خالد شفیق کی یاد میں ۔ پروفیسر محمد اقبال جاوید

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Naat Kainaat Naat Rang.jpg

مضمون نگار : پروفیسر محمد اقبال جاوید۔لاہور

خالد شفیق کی یاد میں(۱۹۳۲ء۔۲۰۱۵ء)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

عمر بھر کی بے قراری کو قرار آہی آگیا

ABSTRACT: The article hereunder is comprised of memoirs in respect of Khanlid Shafiq who was a poet and Editor of monthly literary journal SHAM-O-SAHAR, Lahore, along with delineating details of his services towards promoting Devotional literature. Some light has also been shed on the commendable work done by Late Khalid Shafiq to present 6(six) issues of SHAM-O-SAHAR on the subject of Naatia literature. Creative work (written word of Naat) of him in Urdu and Punjabi languages has also been evaluated in critical terms with praiseful manner. Quotable sentences from praiseful writings of some litterateurs have also been reproduced to show grandeur of literary work and poetry of Khalid Shafiq. Some Naatia couplets have also been presented in the end of the article.


زندگی کے خالق ہی نے موت کوتخلیق کیاہے،صرف یہ دیکھنے کے لیے کہ زندہ کس رُخ سے زندگی گزارتا ہے،بے مقصد یابامقصدزندگی ایک ایجابی حقیقت کانام ہے،اِسی طرح موت بھی صرف عناصر کا پریشان ہونا نہیں بلکہ ایک مثبت شَے ہے جوخدا کے قبضۂ قدرت میں ہے اور ان دونوں حقیقتوں پرعالمِ کون وفساد کی بنیادیں استوار ہیں،نظامِ حیات وممات کی غرض وغایت یہ ہے کہ زندگی ، موت پرغلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرے اورانسان اپنے حسنِ عمل سے خود کواللہ کانائب ثابت کرے ۔ بے مقصد زندگی ہرلمحہ موت سے لرزاں وترساں، بامقصد زندگی موت سے بے نیاز ،حصولِ مقصد کے لیے رواں دواں ۔موت کے سائے میں زندگی کے ولولے، منزل کے لیے پیہم تگ ودَو، قربِ محبوب کے لیے شدید بے قراری،حوصلے کی رفعتوں کے لیے سماوی بلندیاں بھی بے چین ومنتظر۔جب کہ حوصلے کی پستیاں شکوک وشبہات میں گرفتار زندہ،زندہ رہتے ہوئے بھی مُردوں سے بدتر اورباحوصلہ زندگی کے لیے شامِ زندگی،صبحِ دوامِ زندگی ع یہ بھی ممکن ہے کہ تُو موت سے بھی مَر نہ سکے


اللہ تعالیٰ کاشکر ہے کہ جناب خالدشفیق نے بامقصد اور باحوصلہ زندگی گزاری اُن کے سوانحی کوائف مختصراً درج ذیل ہیں:


خالد شفیق بٹ کے والدِ گرامی قدر کانام محمد شفیق بٹ ۔تاریخ پیدائش ۲۱ جولائی ۱۹۳۲ء مقام پیدائش ،بٹالہ ضلع گورداسپور ۔والدراولپنڈی ڈویژن میں ریلوے کے محکمہ میں ملازم تھے اس لیے خالد شفیق کی تعلیم ایک جگہ نہ ہوسکی ۔انھوں نے میٹرک گورنمنٹ ہائی اسکول اکوڑہ خٹک ضلع پشاور سے کیا۔ شروع میں افسانہ نگاری کاشوق تھا،طبع موزوں تھی،شعر وارد ہونے شروع ہوگئے۔پہلی غزل لاہور کے ہفت روزہ ’’اجالا‘‘ میں شائع ہوئی۔۱۹۷۰ء کے بعد غزل ،باوضو ہوکر نعت کے سانچے میں ڈھل گئی۔مختلف اداروں میں گھومنے کے بعد ،لاہور میونسپل کارپوریشن میں بہ طور کلرک بھرتی ہوئے اور میونسپل ریڈنگ روم موری دروازہ لاہور میں بہ طور انچارج کام کرتے رہے۔وہاں لاہور کے معروف ادباء وشعراء کاآناجانا رہتا تھا، یوں ان کی ادبی زندگی کاآغاز ہوا، بعد میں انھوں نے ’’مجلسِ اردو‘‘ کے نام سے ایک ادبی انجمن قائم کی ، وہ اس انجمن کے جنرل سیکرٹری تھے، اس انجمن کے تحت ماہانہ مشاعرے منعقد ہوتے رہے اورخالد شفیق، علالت اور پیرانہ سالی کے باوجود ان میں شامل ہوتے رہے۔


وہ میونسپل کارپوریشن کے شعبہ تعلقات عامہ میں مقالہ نگاربھی رہے۔ماہنامہ شام وسحر لاہور، کے مدیر بھی رہے ،بعد میں مجلّہ ’حمایت اسلام‘بھی اُن کی ادارت میں شائع ہوتا رہا ہے۔


انھوں نے عام شماروں کے علاوہ شام وسحر،کے چھ ضخیم نعت نمبراور ایک سیرت نمبر شائع کیا ۔ تب نعت کومحض دینی حیثیت حاصل تھی، ادبی نہیں۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج نعت کوایک پاکیزہ صنفِ ادب تسلیم کیا جاچکا ہے اورتنقیدی اعتبارسے تحقیقی کام بھی تیزی سے ہورہا ہے۔آج اہل قلم کارجحان اس صنف ِ سخن کی طرف یوں ہوچکا ہے کہ ہرقلم نعت کہنے کی آرزو کررہا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ خالد شفیق اِس رجحان کوپروان چڑھانے والی اولین شخصیات میں سے ہیں۔اُن کے مرتّبہ نعت نمبر معنوی اعتبارسے اس قدر وقیع ورفیع ہیں کہ اُنھیں نہ اہلِ نظر،نظرانداز کرسکتے ہیں نہ تماشائی۔


نبی کریم کی محبت کے لیے فکرونظر کی بہترین صلاحیتوں کووقف کردینا زندگی کاایک عظیم ترین اورحسین ترین مقصد ہے۔خالد شفیق خوش نصیب تھے کہ انھیں اُس ذات والا صفات سے محبت تھی، جس سے خود ، خدامحبت کرتاہے اوریہی محبت،دلیل ایمان ہے۔


اُس دل کی آرزوئے محبت کو کیا کہوں

جس دل کو آرزو ئے محبت ہے آپ سے

اور

محبت کے شرر سے دل سراپا نورہوتا ہے

ذراسے بیج سے پیدا ریاضِ طور ہوتاہے


خالدشفیق کی کاوشوں کی ایک جھلک دیکھیے:


  • شام وسحر ،نعت نمبر /جنوری فروری ۱۹۸۱ء ،ضخامت ۴۰۰ صفحات ،مضامین ۱۵،منظومات ۱۲۶
  • شام وسحر ،نعت نمبر /جنوری فروری۱۹۸۲ء،ضخامت ۴۱۵صفحات مضامین ۴۲،منظومات ۱۸۴
  • شام وسحر ،نعت نمبر /جنوری فروری۱۹۸۳ء،ضخامت ۳۶۰صفحات مضامین۱۲ ،منظومات۲۴۸
  • شام وسحر ،نعت نمبر /جنوری فروری۱۹۸۵ء،ضخامت ۳۹۰صفحات مضامین۱۵ ،منظومات۲۰۶
  • شام وسحر ،نعت نمبر /جنوری فروری۱۹۸۶ء،ضخامت۴۹۵ صفحات مضامین۱۵ ،منظومات۲۱۷
  • شام وسحر ،نعت نمبر /جنوری فروری۱۹۸۷ء،ضخامت۲۶۸ صفحات مضامین ۲۰،منظومات ۲۹۱
  • شام وسحر،سیرت نمبر/جنوری فروری ۱۹۸۴ء، ضخامت ۲۳۴ صفحات مضامین ۱۸،منظومات ۴۶
  • نعتیہ دیوان /عالم افروز،۱۹۹۶ء منظومات ۹۴،تعارف :علیم ناصری ،انورسدید، منظور وزیرآبادی
  • نعتیہ دیوان /نعت سوغات،۲۰۰۸ء، منظومات ۵۵،تعارف: محمداقبال جاوید ،محمد اکرم رضا

شام وسحر کے نعت نمبر وں کے بارے میں جناب پروفیسرشفقت رضوی کاایک تفصیلی مضمون ’’نعت رنگ ‘‘ میں شائع ہوچکا ہے۔


