دبستان ِ نعت کا پہلا شمارہ - ڈاکٹر سید شمیم گوہر مصباحی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Dabastan e naat.jpg

مضمون نگار: ڈاکٹر سید شمیم گوہر مصباحی ( الہ آباد )

مطبوعہ : دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

دبستان نعت کا پہلا شمارہ محب گرامی جناب ڈاکٹر سراج احمد قادری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مدیر ’’ششماہی دبستان نعت‘‘ خلیل آباد سنت کبیر نگر

چار سو صفحات پر مشتمل ’’ششماہی دبستان نعت‘‘ کا اولین شمارہ دستیاب ہوا دیکھتے ہی دل جھوم گیا یاد آوری کاشکریہ اداکرتا ہوں۔ آپ کے دبستان نعت نے دنیائے نعت کے عظیم مجاہد و شاعر اور دیدہ ور قلمکار جناب سیدصبیح رحمانی کی یادتازہ کر دی جنہوں نے’’نعت رنگ کراچی‘‘کی ادارتی فوقیت اوربے لوث کثرت خدمات کی روشنی میں ساری دنیا کے مسلمانوںکو حیرت میں ڈال دیاجس کا ہر ضخیم شمارہ ایک نورانی دستاویز اور تاریخی شاہکار ہوتا ہے۔ بیشتر ممتاز و نامور اور پختہ کار اصحاب قلم کی مبارک جماعت کے تحقیقی و علمی کارنامے اور تنقیدی وتجزیاتی امانتیں، ’’صفحات نعت رنگ‘‘ پر لولو و مرجان کی طرح تابندہ و مجلّٰی ہیں۔دبستان نعت کا اجرابھی بڑے حوصلے اور جرأت مندانہ پیش قدمی کا اظہار ہے ،امت مرحومہ کے دل کی دھڑکن اوراسیران مصطفیٰ علیہ الصلوٰۃ و التسلیم کے آفاقی جذبات کا آئینہ دار ہے۔ اتنے وسیع پیمانے اور اتنے عظیم حوصلے کے سائے میں اس نوعیت کے معیاری مجلے کا اہتمام کرنا آپ کی بے لوث نعت نوازی کی ضمانت ہے، اگر آپ اس اشاعتی تسلسل کو بر قرار رکھ سکے تو تاریخ آپ کو اپنی قربت سے ضرور نوازتی رہے گی، عشق رسالت مآب کی آنچ میںتپتے ہوئے آپ کے اس خدماتی اثاثے کوخراج تحسین پیش کرتا ہوں اور عمر دراز کی دعامانگتا ہوں۔

یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ عہد رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے لیکر تا ہنوز بیشتر زبانوں میںنعتیہ شعر و ادب کا سمندر بہہ رہا ہے ،ہردور میں خاصان خداکامحبوب مشغلہ رہاہے ،بالخصوص عربی و فارسی اوراردوزبانوںمیں اس کے وسیع گنجینوںکااندازہ نہیں لگایاجا سکتا۔ صرف اردو میںہزارہا ہزار کتابیں اور مجموعے لگاتار منظر عام پرآتے رہے اور قیامت تک آتے رہیں گے۔ ورفعنا لک ذکرک کا فریضہ نعتیہ شاعری نے ہمیشہ نبھایا ہے۔ اتنی عظمتوں اور سرفرازیوں کے باوجود ادبی دنیا کے بعض افرادنعتیہ شاعری پر طنز کرتے اور اس کے مراتب پر حملہ کرنے سے باز نہیں آتے، اس کی وسعت پذیری پر پردہ ڈالنے کی برابر کوشش کرتے رہتے ہیں،اسی نعت بیزاری اور ہجود نوازی کا نتیجہ ہے کہ ادبی دنیا کی بیشترسرگرمیاںتقویٰ و طہارت ، احتیاط و اجتناب اور مسائل و فتاویٰ سے ہمیشہ دوررہی ، نہ جانے کتنے ہندو شعراء ہر دور میںنہ صرف نعتیہ شعر و ادب کااحترام کرتے رہے بلکہ بطور خاص طبع آزمائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نعتیہ شاعری کا کثیر سرمایہ پیش کر دیاجبکہ اسی ادبی پلیٹ فارم کے بے شمار مسلم شاعروں کو ایک نعت کہنے کی توفیق نہ ہوئی اور نہ ہی اس کے بے پناہ فکر و فن اور صنائع و بدائع کی بارگاہ میںخراج عقیدت پیش کرنے کا جذبہ بیدارہوا۔ نذرانۂ محبت نہ پیش کرنے کا مطلب یہ تونہیں کہ اس آفاقی اورجبروتی شاعری کی شان میںباغیانہ حملہ کیا جائے۔ادبی پلیٹ فارم سے یہ آواز برابر بلندہوتی رہی ہے کہ نعت کوئی صنف نہیں کہ اس کے پاس کوئی ہیئت نہیں۔ لا علمی کے سبب یہ رخنہ طرازی اگرچہ تنگیٔ ذہن کی مجروح علامت ہے جو غیروں کے لئے تفریح کا سامان مہیا کر سکتا ہے تا ہم مجھ پر لازم ہے کہ اسے تفریحی عناصر کی تردیدمیں کار خیر کی کچھ سعادت حاصل کر لی جائے۔

اگر صنف نعت ہیئت سے وابستہ نہیں تو کیا اس کے دامن میں عظمت و انفرادیت اور بے شمار صنائع و بدائع کاخزانہ بھی نہیں ،اس کی آغوش میں فضیلتوںکے پھول بھی نہیں، عظمت کی معرفت ہیئت سے نہیں تجزیۂ فکر وفن سے حاصل ہوتی ہے۔ موضوع و مواد اور فکری بلاغتیں کسی ہیئت کی محتاج نہیں ہوتیں۔ ہر بڑی شاعری کواس کے موضوع اور تخئیلی بالیدگی کی روشنی میںپرکھا جاتا ہے ہیئت کی بنیاد پر نہیں۔جس مبارک شاعری کو صحابۂ کرام،تابعین کرام، اولیائے کرام اور بیشمار اقطاب وغوث نے کلیجے سے لگاکررکھاہواور فکر وفن کی نئی نئی آنچ میں تپایاہو اس کے لئے کسی مخصوص تلاش ہیئت کی کبھی ضرورت نہیںمحسوس کی گئی اور نہ ہی اس کی وسعتیںکسی ہیئتی خول میں مقید رہنے کی مستحق ہیں،اس کے لئے ہردروازہ کو کھلا رکھا جاتا ہے تاکہ اس نعتیہ شاعری کا عروج وارتقاء کبھی تنگئی داماںکااحساس نہ کرنے پائے تبھی تواس بے ہیئت والی شاعری کے دم سے ہر صنف سخن کی دنیا آباد ہے۔زمانہ گزر گیا ادبی پلیٹ فارم سے قصیدہ،مرثیہ، مثنوی، شہر آشوب، بارہ ماسہ دوہا،مسدس، مخمس،رباعی اور قطع وغیرہ کا جنازہ نکل کر رہ گیا، یہ صنعتیں اپنے شاعروں کو ترس گئیں، غزل کے سوااساتذۂ کرام کی تمام روایتوںاورتمام امانتوں کو غارت کر ڈالا،وہ نعتیہ شاعری جوتمام اصناف شعروادب پر ہمیشہ جاری رہی اس کااحسان ہے کہ وہ اپنی وظیفہ خوانی اور پرخلوص طبع آزمائی کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے ہر صنف کو زندگی عطا کرتی رہی حتیٰ کہ ہائکواورسانیٹ میںبھی بیسوں مجموعے پیش کر دئیے ورنہ ادبی دنیا کی ساری کارکردگی کب کا دم توڑ چکی ہے۔صنف نعت کی بابت عدم ہیئت کی بات کرنے والے افراد اپنے تخئیلی برتاؤ کے سہارے مذکورہ اصناف سخن کے حق میں کون سا کردارنبھا رہے ہیں۔صنفیںمحض ادب وادیب کے تذکرۂ خدمات سے زندہ نہیںرہتیں۔ ان کے لئے لگاتارتخئیلی سفر اورپرخلوص جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔

واضح ہو کہ شاعروںکی بابت قانونی ہیئت کادائرہ شروع ہی سے بہت محدود رہاہے ہیئت مثنوی جس کے دونوں مصرعے مقفیٰ ہوتے ہیں اورہیئت قصیدہ جس کے ہر دوسرے مصرعے میں قافیہ ہوتا ہے اس کے علاوہ تیسری ہیئت کا کوئی نام ونشان نہیں۔ قصیدہ و مثنوی کا ہیئتی نظام قوافی کی روشنی میں اس طور پر وضع کیا گیا کہ کوئی بھی شاعری اس کی قانونی گرفت سے الگ نہیںرہ سکتی، اس کی وضع داری ہر صنف پر موضوع کی کفالت کرتی ہے، مرثیہ ، شہر آشوب، بارہ ماسہ، غزل،مسدس،مخمس، رباعی اورقطع وغیرہا اپنے اپنے مصاریعی تنظیم و ترتیب کے آئینے میںقصیدہ و مثنوی کی ہیئت کے تابع ہوتے ہیں، یہ مختلف مصاریعی تنظیم ، تعین صنف سخن کی وضاحت تو کرتی ہے مگر ہیئتی شناخت و قانون سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ہر شاعری خواہ وہ جس بھی صنف سے وابستہ ہو اس کے دونو ں مصرعے ہیئت قصیدہ و مثنوی سے بے تعلق نہیں رہ سکتے۔شاعری کا سفر اوزان و بحور اور موضوعات کی بنیاد پرجاری رہتا ہے وابستگیٔ ہیئت کی بنیاد پر نہیں۔ ایسا نہیں کہ قصیدہ و مثنوی کا نام پہلے رکھ دیا گیا اور ان کے اصول بعد میں وضع کئے گئے ہوںاگر ایسے کسی بھی ضابطہ وقانون کی علامت موجود ہوتی تو آج ہر شاعری کے لئے ہیئتوں کا دریا بہہ رہا ہوتا۔غزل کی بھی کوئی ہیئت نہیں یہ بھی قانون قصیدہ پر موقوف ہے ،غزل مسلسل کو قصیدے ہی کاایک شعبہ کہا جاتا ہے۔ بعد میں جب اس کے ما بعداشعار، ما قبل اشعار کے فکری و تخئیلی تناظر سے الگ کر دیئے گئے تو غزل کی منفرد صنفی حیثیت تسلیم کر لی گئی۔ یہی قاعدہ مثنوی میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔خیال وفکر کے سلسلۂ مربوط کوحذف کر دیجئے۔ دائرۂ مثنوی میںرہتے ہوئے بھی کلام کسی دوسرے صنف سے وابستہ ہو جائے گا۔ شاعری کا آخری درجہ یہ بھی ہے کہ قافیہ و دریف کا اہتمام کئے بغیرمحض اوزان و بحور کے سہارے خیالات کی بندش کی جائے، اس تجربے کوکسی صنف کے زمرے میں تو شامل نہیں کیا جا سکتاتاہم شاعری کہلانے کی ضرور مستحق ہے۔

