خورشید ناظر کی نعتیہ خدمات ۔ ڈاکٹر نعیم نبی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

22552547 1414849971926102 6847160094441319601 n.jpg

مضمون نگار: ڈاکٹر نعیم نبی ، بہاولپور

مطبوعہ : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27

ABSTRACT[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

Bahawalpur, the former state of sub-Continent Indo-Pak has a very rich literary and religious back ground. It has produced many celebrated poets, writers, critics, historians, religious scholars etc. Khurshid Nazir is one of them. He is a poet, writer, critic, research scholor, historian, annotator, literary journalist and a social worker. This is an introductory article about him depicting his wonderful work in the field of literature especially in the field of religious poetry.

خورشید ناظر کی نعتیہ خدمات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ا د بی مرا کز سے دو ر وا قع شہر و ں میں تخلیق ہو نے وا لے ا د ب کو ہمیشہ سے نظر ا ند ا ز کیے جا نے کا صد مہ جھیلنا پڑ ا ہے ۔یہ بین ا لا قو ا می طر زِ عمل ر ہا ہے کہ مضا فا ت سے تعلق ر کھنے وا لے ا ن شعر ا ء و ا د باء کو چھو ڑ کر جن کا ا د بی مر ا کز سے کسی طر ح کا کو ئی ر ا بطہ قا ئم ہو گیا ،باقی سب شعرا ء و ا د با ء کو نظر ا ند ا ز ہی کیا گیا ۔یہ سلسلہ ا س وقت بھی جا ر ی تھا جب نشر و ا شا عت کے ذرا ئع محد و د تھے اور یہ سلسلہ ا ب بھی جار ی ہے جب د نیا کو ا یک گلو بل و یلج کا نا م د یا جا ر ہا ہے ۔ ا س طرزِ عمل کے نتیجے میں مضافا ت میں تخلیق ہو نے وا لا عمد ہ ا د ب ہمیشہ سے سسک سسک کر گمنا می کی مو ت مر تا ر ہا ہے ۔

کا فی د یر کی با ت ہے کہ ا یک با ر نا مو ر د ا نش ور جنا ب مشفق خو ا جہ کے یہا ں ا ن کی ر ہا ئش گا ہ واقع پا پو ش نگر،کر ا چی میں حا ضر ی کا شر ف حا صل ہو ا ۔خو ا جہ صا حب مر حو م کے یہا ںآ نے جا نے والے ا ہلِ علم میر ی ا س با ت کی تصد یق فر ما ئیں گے کہ ا ن کے ا س کمر ے جو کتا بو ں سے بھر ا پڑ ا تھا کے جنو ب مغر بی کو نے میں کتا بو ں کی ا یک بہت بڑ ی چو بی ا لمار ی مو جو د تھی ۔قد یم شعرا ء پر تحقیق کے سلسلے میں جب با ت چلی تو خو ا جہ صا حب مر حو م نے ا س ا لما ر ی کی طر ف ا شا ر ہ کر تے ہو ئے فر مایا کہ اس میں قد یم شعر ا ء کے مخطو طوں کی شکل میں سینکڑ و ں دوا وین مو جو د ہیں جن پر آ ج تک کا م نہیں ہوسکا۔ میں خو ا جہ صا حب کے چہر ے پر ا بھر نے وا لے کر ب اور تا سف کا بخو بی ا ند ا ز ہ کر سکتا تھا اور عین ا س وقت ا پنے علا قے جنو بی پنجا ب کی ا یک قد یم ر یا ست بہا و ل پو ر کے کچھ ا یسے مغمو م و ما یو س چہر ے میر ی چشمِ تصو ر میں تیر نے لگے جن کی تحر یر یں ا د بی اور د ینی لحا ظ سے ا د بی مر ا کز میں ہو نے وا لے کا م سے بہر لحا ظ عمد ہ ہیں۔ یہ میں عہدِ عتیق کی با ت نہیں کر ر ہا ،یہ آ ج ہی کی با تیں ہیں جب د نیا کو فخر سے گلوبل ویلج کا نا م د یا جا ر ہا ہے۔میری خو ا ہش ہے کہ میں یہا ں کے کچھ ا علیٰ تخلیق کا روں کی تخلیقا ت کا تعا ر فی ا ند ا ز میں جا ئز ہ لو ں اور پھر ا ہلِ علم اور ا ہلِ ا ختیا ر کی را ئے جا ننے کے لیے ا ن سے پو چھو ں کہ ان مو تیو ں کو گمنا می کی ا ند ھی اور کا لی مٹی میں د فن کر نے سے ہم ا پنا،ادب اور مذ ہبی اد ب کا کتنا بڑ ا نقصان کر ر ہے ہیں ۔