جہاں تک باحوصلہ زندگی کاتعلق ہے،میں انتہائی قریب سے جانتا ہوں کہ انھوں نے ایک ایسی زندگی گزاری جس کی تفصیل صبرواستقامت اورزہد واتقاء کی ایک قابلِ تحسین داستان ہے۔حق یہ ہے کہ مالکِ حقیقی اپنے بعض صالحین کوجس مقام ِ رفیع تک لے جانا چاہتے ہیں، وہ اپنی بشری لغزشوں کی وجہ سے ،اس مقام تک جانے کے قابل نہیں ہوتے،چوں کہ اللہ تعالیٰ عادل بھی ہیں اس لیے وہ اُن کو بعض دنیاوی تکالیف ومشکلات میں مبتلا کرکے ،اُن شدائد کواُن کی لغزشوں کاکفارہ بنادیتے ہیں اور پھر انہیں نصرتِ جاوداں سے یوں نواز دیتے ہیں کہ عمر بھر کی بے قراری کوقرار آجاتا ہے،ایسا قرار کہ اِس کی کیفیت کااحاطہ انسانی عقل کرہی نہیں سکتی ۔


خالدشفیق کوکئی بار دیارِ نیاز وناز میں حاضری کاشرف نصیب ہوا۔ ۱۹۹۲ء کے حج کے بعد ۱۹۹۴ء میں اُن کی اہلیہ وفات پاگئیں ،اولاد پہلے ہی داغِ مفارقت دے چکی تھی۔یوں وہ بالکل تنہا رہ گئے ۔ لاہور کی ایک عام سی آبادی میں ایک انتہائی مختصر سے مکان میںمقیم ہوگئے اوروصیت کردی کہ اُن کی وفات کے بعد مکان قریبی مسجد کودے دیا جائے۔ان کا وجود اسی علاقے کے لیے نعمت ِ غیر مترقبہ تھا محلّے کی کتنی ہی بے آسرا بچیاں تھیں،جن کی شادیوں میں اُن کی اعانت آسرا بنی رہی، کتنے ہی غریب تھے جن کو اُن کی موجودگی نے پسماندگی کااحساس نہیں ہونے دیا، شرفِ انسانی کی ایک پہچان یہ بھی ہے ۔


جہاں سے کیا لیا تم نے

جہاں کو کیا دیا تم نے


اورخاصانِ خدا کی ایک پرکھ یہ بھی ہے کہ:


خوش ہو کر خدا اُن کو گرفتار ِ بلا کر دے


وہ شدید تنہائی کے ساتھ ساتھ شدید بیماریوں کاشکار بھی رہے،بصارت جاتی رہی،رحم دل ہمسائے اُن کے خوردونوش ،رہنے سہنے اوردیگر ضروریات کاانصرام کرتے رہے،وہی اُنھیں شدید علالت کی حالت میں قریبی ہسپتال لے گئے۔چوں کہ وہ مالی اعتبارسے پسماندہ تھے، اس لیے انھوں نے نہ معلوم کیسے ہسپتال کے واجبات اداکیے،وہیں ،خالدشفیق ،وہاں چلے گئے ،جہاں دیریاسویر سب کوجانا ہے اورجہاں سے کوئی لوٹ کرنہیں آتا ۔


ہرایک نفس کو چکھنا ہے موت کی لذّت

بقا اگر ہے تو اک ذاتِ کبریا کے لیے


۱۵ مئی ۲۰۱۵ء کوخالدشفیق ،علامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں واقع کریم بلاک کے قبرستان میں مٹی کی چادر اوڑھ کرسکون وراحت کی نیند سوئے ۔موت کاوقت ،جگہ اور کیفیت تینوں اللہ تعالیٰ کے ہاں طے شدہ ہیں۔اورتقدیر میں ازل سے لکھی ہوئی ہیں مگرخود انسان کوان میں سے کسی ایک کابھی علم نہیں ہے۔امام غزالی ؒ کے مطابق اِسی بے خبری پردنیا کی ساری رونقیں قائم ہیں ورنہ انسان کومرنے سے پہلے باربار مرنے کے مراحل سے گزرنا پڑے۔


اب ان کی یاد ہی باقی رہ گئی ہے جومیری تنہائیوں کوتڑپا تی بھی ہے اور بہلاتی بھی کہ زندگی بھر ان کی محبت میرے لیے وقف رہی۔وہ علالت کی شدتوں میں بھی مجھے ہراتوار فون کرتے رہے اور دعاؤں سے نوازتے رہے ۔جناب صبیح رحمانی بھی اُن کی یادوں میں شامل تھے وہ اُنھیں ملنے کے لیے کراچی سے لاہور آئے توخالد شفیق نے اپناکتب خانہ اُن کے سپرد کردیا کہ وہ راہِ عدم کے لیے تیار بہت تھے ۔


میں اُن کی صحت کے لیے پیہم دعاگو تھااوروہ داعیِٔ اجل کولبیک کہہ چکے تھے،اُن کی وفات کی خبر،مجھے بہت بعد میں ملی، نتیجہ معلوم کہ صحت وسلامتی کے لیے کی جانے والی التجائیں یکایک مغفرت کی دعاؤں میں بدل گئیں۔آخر میںکچھ اپنے بارے میں نطقِ شاعر مستعار لیتے ہوئے :


مجھے سونپا گیا اِس دَور میںا حباب کا ماتم !

کسے غم خوار ٹھہراؤں ،کسے دردآشنالکھوں

صبامغموم، طائر مضطرب ، شاخیں خزاں دیدہ

سمجھ میں کچھ نہیں آتاکہ اِس حالت میں کیا لکھوں

خوداپنی زندگی بھی مختصر محسوس ہوتی ہے

کہاں تک جانے والے کی وفا کاتذکرہ لکھوں


اردو نعت گوئی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

پروفیسر رشید احمد صدیقی، پطرس بخاری کے بارے میں اپنے ایک تأثراتی مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’’وہ اپنی نجی تحریروں میں کبھی کبھی اپنے سے بھی زیادہ دل کش معلوم ہونے لگتے تھے، یہ فن اور شخصیت دونوں کا اعجاز ہے۔‘‘ فن اور شخصیت کی ہم آہنگی فطرت کی دین ہے ورنہ اکثر مشاہیر کی تحریریں پڑھ کر اُن سے ملنے، اُن کے حضور میں دوزانو بیٹھنے، اُن کا قلم چومنے اور اُن سے آٹوگراف لینے کو دل مچلتا ہے مگر جب کبھی اُن کا قرب نصیب ہوجائے یا باہم کوئی معاملہ پیش آجائے تو طبیعت کچھ یوں مکدر ہوجاتی ہے کہ اُن سے مصافحہ کرنے سے بھی اِبا کرتی ہے۔ کیوںکہ جہاں بھی لوگوں کا رنگ دیکھتے ہی دیکھتے بدل جاتا ہو، جہاں ایک چہرے پر کئی چہرے سجے ہوں، جہاں ملنے والے، قدم قدم نئے سانچے میں ڈھلتے جاتے ہوں اور جہاں بھی زبان، دل کی رفیق نہ ہو وہاں لفظی خوش نمائی تو ہوگی مگر عمل کی سیہ دلی اس خوش نمائی سے دل ربائی کا کیف چھین لے گی اور بے ساختہ زبان پکار اُٹھے گی کہ:


ہائے! ہم کس خیال میں گم تھے

دوستی کے لباس میں تم تھے !


دورِ حاضر میں بہتر یہی معلوم ہوتاہے کہ تحریروں ہی کے قریب رہا جائے اور صاحبِ قلم کے تصوراتی ہیولیٰ کو قائم رکھا جائے کہ تصور بہرنوع حسین ہوتا ہے اور تصور کا یہ حسن، خیال کو رعنائی دیتا رہتا ہے مگر کیا کیجیے کہ حکمِ الٰہیہ اکثریت پر لگتا ہے اور صورتِ حال کچھ یوں ہے:


معنی ہیں معدوم ، تحریریں بہت

ہے عمل مفقود ، تقریریں بہت

بغض دل میں ، منھ پہ تعریفیں بہت

کفر دل میں ، لب پہ تکبیریں بہت

ایک اہلِ درد ہی ملتا نہیں

ورنہ دردِ دل کی تدبیریں بہت


ایسے میں اگر کوئی شخصیت ایسی ہو جس کے دل کی دھڑکنیں نگاہوں کی تمنائیں اور روح کی لرزشیں، قلم قلم، حرف حرف اور لفظ لفظ، لو دے رہی ہوں، جسے پڑھ کر اُسے ملنے اور مل کر اُسے پڑھنے کو طبیعت بے چین رہتی ہو، جس کی سوچ کا رُخ سچ کی طرف راغب ہو اور جو صداقتوں کے لیے صادقصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نقوشِ پا کی چاندنی کے لیے ہر لمحہ بے قرار ہو، اللہ تعالیٰ نے جس کے فکر کے مجازی رنگ کو حقیقی آہنگ دے دیا ہو، جو ہر دنیاوی شہرت سے بے نیاز اور ہر شخصی تعریف سے بے پروا ہو جو اپنے گلے میں اپنا ہی ڈھول ڈال کر بجانے کے بجائے گوشۂ تنہائی میں اپنے گلے میں اپنی ہی بانہوں کو ڈالے ہوئے ہو اور صرف اس امر کا آرزومند ہو کہ اس کے قلم کا کوئی ایک حرف، اس کے دل کی کوئی ایک دھڑکن اور اس کی پلکوں پر لرزنے والا کوئی ایک آنسو، بارگاہِ ناز میں بار پا جائے اور جس کے لیے یہ باریابی کائنات کی ہر نعمت سے برتر ہو۔۔۔ جس شخصیت سے مل کر، کرم کے فیصلوں اور نصیب کی باتوں پر یقین سا آنے لگ جائے، جس کے لیے دیدہ و نادیدہ دوستوں کی سحر خیزیاں دعاگو رہتی ہوں اور مبدئِ فیض نے جس کی کلکِ ثنا کو نور کی موجوں میں رکھ دیا ہو، اس شخصیت کا ذکر فردوسِ گوش اور اُ س کی یاد نشاطِ روح کی حیثیت رکھتی ہے۔


