دبستانِ نعت کا تنقیدی جائزہ - ڈاکٹر اشفا ق انجم

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

مضمون نگار: ڈاکٹر اشفاق انجمؔ (مالیگائوں)

مطبوعہ: دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

’’دبستانِ نعت‘‘(شمارہ نمبر۱) کا تنقیدی جائزہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

محترم ڈاکٹر سراج قادری صاحب !!

’’دبستانِ نعت‘‘ کا پہلا شمارہ موصول ہوا ، اس کرم گستری کا شکریہ!!

رسالہ غالباً بڑی عجلت میں ترتیب دیا گیا ہے جس کی بنا پر بعض کمزورتخلیقات بھی شامل ہوگئی ہیں۔ کمپوزنگ کی تو بیشمار خامیاںہیں۔ جگہ جگہ نظر کو ٹھوکر لگتی ہے۔ ایک جگہ تو ایسا معلوم ہوا کہ سانس ہی اکھڑجائے گی۔ ملاحظہ فرمایئے صفحہ نمبر ۸۵،

’’اِنّا اعطینیٰ کل کوثرط‘‘۔۔ (انّا آعطینک الکوثر )

اگر ’’اغلاط نامہ‘‘ تحریر کروں تو کئی صفحات درکار ہوں گے۔ حضور! یہ نعتیہ رسالہ ہے اسلئے پروف پر توجہ بہت ضروری ہے۔ بات چل نکلی ہے تو ملاحظہ فرمایئے ۔

صفحہ نمبر۲۴، پیراگراف ’’وہ معین ہیں۔۔۔ سطر ۱۴ - ۱۸ تاصفحہ نمبر۲۸۔ سطر ۱۲تا ۱۴ ، پیراگراف ’’ یہ فن ہر زبان۔۔۔صفحہ نمبر۳۰، سطر ۱۱ تا ۲۳ پر درج ہے۔ صفحہ نمبر ۲۸ ، پیراگراف ’’فن شعر(Art of Poetry) ، صفحہ نمبر۲۸۔ سطر ۱ تا ۱۹، صفحہ نمبر۳۰، سطر ۲۴ -۲۵ تا صفحہ نمبر۳۱، سطر ۱تا ۱۸ پر دہرایا گیا ہے۔ اسی طور پر صفحہ نمبر ۱۹۹، سطر ۷ تا ۲۵، پیراگراف’’تمام خصوصی مہمان۔۔۔‘‘ صفحہ نمبر۲۰۰پر سطر ۱۲ تا ۲۴ ، دوبارہ کمپوز ہوگیا ہے۔ صفحہ نمبر۲۰۴ ، سطر ۲۲ تا ۲۵۔ صفحہ نمبر۲۰۵ ، سطر ۱تا ۱۲ کی پوری عبارت ، صفحہ نمبر ۲۰۶ کی سطر ۱۳ تا ۲۵ سے لیکر صفحہ ۲۰۷، سطر ۱ -۲ پر ہوبہو درج ہے۔

قادری صاحب ! میں نے اپنی تحریروں میں کئی جگہ لکھا ہے اور مجلسوں میں بھی یہ بات کہی ہے کہ ؛

’’اکثر غلط اشعار بہت جلد مقبول ہوجاتے ہیں ،مثلاً آ پ کا پیش کردہ شعر ؎


اے خدا اجر کے اعلان سے پہلے سن لے

مجھ کو جنت سے سوا سایۂ دیوار اُن کا

(احمد ندیم قاسمی ،صفحہ ۱۱)

آپ نے اس شعر کی قباحت پر غور نہیں فرمایا، اوّل تو شعر میں خدا کو چیلنج کیا جارہا ہے یا پھر خد ا سے تاکیداً کہا جارہا ہے کہ اپنے فیصلے سے پہلے میرا عندیہ سن لے۔ اگر اس کے خلاف ہوا تو میں تیرا فیصلہ ماننے والا نہیں!! دوسرے یہ کہ حشر اسی وقت برپا ہوگا جب ساری کائنات فنا ہوجائے گی تب قاسمی صاحب ’’ان کا سایۂ دیوار‘‘ کہاں سے لائیں گے؟ تیسرے یہ کہ شاعر کو جنت کی خواہش نہیں۔ اِ لّا ماشاء اللہ!!

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

اِدھر کئی رسائل میں تنویر پھول صاحب (نیویارک) کی نعت و حمد نظروں سے گزریں اور پہلا تاثر یہ پیدا ہوا کہ پھول صاحب بحر کے ارکان پر الفا ظ فٹ کر کے شعر بنالیتے ہیں۔ زبان و بیان کی صحت ا ور فصاحت و بلاغت پر ان کی نگاہ نہیں رہتی۔ ان کی حمد صفحہ ۱۹ پر ’’رحمن دنیا‘‘ اور ’’آخرت میں رحیم‘‘ کا مطلب کیا ہوا؟ اور ردیف ’’کرم ہی کرم‘‘ کے ساتھ جب ’’ تو ‘‘ لگا ہواہے تو پھر میرے خیال میں کرم کی بجائے ’’کریم‘‘ کا محل ہے۔ اسی طرح ’’تجھ سے ہے آسرا‘‘ بھی غلط زبان ہے۔ ’’تجھ سے آس‘‘ یا پھر ’’تیرا آسرا‘‘ کہتے ہیں۔ ’’مائیںستّر محبت میں ہیں تجھ سے کم‘‘ میں بھی تعقید ہے۔ مطلب ستّر محبت میں مائیں کم ہیں؟ نیز ہمارے یہاں ماں کی محبت کی جگہ ’’ممتا‘‘ مستعمل ہے جو ماں کے تعلق سے محبت کا زیادہ صحیح مفہوم دیتا ہے۔

طاہر سلطانی صاحب کی حمد کا مطلع بھی بڑاعجیب ہے۔ اولیٰ مصرعے میں آپ فرمارہے ہیں کہ ، دل میں رب کی محبت کے سوا کچھ بھی نہ رہے اور ثانی میں فرماتے ہیں ’’اور کیا چاہئے سرکار کی چاہت کے سوا‘‘۔ یہ تو متضاد باتیں ہیں!!

ایک بات پر مجھے مزید حیرت ہوتی ہے کہ اکثر شعرأ ایسے الفاظ کی بھی جمع بنالیتے ہیں جن کی جمع ہے ہی نہیں۔ مثلاً پانی سے پانیوں۔ دھوپ سے دھوپوں اور طاہر سلطانی صاحب کی الفت سے الفتیں!! ان کا پانچواں شعر تو غضب کا ہے، وہ مولا سے سیّد عالم ﷺ کی شفاعت طلب کررہے ہیں !؟ کیا مولا بخشنے کی قدرت نہیں رکھتا!؟


کچھ نہیں مانگتا مولا ترا بندہ تجھ سے

حشر میں سیّد عالم کی شفاعت کے سوا

ص ۲۰

صفحہ ۲۲ پر احمد ندیم قاسمی کے دو شعر درج ہیں اور میری نگاہ میں دونوں ہی غلط ہیں۔


فن کی تخلیق کے لمحوں میں تصور اس کا

روشنی میرے خیالوں میں ملا دیتا ہے

شعر سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ حمد کا شعر ہے یا نعت کا؟ دوسرے ’’فن کی ‘‘ حشو قبیح ہے اس کے بغیر بھی مصرعہ مکمل ہے یعنی ’’تخلیق کے لمحوں میں تصور ان کا‘‘ تیسرے روشنی خیالوں میں بھر دیتا ہے درست ہوگا نہ کہ ’’ملا دیتا ‘‘۔نیز میرے خیال میں ’’فن ‘‘ تخلیق نہیں کیا جاتا۔

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

میرے نقاد کو شاید ابھی معلوم نہیں

میرا ایماں ہے مکمل میرا ایماں تو ہے

شعر دولخت ہے، ’’نقاد‘‘ بھی بے محل ہے یہاں ’’منکر‘‘ جیسے کسی لفظ کی ضرورت تھی!! یہاں بھی وہی کیفیت ہے کہ شعر حمدیہ ہے نعتیہ؟ حمد یہ ہے تو ٹھیک ہے اوراگر نعتیہ ہے تو محل نظر ہے!!