بہا و ل پو ر کے تما م ا د بی حلقے ا س با ت سے وا قف ہیں کہ بہا و ل پو ر شہر سے تعلق ر کھنے وا لے ایک گو شہ نشین شا عر نے کم و بیش گیا ر ہ سو ا شعار پر مشتمل ا یک حمد یہ مجمو عہ مکمل کیا ہے جس کا نا م ا نہو ں نے ’’وللہ ا لحمد‘‘ ر کھا ہے۔ ا س حمد یہ مجمو عہ کی خا ص با ت یہ ہے کہ یہ پو ر ے ا د ب میں سب سے بڑ ا غیر منقو ط مجمو عہ ہے ۔ یہ مجمو عہ دو طو یل نظمو ں جن میں سے پہلی حمد یہ نظم ’’مر ا ا للہ ،مرا ہا د ی ، مرا مو لا‘‘ ( حمدِ مسلسل)سا ت سو چھیا سی ا شعا ر پر مشتمل ہے جسے مثنو ی کی ہئیت میں مکمل کیا گیا ہے اور غا لباً یہ سب سے طو یل حمد یہ نظم بھی ہے ۔دو سر ی حمد یہ نظم چھ چھ مصر عوں پر مشتمل پند ر ہ بند و ں سے مکمل کی گئی ہے اور جس کا نا م ’’مر ا وا لی ،مرا اللہ‘‘ ہے ۔ ا ن دو نظمو ں کے علا و ہ غز ل کی ہئیت میں کہی گئیں اکتا لیس محا مد ا س مجمو عہ میں شا مل ہیں(۱)کو ئی اگر حقیقت پسند ا نہ ا ند ا ز میں صر ف ا سی ایک غیر منقو ط حمد یہ مجمو عہ کے مقام کا تعین کر نا چا ہے تو بڑ ے بڑ ے نا م ا س مجمو عہ کے شا عر سے بہت پیچھے ر ہ جا تے ہیں ۔ ہمیں یہ تسلیم کر نا چا ہیے کہ جب ا یک غیر منقو ط شعر کہتے ہو ئے دا نتو ں کو پسینہ آ نے لگتا ہے تو د نیا سے بے نیا ز اس گو شہ نشین شا عر کو اس کے ا س فنکا را نہ منفر د ا ظہا ر پر ہم کیا مقا م د یں گے ۔

خو ر شید نا ظر کی مطبو عہ تخلیقات کا جا ئز ہ لینے سے پہلے میں یہ بتا تا چلو ں کہ و ہ گز شتہ پچپن سا ل سے شعر و ا د ب سے وابستہ ہیں اور پو ر ی د یا نت دا ر ی سے یہ خد مت سرا نجا م دے ر ہے ہیں ۔وہ بہاول پو ر جیسے شہر سے ’’حر و ف ‘‘ کے نا م سے ا یک ا د بی جر ید ہ شا ئع کر تے ر ہے ہیں جس کے چار ضخیم شما ر ے شا ئع ہو سکے جنھیں حو ا لے کی حیثیت حا صل ہے ۔ا نہو ں نے متنو ع مو ضو عا ت پر ’’بالو ا سطہ‘‘ کے عنو ان سے در جنو ں کا لم لکھے جنھیں پذ یر ا ئی ملی ۔و ہ مختلف ا خبا را ت اور ر سا ئل میں شا ئع ہو تے رہے اور ا یک مشتر کہ شعر ی مجمو عہ میں بھی ا نھیں شا مل کیا گیا جو ’’کر نیں ‘‘ کے نام سے منظرِ عا م پر آ یا۔ انہو ں نے پا نچ د ر سی کتب لکھیں۔ر یڈ یو پا کستا ن بہا و ل پو ر کے لیے ا ن کی خد ما ت کو ا س طر ح سراہا گیا کہ ا ن کی تصو یر کو ر یڈ یو پا کستا ن کی گیلر ی میں نما یا ں طو ر پر آ و یز ا ں کیا گیا ۔مقا مِ شکر ہے کہ دی اسلا میہ یو نی و ر سٹی بہا و ل پو ر میں ا ن کی شخصیت اور فن پر ا یم فل کی سطح کا تحقیقی مقالہ لکھا گیا ہے علاوہ ازیں ا ن کے سفرنا مہء حج ’’ ہر قد م رو شنی‘‘اور منظو م سیرتِ پا کV ’’بلغ ا لعلیٰ بکمالہ‘‘پر بھی ا یم فل کے مقا لا ت میں تحقیقی کا م ہو چکا ہے ۔

خو ر شید نا ظرنے علا قے کے لیے قا بلِ قد ر سما جی ،سیا سی اور علمی خد ما ت سر ا نجا م د ی ہیں لیکن میں ا پنی ا س تحر یر کو ان کی د ینی اور ا د بی خد ما ت تک ہی محد و د ر کھو ں گا اور نہا یت ا ختصا ر کے سا تھ ا ن خد ما ت کا ا س طر ح جا ئز ہ لو ں گا کہ ا ن حو ا لو ں سے ا ن کا منا سب حد تک تعا ر ف ہو جا ئے ۔

خو ر شید نا ظر کی ا س وقت تک مذ کو ر ہ حو ا لو ں سے سا ت کتب شا ئع ہو کر قا ر ئین سے دا د و صو ل کر ر ہی ہیں ۔د ینی حو ا لے سے ا ب تک پا نچ کتب شا ئع ہو ئی ہیں۔