بعض ایسے افراد جن کے پاس عقیدت و محبت کا کوئی پیمانہ نہیں،جنہیں سر جھکانے کا شعور نہیں اور جو مصلحت نوازعقیدوںکی راہیں بدلتے رہتے ہیںوہ صنف نعت سے کیسے ہمدردی کرسکتے ہیں، انہیںنعت جیسی مقدس شاعری میں کوئی خوبی تو نظر نہیںآئی ہیئت و اجزائے ترکیبی کی کمی ضرور دکھائی دے گی،اجزائے ترکیبی کاعنوان ہی غلط ہے،اسکاعنوان ’’اجزائے مطلوبہ‘‘ ہونا چاہئے تھا کہ شاعر جس بھی حسن خیر کا طالب ہو بیان کرے۔حیرت کی بات ہے کہ سوداؔ وذوقؔ کے قصیدوں اور میرحسنؔ و شوقؔ کی مثنویوںمیں اجزائے ترکیبی تو نظرآگئے مگر چار حصوں پر مشتمل حضرت حفیظ جالندھری کی مثنوی، شاہنامہ اسلام کی وسیع ترین اجزائے ترکیبی کی کوئی خبر نہیں۔صنف نعت کے آئینے میںعہد دیرینہ سے لیکر اب تک قصیدوں اور مثنویوںکی ہزاروں شمعیں روشن کی جاچکی ہیں، بالخصوص غلام امام شہیدؔ،کرامت علی شہیدیؔ،کافیؔ مرادآبادی، لطفؔ بریلوی، محسنؔ کاکوری، امیر ؔ مینائی ، شاہ رضاؔ بریلوی، حسنؔ بریلوی، جمیلؔ بریلوی اور کیف ٹونکوی وغیرہم کے علاوہ سیکڑوں شعرائے نعت نے جم کر اجزائے ترکیبی کا اہتمام کیا ہے(تفصیل کیلئے دیکھئے خاکسار کی کتاب صنف نعت اورشعرائے نعت) میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے موضوع پر شروع ہی سے شاعری کی جاتی رہی ہے، مولودی مجموعوںکاکثیرتعداد میں پتہ چلتا ہے جس میں تخلیق نور نبی،ولادت رسول، بعثت رسول،محبت رسول، جمال وکمال، اخلاق حسنہ،اسوۂ مبارکہ، معجزات و غزوات، علم غیب، معجزۂ معراج، اور ازواج مطہرات کے علاوہ قرآن و احادیت کی روشنی میں بے شمار احکام و فضائل اور کردار و عمل کا ذکر موجود ہے۔ اب اگر ایسے افراد، موضوع نعت میں میر حسن کے اجزائے ترکیبی چاہتے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہوسکتاہے البتہ مرثیے کے اجزائے ترکیبی کے بعض گوشے نعت سے ضرورہم آہنگ ہوتے رہتے ہیں۔

