other Muslim countries. This article focused upon the poetry written by Shaukat Aabid in perspective of Palestine. The poetry reflects thought provoking campaign for awakening spirit of brotherhood among Muslims of the world. Some soul touching couplets cited to show impressiveness of poetic voice in the article besides presenting whole poem at the end.

شوکت عابد کسی دینی یاسیاسی جماعت سے انسلاک کے بغیر بھی ایک ایسے دل کے مالک ہیں جس میں قومی اور ملی درد شدت سے وفور کر تاہے یہ کیفیت ان میں آج کی نہیں اسی زمانے کی ہے ،جب شعر و شاعری سے ان کے سمبند ھ کو بہت زیادہ دن نہیں ہوئے تھے وہ طالب علم تھے کہ ڈھاکہ لہو رنگ ہوا ۔ہمارے نوے ہزار سے اوپر مسلح پاک جوان لڑے بغیر اپنوں کی سازش و بے غیرتی سے دشمن کے قیدی ہو گئے تب شوکت نے نہایت دردو کرب کی کیفیت میں ڈوبی ہوئی نظم لکھی :

’’آج ڈھاکہ لہو رنگ ہے‘‘

دنیا بدل گئی مگر شوکت کی کیفیت قلبی میں کوئی تغیر نہیں آیا امت مسلمہ ان کے نزدیک جسد واحد ہے حدیث بھی یہی ہے کہ یہ جسد واحد ہے کہ ایک حصے پر زخم لگے تو دوسرے حصے کو تکلیف ہوتی ہے خیا ل کیجیے اس امت کے جسد واحد پر آج کتنے زخم لگے ہیں مسلۂ کشمیر ،مسلۂ شام،مسلۂ افغانستان و عراق اور ان سب سے پرانا مسئلہ ، مسلۂ یعنی فلسطین ۔جب زخم پرانا ہو جائے تو اس پر پپڑیاں جم جاتی ہیں جسم کے بقیہ حصے بھی اسی زخم کو حقیقت سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں لیکن جب اس پپڑی کو کھر چ دیا جائے تو زخم پھر سے ہرا ہو جاتا ہے رسنے لگتا ہے ۔

مسلۂ فلسطین جسے آج امت مسلمہ نے ایک تلخ کھردری حقیقت سمجھ کر قبول کر لیا ہے اسرائیل کا ظلم بھی حقیقت مظلوم فلسطینیوں کی مظلومیت بھی حقیقت مگر ہمارے دل درد مند کے مالک شوکت عابد اس حقیقت کو قبول کرنے سے انکاری ہیں وہ متنبہ کرتے ہیں :

جس آگ میں جلتے ہیں دردو بام فلسطیں

کل اپنے گھروں تک نہ پہنچ جائے یہی آگ

اور یہ تنبیہ کتنی سچی ہے افسوس یہ آگ کابل میں ،دمشق میں، قاہرہ میں ، سری نگر میں غرض عالم اسلام کے ایک قابل لحاظ حصے کو یہ آگ جھلسائے دیتی ہے خود پاکستان دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ میں شر کت کے سبب آگ اور خون میں لہو لہان ہے سو اس بحران سے نکلنے کا واحد راستہ شوکت یہ تجویز کرتے ہیں :

آتی ہے فلسطین کی گلیوں سے صدا آج

اے مردِ جواں اُمتِ مسلم کے ذرا جاگ

مگر سوال یہ ہے ’’ امت مسلم کے جواں مردوں‘‘ کے جاگنے کے معنی کیا ہیں؟ اخبارات بتاتے ہیں کہ فلسطین کے نہتے بچوں اور عورتوں پر جب اسرائیل بم برساتا اور راکٹوں کی بارش کرتا ہے تو امت مسلمہ میں غالباً سب سے شدید عمل پاکستان میں ہوتا ہے ،جہاں جلسے جلوس نکلتے ہیں اسرائیلی پرچم نذر آتش کیے جاتے ہیں اور اس کے ظلم و ستم کی کھل کر مذمت ہوتی ہے لیکن ایسا برسہابرس سے ہو رہا ہے ان جلسوں اور مذمتی قرار دادوں سے نہ تو اسرائیل کے ظلم میں کمی آئی ہے اور نہ طوقِ مظلومیت فلسطینوں کی گردن سے اترا ہے۔تو پھر کیا ہو ؟ شوکت بتاتے ہیں کہ’’ امت مسلمہ کے مرد جواں ‘‘کے جاگنے کا اولین تقاضا تو یہی ہے کہ وہ فلسطین کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھیں اور اسے اپنے قلب کی گہرائی میں ڈوب کر محسوس کریں جیسا کہ شوکت کی نظم سے ظاہر ہے:

جو ارضِ فلسطیں میں بہا ہے مراخوں ہے

دل میرا ہے وہ تیغ ستم سے جو کٹا ہے

ماتم کدۂ جاں میں مرے جھانک کے دیکھو

اک مجلس غم ہے جو شب و روز بپا ہے

  • *

دل جس کا پھٹا غم سے وہ اک باپ بھی میں ہوں

بارود سے جھلسا ہوا چہرہ بھی مرا ہے

وہ بھائی ہوں پوشاک ہے تر جس کی لہو میں

سینے سے لگے باپ کا لاشہ بھی مرا ہے

مسمار ہوا ہے جو مکاں میرا مکاں ہے

اجڑا ہے جو بے دردی سے میرا ہی چمن ہے

دل اپنا فلسطیں سے جدا کر نہیں کر سکتا

یہ ارض فلسطین بھی میرا ہی وطن ہے

گویا امُت مسلم کی بیداری کے معنی ’’پورے وجود ‘‘ کو اپنا وجود سمجھنا اور اس کے دکھ کو اپنے دکھ کی طرح محسوس کرنا ۔شوکت بتاتے ہیں کہ جب امت مسلمہ کے جوانوں میں یہ کیفیت پیدا ہو جائے تو دوسرے مرحلے میں اپنے دکھوں اور غموں کے تدراک کے لیے انھیں آنحضرت سے ایک رشتۂ تازہ ایک زندہ تعلق استوار کر ناہوگا کیوں کہ بقول شوکت:

یہ سلسلۂ جبر تھمے گانہ کسی طور

ظالم کے تسلط سے رہائی نہ ملے گی

جب تک شہ امت سے جڑے گی نہ یہ امت

پستی سے مسلماں کو بلندی نہ ملے گی

حقیقت بھی یہی ہے کہ:

ہو جائے قوی ترشہِ بطحیٰ سے جو نسبت

پا سکتے ہیں ہم آج بھی کھوئی ہوئی عظمت

کھل جائے اگر دل میں درِعشق محمد

اس امتِ مسلم کی بدل سکتی ہے قسمت

چوں کہ شاعر کی شہ بطحیٰ سے نسبت قوی ہے کہ وہ شاعر کے نانا بھی ہیں لہٰذا وہ امت مسلمہ کی طرف سے نم دیدۂ و نادم درخواست گزارہیں:

امید کرم لے کے میں نم دیدۂ و نادم

آیا ہوں بالآخر سرِ دربار مدینہ

دیکھی نہیں جاتی ہے زبوں حالئ ملت

رحمت کی نظر کیجیے سرکار مدینہ

مجھے قوی امید ہے کہ شوکت عابد کی یہ مناجات جو سرکار مدینہؐ کے دربار میں کی گئی ہے رائگاں نہیں جائے گی اور اسی نظرِ رحمت سے امتِ لاچار میں ایک بار پھر آثار بندگی پیدا ہوں گے اور اسی احساس بندگی سے وہ بیداری ،حرارت اور تغیر جو امت مسلمہ کی تقدیر کو بدلنے کے لیے دوائے اکسیر ثابت ہوں گے ! انشاء اللہ!

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ٌ اے شاہ امم امت لاچار کی سن لیں

(غزہ میں اہلِ فلسطین پر اسرائیلی مظالم کے تناظر میں)