۱۔ ہر قد م رو شنی: یہ سفر نامۂ حج ہے جو ۲۰۰۳ ء میں شا ئع ہو ا ۔اس سفر نا مہ کو ا ہلِ علم نے بہتر ین سفر نا مہ کا در جہ د یا ہے ۔اسے دی ا سلا میہ یو نی ور سٹی بہا و ل پو ر میں ا یم فل کے تحقیقی مقا لے میں شا مل کیا گیا ہے ۔یہ سفر نامہ دس ا بو ا ب پر مشتمل ہے ۔ عنو ا نا ت کے لیے مو زوں مصر عے کہے گئے ہیں۔ یہ سفر نا مہ ا یک منفرد تکنیک کو ا ستعما ل کر تے ہو ئے تحر یر کیا گیا ہے۔’’ہر قد م رو شنی ‘‘ میں تا ر یخی وا قعا ت ،حو ا لہ جا ت اور مصنف کی شا ند ا ر تحقیق نے ا س سفر نا مہ کا مقا م بہت بلند کر د یا ہے ۔

(۲)ہر قد م رو شنی کے بیک ٹا ئٹل پر پر و فیسر ڈا کٹر نذ ر خلیق نے ا پنے تا ثر ا ت کے آ خر ی حصے میں لکھا ہے : ’’ خو ر شید نا ظر جتنے کا میا ب شا عر ہیں ، ا تنے ہی کا میا ب سفر نا مہ نگا ر بھی ثا بت ہو ئے ہیں ۔ا ن کا سفر نا مہ ’’ ہر قد م رو شنی‘‘ جہا ں جذ بو ں کا حسین مر قع ہے و ہا ں فن کی بلند یو ں کو بھی چھو ر ہا ہے ۔


(۳)۲۔ بلغ ا لعلیٰ بکمالہ: یہ کتا ب حضر ت محمد کی منظو م سیر تِ پا ک ہے ۔یہ کتا ب منفر د ا ند ا ز میں تکمیل کو پہنچی ہے۔ ساڑ ھے سا ت ہز ا ر(۷۵۰۰)سے زیا د ہ ا شعا ر پر مشتمل ہے جسے بحرِ ہز ج مثمن سا لم میں مکمل کیا گیا ہے۔ کتا ب چھپن(۵۶) ا بو ا ب اور پا نچ سو(۵۰۰) سے ز یا د ہ ذ یلی عنو ا نا ت پر مشتمل ہے ۔خا ص بات یہ ہے کہ ا بو ا ب کے نا م اور ذ یلی عنو ا نا ت مصر عو ں پر مشتمل ہیں اور ہر مصر ع تا ہے،تی ہے،تے ہیں و غیر ہ پر ختم ہو تا ہے مثلاً :

جہا لت کے سمند ر میں عر ب تہذ یب پلتی ہے

جہا ں میں سرورِ کو ن و مکا ں تشر یف لا تے ہیں

سر ا پا آپ کا قر طا س کی ز ینت بڑ ھا تا ہے

عا م طو ر پر ہم تا ر یخِ ا سلا م خصو صاً آ پ کے دو رِ حیا ت سے متعلق ا کثر ا ہم کر دا رو ں کے اصل نا مو ں سے وا قف نہیں کیوں کہ ا ہلِ عر ب اصل نا م کی بجا ئے کنیت کو ز یا د ہ ا ہم سمجھتے ہیں ۔ ہم میں سے ا کثر لو گ نہیں جا نتے کہ حضر ت ا بو ا یو ب ا نصا ر یؓ کا ا صل نا م حضر ت خا لد بن ز ید ہے ، حضرت ابوطالب کا نا م عبدِ منا ف بن عبد ا لمطلب شیبہ ہے اور حضر ت ا بو سفیا ن کا نام صخر بن حر ب ہے ۔خو ر شید ناظر نے عر ق ر یز ی سے یہ مشکل کا م کر ڈ ا لا ہے جو کسی اور سیرتِ پا ک کی کتا ب میں قا ر ی کو نظر نہیں آتا۔ خو ر شید نا ظر شاعر ی کا ا یک منفر د ا ند ا ز ر کھتے ہیں لیکن سیر تِ پا ک کے سلسلے میں شعر کہتے ہو ئے ا ن کا ا سلو ب سیر تِ پا ک کے تقا ضو ں کے عین مطا بق تبد یل ہو گیا ہے ۔ ا س سلسلے میں نامو ر سکا لر پرو فیسر عبد ا لجبا ر شا کر لکھتے ہیں ۔

’’ خو ر شید نا ظر نے اس منظو مہء سیر ت کے لیے عرو ضی سطح پر بحرِہز ج ( مفا عیلن ) کا انتخا ب کیا ہے جس نے ا شعا ر کی رو ا نی ، شگفتگی ،بر جستگی اور نغمگی میں گر ا ں قد ر ا ضا فہ کیا ہے ۔ سا ڑ ھے سا ت ہز ا ر کے ا س بیا نیہ میں ا ز اول تا آ خر ا یک عجیب کیف و مستی کا سما ں چھا یا ہو ا ہے ۔ مضا مین ابرِ ر حمت بن کر ا س پر بر سے ہیں اور صنا ئع بد ا ئع نے ا پنے سا ر ے جو ا ہر ا س پر نچھا و ر کیے ہیں۔‘‘

