دبستانِ نعت پر ایک طائرانہ نظر -پروفیسر فاروق احمد صدیقی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2


مضمون نگار: پروفیسر فاروق احمد صدیقی(مظفر پور )

مطبوعہ: دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

دبستان نعت (شمارہ جنوری تا جون2016ء) پر ایک طائرانہ نظر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مکرمی سلام و تحیت!

ششماہی ’’دبستان نعت‘‘ شمارہ جنوری تا جون 2016ء سرمہ بینش بنا۔ آپ نے بڑی محنت، محبت، خلوص اور خوش دلی سے یہ ضخیم شمارہ ترتیب دیا ہے۔ مبارکباد۔

آپ نے یہ اچھا کیا ہے کہ شروع کے صفحات کو تین حمدیہ کلام سے مزین کیا ہے۔ جناب تنویر پھولؔ، طاہرؔ سلطانی اور ابرارؔ کرت پوری کے تقریباً تمام حمدیہ اشعار فکر بلند اور فن لطیف کے آئینہ دار ہیں۔ تینوں حضرات کو تہہ دل سے ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں۔

’’گنجینۂ نقد و نظر‘‘ کے تحت پہلا مضمون ڈاکٹر شاہ حسین احمد صاحب کا ہے۔ انہوں نے اپنے مضمون میں نعت کی صنفی حیثیت کو زیر بحث لاتے ہوئے یہ فیصلہ ارقام فرمایا ہے کہ چونکہ نعت کی کوئی خاص ہیئت متعین نہیں ہے۔ اسلئے اس کو صنف کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔ یہ تصوف کی طرح موضوعِ کلام تو ہے، صنف سخن نہیں۔ میرا معروضہ ہے کہ عربی، فارسی اور اردو میں جتنی بھی مروجہ اصناف سخن ہیں وہ آسمان سے نازل نہیں ہوئی ہیں۔ شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والے اصحاب علم و فن نے ہی ان کی درجہ بندی کی ہے اور ان کی مخصوص ہیئتیں مقرر کی ہیں۔ ان کی محدود نگاہی کی انتہا تو یہ کہ قصائد کے ناپاک دفتر تک کو بھی انہوں نے صنف سخن کا مرتبہ دے دیا۔ یہی نہیں ریختی، واسوخت، خمریات اور شہر آشوب جیسی شاعری کو بھی اصناف سخن کے دائرے میں رکھاا ہے۔ مگر حمدیہ اور نعتیہ شاعری کو شعوری طور پر اصناف کا درجہ دینے سے احتراز کیا گیا۔ اس کو ان کی چشمِ فراست کی نابصیری کے علاوہ اور کیا نام دیا جائے۔ نعت جو اردو شعر و ادب کے وجود میں آنے کے پہلے سے عربی اور فارسی میں موجود ہے۔ اس کو صنف سخن قرار دیتے ہوئے زبانِ قلم لڑکھڑا جائے۔ مگر مغرب سے مستعار ہائیکو، سانیٹ اور نظم معرا وغیرہ کو جدید شعری اصناف کے طور پر قبول کرلیا جائے۔ اس کو احساس کمتری، بے حسی اور کج فکری کے علاوہ کس جذبہ پر محمول کیا جائے حالانکہ نعت کو سخن تو سب مامنتے ہیں صرف صنف کا سابقہ لگانے میں تردد اور تامل ہے یالعجب!

میرا وجدان یہ کہتا ہے کہ نعت میں چونکہ رحمۃ للعالمین کی مدح و ثنا ہوتی ہے اسلئے فارسی اور اردو کی تمام مروجہ اصنافِ سخن نے زبان حال سے بارگاہِ رب العالمین میں یہ استغاثہ پیش کیا کہ یہ اعزاز و اکرام انہیں بھی حاصل ہو، دعا مستجاب ہوئی اس طرح تمام مروجہ اصنافِ شاعری نے مدح سیدالمرسلین کے لئے اپنی اپنی آغوش محبت وا کردی۔ اسی لئے یہ غزل، قصیدہ، مثنوی، رباعی، قطعہ، مثلث، مخمس اور مُسدّس وغیرہ کی ہیئتوں میں لکھی جانے لگی۔ اس طرح یہ ایک ممتاز و محترم صنف سخن کے مقام و مرتبہ تک پہنچ گئی اور اب بلاتکلف تمام اہلِ علم و ادب اس کو ایک اہم صنف سخن کی حیثیت سے لکھتے پڑھتے اور بولتے ہیں۔

