دبستانِ کراچی کا نعتیہ منظرنامہ ۔ صبیح رحمانی . حصہ اول

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Naat kainaat syed sabihudin rehmani.jpg

مضمون نگار: صبیح رحمانی

مطبوعہ : روزنامہ جسارت <ref> http://esunday.jasarat.com/2017/04/09/%D8%AF%D8%A8%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%DA%A9%D8%B1%D8%A7%DA%86%DB%8C-%DA%A9%D8%A7-%D9%86%D8%B9%D8%AA%DB%8C%DB%81-%D9%85%D9%86%D8%B8%D8%B1-%D9%86%D8%A7%D9%85%DB%81-%D8%B5%D8%A8%DB%8C%D8%AD-%D8%B1%D8%AD/ </ref> | نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27


ABSTRACT[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

When collective wisdom is applied by a group of poets in a particular area of land, city or country, a unique diction and features can easily be identified to denote a particular trend of content and thought of poetry written by such group. This formula has been applied in the article placed hereunder to bring into lime light the scenario of Creativity of Naat, Critical evaluation of Naat and research works done by scholars belonging Karachi. This is to say that Poets, Critics and Scholars of Karachi are introduced. Actually, the article contains an outline of history of Naatia Literature, after creation of Pakistan, with the view to show progress of Naatia Literature in Karachi.

دبستانِ کراچی کا نعتیہ منظرنامہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

قیامِ پاکستان کے وقت یہاں اُردو کا صرف ایک ہی بڑا مرکز تھا لاہور۔ بیسویں صدی کے شعر و ادب پر نگاہ ڈالی جائے تو پنجاب بالخصوص لاہور کی ادبی فضا میں بہت تنوع نظر آتا ہے۔ خاص طور پر یہ مرکز نئے ادبی رُجحانات کی آبیاری میں بہت آگے رہا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس تنوع اور گوناگونی میں بھی ذکرِ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت کی روشنی سے ضیا بار رُجحانات کے نقوش بھی یہاں کم نہیں تھے۔ اسی شہر میں اقبالؒ کی آواز گونجی :

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے

دہر میں اسمِ محمدؐ سے اُجالا کر دے

انہی فضاؤں کی تابانیوں میں مولانا ظفر علی خاں کی نعتوں سے اضافہ ہوا۔

سب کچھ تمہارے واسطے پیدا کیا گیا

سب غایتوں کی غایت اولیٰ تمہی تو ہو

یہیں حفیظ جالندھری نے شاہنامۂ اسلام جیسی طویل مثنوی لکھی جس کا بڑا حصہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذکرِ مبارک سے متعلق ہے۔ لاہور کے علاوہ بھی اس زمانے میں پنجاب، خیبرپختونخواہ، سندھ اور بلوچستان کے دوسرے شہروں میں اُردو زبان و ادب اور اس میں ذکرِ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا چرچا عام تھا۔

پاکستان بننے کے بعد ’’کراچی‘‘ دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک کے دارالحکومت کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر اُبھرا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ مشرقی پاکستان کے الگ ہونے سے پاکستان اور کراچی اپنی اس حیثیت سے محروم ہوگئے۔ کراچی اور سندھ میں قیامِ پاکستان سے پہلے ہی اُردو شعر وادب اور زبان کا رواج عام تھا۔ اس علاقے میں بھی آزادی کی جنگ اُردو زبان کے ذریعے لڑی گئی۔ پاکستان بننے سے پہلے انجمن ترقی اُردو کی شاخ یہاں 1913ء میں قائم ہو چکی تھی۔ سالانہ مشاعرے پابندی سے ہوتے تھے اور کئی اُردو ماہنامے بھی یہاں سے شائع ہوتے تھے۔ بہرحال اس وقت یہ ہمارا موضوع نہیں۔

پاکستان بننے کے بعد لاکھوں مہاجرین کے ساتھ اُردو کے نامور اور عہد ساز شعرا بھی کراچی آئے۔ ان کی آمد کا مقصد محض اپنی جان بچانا نہ تھا بلکہ اس نئی اسلامی ریاست کی تعمیر میں عملی اور فکری دونوں سطحوں پر اپنا حصہ ڈالناتھا۔ ان شعرا میں سیماب اکبر آبادی، بہزاد لکھنوی، جوش ملیح آبادی، اکبر وارثی، ضیاء القادری بدایونی، ماہرالقادری، آروز لکھنوی، رئیس امروہوی، نیاز فتح پوری، نہال سیوہاروی اور قمر جلالوی جیسے اساتذہ شامل تھے۔ ان کے علاوہ اس قافلے میں صبا اکبرآبادی ، رعنا اکبر آبادی، نازش دہلوی، رازمراد آبادی، تابش دہلوی ،نسیم امروہوی، محشر بدایونی، منور بدایونی، اسعد شاہجہانپوری، ارمان اکبر آبادی، شاہ انصار الٰہ آبادی، فدا خالدی دہلوی، ذوالفقار علی بخاری، صبا متھراوی، آلِ رضا اور اقبال صفی پوری بھی شامل تھے۔ یہ وہ شعرا تھے جن کی آوازوں کی طرف قیام پاکستان سے پہلے ہی ادبی دنیا متوجہ ہو چکی تھی۔ نیر مدنی، بہار کوٹی، ادیب سہارنپوری، قمر ہاشمی، اقبال عظیم، ادا جعفری، جلیل قدوائی، جوہر سعیدی، ذہین شاہ تاجی، شاعر لکھنوی،شور علیگ، شیوا بریلوی، محب عارفی، حیدر دہلوی، خالد علیگ، دور ہاشمی، صبا لکھنوی، وجد چغتائی، یاور عباس، ہادی مچھلی شہری، فضل کریم فضلی، کرار نوری، مظہر جلیل شوق، شبنم رومانی، انور دہلوی،انجم فوقی بدایونی،دلاور فگار، شاہ حسن عطا وغیرہ کی شعر گوئی بھی قیامِ پاکستان سے پہلے ہی شروع ہو چکی تھی۔