ڈاکٹر سیّد حسین احمد(پٹنہ) اہل تصوف میں مقدس ہستی ہیں اور اہل ادب میں محترم! لیکن قابل احترام ہستیوں سے اختلاف کی گنجائش بہر حال موجود ہے۔

سیّد صاحب کے اس خیال سے میںمتفق نہیں ہوں کہ:

’’نعت کا کوئی فارم مخصوص نہیں اسلئے اسے صنف سخن کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔‘‘

اس تعلق سے آپ نے مرثیے کی مثال دی ہے اور فرمایا ہے کہ سوداؔ نے مرثیے کا فارم مسدس مقرر کیا ہے۔ یہاں سوال یہ اُٹھتا ہے کہ۔

سوداؔ سے قبل چودہ سو سال پہلے تک جس کلام کو مرثیہ کہا گیا ہے وہ کیا ہے؟ اور میر ا نیسؔ و مرزا دبیرؔ کے بعد مسدس کا فارم مرثیے کیلئے کتنا استعمال ہوا؟ اور کیا مسدس کے فارم میں کہا جا نے والا کلام ہی مرثیہ کہلائے گا اور دوسری ہیئت میں کہا جانے والا کلام مرثیے میں شمار نہیں ہوگا؟؟ جیسے کہ رباعی ، اس کے طے شدہ مخصوص اوزان ہیں اور یہ اس کی ایجاد سے ہی اس کے لئے مخصوص اورلازمی قرار دیئے گئے ہیں۔ اگر کوئی تخلیق ان طے شدہ اوزان پر پوری نہیں اترتی تو وہ رباعی نہیں قطعہ کہلائے گی!! جبکہ مسدس کی ہیئت میں نہ ہونے کے باوجود اپنے موضوع کے اعتبار سے مرثیہ ، مرثیہ ہی کہلائے گا۔

بعینہ صورتِ حال نعت کی ہے یعنی اگر مرثیہ کو اپنے موضوع کے اعتبار سے صنف کہاجارہا ہے تو پھر نعت بھی اپنے موضوع کے اعتبار سے صنف کیوں نہیں کہی جاسکتی؟؟

محترم جناب ڈاکٹرسیّد خسرو حسینی (گلبرگہ شریف) ، ڈاکٹر عزیز احسنؔ ، فیروز احمد سیفی کے مضامین عمدہ ہیں بقیہ تخلیقات BAاور MA کلاسیس کی نوٹس معلوم ہوتی ہیں۔

ڈاکٹر صابر سنبھلی ان دنوں بڑے عجیب و غریب مضامین تحریر کررہے ہیں ، وہ جس کی مدح و تعریف کرتے ہیں ، اس کی تضحیک و تنقیص بھی کرجاتے ہیں۔مثلاًحدائقِ بخشش کا یہ شعر پیش کرکے و ہ رقم طرازہیں ۔ ؎


تیرے بے دام کے بندے ہیں رئیسانِ عجم

تیرے بے دام کے بندی ہیں ہزارانِ عرب

’’بے دام اور بے دام‘‘ میں صنعت ہے جو بہت پہلے سے استعمال ہوتی آئی ہے۔ اس صنعت کے استعمال پرشاعر(اعلیٰ حضرت) کی بہت زیادہ تحسین نہیں کی جاسکتی‘‘۔( ص-۵۸)

’’ میں یہ نہیں کہتا کہ حضرت موصوف دنیا کے بہت بڑے نعت گو ہیں۔ یہ دعویٰ بھی نہیں ہے کہ اردو میں ان سے بہتر نعت گو کوئی نہیں ہوا؟ لیکن بڑی بات یہ ہے کہ ان کی نعت گوئی بارگاہِ رسالت میں مقبول ہوئی اور ان کو حج و زیارت کیلئے طلب فرمایا گیا۔‘‘(ص ۱۹۸) ’’ لیکن اس خبر کی تصدیق یا عد م تصدیق اِس ہیچ مداں کو نہیں ہوئی۔‘‘(ص۱۹۸)

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

اس کے بعد صابر صاحب اس تعلق سے ایک واقعہ مفصل بیان کرتے ہیں اور پھر اس پر اس طرح پانی پھیر دیتے ہیں:

ــ’’ یہ ایک عقیدت مند کی تحریر ہے۔ اسلئے اس میں ۔ ؎

بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیبِ داستاں کیلئے (ص۲۰۱)

صابر صاحب صفحہ نمبر ۱۹۳ پر لکھتے ہیں:

’’ میں پہلے کسی مضمون میں لکھ چکاہوں کہ اب شافع یوم النشور کو ’تو‘ ، تیرا ، تجھ کو‘ جیسے القاب سے مخاطب نہیں کرنا چاہئے۔‘‘

ایسی ہی بات ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی نے بھی اپنے تعلق سے ایک جگہ لکھی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ راقم الحروف نے اپنے نعتیہ مجموعہ کلام ’’صلوا علیہ وآلہ‘‘ (۲۰۰۱ء) کے پیش لفظ میں تحریر کیا تھا کہ:

’’ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ’تو، تیرا، تجھ کو‘ جیسے القاب سے مخاطب کرنا میرے نزدیک بے ادبی ہی نہیں بلکہ گستاخی ہے۔ــ‘‘

جس پر صابر صاحب نے اپنے نعتیہ دیوان کے صفحہ نمبر ۱۶ پر تحریر فرمایا:

’’ یہ بات بہت دنوں سے میرے ذہن میں تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تو، تیرا سے مخاطب نہیں کرنا چاہئے لیکن اس تعلق سے مالیگائوں ، مہاراشٹر کے ڈاکٹر اشفاق انجم صاحب نے پہل کردی۔‘‘

کسی کی تحریر ہی نہیں کوئی قول بھی اپنے نام سے بیان کرنا ادبی بددیانتی و خیانت میں شمار ہوتا ہے۔

کرشن کمار طورؔ پر فہیم احمد صدیقی کا مضمون اچھا ہے، غیر مسلم نعت گو شعرأ پر آج کل بہت کام ہورہا ہے۔ ہونا بھی چاہئے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم رحمت اللعالمین ہیں ، لیکن مضمون نگاروں کو اس امر کا خیال رکھنا چاہئے کہ ’’عقیدہ اور عقیدت‘‘ میں بہت فرق ہے۔ غیر مسلم تو جس سے متاثر ہوجائیں اس کی پوجا ارچنا شروع کردیتے ہیں ، اب یہی دیکھئے کہ ’’شرڈی کے سائیں بابا‘‘ ایک مسلم فقیر تھے ، برسوں میرے شہر مالیگائوں میں رہے، انکے دیکھنے والوں میں بزرگ استاد شاعر حضرت احسن ؔمرحوم تھے اور جب کبھی بات نکلتی تو فرماتے تھے کہ:

’’سائیں بابا مسلم فقراء میں سے تھے۔ نام عبدالرحمن تھا اور غوث ماسٹر کے اعزأ میںسے تھے جن کے وارثین آج بھی یٰسین میاں کے تکیئے میں رہائش پذیر ہیں۔ ‘‘

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

خیر۔ آمدم برسرِ مطلب کہ غیر مسلم شعرأ کے نعتیہ کلام پر ضرور لکھا جائے لیکن اچھی طرح دیکھ لیا جائے کہ کہیں کوئی شعر خلافِ شرع یا اسوۂ حسنہ کے متضاد تو نہیں ہے مثلاً کرشن کمار طورؔکے یہ اشعار۔ ؎


دیکھنا ہے کہ حاجت روا کون ہے

وہ نہیں ہیں تو مشکل کشا کون ہے!