یہ تمہید اس لیے بے ساختہ قلم کی نوک پر آگئی کہ جناب صبیح رحمانیؔ نے فون پر بتایا کہ وہ ’’نعت رنگ‘‘ میں ماہنامہ ’’شام و سحر‘‘ (مدیر جناب خالد شفیق) کے ضخیم نعت نمبروں کے تذکرے کے لیے ایک گوشہ وقت کر رہے ہیں اور ایک تعارفی، تحقیقی اور ادبی جائزہ مرتب بھی ہوچکا ہے، میں نے عرض کیا کہ یہ سعادت تو میں لینے کا آرزومند تھا کہ خالد شفیق نعت کے اوّلین خدمت گزاروں میں سے ہیں اور ’’شام و سحر‘‘ نے نعت نمبروں کی اشاعت کا آغاز تب کیا تھا جب وقت کی ترقی پسندیاں، نعت گوئی کو رجعت پسندی قرار دیتی تھیں اور بطورِ صنفِ سخن نعت کو کوئی مقام حاصل نہ تھا، آج بفضلہ ہر مدیر اپنے رسالے کو نعت کا رنگ دینے کے لیے بے قرار اور ہر قلم، نعت کہنے کے لیے بے چین ہے۔ بہرکیف صبیح رحمانی مستحقِ تبریک ہیں کہ انھیں خالد شفیق ایسے گوشہ نشین کی نعت شناسی کا اعتراف کرنے کی توفیق ملی ہے۔ گو یہ اعتراف انتہائی تعویق سے ہوا ہے مگر یہ اعتراف، خود معترف کی فکری صالحیت اور نگہی سلامتی کی دلیل ہے کہ سورج کو سورج کہنا، سورج پر کوئی احسان نہیں ہوا کرتا، بلکہ ع


مادحِ خورشید ، مداح خود است


سچی بات یہ ہے کہ کام کی نوعیت دیر یا سویر خود کو منوا لیتی ہے بشرطے کہ اس کے مزاج میں خلوص کا امتزاج ہو:


یہ صداقت کی روایت ہے ازل سے تا ابد

گلشنِ فن میں کبھی بادِ فنا آتی نہیں

پھول اگرمرجھابھی جائے،ٹوٹ بھی جائے اگر

نام کی اور کام کی خوشبو کبھی جاتی نہیں


میں یہ چند سطور لکھ کر، خود کو اِس عظیم ثناخوانِ رسول کے ثناخوانوں میں شامل کرنا چاہتا ہوں، اس یقین کے ساتھ کہ یہ شمولیت میرے لیے اُخروی سرخ روئی کا سبب بنے گی اور روزِحشر، احقر کی دنیاوی بے کیفیاں، خوش بوئوں کے دائروں کا عکس لے کر (ان شاء اللہ) رنگوں کے ساحل پر کھڑی ہوںگی، جس طرح اہلِ دل کے نزدیک حضور کے غلاموں کی غلامی وجہِ فخر و ناز رہی ہے، اسی طرح میرے لیے ثناخوانِ رسالت کی ثناخوانی وجہِ مباہات ہے۔بسا اوقات مجھے نعت گو احباب کی قسمت کی برنائیوں، فکر کی رعنائیوں اور قلم کی زیبائیوں پر رشک سا آتا ہے، میں نے ’’مخزنِ نعت‘‘ (میں نے یہ انتخاب نعت جناب شفیق بریلوی (ارمغانِ نعت)، جناب فرمان فتح پوری (اردو کی نعتیہ شاعری) اور جناب ممتاز حسن (خیرالبشرکے حضور میں) کے فوراً بعد ترتیب دیا تھا اور درج بالا تینوں تالیفات سے مختلف نعتیں یک جا کرنے کی سعی کی تھی! نیز قدیم و جدید شعرا کے گل ہائے نعت کو قرآنی، علمی اور تاریخی اشارات سے مربوط بھی کیا تھا اور انھی تعلیقات کی بنا پر رائٹرز گلڈ نے اسے ایک تخلیقی کاوش قرار دیتے ہوئے انعام کا مستحق قرار دیا تھا) کی ابتدا بھی اسی رشک سے کی تھی کہ: اگر میں شاعر ہوتا تو نعت کہتا مگر یہ وہ عطیۂ ربانی ہے جو عطا ہوتا ہے، لیا نہیں جاتا، پھر سوچا کہ اگر میں نعت کہہ نہیں سکتا تو کم از کم وہ قلم تو چوم سکتا ہوں جنھیں فطرت نے نعت گوئی کی توفیق بخشی ہے کہ شاید عقیدت کے یہی بوسے میرے لیے توشۂ آخرت ہوجائیں:


سجا کر لختِ دل سے کشتیٔ چشمِ تمنا کو

چلا ہوں بارگاہِ حسن میں لے کر یہ نذرانہ


جناب خالد شفیق کے نعتیہ رجحانات پر، دورِحاضر کے رجحان ساز، جہت نما اور منزلِ نشاں، نعت گو‘ یوں تبصرہ کرتے ہیں:


خالد شفیق نعت کی تخلیق میں گزشتہ پندرہ سال سے مستعد ہیں۔ ان کی نعت وابستگی کی عمدہ مثال ہے جو قال تک محدود نہیں رہی بلکہ ان کے حال میں ڈھل گئی ہے۔(حفیظ تائب)


محبوب سے جب محبت کی جاتی ہے تو اس کی ادائوں، اس کی زندگی کے اصولوں کو مدِنظر رکھا جاتا ہے، ہر لمحے اس کی رضا کے حصول کے لیے انسان کوشاں رہتا ہے۔ برادرِ محترم خالد شفیق نے جنابِ رسالت مآب کی سیرتِ مطہرہ کو شعر ہی میں بیان نہیں کیا بلکہ اپنی زندگی کو اس معیار پر ڈھالنے کی کوشش بھی کی ہے۔ اسی لیے ان کی شاعری میں اخلاصِ باطن، سچائی کا عنصر زیادہ نظر آتا ہے اور یہ سعادتِ عظمیٰ کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ (حافظ لدھیانوی)


راقم الحروف کی دانست میں رسالے کا ضخیم نعت نمبر نکالنے کی طرح جناب خالد شفیق نے ڈالی تھی۔۔۔ انھوںنے ’’شام و سحر‘‘ کے مسلسل چھہ نعت نمبر شائع کیے، جن پر مستزاد ایک سیرت نمبر بھی تھا۔ یہ سلسلۂ ذہب ۱۹۸۱ء سے ۱۹۸۷ء تک کم و بیش تین ہزار صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ نعت کے فروغ کے لیے جناب خالد شفیق کی یہ ایک عظیم خدمت تھی جس میں انھوںنے مسلسل سات سال تک اپنی تمام ذہنی صلاحیتیں صرف کیں، اس گراںبہا خدمت سے اُن کی نعت سے دل بستگی اور رسول اللہ کے ساتھ والہانہ خودسپردگی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، ان مبارک سات برسوں کے ’’شام و سحر‘‘ خالد شفیق کے سحر و شام کی عبادتوں کا نورانی دور ہے، جس کی جزا کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ (علیم ناصری)


۔۔۔ خالد شفیق کے ہاں آخرِ شب کے آنسوئوں کی نمی لفظوں میں ڈھل کر ان کے لیے توشۂ آخرت بن گئی ہے، ان کی نعت کا ہر لفظ انھی آنسوئوں سے وضو کرکے نوکِ قلم پر سجدۂ شکر بجا لاتا ہے۔(ریاض حسین چودھری)


احقر نے اپنی تالیف ’’بیسویں صدی کے رسول نمبر‘‘ میں ’’شام و سحر‘‘ کے نعت نمبروں کو یوں خراجِ محبت پیش کیا تھا:


’’شام و سحر‘‘ لاہور کے چھہ ضخیم نعت نمبروں کو جناب خالد شفیق نے انتہائی عقیدت اور محنت کے ساتھ مرتب کیا ہے۔ خالد شفیق کو اللہ تعالیٰ نے علمی رسوخ اور نعت گوئی کے ساتھ ساتھ فکر و نظر کی جو پاکیزگی عطا کر رکھی ہے وہ ہر صاحبِ قلم کا سرمایۂ حیات نہیں ہوا کرتی۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں توفیق عطا کی اور انھوںنے سیرتِ رسول اور نعتِ رسول کے موضوع پر ’’شام و سحر‘‘ سے وہ کام لیا ہے جس کی تابندگی، سنگینیٔ گردشِ ایام پرخندہ زن رہے گی۔‘‘