(۴)سیر تِ پا ک کے ا و لین با ب ’’ جہا لت کے ز ما نے کے عجب حا لا ت ملتے ہیں ‘‘ سے پا نچ اشعارزمیں کا لی ، فضا کا لی ، ہو ا ؤ ں کا چلن کا لا صد ا قت سر نگو ں ہے ، بو ل ہے ا ب جھو ٹ کا با لامحبت ز خم خو ر د ہ ہے ، یہا ں نفر ت پہ جو بن ہے خز ا ں کے ہا تھ میں ا نسا ں کے مستقبل کا گلشن ہے کسی کے خون سے لمحو ں میں ہو جا تا ہے دا من تر نہیں پر وا کسی کو کچھ ا گر ا جڑ ے کسی کا گھر یہا ں عز ت کی قیمت ایک کو ڑ ی سے بھی کمتر ہے کو ئی قا نو ن ہے نہ ہی کسی کا خو ف یا ڈر ہے کو ئی کم زو ر ہے تو ا س کاجینا مو ت سے ا بتر بڑ ا ہے جس کو حا صل ہے بد ی میں فو قیت سب پر (۵) جنگِ بد ر میں لشکرِ اسلا م اور کفار کے ما بین لڑ ا ئی کے منظرکے سلسلے میں چند ا شعا ر فلک حیر ا ن، د شمن تھا پر یشا ں د یکھ کر حملہ صفیں ا لٹی گئیں ا س کی ، ہو ا جب تیز تر حملہ ز رّہ پہنے ر سو ل ا للہ بڑ ھے آ گے تو پھر کیا تھا صحابہؓ قتل کر دیتے ، عدو جو بھی نظر آ تا نبیؐ جب سب سے فر ما تے ، ر کو مت ،ا ب بڑ ھو آ گے ہز یمت ا ہلِ مکہ کی ہے قسمت ، یہ ا بھی بھا گے تو ا س سے جنگ میں کچھ اور بھی تیز ی نظر آ تی مسلما نو ں کی جب تلو ا ر ا ٹھتی ، خو ں سے تر آ تی عجب ا مو ا ت کا عا لم مسلط ، ا ب تھا د شمن پر تھیں کٹتی گر دنیں ، معلو م نہ ہو تا، کٹیں کیو ں کر (۶)اور فتحِ مکہ کے یہ ا شعا ر تھے را کب آ پؐ قصو یٰ پر ، صحا بہؓ کو چلے لے کر حر م کی سمت آ گے بڑ ھ ر ہے تھے ا یسے ر ستے پر کہ جس پر آ پؐ کا آ نا نہیں تھا خطر ے سے خا لی کیا تھا آپؐ کو کفا ر نے جس پر کبھی ز خمی کو ئی بھی اور ہو تا آ ج کے د ن تو و ہ یو ں کر تا و ہ ا پنے د شمنوں کو را ستے پر سر نگوں کر تا مگر آ قا ئے عا لمؐ کا نگو ں تھا سر، ز با ں پر تھا خدا کا شکر ا ور نا مِ خد ا ئے بر تر و با لا (۷)منظو م سیرتِ پا ک کی ا نفر ا د یت یہ بھی ہے کہ حو ا لہ جا ت کہیں بحر ا ن کا شکا ر نہیں ہو ئے۔ز با ن سا د ہ اور روا ں دواں ہے جس میں عمد ہ شا عر ی کے تما م عنا صر مو جو د ہیں۔

بلغ ا لعلے بکما لہ سیر تِ پا ک کی ایک ا یسی کتا ب ہے جو ا ز اول تا آ خر ا پنے قا ر ی کو بہر انداز بے حد متا ثر کر تی ہے جسے پڑ ھتے ہو ئے یو ں محسو س ہو تا ہے کہ قا ر ی عہدِ نبو ی میں آ گیا ہے ۔ ۳۔ منظو م شر ح ا سماء ا لحسنیٰ: یہ کتا ب اللہ تعا لیٰ کے ایک سو چون(۱۵۴) ا سمائے پا ک کی منظو م شر ح پر مشتمل ہے ۔اُردو یا کسی بھی ز با ن میں ا س نو عیت کی منظو م شر ح ا ب تک منظرِعا م پر نہیں آ سکی ۔ یہ کتاب دو ہز ا ر ایک سو(۲۱۰۰) سے ز یا د ہ ا شعا ر سے مکمل کی گئی ہے ۔ز با ن سا د ہ اور رو اں دو ا ں ہے ۔ا س کتا ب کو قرآن، حد یث اور د یگر مستندحو ا لہ جا ت سے مز ین کیا گیا ہے ۔

(۸)ا پنی نو عیت کی ا س ا وّ لین کتا ب کے سلسلے میں پر و فیسر ڈا کٹر شا ہد حسن ر ضو ی لکھتے ہیں ۔

’’ دو ہز ا ر سے زا ئد ا شعا ر کی حا مل منظو م شر ح ا پنی نو عیت کی غا لباً وا حد تا لیف ہے جس کا تعار فی شعر دعا ئیہ یا ابتد ا ئیہ ( Preamble) کے طو ر پر ہر با ب کا مطلع بن جا تا ہے ۔

