دبستانِ نعت پر ایک نظر ۔ طاہر سلطانی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Dabastan e naat.jpg

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

مضمون نگار: طاہر حسین طاہرؔ سلطانی(کراچی)

مطبوعہ: دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

دبستانِ نعت پر ایک نظر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

جناب ڈاکٹر سراج احمد بستوی صاحب

محترم فیروز احمد سیفی صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ!

امید ہے آپ خیر و عافیت سے ہوں گے۔ آپ حضرات کی عقیدت و محبت اور خلوص کا آئینہ ’’دبستانِ نعت‘‘ (ششماہی) موصول ہوا۔ دل کے آنگن میں، سبحان اللہ سبحان اللہ کی صدائیں گونجنے لگیں۔ آپ دونوں صاحبان اور اس شمارے میں لکھنے والے تمام ہی اہل علم و قلم کے لیے قلب کے ہر گوشے سے دعائے خیر کے کلمات زبان پر آگئے۔ اللہ عز و جل، حضور پرنور آنحضرت ﷺ کے طفیل آپ کی سعی کو قبول و منظور فرماپے۔ (آمین)

’’دبستانِ نعت‘‘ کے پہلے شمارے کے مشمولات کو دیکھنے کے بعد یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ آپ نے اُردو نعتیہ ادب کو ایک یادگار و شاندار اور معیاری رسالہ ’’دبستانِ نعت‘‘ کی شکل میں دیا ہے جو وابستگانِ نعت کے لیے بہارِ جاں فزا ثابت ہوگا۔ تحمید و تقدیس کے باب میںربِّ ذوالجلال کی بارگاہ میں ترانہ حمد سے آغاز ، جناب تنویر پھول،ؔ جناب ابرارؔ کرت پوری اور راقم الحروف کے حمدیہ کلام سے کیا گیا ہے۔ گوشۂ گنجینۂ نقد و نظر، ڈاکٹر سید حسین احمد کا مضمون ’’کیا نعت صنف ِسخن ہے‘‘ میں تشنگی محسوس ہوتی ہے۔۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حمد و نعت لکھنا، پڑھنا اور سماعت کرنا باعث ِسعادت و برکت ہے۔ تمام اصنافِ سخن حمد و نعت کے آگے ہاتھ جوڑے محو ِ التجا ہیں کہ آپ ہمارے سر کا تاج ہیں۔ دوسرا مضمون، ڈاکٹر سید خسرو حسینی کا ’’فن نعت اور نعت گوئی‘دبستانِ نعت کی زینت بنا ہے۔ جسے حصہ اوّل قرار دیا گیا ہے۔ دوسرے حصے کے مطالعے کے بعد (انشاء اللہ) بھرپور تبصرہ کیا جائے گا۔ تیسرا مضمون ڈاکٹر صابر سنبھلی نے تحریر فرمایا ہے’’حدائقِ بخشش کے صنائع بدائع پر ایک اور نظر‘‘ محدثِ بریلوی شاہ احمد رضا خاں کی نعتیہ شاعری کے حوالے سے مختصر مگر خوبصورت مضمون ہے ا مام اہلسنت شاہ احمد رضا خاں کی نعتیہ شاعری پر بہت زیادہ لکھا گیا، مزید یہ سلسلہ جاری ہے، راقم الحروف کو بھی یہ سعادت حاصل ہوچکی ہے کہ 2005ء میں ’’جہانِ حمد‘‘(کتابی سلسلہ۔کراچی) کا عاشق رسول امام احمد رضا رحمۃاللہ علیہ نمبر میں شائع کیا۔ جس کے صفحات 544ہیں۔ اس کتاب نما رسالے کی شہرِ حمد و نعت کراچی میں دو اہم تقریب تعارف منعقد ہوئیں، پہلی تقریب ڈاکٹر فرمان فتح پوری مرحوم کی صدارت میں آرٹس کونسل کراچی میں منعقد ہوئی، مہمانِ خصوصی پروفیسر سحر انصاری تھے دیگر مقررین میں اد یب رائے پوری مرحوم، بابا صوفی معین الدین چشتی ظہوری، صوفی الحاج محمد کمال میاں جمیلی سلطانی وغیرہ شامل تھے۔ ظہوری، صوفی الحاج محمد کمال میاں جمیلی سلطانی وغیرہ شامل تھے۔درباارِ سلطانی کی جانب سے فقیر پُر تقصیر کی تاج پوشی غیر اعلانیہ طور پر کی گئی، جس کی مجھے خبر نہیں تھی۔