یہ چند نام مثال کے طور پر پیش کیے گئے ہیں اور گمان یہی ہے کہ بہت سے اہم نام اس فہرست میں شامل ہونے سے رہ گئے ہوں گے۔ افسر امروہوی، محمودہ رضویہ، محمد ارشاد حسین شاد صابری، علامہ ظہور الحسن درس، احمد خاں جوہر، عبدالحمید کیف، محمد بخش راز، مول چند، سرور علی، محمد عبیداللہ حافظ لاڑکانوی، عزیز سلیمانی، صاحب زادہ محمد علم الدین قادری، آصف جاہ کاروانی اور علی محمد راشدی کے علاوہ کئی اور ادیب و شعرا یہاں پہلے سے موجود تھے اور شعر وادب کی اخبار و جرائد کے ذریعے خدمت کر رہے تھے۔ 1947ء کے بعد سندھ کے وہ نوجوان بھی زیادہ مستعدی کے ساتھ اُردو زبان و ادب کی خدمت کرنے لگے جو پہلے بھی کچھ نہ کچھ لکھتے رہے۔ مثال کے طور پر قمر شیرانی اور مسرور کیفی وغیرہ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس فہرست میں اضافہ ہوتا رہا اور اہم نقاد و نثر نگار بھی کراچی آگئے۔ مسلّمہ ادبی رسائل کے مدیر بھی کراچی آئے اور اُنھوں نے ازسرِنو اپنے سفر کا آغاز کیا۔ ان مدیروں اور نثرنگاروں میں شاہد احمد دہلوی، مولانا رازق الخیری، پروفیسر احمد علی، اختر حسین رائے پوری، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، صادق الخیری، سید محمد تقی وغیرہ شامل تھے۔ بہت سے نام ذہن میں آرہے ہیں لیکن میں ان سے صرفِ نظر کرتا ہوں کیوں کہ یہ کراچی کی ادبی تاریخ کا کوئی مطالعہ نہیں بلکہ کراچی کی نعتیہ شاعری کا ایک سرسری جائزہ ہے۔ لیکن اس پس منظر سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اتنی بڑی ادبی شخصیات کی موجودگی میں کراچی کو ایک ادبی دبستان تو یقیناًقرار دیا جا سکتا ہے۔ مزیدبرآں اس دبستانِ ادب کے خدوخال کو نمایاں کرنے میں ملی جذبات اور نعتِ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ تحریکِ پاکستان کے دوران میں ملّی شاعری نے خاصا فروغ پایااور ملّی شاعری کا تصور بھی اللہ اور رسول اللہ کے بغیر نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ حضورہماری شناخت بھی ہیں اور آپ کی محبت ہماے ایمان کی اساس اور ملت کی جان بھی۔

پاکستان آنے والے ابتدائی شعرا میں سیماب اکبرآبادی کا نعتیہ مجموعہ’’ سازِ حجاز‘‘ ان کی نعت گوئی کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ وہ ان شعرا میں سے ہیں جنھوں نے کئی اصناف سخن کو نعت گوئی کے لیے کامیابی سے برتا ہے۔ نعت کے حوالے سے دوسرے نمائندہ شعرا میں اکبر وارثی، بہزاد لکھنوی، ضیاء القادری بدایونی، منور بدایونی، شاہ انصار الٰہ آبادی، عنبر شاہ وارثی اور شاہ ستار وارثی کے نام نمایاں ہیں جن کی نعت گوئی میں شخصی جذب و کیف زیادہ نمایاں ہے۔ جبکہ مولانا ماہرالقادری ایک اسلامی تحریک سے وابستہ تھے اور اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کرنے والوں میں پیش پیش رہے۔ اس لیے ان کی نعت گوئی میں ایک اجتماعی رنگ غالب رہا۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ مولانا کے ہاں شخصی سطح پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی یاد اور ذکر نہیں۔

محمدؐ کی نبوت دائرہ ہے نورِ وحدت کا

اسی کو ابتدا کہیے، اسی کو انتہا کہیے (ماہرالقادری)