مرے اللہ! تر ے اسما بڑے ہی رحمتوں والے

کرے جو ذکر ان کا ، اس کے ہر اک غم کو تو ٹالے

منظو م کینو س پر تقد س اور ا د بیت کا ا یک حسین ا متز ا ج ہر ا یک شعر میں مو جز ن د کھا ئی دیتا ہے ۔‘‘(۹) اللہ تعا لیٰ کے پا ک نا م علیم کی شر ح میں کہے ہو ئے چند ا شعا ر د یکھیے۔

تر ا یہ نا م مشتق علم سے ہے ، علم والا تو

علیم و عا لمِ یکتا ہے تو ، بر تر ہے ، با لا تو

علیم ا یسا ، سبھی سینو ں کی با تیں علم میں تیر ے (۱۰)

نہیں مخفی کو ئی چھو ٹے سے چھو ٹا بھی عمل تجھ سے (۱۱)

تو وسعت د ینے وا لا ، علم پو را ر کھنے وا لا ہے ( ۱۲)

تر ے ہی علم میں مخلو ق کا ا ک ا یک لمحہ ہے

زمین و آ سما ں کے را ز سا ر ے جا نتا ہے تو

عطا قر آ ن فر ما یا ، بکھیر ی علم کی خو شبو

زمیں ا جسا مِ مر د ہ میں کمی کر د یتی ہے جیسے

تو ر کھتا ہے ز میں کے ا س عمل کو علم میں ا پنے ( ۱۳)

۴۔ حسنت جمیع خصا لہ: یہ کتا ب آ قا ئے نا مد ا ر حضر ت محمد کے ایک سو پا نچ(۱۰۵) ا سما ئے پاک کی منظو م شرح پر مشتمل ہے ۔ اردو یا کسی بھی ز با ن میں ا س طر ح کی منظو م شر ح ا ب تک منظرِ عا م پر نہیں آ سکی ۔آ پ کے ہر اسمِ پا ک کی و ضا حت کے بعد قرآ نِ پا ک اور ا حا د یث میں سے ا س نا مِ نا می کے حو ا لے شامل کیے گئے ہیں ۔ ا س کے بعد آ پ کے ز یرِ شرح اسمِ گرامی کے سلسلے میں عا لمی دانش وروں خصوصاً غیر مسلم دانش وروں کے خیا لا ت کو نظم کیا گیا ہے اور آ خرمیں اس اسمِ پا ک کے فیو ض و برکا ت کو شعر کے قا لب میں ڈھا لا گیا ہے۔یہ کتا ب تین ہزار تین سوتینتیس(۳۳۳۳)ا شعار پرمشتمل ہے۔مکمل حوالہ جا ت مو جود ہیں۔ زبا ن رواں دواں اور شعری محا سن کی حا مل ہے۔(۱۴)

ا پنے ا یک مضمو ن بعنو ا ن ’’ حسنت جمیع خصا لہ‘‘ میں شا عر ، محقق اور نا قد ر حیم طلب لکھتے ہیں ۔

’’ خو ر شید نا ظر نے تا ر یخ دا نو ں ، فلا سفر و ں میں وا لٹئر ، شیلے ، ڈر ے کا رڈ ، لا لہ رگھوناتھ سہا ئے ، جا ر ج بر نا ر ڈ شا (اور د یگر کئی) کے تا ر یخی حو ا لو ں کے علا و ہ قر آ نِ پا ک، احادیث ، تو را ت ، ز بو ر ،ا نجیل ،تسبیحا ت سلیما ن ،صحا بہ کر ا م اور تا بعین کی روا یا ت سے استفا د ہ کیا ہے ۔‘‘(۱۵)

نبی ا کرم ؐ کے ا یک پا ک نا م سیدِنا محمو دکی شرح میں کہے ہو ئے چند ا شعا ر د یکھیے۔

با عثِ تخلیقِ عا لم آ پ ؐ کی ذا تِ عظیم

خلق ا علیٰ آ پؐ کا ، کہتا ہے خو د ر بِ کر یم

آ پؐ کو بخشا گیا ہے ہر طر ح اعلیٰ مقام

نا م ہے محمو د جس کا ،محتر م ، ذ ی ا حتشا م

آ پ ؐ ہیں محمود ، اس باعث لوا ا لحمد کی

آ پ ؐ کو اللہ نے بخشی مکمل روشنی

آ پ ؐ کی تعر یف آ قا ؐ سو ر تِ کو ثر میں ہے

خو بیو ں کا اک سمند ر آ پؐ کے پیکر میں ہے

ان ا شعا ر میں فتو حا تِ مکیہ کے علا و ہ سو ر ت ا لکو ثر کی آ یت نمبر ا کا حو ا لہ د یا گیا ہے ۔

۵۔ و للہ الحمد: یہ کتا ب بھی ا یک ا د بی شا ہکا ر ہے جس کا حو ا لہ قد ر ے تفصیل کے سا تھ مضمو ن کی ا بتدا میں آچکا ہے ۔غیر منقو طہ شاعری پر مشتمل یہ کتاب تاریخِ ادب میں خورشید ناظر کے ایک ا یسے ا د بی کارنامے کے طو ر پر یا د ر کھی جا ئے گی جسے کسی بھی طر ح نظر ا ند ا ز نہیں کیا جا سکتا ۔یہ کتا ب بھی ا پنی نوعیت کی وا حد کتا ب ہے ۔ پر و فیسر ڈا کٹر محمد طا ہر لکھتے ہیں :