ص۸۰


ہے ان کے ہاتھوں میں کنجی مرے مقدر کی

مجھے تو ملتا ہے سب کچھ سدا محمد ﷺ سے

ص۸۰


وہی ہے جس نے بخشی ہے ضیا لفظوں کو قرآن کے

وہی ہے نورِ علمِ آسمانی بانٹنے والا

ص ۸۱


رنگِ نارِ خلیل ہیں آپ ﷺ

حسن ربِّ جلیل ہیں آپ ﷺ

ص۸۱

ان اشعار کی قباحت اتنی واضح ہے کہ اس پر کچھ تفصیل سے لکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔

مرحومہ صغریٰ عالم پر فیروز احمد سیفی صاحب کا مضمون بہت عمد ہ ہے۔ میر ے خیال میں اگر سیفی صاحب صغریٰ عالم کا یہ شعر درج نہ کرتے تو بہتر ہوتا ،


مسجدِ توحید کے محراب در محراب میں

شمع احمد سے ہو وابستگی یا مصطفیٰ

ص۸۹

محراب مونث لفظ ہے نیز شاعرہ ’’مصطفیٰ ‘‘ سے ’’شمع احمد‘‘ سے وابستگی چاہتی ہے ، اس صورت میں ’’احمد‘‘ اور ’’مصطفیٰ‘‘ دو الگ الگ شخصیتیں ہوجاتی ہیں۔

قادری صاحب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو احمد ندیم قاسمی سے کوئی خاص لگائو ہے جس کی بنا پر ان کے اشعار کئی جگہ پیش کئے ہیں۔ صفحہ ۹۴پر اس شعر کے تعلق سے آپ کیا فرماتے ہیں۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

وہ مری عقل میں ہے ، وہ مرے وجدان میں ہے

مری دنیا بھی وہی ہے مرا عقبیٰ بھی وہی

میرے خیال میں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس نہ پہلے کسی کی عقل میں سمائی تھی نہ آج سما سکتی ہے اور نہ ہی آئندہ !! اگر کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کی عقل میں ہیں یعنی وہ انہیں کماحقہٗ جان چکا ہے تو میں اسے ماننے کیلئے قطعی تیار نہیں ہوں ! کیا آپ !!؟

محسن اعظم محسن ملیح آبادی (کراچی) نے اپنے مضمون’’ طاہر سلطا نی کے مجموعۂ کلام ’’نعت روشنی ‘‘ کا تنقیدی مطالعہ میں‘‘ طاہر صاحب کے کئی عیب دار اشعار پیش کئے ہیں۔ ان کا تفصیلی ذکر طوالت کا باعث ہوگا ، لیکن اس دوہے پر ضرور کچھ کہنا چاہوں گا۔ ؎


کِرپا ہو بھگوان کی مجھ پر، میں سندر ہوجائوں

مالا جپوں میں ہر دم ان کی یادوں میں کھو جائوں

بھگوان ، ’’اللہ‘‘ کا مترادف کسی صورت نہیں ہوگا، کیونکہ بھگوان میں رام، کرشن، شنکر جیسے۳۶ کوٹی دیوتا شامل ہیں ، اس صورت میں شاعر میری دانست میں لاعلمی یا غیر شعور ی طور پر شر ک کا مرتکب ہوگیاہے۔ اسے چاہئے کہ توبہ کرے اورایسے دوہے کو اپنے ذخیرے سے نکال پھینکے۔ اس کے علاوہ جس زبان پر ہمیں عبور نہ ہو اس میں خامہ فرسائی نہ کرنا ہی بہتر ہے۔ ’’سندر‘‘ ہندی لفظ ہے اس کا تعلق ظاہر ی حسن یعنی شکل صورت سے ہے۔

طاہر سلطانی ( کراچی) کا مضمون ’’غیر منقوطہ حمدیہ و نعتیہ شاعری‘‘ اچھی کوشش ہے ، طاہر ؔ صاحب نے محنت بھی کافی کی ہے۔ لیکن مجھے ان سے شکایت ہے کہ انہوں نے بھی عیب دار اشعار بطورِ نمونہ درج کئے ہیں۔ ملاحظہ فرمایئے ؎


کر دے وہ مٹی کو گوہر گر اُٹھے

اس کے در سے رحم و احساں کی گھٹا

ص۱۵۶


کنکر تو گوہر ہوسکتا ہے مگر مٹی!؟

کلامِ مہر و ولا لا الہ الا اللہ

حسام ملک الہ، لا الہ الا اللہ

ص۱۵۷

’’ولا‘‘ کا قافیہ ’’الہٰ‘‘ ہرگز نہیں ہوسکتا۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

ہوکے اللہ کے محمود و حامد مگر

دہر کے دردِ دل کی دوا آگئے

ص۱۵۷

اللہ کا ’’ہ‘‘ تقطیع سے ساقط ہے جس کی بنا پر’’ اَ لّا‘‘ پڑھا جاتا ہے جو سراسر غلط ہے۔


ملک مولیٰ کے دُلہا ، عجم کے ولی

حامل حال صلی علیٰ آگئے

ص۱۵۷

ثانی مصرعے کا مطلب میری سمجھ میں نہیں آیا!؟

دل کو مرے ملے درِ احمد کھلا ہوا

ہر لمحہ محوِ درس محمد ﷺ رہا کروں

ص۱۶۴

’’محوِ درسِ محمد‘‘ کا ’’درِ احمد کھلاہونے‘‘ سے کیا تعلق ہے اور اگر یہ ’’درس‘‘ بمعنی’’درشن‘‘ ہے تو ترکیب غلط ہے۔ ؎


لکھوں میں مدحتِ آقا خیالوں کو وضو دے کر

پکڑتا ہوں قلم کو اپنے ہاتھوں میں عقیدت سے

ص۱۵۶

’’وضودیا‘‘ نہیں ’’ کیا‘‘ جاتا ہے۔ غسل دیا جاتا ہے وہ بھی مُردے کو!

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

مولانا سعید اعجازکامٹوی کا شعر ہے ؎


کون کہتا ہے کہ مرقد میں اندھیرا ہوگا

وہ جو ہونگے تو اجالا ہی اجالا ہوگا

ص۳۰۸

کیا ’’وہ‘ ‘یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک شاعر کی قبر میں تشریف فرما رہیں گے؟

ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی سے درخواست ہے کہ وہ دبستانِ نعت میں شامل حضرت سیّد شاہ حسین احمد کے مضمون کے آخری تین پیراگراف پڑھ لیں تو انکے سامنے کئی آفاق روشن ہو جائیں گے۔

ڈاکٹر شکیل احمد اعظمی نے ’’علمائے گھوسی کی نعت نگاری ‘‘ پر بہت مفصل مقالہ تحریر فرمایا ہے لیکن انہوں نے بھی بہت سارے غلط اور قابلِ اعتراض اشعار مثال میں پیش کئے ہیں۔ مثلاً یہ ایک مصرعہ۔ ؎


’’کروں پاشویہ اے آقا تمہارے دیدۂ تر سے ‘‘(ص۲۳۱)

پاشویہ ایک یونانی طریقِ علاج ہے جس میں جڑی بوٹیوں کو پانی میں جو ش دے کر پیڑو سے نیچے تک پانی بہایا جاتا ہے۔ جسے عام زبان میں ’’تریرادینا ‘‘ کہتے ہیں۔اب اسے کیا کہیں کہ شاعر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس آنسوئوں سے اپنے پیڑوکا پاشویہ کرنا چاہتا ہے!