وطنِ عزیز میں ’’نعت نمبروں‘‘ کی روایت قائم کرنے اور اس روایت کو ایک جذبہ اور تحریک بنانے میں خالد شفیق کے مقام کو نہ اہلِ نظر، نظرانداز کرسکتے ہیں نہ تماشائی۔ ’’شام و سحر‘‘ نے جہاں ثقہ قلم کاروں کو فنِ نعت گوئی پر لکھنے پر آمادہ کیا، وہاں بہت سے نئے ادیبوں اور شاعروں کی یوں حوصلہ افزائی کی کہ آج نعت کے سلسلے میں وہ خود ایک معتبر حوالہ بن گئے ہیں۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ خالد شفیق میں کسی قسم کی کوئی ’’مدیرانہ رعونت‘‘ نہیں ہے۔ وہ تب بھی اور اب بھی عجز و انکسار ہی کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں۔ انھوںنے ’’شام و سحر‘‘ (اب حمایتِ اسلام) کو ذاتی تشہیر اور شخصی نمائش کا ذریعہ کبھی نہیں بنایا، جب کہ ’’شام و سحر‘‘ ایسے وقیع رسالے کا مدیر ہونا، اُس کے بہت سے سیرت نمبر اور نعت نمبر مرتب کر دینا اور اُن شماروں کا معیار کے اعتبار سے اعتباری، ضخامت کے لحاظ سے منفرد اور زمانی نقطئہ نظر سے اوّلیت کا حامل ہونا، کچھ کم اعزاز نہیں ہے۔ اس کے باوجود جلوت کی ہوس سے دُور رہنا اور خود کو اجاگر کرنے کی کوئی سی کوشش بھی نہ کرنا، اُن کی فطری سعادتوں اور نسبی نجابتوں کی دلیل ہے۔ اُن کے عاجزانہ اسلوبِ حیات ہی نے انھیں اہلِ دل کی نگاہوں میں بلند و بالا کر رکھا ہے۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ کبریائی اور بڑائی اللہ تعالیٰ ہی کی ذات کو زیب دیتی ہے۔ انسان کے لیے فخر کا ہر دعویٰ، غرور کا ہر زاویہ اور تکبر کا ہر رُخ دلیلِ رسوائی اور انکسار کا ہر انداز وجہِ رعنائی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ہر صلاحیت، عطا ہے اور اس کو منوانے کی ہر کوشش خطا ہے۔ انھی کے حمدیہ اشعار ہیں:


زمانے بھر کے سب علم و ہنر تیرے عطا کردہ

مرا حسنِ نظر، ذوقِ نظر، تیرے عطا کردہ

مرے جذبوںکوساری وسعتیں تونے عطاکی ہیں

مرے احساس کے شام و سحر، تیرے عطاکردہ

ہمیں دیتا ہے تو ہی حوصلہ منزل کو پانے کا

طلب منزل کی اور عزمِ سفر تیرے عطا کردہ

مرے دامن میںتھیںمحرومیاںیکسر،مگراب ہیں

متاعِ نعت کے لعل و گہر تیرے عطا کردہ

مدینے کی طرف اُڑتا چلا جاتا ہوں ہر لحظہ

مرا ذوقِ سفر، زادِ سفر، تیرے عطا کردہ

یہ لفظوں کے گہر،یہ آرزوئوںکے حسیں خاکے

دعائوں میں جو آتے ہیں نظر،تیرے عطاکردہ


وہ ذات بلند و برتر جس کا کام ہی عطا کرنا ہے، وہ کسی کو محروم نہیں رکھتی۔ ہر جمال اپنا اظہار اور ہر کمال اپنی نمود چاہتا ہے۔ نہ پھول کی خوش بو اس میں مقید رہ سکتی ہے، نہ آفتاب کے انوار اور نہ معطی کی عنایات۔ دنیا کے مخیر لوگوں سے بار بار مانگا جائے تو وہ اُکتا جاتے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ ایسے رحیم و کریم ہیں کہ ان سے نہ مانگا جائے تو وہ ناراض ہوجاتے ہیں۔ اُن کے خزانے بھی لامحدود ہیں اور ظرف بھی، بس مانگنے کا ڈھب آنا چاہیے:


منگتے کا ہاتھ اُٹھتے ہی داتا کی دین ہے

دُوری قبول و عرض میں بس ہاتھ بھر کی ہے


وہ اس حقیقت سے بخوبی آشنا ہیں کہ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔ وہ اس بارگاہ اور اس کے آداب خوب جانتے ہیں جہاں جبریل بھی ادب کے سانچے میں ڈھل کر اُترتے تھے اور جہاں جنید و بایزید بھی ’’نفس گم کردہ‘‘ حاضر ہوتے تھے۔ چناںچہ انھوںنے یہ تحریک بھی چلائی کہ نعت کہتے ہوئے ’’تو، تم اور تیرا‘‘ ایسے الفاظ استعمال نہ کیے جائیں اس پر اب تک بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے۔ بعض اس نقطئہ نظر کے ہم نوا ہیں اور بعض اس پابندی کے خلاف کہ جہاں بھی کسی ذات کی انفرادیت یا عظمت کی فردیت کا اظہار ہوگا اور یہ ثابت کرنا مقصود ہوگا کہ اس ذات کے مقابل کوئی اور نہ تھا، نہ ہے، نہ ہوگا، تب یہی ضمیریں حق ادا کریںگی اور انھی سے شعری حسن بھی نکھرے گا اور فکری گداز بھی۔


جناب خالد شفیق کا مجموعۂ نعت ’’عالم افروز‘‘ کے نام سے ۱۹۹۶ء میں مجلسِ اردو کے طباعتی اہتمام سے منظرعام پر آیا۔ اُن کی غزل بھی متین و حسین خیالات کا عکس تھی اور نعتوں میں بھی اُن کی گفتار کا دھیماپن اور ان کے مزاج کی لطافت نمایاں ہے۔ عجز و انکسار اُن کے ذوقِ نعت کا افتخار ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اُن کی گوشہ گیری اور کم آمیزی نے اُن میں تصوف کی خوبو پیدا کر دی ہے:


عجب انداز از خود رفتگی ہے

بھری محفل میں سب کے درمیاں گم


اور یہی صوفیانہ گھلاوٹ، اُن کی نعتوں میں بھی جلوہ گر ہے۔ جس طرح نعت کہہ کر ان کی قلبی بے قراریوں کو ایک آسودگی نصیب ہوتی ہے بعینہ قارئین کو بھی ایک نوع کی روحانی طمانیت کا احساس ہوتا ہے۔ ان کے ہاں نہ بھاری بھرکم الفاظ ہیں، نہ پرشکوہ تراکیب کی مشکل پسندیاں۔ تصنع اور بناوٹ کا کوئی سا شائبہ بھی نظر نہیں آتا، بلیغانہ سلاست کا ایک رواں دواں پیرایہ ہے۔ اور یوں لگتا ہے کہ دل کی چاہتیں اور ذہن کی سوچیں بے ساختہ شعر کے خوب صورت پیکر میں ڈھلی چلی جا رہی ہوں۔ اُن کی نعت میں آورد نہیں بلکہ آمد کی ایک بے پناہ کیفیت ہے۔ ذہنی کاوش اور فکری عمل کا کوئی خاص دخل نظر نہیں آتا۔ صرف جذبے کا حسن جابہ جا اپنی موجودگی کا احساس دلاتاہے اور ردیف و قوافی کی پابندیاں، جذبے کی طغیانیوں میں بہتی دکھائی دیتی ہیں۔


خالد شفیق کی شاعرانہ اُٹھان، بطورِ غزل گو شاعر کے تھی۔ غزل ایک جانب دار صنفِ سخن ہے، ایمائیت اس کی خصوصیت ہے۔ یہ حیات و کائنات کو نوکِ مژہ پر تولنے اور سمندر کو قطرے میں سمیٹنے کا عمل ہے۔ تغزل، شعر کے اُس تأثراتی انداز کو کہتے ہیں جو قاری کے ذہن کو قائل اور دل کو گھائل کرتا چلا جاتا ہے۔ اسی سے بات تیرنیم کش بنتی ہے۔ یہ دل اور دماغ دونوں کی ایک ہی ادا میں رضامند کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ نثر ہو یا نظم، غزل ہو یا قصیدہ، تغزل ہی اُسے ادا کا بانکپن اور اسلوب کی کاٹ عطا کرتا ہے۔