’’جہا ں بڑے بڑ ے شعرا ء ا یک غیر منقو ط شعر کہتے ہو ئے ہا نپ جا تے ہیں وہا ں خورشید ناظر نے گیا ر ہ سو کے لگ بھگ غیر منقو ط ا شعا ر سے ا پنی کتا ب کو مز ین و مو قر کیا ہے ۔ یہ تار یخِ ادب کا ا نو کھا وا قعہ ہے ۔ آج تک تا ر یخِ ا د ب ا س طر ح کی کتا ب سے تہی دا من تھی اور بلاخو فِ تر د ید کہا جا سکتا ہے کہ یہ ا پنی نوعیت کی ضخیم ترین اور عظیم ترین کتاب ہے۔‘‘ (۱۶)

اس کتا ب میں شا مل غز ل کی ہئیت میں کہی گئی ایک حمد د یکھیے۔

وہ کل ادوار کا مالک ، کمال اطو ار کا مالک

و ہی سر کا رِ کل عا لم ، ہر ا ک سر کا ر کا ما لک

ور ا ، طا ئر، مَلَک ا س کے ، ہما لہ او ر روا ا س کے

وہی اعمال کا مالک ، وہی کردار کا مالک

اسی کا اسم ہے اللہ ، وہی مولا ، وہی اعلیٰ

وہی روحو ں کا مالک ہے ، وہی اسرار کا مالک

گلِ احمر اسی کا ہے ، گل سوری اسی کا ہے

ہر اک سو ہے مہک اس کی ، وہی مہکار کا مالک

دوام اس اک کو ہے حاصل، وہ دائم ہے، وہ راحم ہے

رہ و راہی کا وہ مالک، مدارِ کار کا مالک

حمد و نعت کی مذ کو رہ با لا ضخیم اور منفر د کتب کے علا و ہ خو ر شید نا ظر کی بہت سی نعو ت اور محا مد مختلف اخبا را ت و ر سا ئل میں شا ئع ہو چکی ہیں اور نعوت اور محا مد کا ا یک قا بلِ قد ر ذ خیر ہ غیر مطبو عہ صور ت میں مو جو د ہے جس کی ا شا عت کا و ہ ا را د ہ ر کھتے ہیں۔

خو ر شید نا ظر نے مذ کو ر ہ با لا کتا بو ں کے علا و ہ سر ا ئیکی ز با ن کے عا لمی شہر ت یا فتہ شا عر خو ا جہ غلا م فر یدؒ کے کلا م کے حو ا لے سے دو منفر د تنقید ی کتب تحر یر کی ہیں۔

۱۔کلا مِ فر ید اور مغر ب کے تنقید ی رو یے(تنقید): نا قد ین ، قا ر ئین اور علما ئے ا د ب نے ا س کتاب کو تنقید کی نہا یت اعلیٰ اور جدا گا نہ ا ند ا ز کی کتا ب قر ا ر دیا ہے ۔ا س کتا ب میں دس ا ہم مغر بی ناقدین کے شعر کے سلسلے میں قا ئم کیے ہو ئے ا علیٰ معیا ر کے آ ئینے میں فر ید کی کا فیو ں کاجا ئز ہ لیا گیا ہے۔ مغر بی نا قد ین میں سے ہو مر،افلا طو ن ، ا ر سطو ،لا نجا ئنس ، دا نتے ، فلپ سڈ نی ،بن جا نسن،جان ڈ را ئیڈ ن ،ورڈ ز و رتھ اور کو لر ج کوشا ملِ کتا ب کیا گیا ہے۔اس کتا ب پر خو ر شید نا ظر کو دی ا سلا میہ یونیور سٹی بہا و ل پو رکی طر ف سے صد سا لہ خو ا جہ فر ید ا یو رڈ دیا جا چکا ہے۔

اس کتا ب کے با ر ے میں پر و فیسر سید سعید ا حمد نے کتا ب کے بیک ٹا ئٹل پر ا پنی را ئے کا ا ظہا ر کر تے ہو ئے لکھا ہے ۔

’’ حکیم سنا ئی اور رو می کی طر ح خو ا جہ غلا م فر ید ؒ مکتبِ عشق کے نما ئند ہ اور بڑے شا عر ہیں۔

دستوں پیر مغاں دے

پیتم عشق دا جام

بڑی شاعری کا ئنا ت کی طر ح ہو تی ہے جس میں در یا فتِ معا نی کا سلسلہ جا ر ی رہتا ہے ۔چنا نچہ خو ر شید نا ظر نے بھی خو ر شیدِ عا لم ( خو ا جہ صا حب کا تا ر یخی نا م ) کی شاعری کو نقد کے بڑ ے تنا ظر میں د یکھنے کی کا میا ب کو شش کی ہے جو آ نے والو ں کے لیے مشعلِ را ہ کا کا م د ے گی ۔‘‘(۱۷)