مبارک قاسمیؔ وہ ناخدائی کو ترے آئے

تو کیا کھٹکا ہے اب مجھ کو مخالف باد صر صر کا

(ص۲۲۶)

’’ترے‘‘ کی بجائے ’’مری‘‘ کا محل ہے۔ ناخدائی دریا اور سمندر میں ہوتی ہے اور باد صرصر ریگستان میں چلتی ہے!!

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

ہے خریدار گنہ رحمت کا تاجر جس جگہ

عاصیو! وہ مصطفی بازار تھوڑی دور ہے

(ص۲۲۸)

مطلب مدینہ شریف ’’مصطفی بازار‘‘ ہے جہاں رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم دوکان کھولے بیٹھے ہیں اور گناہ خرید رہے ہیں!!


محمد سا حسیں دیکھا نہ ایسی دل بری دیکھی

خدا نے مصطفی میں اپنی خود جلوہ گری دیکھی

(ص۲۳۲)

وہی ’’احد اور احمد‘‘ کے ’’میم‘‘ والا معاملہ یہاں بھی ہے اللہ شاعر کی مغفرت فرمائے۔


جبیں ہو جھکی میری کعبے کی جانب

مرے دل کا قبلہ نبی کا حرم ہو

ص۲۴۷

یہ کیا ہے، منافقت یا شرک!؟


میرے آنسو کہہ رہے ہیں آج دل کی ساری بات

سامنے ہے آپ کے روضے کی جالی یا رسول

(ص۲۶۱)

دل کی بات ’’جالی‘‘ سے کہہ رہے ہیں یا ’’رسول‘‘ سے؟


اس خاک پہ مَلتے ہیں جبیں چاند ستارے

چنتا ہے گلِ باغِ ارم خارِ مدینہ

ص۲۶۹

کیا واقعی چاند ستارے مدینے کی خاک پر جبیں ملتے ہیں؟ نیز ’’باغِ ارم‘‘ تو شداد کی جنت تھی پھر مدینے کے خار ارم میں کیسے پہنچیں گے!؟ حجاج کرام سے سنتا ہوں کہ مدینے میں ’’خار‘‘تو کجا ’’دھول مٹی‘‘ تک نہیں ہے۔ اس صورت میں خارِ مدینہ‘‘ کی کوئی نئی تاویل تلاش کرنی چاہئے!

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

پھرے نہ ان کی گلی میں اگر تو کچھ نہ کیا

طواف خانۂ کعبہ ہزار بار کریں

(ص۲۷۲)

اللّٰھم احفظنا!

حضرت عبدالرحمن جامیؔ پر خصوصی گوشہ شائع کرکے آپ نے بڑا اہم کام کیا ہے۔ اس میں تنویر پھول ، سیّد یحییٰ نشیط اور ڈاکٹر رضوان انصاری کے مضامین شامل ہیں۔

قادریؔ صاحب ! آپ مدیر ہیں اسلئے آپ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ آپ موصول شدہ مضامین کو بغور دیکھیں ، اگر ان میں کوئی قابلِ اعتراض بات ہو تو صاحب مضمون سے رابطہ کرکے اس کی طرف متوجہ کریں اور اگر یہ نہ ہوسکے تو آپ اپنی مقراض کا استعمال کریں۔ شائع شدہ مضامین میں کچھ اختلافات ہیں ، ملاحظہ فرمایئے:

٭ ’’ وہ (جامیؔ) ۱۴۱۴ء میں پیدا ہوئے۔ ۷۸؍ سال کی عمر میں نومبر ۱۴۹۲ء میں وفات پائی۔ ‘‘ تنویر پھول ، ص ۲۷۸

٭ ’’ وہ (جامیؔ ) ۱۴۱۴ء میں پیداہوئے۔ ۱۴۹۵ء میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ‘‘ یحییٰ نشیطؔ ،(ص ۲۸۲)

٭ ’’ جامیؔ اس دنیا ئے فانی میں ۸۱؍ سال زندہ رہے۔ چنانچہ آپ کا وصال ۱۸؍ محرم ۸۹۸ھ مطابق ۹؍ نومبر۱۴۹۲ء میں ہوا۔ ‘‘ رضوان انصاری ، (ص ۲۹۰)

اب ذرااِن بیانات کا تجزیہ کیجئے اور ان کے تضاد ات ملاحظہ فرمایئے۔

۱) تنویر پھول کے مطابق جامی ؔ ۷۸؍ برس زندہ رہے یعنی ان کی ولادت ۱۴۱۴ء اور وفات ۱۴۹۲ء(۸۹۸ھ) میں ہوئی۔

۲) یحییٰ نشیط کے مطابق جامیؔ ۸۱؍ برس زندہ رہے یعنی ان کی ولادت ۱۴۱۴ء اور وفات ۱۴۹۲ء (۹۰۲ھ) میں ہوئی۔

۳) رضوان انصاری کے مطابق جامیؔ ۸۱؍ برس زندہ رہے یعنی ان کی وفات۱۴۹۲ء (۸۹۸ھ) سے سنہ ولادت ۱۴۱۴ء کی بجائے ۱۴۱۱ء نکلتا ہے۔ اس کے علاوہ رضوان انصاری صاحب نے لوحِ مزار جامیؔ پر کندہ قطعہ پیش کیا ہے جس سے تاریخ نکلتی ہے۔


جامیؔ کہ بود مائلِ جنت مقیم گشت

فی روضۃٌ مخارۃٌارضُھا ا لسّماء

کلکِ قضا نوشت رواں بردرِ بہشت

تاریخۂ ومن دخلہ کان آمن


۸۹۸ ھ ----

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

اس قطعہ میں دو قباحتیں ہیں ، اوّل تو ’’سما‘‘ کا قافیہ ’’آمن‘‘ غلط ہونے کے علاوہ بحر بھی درست نہیں ہے۔ اسے ’’آمنا‘‘ ہونا چاہئے اور آیت قرانی میں بھی ’’آمنا‘‘ ہی ہے۔ اس صور ت میں آیت ’’ ومن دخلہ کان آمنا‘‘ کے اعداد ۸۹۸ کی بجائے ۸۹۹ نکلتے ہیں۔ یہاں ۸۹۸حاصل کرنے کیلئے ’’آمنا‘‘کا آخری ’’ا‘‘ساقط کردیا گیا۔ یہ تو کچھ مناسب نہیں ہوا!!اس صورت ِ حال میں لوح مزار کو مصدقہ مانتے ہوئے جامیؔ کی وفات کا سنہ ۸۹۹ھ ہی تسلیم کرنا چاہئے۔ کیونکہ مادّے کے اخراج میں کسی صنعت یعنی زبر وبیّنات یا تدخلہ و تخرجہ کا کہیں بھی کسی صورت سے اظہار نہیں ہوتا۔

حضرت جامیؔ کے اشعار کے بیشتر تراجم بھی غلط ہوئے ہیں۔ مترجمین نے یا تو اشعار کے سمجھنے میں غلطی کی ہے یا پھر وہ زبان فارسی کا صحیح مذاق نہیں رکھتے یا پھر مترجمین نے اپنے مزاج اور مسلک کے مطابق آزاد اور من چاہا ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے۔


وصلی اللہ علیٰ نورٍ کز و شد نورہا پیدا

زمین ازحب او ساکن فلک در عشقِ اُو شیدا

(ص ۲۴۸)

ترجمہ : اور اللہ کی رحمت ہو اس نور پر جس سے (تمام) نور پیداہوئے، زمین اس کی محبت میں ساکن (زلزلے سے محفوظ) اور آسمان اس کے عشق میں شیدا ہے۔