اے چشمِ فلک دیکھ ذرا سوُئے فلسطیں

بارود کی بوُ پھیلی ہوئی ساری فضا میں

ہر سوُ نظر آتا ہے یہاں حشر کا منظر

ہے ایک قیامت سی بپا آج غزہ میں

پھر دشمنِ حق ،حق کو دبانے کے ہے درپے

پھر دام مصیبت میں مسلماں ہے گرفتار

پھر ارضِ فلسطیں میں بہانے کے لیے خوں

اس عہد کے چنگیز و ہلاکو ہوئے تیار

پھر سینکڑوں ماؤ ں کی اجڑنے لگیں گو دیں

برباد ہو ا جاتا ہے آباد فلسطیں

ہر کوچۂ و بازار میں ہنگام اجل ہے

زنداں کی طرح لگتا ہے آزاد فلسطیں

جس آگ میں جلتے ہیں درو بامِ فلسطیں

کل اپنے گھروں تک نہ پہنچ جائے یہی آگ

آتی ہے فلسطین کی گلیوں سے صدا آج

اے مردِ جواں امتِ مسلم کے ذرا جاگ

بس میں ہو اگر میرے میں اک حشر اٹھا دوں

فریاد وفغاں سے درو دیوار ہلا دوں

اے اہل فلسطین تمہیں نذر کروں کیا

اکِ حرف تسلی کے سوا میں تمہیں کیا دوں

افسوس کہ خود اپنی تقاصیرکے ہاتھوں

محروم ہو ا مسجدِ اقصٰی سے مسلماں

افسوس کہ باقی نہ رہی جراء ت و ہمت

رخصت دلِ مسلم سے ہوئی قوتِ ایماں

باقی نہ رہا جذبۂ ہمدردی و ایثار

دل ہوگئے دنیاکی محبت میں گرفتار

نیرنگئی خوش حالئ مغرب کے اثر سے

مشرق بھی ہے افکارِ فرنگی کا پرستار

غیرت سے حمیت سے ہے محروم مسلماں

نے حریت فکر نہ ہے عظمت کردار

محرومِ سماعت ہے فلسطین کی فریاد

ہے بسترِ غفلت پہ پڑی امت بیمار

صوفی بھی ہے رنگینئ دنیا کے اثر سے

عشاق ہوئے عشق کی گہرائی سے محروم

قائم رہے کس طرح سے منبر کا تقدس

عالم بھی ہوں جب دانش و دانائی سے محروم

امیدِ کرم لے کے میں نم دیدۂ و نادم

آیا ہوں بالآخر سرِ دربارِ مدینہ

دیکھی نہیں جاتی ہے زبوں حالئ مسلم

رحمت کی نظر کیجیے سرکار مدینہ

اکِ بے عمل و غازئ گفتارِ کی سُن لیں

اکِ شاعرِ گُم نام و گنہگار کی سُن لیں

سرکارِ مدینہ دل بیمار کی سُن لیں

اے شاہِ امم امتِ لاچار کی سُن لیں

جو ارضِ فلسطیں میں بہا ہے مرا خوں ہے

دل میرا ہے وہ تیغ ستم سے جو کٹا ہے

ماتم کدۂ جاں میں مرے جھانک کے دیکھو

اکِ مجلس غم ہے جوشب و روز بپا ہے

دل جس کا پھٹا غم سے وہ اک باپ ہوں میں بھی

بارُود سے جُھلسا ہوا چہرہ بھی مرا ہے

وہ بھائی ہوں پوشاک ہے تر جس کی لہو میں

سینے سے لگے باپ کا لاشہ بھی مرا ہے

مسمار ہوا ہے جو مکاں ،میر امکاں ہے

اجڑا ہے جو بے دردی سے میرا ہی چمن ہے

دل اپنا فلسطیں سے جدا کر نہیں سکتا

یہ ارضِ فلسطین بھی میراہی وطن ہے

انباریہ لاشوں کا اٹھانا نہیں ممکن

جو دیکھ رہا ہوں وہ بتانا نہیں ممکن

دل چوُر ہے زخموں سے ،زباں گنگ ہے میری

میرے لیے یہ عید منانا نہیں ممکن

پرواز کی طاقت ہے نہ منزل کی لگن ہے

یہ حال رہا گر ،تو نہ بدلیں گے یہ حالات

دیتے ہیں گواہی یہی تاریخ کے صفحات

’’ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات‘‘

منہ زور ہو، عیار ہو دشمن ، تو مقابل

کردار کا اکِ حیدرکرارّ ہے درکار

بکھر ی ہوئی امت کو بچانے کے لیے پھر

شیخ احمدِ سرہندی ؒ سا سالار ہے درکار

مجبور ہوُں اتنا کہ بجز نالہء و فریاد

بارِ غمِ دل اپنا میں کم کر نہیں سکتا

دل گیر ہوں اتنا کہ نہیں طاقتِ اظہار

رودادِ فلسطین رقم کر نہیں سکتا

یہ سلسلۂ جبر تھمے گا نہ کسی طور

ظالم کے تسلط سے رہائی نہ ملے گی

جب تک شہِ امت سے جڑے گی نہ یہ امت

پستی سے مسلماں کو بلندی نہ ملے گی

ہو جائے قوی ترشہِ بطحا ؐ سے جو نسبت

پا سکتے ہیں ہم آج بھی کھوئی ہوئی عظمت

کُھل جائے اگر دل میں درِ عشق محمد

اس امتِ مسلم کی بدل سکتی ہے قسمت