دوسری تقریب شہر قائد کی سب سے بڑی جامع میمن مسجد، بولٹن مارکیٹ میں حضرت علامہ مفتی محمداختر رضا خاں بریلوی کی صدارت میں ’’اہلسنّت کانفرنس‘‘ کے انعقاد کے موقع پر عاشق رسولﷺامام احمد رضا رحمۃاللہ علیہ نمبرکی خصوصی اشاعت کی تقریب تعارف بدست مبارک مفتی اعظم ہند علامہ محمد اختر رضا خاں بریلوی ہوئی جو راقم کے لیے نہ صرف یہ کہ ایک بڑی سعادت تھی بلکہ ایک بڑا اعزاز بھی۔راقم کا مضمون ’’اعلیٰ حضرت کی نعتیہ شاعری میں مناقب‘‘ دبستانِ نعت کے لیے حاضر ہے۔ اگر مناسب سمجھیں تو ’’دبستانِ نعت‘‘ کا مولانا احمد رضا حمد و نعت نمبر کی اشاعت کا اہتمام ضرور کریں۔

’’نعت اور ہماری شعری روایت‘‘ مختصر مگر اچھا مضمون ہے، اسے تحریر کیا ہے ڈاکٹر عزیز احسن نے۔ مرزا ساجد حسین امروہوی نے ’’نعت رسول ﷺ اور اس کی ارتقاء‘‘ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’دلوں کو تڑپادینے والے اشعار کہے نہیں جاتے ہوجاتے ہیں‘‘۔ غیر مسلم نعت گو شاعر، کرشن کمار طورؔ کی نعتیہ شاعری کا جائزہ لیا ہے۔ ڈاکٹر فہیم احمد صدیقی نے مجموعہ نعت ’’چشمۂ چشم‘‘ کے شاعر کرشن کمار طور ؔ فرماتے ہیں، میری حمدیں اور نعتیں اس بات کی عین گواہ ہیں کہ میرا باطن ربُّ العزت کے حکم سے روشن ہے۔ طورؔ کے حمدیہ و نعتیہ کلام سے یہ بات ثابت بھی ہورہی ہے، مگر؟ دعا ہے کہ وہ کلمۂ طیبہ کے فیضان سے فیضیاب ہوں (آمین)۔

فہیم صدیقی نے چھ صفحات پر مشتمل مضمون کے ذریعے طور ؔکا تعارف سلیقے سے کرایا ہے۔ ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بھارت میں حمدیہ و نعتیہ مجموعے تواتر سے شایع ہورہے ہیں۔ بدقسمتی سے ان کی آمد پاکستان، بالخصوص شہرِ حمد و نعت کراچی میں نہیں ہوپاتی، ضرورت اس امر کی ہے کہ مصنّفین، ناشر حضرات اور کم از کم جو ادارے اور رسائل و جرائد حمد و نعت کے فروغ کے لیے کام کررہے ہیں، انہیں اپنی کتابیں ضرور ارسال فرمائیں۔

فیروز احمد سیفی ایک مطاہر قلب کے مالک ہیں، عاجزی ان کا سرمایہ ہے۔ فروغِ حمد و نعت کے لیے دامے درمے سخنے قدمے پیش پیش رہتے ہیں۔ آپ کا مضمون ’’ڈاکٹر صغریٰ عالم ایک خوش فکر نعت گو شاعرہ‘‘ دبستانِ نعت کی زینت بنا ہے۔ ہم شکر گزار ہیں سیفی صاحب کے کہ اُنہوں نے ایک صوم و صلوٰۃ کی پابند نعت گو شاعرہ سے متعارف کرایا۔ ’’حرفِ آرزو‘‘ منیر احمد ملک نے عقیدت و مودت اور علم و ادب کی خوشبوؤں سے سجایا ہے۔ ’’بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر‘‘۔