’’پیدا ‘‘ کے معنی مترجم نے ’’پیدائش‘‘ لئے ہیں۔ جبکہ یہاں ’’ظاہر‘‘ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ نیز زلزلے تو آج بھی آرہے ہیں ؟ میری دانست میں شعر کا مطلب یہ ہوگا:

’’اللہ کی رحمت ہو اس نور پر جس کے صدقے میں ہر نور کا ظہور ہوا۔ اور زمین جو آپ کے انتظار میں مضطرب تھی ، آپ ﷺ کی آمد پر پرسکون ہوگئی۔ ‘‘


محمد ، احمد و محمود وے را خالقش بستود

کز و شد بود ہر موجود ، ازو شد دیدہا بینا

(ص۲۷۸)

ترجمہ: آپ ﷺ کے خالق نے آپ ﷺ کی مدح محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، احمد صلی اللہ علیہ وسلم اور محمود کہہ کر کی ہے، ہر موجود شئے سے جو فائدہ اور نفع حاصل ہورہا ہے وہ آپ ﷺ ہی کے صدقے میں ہے۔ اور چشم بصیرت کی بینائی بھی آپ ہی کے طفیل ہے۔

شعرمیں تو ’’فائدہ اورنفع‘‘ کا کہیں ذکر ہی نہیں ہے!؟ شعر کا مطلب تو یہ ہے،

’’ آپ کے خالق نے محمد، احمد اور محمود کہہ کر آپ کی تعریف و توصیف کی ہے۔ ہر موجودکا وجود آپ ﷺسے ہے اور آپ سے آنکھوں کو (وہ) نور اور بینائی ملتی ہے۔ ‘‘ (جس سے حق کا دیدار ہوتا ہے۔)


دو چشم نرگسینش را کہ مازاغ البصر خوانند

دو زلفِ عنبرینش را کہ واللیل اذا یغشیٰ

(ص۲۷۹)

ترجمہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دو نرگسی آنکھیں ہمیں ’’مازاغ البصر‘‘پڑھنے کو کہتی ہیں اور دو عنبریں زلفوں کا کہنا ہے کہ ہم ’’واللیل اذا یغشیٰ‘‘ پڑھیں۔

بہت غلط ترجمہ ہوا ہے۔ مترجم نے ’’ خوانند‘‘ کو ’’پڑھنے‘‘ کے معنوں میں لیا ہے جبکہ محاورۃً خوانند کا مطلب’’ کہتے یا سمجھتے ہیں‘‘ ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ:

’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نرگسی آنکھیں جن کے تعلق سے مازاغ البصر کہا گیا ہے اور جن کی زلفوں کوو اللیل اذا یغشیٰ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ‘‘

خیّام کی رباعی ملاحظہ فرمایئے۔ ؎


قرآں کہ بہیں کلام خوانند اورا

قرآں کہ جسے بہترین کلام کہتے ہیں

گہ گاہ نہ بردوام خوانند اورا

(جسے/جسکو) کبھی کبھی پڑھتے ہیں مستقل نہیں

در خطِّ پیالہ آیتے روشن ہست

خطِ پیالہ میں ایک آیت روشن ہے

کاندر ہمہ جا مدام خوانند اورا

جس میں ہم اسے مدام (ہمیشہ) پڑھتے ہیں

رباعی کے پہلے مصرعے میں ’’خوانند‘‘ کا مطلب ’’جانتے‘‘ ہیں، سمجھتے ہیں یا کہتے ہیں‘‘ہے دوسر ے اور چوتھے مصرعے میں ’’پڑھتے ہیں‘‘ ہوگا۔ اسی طرح دوسرے مصرے میں ’’ اورا‘‘ کا مطلب ’’اسے اس کو‘‘ نہیں بلکہ جسے / جس کو ہوگااور چوتھے مصرعے کے ’’اورا‘‘ کا مطلب ’’اسے/ اس کی‘‘ ہوگا۔

رباعی کا مطلب یہ ہوا :

’’قرآن کہ جسے بہترین کلام سمجھا / کہا جاتا ہے(لیکن) اسے بھی (لوگ) کبھی کبھار ہی پڑھتے ہیں۔(جبکہ) خطّ پیالہ میں ایک روشن آیت ہے جسے ہم ہمیشہ پڑھتے ہیں۔‘‘

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png


بہ بر اِیں جانِ مشتاقم بہ آں جا

فدائے روضۂ خیر البشر کن

ترجمہ: میری جان اس بات کی مشتاق ہے کہ وہ خیر البشر کے روضے پر فد اہوجائے۔

شعر کا ترجمہ یوں ہوگا۔

’’(اے نسیم) میری جانِ مشتاق کو اس جگہ لے جا اور روضۂ خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا کردے۔‘‘

صفحہ ۲۸۷ پر کمپوزر نے رباعی ’’ شاہ ہست‘‘ کو چھ مصرعوں میں کمپوز کردیا ہے۔


شاہ است حسین

بادشاہ است حسین

دیں است حسین

دیں پناہ است حسین

سرداد نہ داد (دست) در دست یزید

حقا کہ بنا ئے لاالہ است حسین

اس رباعی کے تعلق سے ۲۵۔ ۳۰ سال قبل ایک قدیم رسالے میں حاجی الحرمین حضرت سیّد تجمل جلالپوری (خلیفہ حضرت سیّد بشیر احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ، دیوہ شریف) کا بہت تفصیلی مضمون نظر سے گزرا تھا جس میں حضرت نے اس رباعی کے تعلق سے تحریر فرمایا تھا کہ:

’’ یہ رباعی کسی غالی شیعہ کی ہے حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی نہیں ہے۔ حسین دین نہیں ہیں اور نہ ہی لاالہ کی بنیا د حسین ہیں اور اگر چوتھے مصرعے کا تجزیہ کریں تو یہ معنیٰ بھی نکلتے ہیں کہ ’’حقیقت میں’ لاالہ‘ یعنی کوئی معبود نہیں کی بنیاد حسین ہیں یعنی اللہ کا کوئی وجود نہیں ہے!!؟‘‘

مشہور و معتبر محقق پروفیسر محمد ابراہیم ڈار صاحب کی تحقیق کے مطابق جو ’’دیوان‘‘ خواجہ اجمیری رحمۃ اللہ علیہ سے منسوب ہے وہ خواجہ صاحب کا نہیں ہے۔ اس تعلق سے وہ لکھتے ہیں:

’’غلط انتساب کی ایک بیّن مثال حضرت خواجہ معین الدین اجمیریؒ کا دیوان ہے۔

شیرانی صاحب نے اپنی تحقیقات کا آغاز کیا اور آخر تلاش و جستجو کے بعد انہیں ایک ایسے مصنف کا سراغ مل گیا جسے اس دیوان کا حقیقی مالک تسلیم کیا جاسکے۔ یہ مصنف مُلّا معین واعظ فراہی ہیں ، جنھیں مولانا جامیؔ کے ہم عصر ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ‘‘ ۱؎

تجمل صاحب کا مطلب تھا کہ ایسی رباعی جس سے وجود الہٰ کی نفی ہوتی ہو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ سے منسوب کرنا بڑی زیادتی ہوگی۔

اس رباعی کے تعلق سے ایک روایت اور ملاحظہ فرمایئے جس کے راوی بلاغتؔ قریشی امروہوی ہیں:-

’’ہم ایک ایسی رباعی سناتے ہیں جو شیعوں کے بزرگ مرزا جان محمد قدسیؔ مرحوم نے فرمائی ہے۔ اس رباعی کا طغریٰ لکھنؤ کے حسین آباد امام باڑہ میں آویزاں ہے۔‘‘ ۲؎

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

ان شواہد سے اتنا تو محقق ہوچکا ہے کہ یہ رباعی سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی سنجری غریب نوا ز رحمۃ اللہ علیہ کی نہیں ہے۔ ؎