مسئلہ زیر بحث کا ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ مرثیہ جس میں ممدوح کائنات اور محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسۂ محترم حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے اعوان و انصار کی المناک شہادت کا بیان ہوتا ہے۔ اس کی ہیئت اور اجزائے ترکیبی طے کئے جائیں۔ مگر نعت جس میں خود امام عالی مقام کے جدّکریم حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و ستائش ہوتی ہے۔ اس کے اجزائے فن اور عناصر ترکیبی کی تشکیل سے تغافل اور تجاہل برتا جائے۔ اور یہ امر محتاج وضاحت نہیں کہ حضرت امام حسین کی زندگی کی تمام بہاریں نانا جان سے انتساب کی بدولت ہی ہیں۔

مقصود نگارش یہ ہے کہ بعض اہلِ علم سے یقینا یہ تسامح ہوا ہے کہ اصناف سخن کی درجہ بندی میں ان اصناف سخن کو جن کا ذکر سطور بالا میں کیا گیا ہے صنف کا مرتبہ بخشا۔ اگرچہ ان کی ہیئت متعین نہ ہو اور نعت جیسی صنف اطہر کو صنف سخن کہنے کے لئے ہیئت کے تعین کی بنیاد ڈھونڈھیں۔ نامناسب نہیں ہوگا اگر اس سلسلے میں اردو کے مشہور شاعرو ناقد جناب ناوک حمزہ پوری کی یہ قیمتی رائے بھی نقل کردی جائے۔

’’ہر چند کہ نعت عربی، فارسی اور اردو نیز دیگر زبانوں میں تقریباً ڈیڑھ ہزار برسوں سے کہی جارہی ہے۔ لیکن بعض کوتاہ نظر ناقدین کے نزدیک یہ اب بھی صنف سخن کا درجہ نہیں پاسکی۔ ان کے بقول وجہ صرف اتنی سی ہے کہ نعت کی کوئی متعین ہیئت نہیں۔ ان کج فہموں کی سمجھ میں اتنی سی بات نہیں آتی کہ صنفی شناخت کے لئے صرف ہیئت واحد معیار نہیں بلکہ موضوع بھی بہت اہم رول ادا کرتا ہے اور موضوعی اہمیت کے لحاظ سے نعت وہ مہتمم بالشان صنف ہے کہ دوسری صنف اس کے پاسنگ کے برابر بھی نہیں۔ چنانچہ حضرت مولانا سیدابوالحسن علی ندوی مرحوم نے بجا فرمایا:

’’وہ فارسی اور اردو شاعری کا مطالعہ اگر عام ڈگر سے ہٹ کر انصاف اور حقیقت پسندی کے ساتھ کیا جائے تو سب سے زیادہ مؤثر اور سب سے زیادہ بھرپور صنف نعت قرار پائے گی۔ تنوع اور مقدار و معیار ہر اعتبار سے نمایاں اور ممتاز۔ (اردو شاعری میں نعت گوئی)۔(فنکار مصنفہ ناوک حمزہ پوری 56/57)

حقیقت یہ ہے کہ اصناف سخن کے تعین کی دو الگ الگ بنیادیں ہیں۔ ہیئت اور موضوع ناچیز کا موقف یہ ہے کہ نعت پاک جیسی صنف سخن کسی ہیئت کے چوکھٹے میں بند نہیں ہے۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