دبستان نعت کا بیشترحصہ انتہائی تحقیقی و تاریخی وعلمی ہے، عظمت رسول اورفضائل رسالت کے آئینے میں ایک بار پھریہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ نعتیہ شاعری کتنی وسیع وبلند ہو سکتی ہے جسکے تناظرمیںبعض مضامین کے تحقیقی جوہرنے خوب جلوے بکھیرے۔ نعتیہ شاعری کی فوقیت و فضیلت کا سایہ ہر شاعر کے سر پر ہوتا ہے،عقیدت و محبت کی تجلّیوں میں ڈوبا رہتا ہے، ہر شاعر قرآن واحادیث اور احکام وفرائض کے حوالوں کی روشنی میں شاعری نہیں کرتا بلکہ اس کا جذبۂ والہانہ اور دیوانگیٔ عشق خود بخودکسی نہ کسی حقیقی گوشے سے وابستہ ہو جاتی ہے، خراج عقیدت اور نذرانۂ محبت کی خوشبوؤں میں ہرشاعر اس یقین وایمان کے ساتھ شاعری کرتا ہے کہ آپ ہی (صلی اللہ علیہ وسلم)سب سے زیادہ عزت و عظمت والے ہیں، آپ ہی سب سے زیادہ جمال و کمال والے ہیں ، آپ ہی دانائے غیوب اور معجزات والے ہیں، آپ ہی صاحب قرآن اور خاتم المرسلین ہیں، آپ ہی رحم و کرم اور شفاعت عطا فرمانے والے ہیں، آپ ہی آقا وملجا اورمعراج والے ہیں، آپ ہی احادیث و سنن کی دولت تقسیم کرنے والے ہیں،اسی نورانی پس منظر میں لکھا ہواقاضی محمدرفیق فائز فتح پوری کامقالہ’’ناعت پر فیضان منعوت‘‘(یعتی شاعرنعت پرفیضان نعتیہ) معلوماتی نمونہ ہے۔اردوشاعری میںجس قدر کثرت کے ساتھ صنائع و بدائع اور اوزان وبحور کا استعمال نعتیہ شاعری میںہوتا رہا ہے ان کی مثالیں اور حوالے کسی بھی غیر نعتیہ شاعری میںنہیں مل سکتے۔ گویا جتنی مقدس و مبارک یہ شاعری ہے اسی تقدس مآبی کے سائے میں جملہ ندرتوں سے وابستہ بھی ہوتی رہی۔صنعت غیر منقوطہ کا بھی کثیر خزانہ صرف صنف نعت ہی میں تلاش کیا جاسکتا ہے،اس سلسلہ میں جناب طاہر سلطانی (کراچی) نے اپنی خصوصی سرگرمیوںکی روشنی میںمتعدد شاعروں کے غیر منقوطہ شاعری کے بیشتر حوالے جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔صنعت غیر منقوطہ میںاس خاکسار کے بھی تین اشعار ملاحظہ کر لیں۔ ؎


سارے درد و الم سے دور رہا

مدح سرور سے ہر سرور رہا

مدح مولیٰ سے دل مرا مہکے

ہرگھڑی دل الم سے دوررہا

درد دل کو سکوں ملے مالک

درد دل کی دوا کہاں گم ہے

’’نعتیہ شاعری کاتاریخی پس منظر ‘‘ کے عنوان علیم صبا نویدی کے مضمون کا آغاز بہت عمدہ ہے مگر مضمون مزید جس تحقیقی عمل کامتقاضی تھا اختصار و قلت کے سبب تشنہ رہ گیا۔ ’’گوشۂ جامی‘‘ نے دبستان نعت کے معیار و وقار میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔ صوفیانہ، عارفانہ، اور نعتیہ شعرائے فارسی کی صف میںحضرت جامیؔ کی حیثیت و اہمیت تابندہ و روشن ہے،ان کے تعلق سے سارے ہی مضامین لائق تحسین ہیںبا لخصوص ڈاکٹر رضوان انصاری (لکھنؤ) احوال حیات کے ساتھ حضرت جامی کے تقریباً ۲۹؍نعتیہ کلام کا حوالہ مع ترجمہ پیش کرکے کار خیر انجام دیا ہے۔ دیگر شعرائے نعت کی طرح قدیمی معمول کے تحت محفل سماع میں حضرت جامی کے مندرشہ ذیل کلام پابندی سے پڑھے جاتے ہیں اور بعض حضرات پر وجدو کیف بھی طاری ہوتا ہے۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

ز رحمت یک نظر بر حال زارم یا رسول اللہ

غریبم بے نوایم خاک سارم یا رسول اللہ

یا شافع روز جزا پرساں توئی پرساں توئی

رشک ملک نور خدا انساں توئی انساں توئی

نسیما جانب شہ بطحا گزر کن

ز احوالم محمد را خبر کن

علمائے گھوسی کی نعت نگاری کا ذکر آپنے پہلے ہی شمارے میں کرکے فرصت پا لی بہت اچھاکیا۔ جناب ڈاکٹر شکیل احمد اعظمی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ششماہی دبستان نعت کے پہلے ہی شمارے کے بعد پورا سال گزر گیا ، اللہ مدد فرمائے۔اور آپ حضرات کے حوصلوں پر خیر و برکت کی برسات کرے آمین۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
نئے صفحات