لا یمکن الثنا کما کان حقہ

بعد از خدا برزگ توئی قصہ مختصر

ص۲۸۷

مضمون نگار نے اسے شیخ سعدیؔ کا شعر بتایا ہے جبکہ گلستان بوستاں میں یہ کہیں موجود نہیں ہے۔ بعض لوگ اسے حضرت جامیؔ کا شعر بتلاتے ہیں لیکن انکے یہاں بھی نہیں ملتا ، ہاں ’’تذکرہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ میں یہ قطعہ کی صورت میں ان ہی کے نام سے یوں درج ہے۔ ؎


یا صاحب الجمال و یا سیّد البشر

من وجھک المنیر لقد نو ّر القمر

لا یمکن الثنأُ کما کان حقہ

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

اس کی تحقیق بہت ضروری ہے کہ یہ شعر شیخ سعدیؔ کا ہے ،جامیؔکا ہے یا پھر شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا!! یا اگرچوتھے مصرعے کی شاہ صاحب نے تضمین کی ہے تو یہ چوتھا مصرع کس کا ہے؟

ڈاکٹر رضوان انصاری صاحب نے درج ذیل شعر بھی حضرت جامیؔ کے نام کردیا ہے؟


ہزار بار بشویم دہن زمشک و گلاب

ہنوز نامِ تو گفتن کمال بے ادبی ست

یہ تحریف شدہ شعر ہے جو خواجہ ہمام تبریزی رحمۃ اللہ عدلیہ کا ہے ان کی نعت کے اشعار ملاحظہ فرمایئے، صفحہ ۲۹۹ سے ۳۴۴ تک حضر ت جامی ؔ کے فارسی اشعار مع ترجمہ درج ہیں جن میں بیشتر تراجم غلط ہوئے ہیں۔ ان میں سے جو زیادہ غلط ہیں ان کا جائزہ پیش خدمت ہے۔

شعر


چو سوئے من گزر آری من مسکیں ز ناداری

فدائے نقش نعلینت کنم جاں یا رسول اللہ

(ص ۲۹۹)

ترجمہ: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر میرا نصیب بیدار ہوجائے اور آپ مجھ نادار مسکین کی طرف تشریف لے آئیں ، میرے پاس تو کوئی شئے ایسی نہیں ہے کہ جس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو پیش کرسکوں ، مگر ہاں جس مقام پر آپ کے نعلین ِ پاک کا نشان پڑے گا میں خود اس پر اپنی جان مشتاق نثار کردوں گا۔

شعر کے خط کشیدہ حصوں پر غور فرمایئے گا!؟

راقم- اگر میری جانب آپ کا گزر ہو تو یارسول اللہ میں مسکین بہ سببِ ناداری و بے سرومانی آپ کے نقش قدم پر اپنی جان قربان کردوں گا۔

شعر


زکر دۂ خویش حیرانم سیہ شد روز عصیانم

پشیمانم پشیمانم پشیماں یارسول اللہ

(ص۲۹۹)

ترجمہ: جو کچھ میں نے کیا ہے اس پر سخت پریشان ہوں۔ گناہوں کے باعث میرا چہرہ سیاہ ہوگیا ہے۔یا رسول اللہ میں بے حد شرمندہ ہوں ، میں نہایت ہی شرمند ہ ہوں ، میں ازحد شرمندہ ہوں۔

راقم- یارسول اللہ اپنے کئے پر گھبرارہا ہوں، گناہوں کی وجہ سے میرے دن سیاہ ہوگئے ہیں۔ میں اپنے آپ سے پشیمان و شرمندہ ہوں۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

شعر


بر روئے زدہ کفِ خجالت

با جودِ کفِ تو بحر مو ّ اج

(ص ۳۰۱)

ترجمہ- یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے جو د و سخا والے ہاتھوں کو دیکھ کر ٹھاٹھیں مارنے والے سمندر نے شرمندہ ہوکر اپنے چہرے کو چھپالیا ہے۔

راقم - یارسول اللہ آپ ﷺ کے کفِ جودو سخا(ہتھیلی) کو دیکھ کر سمندر نے خجالت سے اپنا چہرہ کف(جھاگ) میں چھپا لیا ہے۔

شعر میں کف(ہتھیلی) - کف (جھاگ) میں تجنیس تام کی خوبی پائی جاتی ہے۔

شعر


مطلح صبح صفاست روئے محمد ﷺ

منبع احسا ن و لطف خو ئے محمد ﷺ

(ص ۳۰۸)

ترجمہ- حضر ت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ انور بزرگی کے ظہور کا اولین مقام ہے اور آپ کے شمائل(خوو خصلت) کرم و احسان کے منبع ہیں۔

راقم- چہرۂ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پاک و روشن صبح کا مطلع ہے اور آپ کا اسوۂ حسنہ احسان و لطف کا منبع ہے۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

شعر

لی حیبٌ ، قرشی ٌ ، مدنی ٌ ، عربی ٌ

کہ بود دَرد و غمش مایۂ شادی و خوشی

(ص ۳۳۳)

ترجمہ- میرا محبوب قرشی، مدنی ، اور عربی ہے ، وہ اس قدر جاذبِ نظر اور دلنشین ہے کہ اس کا درد و غم ہزار ہا خوشی و شادمانی کا سرمایہ ہے۔

راقم- (شعر میں ’’عربی‘‘ پر تنوین نہیں چاہئے۔) میرا دوست قرشی ، مدنی و عربی ہے کہ جس کا درد و غم بھی خوشی و شادمانی سے کم نہیں ہے۔

شعر


جامیؔ ارباب و فاجز رہ عشقش نروند

سرمبادت گر ازیں راہ قدم باز کشی

(ص ۳۳۴)

ترجمہ- اے جامیؔ سچے عاشق اس محبوب کے عشق میں اضافے کے سوا دوسرا راستہ اختیار نہیں کرتے، خدانخواستہ اگر اس راستے سے قدم پیچھے ہٹے تو پھر موت ہی بہتر ہے۔

راقم- جامیؔ اہل وفا راہِ عشق کے سوا کسی اور راستے پر نہیں چلتے ، اگر تو اس راستے میں سر نہیں دے سکتا تو پھر اس راہ پر قدم مت رکھ۔

’’گلہائے عقیدت ‘‘ کے تحت درج تخلیقات میں بھی کافی اسقام پائے جاتے ہیں۔مثلاً


خیال فرما کہ چشم عالم تری ہی جانب لگی ہوئی ہے

نگاہ فرما کہ ساری امت کی میٹھی چاہیں ترس رہی ہیں

(ص۳۴۷)

آج کل اکثر شعراء زبان کو بگاڑنے کا کام بڑی تندہی سے کررہے ہیں۔ شعر میں ’’میٹھی چاہیں‘‘ کا کیا جوا ز ہے؟ اوّل تو ’’چاہ‘‘ کی جمع ہی نہیں ہوسکتی ، نیز کٹھی میٹھی ، اچھی بری چاہ کہنا کہاں تک درست ہے؟


کہ جن کے خوف سے بت گرپڑے بے اختیاری میں

شیاطیں اس طرح بھاگے کہ جیسے ابرہہ کی فوج بھاگی تھی

(ص ۳۴۸)


کیا بت اپنے اختیار سے کھڑے تھے؟

بوئے درِ محبوب تری راہ ہوں تکتا

ویرانۂ دل میرا بسانے کیلئے آ

ص۳۵۳


’’بو‘‘ سے ویرانۂ دل مہکایا ’’جاتا ہے‘‘ بسایا نہیں جاتا؟

اے کاش کسی رات چمک جائے مقدر

پیغام ملے نعت سنانے کیلئے آ

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

ص۳۵۳

’’رات‘‘ ہی میں کیوں ؟ دن میں کیوں نہیں!؟ ’’رات ‘‘ حشو ہے اس کے بغیر بھی معنی مکمل ہیں۔ کسی رات کی بجائے کسی وقت بھی کہا جاسکتا تھا۔


