سنتے ہیں کہ محشر میں صرف اُن کی رسائی ہے

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

شاعر: امام احمد رضا خان بریلوی

سنتے ہیں کہ محشر میں صرف اُن کی رسائی ہے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

سنتے ہیں کہ محشر میں صرف اُن کی رسائی ہے

گر اُن کی رسائی ہے لو جب تو بن آئی ہے


مچلا ہے کہ رحمت نے امید بندھائی ہے

کیا بات تِری مجرم کیا بات بَنائی ہے


سب نے صفِ محشر میں للکار دیا ہم کو

اے بے کسوں کے آقا اب تیری دہائی ہے


یوں تو سَب انھیں کا ہے پَر دل کی اگر پوچھو

یہ ٹوٹے ہوئے دل ہی خاص اُن کی کمائی ہے


زائر گئے بھی کب کے دِن ڈھلنے پہ ہے پیارے

اٹھ میرے اکیلے چل کیا دیر لگائی ہے


بازارِ عمل میں تو سودا نہ بنا اپنا

سرکارِ کرم تجھ میں عیبی کی سَمائی ہے


گرتے ہووں کو مژدہ سجدے میں گرے مولیٰ

رو رو کے شفاعت کی تمہید اٹھائی ہے


اے دل یہ سلگنا کیا جلنا ہے تو جل بھی اٹھ

دَم گھٹنے لگا ظالم کیا دھونی رَمائی ہے


مجرم کو نہ شرماوٴ احباب کفن ڈھک دو

منھ دیکھ کہ کیا ہوگا پردے میں بھلائی ہے


اب آپ ہی سنبھالیں تو کام اپنے سنبھل جائیں

ہم نے توکمائی سب کھیلوں میں گنوائی ہے


اے عشق تِرے صدقے جلنے سے چُھٹے سَستے

جو آگ بجھادے گی وہ آگ لگائی ہے


حرص و ہوسِ بد سے دل تو بھی ستم کرلے

تو ہی نہیں بے گانہ دنیا ہی پَرائی ہے


ہم دل جلے ہیں کس کے ہَٹ فتنوں کے پر کالے

کیوں پھونک دوں اِک اُف سے کیا آگ لگائی ہے


طیبہ نہ سہی افضل مکّہ ہی بڑا زاہد

ہم عِشق کے بندے ہیں کیوں بات بڑھائی ہے


مطلع میں یہ شک کیا تھا واللہ رضا واللہ

صرف اُن کی رسائی ہے صرف اُن کی رسائی ہے

............