دبستانِ نعت ایک مطالعہ -فہیم بسملؔ

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Dabastan e naat.jpg

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

مضمون نگار: بسمل ( شاہ جہاں پور )

مطبوعہ: دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

دبستانِ نعت : ایک مطالعہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

دبستان ِ نعت کا اوّل شمارہ ڈاکٹر سراج احمد کی ادارت اور فیروز احمد سیفی کی نگرانی میں اشاعت کی منزل سے گزر کر منظر عام پر آیا ہے۔ جو حمد و نعت کی شعری و نثری تخلیقات کا ایک ایسا گلدستہ ہے جس کا ورق ورق ایمان پرور خوشبوؤں کا مخزن ہے۔ یایوں کہیے کہ ایمان افروز خوشبوئیں بکھیر رہا ہے۔ مضامین لکھنے والے قلم کاروں نے اسلامیات سے متعلق اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے جہاں خالقِ کائنات کی حمدبیان کی ہے وہیں سرکارِ دو عالم ﷺ کی نعت بھی جذبۂ ایمانی کے ساتھ بیان کی ہے۔ جذبے کی شدت ملاحظہ فرمائیں۔ ؎


ساری تعریفیں اگرسو ہیں خدا کے واسطے

ایک کم سو ہیں محمد مصطفی کے واسطے

نثارؔ امروہوی

مضامین کے عنوانات ،مذکورہ شمارے کی حمد و نعت کی اہمیت پر روشنی ڈالنے کے لیے بھی کافی ہیں مثلاً ’’ کیا نعت صنفِ سخن ہے ‘‘ ، ’’ فنِ نعت اورنعت گوئی‘‘ ،’’ حدائق بخشش کے صنائع بدائع پر ایک نظر‘‘، ’’ نعت ہماری شعری روایت‘‘، ’’ نعت ِرسولِ مقبول ﷺ اور اس کا ارتقا‘‘ یہ مضامین دبستانِ نعت میں گنجینۂ نقدو نظر کے عنوان کے تناظر میں شائع کیے گئے ہیں۔ جو اپنے عنوان کے علمی وقار کو بلند رکھتے ہیں جس کااظہار ڈاکٹر سراج احمد قادری نے اپنے اداریہ میں بہت ہی عمدگی کے ساتھ کیا ہے اور دبستانِ نعت کو سجانے کے مقصد پر بھرپور روشنی ڈالی ہے۔ مثلاً اداریہ کا ابتدائی حصہ ملاحظہ فرمائیں :

’’ مجلہ دبستانِ نعت ‘‘ ششماہی کا پہلا شمارہ آپ کے پیش نظر ہے۔ دبستانِ نعت کا یہ گراں مایہ تحفہ پیش کرتے ہوئے ہمیں دلی مسرت کا احساس ہو رہا ہے۔ اس مجلے کو پیش کرنے کا ہمارا مقصد حمد و نعت کے فروغ و ارتقا کے حوالے سے ادبا و شعرا اور محققین کی ان کاوشوں سے اہلِ علم کو روشناس کرانا ہے جو اب تک ناقدینِ ادب کی نگاہِ توجہ سے محروم رہی ہیں۔ آج بھی اُردو زبان و ادب کا گراں قدر سرمایہ مخطوطات کی شکل میں یونیورسٹیز اور دیگر کتب خانوں میںمحفوظ ہے۔ انھیں مخطوطات میں نعتیہ ادب کے گل سر سبد شعراے کرام کے مسودے اور بیاضیں بھی ہیں جن کو اب تک اہلِ علم کے درمیان متعارف نہیں کرایا جا سکا۔ ہماری کوشش ہے کہ ان تک رسائی کرکے منصہ شہود پر لاکر اہلِ علم وفن کے درمیان متعارف کرایا جائے۔ جس سے نعت کی عظمت کی جیوتی دلوں کو جگمگا دے۔اور وہ اس عظیم فن کی جانب متوجہ ہو سکیں۔‘‘