شعر و سخن کی مجموعی فضا میں نعت گوئی کا فروغ، دبستانِ کراچی کی اوّلیات میں شامل ہے اُردو شعر و ادب کا کوئی دور ایسا نہیں گزرا جس میں نعت نہ کہی گئی ہو لیکن انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز سے نعت گوئی، محض رسم نہ رہی بلکہ ایک سنجیدہ ادبی کاوش بن گئی۔ ڈاکٹر سیّد ابوالخیر کشفی نے اُردو نعت گوئی پر اپنے مطالعے میں اس پہلو پر زور دیا ہے۔ ان کی گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ شہیدی، محسن کاکوروی اور امیر مینائی کے بعد حالی نے نعت گوئی کو زندگی سے متعلق کیا اور اقبال اور ظفر علی خاں نے اسے شعروادب کا عنوانِ جلی بنا دیا ۔ پہلے شعرا اپنے مجموعوں کے ساتھ ایک دو نعتیں بطور تبرک شامل کر لیتے تھے اور آج نعت گوئی ان کے فن کی پرکھ قرار پاتی ہے۔

میں اس نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے یہ عرض کروں گا کہ ملک کے طول و عرض میں بعض شعرا نے صرف نعت گوئی کو اپنے لیے چن لیا ہے۔ یہ خوشی کی بات ہے لیکن اس میں مسئلہ یہ پیدا ہوگیا ہے کہ اُردو شاعری میں ان کی حیثیت کے متعلق کچھ کہنا مشکل ضرور ہو گیا ہے۔ یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہماری تاریخ ادب ہی کو لے لیجیے سوائے محسن کاکوروی کے اور کس شاعر کو بطور نعت گو قابلِ اعتنا جانا گیا ہے۔ لیکن جن شعرا نے شاعری کے دوسرے موضوعات کا حق ادا کرتے ہوئے نعت گوئی کے فن میں بھی درجۂ کمال حاصل کیا ان کی قبولیت ہمارے ادبی منظرنامے پر واضح ہے۔ دبستانِ کراچی کی مثال لیجیے، صبا اکبر آبادی، تابش دہلوی، محشر بدایونی،اقبال صفی پوری، وقار صدیقی، حنیف اسعدی، راغب مرادآبادی، سرشار صدیقی، صہبا اختر، اُمید فاضلی، سلیم کوثر، قمر ہاشمی، قمر وارثی، عزیز احسن، اعجاز رحمانی، جمیل نقوی، جاذب قریشی، اختر لکھنوی، افسر ماہ پوری، اقبال حیدر، انعام گوالیاری، اسماعیل انیس، خیال آفاقی، حمیراراحت، خورشید احمر، سید معراج جامی، حیرت الٰہ آبادی، شاعر لکھنوی، صبا متھراوی، سہیل غازی پوری، افتخار عارف، روشن علی عشرت، قمر جلالوی، قیصر نجفی، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، قصری کانپوری، مبارک مونگیری، ماجد خلیل، ع س مسلم، منظر ایوبی، جاوید منظر، مہر وجدانی،ناصر کاسگنجوی، مقبول نقش، نگار فاروقی، وسیم فاضلی، کرارنوری، رفیع الدین راز اور شاعر علی شاعر جیسے شعرا نے دیگر موضوعات کے ساتھ اپنے نعتیہ مجموعے بھی پیش کیے اور اس طرح اس مسئلے کے حل کی طرف پیش قدمی کی۔ ناموں کی یہ فہرست بہت طویل ہو سکتی تھی مگر یہاں مقصود صرف مثال پیش کرنا تھا۔ نعت یقیناًحصول ثواب اور نجاتِ اُخروی کا وسیلہ بھی ہے لیکن آج یہ نہیں کہا جاسکتا کہ بات یہیں ختم ہو گئی۔ آج نعت گوئی حسن کلام کی بھی آخری منزل کے درجے تک پہنچ چکی ہے۔ بات یہ ہے کہ وہ ذاتِ گرامی جو حسن جمال و کمال اور توازن کی آخری مثال ہے جس نے گفتگو و کلام کے آداب متعین فرمائے۔ اس کا ذکر بھی ذکر کرنے والوں کے کلام کو اسی کے قائم کردہ معیار کے مطابق بنا دیتا ہے۔

نظم ہستی میں توازن کے لیے

ساری دنیا اور تنہا مصطفی

(تابش دہلوی)

اس کو کہتے ہیں تکمیل انسانیت

ساری اچھائیاں ایک انساں میں

(محشر بدایونی)

محتاط ہیں ہم تذکرۂ عشق نبی میں

بے مشورۂ دیدۂ نم کچھ نہیں لکھتے

(وقار صدیقی)

جب عشق نبی سارے مسائل کو بھلا دے

ہے عزم اسی قیمتی ساعت کی طلب میں

(عزم بہزاد)

تقدیر پہ چھوڑا ہے اس ناقۂ ہستی کو

یہ کعبہ ہے وہ طیبہ دیکھیں تو کہاں ٹھہرے

(سرشار صدیقی)

زمانے اپنے زمانوں کی دھوپ چھاؤں کے ساتھ

ہیں سرنگوں تہہ محراب شہر مصطفوی

(سلیم کوثر)

کریں زیارت سرکار کی دعائیں ہم

مگر وہ ہاتھ وہ آنکھیں کہاں سے لائیں ہم

(شبنم رومانی)