جب پہنچے قمر گنبد خضریٰ کے جلو میں

اے پیک اجل وعدہ نبھانے کیلئے آ

(ص۳۴۵)


کیا واقعی پیک اجل نے ایسا کوئی ’’وعدہ ‘‘ کیا تھا؟

مری معصیت ہے عروج پر تری رحمتیں ہیں کمال پر

نہ مرے گناہ کی انتہا نہ ترے کرم کا شمار ہے

(ص۳۵۵)

شعراء میں یہ ایک عجیب بدعت پھیلتی جارہی ہے کہ اپنے گناہوں کا کھل کراعتراف کررہے ہیں اور اس پر رحمتِ حق پر حق بھی جتارہے ہیں۔ اگر ایسے سارے گنہگاربخش دیئے جائیں گے تو پھر عبادت وریاضت کی ضرورت ہی کہاں رہ جاتی ہے؟ لوگ بلاوجہ خوف و ہراس میں مبتلا ہیں۔ نمازیں ، عبادت و تلاوت سب ترک کردیں اور اپنے انجام کو رحمت الٰہی و شفاعتِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر چھوڑ دیں کہ اللہ بہرحال رحیم ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے گنہگارانِ امت کی بخشش کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔


نعت حبیب لکھنے کی دل میں ہے اک لگن

اس شغل میں ہی بس رہوں ہر وقت اب مگن

(ص۳۵۷)

مطلع میں ایطا ٔ کا عیب ہے، یا پھر قافیہ ہی غلط ہے ، ’’ل گن، م گن ، اک اور اب بھی‘‘ غیر ضروری یعنی حشو ہیں۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

صد شکر ہے اجازت مدح نبی ﷺ مجھے

ورنہ کہا ںیہ منھ اور کہاں محبوب ذوالمنن

(ص۳۵۷)

کس سے اجازت ملی ہے؟ ثانی مصرع بحر سے خارج ہے۔


پھر ہم کو بلائیں گے سرکار مدینے میں

نہ جانے دعاؤں میں کب اپنی اثر ہوگا

(ص۳۶۱)

’’پھر ‘‘ کے معنی ’’دوبارہ‘‘ کے بھی ہوتے ہیں، یعنی شاعر ایک بار پہلے بھی مدینہ ہوآیا ہے؟ادھو مہاجن بسملؔ کے تعلق سے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ پھر کا دوسرا مطلب ’’بعد ازاں، اُسکے بعد اور تب‘‘ بھی ہے۔ اگر ان معنوں میں لیں تو ’’ نہ جانے‘‘ کا ٹکڑا غیر ضروری ہوجا تا ہے۔ اگر ’’پھر ‘‘ کی بجائے ’’کب‘‘ رکھدیں تو یہ سارے شکوک ختم ہوجاتے ہیں۔نہ کی بجائے بحر میں ’’نا‘‘ آتا ہے۔


بند کرکے نگاہوں کو جائے گا جو طیبہ کو

چوکھٹ پہ محمد کی پھر اہلِ نظر ہوگا

(ص۳۶۱)

بندکا ’’د‘‘ ساقط الوزن ہے۔ آنکھیں کھولی اور بند کی جاتی ہیں ’’نگاہیں ‘‘ نہیں!


ہو جائے گی محشر میں بسملؔ کی شفاعت بھی

سنت کا وہ دنیا میں حقدار اگر ہوگا

(ص۳۶۱)

شفاعت کیلئے صرف محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافی نہیں اس کے لئے ’’لا الہٰ الّا اللہ‘‘ بھی لازمی ہے۔ شعر میں ’’حقدار‘‘ بے معنی ہے۔

حضرت منیر اعظمی کی ’’ رحیقِ بیخودی‘‘ ، رحیق مدہوشی ہوگئی ہے۔ صفحہ ۳۶۲ تا ۳۶۴ پر موصوف جگہ جگہ لڑکھڑا گئے ہیں ، ملاحظہ ہو:

’’ادھر کب نافۂ گل نے شمیم بال وپر بدلی‘‘۔ ’’نگاہ صبح بدلا، زلفِ کافورِ سحر بدلی‘‘۔ خلیل اللہ کی مقبولِ یزدان دعائیں ہیں‘‘۔ ’’بشر ہی ہے بشر معلوم ہے قدرت عنا صر کی‘‘۔ ’’کوئی گل پیرہن یوں ضو فگن ہے کالی کملی میں‘‘۔ ’’کوئی اپنی ادائوں پر نہیں بے وجہ نازش میں‘‘۔ ’’زبانِ ناتواں سنتا ہوں بے تاثیر ہوتی ہے‘‘۔ ’’پڑا ہے میکدہ میں ساقیا اب خم کا خم خالی‘‘۔ نگاہوں میں مری طیبہ کا عرض و طول ہوجاتا‘‘۔

خط کشیدہ الفاظ کا اگر منیر اعظمی یا کوئی قاری شرح و وضاحت فرمائے تو شکر گذار ہوں گا۔

علیم صبانویدی صاحب کم و بیش نصف صدی سے تخلیقی میدان میں قلم کی جولانیاں دکھلارہے ہیں لیکن اورادھر کچھ برسوں سے یہ ا سپ کچھ بے لگام سا ہوگیا ہے۔ اور بے تعین سمتوں میں مسلسل دوڑرہاہے۔ یعنی ہر صنفِ ادب(ملکی غیر ملکی) پر منہ ماررہا ہے۔ نتیجتاً تخلیق تو ہورہی ہے لیکن غیر معیاری کیونکہ وہ اصناف کی ہیئت پر زیادہ زور دے رہے ہیں اورموضوعات و مضامین سے صرفِ نظر کررہے ہیں۔مثلاً صفحہ ۳۶۹ تا ۳۷۰۔

۱) کالی کملی کے اندر

راز ہیں پوشدہ

کون و مکاں کے

۲) زخم خوردہ شاعر

لہو سے تربہ تر الفاظ

آپؐ کی نذر

۳) پوچھ لو زمیں سے

آسماں بتائے گا

میرے اندر کون ہیں

۴) آؤ سوجائیں

چپکے سے آقا کے

آغوشِ تصور میں

۱) اس سہ سطری نثری نظم کو انہوں نے نعت کہا ہے جبکہ میری نظر میں یہ نعت نہیں ہے۔ ’’کالی کملی ‘‘ کی ’’مدح‘‘ ہے اور معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ کالی کملی کی فضیلت صرف اسلئے ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوشِ مبارک کی زینت تھی۔ اس سے علیٰحدہ وہ صرف سیاہ کپڑے کا ایک ٹکڑا ہے اور بس!! اس سے کون ومکاں کے اسرار و رموز کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

۲) ایسی شاعر ی اور لہو سے تر بہ تر الفاظ حضور ﷺ کی نذر کرنے سے بہترتھا کہ صرف ایک بار دورد شریف ہی پڑھ لیتے۔

۳) کسی کو اتنی فرصت نہیں ہے کہ زمین و آسمان سے پوچھے کہ علیم صبانویدی کے اندر کون ہے؟ پھرزمین سے پوچھنے پر آسماں کیسے بتائے گاکہ میرے اندر کون ہیں؟ اس کی بجائے ’’کون کون ہیں‘‘ کا محل ہے۔ یا پھر ’’ کون ہے‘‘۔

۴) اگر کسی کو آقا کا آغوش تصور میسر ہوجائے اور وہ سوجائے تو میری نظر میں اس سے بڑا بدنصیب کوئی نہیں!!