۲۔خواجہ فرید کی قا فیوں میں قوا فی کا فنی جا ئز ہ: ا س کتا ب کے با ر ے میں نا قد ین کی را ئے ہے کہ یہ کتا ب خو ر شید ناظر ہی لکھ سکتے تھے۔ ا س کتا ب میں مکمل فنی حو ا لو ں کے سا تھ کا م کیا گیا ہے جس کی مثال کسی بھی ز با ن کے تنقید ی ا د ب میں نہیں ملتی۔ پر و فیسر ڈا کٹر طا ہر تو نسو ی نے ا س منفر د کتا ب کا جا ئز ہ لیتے ہو ئے ’’پہلا صفحہ‘‘ کے نا م سے لکھی ہو ئی ا پنی تحر یر میں ا یک جگہ لکھا ہے ۔

’’ خو ر شید نا ظر نے ا س غلط تا ثر کو مٹا نے کے لیے ا پنی ا س قا بلِ قد ر کتا ب میں خو ا جہ فریدؒ کی کا فیو ں میں قوا فی کا فنی جا ئز ہ پیش کیا ہے اور فنِ عر و ض کے حو ا لے سے اس با ت کوغلط ثا بت کیا ہے ۔ کتا ب کا مطا لعہ ا س با ت کی مکمل گو ا ہی د یتا ہے اور ا نہو ں نے کمالِ فن سے جو بحثیں کی ہیں و ہ مز ید مبا حث کے در وا کر تی ہیں۔‘‘(۱۸)

خورشید ناظر پر اس وقت تک درجنوں مضامین لکھے جاچکے ہیں جو مختلف کتب،جرا ئد اور اخبارات میں شا ئع ہو چکے ہیں۔ان مضا مین اور ا پنے تا ثر ا ت لکھنے وا لو ں میں مند ر جہ ذ یل نا مو راہلِ قلم کے نام خا ص طو ر پر قا بلِ ذ کر ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر خو ا جہ محمد ز کر یا ،پر و فیسر عبد ا لجبا ر شا کر( مر حو م) ، سید تابش ا لو ر ی ،پر و فیسر ڈا کٹر طاہر تونسو ی، پر و فیسر ڈا کٹر شفیق ا حمد،پر و فیسر ڈا کٹر سید محمد عا ر ف،سید محمد نسیم جعفر ی، پر و فیسر محمد لطیف، پرو فیسرڈا کٹر عقیلہ شا ہین،پر و فیسر ڈا کٹر ا نو ر صا بر، مجیب ا لر حمن خا ن،پر و فیسر ڈا کٹر شا ہدحسن ر ضوی، پروفیسر ڈا کٹر زوا ر حسین شا ہ،حکیم میر ظفر ز ید ی مرحو م،پر و فیسرڈا کٹر محمد طا ہر ،پر و فیسرڈا کٹر آ فتا ب احمد گیلا نی،پروفیسرقدرت اللہ شہزاد ، زاہد علی خان،عمر فاروق خان، رحیم طلب، پروفیسر محمد عابد، پروفیسرعصمت اللہ شا ہ اور پر و فیسرڈا کٹر نعیم نبی ۔

علا وہ ازیں دی ا سلا میہ یو نیو ر سٹی بہا و ل پو ر میں ان کے ا عزا ز میں وا ئس چا نسلر صا حب کی ز یرِ صد ا ر ت تقر یبِ پذ یر ا ئی منعقد کی جا چکی ہے جس میں بہت سے نا مو ر لو گو ں نے ا ن کے فن اور شخصیت پر ا ظہا رِ خیا ل کر تے ہو ئے ا نہیں خر ا جِ تحسین پیش کیالیکن سچ یہ ہے کہ خو ر شید نا ظر کی خد ما ت کسی بھی ا د بی شخصیت سے کئی لحا ظ سے اعلیٰ اور قا بلِ قد ر ہیں لیکن ا ن کی گو شہ نشینی اورخلا فِ پند ا ر طرزِ عمل سے مکمل پر ہیز کے سبب ان کی شہر ت ہنوزمحد و د ہے۔ نا مور محقق پر و فیسر ڈا کٹر شفیق ا حمد نے لکھا ہے کہ خو ر شید نا ظر بہا و ل پو ر کے سب سے بڑ ے شا عر ہیں(۱۹)اوربین الا قو ا می شہر ت کے حا مل نا قد اور محقق پر و فیسر ڈا کٹر خو ا جہ محمد ز کر یا کے بقو ل :

’’خو ر شید نا ظر ا گر لا ہو ر یا کر ا چی جیسے شہر کے متو طن ہو تے تو ا ن کی شہر ت ا د ب سے لگاؤ رکھنے وا لے ہر کہ و مہ تک پہنچ چکی ہو تی ۔ا دبی مر ا کز سے دو ر ا فتا د ہ بہا و ل پو ر میں سکو نت ر کھنے اور گو شہ نشینی ا ختیا ر کر نے کی و جہ سے ا ن کی نظم و نثر ا پنے ا ر د گر د کے علاقے سے نکل کر دور تک نہیں پہنچی لیکن تا بہ کے ؂

نگا ہیں کا ملو ں پر پڑ ہی جا تی ہیں ز ما نے میں

کہیں چھپتا ہے ا کبر پھو ل ،پتوں میں نہاں ہو کر

خورشید نا ظر روشِ عا م پر گا مز ن ہو نے سے ا حتر ا ز کر تے ہیں۔وہ شعرائے ما ضی و حا ل کی تقلید کر نے کی بجا ئے ا پنا را ستہ خو د بنا تے ہیں۔