ہشیار کہ چھٹ جائے نہ دامانِ محمدؐ

اس راہ میں بھٹکا تو نہ دنیا کا نہ دیں گا

(فداخالدی دہلوی)

بلند جب سے ہے طیبہ میں گنبدِ خضرا

زمیں پہ جھکنا عبادت ہے آسماں کے لیے

(افسر ماہ پوری)

دامن میں آپ کے ہیں دو عالم کی وسعتیں

ہر زاویے سے سورۂ رحمن آپ ہیں

(سحر انصاری)

آپ کے اور محاسن بھی ہیں بے حد و شمار

حسن یوسف، دمِ عیسیٰ، ید بیضا کے سوا

(جمیل نقوی)

ان اشعار میں علو تخیل بھی ہے، زبان و بیان کا حسن بھی ہے، اقدارِ عالیہ سے وابستگی بھی ہے اور وہ مقصدیت بھی جو ادب کو زندگی کا آئنہ نہیں بلکہ رہنما بناتا ہے۔ ان اشعار میں آپ کو زبان کی حدود میں توسیع بھی نظر آئے گی مثلاً نام کو ثنا قرار دینا، مدینہ منورہ میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمکی اونٹنی کی نسبت سے ناقۂ ہستی جیسی ترکیب اور پھر اظہار کی یہ وسعت کہ جمیل نقوی نے فارسی کے معروف شعر کو ترقی دے کر کہاں پہنچا دیا ہے:

حسن یوسف دم عیسیٰ، ید بیضاداری

آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری

دبستانِ کراچی کے متعدد شعرا ایسے بھی ہیں جنھو ں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو نعت کے لیے وقف کردیا اور دوسری کسی صنف سے کوئی تعلق نہ رکھا۔ یقیناًیہ ان شعرا کا نعت اور ذاتِ رسالت پناہ سے اخلاص کا معاملہ ہے۔ ایسے شعرا کے ادبی مقام و مرتبے کے تعین کے حوالے سے پیش آنے والی مشکلات کا ذکر پہلے کرچکا ہوں۔ ایسے شعرا کی اکثریت عوامی اجتماعات میں عوامی لب ولہجہ میں مکالمے کا ہنر جانتی ہے۔ ان کی شعر گوئی درحقیقت تبلیغی مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہے جس سے وہ عشقِ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور کمالات واوصافِ ختم المرسلیں کو عوام میں پیش کر کے ان میں ایمان کی حرارت کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے شعرا کی شہرت، مقبولیت اور نیک نامی کا دائرہ تو عام شعرا کے دائرہِ تعارف سے کہیں زیادہ وسیع ہوجاتا ہے مگر ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی پرکھ ادبی معیارات پر نہیں ہو پاتی۔ اس لیے وہ صرف اپنی عوامی مقبولیت کے باعث زندہ رہتے ہیں۔ ادیب رائے پوری، قمرالدین احمد انجم، خالد محمود خالد نقشبندی، سکندر لکھنوی، ریاض سہروردی، محمد الیاس عطار قادری کا شمار ہمارے ایسے ہی مقبول عام شعرا میں ہوتا ہے کلام کی سادگی اور عشق کی شدت و حدت کے باعث یہ شعرا عوامی سطح پر عالمی شہرت رکھتے ہیں۔چند اشعار ملاحظہ ہوں :

بس ایک رات کا مہماں انہیں بنانے کو

زمیں سے عرش نے کی ہوں گی منتیں کیا کیا

(ادیب رائے پوری)

اگر سینے میں ہوتا تو دھڑکنے کی صدا آتی

یہ دل کھویا ہوا ہے گنبدِ خضرا کے سائے میں

(خالد محمد خالد نقشبندی)

مقام شکر ہے دل میں تمہاری یاد رہتی ہے

تمہارے ذکر سے یہ روح میری شاد رہتی ہے

(ریاض سہروردی)

ان کی چشم کرم کی عطا ہے میرے سینے میں ان کی ضیا ہے

یادِ سلطانِ طیبہ کے صدقے میرا سینہ ہے مثلِ نگینہ

(سکندر لکھنوی)

دبستانِ کراچی کی نعت گوئی کی ایک خصوصیت اظہار کے طریقوں کا تنوع بھی ہے۔ نعت گوئی اپنی ہیئت کے اعتبار سے نہیں بلکہ روح کے اعتبار سے صنفِ سخن ہے۔ نعت، غزل، مثنوی، قطعہ، رباعی، مسدس، مخمس، مستزاد، سانیٹ، ثلاثی اور ہائیکو، ہر شکل اور ہر ہیئت میں لکھی جاسکتی ہے۔ غزل اُردو کی مقبول ترین صنف ہے۔ اس لیے اسے نعت گوئی کے لیے بھی زیادہ استعمال کیا گیا ہے لیکن کراچی میں مثنوی، قصیدہ، رباعی، نظم آزاد اور ہائیکو کو بھی نعت گوئی کے لیے خوب صورتی سے برتا گیا ہے۔