اداریہ کے یہ نقرئی الفاظ دبستانِ نعت کی اشاعت کے مقصد کو پوری طرح عیاں کر دیتے ہیں جس سے محسوس ہوتا ہے کہ دبستانِ نعت ، حمدو نعت کے تخلیقی حوالے سے ایک مشن کی صورت میں کام کرے گا اور شعرا کو حمد و نعت کی تخلیق پر مائل کرے گا۔ ڈاکٹر سراج احمد قادری نے جیسا کہ اداریہ میں تحریر کیاہے کہ وہ دبستانِ نعت کو وسیلہ بنا کر ایسے مسودات کو بھی منظر عام پر لائیں گے جو آج تک اشاعت کے لمس سے محروم ہیں۔ اگر خدا کے فضل سے ڈاکٹر سراج احمد قادری کا یہ خواب تعبیر کی منزل میں قدم رکھنے میں کامیاب ہوگیا تو اسلامی شعریات کے گلشن پر یقینانئی بہارچھا جائے گی۔ کیونکہ اسلامی شعریات کے تعلق سے جتنا کام پرانے شعرا و ادبا نے کیا ہے اس کے مقابلے میں نئے فنکاروں کا کام تو نظر ہی نہیں آتا ہے۔ مجھے اُمید ہی نہیں یقین ہے کہ انشا ء اللہ دبستانِ نعت کے اجرا کے ساتھ اس منظر میں کچھ تبدیلی ہوتی ہوئی نظر آنے لگے گی اور نئے لکھنے والوں کے دلوں کو اسلامی شعریات کے تخلیقی نور سے آباد کر دے۔ مذکورہ شمارے کے اداریے کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ چار سو صفات پر پھیلے ہوئے شمارے کا تذکرہ صرف نو صفحات میں اس خوبی کے ساتھ کیا ہے کہ کوئی بھی ادبی اہم منظر اس کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوا ہے۔ جسے اداریے کے ان الفاظ میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔’’ چنانچہ مشہور صوفی شاعر اور رعاشقِ رسول حضرت عبد الرحمن نور الدین جامیؔ رحمتہ اللہ کے درج ذیل شعر پر ایک عمیق نظر ڈال کر دیکھیں کہ خود سپردگی کی کیا کیفیات ہیں۔ دنیا کا کوئی ذی شعور انسان اس کی صداقت پر انگشت نمائی نہیں کر سکتا ہے۔ ؎


جامیؔ اگر یافتے قبولِ غلامیّت

غاشیہ بردوش در عنان تو بودے

دبستانِ نعت کے اشاعتی مقصد کو نظر میں رکھتے ہوئے علامہ جامی کے گوشے کو بھی دبستانِ نعت میں ترتیب دیا گیا ہے۔ جس میں ان کے تخلیق کردہ حمد و نعت کے بے مثل نمونوں کو بہت ہی اہتمام کے ساتھ شائع کیا گیا ہے اور رسولِ اکرم سے ان کی محبتوں کو مضامین کے پھولوں کی شکل میں اس طرح پرویا گیا ہے کہ ان کا حرف حرف توحید کی خوشبو سے مہک گیا ہے۔ جس میں تنویر پھولؔ نے علامہ جامی ؔکی نعتوں کے حوالے سے گفتگو کی ہے۔ ڈاکٹر سیّد یحییٰ نشیط نے علامہ کی نعت نگاری کا جائزہ پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر رضوان انصاری نے ان کی شخصیت اور سیرت پر بہت ہی صادق انداز میں بصیرت افروز روشنی ڈالی ہے۔ جو اس دور کے لوگوں کے لیے زندگی کا بہترین سبق کے مترادف ہے اور ڈاکٹر نور احمد رباّنی نے علامہ جامی کے فارسی نعتیہ کلام کا اُردو ترجمہ کیا ہے۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ مذکورہ مضامین اور ان کے کلام نے گوشے کو خاصے کی چیز بنا دیا ہے۔

دبستانِ نعت میں غیر مسلم شعرا کی بھرپور نمائندگی کے طور پر ڈاکٹر فہیم احمد صدیقی نے کرشن کمار طور ؔکی حمد و نعت کے تعلق سے جو گفتگو کے چراغ روشن کیے ہیں ان کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس شعری کائنات کے حوالوں میں غیر مسلم شعرا کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے علاوہ مدیر نے مذکورہ شمارے کی انفرادیت کو شاہ کار بنانے کے لیے قلم کاروں کو عنوانات دے کر جو مضامین لکھوائے ہیں انھوں نے بھی دبستانِ حمد ونعت کو اہم بنا دیا ہے۔ مثلاً ڈاکٹر نذیر ؔفتح پوری نے ’’ میلادِ اکبر‘‘ کے وجود کی اہمیت پر اصرار کرکے گزرے ہوئے وقتوں کی میلاد خوانی کی یادوں کو ایک بار پھر سے تازہ کر دیا ہے۔