سرورِ دیں ﷺکی محبت کے سوا کچھ نہ خدارا مانگو، یہی تو زندگی کا اصل مقصد ہے، اندازِ بیاں دلکش ہے۔ ’’دبستانِ نعت‘‘ میں صفحہ ۱۱۵ پر مضمون ’’ناعت پر فیضان منعوت‘‘ شامل کیا گیا ہے، اس کے مصنف قاضی محمد رفیق فائز ؔفتح پوری ہیں۔ مضمون کی بنیادی باتیں اوّل: فیضان نعت، دوم: حدیث قدسی، اے محبوب اگر آپ کو پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو میں یہ دنیا ہی پیدا نہ کرتا۔ مگر دیدئہ کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے۔ سید اقبال حیدر ممتاز شاعر و ادیب کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ آپ کے مضمون کا عنوان ’’انسانِ کامل ﷺ کا ذکرِ خیر‘‘ ہے۔ آپ ﷺ کے کمال اخلاقِ کریمانہ کا بیان اور آپ کے بلند اقوال کا تذکرہ ’’سبحان اللہ۔۔۔۔۔‘‘۔

مظفرؔ وارثی کا حمدیہ آہنگ ، ڈاکٹر عزیز احسن نے مذکورہ مضمون تحریر کیا ہے۔ مظفرؔ وارثی مرحوم، حمدیہ و نعتیہ شاعری کے حوالے سے کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ آپ کا حمدیہ مجموعہ ’’الحمد‘‘ پاکستان میں شایع ہونے والے مجموعہ ہائے حمد میں دوسرے نمبر پر آتا ہے، پہلے نمبر پر عبدالسلام طور کا مجموعہ حمد ’’پتھر میںآگ‘‘ ہے۔ جو۱۹۸۰ء میں شائع ہوا۔ مظفر وؔارثی کی حمدیہ شاعری پر ایک مضمون، اقبال عالم نے تحریر کیا تھا جو ’’جہانِ حمد‘‘ میں شایع کرنے کی سعادت راقم کو ہوئی۔ مظفر ؔوارثی پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور مزید لکھا جائے گا۔ عزیز احسن لکھتے ہیں ’’مظفرؔ وارثی کی شاعری میں مترنم بحروں، صوتی مناسبتوں، لفظیاتی نغمگی کے التزام اور معنوی بوقلمونی سے ایک صحیفۂ عقیدت بھی وجود میں آیا ہے اور رنگارنگ فنی نگار خانہ بھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مظفرؔ وارثی کا نام دنیائے حمد و نعت میں ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔

راقم الحروف کے نعتیہ مجموعہ ’’نعت روشنی‘‘ کا تنقیدی مطالعہ کیا ہے محسن اعظم محسنؔ ملیح آبادی نے، مضمون گیارہ صفحات پر مشتمل ہے، اگر وقت ملے تو آپ بھی مطالعہ کیجئے گا۔ مذکورہ مجموعہ نعت سے پہلے راقم الحروف کے مجموعہ ہائے نعت ’’مدینے کی مہک‘‘، ’’نعت میری زندگی‘‘، ’’ہر سانس پکارے صل علی‘‘، مجموعہ ہائے حمد ’’حمد میری بندگی‘‘، ’’حمد کردگار‘‘ جہانِ حمد پبلی کیشنز، حمد و نعت ریسرچ سینٹر اور ادارئہ چمنستانِ حمد و نعت کے زیر اہتمام شہر حمد و نعت کراچی سے شایع ہوچکے ہیں، ان مجموعوں کے علاوہ دس سے زائد نثری کتب بھی شامل ہیں۔

’’حمد الہ جل جلالہ و مدحت رسول ﷺ‘‘ (غیر منقوطہ حمدیہ و نعتیہ شاعری کا اجمالی جائزہ ہے)

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

راقم الحروف کا مذکورہ مقالہ صفحہ154تا 179 پر محیط ہے۔ یہ تحقیقی مقالہ حمدیہ و نعتیہ ادب میں اوّلین کوشش ہے۔ جو ہمیں غیر منقوطہ حمدیہ و نعتیہ شاعری کے بارے میں اچھی خاصی معلومات فراہم کرتا ہے۔ مضمون بالا کے مطالعے کے بعد شعراء کرام میں غیر منقوطہ حمدیہ و نعتیہ شاعری کا ذوق و شوق پیدا ہوا ہے۔

