زباں پہ بار الہا یہ کس کا نام آیا

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

زباں پہ بار الہا یہ کس کا نام آیا

کہ میرے نطق نے بوسے میری زباں کے لئے ۔

اسد اللہ خاں غالب


یہ شعر نعتیہ محافل کا بہت خاص شعر ہے اور نقیبان کی زبان پر تو بطور خاص سجتا ہے ۔ درحقیقت یہ شعر نواب تجمل کے لئے لکھے ہوئے قطعے کا حصہ ہے ۔

پروفیسر اکرم رضا کی رائے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مدتوں پہلے راقم اور محترم جناب پروفیسر محمد اقبال جاوید ایک ہی جگہ گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ میں پڑھاتے تھے۔ جب غالب پڑھاتے ہوئے یہ شعر آجاتا:

زبان پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا

کہ میرے نطق نے بوسے مری زبان کے لیے

تو ہم یک زبان ہوکر یہی کہتے کہ غالب! تو نے کیا غضب کیا۔ کاش تو نے تجمل حسین خاں کے آرام کو خراج پیش کرنے کے بجائے اسے صاف طو رپر نعت کا شعر قرار دے دیا ہوتا تو بات ہی کچھ اور ہوتی، عاقبت بھی سنور جاتی (بہر حال عاقبت تو خدا کے حوالے ہے) نعت کا یہ شعر حضورﷺ کی کسی نہ کسی ادا سے تعلق رکھتا ہے ۔ پھر یہ اشعار نعت کے کیسے ہوگئے۔ زیادہ سے زیادہ محبت اظہار کرنے کے لیے ڈاکٹر صاحب یہ فرما سکتے تھے۔

کہ کاش انھوںنے اتنے خوب صورت اشعار نعت کی نذر کیے ہوتے <ref> "نعت اور تنقید نعت "از ڈاکٹر ابوالخیر کشفی کا ایک جائزہ </ref>

مکمل غزل[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نوید امن ہے بیداد دوستاں کے لئے

رہی نہ طرزِ ستم کوئی آسماں کے لئے


بلا سے !گر مژہِ یار تشنۂ خوں ہے

رکھوں کچھ اپنی ہی مژگانِ خوں فشاں کے لئے


وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناسِ خلق اے خضر

نہ تم کہ چور بنے عمرِ جاوداں کے لئے


رہا بلا میں بھی، میں مبتلائے آفتِ رشک

بلائے جاں ہے ادا تیری اک جہاں کے لئے


فلک نہ دور رکھ اُس سے مجھے ، کہ میں ہی نہیں

دراز دستئِ قاتل کے امتحاں کے لئے


مثال یہ مری کوشش کی ہے کہ مرغِ اسیر

کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کے لئے


گدا سمجھ کے وہ چپ تھا، مری جو شامت آئے

اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لئے

۔ق۔


بہ قدرِ شوق نہیں ظرفِ تنگنائے غزل

کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لئے


دیا ہے خلق کو بھی، تا اسے نظر نہ لگے

بنا ہے عیش تجمُّل حسین خاں کے لئے


زباں پہ بارِ خدایا! یہ کس کا نام آیا

کہ میرے نطق نے بوسے مر ی زباں کے لئے


نصیرِ دولت و دیں اور معینِ ملّت و ملک

بنا ہے چرخِ بریں جس کے آستاں کے لئے


زمانہ عہد میں اُس کے ہے محوِ آرائش

بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لئے


ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے

سفینہ چاہیے اس بحرِ بیکراں کے لئے


ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا

صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے

ناصر کاظمی کی تظمین[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ان اشعار پر ناصر کاظمی نے نعتیہ تظمین بھی کہی ہے ناصر کاظمی کے کچھ اشعار یہ ہیں


یہ کون طائر سدرہ سے ہمکلام آیا

جہان خاک کو پھر عرش کا سلام آیا

جبیں بھی سجدہ طلب ہے یہ کیا مقام آیا

زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا

کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے


خط جبیں ترا ام الکتاب کی تفسیر

کہاں سے لاوں ترا مثل اور تری نظیر

دکھاوں پیکر الفاظ میں تری تصویر

مثال یہ مری کوشش کی ہے کہ مرغ اسیر

کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کے لیے


کہاں وہ پیکر نوری کہاں قبائے غزل

کہاں وہ عرش مکیں اور کہاں نوائے غزل

کہاں وہ جلوہ معنی کہاں ردائے غزل

بقدرِ شوق نہیں ظرف تنگنائے دل

کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے


تھکی ہے فکر رسا اور مدح باقی ہے

قلم ہے آبلہ پا اور مدح باقی ہے

تمام عمر لکھا اور مدح باقی ہے

ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے

سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے

مزید دیکھئے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حواشی و حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]