اس شمارے کا دوسرا مضمون ڈاکٹر خسروحسینی کا ہے۔ انہوں نے فن نعت اور نعت گوئی کے عنوان پر بہت تفصیل سے لکھا ہے۔ تحریر بہت معلوماتی اور بصیرت افروز ہے۔ معروف و مستند اہل علم و قلم ڈاکٹر صابر سنبھلی نے حدائق بخشش کے صنائع بدائع کو موضوع بنایا ہے۔ یہ ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے۔ اس لئے انہوں نے اپنے موضوع کا حق ادا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ ڈاکٹر عزیزاحسن کو بہت پہلے سے ’’نعتِ رنگ‘‘ کراچی کے حوالے سے جانتا ہوں۔ خوب لکھنتے ہیں وہ واقعی فنا فی النعت ہیں۔ ڈاکٹر فہیم احمد صدیقی نے شری کرشن کمار طور ؔکی نعتیہ شاعری کا عمدہ تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔ مگر ان کے نام کے پہلے لفظ ’’حضرت‘‘ اچھا نہیں لگا۔ یہ لفظ ایک اہل ایمان کو ہی زیب دیتا ہے۔ جناب فیروزاحمد سیفی نے ڈاکٹر صغریٰ عالم کی نعتیہ شاعری کو بہت سلیقے سے متعارف کرایا ہے۔ انہوں نے شاعرہ کے کلام سے وافر مقدار میں حوالے دے کر اپنے نقطۂ نظر کو مدلل کیا ہے۔ اندازِ بیان بھی بہت سلیس، شائستہ اور پاکیزہ ہے۔ منیراحمد ملک (اسلام آباد) کا مقالہ ’’حرف آرزو‘‘ بھی بہت گرانقدر ہے۔ انہوں نے اپنے مقالہ میں ایک ایسا خوبصورت شعر بھی نقل کیا ہے جو یقینا روح ایمان سے معمور ہے۔ ؎


نبی کا عشق، خدا کی اطاعت کامل

یہ دیں کی اصل ہے، باقی تمام افسانہ

قاضی رفیق فائزؔ فتح پوری کا مقالہ ’’ ناعت پرفیضانِ منعوت‘‘ بیحد اہم، فکر انگیز اور چشم کشا ہے۔ انہوں نے حدیث پاک لولاک لما سے بڑی عالمانہ اور محققانہ بحث کی ہے۔ بار بار پڑھنے کے لائق ہے۔ بات لمبی ہوتی جارہی ہے۔ اس لئے دیگر مضامین و مشملات سے صرفِ نظر کرتا ہوں۔

مگر ’’گوشۂ علامہ جامی‘‘ کے تحت ڈاکٹر یحییٰ نشیط کا مضمون ’’مولانا جامی کی نعت نگاری جا نبِ توجہ‘‘ ہے۔ موصوف کے ایک معروف قلمکار ہونے میں شبہ نہیں۔ وہ ’’نعت رنگ‘‘ کراچی میں بھی تواتر کے ساتھ لکھتے رہے ہیں۔ مگر زیر نظر مضمون کی تمہید میں وہ کچھ ایسی باتیں لکھ گئے ہیں جو یقیناً خوش عقیدگی کی مظہر نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر ان کا یہ ارشاد:

’’… اسی طرزِ فکر کی وجہ سے اردو فارسی نعتیہ شاعری میں میم کا گونگھٹ، احمد بے میم، مسئلہ امتناع النظر، مدینہ کا پیا، کملی والا، دیدار خداوندی سے مشرف، شہزادہ لولاک آقا و مولا، بگڑی بنانے والا، ذاتِ اوّل و آخر، ظاہر و باطن، عالم العنت، وغیرہ تراکیب کو اوصاف نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں شمار کرلیا گیا ہے۔ بعض عقیدت کا یہ غلو حدود شریعہ کو پھلانگ جاتی ہے اور عقیدے کے مبالغہ میں شان ِ اُلوہیت میں استخفافکا پہلو نکل آتا ہے ‘‘ (صفحہ ۲۸۲)