’’میلادِ اکبر ایک مطالعہ‘‘ مضمون نگار ڈاکٹر نذیرؔ فتح پوری ’’میلاد اکبر‘‘ اور اس کے مصنف خواجہ محمد اکبر وارثی میرٹھی کی نثر و نظم کے حوالے سے جو حقائق بیان کیے ہیں اور جس اثر پذیری کا ذکر فرمایا ہے۔ اس میں ذرّہ برابر بھی شک کی گنجائش نہیں، حق تو یہی ہے کہ ’’میلاد اکبر‘‘ کے پاک و ہند سے بیسیوں ایڈیشن شایع ہوچکے۔ خود میرے حمد و نعت ریسرچ سینٹر میں تین پبلشرز کے طبع شدہ ’’میلاد اکبر‘‘ موجود ہیں۔ راقم الحروف نو عمری سے نعت خوانی اور صلوٰۃ و سلام پڑھنے کی سعادت حاصل کررہا ہے۔ سلام تو بہت لکھے گئے، خود راقم نے ایک کتاب بنام ’’سلام‘‘ مرتب کرکے شایع کی جس میں کم و بیش ڈیڑھ سو شعراء کا سلامیہ کلام شامل ہے، مگر راقم بچپن سے دو سلام ’’یا نبی سلام علیک‘‘ اور ’’مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام‘‘، اوّل خواجہ اکبر وارثی ، دوم اعلیٰ حضرت عظیم البرکت شاہ احمد رضا خاں محدث بریلوی کا کلام ہے، پڑھنے کی سعادت حاصل کررہا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ عالمِ اسلام میں بسنے والے غلامانِ رسول ﷺ مذکورہ سلاموں کو حد درجہ پسند کرتے ہیںاور عشاقانِ رسول اکرم ﷺ انتہائی و الہانہ انداز میں کیف و سرور اور وجدانی کیفیت کے ساتھ بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں مذکورہ صلوٰۃ و سلام پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ ڈاکٹر نذیرؔ فتح پوری نے بجا فرمایا ہے ’’میلاد اکبر محض منظوم نعتیہ کلام کا نسخہ نہیں ہے بلکہ اس میں نثری قصیدے کے گل بوٹے بھی مصنف کے زورِ قلم کا نتیجہ ہیں‘‘۔ جیسا کہ کتاب کے عنوان سے ظاہر ہے ’’میلادِ اکبر‘‘ یعنی حضور پرنور آنحضرت ﷺ کی ولادت کا صاف و شفاف اور عام فہم زبان میں بیان، نثری قصیدے کا یہ ابتدائی حصہ انشاء پردازی کا بہترین نمونہ ہے۔ فصاحت اور بلاغت کے باوجود ایک عام مسلمان کی سمجھ میں بھی بات آسانی سے آجاتی ہے۔ یہ مقفی، مسجیٰ اور رواں دواں نثر منظوم توصیف نامے سے بھی زیادہ پراثر ہے۔ مثلاً ’’بے یاروں کا یار، بے مددگاروں کا مددگار، بے وسیلوں کا وسیلہ، بے بھروسوں کا بھروسہ، بے بسوں کا بس، بے کسوں کا کس، ٹوٹے دلوں کا سہارا اور اللہ کا پیارا‘‘ سبحان اللہ۔ مصنف کے قلم نے کیسے موتی رولے ہیں، کیسے بول بولے ہیں، یہ تحریر پڑھتے وقت یوں لگتا ہے جیسے کسی نے منہ میں مصری کی ڈلی رکھ دی ہو‘‘۔ خواجہ محمداکبر وارثی عالم باعمل اور عاشق رسولﷺ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے نعتیہ کلام کو آج بھی اسی طرح پسند کیا جاتا ہے جس طرح ماضی میں پسند کیا جاتا تھا۔ اللہ کریم ان کے درجات بلند فرمائے۔ (آمین)۔

’’نعتیہ شاعری کا تاریخی پس منظر‘‘ علیم صبا نویدی نے ایک بڑے موضوع کو انتہائی مختصر اندازمیں سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ مقبول بارگاہِ رسالت نعت گو شاعر حضرت رؤفؔ امروہوی مرحوم … کی نعتیہ شاعری، ڈاکٹر صابر ؔسنبھلی کی نظر میں۔ زیر نظر مضمون کو پڑھ کر حضرت رؤفؔ امروہوی کے حالات زندگی معلوم ہوئے۔ بارگاہِ رسالت ﷺ میں ان کے بلاوے کا تذکرہ پڑھ کر مجھے عاشق رسول ﷺحضرت بہزادؔ لکھنوی یاد آگئے کہ ان کا بلاوا بھی اسی طرح آیا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کی ڈیوٹی لگائی کہ ہمارے عقیدت مند بہزادؔ لکھنوی کو ہمارے دربار میں بھیجا جائے۔ بہرکیف عاشق رسول ﷺ زندگی کا اصل سرمایہ ہے۔ کیوں کہ ؎