اگر ہم اس کا تجزیہ کریں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب نعت اور ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم شاعروں کے مزاج کا حصہ بن گیا ہے۔ جو شاعر جس صنف کو زیادہ عزیز رکھتا ہے اس کو محبوب خالق و مخلوق کے ذکر سے روشن کرتا ہے۔ 1964ء میں سیّد ابوالخیر کشفی نے قصیدہ بردہ کے مفاہیم کو نظم آزاد میں پیش کیا۔ اس کے بعد قمر ہاشمی کی طویل نظم ’’مرسل آخر‘‘ شائع ہوئی جس میں پابند حصوں کے ساتھ ساتھ آزاد نظم کا بھی استعمال ہوا۔ غالباً ایسی پہلی نظم (صلصلہ الجرس) عمیق حنفی کی تھی جو ہندوستان سے شائع ہوئی۔ نظم آزاد میں سحر انصاری، صہبا اختر، ثروت حسین، سلیم کوثر، جاذب قریشی، شبنم رومانی، اطہر نفیس، محمود شام، سرشار صدیقی، حمیرا راحت، سعید وارثی سمیت متعدد شعرا نے بھی خوب صورت نعتیں پیش کی ہیں۔

میں یقین سے تو نہیں کہہ سکتا مگر میرے علم کی حد تک نعتیہ دوہے کا آغاز بھی کراچی سے ہوا ہے۔ ویسے اس سلسلے کو عرش صدیقی نے وسیع ترکر دیا ہے۔ کراچی میں جمیل عظیم آبادی نے تواتر سے نعتیہ دوہے کہے ہیں۔ اس طرح دوہے کی صنف میں بھی نعت گوئی کا رجحان کراچی کی ادبی فضا کا حصہ بنا، لیکن میں اس بات پر اصرار نہیں کروں گا کہ اس کا آغاز کراچی سے ہوا ، تاہم یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ ہائیکو کا فروغ 1981ء میں کراچی کے ہائیکو مشاعرے سے ہوا اور بعدازاں یہ سالانہ مشاعرہ ایک طویل مدت تک جاری رہا۔ اگرچہ پنجاب میں محمد امین صاحب وغیرہ اور دوسروں نے ہائیکو کو متعارف کرانے کے لیے کام کیا لیکن کراچی میں اس کے لیے فضا زیادہ سازگار ہو گئی۔ یہاں تابش دہلوی، محشر بدایونی اور ادا جعفری جیسے بزرگ شعرا نے پہلے ہی ہائیکو مشاعرے میں شرکت کی اور اسی مشاعرے میں شاہدہ حسن اور اقبال حیدر جیسے نوجوان شعرا بھی شریک ہوئے۔ یوں دبستانِ کراچی کے کئی شعرا نے نعتیہ ہائیکو کی طرف بھرپور توجہ دینی شروع کی۔ سرشار صدیقی، انجم اعظمی، محسن بھوپالی، مقبول نقش، شفیق الدین شارق، سہیل غازی پوری، سید معراج جامی، آفتاب کریمی، سہیل احمد صدیقی ، عزیز احسن، سلیم کوثر، اقبال حیدرسمیت بے شمار شعرا کے نعتیہ ہائیکو سامنے آئے ہیں۔

خوشبو کی مہمیز[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اُن کی گلی سے گزرا تو

دھڑکن ہوہگئی تیز (سرشار صدیقی)

تیرے قدموں کی آہٹ

اک عنوان بلاغت کا

اک خطبہ ہے ہدایت کا (سید ابوالخیر کشفی)

صرف مدینے میں

اور کہاں پر اُگتے ہیں

سورج سینے میں (صبیح رحمانی)

کراچی میں نعت گوئی کے حوالے سے بعض اصناف کا احیا بھی ہوا ہے مثلاً کامل جونا گڑھی ،آرزو تبریزی، ڈاکٹر نعیم تقوی، صبا اکبر آبادی، فدا خالدی، رشید وارثی، سجاد سخن، حافظ عبدالغفار حافظ، ع س مسلم اور شوکت اللہ جوہر کے ہاں قصیدے میں خوبصورت نعت لکھی گئی۔ اسی طرح سیماب اکبر آبادی، ضیاء القادری، سیّد منیر علی جعفری، ماہرالقادری، سلیم احمد، ساقی جاوید، قمر ہاشمی، منظور حسین شور، رعنا اکبرآبادی،ادیب رائے پوری، محشر بدایونی،وحیدہ نسیم، سعیدہ عروج مظہر، ہادی مچھلی شہری، مسرور کیفی، وقار صدیقی اور عزیز احسن نے مثنوی کو ایک نئے انداز سے نعت گوئی کے لیے استعمال کیا ہے۔ قصری کانپوری، فدا خالدی دہلوی، جوش ملیح آبادی، نسیم امروہوی، آلِ رضا ، انصار الہٰ آبادی، تابش دہلوی، خالد عرفان، رحمان کیانی، محشر بدایونی، ضیاء القادری، لیث قریشی وغیرہ نے طویل و مختصر نعتیہ مسدس لکھ کر مسدس کی صنفی اور موضوعی روایت کو مضبوط کیا۔ رباعی ایک مشکل صنف ہے لیکن اس میں بھی نعتیہ موضوعات کر بہت خوبصورتی سے برتا گیا ہے، جس میں فدا خالدی، راغب مرادآبادی، شاعری لکھنوی، وقار صدیقی، صہبا اختر،رشید وارثی، شفیق الدین شارق، نگار فاروقی، اقبال شوقی اورصبا اکبرآبادی کے نام نمایاں ہیں۔ یہی نہیں بلکہ فنی اعتبار سے دبستانِ کراچی کے شعرائے نعت نے نئی ردیفیں ایجاد کرنے کی سعادت بھی حاصل کی:

کوئی ان کے بعد نبی ہوا نہیں ان کے بعد کوئی نہیں

کہ خدا نے خود بھی تو کہہ دیا نہیں ان کے بعد کوئی نہیں

(حنیف اسعدی)

راحت دل سکونِ جاں یعنی

وہی غم خوارِ عاصیاں یعنی

(تابش دہلوی)

کوئی مثل مصطفی کا کبھی تھا نہ ہے نہ ہوگا

کسی اور کا یہ رُتبہ کبھی تھا نہ ہے نہ ہوگا

(صبیح رحمانی)

روشنی کی فضا پانے والے گئے اور میں رہ گیا

در پہ سرکار کے جانے والے گئے اور میں رہ گیا

(قمر وارثی)

میرے آقا کی ہے شان سب سے الگ

جیسے رُتبے میں قرآن سب سے الگ

(شاعر لکھنوی)

کیا شان ہے شانِ خیربشر انا اعطنا الکوثر

رحمت نے پکارا خود بڑھ کر انا اعطینا الکوثر

(ادیب رائے پوری)

قسمت کو چمکانے والے کیسے ہوں گے

آپ سے ہاتھ ملانے والے کیسے ہوں گے

(سلیم کوثر)

درِ نبی یہ ہے افضل خطاب آنکھوں سے

ٹپک بھی جا دلِ خانہ خراب آنکھوں سے

(سجاد سخن)

خدا شناسی ،شریعت ،عمل،دعا سب کچھ

اسؐ ایک ذات نے ہم کو عطا کیا سب کچھ

(ماجد خلیل)

ذکرِ سرکارؐ ہوا جب سے ترانہ دل کا

ہر زمانہ ہے دھنک رنگ زمانہ دل کا

(اختر لکھنوی)

نعت میں کیسے کہوں انؐ کی رضا سے پہلے

میرے ماتھے پہ پسینہ ہے ثنا سے پہلے

(اقبال عظیم)

اس ضمن میں لطیف اثر کے حمدیہ اور نعتیہ مجموعے بھی قابل توجہ ہیں جو اسماء الٰہی و اسماء نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ردیف بنا کر تخلیق کی گئی ہیں۔ یہاں دبستانِ وارثیہ کراچی کے نعتیہ مشاعروں کی اس روایت کا بھی ذکر ضروری ہے جس میں شعرا کو مصرع طرح دینے کے بجائے ردیفیں دی گئیں اور یوں ان مشاعروں کی طویل روایت میں سامنے آنے والی نعتیں اس اعتبار سے قابل توجہ ٹھہریں کہ ان میں شعرا نے بحر اور قافیے کی پابندی سے آزاد رہتے ہوئے اپنی فکری اور تخلیقی توانائی کا بھرپور اظہار کیا اور اس کے نتیجے میں نعت کو وہ فنی، فکری اور معنوی وسعتیں میسر آئیں جنھوں نے قارئین کو تازگی اور خیال افروزی کا نیا ماحول فراہم کیا۔

کراچی کے شعرا نے نعت کو ہندی گیتوں کے انداز میں بھی لکھا ۔ ایسے شعرا میں اسد محمد خاں، نگار صہبائی، ع س مسلم، قمرالدین احمد انجم، آفتاب کریمی، مہر وجدانی اور ادیب رائے پوری کے نام قابل ذکر ہیں۔ نعتیہ تضمین نگاری کے ضمن میں جو نام کراچی میں نمایاں ہوئے ان میں حنیف اسعدی، مہر وجدانی، حافظ عبدالغفار حافظ، نصیر آرزو، تابش دہلوی، محشر بدایونی، صبا اکبرآبادی وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح سانیٹ نگاری کے نمونے بھی نعتیہ متن سمیٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جن شعراء نے نعتیہ سانیٹ کی طرف توجہ کی ان میں کامل ا لقادری، عارف منصور، صبیح رحمانی اور آفتاب کریمی کے نام نمایاں ہیں۔ نعتیہ ادب میں منظوم ترجمہ نگاری بھی کراچی کے شعراء کے تخلیقی مزاج کا حصہ رہی ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، شان الحق حقی، صبا اکبرآبادی، سحر انصاری، عزیز احسن، مہر وجدانی، آفتاب کریمی ، افتخار احمد عدنی وغیرہ کے نام سرِ فہرست ہیں۔ نثری نظم اعتراضات کا شکار رہی، تاہم اس نے صنفِ سخن کی حیثیت بعض شعرا کی توجہ حاصل کرلی۔ خوشی اس بات کی ہے کہ نثری نظم کا دامن بھی نعت کے جواہر پاروں سے خالی نہ رہا۔ احمد ہمیش اور ڈاکٹر ابوالخیر کشفی نے اس صنف میں نعت کہنے کی سعادت حاصل کی۔

