سیماب اکبر آبادی از ڈاکٹر شہزاد احمد

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


از : ڈاکٹر شہزاد احمد

سیماؔب اکبر آبادی، محمد عاشق حسین صدیقی (1880ء ۔ 1951ء)

علامہ سیماب اکبر آبادی جدوجہد آزادی اور تحریک پاکستان کے عظیم مبلّغ تھے۔ مختلف رسائل و جرائد سے وابستہ رہے اور اپنی نوکِ قلم اور اپنے اعجازِ سخن کے ذریعے ملک و ملت کی ترقی و بقا کے لیے راستوں کی نشاندہی کرتے رہے۔ تحریک پاکستان کے دوران انھوں نے برصغیر کے مسلمانوں کی آزادی اور علیحدہ وطن کے قیام کے لیے اپنی تحریروں سے بڑا مؤثر کام لیا۔ قاید اعظم کے ہر اقدام کی ستائش کرنے والوں میں ان کا نام سرفہرست ہے۔

سیمابؔ تخلص، اکبر آبادی علاقائی نسبت اور پیدائشی نام محمد عاشق حسین صدیقی ہے۔ ان کی ولادت اکبر آباد، آگرہ (بھارت) میں 1880ء میں ہوئی۔ ان کے والد مولوی محمد حسین مرحوم فاضل عصر ، عالم متبحر اور انتہائی پابند صوم و صلوٰۃ تھے۔ وہ اجمیر شریف میں ٹائمس آف انڈیا پریس کے اعلیٰ افسر تھے۔

سیماب اکبر آبادی نے ابتدائی تعلیم اس دور کے جیّد اساتذہ سے حاصل کی۔ شاعری گھٹی میں پڑی تھی۔ عربی فارسی کی کتابیں پڑھنے کے بعد انگریزی اسکول میں داخل ہوئے۔ ابھی وہ ایف اے کا آخری امتحان بھی نہ دینے پائے تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا فرزند اکبر ہونے کی وجہ سے تمام بار ان کے ناتواں کاندھوں پر آن پڑا۔ ریلوے میں ملازم ہو گئے۔ کچھ عرصہکانپور اور اجمیر میں بھی رہے۔

مسلسل جدوجہد کے بعد بھی معاشی حالات درست نہ ہوئے۔ ملازمت ترک کر کے آگرہ چلے گئے اور رسالہ ’’مرصع‘‘ کے مدیر مقرر ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد ٹونڈلہ سے ’’آگرہ اخبار‘‘ جاری کیا۔ سلسلۂ معاش کے سبب چند سال لاہور میں بھی رہے۔ 1921ء میںآگرہ میں تصنیف و تالیف کا ایک ادارہ ’’قصر الادب‘‘ قائم کیا۔ ان ہی ایام میں یکے بعد دیگرے تین رسالے پیمانہ، ثریا اور شاعر نکالے۔ مؤخر الذکر اگست 1947ء تک جاری رہا۔ قیام پاکستان کے بعدکراچی میں مستقل سکونت اختیار کی۔ حکومتِ پاکستان نے ان کی بے پناہ ادبی خدمات پر نشانِ سپاس سے بھی نوازا۔

نامور شاعر، ادیب و نقاد، مترجم و صحافی اور درجنوں کتب کے مصنف و مؤلف علامہ سیمابؔ اکبر آبادی 31؍ جنوری 1951ء کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ قاید اعظم کے مزار سے قریب آپ کی آخری آرام گاہ جیکب لائن کراچی میں واقع ہے۔

علامہ سیمابؔ اکبر آبادی کو فصیح الملک نواب مرزا داغؔ دہلوی سے شرف تلمذ حاصل تھا۔ ان کے شاگردوں کی کثیر تعداد ہے۔ سیماب اکبر آبادی نے مختلف موضوعات پر متعدد کتب لکھیں۔ ’’سازِ حجاز‘‘ 1984ء ان کی نعتوں کا مجموعہ ہے۔ اس کے علاوہ ان کا قرآنِ مجید و فرقانِ حمید کا منظوم ترجمہ ’’وحیِ منظوم‘‘ بھی یادگار ہے۔ خواتین کے لیے ’’زنانہ میلاد نامہ‘‘ لکھا۔

سیماب اکبر آبادی کا بنیادی وصف آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات گرامی سے بے پناہ عشق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نعت گوئی اور ان کی قومی و ملی شاعری میں جگہ جگہ اللہ کے پیارے رسول صاحبِ لولاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی الفت و محبت کے حوالے ملتے ہیں۔ انھوں نے غزلوں کے علاوہ منظوماتِ جدیدہ میں بھی نام پیدا کیا۔ اپنی شاعری میں برصغیر کے جملہ مسائل پر اظہار خیال کیا۔

’’قاید کی خوشبو‘‘ کے عنوان سے ان کا مجموعہ کلام بھی شائع ہوا۔ تحریک آزادی کے دوران سیماب اکبر آبادی کی تخلیقات میں شاعرانہ اجتہاد اور سیاسی نظریات کی پختگی واضح رہی۔ انھوں نے اپنے کلام سے مسلمانوں کے دلوں میں آزادی کی لہر پیدا کر دی جس نے آگے چل کر ایک انقلابی سیلِ رواں کی صورت اختیار کرلی۔ ’’سازِ حجاز‘‘ سیماب اکبر آبادی کا مجموعہ کلام ہے۔ جس میں نعتوں کے علاوہ دیگر کلام بھی شامل ہیں۔ سیماب اکیڈمی کراچی نے 1986ء میں اس کی طباعت دوم کا اہتمام کیا تھا۔ 192 صفحات پر مشتمل یہ کتاب مجلد شائع کی گئی ہے۔

’’وحی منظوم‘‘ سیماب اکبر آبادی کا منظوم قرآن پاک ہے۔ جسے سیماب اکیڈمی پاکستان کراچی نے نہایت اہتمام کے ساتھ 1981ء میں شائع کیا ہے۔ 976 صفحات پر مشتمل یہ منظوم ترجمہ مجلد شائع ہوا ہے۔

سیماب اکبر آبادی کی نعت گوئی ان کی زودگوئی، سخن فہمی اور قادر الکلامی سے عبارت ہے۔ ان کی نعتیں عوام الناس اور بالخصوس حلقۂ خواص میں بے حد پسند کی جاتی ہیں۔