عشقِ نبی ﷺ ہو دل میں تو ضُوبار ہے حیات

دولت اگر نہیں یہ تو بے کار ہے حیات

(طاہر سلطانی)

عاشقِ رسول بہزادؔ لکھنوی 1957ء کو حرمین شریفین روانہ ہوئے اور عاشق رسول رؤف ؔامرہووی 1978ء کو۔ شکریہ، ڈاکٹر صابرؔ سنبھلی ، ڈاکٹر سراج احمد بستوی، آپ نے عاشق رسول رؤفؔ امروہوی کا تعار ف ہم پاکستانیوں سے کرایا- ہم نے ’’جہانِ حمد ‘‘کا بہزاؔد لکھنوی حمد و نعت نمبرنومبر 2001ء میں شائع کیا ، یہ خصوصی اشاعت 208صفحات پر مشتمل ہے۔ جناب احمد حسین سیفی ابن رؤف امروہوی اگر سطور بالا پڑھیں تو اپنے والد محترم کے مجموعہ ہائے کلام راقم الحروف کے پتے پر ضرور ارسال فرمائیں، راقم آپ کا شکر گزار رہے گا۔

’’علمائے گھوسی کی نعت نگاری‘‘ ڈاکٹر شکیل احمد اعظمی کا یہ مضمون گھوسی کے نام ور علمائے کرام و نعت گویان کے بارے اور ان کی نعت گوئی کے حوالے سے خاصی معلومات فراہم کرتا ہے۔ گھوسی کے نعت گویان کی ایک فہرست ڈاکٹر شکیل کے مطابق ۳۷ نعت نگار علماء کے اسمائے گرامی موجود ہیں۔ تذکرہ نعت گویانِ گھوسی (علماء کرام) کا آغاز، علامہ غلام جیلانی اویس برکاتی کے تعارف سے کیا گیا ہے۔ علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمیؔ، علامہ عبدالمصطفیٰ ماجدؔ ازہری کے باب میں ڈاکٹر شکیل رقمطراز ہیں کہ حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی کے قابل فخر فرزند تھے۔ آپ کی ولادت ۱۳۳۴ھ میں محلہ کریم الدین پور گھوسی میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے مدرسے میں حاصل کی۔ والد محترم کے ساتھ اجمیر شریف چلے گئے، ابتدائی عربی، فارسی سے متوسطات تک تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۳۲ء میں بریلی شریف جاکر شمس بازغہ اور امور عامہ کی تکمیل کی۔ ۱۹۳۲ء ہی میں جامعہ ازہر مصر میں آپ نے داخلہ لیا، چار برس جامعہ ازہر کے معتبر علماء کرام سے اسلامیات اور ادبیات کی تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۵۸ء سے دارالعلوم امجدیہ کراچی میں زندگی کے آخری ایام تک خدمات انجام دی‘‘۔ دارالعلوم امجدیہ میں عرس اعلیٰ حضرت کے موقع پر طرحی نعتیہ مشاعرے کا انعقاد ہوا کرتا تھا۔ مسند صدارت پر آپ رونق افروز ہوتے، کراچی کے نامور نعت گو شعراء کرام شریک ہوتے، راقم الحروف کو بھی کئی مرتبہ، طرحی مشاعرے میں اپنا طرحی کلام سنانے کی سعادت حاصل ہوئی، مصرع طرح: اعلیٰ حضرت کی نعت سے دیا جاتا تھا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ازہری صاحب کے انتقال کے بعد نعتیہ طرحی مشاعرے کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔ راقم نے دارالعلوم امجدیہ کی انتظامیہ کی توجہ اس جانب مبذول کرائی، مگر نتیجہ صفر؟۔ علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری جب قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے تو راقم کے بڑے بھائی زاہد حسین قادری (سابق کونسلر لیاقت آباد کراچی) اور راقم نے قبلہ ازہری صاحب، شاہ فرید الحق صاحب، محمد عثمان خاں نوری وغیرہ کے اعزاز میں ’’انجمن غلامانِ غوث الاعظم‘‘ اور ادارئہ چمنستانِ حمد و نعت‘‘ کے زیر اہتمام شاندار و یادگار تقریب کا انعقاد کیا تھا۔ ازہری صاحب کے علاوہ ڈاکٹر شکیل کے مضمون کی زینت بننے والے شعراء کرام میں علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی، مولانا قاری محمدعثمان اعظمی، مولانا محمد رمضان، مولانا غلام ربانی فائقؔ، مولانا اکرام الحق اکرام نقشبندی، علامہ بدرزؔالقادری بدر وغیرہ شامل ہیں۔ ڈاکٹر شکیل احمد اعظمی کا مذکورہ مضمون تحقیقی مضمون ہے جو ہمیں علمائے گھوسی کی نعت نگاری اور ان کی حیات کے بارے میں جان کاری دیتا ہے۔