شعرا کی فہرست طویل ضرور ہے لیکن سب نے ہی اپنے قلم کے جوہر بہ حسن و خوبی دکھائے ہیں اور حمد و نعت کے باب کو اپنے ایمانی جذبوں کے نور سے اس طرح منور کیا ہے کہ دلوں کی سیاہیاں مطالعہ کے دوران منھ چھپانے کے لیے جاے اماں ڈھونڈتی نظر آتی ہیں اور آنکھیں اپنے شفاف آنسوؤں سے دلوں کے منظروں کو پھر سے جگمگا دیتی ہیں اس لیے دبستانِ نعت کو ہر گھر میں ہو ناچاہیے۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

کیا ہی اچھا ہوتا ہے کہ اس میں اسلامیات سے متعلق اہم کتابوں کے اشہارات دیے جاتے اور نئے حمد ونعت کے مجموعات پر تبصرے بھی شائع کیے جاتے۔ چونکہ یہ سفرکا آغاز ہے اس لیے مجھے قوی اُمید ہے کہ آیندہ تمام گوشوں پر کام کیا جائے گا کیونکہ اس کے حوالے سے حمد و نعت کا تخلیقی سلسلہ دراز ہوتا ہی رہے گا بہر حال ڈاکٹر سراج احمد قادری اور محترم فیروز احمد سیفی نے دبستانِ نعت کو اسلامی شعریات اور ذکر روایات و حکایات سے اس طرح سجا سنوار کر پیش کیا ہے کہ اُرددو والے دعائیں کررہے ہیں کہ خدا اس مجلے کو رہتی دنیا تک قائم رکھنا کیونکہ یہ تیرا اور تیرے محبوب کا قصیدہ خواں ہے۔ (آمین)

آخر میں چند پسند یدہ نعتیہ اشعار کے ساتھ اپنی با ت ختم کرتا ہوں ۔ ؎

حضورِ شہِ بحرو بر جانے والے

لیے جا ہماری نظر جانے والے

زائر ِ حرم حمید ؔصدیقی


حضور ایسا کوئی انتظام ہو جائے

سلام کے لیے حاضر غلام ہو جائے

سیّد صبیحؔ رحمانی

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png


صفت ان کی حامدِؔ بے نوا جو بیاں کرے بھی تو کیا کرے

کوئی آج تک نہ سمجھ سکا جو نبی کا عزو وقار ہے

حامد اؔمروہوی


توفیق تیری فکر میں شامل نہ ہو اگر

میری ہے کیا بساط ہی جو کھل سکے دہن

ولی اللہ ولی عظیم آبادی


یہ زمین و زماں یہ مکین و مکاں یہ مہ و مہر انجم ہیں جن کے لیے

اُس نبی کی ولادت کے موقع پہ ہم کیوں نہ اپنے گھروں میں جلائیں دیے

اجمل ؔسلطان پوری


یقینِ کامل ہے شرطِ اول خلوصِ دل سے پکار دیکھو

اگر ہوں مشکل کشا نبی تو کوئی بھی مشکل بڑی نہیں ہے

قاضی اسدؔ ثنائی


آپ کا نام ہے بس وجہِ سکونِ بیمار

آپ کا ذکر ہی بس راحتِ جاں ہوتا ہے

اسرار رازیؔ


درودِ پاک کا یہ مشغلہ بھی خوب کام آیا

کہ دنیا خیر و برکت کی ہمارے گھر چلی آئی

رباب ؔرشیدی

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی


کیوں لب پہ سوال آئے مرے بخیہ گری کا

سرکار ہیں مینار وسیع النظری کا

قاسمؔ حبیبی


مشغول جب سے نعتِ شہِ انبیا میں ہوں

محسوس ہو رہا ہے جوارِ خدا میں ہوں

ڈاکٹر تابش ؔمہدی


مرے احساس پر وہ چھا گئی ہے

مدینے کی فضا یاد آگئی ہے

فراز ؔفتح پوری


عظمت مرے حضور کی دیکھو کہ کیا ہیں آپ

بعد از خدا بزرگ ہیں اور مصطفی ہیں آپ

نثار ؔاحمد راہی فتحپوری


ہو کے اُمی لقب زمانے میں

منبع علمِ جامعات ہیں آپ

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
نئے صفحات