دبستانِ کراچی میں خانوادہ تصوف کے جو لوگ آئے وہ اپنے تزکیہ نفس کی تعلیم اور تصوف کی اصطلاحات لے کر نعت گوئی کی طرف آئے جیسے بابا ذہین شاہ تاجی، مولانا ضیاء القادری بدایونی، علامہ شمس بریلوی، شاہ انصار الٰہ آبادی، عزیز الاولیا سلیمانی، سید ظہورالحسنین شاہ ظاہر یوسفی تاجی، صوفی شاہ محمد سلطان میاں ، شاہ ستار وارثی، حیرت شاہ وارثی، عنبر شاہ وارثی، صوفی جمیل حسین رضوی، شاہ قاتل، شاہ قاسم جہانگیری، بابا رفیق عزیزی، شاہ محمد عبدالغنی، نیر مدنی، بقا نظامی، شفیق احمد فاروقی، کمال میاں سلطانی، آفتاب کریمی اور پیرزادہ سیّد خالد حسین رضوی وغیرہ:

خوش رہیں تیرے دیکھنے والے

ورنہ کس نے خدا کو دیکھا ہے

(ذہین شاہ تاجی)

محمد کی صورت میں حق جلوہ گر ہے

حقیقت ہے یا میرا حسنِ نظر ہے

(شاہ انصار الٰہ آبادی)

اعجاز سراپا ہے یا جلوہ گہ قدرت

اے قامتِ بے سایہ اے سایۂ بے ظلمت

(عزیزالاولیا سلیمانی)

دعویٰ ہے من رانی محبوبِ سرمدی کا

لولاک ایک ہیرا تاجِ محمدی کا

(شاہ محمد عبدالغنی)

کسی ایک شاعر کی زمینوں میں نعت کہنے کی طرح بھی دبستانِ کراچی ہی کے شعرا نے ڈالی ہے۔ غالب کی زمینوں میں یہ ادبی کارنامہ پہلے ساجد اسدی نے (پیغامبر مغفرت) کے نام سے۔ اس کے بعد راغب مرادآبادی نے اپنے مجموعے (مدحتِ خیرالبشر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) اور پھر محمد امان خان دل نے (شہِ لولاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) میں سرانجام دیا۔ ان شعرا کے اس کام کو دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوتی ہے کہ انھوں نے موضوع کے لحاظ سے فکر کی بلندی اور شعور کی تہذیب کو از اوّل تا آخر برقرار رکھا اور اپنی شاعری کی ہیئت اور مافیہ دونوں کی فنی وحدت کو مرزا غالب کی زمینوں میں طبع آزمائی کرکے نعتیہ ادب کے تاریخی ورثہ میں بیش بہا اضافہ کیا ہے:

ساغر دل میں بھری ہے مئے حب احمد

دل سے اٹھتی ہے تو بنتی ہے دعا موجِ شراب

(ساجد اسدی)

میں کہ اے راغبؔ انہیں کا ہوں غلام کمتریں

ان کے قدموں سے لپٹ جاؤں تو ٹھکرائیں گے کیا

(راغب مرادآبادی)

عمر کیا تھی مرے دکھ درد کی، گر تھی اے دل

ان کی بس ایک عنایت کی نظر ہونے تک

(امان خان دل)

صنعتِ عاطلہ یا غیر منقوط کی پابندی عائد کرکے شعر کہنا بشرطیکہ شاعر خیال کے ابلاغ، حسنِ اظہار، زبان کی لطافت اور الفاظ کے دروبست پر گرفت رکھتا ہو، اظہارِ کمالِ فن ہوتا ہے۔ اس صنعت میں بھی دبستانِ کراچی کے شعرا نے اپنے نعتیہ مجموعے پیش کیے۔ مدحِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (راغب مرادآبادی)، مصدر الہام (صبا متھراوی) اور روح الہام (شاعر لکھنوی) نے اپنے ان نعتیہ مجموعوں میں اتنی معنوی و صوری خوبیاں پیدا کردی ہیں کہ ہم انہیں ایجاز میں اعجاز اور شاعری میں ساحری کی مثال کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔ان کے علاوہ بھی مولانا محمد ولی رازی، رشید وارثی وغیرہ نے اس صنف کو نعت سے روشن رکھا:

لاکھ در مدح محمد ہمہ دم لکھا ہے

اس کا احساس مسلسل ہے کہ کم لکھا ہے

حوصلہ کس کو کہ حال اس کے کرم کا لکھے

کرم اس کا ہے کہ احوالِ کرم لکھا ہے (شاعرلکھنوی)

تغزل نعتوں میں اور بالخصوص غزلیہ نعتوں میں اکثر نظر آتاہے لیکن کہیں کہیں اس تغزل کی سطح ایسی ہوتی ہے کہ یہ نعت کے اشعار حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمکی ذات سے متعلق معلوم نہیں ہوتے۔ مثلاً :

تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں

مرے چمن کی فضائیں سلام کہتی ہیں

جس میں ہو ترا ذکر وہی بزم ہے رنگیں

جس میں ہو ترا نام وہی بات حسیں ہے

اس اندازِ کلام کو کون نعت احمد مختار کے حوالے سے جانے گا؟ دبستانِ کراچی کے شعرا نے تغزل کے اس لہجے کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نسبت سے ایسی بلندی عطا کی ہے کہ خود غزل کا لہجہ رفیع تر ہو گیا ہے:

کسی کا نام لے کر آگیا تھا بزمِ امکاں میں

کسی کا نام لے کر جا رہا ہوں بزم امکاں سے

(ارمان اکبر آبادی)

اس دل میں رہ چکی ہے تمنا گناہ کی

یہ دل ترے خیال کے قابل ہیں رہا

(جمیل نقوی)

یا کرے اس کا تذکرہ ہر شخص

یا کوئی ہم سے گفتگو نہ کرے

(شکیل احمد ضیا)

ایک ہی در سے بر آتی ہے کہاں سب کی اُمید

ہاں مگر ایک در ایسا نظر آتا ہے مجھے

(نیاز بدایونی)

یہ کس کا ذکر لب پر ہے کہ خوشبو

دہن سے گفتگو کرنے لگی ہے

(رضی اختر شوق)

یہ چند شعر جو پیش کیے گئے ہیں ان میں سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمکا اسم گرامی کہیں نہیں آیا لیکن قرینۂ کلام اور الفاظ کا مؤدب بیٹھنا کتنا واضح ہے۔

اُردو میں حمد و نعت کے علاوہ منقبت کا سلسلہ بھی پرانا ہے۔ کراچی کے شعرا کی خدمات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ انھوں نے منقبت کو نعت کے دائرے میں شامل کیا ہے۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمکے تین ہمیشہ قائم رہنے والے معجزے، آپ کا اُسوہ، قرآن حکیم اور صحابہ و اہلِ بیت ہیں۔ آج کے نعت گو شعرا وابستگانِ رسول کے کردار اور زندگی میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمکی زندگی اور اُسوہ کے نقوش دیکھ رہے ہیں جو دراصل قرآن ہی کا اتباع ہے۔

مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِط وَ الَّذِیْنَ مَعَہٗ (الفتح )کے چند الفاظ میں یہ حقیقت سمٹ آئی ہے۔ نعت گوئی میں، کسی کی بھی نسبت حضور کی نسبت پر منتقل ہو کر زیادہ معتبر ہو جاتی ہے۔ چند شعر ملاحظہ کیجیے:

جز نسبت صدیقی کیا نام و نسب اپنا

ہم ان کے رفیقوں کے قدموں کے نشاں ٹھہرے

(سرشار صدیقی)

انہی کے قرب سے بوبکر بن گئے صدیق

ملی علی کو اسی ذات سے سیادت بھی

(عزیز احسن)

ان کے قدموں پہ گرے ریت کی دیوار سے وہ

سہل تھا جن پہ پہاڑوں کو سنبھالے رکھنا

(زیب غوری)

وہ ان ہی کے صحابہ تھے جنھوں نے ان کی چاہت میں

نہ اپنی جاں کو جاں سمجھا نہ اپنے گھر کو گھر جانا

(منظر عارفی)

وہ جس کی ضو سے تابندہ ہیں بدر و کربلا اب تک

عطا اُمید کو یارب وہی کردار ہو جائے

(اُمید فاضلی)

اگر ہم اُسوۂ آلِ نبی اپنائیں تو صہبا

بہت دشوار یہ دنیا بہت آسان ہو جائے

(صہبا اختر)

جیلانی و چشتی ہوں وہ رومی ہوں کہ سعدی

روشن ہیں ہر اک ذہن میں افکارِ مدینہ

(صفدر صدیق رضی)

ہر اُمتی کے ساتھ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمکا تعلق اجتماعی ہونے کے ساتھ ساتھ حد درجہ انفرادی بھی ہے۔ ہر ایک کی ذاتی خصوصیات، ان کی نسبت سے راستہ بھی پاتی ہیں اور مضبوط بھی ہوتی ہیں۔ یہی گوناگونی دبستانِ کراچی کی نعت گوئی میں بھی نظر آتی ہے۔ کہیں نعت اپنی ذات کی سا لمیت کا اظہا ر ہے، کہیں ملت کا استغاثہ ہے، کہیں فکر کا اشاریہ ہے اور کہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے اور اپنے آپ سے گفتگو کا وسیلہ ہے۔ لیکن بیشتر شاعروں کے ہاں یہ رنگ ایک ساتھ نظر آتا ہے جس سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ نعت گوئی سے شاعروں کی شخصیت میں بھی توسیع ہوئی ہے۔

سطورِ بالا میں دبستانِ کراچی کی نعت گوئی کا ایک مختصر منظرنامہ پیش کیا گیا اور اس ضمن میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں ان کا مقصد تفاخر نہیں بلکہ تعارف ہے اور وہ بھی بہت اجمالی۔ چلتے چلتے کراچی میں نعت کے نقد و نظر کے اور تحقیق و تجسس کے منظرنامے پر بھی ایک اُچٹتی سی نظر ڈالنا اس منظرنامے کو مکمل کرنے کے مترادف ہوگا۔ مزید دیکھیے


تازہ ترین[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت کائنات پر نئی شخصیات