راہِ خود را ا ز مژہ کا و ید ہ ا ی‘‘ (۲۰)

حو ا لہ جا ت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱۔ و للہ ا لحمد ، خو ر شید نا ظر، ا ردو مجلس، بہا و ل پو ر ر ۲۰۱۷ء

۲۔ ہر قد م رو شنی ،خو ر شید نا طر، میا ں محمد بخش پبلشر ز، محلہ ر حیم آ با د، خا ن پو ر ، ضلع رحیم یا ر خا ن ۲۰۰۳ء

۳۔ بیک ٹا ئٹل،تا ثر ا ت ا ز پر و فیسر ڈا کٹر نذ ر خلیق ،ہر قد م رو شنی،خو ر شید نا طر، میا ں محمد بخش پبلشر ز، محلہ ر حیم آ با د، خا ن پو ر ، ضلع رحیم یا ر خا ن ۲۰۰۳ء

۴۔ ’’ حر فِ ا و ل ‘‘ ا ز پر و فیسر عبد ا لجبا ر شا کر ، مشمو لہ بلغ ا لعلے بکما لہ۔ خو ر شید نا ظر، نشر یا ت ، لا ہو ر ۲۰۰۸ء،صفحہ ۶۲

۵۔ ’’جہا لت کے ز ما نے کے عجب حا لا ت ملتے ہیں ‘‘مشمو لہ بلغ ا لعلے بکما لہ، خو ر شید نا ظر، نشر یا ت ، لا ہو ر ، ۲۰۰۸ء،صفحہ۷۵

۶۔ ’’ دعا کے بعد نقشہ جنگ کا یکسر بد لتا ہے‘‘بلغ ا لعلے بکما لہ، خو ر شید نا ظر، نشر یا ت ، لا ہو ر ۲۰۰۸ء صفحہ ۲۵۹

۷۔ ’’ محمد ؐ ا پنے لشکر کو لیے مکہ میں آ تے ہیں‘‘ بلغ ا لعلے بکما لہ، خو ر شید نا ظر، نشر یا ت ، لا ہو ر ۲۰۰۸ء صفحہ۴۴۸

۸۔ شر ح ا سما ء ا لحسنیٰ،خو ر شید نا ظر ، ا ردو مجلس ، بہا و ل پو ر ۳ ۲۰۱ء

۹۔ ’’ خو ر شید نا ظر کی’’ شر ح ا سما ء ا لحسنیٰ‘‘ ا ز ڈا کٹر شا ہد حسن ر ضو ی ،سہ ما ہی ا لز بیر ، بہا و ل پو ر ،شما ر ہ نمبر۱،۲،۲۰۱۳ ء،صفحہ ۱۶۰

۱۰۔ ۳/آ لِ عمر ا ن :۱۱۹

۱۱۔ ۱۶/ا لنحل :۲۸

۱۲۔ ۲/ا لبقر ہ :۱۱۵

۱۳۔ ۵۰/ق :۴

۱۴۔ حسنت جمیع خصا لہ،خو ر شید نا ظر ،ا ردو مجلس ، بہا و ل پو ر ۲۰۱۶ء

۱۵۔ مضمو ن بعنو ا ن حسنت جمیع خصا لہ ا ز ر حیم طلب مشمو لہ رو ز نا مہ جنگ ملتا ن ۱۴ جو ن ۲۰۱۶ ء صفحہ ۱۳

۱۶۔ ’’و للہ ا لحمد کا ظہو ر،تا ر یخِ ا د ب کا ا نو کھا وا قعہ‘‘ ا ز پر و فیسر ڈا کٹر محمد طاہر ،و للہ ا لحمد، خو ر شید نا ظر، ا ردو مجلس، بہا و ل پو ر ر ۲۰۱۷ء صفحہ ۳۰۴

۱۷۔ بیک ٹا ئٹل ،تا ثر ا ت ا ز پر و فیسر سید سعید ا حمد، کلا مِ فر ید اور مغر ب کے تنقید ی رو یے، خو ر شید نا ظر ، اُردو ا کیڈ می ،بہا و ل پو ر ۱۹۹۶ء

۱۸۔ ’’ پہلا صفحہ ‘‘ ا ز پر و فیسر ڈا کٹرطا ہر تو نسو ی خو ا جہ فر ید کی کا فیو ں میں قو ا فی کا فنی جا ئز ہ،خو ر شید نا ظر، سر ا ئیکی ا د بی بو ر ڈ ، ملتا ن ۲۰۰۷ء صفحہ ۱۵

۱۹۔ ’’ایک اور سنگِ میل ‘‘ ا ز پر و فیسر ڈا کٹر شفیق ا حمد مشمو لہ و للہ ا لحمد، خو ر شید نا ظر، ا ردو مجلس، بہا و ل پو ر ۲۰۱۷ء،صفحہ۲۶

۲۰۔ ا یں سعا د ت ۔۔۔ا ز پر و فیسر ڈا کٹر خو ا جہ محمد ز کر یا مشمو لہ و للہ ا لحمد، خو ر شید نا ظر، ا ردو مجلس، بہا و ل پور ۲۰۱۷ء ،صفحہ ۱۴