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان سطور کے لکھتے وقت ڈاکٹر صاحب کا ذہن و قلم صحرائے توہّب کی سیر کررہا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان کے دینی معتقدات کیا ہیں۔ انہوں نے جن جن الفاظ و تراکیب پر اعتراضات جڑے ہیں اور شانِ رسالت میں ان کے استعمال کو ممنوع بلکہ موہم الی الشرک قرار دیا ہے۔ ان کے انطباقات اطلاقات ہر دور میں علمائے حق اور محبان رسول کی تحریروں اور تقریروں میں ہوتے رہے ہیں۔ مفصل بحث کا یہ موقع نہیں۔ صرف ایک مثال پر بات ختم کرتا ہوں۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو آج تک کسی ذمہ دار عالم اور اہل قلم نے ’’عالم الغیب ‘‘ نہیں کہا۔ ہاں ’’عالم غیب‘‘ ضرور کہا ہے۔ لفظ غیب پر الف لام کے داخل کرنے اور نہ کرنے سے معنوی سطح پر کتنا بڑا فرق پیدا ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کسی مستند عالم سے رجوع کرکے اطمینان حاصل کرسکتے ہیں۔ بصورت دیگر یہ راقم الحروف حاضر ہے۔ انہوں نے بحث کے دائرے کو پھیلادیا ہے۔ ان کی فہرست میں شامل تمام الفاظ و تراکیب کا شرعی جواز و جواب موجود ہے۔ مسئلہ ’’امتناع النظیر‘‘ پر علامہ فضل حق خیرآبادی کی شاہکار کتاب ’’امتناع النظیر‘‘ لا جواب ہے۔ اور حدیث لولاک لما کی صحت کے تعلق سے اسی شمارے میں خاصہ مواد موجود ہے۔ رجوع کیا جاسکتا ہے۔ ایسے لوگوں کی تربیت کے لئے جن کو بات بات میں شرک کا آزر نظر آتا ہے۔ سیدی اعلیٰ حضرت بریلوی نے کیا خوب کہا ہے۔ ؎


شرک ٹھہرے جس میں تعظیم حبیب

اس برے مذہب پہ لعنت کیجئے

’’گوشہ جامی میں‘‘ ہی ڈاکٹر رضوان انصاری نے اپنے مضمون ’’حضرت عبدالرحمن جامی ایک نادر روزگار شخصیت‘‘ کی تمہید میں حضرت خواجہ غریب نواز سے منسوب یہ رباعی نقل کی ہے۔ ؎


شاہ است حسین بادشاہ است حسین

دین است حسین دیں پناہ است حسین

سرداد و نہ داد دست در دست یزید

حقّا کہ بنائے لا الہ است حسین

اطلاعاً عرض ہے کہ یہ رباعی حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی نہیں ہے۔ مشہور محقق پروفیسر حنیف نقوی کی تحقیق ملاحظہ فرمائیں:

فارسی کی یہ رباعی بہت مشہور ہے اورخواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ سے منسوب کی جاتی ہے۔ پروفیسر مسعودحسن رضوی نے روح انیسؔ کے مقدمے میں اس رباعی کو ’’امام حسین کے عظیم الشان کارنامے پر مذہبی زبان میں خواجہ معین الدین اجمیری کا مختصر اور جامع ’’تبصرہ‘‘ قرار دیا ہے، لیکن درحقیقت یہ رباعی خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ایک ہم نام شاعر معین کاشانی کی طبع زاد ہے۔‘‘

(حنیف نقوی کی ابتدائی تحریریں: مصنفہ ڈاکٹر شمس بدایونی، ص:169)

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

زیرنظر شمارہ کا شعری حصہ بھی بہت خوب ہے۔ ڈاکٹر نذیر فتح پوری (پونہ) کی نعتیہ تضمین میں اقبال کے ساقی نامہ جیسی سلاست اور روانی ہے، بہت خوب ہے۔ مگر ان کا یہ شعر محل نظر ہے۔ ؎


خدا نے یہ قرآن میں کہہ دیا ہے

یہ دنیا بنی ہے انہیں کی بہ دولت

خدائے پاک نے قرآن میں یہ بات کہاں کہی ہے؟ ڈاکٹر صاحب اس کی نشاندہی فرمائیں تو میرے علم میں بھی قیمتی اضافہ ہوگا۔’ محمد نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا، یہ قرآن نہیں ہے۔ لو لاک لما خلقت الافلاک کا خلاصہ ہے اس سلسلے میں مزید وضاحت کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
نئے صفحات