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png


اس کی چوکھٹ پہ کب بھلا مہرو ماہ کی حاضری نہیں ہے

جو نقشِ پاکی رہینِ منت نہیں ہے وہ روشنی نہیں ہے

(ص۳۷۱)

کیا شاعر صاحب بتا سکتے ہیں کہ ’’مہروماہ‘‘ کس طرح نبی کی چوکھٹ پر حاضر ی دیتے ہیں؟ میں نے تو دیکھا ہے کہ ہمارے شہر کی مسجدوں اور مکانات کے اوپر سے بھی مہر و ماہ شب وروز گزرتے ہیں!؟؟

مبین منو ّر صاحب نے شاید ابھی ابھی شاعری شروع کی ہے اور غالباً کسی استاد شاعر کے آگے زانوئے تلمّذ بھی تہہ نہیں کیا ہے۔


کون ہے جو ہمیں جنت کا پتہ دیتا ہے

ساری امت کو جہنم سے بچا دیتا ہے

’’بچا دیتا ہے‘‘ میں زبان اور زمانے دونوں کا عیب ہے۔ ابھی تو حشر قائم ہی نہیں ہوا تو پھر ’’بچا دیتا ‘‘ کا سوال کہاں سے اٹھتا ہے؟


جن کے صدقے میں ہر اک شئے کو بنایا رب نے

بھوکا رہ کر بھی وہ اوروں کو کھلادیتا ہے

ص۳۷۴

یہاں بھی وہی عیب ہے ’’کھلادیتا ہے‘‘ کی بجائے ’’کھلادیتا تھا‘‘ کامحل ہے۔


وہ ہمارا ہے نبی دنیا کو بتلا دو مبیںؔ

دین دیتا ہے نیا، کفر مٹا دیتا ہے

ص۳۷۴

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

دنیا کو ’’دون‘‘ پڑھیں تو بحر درست ہوتی ہے۔ نیز حضور ﷺ نے ’’نیا دین‘‘ نہیں دیا تھا۔یہ تو وہی دین ہے جو آدم علیہ السلام سے نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک سبھی انبیاء لے کر آئے تھے۔

قادری صاحب! تخلیقات کا انتخاب تعلقات اور مروّت پر نہ کیجئے ورنہ رسالے کا معیار متاثر ہوگا۔


قافلہ سوئے مدینہ جو رواں ہوتا ہے

شوق ہر گام یہ کچھ اور جواں ہوتا ہے

ص۳۷۵

مطلع میں ایطا ٔکا عیب ہے’’رواں۔ جواں ‘‘ بقیہ قوافی زباں۔ گماں وغیرہ ہیں۔


سہارا مل گیا بے تابیوں کو

ترے آنے سے راحت آگئی ہے

ص۳۸۳

راحت آتی نہیں ، ملتی ہے۔

ہوکے امّی لقب زمانے میں

منبعِ علم جامعات ہیں آپ

ص۳۸۵

’’ہوکے ‘‘ کی بجائے ’’ہوتے ہوئے‘‘ کا محل ہے۔ ’’منبع علم جامعات‘‘ یعنی ’’یونیورسٹیوں کے علم/ علوم!؟


دینا ہے تو مدینہ زیارت کادے شرف

تو ہی ہمارا رب ہے بڑا ذوالجلال ہے

ص۳۸۷

زیارتِ مدینہ یا مدینے کی زیارت ہونا چاہئے۔ ’’بڑا‘‘ حشو ہے۔ ذوالجلال کے ساتھ چھوٹا بڑا لکھنا غلط ہے۔


شبِ قدر کی برکتیں رات لائی سعادت حضوری کے سجدوں کی پائی

عجب بیخودی ہے عجب کیف و لذت یہ وارفتگی ہے عطائے مدینہ

ص۳۸۸

’’شبِ قدرکی رات‘‘ روغنِ آملہ کا تیل!؟

مدینہ کی جانب دیوانے چلے ہیں

انہیں حال دل سب سنانے چلے ہیں

ص۳۸۹

’’سب‘‘ حشو ہے، شعر یوں ہونا تھا ۔ ؎

مدینے کی جانب دِوانے چلے ہیں

انہیں حال دل کا سنانے چلے ہیں

واہ کیا شانِ محمد ہے کہ خود خالق نے

اپنی خوش نودی کو بھی ان کی رضا مانگی

ص۳۹۰

یہ شعر میں مفتیان شرع کے حوالے کرتا ہوں۔


خاک طیبہ ہی ہر اک مرض کا شافی ہے علاج

میں نے بھی شادؔ فقط خاکِ شفاء مانگی ہے

ص۳۹۰

لفظ ’’ مَرْض‘‘ نہیں ’’ مَرَض‘‘ ہے۔

مدینے میں محمد کے مداوا درد و غم کا ہے

کرم کی ہو نظر دریدہ میں دامان لایا ہوں

ص۳۹۲

شعر دولخت ہے۔ لفظ ’’دریدہ‘‘ کو ’’درّیدہ‘‘ نظم کیا گیا ہے۔ اسی طرح ’’دامان‘‘کا ’’ن‘‘ بھی غیر فصیح ہے۔


جاپ درودوں کی مالا پھر دیکھ مزد کیا آئے

یہ ہے ایسا منتر کہ تیرا بیڑہ پار لگائے

ص۳۹۴

کیا ’’درود‘‘ منتر، طلسم/ افسوں/ جادو کے بول ہیں؟ درود کی جمع درودوں بھی غلط ہے۔

قادری صاحب ! تبصرہ کافی طویل ہوگیا ہے لیکن میرے خیال میں اس میں کوئی غیرضروری بات نہیں آنے پائی ہے۔ میں اپنے تعلق سے اتنا کہنا چاہتاہوں کہ حمد و نعت میں معمولی سی لغزش بھی مجھ سے برداشت نہیں ہوتی،اسی بنا پر کبھی کبھی میرا لہجہ سخت ہوجاتا ہے لیکن میں حتی الامکان کوشش کرتا ہوں کہ کسی کی تضحیک وتذلیل نہ ہونے پائے۔

میری درخواست ہے کہ ایک مجلس ادارت تشکیل دی جائے جس میں نظم و نثر کے ماہرین شامل ہوں اور موصولہ تخلیقات پر تنقیدی نگاہ سے غور وخوض کرنے کے بعد انہیں اشاعت کیلئے منتخب کیا جائے۔

رسالے کے اصول و ضوابط ترتیب دیجئے اور قلم کاروں سے درخواست کیجئے کہ اپنی تخلیقات انہیں اصول و ضوابط کے تحت پیش کریں جن میں سنّت و شریعت کا پاس و لحاظ نہایت ضروری ہے۔ دیگر یہ کہ نعتیہ اشعار میں واقعات وغیرہ کی تحقیق ضروری ہے کہ یہ واقع بھی ہوئے ہیں یا نہیں !! آجکل بعض شعراء ہر محیر العقول واقعے کو بلاتحقیق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزے کے طورپر پیش کردیتے ہیں ، تیسرے زبان و فن پر بھی تخلیقات جانچی جانی چاہئیں۔

مجھے یقین ہے کہ آپ میری معروضات پر ضرورتوجہ فرمائیں گے۔

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
نئے صفحات

مضمون نگار کے پیش کردہ حوالے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حوالے :

۱؎ : مقالاتِ محمد ابراہیم ڈار۔ناشر انجمن اسلام ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ ممبئی۔ ۲۰۱۴ء۔ صفحہ ۸۹-۹۰

۲؎ ـ: ضمیمہ ’’تصویر یار‘‘۔ بمبئی۔ اپریل ۱۹۱۷ء۔ صفحہ نمبر۵