فنی اعتبار سے ایک اچھا غزل گو ہی ایک اچھا نعت گو ہوا کرتا ہے۔ کیوںکہ نعت، اُس وجود ذی وجودصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی توصیف کا نام ہے جو کائناتِ حسن بھی ہے اور حسنِ کائنات بھی، جس کے طفیل نبضِ ہستی تپش آمادہ اور خیمۂ افلاک ایستادہ ہے۔ جو بہر نوع اعتبارِ کائنات بھی ہے اور افتخارِ کائنات بھی جو رُخِ جمالِ الٰہی کا آئینہ ہے جس کی ہر سوچ الہام اور جس کا ہر بول وحی ہے، جس کی نگاہوں سے سورج ضیا پاتا اور جس کے نطق سے غنچے پھول بنتے ہیں۔ جو ذات کے اعتبار سے اکمل، بات کے لحاظ سے احسن اور کردار کے اعتبار سے اجمل ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اُس ذاتِ اقدس کی تعریف کے لیے وہ اسلوب اختیار کرنے کی امکانی سعی کی جائے جو بہرطور ارفع اور دل آویز ہو۔ چوںکہ فنی لحاظ سے شعر کی ہیئت کو رنگ و نورکی کہکشاں غزل ہی عطاکرتی ہے۔اسی لیے آج نعتیں غزل ہی کے فارم میں لکھی جارہی ہیں کہ:


غزل سوزِ دروں کی آنچ سے لفظوں میں ڈھلتی ہے

فقط رنگینیٔ حسنِ بیاں سے کچھ نہیں ہوتا


گویا جو سوزِ دل کو سازِ رگِ جاں نہیں بنا سکتا وہ مغنی ناتمام ہے اور اس کا نغمہ خام۔۔۔ اور خالد شفیق، غزل کی اس نشتریت سے بخوبی آشنا ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ نعت کا جو شعر بھی کہا جائے وہ معنوی اور صوری لحاظ سے، ممدوحِ عظیم و جلیل کی شان کے شایاں ہو، گو حق تو ادا نہیں ہوسکتا مگر آرزو کا خلوص ضروری ہے اور تائیدِ روح القدس کی طلب بھی لازم، خالد شفیق یوں دست بہ دعا ہیں:


ربّ علیم ، کر مجھے پابندِ اعتدال

مجھ کو شعورِ معنیٔ بین السطور دے

ہوں میرے لفظ دینِ محمد کے پاسباں

فن کو مرے حفاظتِ حق کا شعور دے


محترم انور سدید نے اُن کے مجموعۂ نعت کے دیباچے میں لکھا ہے کہ:


پچھلے دنوں خالد شفیق سے ملاقات ہوئی تو میں نے ازراہِ شوق ان سے دریافت کیا، ’’آپ نیا سفرِ حج کب اختیار کر رہے ہیں۔‘‘ایک توقف کے بعد بولے: ’’انور سدید! آپ کو یہ سوال کس طرح سوجھا؟‘‘ میں نے بلاتوقف جواب دیا، ’’آپ کی نعت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو یہ سعادت کئی مرتبہ نصیب ہوچکی ہے۔ تاہم تمنائے بے تاب اور آرزو باقی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر میں نے ان کے چند اشعار پڑھے، ان اشعار میں نہ صرف تشنگیٔ آرزو کے عناصر موجود ہیں بلکہ سیرابی کی کیفیت بھی محسوس ہوتی ہے۔ سیرابی ان کی نعت کے آخری شعر پر محسوس ہوتی ہے، تشنگی کا احساس ان کی نعت کے آغاز پر پیدا ہوجاتا ہے۔ پھر یوں لگتا ہے کہ پہاڑ سے چشمۂ عقیدت پھوٹا ہے اور ہزاروں میل کا سفر کرکے سمندر میں مل گیا ہے۔


یہ جناب خالد شفیق کی چاہت کا خلوص ہے کہ مولا کریم انھیں دیارِ ناز میں بار بار بلاتے اور نوازتے ہیں، ظاہر ہے کہ جب تک بلاوا نہ آئے لبوں سے ’’لبیک‘‘ کا لفظ نکل ہی نہیں سکتا۔۔۔ یہ سفر بھی عجب دھج کا ہوتا ہے کہ یہاں سیرابی اور تشنگی کی کیفیات ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ گویا حصولِ تشنہ لبی ہے، شدید تشنہ لبی۔ انسان بچھڑ کر بھی یادوں کی رہ گزر میں رہتا اور سفر کے بعد بھی حالتِ سفر میں زندگی گزارتا ہے۔


فطرتِ ہستی، شہیدِ آرزو ہے اور انسان قتیلِ آرزو، یوں محسوس ہوتا ہے کہ خالد شفیق کے شام و سحر آرزو اور انتظار ہی کے گرد گھومتے رہتے ہیں۔ اُن کی حیاتِ مستعار میں انتظارِ ساغر بھی ہے اور شربِ مدام کا کیف بھی، گدازِ دل بھی ہے اور حسنِ ادا بھی۔ وہ شعلہ بجاں بھی ہیں اور نغمہ بہ لب بھی۔ ان کی ملتمس نگاہیں، اُسی بارگاہِ بندہ نواز کا طواف کرتی رہتی ہیں جہاں تمنائوں کی بے قراریوں کو آسودگی نصیب ہوتی ہے، تمنا کی بے قراری ہی کا دوسرا نام انتظار ہے اور انتظار میں جوشِ آرزو تیزتر ہوتا رہتا ہے گویا تمنا کے محور اور انتظار کی قوس کے بغیر چاہت کا کوئی دائرہ بھی مکمل نہیں ہو پاتا، غالبؔ نے کہا تھا:


پھونکا ہے کس نے گوشِ محبت میں اے خدا!

افسونِ انتظار ، تمنا کہیں جسے


میں بنیادی طور پر تمنا اور انتظار ہی کو خالد شفیق کی نعت گوئی کا حسن سمجھتا ہوں اور اب تبرکاً ان کے چند وہ نعتیہ اشعار، جن میں انتظار کا کیف اور آرزو کا سوز، جذب و جنوں کی رفعتوں کو چھو رہا ہے گو وہ اشعار بھی کم نہیں جن میں جنوں، شعور سے راہنمائی لیتا، جوش، ہوش کا دامن تھام کر چلتا اور عقیدت، عقیدے کی آنکھوں سے دیکھتی ہے۔۔۔ جہاں ہر لحظہ نیا طور اور نئی برق تجلی ہو، وہاں شوق کے مرحلے کبھی طے نہیں ہوا کرتے۔۔۔


پھر ارضِ مقدس سے سندیس ہمیں آئے

پھر ہم کو بلائیں وہ، ہم بارِ دگر چاہیں

پھرروضے کے جلووںسے سیراب ہوںیہ آنکھیں

جانا ہو مدینے کو یہ شام و سحر چاہیں

اب زیست کا ہر لمحہ حرمین میں ہی گزرے

ہم لوگ دعائوں میں اب ایسا اثر چاہیں

حاصل ہو شرف پھر سے دیدارِ مدینہ کا

ہم دل کے تڑپنے کا بس اتنا ثمر چاہیں

٭٭

یوں مدینے کے چکر لگاتا رہوں

جس طرح چاند کے ساتھ ہالہ رہے

سبز گنبد تصور میں ہو ضوفشاں

اور پلکوں میں اشکوں کی مالا رہے

٭٭

ہماری راہِ منزل پر ستارے بن کے چمکیں گے

وہ دل میں نقش جو ہم نے ابھارے اُن کی چاہت کے

اُجالے زندگی میں ہر طرف پھیلیں گے اب خالد

لیے پھرتا ہوں پلکوں پر ستارے اُن کی چاہت کے

٭٭

سب مدینے کا رختِ سفر باندھ لو

گلشنِ جاں میں گر تازگی چاہیے

حاضری کا سندیسہ ملے گا، مگر

عرض اُن سے بصد عاجزی چاہیے

جا کے طیبہ میں رو رو پکاروں گا میں

روشنی، روشنی، روشنی چاہیے

٭٭

ہوک سی دل سے اُٹھی اور میں تڑپ کر رہ گیا

جب کوئی ساتھی چلا شہرِ مدینہ کی طرف

٭٭

اس شہرِ بے مثال کی یادیں ہیں باکمال

سوچوں میں جب بھی ڈوبا، مدینے پہنچ گیا

٭٭

جب اُن کے تصور کو بساتا ہوں نظر میں

ہو جاتا ہے کچھ اور اُجالا مرے گھر میں

٭٭

ہر اک لمحہ، ہر اک لحظہ ٹٹولا میں نے اپنا دل

مجھے تو دامنِ دل میں ملیں، یادیں مدینے کی

٭٭

اس راہ پہ اشکوں کے حسیں پھول بکھیروں

جس راہ سے رہوار مدینے کی طرف جائے

٭٭

اے کاش مقدر ہو سفر جانبِ طیبہ

تکتا ہوں میں اب شام و سحر جانبِ طیبہ

خوابوںمیںنکلتاہوں،میںجس وقت بھی گھرسے

ہو جاتا ہوں مائل بہ سفر جانبِ طیبہ

٭٭

وہ چاہیں تو بے زادِ سفر مجھ کو بلا لیں

تکتے رہیں سب زادِ سفر دیکھنے والے

اک بار کے دیدار سے کیا ہوگی تشفی

منظر تو ہیں وہ بارِ دگر دیکھنے والے

٭٭

سوتا ہوں رات ، دل میں تمنا لیے ہوئے

یارب! کبھی حضور کا مکھڑا دکھائی دے

٭٭

جس بات کے کہنے کا لفظوں کو نہ تھا یارا

وہ بات کہی ہم نے اشکوں کے وسیلے میں

کب میرے مقدر کی سیہ رات کٹے گی

کب ہوگا مرے گھر میں اُجالا شہ والا

٭٭

رنگ لائے گا مرا عشقِ مدینہ دیکھنا

خود پہنچ جائے گا ساحل پر سفینہ دیکھنا

کاش ہو میرے مقدر میں درِ خیرالبشر

کاش ہو میرے مقدر میں مدینہ دیکھنا

ان کی یادوں کی گھٹائوں کو اُمڈ آنے تو دو

پھر مری آنکھوں میں ساون کا مہینہ دیکھنا

آخر میں جناب خالد شفیق کا اپنے بارے میں ایک نثری اقتباس:


’’عشقِ مجازی نے میرا ہاتھ پکڑا او رمجھے اس راہ پر ڈال دیا جس پر گھٹا ٹوپ اندھیروں کا راج تھا، اندھیرے ہی اندھیرے۔۔۔ ظلمتیں ہی ظلمتیں۔۔۔ میں ایک مدت تک اس ایک راہ پر بھٹکتا رہا۔۔۔ آنکھوں کو کچھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔۔۔ میں ٹھوکریں کھاتا، آگے ہی آگے بڑھتا رہا، دُور تک روشنی تھی نہ کوئی منزل۔۔۔ ایسے میں اچانک کسی نے جیسے میرا ہاتھ تھام لیا ہو، میں ایک سحرزدہ انسان کی طرح اس کے ساتھ تھوڑی دُور چلا۔۔۔ پھر یکایک اندھیرے دھندلکوں میں تبدیل ہونے لگے اور میں ایک بند دروازے کے سامنے تھا۔۔۔ کسی نے میرے کان میں اس در پر دستک دینے کو کہا۔۔۔ میں جھجکا۔۔۔ اور پھر لرزتے ہاتھوں سے اس بند دروازے پر دستک دی۔۔۔ ایک بھینی بھینی خوش بو (جس نے میرا مشامِ جاں معطر کر دیا) کے ساتھ روشنی کا سیلاب سا اُمڈ آیا، تمام ماحول روشنی میں نہا گیا، میری روح اور میرے قلب و نظر میں روشنی ہی روشنی پھیل گئی، اب میرے سامنے ایک خوب صورت اور روح پرور فضا اور دل آویز روشنی میں نہائی ہوئی ایک کشادہ راہ تھی، جس پر چھتنار درخت مستی کے عالم میں جھکے ہوئے تھے اور دُور ایک سبز گنبد روح پرور اور عالم افروز کرنیں بکھیر رہا تھا۔‘‘(نعت رنگ،شمارہ۱۵،مئی۲۰۰۳ء)

پنجابی نعت نگاری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

لاہور کے ایک گمنام کوچے میں ،جناب خالد شفیق ،پیرانہ سالی، بیماری اور تنہائی کے عالم میں زیست کے دن پورے کرنے کی امکانی سعی کررہے ہیں۔ایک انتہائی مختصر مکان جسے وہ وصیتاً قریبی مسجد کودے چکے ہیں،ماضی کی کتنی ہی یادوں سے آباد ہے۔یہ یادیں نعمت بھی ہیں اورزحمت بھی کہ تنہائی کوبھلاتی کم اور تڑپاتی زیادہ ہیں!


کم نہیں رات کے صحرا سے مرے دل کی فضا

اور آکاش کے تاروں سے فزوں تریادیں


خالد شفیق لاہور کی بھرپور محفلوں اورلاہور کے زندہ دل ادیبوں سے شکوہ سنج ہیں کہ انھوں نے انھیں ان کی زندگی میں ہی بھلادیا ہے کبھی اسی خالد شفیق کے دم قدم سے لاہور کی ادبی محفلیں آباد تھیں۔اسی خالد شفیق نے اس زمانے میں رسالہ ’’شام وسحر‘‘ کے بہت سے ضخیم نعت نمبر اورسیرت نمبر ترتیب دئیے جب نعت گوئی کو رجعت پسندی سمجھا جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ جناب صبیح رحمانی کوجزائے خیر عطا کرے کہ انھوں نے گزشتہ دنوں نعت رنگ میں خالد شفیق کے لیے ایک گوشہ مختص کیا۔خالد شفیق کی تنہائیوں کوہم لوگوں سے کوئی گلہ نہیں کرنا چاہیے کہ ہم خودسپاسی کے آشوب میں مبتلا ہیں اور ع

آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوز


ہمیں’’مَیں‘‘ سے فرصت ہی نہیں مل رہی کہ کسی اورکی طرف دیکھیں ،نمائش ذات اورتحسین ذات کے آسیب نے ہمارے حواس مختل کررکھے ہیں۔ایسے میں جناب خالد شفیق صاحب!


اپنے گلے میں اپنی ہی بانہوں کو ڈالیے

جینے کا اب توایک یہی ڈھنگ رہ گیا


یہ چند سطور قلم سے بے ساختہ اس لیے نکل گئی ہیں کہ خالد شفیق کی پنجابی نعتوں کے کچھ غیر مرتب سے اوراق پیش نظر ہیں۔قبل ازیں اردو میں ان کانعتیہ دیوان ’’عالم افروز‘‘ کے نام سے طبع ہوچکاہے۔اہل دل اس کی فکری عظمتوں اوراہل قلم اس کی ادبی حیثیتوں کااعتراف کرچکے ہیں۔


خالد شفیق غزل گوبھی رہے اورانھیں کماحقہ علم ہے کہ تغزل ،تصور کاوہ بانکپن ہے جو شعورِ فن کی رفعتوں تک لے جاتا ہے۔نثر ہویا شعر،تغزل ہی اسے ادا کاوہ حسن عطا کرتاہے جوجنت نگاہ بھی ہوتا ہے اور نشاط روح بھی۔تغزل ،غزل کانہیں بلکہ اس کیفیت کانام ہے جوکسی تحریر میں فکری گداز بن کرلودیتی ، رمزوایماء سے بال وپرلیتی اورلطف ولطافت کے سانچے میں ڈھل کرذہن کوقائل اوردل کوگھائل کرتی چلی جاتی ہے۔ نعت گوئی قلبی محبتوں کاقلمی اظہار ہے مگر اس اظہار کورعنائی ،تغزل عطا کرتا ہے۔


بات کرنے کی ادا ہوتی ہے

نکہت گل بھی صدا ہوتی ہے


نعت رسول پاک ثناء و توصیف کی ایک ایسی پاکیزہ ،نازک اورارفع شعری شکل ہے جس میں لفظ لفظ اورقلم قلم احتیاط کی ضرورت ہے۔عام مدحت سے ،یہ کہیں عظیم ورفیع ہے۔’’مدح‘‘ ممدوح کے محاسن کی ایک ایسی سچی تصویر ہے جوخوبصورت الفاظ میں ہواور جس سے ممدوح کی شخصیت اوراس کے ذاتی خصائص کی یوں وضاحت ہوکہ ابہام والبتاس کی کوئی صورت باقی نہ رہے۔اس لیے لازم ہے کہ نعت گو شعروسخن کی نزاکتوں کاکماحقہ احساس بھی ہو اس کے دل میں ممدوح عظیم وجلیل کے لیے احترام،عقیدت اورخلوص کے جذبات بھی ہوں اس سے کہیں بڑھ کر اس کی عملی زندگی اورظاہری ہیئت امکانی حدتک نبی کریم کی ہدایات کے مطابق ہو۔اگریہ نہیں تواسے تلوار کی دھَار پرچلنے سے بچنا چاہیے اور بیدل کے الفاظ میں:


زفکرِ حمد ونعت اولیٰ ست برخاک ادب خفتن

سجود ے می تواں کردن، درودے می تواں گفتن


نعت گوئی مجاز کی بے نام وادیوں میں بہکنے اوربھٹکنے والے شاعروں کوسکون منزل عطا کرتی ہے اور ایک ایسا درد دیتی ہے،جس کے بعد کسی اور چوکھٹ کی حاجت باقی نہیں رہتی۔ایک ایسی دیوار مہیا کرتی ہے جس سے ہر دکھتی ہوئی پیٹھ ٹیک لگاسکتی ہے اورایک ایسی یاد بخشتی ہے جودل کوہر نقشِ ماسوا سے بے نیاز کر دیتی ہے۔


رنگِ جذب وشوق جوبن پرہو،تب ہوتی ہے نعت

دل کاویرانہ مہک اٹھتا ہے،جب ہوتی ہے نعت

طاقِ فکرِ نارسا میں،ا ن کی یادوں کے چراغ

گرنہ ہوں صبح ومسا روشن ،توکب ہوتی ہے نعت


گویا دنیائے نعت میں قلب ِسلیم کے ساتھ ساتھ قلم کے اس خرام ناز کی بھی ضرورت ہے جو لفظ لفظ کو پھول بناتا چلاجائے اوریہ بھی حق ہے کہ رسول پاک سے جتنا قلبی لگاؤ ہوگا،یہ لفظ پھول اتنی ہی زیادہ مہک بکھیرتے اور بانٹتے چلے جائیں گے۔