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

’’نثار ؔکریمی ایک قادر الکلام شاعر‘‘ نثارؔ کریمی کی نعتیہ شاعری کے حوالے سے مولانا وصال احمد اعظمی نے نثارؔ کریمی کے حالات زندگی اور ان کی نعتیہ شاعری بالخصوص ان کے طرحی نعتیہ کلام کو مضمون کی زینت بنایا ہے۔ نثار ؔکے کلام میں عقیدت و محبت کے ساتھ ساتھ سیرتِ مصطفی ﷺ کے مختلف پہلو نمایاں ہیں۔ ان کی لکھی ہوئی ایک طرحی نعت کا مطلع و مقطع ملاحظہ ہو۔ ؎


خواہش نہیں کہ سارے جہاں کی خوشی ملے

بس ہے یہ آزو کہ رضائے نبی ﷺ ملے

تو عندلیب باغ مدینہ ہے اے نثارؔ

وہ گیت گا کہ ُروح کو بالیدگی ملے

اس بحر میں میری ایک حمد کا مطلع اور مقطع آپ کے ذوقِ حمد کی نذر۔ ؎


خواہش مجھے کہاں ہے کہ شمس و قمر ملے

تاعمر تیری حمد لکھوں وہ ہنر ملے

حمد و ثنا کی روز سجائے یہ محفلیں

طاہرؔ کو اے کریم کوئی ایسا گھر ملے

نثار ؔکریمی کا نعتیہ مجموعہ پاکستان بالخصوص شہر حمد و نعت کراچی میں نایاب ہے۔ نثارؔ کریمی کے فرزند سے بتوسط جناب سراج احمدبستوی درخواست ہے کہ دو کاپی حمد و نعت ریسرچ سینٹر اور ’’جہانِ حمد‘‘ میں تبصرے کے لیے ضرور بھیجیں۔ دعا ہے کہ اللہ عز و جل نثارؔ کریمی کے درجات بلند فرمائے۔ (آمین)