یہ کس نے دے کے دل اپنی محبت ڈال دی اس میں

ذراسادل دیا،دل میں متاع دوجہاں رکھی دی


اللہ تعالیٰ نے خالد شفیق کے دل کوحب رسول کی نعمت بھی عطا کی ہے اوران کے قلم کواداء اظہار کی ثروت بھی۔وہ اس عطا پر بجا طور پرناز کرسکتے ہیں کہ:


کلکِ ثناء کو نور کی موجوں میں رکھ دیا

یعنی گدازِ عشق کو ہونٹوں میں رکھ دیا

کتنا کرم کیاہے خدائے رحیم نے

ان کی ثناء کو ڈوبتی سانسوں میں رکھ دیا


ان کے زیرنظر مجموعہ نعت میں سکون وعافیت سے لبریز ایک طمانیت کا احساس ملتا ہے،یوں لگتا ہے کہ کوئی جلوہ ہے کہ فردوس نظر بن کرانہیں ہر نظارے سے بے نیاز کرگیا ہے، کوئی حقیقت ہے کہ بصارت کوبصیرت کے انوار بخش گئی ہے۔سماعت ہے کہ ایک نوائے شوق کے سوا ہرآواز پربند ہوچکی ہے۔زبان ہے کہ اسی کی توصیف میں’’رطب اللسان ‘‘ ہے جس کی تعریف میں وہ ذات بلند وبرتر بھی مصروف ہے جس کے لیے ہر تعریف وقف ہے۔اب اس لطف والتفات کی ایک جھلک دیکھیے:


میری لکھتاں اندرسجیا،سوہنا نام محمد دا

سوچاں داسرمایہ بنیا،سوہنا نام محمد دا ……

دکھ دی کالی رات وی مینو ں سکھ سنیہڑے دیوے

یاد نبی دے دل اندر رہندے نت اجالے

جے لفظ ساتھ نہ چھڈن سداثناء لکھاں

قلم پھڑاں تے میں بس نعت مصطفی لکھاں

حضور نوں میں نگہواں دی روشنی سمجھاں

حضور نوں میں محبت دی انتہا لکھاں

……

اوہدی گل کرئیے تے راحت ملدی اے

اوہدی راہ چلئے تے پینڈے مکدے نیں

……

دل دے اندر چارے پاسے اوہناں دیاں تصویراں نیں

جنہاں ہتھ جنت دی کنجی ،امت دیاں تقدیراں نیں

اوہناں کول شفاعت ،رحمت،شفقت بھرے خزانے نیں

ساڈے اندر،ساڈے باہر،ہر پاسے تقصیراں نیں

……

خواباں وچ جے آوے سوہنا، پیاس بجھے ایس دل دی

نعتاں دے میں گجرے ودھ کے سوہنے دے گل پاواں

……

دل دے اندر یادنبی دی پُھلاں وانگوں مہکے

دل دے باہر چمکاں مارے،پیارا شہر مدینہ

……

رب سوہنے دے در تے خالد سیس نواواں ہردم

میرے دل بوہے تے جس نے لکھیا اوہد اناں

ان اوراق میںبہت سی نعتیں ایسی ہیں جو گنبد خضرا کی رعنائیوں کے گرد گھومتی ہیں، یادرہے کہ شروع میں حجرہ ٔ انور پرگنبد انور نہیں تھا۔۱۲۷۹ء میں پہلی مرتبہ گنبد تعمیر کیاگیا۔جو چھت کے نیچے مربع شکل اور اوپر ہشت پہلو تھا۔۱۴۸۳ء میں حاکم مصر کے حکم سے امیر مدینہ نے گنبد کی تجدید کرائی،انہوں نے کالے پتھر سے تعمیر کراکے اس پرسفید رنگ کرایا۔۱۸۱۸ء میں سلطان محمود بن سلطان عبدالحمید ثانی نے نیا گنبد بنوایا اور اس پرسبز رنگ کرنے کاحکم دیا جس کی وجہ سے گنبد خضرا کے نام سے شہرت پذیر ہوا۔جواب تک درخشندہ وتابندہ اورمرجعِ خلائق بناہوا ہے ۔یہی سبز گنبد ان اوراق میں جابجا لودے رہا ہے۔چند شعر دیکھیے:


سارے جگ لئی خیراں منگے،سوہنا ساوا گنبد

جگ نوں نوری کرناں ونڈے ،سوہنا ساوا گنبد

گمراہی توں بچنا جے تے میرے ہیٹھاں آؤ

ایہہ گل سارے جگ نوں آکھے، سوہنا ساوا گنبد

……

دنیادے سبھ غم مک جاندے،ساوے گنبد تھلے

غم دے مارے جد لک جاندے ،ساوے گنبد تھلے ……

ساڈے پاک نبی دے ویہڑے خشبواں داپہرہ

ساوے گنبد آل دوالے خشبواں داپہرہ

……

اوس گنبددی شان نرالی عظمت اوہدی عالی

جس سوہنے دے اندر باہر چمکن چن ستارے

……

ہرویلے اوہ ساواگنبد نظراں اگے پھردا

جتھے اج وی خیراں ونڈے امت داسرناواں


الغرض خالد شفیق کی نعتیہ شاعری میں محبت کاخلوص جلوہ گرہے۔فن اور جذبے کاایک دل آویز امتزاج دکھائی دیتا ہے،ان کے ہاں نکتہ رسی بھی ہے اور معنی آفرینی بھی ۔لطف زباں بھی ہے اور ندرت اظہار بھی۔ عرفان وآگاہی کے ساتھ ساتھ اسلوب وادا کے سلیقے سے ہم آہنگ عقیدت ، عقیدے کی انگلی تھام کر رواں دواں ہے اوریہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کی نعتیہ شاعری کو رنگ، سوز دروں کی آنچ نے اورآہنگ غزل کی ایمائیت نے عطا کیاہے آخر میں ان کی ایک نعت کے چند شعر ایک خوبصورت تسلسل کے ساتھ:


جذبیاں وچ ڈبو کے خالد

پلکاں ہیٹھ لکو کے خالد

نعت دیاں خوشبواں ونڈاں

ہنجوہار پرو کے خالد

اوہدا ناں ہونٹاں تے لیاواں

مونہہ خشبونال دھوکے خالد

کملی والا آپ بلاسی

کیوں بھرناں ایں ہوکے خالد

جنت دے دل جاندے رستے

طیبہ وچوں ہو کے خالد


جیسا کہ ابتداء میں ذکر ہواہے کہ خالد شفیق،کبھی لاہور کی روح ورواں تھے،آج وہی خالد شفیق اپنے ہی مزار کاچراغ بنے ہوئے ہیں، میری دعا ہے کہ یہ چراغ روشن رہے۔ان کے لڑکھڑاتے ،روز وشب کوصحت سکون اورعافیت نصیب ہواور ان کی یہ نعتیں ان کی دنیاوی زندگی کورعنائی عطا کریں۔ (دیباچہ،’’نعت سوغات‘‘۲۰۰۸ء)


اہل نظر کی نظر میں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’شام وسحر‘‘ کے خصوصی شماروں میں اردو کے تابندہ نقوش ہی نہیں ہیں،پاکستان کی دیگر زندہ رہنے والی زبانوں نے نعت کے حوالے سے جو نقش چھوڑے ہیں اُن کے آثار بھی موجود ہیں اسے مبالغہ نہ سمجھا جائے کہ یہ شمارے نعت گوئی کی قاموس یاانسائیکلوپیڈیا ہیں۔(پروفیسر شفقت رضوی)

……

محمد طفیل کے مجلّہ ’’نقوش‘‘ کے رسول نمبروں کی اشاعتِ دل پذیر کے بعد خالد شفیق نے بھی ’شام وسحر‘ کے عظیم الشان نعت نمبر تواتر کے ساتھ شائع کرکے دوسرابڑا تجدیدی کارنامہ سرانجام دیا ہے۔(ریاض حسین چودھری)

……

خالد شفیق نے جذبے کوتحریک بنانے میں نہایت اہم کردار اداکیاہے۔(حفیظ تائب)

……

میں تو نعت کودربارِ اقدس کی خیرات تصور کرتا ہوں،جتنا وہ دامنِ طلب میں ڈال دیتے ہیں، اس کا ظہور نعتیہ اشعار میں ہوتا ہے۔بحمداللہ برادر مکرم خالد شفیق کواس خیرات سے وافر حصہ ملا ہے۔(حافظ لدھیانوی )

……

خالد شفیق کے نعتیہ کلام سے آن حضورسے محبت اوروالہیّت قلب وجگر کی جن گہرائیوں سے ابھرتی ہے،وہ خاصے کی چیز ہے۔(علیم ناصری)