فارسی کے نعت گو شعراء کرام میں عاشقانِ رسول ﷺ کی فہرست میں ایک نمایاں نام مولانا نورالدین جامیؔ کا لیا جاتا ہے۔ اسی طرح اُردو نعت گویان میں عشاقانِ رسول ﷺ کے بیسیوں نام لیے جاسکتے ہیں۔ ان ناموں میں امام اہلسنّت مجدد دین و ملت شاہ احمد رضا خاں محدث بریلوی کا نام سرفہرست ہے۔ ’’دبستانِ نعت‘‘ میں ڈاکٹر سراج احمد قادری نے ایک گوشہ عاشق رسول مولانا جامی ؔکے لیے مختص کیا ہے۔ ممتاز شاعر و ادیب تنویر پھولؔ نے مولانا کی دو نعتوں کی تفسیر بیان کی ہے۔ ’’مولانا جامیؔ کی نعت نگاری‘‘ یہ مضمون ڈاکٹر یحییٰ نشیط کے زور قلم کا نتیجہ ہے، جس سے قاری کو خاصی معلومات حاصل ہوجاتی ہے۔ ’’مولانا عبدالرحمن جامی ؔنادرِ روزگار شخصیت ‘‘ یہ تحریر ڈاکٹر رضوان انصاری کی فکر کا آئینہ ہے۔ رضوان انصاری رقمطراز ہیں کہ ’’آپ کا اسم گرامی عبدالرحمن، لقب نور الدین ،22؍شعبان 817ھ مطابق 7؍نومبر1414ء کو بوقت عشاء پیدا ہوئے۔ والد نظام الدین احمد بن محمد الدمشقی تھے جو نہایت عابد و متقی تھے۔ ابتدائی تعلیم اپنی جائے ولادت میں حاصل کی۔ پھر فقہ، حدیث اور تفسیر وغیرہ علوم و فنون کی اعلیٰ تعلیم کے لیے ہرات، مشہد اور بغداد جیسے مراکز علوم کا سفر کیا۔ وقت کے عظیم المرتبت روحانی دنیا کے بزرگ صوفی شیخ سعدی کاشغری کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوگئے۔ شیخ موصوف نے اپنے مرید اور روحانی بیٹے کی ایسی تربیت فرمائی کہ مولانا جامیؔ علیہ الرحمۃ اپنے پیر طریقت کے پردہ فرمانے کے بعد ان کے سجادہ نشیں ہوئے۔ ۸۱ برس کی زندگی میں علم و ادب کی خدمت اور عرفانی خدمات میں بسر کی۔ ان کی پوری زندگی تین ادوار میں تقسیم کی جاسکتی ہے۔ دورِ اوّل : علوم و فنون کا زمانہ۔ دورِ دوم: تصانیف و تالیفات پر مشتمل رہا۔ دورِ سوم: یہ دور آپ کی زندگی کا سب سے اہم اور انقلاب آفریں رہا ہے۔ آپ نے سلسلۂ نقشبندیہ خواجہ سید بہاء الدین عمر بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے عرفانی اور روحانی فیوض و برکات سے مستفیض ہونے کا شرف حاصل کیا۔ آپ کا وصال ۸؍محرم ۸۹۸ھ مطابق ۹؍نومبر۱۴۹۲ء برز جمعہ بمقام ہرات ہوا اور اپنے استاد پیر طریقت اور خسر مولانا سعد الدین کاشغری کے مزار شریف کے پہلو میں خواب سرمدی میں آرام فرما ہیں۔ اللہ کریم حضور پرنور آنحضرت ﷺ کے صدقے میں آپ کے درجات بلند فرماکر آپ کی لحد کو منور و معطر فرمائے۔ (آمین) المختصر یہ کہ ڈاکٹر رضوان انصاری کی تحریر ایک عاشق رسولﷺ کے بارے میں اچھی خاصی معلومات فراہم کرتی ہے۔ صفحہ299 تا 344 تک مولانا جامیؔ کا فارسی نعتیہ کلام اُردو ترجمے کے ساتھ اپنی جلوہ سامانیوں کے ساتھ صفحۂ قرطاس پر جگمگارہا ہے۔ صفحہ 354 تا 396 تک ’’گلہائے عقیدت‘‘ کے عنوان سے مختلف شعراء کرام کا نعتیہ کلام شایع کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر سراج احمد قادری بستوی کا انتخاب قابل تعریف ہے۔

آخر میں تین خطوط، مرزا ساجد حسین ساجد امروہوی، ڈاکٹر صابر سنبھلی اور ڈاکٹر رضوان انصاری کے ’’دبستانِ نعت‘‘ کے زینت بنے ہیں۔ مجموعی طور پر مدیر ڈاکٹر سراج احمد قادری اور نگراں فیروز احمد سیفی کی یہ کوشش و کاوش قابل تحسین و ستائش ہے۔

دعا ہے کہ اللہ کریم آقائے نامدار تاجدار انبیاء ﷺ کے طفیل ہر دو حضرات کی سعی کو قبول و منظور فرماکر، انہیں اس کا اجر عظیم عطا فرمائے اور ’’دبستانِ نعت‘‘ کو ترقی و سرفرازی عطا فرمائے۔ (آمین) آخر میں ڈاکٹر سراج احمد قادری بستوی کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ اپنے مضامین و کلام سے ضرور مستفیض فرمائیں۔ آپ نے اعلیٰ حضرت کی نعتیہ شاعری پر پی ایچ ڈی کیا ہے، آپ اپنے اس مقالے کو قسط وار بھی شایع کریں تو نوازش ہوگی۔

ازراہِ کرم ’’گوشہ نعت نگار‘‘ کا سلسلہ جاری رکھیے گا۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
نئے صفحات