……

نعت نگاری ہی نے خالد شفیق کو’شام وسحر‘کا نعت نمبر چھاپنے پر مائل کیا،یہ کام انھوں نے کردکھایا اورانھیں اتنا بھایا کہ انھوں نے کئی نعت نمبر چھاپ ڈالے اوراَب وہ فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے سب سے زیادہ تعداد میں ضخیم نعت نمبر پیش کیے ہیں اور تعداد ومقدار کے ساتھ پیشکش کامعیار بھی بلندکیاہے ۔(انورسدید)

…… خالد شفیق انتہائی خوش قسمت ہے کہ اس نے اپنا تن ،من،دھن ثنائے خدائے برتر اورثنائے محسنِ عالم کے لیے وقف کر رکھا ہے اس کے ’شام وسحر‘ کے مرتب کردہ ضخیم نعت نمبر اس بات کامنہ بولتا ثبوت ہیں۔(منظور وزیرآبادی) ……

خالد شفیق کاکلام کلاسیکی روایت سے ان کی وابستگی کاعکاس ہے۔بیان میں جذبے کاوالہانہ پن،موضوع سے ان کی شیفتگی کاآئینہ دار اوران کے نعتیہ کلام’’عالم افروز‘‘کاپیش لفظ بہ عنوان ’’مجاز سے حقیقت تک‘‘ ان کے دینی خلوص دامانِ مصطفی تھامنے کی تڑپ اور اتباعِسید الکونین میں ریاضت اوراس کا بے ریا اظہار ہے۔یہ تمام نشانیاں نعت نگارانِ عصرِ حاضر میں انھیں ایک ممتاز مقام دلانے کے لیے کافی ہیں۔(عزیزاحسن)

……

’شام وسحر‘ کے مرتب نے پاکستان کی کم وبیش تمام علاقائی زبانوں کے نعتیہ ادب کا جائزہ شاملِ مجلّہ کیا ہے،یہ زبانیں ہیں، بلوچی ،براہوی،کشمیری ،گوجری ،پشتو،پنجابی۔ نعت کاتجزیہ بذات ِ خود ایک مستقل باب کی حیثیت رکھتا ہے۔(میرزاادیب)

……

زیرنظر نعت نمبر میں سیرت طیبہ سے متعلق نظم ونثر میں بہت سے بیش بہا مضامین کے علاوہ کئی اساتذہ کے لکھے ہوئے سراپائے خیرالانام ،نعتیہ قصائد،اوربلوچی ،براہوی ،کشمیری اورگوجری نعت گوئی کے عمدہ نمونے درج ہیں ۔نیز کئی مشہور نعت گوشعراء کی نعتوں پرتبصرے بھی ہیں۔(ماہنامہ ضیائے حرم اپریل ۱۹۸۲ء)

……

ہمارے ادب کا یہ عہد ،نعت کاعہد ہے اورنعت ہی کے مقدس وسیلے سے ہم شخصی اوراجتماعی ہردوسطح پراپنی بازیافت کے اس عظیم عمل سے گزر رہے ہیں جو ہماری بقا کاواحد ضامن ہے۔ حق یہ ہے کہ ’شام وسحر ‘کا موجودہ نعت نمبر اردو ادب کا ایک جہت سازشمارہ ہے۔(عارف عبدالمتین)

……

چارسو صفحات پر پھیلے ہوئے اس خزینۂ جواہر میں سے کس کس لُو لُو ئِ لالا کا نمونہ پیش کیاجائے کہ ہر ہر صفحہ اور ہرہر صفحے کا ہرہر شعر دامنِ دل اپنی طرف کھینچ رہاہے اوراس محفلِ نیاز میں شریک ہرمقالہ نگار اورشاعر کے لیے دل سے دعانکلتی ہے۔(ماہنامہ محفل لاہور،اپریل ۱۹۸۱ء)

……

نعتوں کے انتخاب اور فنی محاسن پرتوقلم اٹھانا یہاں ممکن نہیں،تاہم کہاجاسکتا ہے کہ ’شام وسحر ‘اردو اورپنجابی کے رنگا رنگ پہلو اور طرزِ بیان کی حامل نعتوں کاایک خوب صورت اضافہ ہے،اس کامکمل استحسان تواہل نظر ہی کرسکیں گے اوراسی لیے انھیں اس نعت نمبر کامطالعہ کرنا چاہیے۔(سیارہ ڈائجسٹ لاہور ۔جون ۱۹۸۱ء)

……

ہماری شاعری میں نعت ایک ایسا وسیع اورسدابہار موضوع ہے کہ اس پربرسوں کام کرنے کے باوجود حق ادا نہیں ہوتا،تاہم ’شام وسحر‘ کانعت نمبراس لحاظ سے قابلِ تعریف ہے کہ اس میں ہر مکتب ِفکر کے نمائندہ شعراء کی اچھی نعتیں جمع کردی گئی ہیں۔نعتوں کے علاوہ ،نعت کے موضوع اور معروف نعت گوشعراء کے فن اور شخصیتوں پرکئی مقالات شامل ہیں۔(اردو ڈائجسٹ لاہور۔جولائی ۱۹۸۱ء)

……

حقیقت یہ ہے کہ جس حسنِ احتیاط ،خلوص ،عقیدت اورمحبت سے ،یہ نعت نمبر مرتب کیاگیا ہے۔وہ دادو تحسین سے قطعی بے نیاز ہے،یقین ہے کہ یہ ہدیۂ عقیدت ومحبت بارگاہِ رسالت مآب میں شرفِ قبولیت پائے گا۔(روزنامہ امروز لاہور۔۳۰ جنوری ۱۹۸۱ء)

……

’شام وسحر ‘کایہ خصوصی نمبر، نعت گوئی اورنعت کے مختلف پہلوؤں کااحاطہ کرتا ہے ۔اس میں ایک حصہ ’’ہدیۂ نعت‘‘ کے عنوان سے ہے، جس میں مختلف شعراء نے حضرت امام الانبیاء کے حضور نذرانۂ عقیدت پیش کیاہے۔لیکن اس کا اہم حصہ وہ ہے جومضامین پرمشتمل ہے اوراس میں مختلف نعت گو شاعروں کے ساتھ ساتھ نعت گوئی کی تاریخ بھی بیان کی گئی ہے۔اور لکھنے والوں نے بڑی تفصیل سے اپنے موضوع کوسمیٹا ہے۔(روزنامہ جنگ کراچی۔۲۴ اپریل ۱۹۸۱ء)


کچھ نعتیہ اشعار


ہم نے تو زندگی میں اجالوں کے واسطے

دل سے لگا لی چاندنی ، بطحا کے چاند کی

٭٭

وہ مرحلے کہ جان کے درپے تھے رات دن

وہ مرحلے بھی طے ہوئے صدقے درود کے

٭٭

جو عظمتِ رسول کی شاہد ہیں آج بھی

پنہاں وہ ساعتیں ہیں دیارِ رسول میں

٭٭

نازشِ علم و فن ، ذکر شاہِ امم

ردِ رنج و محسن ، ذکرِ شاہِ امم

٭٭

تھے جذبے دل میں جتنے بھی ہمارے ان کی چاہت کے

وہ ڈھلکے آنکھ سے بن کرستارے ان کی چاہت کے

٭٭

ساری کلیاں ثنا کی خدا کے لیے

اور درودوں کے گل مصطفی کے لیے

٭٭

ان کے اسوہ سے خیرات کرنوں کی لو

زندگی میں اگر روشنی چاہیے

٭٭


بخشش کاخزینہ ہے،فردوس کازینہ ہے

انمول خزینہ ہے ، تفسیر مدینے کی

٭٭


سمائے اس طرح حرمین کے جلوے تصور میں

مدینہ میرے دل میں ہے توکعبہ میری آنکھوں میں

٭٭

آسماں سے قافلہ درقافلہ دیکھا رواں

نور کا اک سلسلہ شہر مدینہ کی طرف

٭٭

اجالوں کی طرح اجلے گلی کوچے مدینے کے

فرازِ عرش کے تارے گلی کوچے مدینے کے

٭٭

راہِ طلب میں نکلا ، مدینے پہنچ گیا

بھٹکا ہوا جو سنبھلا ، مدینے پہنچ گیا

٭٭

ظلمت کاہراک نقش مٹانے کے لیے تھا

وہ چاند جوقدرت نے اچھا لاسرِ فاراں

٭٭

اس ماہِ جہاں تاب کی آمدسے ہوئے ختم

سنتے تھے جہاں میں شبِ دیجور کے چرچے

٭٭

انھیںماحول کی کوئی گھٹن اچھی نہ لگتی تھی

جہانِ حبس میں تازہ ہوائیں بانٹتے ،آقا

٭٭

جب اُن کے تصور کوبساتا ہوں نظرمیں

ہو جاتا ہے کچھ اوراجالا مرے گھر میں

٭٭

ہراک لمحہ ،ہراک لحظہ ٹٹولا میں نے اپنادل

مجھے تودامنِ دل میں ملیں،یادیں مدینے کی

٭٭

وہ خطّہ جنت ارضی ، وہ مرکز ہے بہاروں کا

مدینے کاتصور جب بھی آئے ،پھول کھلتے ہیں